ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
( ؎) الحجاب۔ ان تموت النفس مشرکۃ ومنہ یغفرللعبد فالم یقع الجاب (قاموس)
( ؎) قول الحسن وقل الزجاج فراحد قولیہ ان توبہ وعلی الاعراف ہی وعلے معرفۃ اھل الجنۃ واھل النار حال یعرفون کل واحد من اھل الجنۃ واھل النار بسیماھم (تفسیر کبیر)
قوم عاد اولیٰ
عاد اولاد سام بن نوح سے ہے۔ سام کا بیٹا آرام اور اس کا بیٹا عرض اور اس کا بیٹا عاد۔ معالم التنزیل میں لکھا ہے وھو عاد بن عوص بن اٰدم بن سام وھم عادا الاولیٰ ۔ قوم عاد کی آبادی عریبیا ڈرزتا یعنی عرب کے ریتلے میدان میں تھی اور الاحقاف کہلاتی تھی معالم التنزیل میں لکھا ہے۔ کانت منازل قوم عاد بالا حقاف وھی رمال میں عمان و حضر موت۔ عرب کے نقشہ میں جو ریگستان پچاس درجہ طول اور بیس درجہ عرض پر واقع ہے وہ جگہ الاحقاف ہے جہاں قوم عاد آباد تھی۔
یہ قوم عاد اولیٰ کہلاتی ہے جس کی نسبت قرآن مجید میں کہا گیا ہے ” واتہ اھلک عاد الاولی
(سورة نجم آیت ) ثمود جس کا ذکر آگے آئے گا وہ عاد ثانی کہلاتا تھا اور ایک تیسرا عاد ہے جو عبد شمس یعنی سبا اکبر کی اولاد میں ہے اور جس کا بیٹا شذاد ہے جو سنہ دنیوی میں پیدا ہوا تھا پہلی دونوں قومیں عاد کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے تھیں اور تیسری قوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہمارے مفسروں نے علاوہ ان لغوقصوں کے جو قوم عاد کی نسبت لکھے ہیں ایک اور غلطی یہ کی ہے کہ ان تینوں قوموں کے واقعات کو گڈمڈ کردیا ہے۔
قوم عاد اولیٰ کا واقعی زمانہ بتلانا نہایت مشکل ہے مگر انگریزی مورخوں نے جو توراۃ میں بیان کئے ہیں حساب کے زمانہ قائم کئے ہیں اسی حساب کی بنا پر ہم بیان کرتے ہیں کہ سامء دنیوی میں پیدا ہوا تھا اور ارفکسدجوارام کا بھائی ہےء دنیو کی میں یعنی سو برس بعد پس یہی زمانہ قریباً ارام کی پیدائش کا خیال ہوسکتا ہے اور عاد دو پشت بعد ارام سے ہے پس اگر ساٹھ برس دو پشت کے لیے ہم اضافہ کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ عاد دنیوی یعنی اٹھارھویں صدی دینوی میں ہوا تھا۔
ہود جن کا نام توراۃ میں عیبہ لکھا ہے وہ بھی اولاد سام بن نوح سے ہیں عیبر کی پیدائش توراۃ کے حساس سےء دنیوی کی ہے اور اس سے ثابت ہے کہ عاد اور ہود ایک ہی زمانہ میں تھے۔ اسی صدی میں نمرود نے بابل یا سریا میں بادشاہت قائم کی تھی اور حام پدر مریم نے مصر میں اور عاد بن عوص نے الاحقاف میں اور ریبہ یعنی ہود کے بیٹے یقطان نے یمن اور اس کے اطراف میں۔ حضر موت یقطان کا ایک بیٹا تھا جس کے نام سے یمن کے قریب کا دو ملک جو انڈین اوشن یا بحوعرب کے کنارہ پر ہے مشہور ہے۔
یہ قوم عاد اولیٰ کی نہایت تو سی اور قد ٓور تھی جیسے کہ اب بھی بعض ملکوں کے لوگ قوی اور قدآور ہوتے ہیں یہی بات خدا تعالیٰ نے اس قوم کی نسبت فرمائی ہے ” وزادکم فی الخلق بصطۃ “ (سورة اعراف) ان کے قد معمولی قدآور آدمیوں سے زیادہ نہ تھے ۔ تفسیروں میں جو یہ بات لکھی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا آدمی ان میں کا ساٹھ ذراع کا لمبا تھا اور اوسط آدمی سوذراع کا لمبا اور لمبے سے لمبا چار سو ذراع کا محض غلط ہے نہ قرآن مجید سے یہ بات ثابت ہے نہ اور کسی سند سے ۔ قدیم علما نے بھی اس سے انکار کیا ہے تفسیر کبیر میں لکھا ہے ” منھم من حمل ھذا اللفظ علی الزیادۃ فی القوۃ وذلک لا ولقوی متفہ و تہ بعضبا اعظم وبعضھا اضعف، یعنی
وقال قوم یحتمل الایکون المزومن قولہ وزاد کم فی الخلق بصطۃ کو نحم من قبیلۃ واھدۃ متشالکین فی القوۃ والشدۃ رالجلودۃ
بعض عالموں نے ” زادکم فی الخلق بعطۃ سے ان کا زیادہ قوی ہونا مراد لیا ہے نہ لمبا قد ہونا وکون بعضھم محبا للباقین ناصرالھم وزواں العلماوۃ والخصومۃ من بینھم فانہ تعالیٰ لی اخصھم بحذہ الا نواح من الفضائل والمناقب نقد قورلھم حصولھا افصلح ان یقال وزاد کم فی الخلق لبطۃ۔ (تفسیر کبیر)
بعض عالموں نے ان لفظوں سے یہ مراد لی ہے کہ اس قوم کے لوگ کثرت سے تھے اور آپس میں محبت رکھتے تھے اور ایک دوسرے کے مددگار ہوتے تھے اور اس ارتباط کے سبب سے گویا ایک جسم ہوگئے تھے نہ یہ کہ ان کے قد بہت لمبے تھے اور وہ تمام دنیا کے لوگوں سے زیادہ چوڑے چکلے تھے۔
سورة الفجر میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ” الم ترکیف فعل ربک بعادارم ذات العماہ التی لم یخلق مثلھانی البلاد۔
اس آیت میں بھی اسی قوم عاد اولیٰ کا تذکرہ ہے۔ ارم عاد کے دادا کا نام ہے جو کہ متعدد قومیں عاد کے نام سے مشہور تھیں جیسے کہ ہم نے اوپر بیان کیا اسی لیے خدا تعالیٰ نے ایک جگہ اس قوم کو عاد اولیٰ کرکے بیان کیا اور اس جگہ اس کے دادا کے نام سے پس ارم بیان ہے یا بدل ہے لفظ عاد سے یعنی ارم کی اولاد والا عاد ذات العماد سے بھی اسی طرح ان کا قوی اور قدآور ہونا بتایا ہے جیسے کہ لفظ نادکم فی الخلق بسطۃ سے بتایا ہے لفظ لم یخلق مثلھا فی البلاد سے صاف پایا جاتا ہے کہ عماد سے ان کے مخلوق قد مراد ہیں نہ کہ کسی مکان کے مصنوعی ستون۔ چنانچہ اکثر تفسیروں میں اور نیز تفسیر کبیر میں جیسا کہ حاشیہ پر منقول ہے اسی کے مطابق علماء مفسرین کے اقوال نقل کئے ہیں مگر اس کے سوا اور قول بھی ہیں جن میں غلطی سے ارم کو شہر کا نام سمجھا ہے اور غات العماد سے عمارات رفیعہ مراد لی ہے اور یہ محض غلط ہے اس لیے کہ قوم عاد اولیٰ ریگستان میں رہتی تھی اور ان کی کوئی عالیشان عمارتیں نہ تھیں بعض عالموں نے غلطی پر یہ غلطی کی ہے کہ ارم کو باغتصور کیا ہے اور لکھا ہے کہ عدن کے پاس شداد نے بنایا تھا مگر یہ محض ناواقفیت سے لکھا ہے شداد کے باپ کا نام بھی عاد ہے مگر وہ اس زمانہ میں نہ تھا اور نہ اس نے کوئی ایسا باغ جیسا کہ مفسربیان کرتے ہیں بنایا تھا۔
بعض مفسرین کی یہ رائے ہے کہ قوم ارم خیموں میں رہتی تھی اور خیموں میں ضرور ہے کہ عماد یعنی سناوے ہوں جن پر خیمے کھڑے ہوتے ہیں اور عمد کی جمع عماد آتی ہے مگر اس رائے سے یہ الفاظ قرآن مجید کے لم یخلق مثلھا فی البلاد مساعدت نہیں کرتے رورنڈفارسٹر نے یاک تاریخانہ جغرافیہ عرب کا لکھا ہے اور اس میں نویری کے تاریخانہ جغرافیہ سے بعض حالات نقل کئے ہیںء عیسوی اورء عیسوی کے درمیان یعنی مطابقء و ء ہجری کے معاویہ ابن ابی سفیان کے عہد حکومت میں عبدالرحمن میں کا حاکم تھا اس نے چند کتنے قدیم زمانہ کے یمن وحضرت موت کے انواح کے کھنڈرات میں پائے جاتے اور پڑھے گئے تھے اور لوگوں نے خیال کیا تھا کہ یہ کتبے قوم عاد کے زمانہ کے ہیں۔ ان کا عربی ترجمہ نویری کے جغرافیہ میں مندرج ہے ان میں سے چند کتبوں کے ترجموں کو اس کتاب سے ہم اس مقام پر لکھتے ہیں۔
