ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
یدبیضا
جب کہ یہ بات تسلیم کی گئی کہ انسان میں ایک جیسی قوت ہے کہ انسان اس کے ذریعہ سے قوائے متخیلہ کی طرف توجہ کرتا ہے اور پھر اس میں ایک خاص قسم کا تصرف کرتا ہے اور ان میں طرح طرح کے خیالات اور گفتگو اور صورتیں جو کچھ اس کو مقصود ہوتی ہیں ڈالتا ہے پھر ان کو اپنے نفس موثرہ کی قوت سے دیکھنے والوں کی حس پر ڈالتا ہے۔ پھر دیکھنے والے ایسا ہی دیکھتے ہیں کہ گویا وہ خارج میں موجود ہے حالانکہ وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور قرآن مجید کے الفاظ سے جو آیات مذکورہ بالا میں گزرے ہیں اور جن سے پایا جاتا ہے کہ لاٹھیاں اور رسیاں اسی قوت متخیلہ کے سبب سانپ یا اژدھے دکھائی دیتی تھیں تو ید بیضا کا مسئلہ از خود حل ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا بھی لوگوں کے اس طرح پر دکھائی دینا اسی قوت نفس انسانی اور تصرف قات متخیلہ کا سبب تھا نہ یہ کہ وہ کوئی معجزہ مافوق الفطرت تھا۔ اور درحقیقت حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی ماہیت بدلجاتی تھی۔
ونزع یدہ فاذ اھی بیضاء للقانفرین (سورة اعراف و سورة شعرا )
جہاں قرآن مجید میں ید بیضا کا ذکر آیا ہے وہاں یہ مضمون بھی موجود ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ یکایک چٹا تھا دیکھنے والوں کے لیے ۔ اور یہ مضمون صاف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں وہ چٹا دکھائی دیتا تھا جو اثر قوت نفس انسانی کا تھا نہ کوئی معجزہ مافوق الفطرت۔
اس مقام پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اگر عصائے موسیٰ کا اژدھا نبتا اور ہاتھ کا چٹا ہوجانا اسی قسم کی قوت نفسی سے لوگوں کو دکھائی دیتا تھا جس طرح کی توت نفسی سے سحر فرعون کی رسیاں و لاٹھیاں سانپ دکھلائی دیتی تھیں اور کوئی معجزہ مافوق الفطرت نہ تھا تو خدا نے عصا ویہ بیضا کی نسبت یہ کیوں فرمایا کہ ” فذالک برھانان من ربک “ یعنی ان کو خدا کی طرف سے بردن کیوں تعبیر کیا ہے۔ مگر برہان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ عصائے موسیٰ کا اژدھا سرنی ہونا یا ہاتھ کا چٹا دکھائی دینا فرعون اور اس کے سرداروں پر بطور حجت الزامی کے تھا وہ اس قسم کے امور کو دلیل اس بات کی سمجھتے تھے کہ جس شخص سے ایسے امور ظاہر ہوتے ہیں وہ کامل ہوتا ہے اور اسی لیے انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی کرشمہ دکھلانے کی خواہش کی تھی۔ پس ان دونوں چیزوں پر بمقابلہ فرعون اور اس کے سرداروں کے برہان سے تعبیر کرنا بالکل صحیح تھا اور اسی سبب سے انھوں نے کہا کہ اگر کوئی کرشمہ دکھلایا جاویگا تو وہ موسیٰ کو سچا جانینگے۔ خود اسی آیت میں ب مقابل فرعون اور اس کے سرداروں کے ان دونوں امر کو برہان قرار دینے کی وجہ بیان ہوئی ہے کہ ” انھم کانوا قوما فاسقین “ فاسق کا لفظ نہایت وسیع معنی رکھتا ہے۔ فرعون اور اس کے سرداروں کا ساحروں پر یہ سبب ان کے کرشموں کے اعتقاد رکھنا بھی فسق میں داخل تھا پس خدا نے فرمایا کہ یہ دونوں امر ایسی قوم کے لیے جو ساحروں کے کرشموں پر یقین رکھتے ہیں خدا کی طرف سے برہان ہیں۔ پس برہان کا لفظ ان بیانات کے منافی نہیں ہے جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں۔
سورة نمل میں خدا تعالیٰ نے عصا کے ذکر کے بعد فرمایا کہ ” واہ خریدک فی حبیبک تخرج بیضاء من غیر سوء فی تسع ایات الی فرعون وقومہ “ لفظ تسع آیات پر مفسرین نے بحث کی ہے کہ نو نشانیوں سے کیا مراد ہے۔
لقاسی ان یقول کانت الایات احدی عشر ثنتان منھا لید والعصاوا التسع الفلق والصوفان والجرادو لقمل والضہ وع والدم والعمسۃ والجذب فی بواد یھم والنقصان فی مزا عھم۔ (تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ )
امام فخررازی نے اس آیت کی تفسیر میں عصا اور یدبیضا کے علاوہ یہ نو نشانیاں بیان کی ہیں۔ دریا کا پھٹ ہوتا۔ طوفان کا ہونا۔ ٹڈیوں کا آنا۔ پسوؤں کا۔ مینڈیروں کا پیدا ہونا۔ پانی کا خون ہوجانا۔ مال و دولت مویشی میں کسی کا ہونا۔ قحط پڑنا۔ کھیتوں کی پیداوار کا گھٹ جانا۔
اور سای مقام پر یہ بھی لکھا ہے کہ ” فی تسع ایات “ جملہ مستانقہ ہے یعنی صنحہ و کلام ہے اور اس کی تقریریوں ہے کہ ” اذھب فی تسع ایات الی فرعون “ یعنی عصا اور ید بیضا کا ذکر علیحدہ ہوچکا اس کے سوا نو نشانیاں اور دیں کہ وہ لے کر فرعون کے پاس جا۔
مگر یہ بیان صحیح نہیں اس لیے کہ وہ نو چیزیں جن کا ذکر کیا ہے بطور نشانی کے نہیں دی گئی تھیں بلکہ فرعون اور اس کی قوم پر یہ سبب نافرمانی کے بغور عذاب کے نازل ہوئی تھیں جن کو قرآن مجید نے بھی ” رجز “ سے تعبیر کیا ہے پس ان واقعات کو تسع ایات قرار دینا صحیح نہیں ہوسکتا۔
ولقد اتیناموسیٰ تسع ایات بینات فاسئل بنی اسرائیل امسحورا قال لقد علمت ماترل ھولا الارب السموات والارض بصائر وانی لا ظنک یہ فرعون مثبورا (سورة بنی اسرائیل آیت )
سورة بنی اسرائیل میں بھی تسع ایات کا ذکر ہے اور اس کی نسبت مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ اس آیت میں تسع ایات سے وہ نو احکام مراد ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے کہے تھے۔ مفسرین کا ایسا خیال کرنا غالباً اس آیت کے ان الفاظ کی بنا پر ہے ” فاسئل بنی اسرائیل اذجاء ھم “ یعنی خدا نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے دریافت کر جب موسیٰ ان کے پاس آئے تو وہ احکام بتائے تھے۔ اس خیال پر ہمارے راویوں نے ایک حدیث بھی بیان کردی اور مفسرین نے قبول کرلی اور کہا کہ یہی قول سب سے اچھا ہے۔
فی تفسیر قولہ تسع ایات بینات اقوال اجودھا ماروی صفوان ابن عسال انہ قال ان یھودیا قال الصاحبہ اذھب بناالی ھذا النبی نسالہ عن تسع ایات فذھبا الی النبی صیحہ اللہ علیہ وسلم وشالہ عنھا فقال ھن ان لا تشرکوا باللہ شیئا۔ ولا تسرقوا۔ ولا تزنوا۔ ولا تقتولہ ولا نسخروا۔ ولا تاکلوالریا۔ ولا لقد قوالمحصنۃ ولا تولوا الفرار۔ یوم الزحف ۔ علیکم خاصۃ الیھود ان لا تعتدوا فی السبت تقام الیھود یا ن نقبلا یدیہ ورجلیہ وقالوا اشھد انک نبی ولولا نخاف القتل لا تبعناک (تفسیر کبیر جلد چہارم )
تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ تسع ایات کے بیان میں متعدد اقوال ہیں سب سے اچھا قول یہ ہے کہ جو صفوان ابن حسال نے کہا کہ ایک یہودی نے اپنے دوست س کہا کہ پیغمبر پاس چلو ان سے پوچھیں کہ وہ نو احکام کیا تھے وہ آئی اور پوچھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ یہ تھے۔ خدا کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو۔ چوری نہ کرو۔ زنانہ کرو۔ قتل مت کرو۔ سحر مت کرو۔ سود نہ کھاؤ۔ عورتوں پر زنا کا اتہام مت کرو۔ لڑائی میں بھاگو نہیں۔ اور بالتخصیص یہودیوں کے لیے یہ حکم ہیں کہ سبت کے دن زیادتی نہ کرو۔ یہ سن کر وہ دنوں یہودی کھڑے ہوئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ اور پاؤں چومے اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ نبی ہیں اگر ہم کو مارے جانے کا ڈر نہ ہوتا تو ہم آپ کی پیروی کرتے۔