ترجمہ کتبہ اول مندرجہ جغرافیہ نوریی
غنینا زمانہ نافی عراصتہ ذا العصر
بعیش غیر ضنک ولا نذر
یفیض علینا البحر بالمد زاجرا
فانھا رنا مبزعۃ یجر
خلال نخیل باسقات نواطوھا
نفق بالقسب المجزع والقمر
نصطاد ھید البر بالخیل والتنا
وطور انصید النون منالحج البحر
ونرفل فی الحتزالمرقم تارۃ
ونی القزاحیانا وفی الحلل الخضر
یلینا ملوک یبعدون عن الخنا
شدید علی اھل الخیانہ والفدر
یقیم لنا من دین ھود شرایعا
ونو من بالایات والبعث والنش
اذا ماعد وحل ارضا یریدنا
برزنا جمیعا بالمثقفۃ المر
نحامی علیٰ اولادنا ونائنا
علی الشھب و الکمیق المنیق والشقر
نقارح من یبغی علینا ویعتدی
باسیافنا حتی یولون بالدبر
دوم ترجمہ کتبہ مندرجہ جغرافیہ نویری
غنیانا بھذلا القصردھوافلم یکن
لنا ھمۃ الا البلدذوالقطف
تروح علینا کل یوم ھنیدۃ
من الا بل یعشق فی معاطمۃ الطوف
واضعاف تلک الا بل شاء کانھا
من الحسن رامراد البقر القطب
فعشنا ھذا القصر سبعۃ احقب
یا طیب عیش جل ھن ذکرہ المو جنت
فجات سنون مجدبات قواحل
اذا مامعنا علم اتی اخریقض
نظلنا کان لم تغن فی الخیر لمحۃ
فما تواو لما ینق خف ولا ظلف
کذلک من لم یشکو اللہ لم یزل
معالمہ من بعد ساحتہ تعفر
سوم ۔ کتبہ مندرجہ کتاب ابن ہشام
قال ابن ہشام حضر اسیل عن قبر بالیمرفیہ امراۃ فی عنقہا سبع مخالق من برونی فدیھا ورجلیھا من الا سورة والخلاخیل والد مالیج سبعۃ سبعۃ وفی کل اصبع خاتم فیہ جو ھرۃ مثمنۃ وعند راسھاتابوت مملو مالا ولوح فیہ مکتوب۔
سامک الدھم الد ح میں
انا تجۃ بنت ذی شنربعثت ما یرنا الی یوسف
فابطاعلینا فبعثت لاذتی
یمدمن ورق لتاتینی بمدمن طحین
فلم تجدہ فبعنت بمدمن ذھب
فلم تجدہ فبعثت عبدمن مجری
فلم تجدنامرت بہ فطحن
فلم انقنع بہ فاقتفلت
فمن سمع بی فلیر حمنی
وایۃ امراۃ البست حلیا من حلیی
فلاماتت الا سیتتی
ء میں سرکار انگریزی نے یمن کی پیمائش کے لیے کچھ افسر بھیجے انھوں نے حضرموت میں جو سمندر کے کنارہ پر ہے ایک پہاڑ پر ایک قلعہ کے کھنڈرات معلوم کئے اور ان کھنڈرات میں پتھر پر کھدے ہوئے کتبے دیکھے تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ قاجیسن غراب کے نام سے مشہور ہے (طول بلد درجہ قیقہ مور عرض بلد درجہ) وہاں ایک اونچی جگہ پر ایک کتبہ ملا پرانے حرفوں میں پتھر پر کھدا ہوا جو حرف کہ کوئی حرفوں سے بھی بہت پہلے کے ہیں۔ اور اس سے کسی قدر نیچے ایک اور کتبہ پایا اور ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک اور چھوٹا سا کتبہ ملا علاوہ اس کے حصن غراب سے پچاس میل کے فاصلہ پر اور کھنڈرات ملے نقب الحجر کے نام سے اور اس کے دروازہ پر ایک کتبہ ملا ان کتبوں کی بعینہ نقل کرلی گئی۔
ان کتبوں کی تحقیقات ہوتی رہی جب وہ پڑھے گئے تو معلوم ہوا کہ نویری کے جغرافیہ میں
جو کتبہ ہے وہ ترجمہ ہے حصن غراب کے بڑے کتبہ کا چنانچہ اصلی کتبہ کا ترجمہ انگریزی میں کیا گیا جس کا اردو ترجمہ اس مقام پر لکھتے ہیں۔
ترجمہ حصن غراب کے بڑے کتبہ کا ہم رہتے تھے رہتے ہوئے مدت سے عیش و عشرت میں زمانہ میں اس وسیع محل کے ہماری حالت بری تھی مصیبت اور بدبختی سے بہتا تھا ہمارے تنگ راستہ میں۔
سمندر زور سے لہراتا ہوا اور غصہ سے ٹکڑاتا ہوا ہمارے قلعہ سے۔ ہمارے چشمے بہتے تھے گنگناتی ہوئی آواز سے گرتے تھے۔
کھجور کے بلند درختوں کے اوپر جن کے رکھوالے کثرت سے بکھیرتے تھے خشک کھجور (یعنی ان کی گٹھلیاں) ہماری گھاٹی کی کھجور کی زمین میں وہ اپنے ہاتھ سے پھیلاتے تھے سوکھے چانول (یعنی بوتے تھے)
ہم شکار کرتے تھے پہاڑی بکروں کو اور نیز خرگوش کے بچوں کو پہاڑیوں رسیوں اور سرکنڈوں سے بھگا کر بلاتے تھے جھگڑتی ہوئی مچھلیوں کو۔
ہم چلتے تھے آہستہ مغرور چال سے پہنے ہوئے سوئی کے کام کئے ہوئے مختلف رنگ کے ریشمی کپڑے بالکل ریشم کے کا ہی سبز رنگ کی چار انہ دار پوشاک۔
ہم پر حکومت کرتے تھے بادشاہ جو بہت دور تھے ذلت سے اور سخت سزا دینے والے تھے بدکار اور منکر آدمیوں کے اور انھوں نے لکھی ہمارے واسطے مطابق اصول ہود کے۔
عمدہ فتویٰ ایک کتاب میں محفوظ رہنے کے لیے اور ہم یقین کرتے تھے معجزہ کے بھید میں مردوں کے بھید میں اور ناک کے سوراخ کے بھید میں۔
ایک حملہ کیا لٹیروں نے اور ہم کو ایذا پہنچاتے ہم اور ہمارے فیاض نوجوان جمع ہو کر سوار ہو کر چلے معہ سخت اور تیز نوکدار برچھیوں کے آگے کو جھپٹتے ہوئے۔
مغرور بہادر حمایتی ہمارے خاندانوں اور ہماری بیویوں کے لڑتے ہوئے دلیری سے گھوڑوں پر سوار جن کی لمبی گردنیں تھیں اور جو سمندر اور لوہیا رنگ اور سرنگ تھے۔
ہم اپنی تلواروں سے زخمی کرتے ہوئے اور چھیدتے ہوئے اپنے دشمنوں کو یہاں تک کہ دھاوا کرکے ہم نے فتح کیا اور کچل ڈالا ان ذلیل آدمیوں کو۔
ترجمہ اس کتبہ کا جو اس کتبہ کے نیچے کھدا ہوا ہے
علیحدہ حصوں میں تقسیم کیا گیا اور لکھا گیا سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کی طرف اور نقطہ لگے ہوئے یہ گیت فتح کا سرش اور زرغانے نے عوص نے چھید ڈالا (یعنی زخمی کردیا) اور تعقب کیا بنی عک کا اور ان کے چہروں کو سیاہی سے بھردیا۔
ترجمہ چھوٹے کتبہ کا جو پہاڑی کی چوٹی پر ہے
دشمن کی سی نفرت سے گناہ گار آدمیوں پر۔
ہم نے حملہ کیا آگے کو دوڑا کر اپنے گھوڑوں کو ان کو پاؤں کے نیچے روند ڈالا۔
ترجمہ کتبہ کا جو نقب الحجر کے دروازہ پر ہے
رہتے تھے اس محل میں اب (ابو) محارب اور بحثہ جب کہ یہ ابتداء میں تیار ہوا رہتے تھے اس میں خوشی سے فرزاندانہ اطاعت کے ساتھ نو اس اور دنیا حاکم علیٰ حربحل مالک محل کا جس نے فیاضی سے بنایا کارواں سرائے اور کنواں۔۔۔ اس نے نیز بنایا عبادت خانہ فوارہ اور تالاب اور بنایا زمانہ اپنے عہد میں۔
ریورنڈفاسٹر نے اس بڑے کتبہ کے نیچے جو کتبہ ہے اس میں عک کا نام دیکھ کر اس کتبہ کا زمانہ قرار دینے پر توجہ کی اور کہا کہ عک بیٹا تھا عدنان کا اور مسلمانوں کی حدیث کے مطابق جو ام مسلمہ سے منقول ہے عدنان حضرت اسماعیل کی چوتھی پشت میں تھا پس اس حساب سے کہ ایک پشت کا زمانہ تیس برس لگایا جاوے تو عک یعقوب کی زندگی کے اس زمانہ میں ہوگا جب کہ یوسف بھی موجود تھے اور قریب پچاس برس کے قبل اس وقت کے جب کہ مصر اور اس کے قرب و جوار کے ملکوں میں قحط ہوا تھا۔
ریورنڈفامسٹر لکھتے ہیں کہ یوسف کی تاریخ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اسماعیل کی اولاد مختلف فرقوں اور قوموں میں منقسم ہو کر پھیل گئی تھی۔ اور نویری کے جغرافیہ میں جو دوسرا کتبہ ہے اس سے قحط کا حال معلوم ہوتا ہے جس میں وہ قوم تباہ ہوگئی۔ ان وجوہ سے وہ ان کتبوں کو یعقوب (علیہ السلام) کے زمانہ کا قرار دیتے ہیں۔
جب کہ ریورنڈفاسٹر نے یہ تسلیم کرلیا کہ یہ کتبے قوم عاد کے ہیں جس کا قرآن مجید میں ذکر ہے اور ان کا زمانہ انھوں نے حضرت یعقوب کے زمانہ کے مطابق قرار دیا تو اب وہ قرآن مجید پر گویا دو اعتراض کرتے ہیں ایک یہ کہ قوم عاد کا نوح کی قوم کے بعد ہوناجیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ ” اذجعلکم خلفاء من بعد قوم نوح “ صحیح نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ کتبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنے بادشاہوں کے قوانین پر عمل کرتے تھے اور حضرت ہود کا ان لوگوں میں جانا جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ ” والی عاداخاھم ھودا “ ثابت نہیں ہوتا۔
مگر یہ دونوں اعتراض جیسے عجیب ہیں ویسے غلط بھی ہیں۔ اول یہ کہ قوم عاد اولیٰ جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے وہ یمن یا حضرت موت میں نہیں بستی تھی۔ یمن و حضر موت و حویلہ میں خود حضرت ہود کی اولاد بستی تھی اور حضرت موت اور حویلہ اور سباجن کے نام سے اب تک وہ مقامات مشہور ہیں حضرت ہود کے پوتے تھے۔ اور یقطان ابن عیبر یعنی ہود وہاں جاکر بسے تھے پس انھوں نے جو ان کتبوں کو عاد کی قوم کے کتبے قرار دینے ہیں یہ محض غلطی ہے۔
دوسرے یہ کہ جو زمانہ ان کتبوں کا ریورنڈ فاسٹر نے قرار دیا ہے وہ بھی غلط ہے۔ ام سلمہ کی روایت جس کی بنا پر ریورنڈفاسٹر نے عدنان کو حضرت اسماعیل کی چوتھی پشت میں قرار دیا ہے وہ روایت ہی غلط اور محض نا معتبر و بےسند ہے صحیح نسب نامہ کے بموجب جو برخیا کاتب وحی ارمیا نبی نے لکھا ہے (دیکھو خطبات احمدیہ) اس کے مطابق عدنان باپ معدومک کا اکتالیسویں پشت میں حضرت ابراہیم سے تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بموجب حساب مندرجہ توراۃ کے دنیوی میں پیدا ہوئے تھے پس جو حساب نسلوں کے پیدا ہونے کا ہے اس حساب سے عک قریبا دنیوی میں ہوگا یعنی چودہ سو برس بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اور کتبہ میں عک پر فتح یابی نہیں لکھی ہے بلکہ بنی عک پر لکھی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عک کی بھی کئی پشت کے بعد کا ہے۔
نویری کے دوسرے کتبہ کو جس میں قحط کا ذکر ہے مسٹر فاسٹر پہلے کنبہ کا تتمہ سمجھتے ہیں تاکہ پہلے کتبہ کو بھی یعقوب و یوسف کے زمانہ کا قرار دیں۔ مگر وہ اصلی کتبہ دستیاب نہیں ہوا اور نہ یہ معلوم ہے کہ وہ کہاں تھا نہ یہ معلوم ہے کہ کس خط میں تھا پس کوئی دلیل نہیں ہے کہ نویری کے پہلے دوسرے کتبہ کو ایک زمانہ کا قرار دیا جاوے۔
کچھ عجب نہیں کہ یہ کتبے قوم حمیر کے ہوں جس میں سلاطین نامدار اور باوقار گزرے ہیں یقطان ابن عیبر یا ابن ہود یمن میں آباد ہوا اس کا بیٹا سبا تھا اور سبا کا بیٹا حمیر اس کی اولاد میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں اور اسی کی اولاد کی سکونت حضر موت میں تھی جو اس کے ایک بیٹے کے نام سے مشوہر ہے پس یہ کتبے قوم حمیر کے ہوسکتے ہیں۔ قوم عاد کے ۔ اس کی تائید اس کتبہ سے ہوتی ہے جس کا ذکر ابن ہشام نے کیا ہے جو اطراف میں کی ایک قبر میں سے نکلا ہے کیونکہ اس کے شروع میں لکھا ہے ” باسمک تلھم الہ حمیر “ اور یہ ایک ایسا ثبوت ہے جس سے قوم حمیر کے کتبہ ہونے سے انکار ہی نہیں ہوسکتا۔
حصن غراب کے چھوٹے کتبہ میں بلاشبہ بنی ک پر فتح پانے کا ذکر ہے عک جو حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھا اور جن کا مسکن حجاز میں تھا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اولاد یعنی بنی عک نے کسی زمانہ میں یمن پر یا حضر موت پر حملہ کیا ہوگا زمانہ کے حساب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس زمانہ میں ہوا جس زمانہ میں کہ بخت نصر نے مصر اور عرب پر حملے کئے تھے اس حملہ میں بنی عک کو شکست ہوئی ہوگی جس کا ذکر اس کتبہ میں ہے۔
حصن غراب کے بڑے کتبہ سے جواب بھی موجود ہے نہایت استحکام سے قرآن مجید کے اس تاریخی واقعہ کا ثبوت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ عرب میں ہود پیغمبر کو لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا تھا اور بعث و نشر کے عقائد انھوں نے تعلیم کئے تھے اور جو کہ قوم حیرا اور تمام بادشانان یمن حضرت ہود کی اولاد میں تھے ان کے بادشاہوں نے ان تمام عقاید کو جو حضرت ہود نے تعلیم کئے تھے اپنی کتابوں میں لکھے تھے جس پر وہ یقین کرتے تھے مگر افسوس ہے کہ ان تمام عقائد کے ساتھ آخر کو ان لوگوں میں بت پرستی بھی پھیل گئی تھی جس کو محمد رسول اللہ نبی آخر الزمان نے تمام جزیرہ عرب
سے بلکہ دنیا کے بہت بڑے حصہ سے معدوم کیا اور خدا کی وحدانیت کے اصول کو ایسی وضاحت اور عمدگی سے بتادیا جس سے امید ہے کہ جن کے پیروں میں بت پرستی قدیم ہونی ممتنعات عقلی سے ہے اور یہی ایک امر ہے جس کے سبب ابراہیم خلیل اللہ کے پوتے اور عبداللہ کے بیٹے نے خاتم الانبیا ہونے کا تاج پہنا اور اس کے دین نے ” الیوم اکملت لکم دینکم و تممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا “ کا خطاب حاصل کیا و صلی اللہ تعالیٰ علی جدی محمد رسول اللہ وعلیٰ الہ وانا منھم اجمعین۔
اب ہم کو اس عذاب کا بیان کرنا باقی ہے جو قوم عاد پر نازل ہوا تھا اور جس کا ذکر ان آیتوں میں آیا ہے جو مندرج ہیں (قارسلنا علیھم ریحافرصرانی ایام محسنات لنذیقھم عذاب الخزی فے الحیوۃ الدنیا والعذاب الاخرۃ اخزی وھم لاینصرون۔ (سورة فصلت ) کذبت عاد فکیف کان عذابی ونذر اناارسلنا علیھم ریحاصر صرافی یوم نحس مستمر۔ تنزع الناس کا نحا اعجاز نخل منفس (سورة انعم - - ) واماعا دفا ھنکوایریح سرصوعاتیہ سخرھا علیھم سبع لیال وثمانیۃ ایام حسن مافتری القوم فیھا صرعی کانھم اعجاز نخل خایۃ (سورة الحاقہ۔ ) فان اعرضوا فقل اذرتکم صاعقۃ مثل صاعقۃ عاد وثمود (فصلت ) واذکر اخاعاد اذا نذر قومہ مالاحقاف وقد خلت النذر من بین یدیہ ومن عطفہ الا تعبدنا الا اللہ الی اخاف علیم عذاب یوم عظیم۔ قالوا اجئتنا لنا فکنا عن الفن فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصادقین۔ قال انما العنم عنداللہ ابلغکم ما ارسلت بہ ولکنی اراکم ) وہ عذاب آندھی تھی جو اس ریگستان کے رہنے والوں پر نازل ہوئی تھی آٹھ دن اور سات رات برابر آندھی چلتی رہی اور بخوبی یہ بات خیال میں آسکتی ہے کہ جب ایسی آندھی ریگستان کے ملک میں چلی جو گرم ملک تھا اور جس میں نہایت سخت لوکی بھی کیفیت ہوگی تو وہاں کے رہنے والوں کا کیا حال ہوا ہوگا بیشک ان کی لاشیں ایسی ہی پڑ ی ہونگی کہ گویا درخت جڑ سے اکھڑ کر گرپڑے ہیں جس کی تشبیہ خدا نے دی ہے ” کا نھم اعجاز نخل منفعر۔ کانھم اعجاز نخل خاویہ “ لو کی گرمی کے مارے ان کے بدن بھگڑی ہو کر بکس گئے ہوں گے جیسے لو زدہ انسان کا بدن ہوجاتا ہے جس کی تشبیہ خدا نے اس طرح پر دی ہے کہ ” لما نذر من شیء اتت علیہ الا جعلتہ کا نرمیم۔