مگر مفسرین کا یہ خیال کہ جن تسع ایات کا ذکر سورة نمل کی آیت میں ہے وہ تو نو نشانیاں تھیں جو حضرت موسیٰ فرعون کے پاس لے گئے تھے اور جن تسع آیات کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں ہے وہ نو احکام بنی اسرائیل کے لیے تھے صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ کیونکہ اسی آیت میں ذکر ہے کہ تسع آیات کے جواب میں فرعون نے کہا کہ اے موسیٰ میں تو تجھ کو سحرزدہ سمجھتا ہوں۔ اور اس سے ثابت ہے کہ دو احکام فرعون اور اس کی قوم کے لیے تھے نہ بنی اسرائیل کے لیے اور ” فاسئل بنی اسرائیل اذجاء ھم “ بطور جملہ معترضہ کے آیا ہے اس سے یہ استدلال کرنا کہ وہ احکام بنی اسرائیل کے لیے تھے صحیح نہیں ہے۔
غرضیکہ ہماری تحقیق میں دونوں آیتوں میں تسع آیات سے وہ احکام مراد ہیں جو حضرت موسیٰ فرعون اور اس کی قوم کے پاس لے گئے تھے۔ یہ بات قابل تسلیم کے ہے کہ قرآن مجید میں ان نو احکام کا ایک جگہ شمار نہیں کیا گیا ہے بلکہ جا بجا متعدد احکام کا ذکر آیا ہے اگر ان سب پر غور کیا جاوے تو وہ احکام ہماری سمجھ میں مندرجہ ذیل معلوم ہوتے ہیں۔
۔ توحید۔ کما قال اللہ تعالیٰ انی انا اللہ لا الہ الا۔
۔ اقرار بالرسالۃ کما قال انا رسولا ربک۔
۔ منع شرک سے۔ کما قال باعبدنی۔
۔ اقامت صلوٰۃ۔ کما قال اقم الصلوٰۃ لذکری۔
۔ جزاوسزا۔ کما قال تجزی کل نفس بما تسعیٰ ۔
۔ اعتقاد و آخرت۔ کما قال ان الساعۃ تیۃ۔
۔ نزول عذاب منکرین پر۔ کما قال ات العذاب علی من کذب وتولی۔
۔ منع تعدی سے بنی اسرائیل پر۔ کما قال لا تعذبھم۔
۔ رہا کرنا بنی اسرائیل بنی اسرائیل کا۔ کما قال ۔ ارسل معنا بنی اسرائیل۔
یہ تمام آیتیں جن کا اشارہ ہم نے کیا عام آیتیں نہیں ہیں بلکہ خاص آیتیں ہیں جو حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے قصہ میں وارد ہوئی ہیں اور اسی سبب سے ہم نے خیال کیا ہے کہ یہ وہ احکام ہیں جو حضرت موسیٰ خدا کی طرف سے فرعون کے پاس لے گئے تھے۔
دوم۔ حقیقت سحر
اور یہ کہ کن معنوں میں اس کا استعمال ہوتا ہے
سحر کا لفظ قرآن مجید میں بہت جگہ آیا ہے مگر بہت سے الفاظ و زبان عرب میں ایسے مستعمل تھے جن کے لیے فی مالواقع کوئی حقیقت نہ تھی اور نہ درحقیقت ان کا مصداق تھا نہ ان کا کوئی مسمی حقیقۃ وجود رکھتا تھا۔ بلکہ عرب جاہلیت نے اپنے وہم میں ایک شے غیر موجود کا وجود قرار دیا تھا اور اس سے کچھ فعال منسوب کئے تھے اور اس شے غیر موجود وہمی کے لیے وہ الفاظ مستعمل کرتے تھے۔ قرآن مجید اہل عرب کی زبان میں نازل ہوا اور اس لیے اس زبان کے محاورہ کے موافق وہ الفاظ بھی قرآن مجید میں آئے ہیں۔ مگر قرآن مجید میں اس کا استعمال ان اثروں کے سمجھانے کے لیے ہوا ہے جو اثر کہ اہل عرب ان لفظوں سے پاتے تھے نہ اس لیے کہ ان لفظوں کے لیے فی الواقع کوئی حقیقت تھی یا درحقیقت ان کا کوئی مصداق تھا۔
قال ابوعبیدۃ ارسل الی الفضل بن الربیع الی البصرۃ فی الخروج الیہ فقد مت علیہ وکنت اخبر عن تبحرہ فاذن لی قد خلت علیہ وھو فی مجلس طویل عریض فیہ بساط واحد قدملاہ وفی صدرہ فرش عالیۃ لا یوتقی علیھا الا بکوسی وھو جالی علی العرش فسلمت علیہ بالغالدۃ فرد وضحک الی واستد نانی من فریثہ ثم سالتی وبسطنی وتلطف بی وقال فالتک فی فانشدنہ من عیون اشعار جاھلیۃ احفضھا افقال تد عرفت اکثر ھذہ وارید من ملیح الشعرفانشدتہ فطرب وضحک وزاد ولا نشاھا ثم وخل رجل فی ذی الکتاب ولہ ھیئۃ حسنۃ فاجنسہ الی جانی وقال اتعرف ھذا قال لا فقال ذا ابوعبیدۃ علامۃ علی البصرۃ اقدمناہ لفنتغید من علمہ فدعالہ الرجل ثم التفت الی وقال لی کنت الیک مشتافاوقد سالت عن مسلۃ افتاذن کان اعرقک یاھاتلت ھات فقال قال اللہ تعالیٰ صلعھا کانہ روس الشیاطین وانما یقع اوعدو الا یعادبما تدعرف و شک الم یعرف قال خقلت انما کلم اللہ العرب علی قدر کلا مھم اما سمعت قول
اس کی مثال میں ہم ایک مباحثہ لطیف کا ذکر کرتے ہیں جو خلیفہ منصور کے وزیر ابوالفضل بن ربیع کی مجلس میں ایک بہت بڑے عالم سے ہوا تھا۔ مراۃ الجنان المشہور بہ تاریخ یا فعی میں لکھا ہے کہ فضل بن ربیع نے جو خلیفہ منصور کا وزیر اور ایک بہت بڑا عالم تھا ابوعبیدہ کے پاس جو اس زمانہ کے بہت بڑے عالم متبحر تھے اور بصرہ میں تھے ایک شخص بھیجا اور اپنے پاس بلایا وہ آئے اور ان کو وزیر کی مجلس میں آنے کی اجازت ملی جب وہ مجلس میں گئے تو دیکھا کہ وہ ایک بہت لمبے چوڑے مکان میں ہے جس میں بھر پور ایک ہی کپڑے کا فرش بچھا ہوا ہے اور صدر میں ایک بہت اونچی جگہ پر جس پر بغیر زینہ کے چڑھا نہیں جاسکتا مسند تکیہ لگا ہوا ہے اور وہ اس پر بیٹھا ہے۔ ابوعبیدہ نے موافق اس آداب کے جو وزیروں کے لیے مقرر کیا تھا سلام علیک کی وزیر نے اس کا جواب دیا اور اپنی مسند کے پاس بیٹھنے کی اجازت دی ۔ پھر ابوعبیدہ کی خیر و عافیت پوچھی اور اذر حالات دریافت کئے اور بہت مہربانی کی۔ پھر کہا کہ کچھ اشعار پڑھو۔ ابوعبیدہ نے عرب جاہلیت کے نہایت عمدہ اشعار جو اس کو یاد تھے پڑھے۔ وزیر نے کہا کہ ایسے تو بہت سے اشعار میں بھی جانتا ہوں میرا یہ مقصد تھا کہ کچھ نمکین چٹ پٹے اشعار سناؤ ابوعبیدہ نے ویسے ہی اشعار پڑھے جن کو سن کر وزیر خوش ہوا اور ہنسا اور مزے میں آگیا۔ اتنے میں وزیر کا ایک منشی جو وجیہ آدمی تھا آگیا وزیر نے اس کو ابوعبیدہ کے پاس بیٹھنے کا حکم دیا اور امری القیس ایقتلنی المشرفی مضاجعی ومسلونہ فروق کا یتاب اغوال وھم لم یروالغول قط ولکنہ لماکان امر القول یھولھم اوعذوابہ فاستمعسن الفضل والسائل فی ذلک۔ مراۃ الجنان (ورق )
اور ابوعبیدہ کی طرف اشارہ کرکے منشی سے پوچھا کہ تم ان کو جانتے ہو اس نے عرض کیا کہ میں نہیں جانتا وزیر نے کہا کہ یہ ابوعبیدہ ہیں علامہ اہل بصرہ میں نے ان کو بلایا ہے تاکہ ان کے علم سے ہم فائدہ اٹھاویں اس منشی نے وزیر کو دعا دی اور ابوعبیدہ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ میں آپ سے ملنے کا بہت مشتاق تھا۔ لوگوں نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا ہے آپ مجھ کو اجازت دیتے ہیں کہ اس کو آپ سے کہوں ابوعبیدہ نے کہا کہ کہو اس منشی نے کہا کہ دخا تعالیٰ نے دوزخ کے درخت کے پھل کو شیطانوں کے سروں سے تشبیہ دے کر ڈرایا ہے مگر لالچ دینا یا ڈرانا ایسی چیز سے ہوسکتا ہے جس کو وہ لوگ جانتے ہوں مگر شیطانوں کے سروں کو تو کوئی نہیں جانتا کہ کیسے ہیں ابوعبیدہ نے کہا کہ دخا نے عرب کے کلام کے مطابق کلام کیا ہے کیا تم نے امر۔ القیس کا قول نہیں سنا چنانچہ ابوعبیدہ نے وہ شعر پڑھا جس کا مطلب یہ ہے۔