قوماتجھلون۔ فلما راوہ عارضا مستقبل اودیتھم قالوا ھذا عارض مسطر فابل موما استعجلتم بہ ریح فیھا عذاب الیم۔ تلھر کل شی بامر ربھا فاصلحوا الا یزد الا مساکنھم کذلک نجزی الجرمین (سورة احاف الغایت ) وفی عادا ذاسلنا علیھم اریخ لعقیم مانذر من شی اتت علیہ الا جعلتہ کانومیم۔ (سورة امریات - ) وانہ اھلک عادا الاولیٰ (سورة النجم) ارفک بن سام کی اولاد میں حضرت ہود تھے اور ارام بن سام کی اولاد میں عاد اور قوم عاد تھی اسی وجہ سے خدا نے حضرت ہود کو قوم عاد کا بھائی کہا حضرت ہود احقاف میں گئے جہاں قوم عاد بستی تھی اور بت پرستی کرتی تھی تین بت تھے جن کو وہ پوجتے تھے حضرت ہود نے ان کو بت پرستی سے منع کیا اور کہا کہ سوائے خدا کے اور کسی کی عبادت مت کرو مجھ کو خوف ہے تم پر کسی دن سخت عذاب آئے گا۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا تم اس لیے آئے ہو کہ ہمارے خداؤں سے ہم کو چھڑادو اور جس عذاب سے تم ڈراتے ہو اس کو لاؤ اگر تم سچے ہو حضرت ہودنے کہا اس کا علم تو خدا کو ہے میں تو خدا کا پیغام تم تک پہنچا دیتا ہو۔ ایک دن انھوں نے دیکھا کہ ان کے ریگستان کی طرف کچھ گھٹا سی چلی آتی ہے انھوں نے خیال کیا کہ بادل ہے جو خوب برسے گا مگر وہ نہایت سخت آندھی تھی جس نے سب چیز کو اکھیڑ کر پھینک دیا۔
یہ تو قصہ قوم عاد کے عذاب کا ہے مگر جو بحث کہ اس واقع پر اور مثل اس کی دیگر واقعات ارضی و سماوی پر ہوسکتی ہے جن کو قرآن مجید میں کسی قوم کی معصیت کے سبب سے اس واقعہ کا بطور عذاب کے اس قوم پر نازل ہونا بیان ہوا ہے غور طلب ہے آندھی اور طوفان۔ پہاڑوں کی آتش فشانی ان سے ملکوں کا اور قوموں کا برباد ہونا زمین کا دھنس جانا قحط کا پڑنا کسی قسم کے حشرات کا زمین میں پانی میں ہوا میں پیدا ہوجانا کسی قسم کے وباؤں کا آنا اور قوموں کا ہلاک ہونا سب امور طبعی ہیں جو ان کے اسباب جمع ہوجانے پر موافق قانون قدرت کے واقع ہوتے رہتے ہیں انسانوں کے گناہ گار ہونے یا نہ ہونے سے فی الواقع اس کا کچھ تعلق نہیں ہے اگرچہ توراۃ میں اور دیگر صحف انبیاء میں اس قسم کے ارضی و سماوی واقعات کا سبب انسانوں کے گناہ قرار دیئے ہیں جو مثل ایک پوشیدہ بھید کے سمجھ سے خارج ہے اس سے ہم کو اس مقام پر بحث نہیں ہے مگر قرآن مجید میں بھی ایسے واقعات کو انسانوں کے گناہوں سے منسوب کرنا بلاشبہ تعجب ہے خالی نہیں ہے۔
اس قسم کے شبہے بلاشبہ انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ شبہات بیشک اصلی ہوتے ہیں کیونکہ حوادث ارضی وسماوی حسب قانون قدرت واقع ہوتے ہیں ان کو انسانوں کے گناہوں سے کچھ تعلق نہیں ہوتا اور نہ انسانوں کے گناہ ان حوادث کے وقوع کا باعث ہوتے ہیں مگر ان شبہات کے پیدا ہونے کا منشاء یہ ہے کہ لوگ حقیقت نبوت اور اس کی غایت کے سمجھنے میں پہلے غلطی کرتے ہیں اور پھر اس غلطی کی بنا پر اس شبہ کو قائم کرتے ہیں۔ نبوت ہمیشہ فطرت کے تابع ہوتی ہے اس کا مقصد حقائق اشیاء کو علے ماہی علیہ بیان کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کی غایت تہذیب نفس ہوتی ہے پس جو امور کہ کسی قوم میں یا انسان کے خیال میں ایسے پائے جاتے ہیں جو موید تہذیب نفس کے ہیں گو کہ وہ مطابق حقائق اشیاء علیٰ ماہی علیہ کے نہ ہوں تو انبیاء ان سے کچھ تعرض نہیں کرتے بلکہ وہ اس کو بلالحاظ اس بات کے کہ وہ مطابق حقیقت اشیاء اعلیٰ ماہی علیہ کے ہے یا نہیں کرتے بلکہ وہ اس کو بلا لحاظ اس بات کے کہ وہ مطابق حقیقت اشیاء علیٰ ماہی علیہ کے ہے یا نہیں بطور ایک امر مسلمہ مخاطب کے تسلیم کرکے لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک شخص بحث کرنے والا اپنے مخالف کے امر مسلمہ کو باوجودیکہ وہ اس کو صحیح نہ جانتا ہو تسلیم کرکے مخالف ہی کے امر مسلمہ سے مخالف کو ساکت کرنا چاہے پس ایسے مواقع پر یہ سمجھنا کہ جو کچھ انبیاء نے تسلیم کیا یا اس کو اپنے مقصد کے لیے کام میں لانے اسی کے مطابق حقائق اشیا بھی ہیں یہ پہلی غلطی ہے اور یہی غلطی باعث اس قسم کے شبہات کے پیدا ہونے کی ہوتی ہے۔ مثلا لوگ یقین کرتے تھے کہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان و تمام کائنات پیدا کی ہے۔ اب ایک پیغمبر اس قوم کو نصیحت کرتا ہے کہ جس نے چھ دن میں زمین و آسمان پیداکئے اسی کی عبادت کرو پس اس بیان سے یہ نتیجہ نکلانا کہ اس پیغمبر کا بیان نسبت چھ دن میں آسمان و زمین کی پیدائش کے بطور بیان حقیقت اشیا ماہی علیہ کے ہے سخت غلطی ہے کیونکہ اس پیغمبر نے اس قوم کے امر مسلمہ ہی کو تسلیم کرکے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے کے استحقاق عبادت کو ثابت کیا ہے۔
انسان کی ابتدائی حالت کی فلاسفی پر غور کرنے سے وحشی قوموں کی حالت یا وحی زمانہ سے شروع ہوتے ہی ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح انسان کے دل میں اپنے سے زیادہ قوی و زبردست اشیاء کو اپنے گرد دیکھ کر کسی وجود قوی کا جس کا انھوں نے خدا تسلیم کیا خیال آیا ہے اسی کے ساتھ ساتھ اس کے خوش رکھنے کے لیے اسی کی عبادت کا بھی خیال ہوا ہے اور اسی کے ساتھ یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ دنیا میں جو مصیبتیں آتی ہیں وہ اس کی خفگی کے اور انسانوں کے افعال سے ناراض ہوجانے کے سبب آتی ہیں پس یہ خیال کہ تمام آفات ارضی و سماوی انسانوں کے گناہوں کے سبب سے ہوتی ہیں ایک ایسا خیال تھا جو تمام انسانوں کے دلوں میں بیٹھا ہوا تھا اور اس زمانہ میں بھی جاہل قوموں کے دلوں میں ویسی ہی مضبوطی سے جماہوا ہے۔ یہ خیال خواہ وہ حقیقت اشیاء علیٰ ماہی علیہ کے مطابق ہو یا نہ ہو ایک ایسا خیال ہے جو تہذیب نفس انسانی کا نہایت موید ہے اور بموجب اس اصول فطرت کے جس کے تابع انبیاء (علیہم السلام) ہوتے ہیں ان کو ضرور تھا کہ اس امر مسلمہ کو تسلیم کرکے لوگوں کو تہذیب نفس کی ہدایت کریں۔ پس قرآن مجید کے اس قسم کے بیانات کو جن میں حوادث ارضی وسماوی کو انسان کے گناہوں سے منسوب کیا ہے یہ سمجھنا کہ وہ ایک حقیقت اشیاء علیٰ مابھی علیہ کا بیان ہے ان سمجھنے والوں کی غلطی ہے نہ قرآن مجید کی۔