کیا وہ مجھ کو مار ڈالینگے اور تلوار میری ساتھ لیٹی ہے
اور نیلی چمکدار برچھیاں ہیں مانند دانتوں نحول بیابانی کے
اس شخص نے جس کے حق میں یہ شعر کہا ہے یا اور کسی نے غول بیابانی کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر جب کہ غول بیابانی کا ہول اس کے دل میں تھا تو اسی سے ان کو ڈرایا۔ اس تقریر کو وزیر ابوالفضل اور اس کے منشی دونوں نے پسند کیا (انتہیٰ )
غرضیکہ جس طرح امرا القیس کے شعر سے یہ لازم نہیں آتا کہ درحقیقت غول بیابانی کے لمبے لمبے نیلے نیلے چمکدار دانت ہوتے ہیں اسی طرح قرآن مجید میں جو رؤس الشیاطین کا لفظ آیا ہے اس کو یہ لازم نہیں آتا کہ درحقیقت شیطان کا ڈراؤنا سر ہوتا ہے بلکہ جس چیز سے اپنے خیالات کے موافق عرب دہشت کھاتے تھے اسی سے ان کے خیالات کے موافق وعید آئی ہے اسی طرح سحر کا لفظ جہاں قرآن میں آیا ہے وہ صرف عرب جاہلیت کی خیال کے موافق آیا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جس طرح پر عرب جاہلیت سحر کو سمجھتے تھے درحقیقت اس طرح پر اس کا وجود تھا۔ یا خدا تعالیٰ نے اس کا واقعی ہونا بنایا ہے یا عرب جاہلیت کے خیالات کی تصدیق کی ہے۔
اسی طرح سینکڑوں لفظ قرآن مجید میں حسب محاورہ زبان عرب اور بلحاظ خیالات عرب جاہلیت آتے ہیں جن سے ان کا واقعی ہونا مراد نہیں ہے۔ علمائے متقدمین نے اس باب میں کتابیں وعزمت مذ ذلک الیوم ان اصنع کتابانی القراٰن لمثل ھذا واشباھہ ولما یحتاج الیہ من علم فلما رجعت الی البصرۃ علمت کتاب الذی سمیتہ المجاز ۔ مراۃ الجنان یافی صفحہ لکھی ہیں۔ چنانچہ تاریخ یا فعی میں لکھا ہے کہ اس مباحثہ کے بعد ابوعبیدہ نے اسی دن سے ارادہ کیا کہ وہ قرآن کے اس قسم کے الفاظ کے بیان میں ایک کتاب لکھے اور جب وہ بصرہ میں واپس آگیا تو اس نے کتاب لکھی اور اس کا نام مجاز رکھا۔ افسوس ہے کہ اس قسم کی کتابیں دستیاب نہیں ہوتیں ہمارے زمانہ کے عالم ان کتابوں سے تاواقف محض ہیں۔ اور جب کوئی شخص جس کو خدا نے بصیرت دی ہے قرآن مجید پر غور کرکے اور تمام حالات کو پیش نظر رکھ کے اس قسم کے الفاظ کی نسبت کچھ لکھتا ہے تو ان کو ایک نئی بات معلوم ہوتی ہے اور چونکہ اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو نص کے برخلاف ہے حالانکہ جس کو وہ نص سمجھتے ہیں درحقیقت وہی نص کے برخلاف ہے۔
سے جس طرح کہ لوگ اس پر یقین کرتے ہیں اور عرف علم میں جس طرح پر وہ سمجھا جاتا ہے اس کی کچھ اصلیت نہیں ہے اور نہ قرآن مجید سے اس کی تصدیق پائی جاتی ہے۔ ہاں تمام انسانوں میں خواہ وہ انبیاہوں یا اولیا یا عوام الناس اور کسی مذہب کے ہوں حتیٰ کہ حیوانوں میں بھی ایک قسم کی قوت مقناطیسی موجود ہے جو خود اس پر اور نیز دوسروں پر ایک قسم کا اثر پیدا کرتی ہے۔ یہ قوت بمقتضائے خلقت بعضوں میں ضعیف اور بعضوں میں قوی اور بعضوں میں اقوے ہوتی ہے۔ اور جس طرح اور قوائے انسانی ورزش سے قوت پکڑتے ہیں جیسے کہ پنجہ کشی کی ورزش سے پنجہ ہیں۔ کلائی کی ورزش سے کلائی میں زیادہ قوت آجاتی ہے اسی طرح اس قوت دماغی میں بھی خاص قسم کی ورزش سے قوت زیادہ ہوجاتی ہے۔
انسان جو خواب میں عجیب عجیب چیزیں دیکھتا ہے اور عجیب واقعات و حالات اس پر گزرتے ہیں جن کو وہ سمجھتا ہے کہ درحقیقت وہ تمام چیزیں موجود ہیں اور فی الواقع و حالات اس پر گزر رہے ہیں اسی قوت کے اثروں میں سے ہے حالانکہ وہ چیزیں درحقیقت نہ موجود ہوتی ہیں اور نہ فی الواقع وہ حالات اس پر گزرتے ہیں۔
یہ کیفیت جس طرح کہ خواب طبعی میں ہوتی ہے کبھی حالت بیداری میں بھی پیدا ہوجاتی ہے آدمی سمجھتا ہے کہ میں جاگتا ہوں اور درحقیقت وہ جاگتا بھی ہوتا ہے مگر اس پر ایک قسم کی خواب طاری ہوجاتی ہے جو خواب مقناطیسی سے تعبیر کی جاسکتی ہے اور اس حالت میں انسان ایسی چیزوں کو موجود دیکھتا ہے جو فی الحقیقت موجود نہیں ہیں اور ایسے واقعات اپنے گزرتے ہوئے یقین کرتا ہے جو درحقیقت اس پر نہیں گزرتے۔
یہ قوت مقناطیسی جس میں قوی ہوتی ہے وہ دوسرے شخص پر بھی ڈال سکتا ہے اور اس دوسرے شخص پر بحالت بیداری ایک قسم کی خواب مقناطیسی طاری ہوتی جاتی ہے۔ کبھی وہ دوسرا شخص جاگتا رہتا ہے اور خواب مقناطیسی اس پر طاری رہتی ہے اور کبھی وہ اس خواب مقناطیسی میں بےہوش ہوجاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوتا ہے۔
اس قوت مقناطیسی سے کیا کیا چیزیں ظہور میں آتی ہے بحث طلب ہیں جو لوگ اس فن کے عامل ہیں وہ اس قوت سے بہت سی عجائب و غرائب چیزوں کے ظہور کا دعویٰ کرتے ہیں مگر جب تک وہ تجربہ اور مشاہدہ میں نہ آویں اس وقت تک ان کے صحیح و غیر صحیح ہونے کا فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں صرف ان باتوں کے وجود سے یا ان کے ظہور پذیر ہونے سے انکار کیا جاسکتا ہے جو معلور قوانین قدرت کے برخلاف ہیں۔ باایہنمہ جو امور کہ اس سے ظور میں آویں وہ صرف خیالی اور وہمی ہوتے ہیں جیسے خواب کی چیزیں نہ اصلی اور واقعی۔
یہ قوت بعض آدمیوں میں خلقی نہایت قوی ہوتی ہے اور جو لوگ مجاہدات کرتے ہیں اور لطانف نفسانی کو متحرک کرتے ہیں خواہ وہ ان مجاہدات میں خدا کا نام لیا کریں یا آؤ کسی کا ان میں بھی یہ قوت نہایت قوی ہوجاتی ہے اور اس کے اثر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ ان اثروں کو جب کہ مسلمانوں سے ظاہر ہوتے ہیں مسلمان کرامت سے تعبیر کرتے ہیں اور جب کہ غیر مذہب والے سے ظاہر ہوتے ہیں اس کو استدراج سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ دونوں کی اصلیت واحد ہے۔ بہرحال جو کچھ اس سے ظاہر ہو اس کا کوئی وجود اصلی و حقیقی نہیں ہے بلکہ صرف وجود وہمی و خیالی ہے۔
اسی قسم کی تاثیرات نفسانی کے ظہور کو جب کہ ان کا برانگیختہ کرنا ایسے مجاہدات سے کیا گیا ہے جو خدا کے سوا اور اشیا یا اشخاص کے تصور و تذکر سے تعلق رکھتے ہیں سحر سے تعبیر کیا گیا ہے اگرچہ صاحب تفسیر کبیر نے بھی سحر کی نسبت بہت یعنی بحث لکھی ہے۔ مگر ابن خلدون نے اس بحث کو نہایت خوبی سے صاف صاف مختصر طور پر لکھا ہے۔ جس کو ہم بجنسہ اس مقام پر نقل کرتے ہیں چنانچہ انھوں نے لکھا ہے کہ۔