یہ اصلو جو میں نے بیان کیا ایک ایسا اصول ہے کہ اگر وہ ذہن میں رکھا جاوے تو بہت سے مقامات قرآن مجید کی اصلی حقیقت منکشف ہوتی ہے مگر یہ اصول ایسا نہیں ہے جس کو میں نے ایجاد کیا ہو اور نبوت کو ماتحت فطرت قرار دیا ہو بلکہ اور محققین علما کی بھی یہی رائے ہے جس کا بیان بہت مختصر طور پر ” ستۃ ایام “ کے بیان میں گزرا ہے مگر شاہ ولی اللہ صاحب نے تفہیمات الٰہیہ میں اس اصول کو زیادہ تر وضاحت سے بیان کیا ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے جو کچھ اس کی نسبت لکھا ہے اس کا مطلب بالکل اسی کے مطابق ہے جو میں نے بیان کیا گو کہ دونوں کے طرز ادا اور طریق تقریر اپنی اپنی طرز پر جداگانہ مذاق سے ہو۔
اعلم ان النبوۃ من تحت الفطرۃ کما الفطرۃ کما ان الانسان قدیدخل ذ صنیہم قلبہ وجذر نفسہ علی مرو اور کات علیہ ما تبتلی ما یقاض علیہ من نریاضری الامور مسبحۃ بما اختز تاوہ واغیرھا کذلک
شاہ ولی اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ” یہ بات جان لنی چاہیے کہ نبوت فطرت کے ماتحت ہے جیسا کہ انسان کے کبھی دل میں بہت سے علوم اور باتیں جم کر بیٹھ جاتی ہیں اور انہی پر مبنی ہوتی ہیں وہ چیزیں جو اس پر اس کے رویا میں فائض کل قوم واتلیم لھم فطرۃ فطرو اعلیھا امورھم کلیما کا ستقباح الذبح والقول بالقدم فطرۃ فطر الھنود علیھا وجواز الذبح والقول بحدوث العالم فطرۃ فطر علیھا بنو سام من العرب والفارس نانما یجی والنبی یتامل فیما عندھم عن الا عتقاد العمل فما کان موانقا لتھذیب النفس یثبتہ لھم ویرشدھم الیہ وماکان یخالف تھذیب النفس فاند ینھا ھم عنہ وقد یجعل بحض الا ختلاف من قبل باختلاف نزول الجود کما ذکر تانی توجہ اجرس الی القوی القلکیۃ و توجہ الحنفاء الی الملاء الا علے الا غیر وکما ذکرنا فی عموم بعتۃ النبی خاتمنۃ بخلاف سائرالنبوۃ لانبوۃ سویننہ وتھذیبہ وجعلہ کا حسن ما ینبغی سواء کان ذلک الشیء شمعا اوطینا والفطرۃ والملۃ بمنزلۃ المعاد کا لشمع والطین فلا تعجب باختلاف احوال الانبیاء (علیہم السلام) و اختلاف امور ھم عما یتعلق بالمادۃ فاصل النبوۃ ھذیب النفس باعتقاد لغظم اللہ والتوجہ مرالیہ وکسب ما ینجی من عذاب اللہ فی الدنیا والاخرۃ و اما تجازات السیئۃ ففی الدورۃ الاولی کان لا یتوقف علیٰ معرفۃ البعث بعد الموت ولا الملئکۃ وفی الدورۃ الاخری توقف علی الایمان باللہ بالصفات التعظیمہ و الملائکہ و کتبہ ورسلہ والایمان بالبعث بعد الموت اما مسئلۃ قذم العالم وحدرثہ ومسئلۃ التناسخ ومسئلۃ قدر العالم وحدرتہ ومسئلۃ التناسخ ومسئلۃ قدم العالم وحدرتہ ومسئلۃ التناسخ و مسئلۃ نخریم الذبح وحلہ و مسئلۃ الصفات اللہ التی من التجدہ والتنقل والصفال الحدیۃ کالرویۃ والنزول والا راقۃ التجددۃ والبداء
ہوتی ہیں پھر وہ ان چیزوں کی صورتوں کو دیکھتا ہے جس کو اس نے پیدا کیا ہے نہ اس کے سوا اور کسی کو ایسے ہی ہر ایک قوم اور اقلیم کی ایک فطرت ہے جس پر اس کی سب باتیں پیدا کی گئی ہیں۔ جیسے جانور کے ذبح کرنے کو برا جاننا اور عالم کو قدیم کہنا یہ ایک فطرت ہے کہ فطرت ہنود کی اس پر ہے اور ذبح جانور کو جائز ماننا اور عالم کو حادث کہنا فطرت ہے جس پر بنی سام یعنی عرت اور فارس مخلوق ہوئے ہیں نبی جو آیا کرتا ہے وہ ان کے علوم اور اعتقادات اور اعمال میں تامل کیا کرتا ہے جو ان میں سے موافق تہذیب نفس کے ہوتا ہے اس کو ثابت رکھتا ہے اور ان کو وہی راہ چلاتا ہے اور جو کہ تہذیب نفس کے خلاف ہو اس سے منع کرتا ہے اور کبھی کچھ اختلاف ہوجاتا ہے بوجہ اختلاف فیض الٰہی جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے بیچ معاملہ متوجہ ہونے مجوس کے قوائے فلکیہ کی جانب اور متوجہ ہونے حنفا کے ھذا، اعلیٰ کی جانب اور جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے بعثت نبی کے عام ہونے اور خاتم النبیین کے بیان میں بخلاف اور نبیوں کے پس نبوت اس فطرت کا درست اور آراستہ کرنا ہے اور اس کو درست کرنا جس قدر اس کا عمدہ تر ہونا ممکن ہے
وغیرہ ذلک فانھا کلھا من الفطرۃ والمادۃ لیست بیحث عن ذلک بالا صالۃ (نفہیمات)
خواہ وہ شے موم ہو خواہ گاء افعاث مذہب کے لیے بمنزلہ مادوہ کے ہے مثل موم اور گوندھی مٹی کے پس تعجب نہ کرنا چاہیے اختلاف احوال انبیاء سے اور ان کے اس اختلاف سے جو ان سے امور متعلق ہیں جو بمنزلہ مادہ کے ہے پس اصل نبوت تہذیب نفس کی ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت کے اعتقاد سے اور اس کی طرف متوجہ ہونے سے اور ان امور کے کرنے سے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے دنیا اور آخرت میں بچاوے برائی کا بدلہ پہلے زمانہ میں اس پر موقوف نہ تھا کہ مرنے کے بعد اٹھنے کو جائیں اور پچھلے زمانہ میں اس پر موقوف ہے کہ اللہ پر ایمان لاویں اور اس کی صفحات تعظیمہ پر اور فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے سب رسولوں پر اور مرنے کے بعد اٹھنے پر ایمان لاویں اور مسئلہ قدم عالم اور حدوث عالم اور مسئلہ تناسخ اور مسئلہ حرام ہونے ذبح جانور کا اور مسئلہ صفات کا جو کہ بدلتے رہتے ہیں اور صفات جو کہ حادث ہیں جیسے دیکھنا اور اترنا اور نیا ارادہ اور ایسے ہی اور صفات پس یہ مسئلہ فطرتی ہے اور بمنزلہ مادہ کے ہے ایسے مسائل سے اصلی طور پر نبی بحث کرتا ہے۔ یہ بیان شاہ ولی اللہ صاحب کا ہماری دلیل سے بالکل مطابق ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہماری دلیل کا ماخذ یہی بیان ہے جو نہایت عالی دماغی اور بلاخوف لومۃ لایم کے شاہ صاحب نے فرمایا ہے۔
قوم ثمود
ثمود جس کے نام سے قوم ثمود مشہور ہوئی جثرین ارام بن سام بن نوح کا بیٹا ہے۔ اور عاد اولیٰ اور ہود کا ہمعصر ہے حضرت صالح پیغمبر اس کی چھٹی پشت میں ہیں اور اسی لیے زمانہ حضرت صالح (علیہ السلام) کا اخیر انیسویں یا شروع بیسوی صدی دنیاوی میں اور قریباً سو برس پیشتر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پایا جاتا ہے۔
قوم ثمود الحجر میں آباد تھی اور پہاڑ کو کھود کر اس میں گھر بنائے تھے تقویم البلد ان میں اسماعیل ابوالقدا نے ابن حرقل کا قول نقل کیا ہے کہ وہ ان پہاڑوں میں گیا تھا اور اس نے ان مکتوبات کو دیکھا تھا جو پہاڑ کو کھود کر بنائے تھے۔ افسوس ہے کہ سلاطین اسلامیہ نے اس طرح پر عرب کے قدیم حالات کی تحقیقات نہیں کی کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ جزیرہ عرب میں بہت سی ایسی چیزیں موجود ہونگی جن سے پرانے تاریخی حالات کی صحت پر بہت کچھ مدد مل سکتی ہے۔