حقیقۃ السحر وذلک ان النفسوس البشریۃ والکاتت واحدۃ بالنوع فھی مختنقۃ بالحواس وحی اصفات کل صنعت مختص سحر کی حقیقت یہ ہے کہ نفوس انسانی اگرچہ نوبشریت کے لحاظ سے متحد ہیں مگر خاصیتوں کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ اور بخاصیۃ ولحدۃ بالنوع لا توجبد فی الصنف لا خرو صارت تلک الخواص فطرۃ وجبلۃ لصنفرا فنفوس الانبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام ھا خاصیۃ استعدی للمعرفۃ الربانیۃ و مخاطبۃ الملائکۃ علیھم السلام عن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی امرو ما یتبع ذلک عن التاثیر فی الاکوان واستجلاب روحانیۃ الکواکب التصرف فیھاوان ماتیر بقوۃ نفسانیۃ او شیطانیۃ فاما تاغیرالا بنیاء فددالھی و خاصیۃ ربانیۃ ونفوس الکھنۃ صاحا صبیدالا طعیع علی انغیبات بقوی شیطانیۃ وھکذا کل حنف مختصن بخاصیۃ لا توجد فی الاخر والنفوس انساحرۃ علی من انب ثلاثہ یاتی شرجھانا ۔ الجا الموثرۃ بالھمۃ فقط من غیر اللۃ ولا مبعین ھذا ھوالذی تسمیۃ الفلاسفہ سحر والشافی بمعین من مزاج الا فلاک والصنا صرا او خواص الا علا دو یسمونھا الطلسمات وھی اضعف رتبۃ من الا ول و ثالث تاثیر فی القویٰ المتخیلۃ فیہ صرف دہلنوع من التصرف ویلی فیھا انواعا من الخیالات والمحاکات وصورا مما یقصد من ذلک ثم ینزبلھا انی الحسن من الرائین بقوۃ نفسہ الموثرۃ تینہ فینظر لراؤزکایھا فی الحارج ولیس ھناک شیئا من ذلک کما یجعل عن بعضھم انہ یرید البسین والا لھار والقصور والیس ھناک شی من ذلک ویسمی ھذا عندالفلا سنتہ انشعودۃ والشعبدۃ ھذا تفصیل مراتبدتم ھذہ الخاصیۃ
وہ چند قسم کے ہیں۔ ہر ایک قسم ایک نوع خاص کی خاصیت کے ساتھ مخصوص ہے کہ جو دوسری قسم میں نہیں پائی جاتی۔ اور یہ خاصیتیں ان کی جبلت اور سرشت ہیں۔ پس انبیاء (علیہم السلام) کے نفوس کو ایک خاص مناسبت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ خدا کی معرفت اور فرشتوں سے (جو خدا کی طرف سے آتے ہیں) بات چیت کی۔ اور اس قسم کے اور کام کی یعنی موجودات میں تاثیر کی۔ اور ستاروں کی روحانیت کی تسخیر کی ان میں تصرف کرنے کی غرض سے قائل ہوتے ہیں۔ اور تاثیر قوت نفسانیہ سے ہوتی ہے یا شیعانیہ سے۔ لیکن انبیاء کی تاثیر تو وہ امداد الٰہی اور خاصیت ربانی سے اور جادو گروں کے نفوس کو غائب چیزوں پر اطلاع حاصل کرنے کی خاصیت قوائے شیطانیہ کے ذریعہ سے ہے۔ اور اسی طرح ہر ایک قسم ایک خاصیت کے ساتھ مخصوص ہے جو کہ دوسری میں نہیں پائی جاتی۔ اور جادو گروں کے نفوس کے مختلف درجے ہیں جن کی تفصیل آتی ہے۔ قسم اول تو صرف ہمت کے بذریعہ سے بغیر کسی آلہ اور مددگار کے تاثیر کرنے والی ہیں اور فلاسفہ اسی کو سحر کہتے ہیں۔ دوسری قسم بذریعہ کسی معین کی تاثیر کے ہے یعنی افلاک یا عناصر کے مزاج یا عدو وں کی خاصیتوں سے۔ اور اس کو طلسمات کہتے ہیں۔ اور یہ قسم اول سے رتبہ میں کم ہے تیسری قسم خیالی قوتوں میں تاثیر کرتا ہے۔ اس تاثیر والا آدمی تو اے متخیلہ کی طرف توجہ کرتا ہے پس ان میں ایک خاص قسم کا تصرف کرتا ہے۔ اور ان میں طرح طرح کے خیالات ور گفتگو اور صورتیں جو کچھ اس کو مقصود ہوتی ہیں ڈالتا ہے پھر ان کو دیکھنے والوں کی حس پر ڈھالتا ہے اپنے نفس موثرہ کی قوت کے ذریعہ سے۔ سو دیکھنے والے ایسا دیکھتے ہیں کہ گویا وہ خارج میں موجود ہیں تکون فی الساحر بالقوۃ غازی القوی لبشریۃ کلھا وانما تخرج الی الفعل بالریاضۃ (مقدمہ این خلدون صفحہ)
اور حالانکہ وہاں کچھ نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ باغ۔ نہریں۔ مکانات دیکھتے ہیں اور وہاں کچھ نہیں ہوتا۔ فلاسفہ کے نزدیک یہ شعور دیا شعبدہ ہے۔ یہ اس کے مراتب کی تفصیل ہے۔ پھر یہ خاصیت ساحر میں اور قواے بشریہ کی طرح بالقوہ موجود ہوتی ہے مگر ریاضت کرنے سے بالفعل موجود ہوجاتی ہے۔
ابن خلدون نے جو سحر کے تین درجے قرار دیئے ہیں حقیقت میں وہ تینوں سے واحد ہیں پہلا درجہ صرف ہمت کی تاثیر قرار دیا ہے اور تیسرا درجہ متخیلہ میں چیزوں کام جمع کرکے دوسرے کے منخیلہ میں اس کا القاء کرنا قرار دیا ہے۔ یہ قسم درحقیقت صرف ہمت ہی سے متعلق ہے کوئی شے اس سے علیحدہ نہیں ہے دوسرا درجہ امداد کا مزاج افلاک و عناصر اور خواص اعداد سے قرار دیا ہے حالانکہ اس بات کے لیے کہ افلاک و کواکب واعداد سے درحقیقت اس میں کچھ اعانت ہوتی ہے کچھ ثبوت نہیں ہے پس یہ دوسری قسم محض فرضی ہے اور تینوں قسمیں قسم واحد ہیں۔ یعنی صرف ہمت سے تاثیرات کا ظہور۔
والفرق عندھم بین المعجزۃ و السحران المعجزۃ قوۃ الھیۃ بتعث فی النفس ذلک التاثیر فھو موئد بروج علے فعلہ ذلک والساحر انما یفعل ذلک من عند نفسہ و بقوتہ النفس نیۃ و باملا و الشیاطین فی بعض الاحوال فبیمنھما زلفرق فی المعقولیۃ والحقیقۃ والذات فی نفس الا مروئما لستدب نحن علی التفرقۃ بالعلا مائنا الظاھرۃ وھی وجود المعجزۃ نصاحب الخیرونی مقاصدا الخیر وللنفوس المتحمضۃ للخبیر والتجدی بھا علی ادعو النبوۃ والسحر انما یوجد الصاحب الشرونی فعال الشر فی لغالب من التطریق بین الزوجین وضرر الا عداء وامثال ذلک وللنفوس
اسی قوت نفسی کے آثار جب انبیاء (علیہم السلام) سے ظاہر ہوتے ہیں تو اس کو معجزہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ابن خلدون نے معجزہ اور سحر میں یہ فرق بتلایا ہے کہ۔ ان کے نزدیک (یعنی حکمائے الیین کے نزدیک) معجزہ و سحر میں یہ فرق ہے کہ معجزہ ایک قوت الٰہی ہے جو نفس میں اس تاثیر کو برانگیختہ کرتی ہے۔ پس وہ شخص (صاحب معجزہ) اس کام کے کرنے میں خدا کی روح سے تالید یافتہ ہوتا ہے۔ اور ساحر اسی کام کو اپنی طرف سے اور قوت نفسانیہ کے ذریعہ سے اور بعض حالتوں میں شیاطین کی مدد سے کرتا ہے۔ پس ان دونوں میں معقولیت۔ حقیقت۔ ذات۔ کی رو سے ایک واقعی فرق ہے۔ اور ہم اس تفرقہ پر ظاہری علامتوں سے استدلال کرتے ہیں اور وہ یہ کہ معجزہ اچھے شخص سے اچھے مقصدوں کے لیے ہوتا ہے اور نفوس متمخصہ سے اچھے کام کے لیے دعوے نبوت پر تحدی کے لیے ہوتا ہے۔ اور المتمحضۃ للشرھذا ھوا الفرق بینھماعندالحکماء الا الٰھیین وقدیو جدلبعض المتصوندوادحاب الکرامات تاثیر ایضا فی الاحوال العالم ولیس معدوا من جنس السحر وانماھو بالا مذادالا لٰھی لا کان طریقتھم و نحلتم من اثار النبوۃ وتوابعھا ولھم فی المدد الا لٰھی حظ علیٰ قدر حالھم وایمانھم علے افعال الشرفلا یانیھا لانہ متقید فیما یانیہ ویذرہ للامن الا لٰھی فما لا یقع لھم فیہ الاذن لا یا تو نہ بوجہ ومن اتاہ منھم فقد عدل عن طریق الحق وربما سلب حالہ ولما کانت المعجزۃ باملا دروح اللہ و القوی الا لھبۃ فلذلک لا یعارضھا شی من السحر۔ مفتد مہ ابن خلدون صفحہ واما الفرق عندھم بین لمعجزۃ السحر الذی ذکرہ المتکلون انہ راجع ان لتجدی وھو دعویٰ وقرع با علی وفق ماادعاہ قالووالسحر مصروف عن مثال تحدع منہ وو قوع المعجزۃ عطے وقوۃ موئے اکاذب بغیر مقدرہ فی المعجزۃ علی الصدق عقلیتہ لان صففا لقرجا التصدیق فلووقعت مع الکذب لا ستحال اردق کا ذباوھو محل فاذا الا نقع المعجزۃ بیاہ ماعندھم کما ذکرتا فری بین الخیر والشرفی نھایت الطرفین فا السحر لا یصدر مرالحیرولا یستعمل فی سباب الخیر