عاد اولیٰ حضرت نوح سے پانچویں پشت میں تھا اور عاد اور ثمود دونوں آپس میں بھائی تھے قوم عاد کے برباد ہونے کے بعد قوم ثمود نے ترقی کی تھی جس کی نسبت خدا نے فرمایا ” واکروا اذجعلکم خلقاء من بعدعاد “ اور کہ قوم ثمود نے قوم عاد کے بعد ترقی کی تھی اسی سبب سے ثمود کو عادثانی کہتے ہیں جیسے کہ نوح کو آدم ثانی۔
والی ثمود اخاھم صالحا قال یا قوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ قد جاء تکم بینۃ من ربکم ھذہ ناقۃ اللہ لکم ایۃ فذرو ھاتاکل فی الرض اللہ ولا تموھابوء فیاخذکم عذاب الیم۔ واذکرو اذ جعلکمخلنا۔ من بعدعاد وبواکم فی الارض تتخذون من سھولحا قصولا وتنحتون الجبال بیوتا فاذکروا الاء اللہ ولا تعثوا فی الارض مفسدین نعقرو النافۃ وعتوا عن امر ربھم واخذتھم الرجفۃ فاصبحوا فی دارھم جاثمین (الاعراف) قال یا قوم ارائیتم ان کنت علی بینۃ من ربی
حضرت صالح قوم کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے جو واقعات کہ ان کے زمانہ نبوت میں گزرے ان کا بیان مندرجہ حاشیہ آیتوں میں ہے ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح نے ان لوگوں سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگوں خدا کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ تم تو سحر زدہ ہو تم تو ہم ہی جیسے ایک آدمی ہو۔ اگر تم سچے ہو تو کوئی نشانی لاؤ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ تمہارے پاس ایک دلیل تمہارے پروردگار کے پاس سے آئی ہے۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی ہے اس کو چھوڑ دو کہ خدا کی
واتانی رحمۃ لمن ینفرنی من الہ ان عصبیتہ فما تزید دننی غیر تخسیر۔ ویاقوم ھذہ ناقہ اللہ لکما یۃ فذروھا تاکل فی الارض اللہ ولا تموھا بسوء فاخذکم عذاب قریب فعقروھا فقال تمتعوانی دارکم ثلثۃ ایام ذلک وعد غیر مکتوب فلما جاء امرنا نجینا صالحا والذین امنوا معہ برحمۃ مناومن تندی یومئذ ان ربک ھوالقوی العزیز واخذالذین ظلموا الصیحۃ فاصبحوا فی دیارھم جاثمین (ھود۔ ) قالوا انما انت من بالمسحرین مائت الا بشر مثلنا فات بایات ان کنت من الصدقین ۔ قال ھذہ ناقۃ لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم۔ و لا تمسوھا بوء فیاخذ کم عذاب یوم عظیم فعقرو ھا ناصبحوا نادمین۔ فاخذھم العذاب ان فی ذلک لایۃ وماکان اکثرھم مومنین (شعرا - ) واما ثمود فھد یناھم فاستحبوالعمی علی الھدے فاخذتھم صاعتۃ العذاب الھون بما کانوا یکسبون (فصلت ) انا مرسلین الناقۃ فتنۃ لھم فارتعبھم والصطبر۔ ونبئھم ان الماء فنہۃ بینھم کا شرب مخضر۔ فنا دوا صاحبھم فتعاطی فعقر فکیف کان عذابی ونذر۔ انا یمک علیھم صحیۃ واحدۃ فکا نرا کھشیم المختظر (سورة القمر - )
زمین میں چرتی پھرے۔ باقی رہا پانی ایک دن اس کو پی لینے دیا کرو اور ایک دن تم لے لیاکرو اور اس کو کچھ برائی مت پہنچاؤ نہیں تو تم کو دکھ دینے والا عذاب پکڑلے گا۔ وہ لوگ اونٹنی سے تنگ آگئے انھوں نے اس کو ذبح کر ڈالا یا اس کی کونچیں کاٹ دیں کہ مرگئی۔ حضرت ہود نے کہا کہ تم تین دن اپنی جگہ میں چین کرلو عذاب آنے کا وعدہ نہیں ٹلنے کا اس کے بعد ان پر خدا کا عذاب پڑا کہ بڑی گڑگڑاہٹ سے اور حد سے زیادہ بھونچال آیا اور وہ اپنے رہنے کی جگہ میں گھٹنوں کے بل گر کر مرگئے۔
قرآن مجید میں تو یہ قصہ اسی قدر ہے مگر ہمارے مفسرین نے اس قصہ کو ایک تودہ طوفان بنادیا ہے جس کے لیے کوئی معتبر سنہ بھی نہیں ہے۔ انھوں نے قرآن مجید کے ان لفظوں کو کہ ” فات بایۃ ان کنت من الصادقین “ اور ان لفظوں کو کہ ” قد جائتکم بینۃ من ربکم “ دیکھ کر یہ تصور کیا کہ وہ اونٹنی کسی عجیب ومعجز طریقہ سے پیدا ہوئی ہوگی۔ کچھ عجب نہیں کہ پہلے سے عرب میں اس فاما ثمودفاھلکواباستاغیہ (الحاقہ) کذبت ثمود بطغونھا۔ ذانبعث اشقھا فقال لحم رسول اللہ ناتۃ اللہ رسقیاھا فکذبوہ فعرو ھافد مدم علیھم ربھم بذنبھم فسواھا (سورة الشمس - )
اونٹنی کی سنبت عجیب باتیں مشہور ہونگی مفسروں نے ان افواہی باتوں کو قرآن مجید کے ان الفاظ کے خیال سے سچ سمجھا اور تفسیروں میں لکھ دیا حالانکہ کوئی معتبر سند نہیں ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ جب حضرت صالح نے بتوں کی پرستش سے ان کو منع کیا اور خدائے واحد کی پرستش کی ہدایت کی تو قوم ثمودنے جس میں کہ خود حضرت صالح بھی تھے معجزہ طلب کیا۔ حضرت صالح نے کہا کہ تم کیا چاہتے ہو۔ انھوں نے کہا کہ تم ہمارے تہوار کے دن ہمارے ساتھ چلو ہم اپنے بتوں کو نکالینگے تم خدا سے معجزہ ماگنا ہم اپنے بتوں سے مانگے گے۔ اگر تمہاری دعا کا اثر ہوا تو ہم تمہارے مرید ہوجائینگے اور اگر ہماری دعا کا اثر ہوا تو تم ہمارے مرید ہوجانا۔ اس اقرار پر دونوں شہر کے باہر گئے انھوں نے اپنے بتوں کچھ دعا مانگی مگر کچھ نہ ہوا حضرت صالح (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس پہاڑ کے ٹکڑے میں سے ایک اونٹنی نکلے حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان سے اقرار لیا کہ اگر نکلے تو تم ایمان لے آؤ گے سب نے اقرار کیا جب بات پکی ہوگئی تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے دو رکعت نماز کی پڑھی اور خدا سے دعا مانگنی شروع کی۔ وہ پہاڑ کا ٹکڑا پھولنا شروع ہوا اور حاملہ کے پیٹ کی مانند پھول گیا ۔ پھر پھٹا اور اس میں سے نہایت بڑی موٹی مسٹنڈی اونٹنی نکلی۔ اور اسی وقت اس نے اپنے برابر کا بچہ بھی دے دیا۔
اس اونٹنی کا پیدا ہونا ہی عجیب طرح پر بیان نہیں کیا بلکہ اس کی عجیب عجیب صفات بھی بیان کی ہیں۔ لکھا ہے کہ جہاں قوم ثمود رہتی تھی وہاں پانی بہت کم تھا اور ٹھہرا تھا کہ ایک دن وہ پانی اونٹنی پیا کرے اور ایک دن وہ لوگ گیا کریں اونٹنی میں یہ عجیب صفت تھی کہ وہ سارا پانی جس کی تمام لوگ پی سکتے تھے سڑپ جاتی تھی اور پہاڑ پر چلی جاتی تھی پھر وہاں سے آتی تھی اور لوگ اس کا دودھ دہتے تھے اور اس قدر کثرت سے دودھ ہوتا تھا کہ تمام قوم کے لیے بجائے پانی کے کافی ہوتا تھا۔
حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ تمہارے شہر میں ایک لڑکا پیدا ہونے کو ہے کہ تمہاری موت اس کے ہاتھ سے ہوگی انھوں نے یہ بات سن کر جو لڑکا پیدا ہوا اس کو مار ڈالا یہاں تک کہ نو لڑکوں کو مارا جب دسواں لڑکا پیدا ہوا کہا کہ بھئی اب تو ہم نہ مارینگے مگر بدبختی سے وہی لڑکا تھا جس کے ہاتھ سے ان کی موت ہونے والی تھی۔