تفسیر سر سید
سحر برے آدمی سے برے کام کے لئے۔ اکثر مرد و عورت میں جدائی ڈالنے کے لیے دشمنوں کو ضرر پہنچانے کے لیے اور اسی قسم کے کاموں کے لیے ہوتا ہے۔ اور نفوس متمحضہ سے شر کے لیے ہوتا ہے۔ حکمائے الٰہیین کے نزدیک تو معجزہ و سحر میں یہ فرق ہے۔ اور کبھی بعض صوفیوں سے اور کرامت والوں سے عالم کے حالات میں تاثیر پائی جاتی ہے مگر اس کا شمار سحر کی جنس میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ تائید الٰہی سے ہوتا ہے کیونکہ ان کا طور و طریق نبوت کے آثارات اور توابع میں سے ہے۔ اور تائید الٰہی میں علیٰ قدر مراتب اور خدا سے تقرب کے لحاظ سے ان کو بھی حصہ ملا ہوا ہے اور جب ان میں کوئی شخص افعال شریر قادر ہوتا ہے تو اس کو کر نہیں سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے کام میں پابند ہے اور اس کو خدا کے حکم پر چھوڑ رکھا ہے اور جس میں خدا کا حکم نہیں ہوتا اس کو وہ کسی طرح نہیں کرتا۔ اور اگر کسی نے کیا تو وہ راہ حق سے منحرف ہوگیا اور اکثر اس کی کرامت منسوب ہوجاتی ہے۔ اور چونکہ معجزہ خدا کی مدد اور خدائی قوتوں کی وجہ سے ہوتا ہے تو سحر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن ان لوگوں کے نزدیک معجزہ و سحر میں فرق یہ ہے کہ متکلمین تو کہتے ہیں کہ اس کا مرجع تحدی کی طرف ہے اور تحدی کے معنی ہیں معجزہ کے وقوع کا دعویٰ کرنا اپنے دعوے کے موافق۔ اور متکلمین کہتے ہیں کہ ساحر اس قسم کی نخدی سے معذور ہے۔ اس لیے اس سے نخدی ہو نہیں سکتی۔ اور جھوٹے شخص کا دعویٰ کے موافق وصاحب المعجزۃ لا یصدر مندالشر ولا یستعمل فی اسباب الشرو کانھما علے طرفی النقیبض فی اصل فطرتھما۔ مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۔
معجزہ کا واقع ہونا نہ ممکن ہے کیونکہ معجزہ کی دلالت سچائی پر عقلی ہے اس لیے کہ معجزہ تصدیق کی خاص صفت ہے تو وہ اگر جھوٹ کے ساتھ واقع ہو تو سچی چیز جھوٹی ٹھہر جائے پس معجزہ مطلقہً جھوٹے سے نہیں سرزد ہوسکتا۔ لیکن حکما کے نزدیک تو جیسا ہم نے ذکر کیا معجزہ و سحر میں خیر و شر کا فرق ہے اور وہ بھی انتہا کے کفاروں کا تو ساحر سے اچھا کام نہیں ہوتا اور نہ وہ اس کو اچھے کام کے اسباب میں صرف کرتا ہے۔ اور صاحب معجزہ سے شر نہیں صادر ہوتا نہ وہ اس کو اسباب شر میں استعمال کرسکتا ہے۔ گویا وہ دونوں خلقت ہی سے مخالفت کی اخیر سرحد پر ہیں۔
لا تستبعدن ان یکون لبعض النفوس ملکۃ یتعدی تاگیر ھا بدبھا ایوکون لقو تھا کانھا نفر ما للعالم وکما تاثر بکیفیۃ مزاجیۃ یکون قداثرت لبد اجمیع ما صددتہ اذمبادیما ھذہ الکیفیات لا سیمافی جرم مارا دل بہ لمنا سبۃ تخعہ مع بدنہ لا سیماوقد علمت انہ لیس کل مسخن یحاروہ کل مبر دیاردولا تسنکرک ان یکون لبعض اننفوس ھذہ القرۃ حتی یفعل فی اجرام، خرینفص عنھا الفعال بدنہ ولا یستنکرن ان یتعدی من قواھا الخاصۃ الی قوی نفوس اخری یفعل فیھا لا بینما اذا کانت سحذت ملک تھا یقھر قوھا البدنیۃ التی لھا فتقھر شھوۃ اوغضبا اوخوفامن نیرھا۔ ھذہ القرۃ ربما کانت للنضربحسب المزاج الا صلی
بو علی سینا نے معجزہ یا کرامات کی نسبت یہ لکھا ہے کہ۔ تم اس بات کو بعید نہ سمجھو کہ بعض نفسوں لا تستبعدن ان یکون لبعض النفوس کو ایسا ملکہ ہو جس سے اس کی تاثیر اس کے بدن تک پہنچے یا وہ اپنی قوت کی وجہ سے گویا کہ ظالم کے لیے بمنزلہ نفس کے ہو ۔ اور جیسا کہ وہ کیفیت مزاجیہ کی وجہ سے اثر کرتی ہے تو وہ کسی مبدء کی وجہ سے وہ سب اثر کرے جن کو ہم نے گنایا ہے کیونکہ اس کے مبادی بھی کیفیتیں ہیں خصوصاً اس جرم میں جس کے ساتھ وہ زیادہ مناسب ہے توجہ اس مناسبت کے جو کہ اس کو اپنے بدن کے ساتھ ہے بالخصوص جب تم یہ بات معلوم کرچکے ہو کہ بہر مسخن گرم نہیں ہے
نہ ہر سرد سرد ہے۔ اور اس بات کا انکار نہ کرو کہ بعض نفسوں کو یہ قوت اس درجہ تک ہو کہ دوسرے اجسام میں اثر کرے اور وہ ایسا ہی منفعل ہو جیسا کہ اس نفس کا بدن۔ اور اس بات کا انکار نہ کرو کہ وہ اپنی خاص قوت سے تجاوز کرکے دوسرے نفسوں پر اثر کرے خصوصاً جب کہ اس نے اپنے ملکہ کو توڑے مدینہ لما یفیدہ من ھیئۃ نفسا نیۃ تصیر النفس الشخصیۃ لتشخصھا وقد تحصل المزاج یحصل وقد یحصل بضرب من الکسب یجعل النفس کا للجردۃ للندۃ الذکاء کما یحصل للاولیاء وملابرار۔ والذی یقع لہ ھذا فی جبلۃ النفس ثم یکون خیر ا رشید مز کیا لنفسہ فھوذومعجزۃ من الانبیاء او کر امۃ من الاولیاء وتزیدہ تزکیۃ لنفسا من مذا المعنی زیادۃ عمی مقتضی جبلۃ فیبلغ المبلغ لا قصی والذی یقع لدھذاثم یکون شریر ویستعمہ فی الشر فھو الساحر الخبیث وقدیکسر نذر نفسہ من غلونہ فی ھذا المعنی فلا یلحق شیئا من الا ذ کیا وفیہ ماشارت ابو علی سینا۔
کے زیر کرلینے سے تیز کرلیا ہو ۔ پس وہ دبالیتا ہے شہوت کو یا غصہ کو یا دوسرے سے خوف کو۔ یہ قوت اکثر نفس کو اصلی سرشت کے اعتبار سے ہوتی ہے جو کہ اس کو ہیئت نفسانیہ سے پہنچتی ہے اور نفس شخصیہ کے لیے بذاتہا ہوتی ہے اور کبھی کسی مزاج کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اور کبھی کسی قسم کی کوشش کی وجہ سے ہوتی ہے جو کہ نفس کو نہایت تیزی کی وجہ سے مجردسابنا دیتی ہے جیسا کہ اولیا اور نیک لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ اور جس شخص کی سرشت میں یہ قوت ہو پھر وہ شخص نیک ہدایت یافتہ ہو اور اس کا نفس پاک ہو تو وہ نبی اور صاحب معجزہ ہوتا ہے یا ولی صاحب کرامت ہوتا ہے اور جب وہ نفس کا تزکیہ کرتا ہے تو اصل خلقت سے اور زیادہ ترقی کرجاتا ہے اور نہایت اونچے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ اور جس کو یہ قوت ہے اور وہ شریر ہے اور اس قوت کو برے کام میں صرف کرتا ہے تو وہ خبیث ساح رہے اور کبھی وہ اس کام میں زیادہ غلو کرنے کی وجہ سے اپنے نفس کی قدر کو اور بھی گھٹا دیتا ہے تو وہ اچھوں کی کسی بات کو نہیں پہنچتا۔
ہم کو اس مقام پر اس بات سے بحث کرنی کہ معجزہ و سحر میں کیا فرق ہے اور انبیاء (علیہم السلام) سے جو اثر نفسی ظاہر ہوتے ہیں وہ کس مبدہ سے ہوتے ہیں اور اولیاء اللہ سے کس کی تائید سے اور کفار و مشرکین یا خبیث انسانوں سے کس کی مدد سے کچھ ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے اور جس سے ہوتا ہے وہ خود اس کے اثر نفسی سے ہوتا ہے جو حسب فطرت انسانی خدا نے اس میں اور کسی نہ کسی قدر تمام انسانوں میں رکھا ہے۔ پس اگر یہ سچ ہے تو ہم اس کو نہ معجزہ قرار دے سکتے ہیں نہ سحر نہ کرامت اور نہ استہ راج۔ جیسے کہ ہم انسان کے دوسرے قویٰ کے اثروں کو بھی معجزہ یا سحر یا کہ امت یا استدراج قرار نہیں دیتے۔