بہرحال وہ لڑکا بڑا ہوا جوان ہوا یاروں میں بیٹھنے لگا ایک دن وہ اپنے یاروں کی مجلس میں تھا اور جب اس نے شراب پینے کا ارادہ کیا اور شراب میں پانی ملانے کو پانی چاہا مگر وہ دن اونٹنی کے پانی پینے کا تھا وہ سب پانی پی گئی تھی ایک قطرہ شراب میں ملانے کو بھی نہیں چھوڑا تھا۔
اس جوان کو نہایت غصہ آیا وہ پہاڑ میں گیا اور اونٹنی کو بلایا جب آئی تو اس کو ذبح کر ڈالا یا کونچیں کاٹ ڈالیں کہ وہ مرگئی۔ پھر ان پر تین دن میں عذاب آیا پہلے دن سب کے بدن سرخ ہوگئے۔ دوسرے دن زرد ہوگئے ۔ تیسرے دن کالے ہوگئے۔ اس پر بھی نہ مرے۔ تب بھونچال آیا اور اس کے سبب سے سوگئے۔ اس قصہ کا لغو اور مہمل ہونا خود اس قصہ سے ظاہر ہوتا ہے مفسرین نے بھی اس قصہ کو اگرچہ لکھا ہے مگر چنداں اعتبار نہیں کیا بعضوں نے تو ” روی “ کر کر لکھا ہے کہ یہ لفظ خود قصہ کے ضعیف اور بےسند ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ صاحب تفسیر کبیر نے لکھا ہے
اعلم ان القراٰن قد دل علیٰ ان فیھا ایۃ ناماذکرانھا کانت ایۃ من ای الرجوہ فھو غیر مذکروالعلم حاصل بانہا کانت معجزۃ من وجہ مالا محالۃ۔ (تفسیر کبیر جلدصفحہ )
پرآن سے پایا جاتا ہے کہ اس اونٹنی میں کچھ نہ کچھ ایک نشانی تھی مگر یہ بات کہ وہ کیا نشانی تھی اور کس طرح پر تھی بیان نہیں ہوئی مگر اتنی بات معلوم ہے کہ وہ کسی نہ کسی وجہ سے معجزہ تھی۔ مگر میں کہتا ہوں کہ جس وجہ سے صاحب تفسیر کبیر نے اس کو معجزہ ماقوق الفطرت قرار دیا ہے وہ بھی صحیح نہیں ہے۔
ثمود کی قوم نے بتوں کی پرستش اختیار کی تھی اور کئی نسلیں ان کی بت پرستی میں گزر گئی تھیں جب حضرت صالح نے ایسے خدائے واحد کی پرستش کی ہدایت کی جس کی نہ کوئی صورت ہے نہ شکل ہے نہ اس کا وجود دکھائی دیتا ہے نہ کوئی اس کے پاس جاکر اسے دیکھ سکتا ہے صرف خیال ہی خیال میں وہ ہے اور خیال میں بھی بیچوں وبیچ کون مبرا خیرو مکان اور شکل و صورت وجہت و مثال سے تو ایک فطرتی بات تھی کہ ایک پشتینی بت پرست کہتے کہ اگر تم سچے ہو تو اس کی نشانی لاؤ۔ جس کے ذریعہ سے وہ اس بن دیکھے خدا کی پرستش کریں کیونکہ بغیر کسی ظاہری وجود کے ان کے دل کو تسلی نہیں ہوسکتی تھی۔ انھوں نے ایک اونٹنی کو بطور سانڈ کے چھوڑ دیا کہ یہ خدا کی اونٹنی ہے اور تمہارے لیے خدا کی نشانی ہے اس کو کسی قسم کی ایذا مت پہنچاؤ اور چرنے پھرنے دو۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح پر جانوروں کے چھوڑنے کی قدیم رسم تھی عرب متعدد طرح پر سانڈ چھوڑتے تھے۔ اونٹنی جب پانچ بچے جن لیتی تھی تو اس کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے۔ اور جہاں وہ چرتی چرنے دیتے تھے اور پانی پینے سے نہ ہکاتے تھے۔ بیماری سے اچھا ہونے یا سفر سے آنے پر یا دس برس خدمت لینے کے بعد اونٹ کو بتوں کے نام پر بطور سانڈ کے چھوڑتے تھے جو بجیرہ اور سائبہ اور حام کے نام سے مشہور ہیں حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی اسی طرح اس اونٹنی کو چھوڑا صرف اتنا فرق کیا کہ کسی بت یا کسی مخلوق کے نام پر نہیں چھوڑا بلکہ خدا کے نام پر چھوڑا۔
آیت کے لفظ کے معنی معجزہ کے نہیں ہیں اور اس لیے مصنف تفسیر کبیر کا یہ لکھنا۔ کہ ” والعلم حاصل بانھا کانت معجزۃ بوجہ ما لا محالۃ “ صحیح نہیں ہے۔ آیت کے معنی نشانی کے ہیں۔ محمد بن ابی بکر الرازی نے لغات قرآن میں لکھا ہے کہ الایۃ العلامۃ ومنہ قولہ تعالیٰ ان ایۃ ملکہ، وتولہ تعالیٰ ۔ وجعلنا اللیل والنہار آتین، اعی علامتیں “ پس لیت کے لفظ سے یہ قرار دینا کہ وہ اونٹنی یا سانڈھنی ایک معجزہ تھی جو خلاف قانون قدرت یا مافوق الفطرت پیدا ہوئی تھی قابل تسلیم نہیں ہے۔
دوسرا لفظ ان آیتوں میں ” بینۃ من ربکم “ کا ہے۔ ان الفاظ کا جو قرآن مجید میں ہیں ترجمہ یہ ہے کہ ” کہا (صالح ) نے اے میری قوم عبادت کرو اللہ کے نہیں ہے تمہارے لیے کوئی خدا سوائے اس کے ۔ بیشک آئی ہے تمہارے پاس دلیل تمہارے پروردگار سے۔ یہ اونٹنی اللہ کی تمہارے لیے نشانی ہے اگر یہ کہا جاوے کہ اونٹنی ہی وہ دلیل تھی تو الفاظ لکم ایۃ بیکار ہوجاتے ہیں کیونکہ اس حالت میں صرف اتنا کہنا کافی تھا کہ قد جاء تکم بینۃ من ربکم ھذہ ناقۃ اللہ فدروھا تاکل الخ دوسرے یہ کہ خدا کی تمام مخلوقات وہ کسی طرح پر پیدا ہو خدا پر دلیل ہے اونٹنی کے پیدا ہونے سے گو کہ وہ کسی عجیب طرح سے پیدا ہوئی ہو خدا پر دلیل ہونے کی کچھ خصوصیت نہیں ہوسکتی پس صاف ظاہر ہے کہ قد جاء ئکم بینۃ من ربکم جدا جملہ ہے اور اس سے وہ دلیل مراد ہے جو انبیاء اپنی امت کو خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید اور اس کے استحقاق عبادت کی نسبت بتاتے ہیں اور ” ھذہ ناقۃ اللہ لکم ایۃ الی اخرہ “ جملہ مستانفہ ہے۔ اس کو بینۃ میں ربکم سے کچھ تعلق نہیں ہے۔
اگر ہم یہ بھی تسلیم کرلیں کہ اس کو بینۃ من ربکم سے تعلق ہے تو بھی اس سے کوئی نتیجہ سوائے اس کے نہیں نکلتا کہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اس اونٹنی کو جس طرح ایک نشانی بتایا تھا اسی طرح اور اسی مقصد سے اس کو دلیل یا گواہ بھی کہا تھا۔ بینہ کے لفظ سے اس سانڈھنی کا معجزہ ہوتا اور خلاف قانون قدرت یا مافوق الفطرت پیدا ہونا کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام قصہ حضرت صالح (علیہ السلام) کا بیان کیا اور جو بات سب سے مقدم اور سب سے زیادہ عجیب تھی کہ پہاڑ کو فی الفور اونٹنی کا حمل رہا اور وہ مثل حاملہ کے پیٹ کے پھولنا شروع ہوا اور شق ہوگیا اور اونٹنی پلی پلائی ساٹھ گز چوڑی اور معلوم نہیں کس قدر لمبی سنڈ مسنڈ اس میں سے پیدا ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنی برابر کا بچہ جنا اور قدرتی مسئلہ المظروف قصر من الظرف والجزاء اقصر من الکل کو بھی باطل کردیا۔ اس کا بیان بالکل چھوڑ دیا۔ اور مفسرین کو اس کا الہام کیا کیونکہ انھوں نے بغیر غور وفکر اور بغیر کسی معتبر سند کے اس قصہ کو لکھا ہے جو بغیر الہام کے اور کسی طرح لکھا نہیں جاسکتا تھا۔ افسوس ہے کہ ہمارے مفسروں نے ایسے ہی لغو بےمعنی قصوں کو قرآن مجید کی تفسیروں میں داخل کرکے مسائل مستحکم اسلام کو مضحف اطفال بنایا ہے اور اس کے نور عالم افروز کو لغویات کے گرد و غبار سے دھندلا کردیا ہے۔ خدا ان پر رحم کرے آمین۔
جب کہ ان لوگوں نے اس سانڈھنی کو مار ڈالا اور کفر وبت پرستی کو چھوڑا تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم تین دن اور چین کرلو پھر تم پر خدا کا عذاب ضرور آئے گا۔ اعداد جو ایسے مقام پر بیان ہوتے ہیں ان سے وہی عدد مقصود نہیں ہوتا بلکہ ایک زمانہ مراد ہوتا ہے اس طرح کے کلام کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ چند روز تم اور چین کرو پھر تم پر عذاب ہوگا بدکار انسان کی نسبت بھی کہا جاتا ہے کہ تین دن کا یا چند روز کا یہ عیش و آرام ہے اور اس سے اس کی تمام عمر مراد ہوتی ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کا حال معلوم ہوگا پس اسی طرح حضرت صالح نے فرمایا ” تمتعوا فی دیارکم ثلثۃ ایام “۔