علاوہ اس کے جب کہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اکثر ان اثروں کا ظہور ایسا ہی خیالی و وہمی ہے جیسے کہ خواب میں ان چیزوں کا ظہور جن کو دیکھنے والا صرف خواب ہی میں دیکھتا ہے اور ان کا وجود درحقیقت اور فی الواقع کچھ نہیں ہوتا تو ہم کو جرات نہیں پڑتی کہ ایسی بےاصل چیزوں کو فخریہ طور پر انبیاء (علیہم السلام) کے معجزے اور اولیاء اللہ کی کرامتیں اور بےاعتقادی سے کافروں کا سحر اور استدراج قرار دیں۔
ہم کو اور اسلام کو تو فخر اس بات پر ہے کہ ہمارے رسول برحق پیغمبر خدا محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صاف صاف کہہ دیا کہ میرے پاس تو کوئی معجزہ و عجز نہیں ہے اگر ہوگا تو خدا کے پاس ہوگا میں تو مثل تمہارے ایک آدمی ہوں خدا نے مجھ کو وحی کی ہے میں تم کو بری باتوں سے ڈراتا ہوں اور اچھی باتوں کی خوشخبری دیتا ہوں۔
ہم کو اور اسلام کو تو اس سچے ہادی پر فخر ہے جس نے نہ لکڑی کو سانپ کر دکھایا اور نہ اپنے دست مبارک کو چمکایا نہ سچی بات پر کچھ پردہ ڈالا۔ نہ خدا کی قدرت کے قانون کو توڑنے کا دعویٰ کیا اور سیدھی طرح لوگوں کو سچا رستہ بتایا اور فخر اولین اور آخرین اور خاتم النبیین ہونے کا درجہ پایا۔ یا ایھا الذین امنوا صلو علیہ وسلموا تسلیما۔
سوم۔ بیان تخیل تحرک حبل وعصائے سحرہ فرعون
چہارم۔ بیان عصائے موسیٰ (علیہ السلام)
پنجم۔ بیان یدبیضاء
یہ تینوں امر ایسے ہیں جن کا یک شامل بیان کرنا مناسب ہے۔ اس مقام پر ہم ان تمام آیتوں سے بحث کرینگے جن میں ان امورسہ گانہ کا ذکر ہے۔
ثعبان
اس میں کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ مصر میں جس قدر ان لوگوں کی کثرت تھی جو ساحر کہلاتے تھے اور جو جو کرشمے وہ لوگوں کو دکھاتے تھے اس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بخوبی واقف تھے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی ہمدردی اور اپنی قوم کو فرعون کے ظلم سے رہائی دینے پر مائل یا مامور ہوئے تو یہ ایک قدرتی بات ہے کہ ان کو اس بات کا خیال ہوا ہوگا کہ وہاں تو بڑے بڑے کرشمے دکھانے والے ہیں میں ان کیونکر غالب آؤں گا ۔ ان کو خدا نے بتایا کہ تو بھی ویسے
وما تلک بیمینک یا موسیٰ فال ھی عصای اتوکو علیھا واھش بھا علیٰ غنمی ولی فیھا مارب اخری قال القیھا یا موسیٰ فالقاھا فاذا ھی حیۃ تسعی۔ قال خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتھا الاولی۔ واضم یدک الی جناحک تخرج بیضاء من غیر سوء ایۃ اخریٰ ۔ (سورہدایت - )
ہی کام کرسکتا ہے۔ خدا نے وچھا کہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے موسیٰ نے کہا میری لاٹھی ہے جس کو میں نیک لیتا ہوں اور اس سے بھیڑوں کو نکاتا ہوں اور میرے اور کام میں بھی آتی ہے۔ خدا نے کہا اے موسیٰ اس کو ڈال تو دے پھر جب موسیٰ نے اس لاٹھی کو قال دیا تو وہ یکایک اژدھا تھی چلتی ہوئی۔ خدا نے کہا اس کو اٹھالے اور مت ڈر ہم اس کو پہلی ہی سیرت پر پھر کردینگی اور اپنے ہاتھ کو نقل میں رکھ کر نکال چٹا بےعیب یہ دوسری نشانی ہے۔
وَاَلْقِ عَصَاكَ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَانٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْ يٰمُوْسٰي لَا تَخَفْ اِنِّىْ لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُوْنَ 10ڰ وَاَدْخِلْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوْءٍ فِيْ تِسْعِ اٰيٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهٖ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ 12 (سورة نمل - )
یہی مضمون سورة نمل میں بھی آیا ہے خدا نے موسیٰ سے کہا کہ اپنی لاٹھی ڈال دے جب موسیٰ نے دیکھا کہ وہ تو ہلتی ہے گویا وہ اژدھا ہے تو پیٹھ پھیر کر پیچھے ہٹے اور پھر پلٹ کو رخ نہ کیا خدا نے کہا اے موسیٰ مت ڈر میرے پاس پیغمبر نہیں ڈرا کرتے۔ اور اپنے ہاتھ کو اپنی جیب میں ڈال کر نکال چنا بےعیب۔ (جا) نو نشانیاں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس بیشک وہ قوم ہے نافرمان۔
وَاَنْ اَلْقِ عَصَاكَ ۭ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَاۗنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْ ۭ يٰمُوْسٰٓي اَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ ۣ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِيْنَ 31 اُسْلُكْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْــرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوْءٍ وَّاضْمُمْ اِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَاىِٕهٖ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ 32 (سورة قصص - )
سورة قصص میں یہ فرمایا ہے کہ اپنی لاٹھی ڈال پھر جب موسیٰ نے دیکھا کہ وہ ہلتی ہے گویا کہ وہ اژدھا ہے پیٹھ پھیر کر پیچھے ہٹے اور پھر پلٹ کر رخ نہ کیا خدا نے کہا اے موسیٰ آگے اور مت ڈر بیشک تو ہوئے امن والوں میں سے اپنے ہاتھ کو اپنی حبیب میں ڈال کر چٹا بےعیب نکال اور اپنے دونوں بازوؤں کو خوف سے ملا پس یہ دونوں دو برہان ہیں تیرے رب کی طرف فرعون کے اور اس کے سرداروں کے بیشک وہ لوگ نافرمان تھے۔
ان آیتوں پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کیفیت جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر طاری ہوئی تھی قوت نفس انسان کا ظہور تھا جس کا اثر خود ان پر ہوا تھا۔ یہ کوئی معجزہ مانوں الفطرت نہ تھا۔ اور نہ اس پہاڑ کی تلی میں جہاں یہ امرواقع ہوا کسی معجزہ کے دکھانے کا موقع تھا۔ اور نہ یہ تصور ہوسکتا ہے کہ وہ پہاڑ کی تلی کوئی کتب تھا جہاں پیغمبروں کو معجزے سکھائے جاتے ہوں اور معجزوں کی مشق کرائی جاتی ہو ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میں ازروے فطرت جبلت کے وہ قوت نہایت قوی تھی جس سے اس قسم کے اثر ظاہر ہوتے ہیں۔ انھوں نے اس خیال سے کہ وہ لکڑی سانپ ہے اپنی لاٹھی پھینکی اور وہ ان کو سانپ یا اژدھا دکھائی دی یہ خود ان کا تصرف اپنے خیال میں تھا وہ لکڑی لکڑی ہی تھی اس میں فی الواقع کچھ تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ خدا تعالیٰ نے کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ فانقلبت العصا ثعبانا۔ یعنی وہ لاٹھی بدل کر اژدھا ہوگئی بلکہ سورة نمل میں فرمایا۔ کانھا جان۔ یعنی گویا وہ اژدھا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ درحقیقت وہ اژدھا نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ لاٹھی کی لاٹھی ہی تھی۔
فالقے عصاہ فاذاھی ثعبان مبین (سورة اعراف ، سورة شعرا )
اس کے بعد جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے پاس گئے تو فرعون نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی کرشمہ دکھاؤ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی کو اس کے آگے ڈال دیا پھر وہ یکایک اژدھا ظاہر ہوئی۔
اعلم قولاولو جبئتک بشیء مبین یدل علیٰ ان اللہ تعالیٰ قبل ان القی العصاعرفہ بانہ بصیرھا ثعبانا ولولا ذلک لما قال ما قال فلما القی عصاہ ظھر ما وعد اللہ بہ فصار ثعبانا مبینا والمراد انہ تبین لناظرین انہ ثعبان بحرکاتہ وسائر العلامات (تفسیر کبیر جلد صفحہ ) صاحب تفسیر کبیر نے باوجودیکہ نہایت بےسروپا قصے ان واقعات کی نسبت لکھے ہیں مگر ان کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا ہے کہ وہ لاٹھی دیکھنے والوں کو اژدھا معلوم ہوئی نہ یہ کہ درحقیقت وہ اژدھا ہوگئی تھی چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ۔ خدا کا جو یہ قول ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا کہ اگر میں تجھ کو علانیہ کرشمہ دکھاؤں جب بھی تو مجھے قید کرے گا۔ تو یہ کہنا اس بات پر دلیل ہے کہ لاٹھی کے ڈالنے سے پہلے خدا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتلا دیا تھا کہ وہ اژدھا ہوجائیگی۔ کیونکہ اگر یہ نہ ہوتا تو جو بات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہی وہ نہ کہتے ۔ پھر جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی پھینکی تو وہ چیز ظاہر ہوئی جس کا وعدہ اللہ نے کیا تھا پھر لاٹھی علانیہ اژدھا ہوگئی اور علانیہ اژدھا ہوجانے سے مرد یہ ہے کہ وہ لاٹھی دیکھنے والوں کو ہلنے سے اور آؤر تمام نشانیوں سے اژدھا معلوم ہوئی۔
فَلَمَّا جَاۗءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَھُمْ مُّوْسٰٓى اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ 80 .فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰى مَا جِئْتُمْ بِهِ ۙ السِّحْرُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَيُبْطِلُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِيْنَ 81 (سورة یونس)
اس کے بعد وہ واقعہ ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور سحرہ فرعون میں واقع ہوا اور جس کا ذکر مندرجہ حاشیہ آیتوں میں ہے ان آیتوں کا مضمون یہ ہے کہ جب قال لحم موسیٰ القواما انتم ملقون فالفرا جالھم وعصبھم وقالوا بعزۃ فرعون انا النحر الغالبون فالقی موسیٰ عصاہ فاذاھی تلفف مایافکون۔ (سورة شعرا - ) قَالُوْا يٰمُوْسٰٓي اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِيْنَ ١١٥ قَالَ اَلْقُوْا ۚ فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِيْمٍ ١١٦ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَاِذَا هِىَ تَلْقَفُ مَا يَاْفِكُوْنَ ١١٧ۚ۔ (سورة اعراف - ) قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰي 65 قَالَ بَلْ اَلْقُوْا ۚ فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي 66 فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى 67 قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى 68 وَاَلْقِ مَا فِيْ يَمِيْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا ۭ اِنَّمَا صَنَعُوْا كَيْدُ سٰحِرٍ ۭ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى 69۔ ( سورة طہ - )
فرعون کے ساحر جمع ہوگئے تو انھوں نے کہا اے موسیٰ یا تو تم ڈالو نہیں تو ہم پہلے ڈالتے ہیں موسیٰ نے کہا کہ تم ہی ڈالو پھر جب انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور ان کو ڈرادیا اور ایک بڑا جادو کیا اور فرعون کی جے پکاری کہ ہم بیشک موسیٰ پر غالب ہونے پس یکایک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں موسیٰ کے خیال میں ان کے جادو کے سبب سے معلوم ہوئیں کہ وہ چلتی ہیں۔ پھر موسیٰ کے دل میں ڈر سا پیدا ہوا۔ ہم نے کہا کہ تو مت ڈر تو ہی ان پر غالب ہے۔ موسیٰ نے فرعون کے ساحروں سے کہا کہ جو کرشمہ تم نے کیا وہ جادو ہے اللہ تعالیٰ ابھی اس کو مٹادیگا بیشک اللہ مفسروں کے کام کو نہیں سنوارتا خدا نے موسیٰ سے کہا کہ ڈال دے جو تیرے دائیں ہاتھ میں ہے نگل جاویگا جو کچھ انھوں نے کیا ہے جو کچھ انھوں نے کیا ہے جادو گروں کا مکر ہے اور جادو گر کو جہاں جاوے فلاح نہیں ہے پس موسیٰ نے اپنی لاٹھی ڈال دی پھر یکایک وہ سب کو نگلنے لگی۔
سورة اعراف کی آیت میں جس پر باقی آیتیں مخمول ہیں الا نھا یفسر بعضھا بعضا ایک جملہ آیا ہے کہ سحروا اھبن الناس یعنی لوگوں کو ڈھٹ بندی کردی پس یہ جملہ صاف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ درحقیقت کی لاٹھیاں یارنیاں سانپ اور اژد ہے نہیں ہوگئی تھیں بلکہ یہ سبب تاثیر قوت نفس انسانی کے جو ساحروں نے کسب سے حاصل کی تھیں وہ رسیاں اور لاٹھیاں لوگوں کو سانپ اور اژدھے معلوم ہوتی تھیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ کیا وہ بمقتضائے قوت نفس انسانی تھا کوئی امر مافوق الفطرت نہ تھا مگر وہ قوت حضرت موسیٰ میں فطری اور حیلی تھی۔
ثم قال تعالیٰ فلما القوا سحروا اعین الناس واحتج انہ لقائیون بان السحر محض التمویۃ قال انقانی ولو کاں السحر حتما لکان مواتد سحروا
اس امر کو علمائے متقدمین نے بھی تسلیم کیا ہے چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ جب سحرہ فرعون نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں تو انھوں نے لوگوں کی آنکھوں قلوبھم لا اعینھم فتلت ان المراد نھم تخیلوا احوالا عجیبۃ مع ان الامرفی الحقیقۃ ماکان علیٰ وفق ماخیلوہ (تفسیر کبیر جلد صفحہ سورة اعراف)
پر جادو کیا تو جادو کے لفظ پر لوگوں نے دلیل پکڑی ہے کہ سحر صرف دھوکا ہے۔ قاضی کا قول ہے کہ اگر جادو برحق ہوتا تو وہ لوگوں کے دلوں پر جادو کرتی نہ کہ ان کی آنکھوں پر ۔ پس ثابت ہوا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے لوگوں کے خیال میں عجیب باتیں ڈالی تھیں با ایں ہمہ حقیقت میں وہ باتیں ایسی نہ تھیں جیسی کہ لوگوں کے خیال میں پڑی تھیں۔ یعنی وہ لاٹھیاں اور رسیاں درحقیقت سانپ اور اژدھے نہیں بنی تھیں بلکہ صرف لوگوں کے خیال میں ایسی معلوم ہوتی تھیں اور یہ بات اسی تاثیر قوت نفس انسانی کے سبب تھی جو ساحروں میں بذریعہ کسب اور موسیٰ میں بحسب فطرت تھی مگر حقیقت میں نہ ساحروں کی رسیاں اور لاٹھیاں سانپ اور اژدھا بنی تھیں اور نہ حضرت موسیٰ کی۔