جو آفت کہ قوم ثمود پر آئی وہ شدید بھونچال تھا لفظ طاغیہ جو بعض آیتوں میں ہے وہ اس کی شدت اور حد سے زیادہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ لفظ صحیہ کا اس بھونچال کی آواز گڑگڑاہٹ پر اشارہ کرتا ہے اور رجفہ کے معنی بھونچال کے ہیں غرضیکہ جس طرح عادت اللہ جاری ہے بھونچال کے آنے سے وہ قوم غارت ہوگئی یعنی اس کے بہت سے آدمی مرگئے اور بہت سے بچے بھی اپنے قوم ثمود کے مکانات پہاڑوں میں تھے اور میدانوں میں بھی تھے میدانوں کے مکانات پر تو بھونچال سے صدمہ ظاہر ہے مگر پہاڑ کے اندر کے مکانات پر بھی متعدد طرح سے صدمہ پہنچ سکتا ہے یہ واقعہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جس کو معجزہ یا خلاف قانون قدرت یا مافوق الفطرت تصور کیا جاوے ابھی یہ واقعہ ہوا ہے کہ اندلس (یہ وہی ملک ہے جس انگریزی جغرافیوں میں سپین لکھا جاتا ہے) کے علاقہ میں ایک بھونچال کے سبب ایک ہزار آدمی مرگیا۔
حضرت لوط (علیہ السلام) کا قصہ سورة ہود میں زیادہ تفصیل سے ہے اور اسی مقام پر اس سے بحث کرنی زیادہ مناسب ہے اس لیے اس بحث کو سورة ہود کی تفسیر میں لکھیں گے مگر حضرت شعیب (علیہ السلام) کے قصہ کا اس مقام پر بیان کرتے ہیں۔
(والی مدین اخاھم شعیبا) مدین۔ حضرت ابراہیم کے بیٹے کا نام ہے جو قطوراہ کے پیٹ سے قریباً سنہ دنیوی کے پیدا ہوا تھا۔ مدین کا بیٹا عیقاہ تھا۔ جس کو بعض عربی کتابوں میں غلطی سے عنقا لکھ دیا ہے۔ یہاں تک تو نسب توراۃ میں مندرج ہے (دیکھو سفر پیدائش باب درس - ) اس کے بعد تاریخ کی کتابوں میں اختلاف ہے۔ مگر ان اختلافات سے جو امر ہمارے نزدیک زیادہ تر قریبن صحت ہے یہ ہے کہ عیفاہ کا بیٹا نوبہ یا نابت تھا۔ اور اس کا بیٹا ضیعون اور ضیعون کے بیٹے حضرت شعیب (علیہ السلام) ہیں پس حضرت شعیب حضرت ابراہیم سے پانچویں پشت میں ہیں۔
مدین۔ جہاں حضرت ابراہیم کے بیٹے مدین نے سکونت اختیار کی تھی رفتہ رفتہ وہاں شہر آباد ہوگیا۔ اور مدین ہی اس شہر کا نام ہوگیا بطلیموس کے جغرافیہ میں (موڈیانا) اس شہر کا نام لکھا ہے وہ شہر بحرقلزم کے کنارہ سے کسی قدر فاصلہ پر حجازعرب میں واقع ہے کوہ سینا کے جنوب مشرق میں اب یہ شہر بالکل ویران ہے کچھ نشان کھنڈرات وہاں اب تک موجود ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں ایک قدیم کنواں مون ہے کے وقت کا بھی موجود ہے۔
حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قصہ بالکل سادا اور سیدھا ہے مفسرین نے بھی اس قصہ میں بہت ہی کم رنگ آمیزی کی ہے صاحب تفسیر کبیر اس بات سے کہ شعیب پیغمبر پاس کوئی معجزہ نہ تھا نہایت متعجب ہوئے ہیں پھر کہتے ہیں کہ گو قرآن میں خدا نے ان کے کسی معجزہ کو نہ بیان کیا ہو مگر ضرور ان کے پاس معجزہ ہوگا۔
انہ (ای الشعیب) ادعی النبوۃ فقال قد جاء تکم بینۃ من ربکم۔ ویجب ان یکون المراد من البینۃ ھھنا المعجزۃ لا نہ لا بدلمدعی النبوۃ والا لکان متنبیا لا نبیاء فھذہ الایۃ دلت علی انہ حصلت لہ معجزۃ والۃ علی صدقہ فاما ان تلک المعجزۃ من ای الانواع کانت فلیس فے القرآن ولا لۃ علیہ کمالہ یحصل فی القراٰن الدلالۃ علی کثیر من معجزات رسولنا۔ تفسیر کبیر جلد صفحہ
چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ بیشک حضرت شعیب (علیہ السلام) نے نبوۃ کا دعویٰ کیا پھر کہا کہ آئی ہے تمہارے پاس بینہ یعنی دلیل یا گواہی تمہارے پروردگار کے پاس سے۔ اور واجب ہے کہ اس جگہ تینہ سے مراد معجزہ ہو کیونکہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے اس کے لیے معجزہ کا ہونا ضرور ہے اور نہیں تو وہ مت نبی ہوگا نہ سچا نبی ۔ پس یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے پاس کوئی معجزہ تھا جو ان کے سچا ہونے پر دلالت کرتا تھا۔ مگر یہ بات کہ وہ معجزہ کس قسم کا تھا قرآن میں اس پر کچھ اشارہ نہیں ہے جیسے کہ قرآن میں ہمارے رسول خدا کے بہت سے معجزوں پر کچھ اشارہ نہیں ہے۔ (انتہی)
اس کے بعد صاحب تفسیر کبیر نے تفسیر کشاف سے حضرت شعیب کے چند معجزے نقل کئے ہیں اور جیسے کہ وہ فی نفسہ لغو ہیں ویسے ہی تاریخانہ امور کے لحاظ سے بھی غل ہیں پس ہم کو اس مقام پر ان کے ذکر کی ضرورت نہیں ہم صرف اسی مضمون پر بحث کرنا چاہتے ہیں جو قرآن مجید سے پیدا ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قصہ نہایت صاف طرح پر بیان ہوا ہے بہت سا حصہ اس کا تو اسی سورة میں ہے اور پھر اسی کی مثل سورة ہود میں اور سورة شعرا میں اور سورة عنکبوت میں آیا ہے اور وہ ایسے صاف لفظوں میں ہے جن کو بجز ترجمہ کے اور کسی تفسیر کی حاجت نہیں۔
( ثم بعثنا من بعد ھم موسیٰ ) اس آیت سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ شروع ہوا ہے۔ اس قصہ میں مندرجہ ذیل امور بحث طلب ہیں۔
۔ تحقیق لفظ ایہ ولفظ بینہ۔
۔ حقیقت سحر اور یہ کہ کن معنوں میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔
۔ بیان تخیل تحرک حیل وعصائے سحر ہ فرعون۔
۔ بیان عصائے موسیٰ اور اس کا بطور اژدھے کے دکھائی دینا
۔ بیان یدبیضا ۔ ذکر قتل اولاد بنی اسرائیل
۔ بیان قحط ۔ ذکر طوفان۔ وجراد۔ وقمل ۔ وضفادع۔ دوم
۔ غرق فی البحر ۔ اعتکاف حضرت موسیٰ کا پہاڑ میں
۔ حقیقت کلام خدا باموسیٰ ۔ حقیقت تجلی للیجل
۔ بیان جنابت فی الالواح ۔ اتحاذعجل
۔ ستر آدمیوں کا منتخب کرنا۔۔ ذکر استسقائے قوم موسیٰ اور ظاہر ہونا چشموں کا۔
۔ سایہ کرنا ابرکا ۔ من وسلوٰی کا اترنا
۔ دخول باب
ہم ان انیسوں امور کی نسبت علیحدہ علیحدہ بیان کرنا چاہتے ہیں مگر ان میں سے جن امور کا پہلے بیان ہوچکا ہے ان کے صرف حوالہ دینے پر اکتفا کرینگے۔
اول ۔ تحقیق معنی لفظ آیہ و بینہ
ہم نے سورة بقر کی تفسیر میں بہ تحت تفسیر ” واتینا عیسیٰ ابن مریم البینات “ لفظ ایہ وبینۃ پر مفصل بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ان الفاظ کے معنی معجزہ کے نہیں ہیں بلکہ احکام کے ہیں۔ اور یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ معجزہ دلیل ثبوت نبوت نہیں ہوسکتا اور اس صورت میں ایہ وبینہ کے معنی اس غرض سے عجزہ کے لینے کہ وہ مثبت نبوت ہوتا ہے خرط التاد سے کچھ زیادہ رتبہ نہیں رکھتا۔