ششم ۔ قتل اولاد
واذا نجیناکم من ال فرعون یسومونکم سوء العذاب یذبحون ابناءکم ویستحیون نساءکم وفی ذلکم بلاء من ربکم عظیم۔ (سورة بقرہ) اذنجینکم من ال فرعون یسومونکم سوء العذاب یقتلون ابناءکم ویستحیون نساءکم وفی ذلکم بلاء من ربکم عظیم۔ (سورة اعراف ) اذ قال موسیٰ لقومہ اذکرو نعمۃ اللہ علیکم اذا نجاکم من ال فرعون یسومونکم سوء العذاب ویذبحون ابناءکم ویستحیون نساءکم وفی ذلکم بلاء من ربکم عظیم۔ (سورة ابراھیم) ان فرعون علا فی الارض وجعل اھلھا شیعا یسضعف طائفۃ منھم بذبح ابناءھم ویستحیی نساءھم انہ کان من المفسدین ۔ وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ ۔ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ (قصص۔ ) فلما جاء ھم بالحق من عندنہ افسؤ اثیاوالذین امنوا معہ واستحیونہ وھم وما کیدلکانفرین لا فی ضلال۔ وقل فرعون ذرتی اقتل موسیٰ ولیدع ربہ انی اخاف نہ یبد دینکم اور ان یظھرنی الارض فساد۔ (سورة مومن)
بنی اسرائیل کے لڑکوں یا مردوں کا قتل کوئی ایسا امر نہیں ہے جس کو کسی کرشمہ کی بنا پر قرار دیا جاوے اگرچہ مفسرین نے اس کی بنا بھی ایک کرشمہ پر قائم کی ہی یعنی بعضوں نے تو یہ کہا ہے کہ کاہنوں نے فرعون سے کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکاپیدا ہوگا جو تیری سلطنت کو بربادکردے گا۔ پس اس تاریخ میں جو کاہنوں نے مقرر کی تھی جس قدر پیدا ہوئے ان کو فرعون نے مروا ڈالا۔ اور بعضوں نے کہا کہ یہ قتل صرف اس تاریخ پر منحصر نہیں رہا بلکہ یہ قتل صرف اس تاریخ پر منحصر نہیں رہا بلکہ یہ قتل برسوں تک جاری رہا اور نوے ہزار لڑکے قتل ہوئے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون نے ایک خواب دیکھا کہ بیت المقدس سے ایک آگ آئی اور اس آگ نے مصر کو گھیر لیا اور تمام قبطیوں کو جلا دیا اور صرف بنی اسرائیل بچ رہے لوگوں نے اس کی تعبیر دی کہ اس شہر سے جہاں سے بنی اسرائیل آئے ہیں ایک شخص آویگا اس کے ہاتھ سے مصر کی سلطنت برباد ہوگی اس پر فرعون نے بنی اسرائیل کے قتل کی بنا کسی اور کرشمہ پر بیان ہوئی ہے۔ قرآن مجید سے کہ بنی اسرائیل کی کثرت سے فرعون اور اس کے سرداروں کو اندیشہ ہوگیا تھا کہ یہ لوگ فساد کرکے مصر کی سلطنت کو برباد کردینگے اور اس کے انسداد کے لیے یہ تدبیر کی تھی کہ جو لڑکے پیدا ہوتے تھے ان کو قتل کرو اڈالتا تاکہ مرد جن سے لڑنے کا اور فساد ہونے کا اندیشہ تھا زیادہ نہ ہونے پاویں۔ چنانچہ سورة قصص میں صاف لکھا ہے کہ فرعون کی سلطنت ملک میں بہت زبردست ہوگئی تھی اور اس کے لوگوں کو گروہ گروہ کردیا تھا اور ایک گروہ کو یعنی بنی اسرائیل کو ان میں سے ضعیف کردیا تھا ان کے لڑکوں کو مار ڈالتا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھتا تھا خدا نے چاہا کہ اس ضعیف گروہ پر مہربانی کرے اور انھیں کو سردار بناوے اور انھیں کو وارث کرے اور ملک میں انہی کو قدرت دے اور دکھلاوے فرعون اور اس کے لشکر کو اس ضعیف گروہ سے وہ چیز جس سے وہ ڈرتے تھے۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ پہلی دفعہ یعنی قبل از ولادت حضرت موسیٰ جو فرعون نے قتل اولاد بنی اسرائیل کا حکم دیا تھا وہ صرف اس خوف سے تھا کہ وہ یہ سبب کثیر ہونے کے فساد کرکے ملک کو نہ چھین لیں ۔ کچھ عجب نہیں کہ یہ قتل کسی مدت تک رہا ہو اور پھر موقوف ہوگیا ہو۔
یہ پہلا حکم قتل اولاد بنی اسرائیل کا تھا مگر جب حضرت موسیٰ فرعون کے پاس آئے اور خدا کے حکم پہنچائے اور کہا کہ بنی اسرائیل کو چھوڑ دو اس وقت پر فرعون کو بنی اسرائیل کے فساد کرنے اور اپنی سلطنت کے زوال کا خوف ہوا اور دوبارہ اس نے تدبیر کی کہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو مار ڈالنا چاہیے۔ چنانچہ سورة مومن می خدا نے صاف بیان کیا ہے کہ جب ہمارے پاس سے سچی بات فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس پہنچی تو انھوں نے کہا مار ڈالو ان کے لڑکوں کو جو موسیٰ پر ایمان لائے ہیں اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھو اور فرعون نے ہا ٹھہرو میں موسیٰ کو مار ڈالونگا مجھ کو خوف ہے کہ وہ تمہارے دین کو بدل دے گا اور ملک میں فسادپھیلاوے گا۔ پس صاف ظاہر ہے کہ اسی خوف سے دونوں دفعہ فرعون نے بنی اسرائیل کے لڑکوں یا مردوں کے قتل کا حکم دیا تھا کوئی اور غیبی کرشمہ اس کی بنیاد نہ تھا۔
ہفتم قحط ۔ ہشتم طوفان۔ وجراد ۔ وقمل وضفادع۔ ودم
یہ تمام امور ایسے ہیں جو ہمیشہ دنیا میں موافق قانون قدرت واقع ہوتے رہتے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں بھی واقع ہوئے تھے۔ ایسے واقعات کو انسانوں کے گناہوں سے منسوب کرنا بھی قانون فطرت کے تابع ہے جس پر انبیاء (علیہم السلام) مبعوث ہوتے ہیں اس کی بحث قوم عاد کے قصہ میں بالتفصیل لکھ چکے ہیں اس طرح ان واقعات ارضی وسماوی کو بھی خدا تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کے گناہوں سے منسوب کیا ہے۔
قحط کوئی نئی بات نہیں تھی حضرت یوسف کے زمانہ میں بھی سخت قحط پڑا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں بھی قحط ہوا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصر میں مذکور ہے۔
طوفان۔
دریائے نیل کی زیادہ طغیانی سے ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی مینہ اور اولونکا طوفان بھی آجاتا ہے شام کے پہاڑوں سے اولے برستے ہوئے کبھی کبھی مصر تک پہنچ جاتے ہیں بجلی کی چمک اور گرج بھی ہوتی ہے (دیکھو کیٹو کی بلیلکل سیکلوپیڈیا صفحہ) جن ملکوں میں بارش قلیل ہوتی ہے اور اولے اتفاقہ پڑتے ہیں ان ملکوں میں اس قدر بارش بھی جو اور ملکوں میں معمولی خیال کی جاتی ہے نہایت سخت طوفان کا اثر دکھاتی ہے خصوصاً اس حالت میں جب کہ دریا کی طغیانی بھی اور خصوصاً نیل کیسے دریا کی طغیانی اس کے ساتھ ہو تو پھر قیامت ہی ہوتی ہے۔ پس موسیٰ کے عہد میں طوفان کا واقعہ ایک معمولی واقعہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ جو بزرگی اس میں تھی وہ صرف یہی تھی کہ اس زمانہ میں واقع ہوا جب کہ حضرت موسیٰ وہاں تشریف لے گئے تھے۔
جرادو قمل و ضفاوع۔ یعنی ٹڈیوں پسوؤں یا اسی قسم کے کسی جانوروں اور مینڈکوں کا کثرت سے پیدا ہوجانا خصوصاً طوفان اور دریائے نیل کے چڑھاؤ کے اترنے بعد ایک ایسی بات ہے جو قدرتی طور پر واقع ہوتی ہے حشرات الارض دفعۃً اس کثرت سے پیدا ہوجاتے ہیں جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ پس حضرت موسیٰ کے عہد میں ان حشرات الارض کا پیدا ہوجانا جس قدر کثرت سے وہ پیدا ہوگئے ہوں اور کیسی ہی سخت مصیبت ان کے سبب سے مصریوں پر پڑی ہو کوئی ایسی تعجب خیز بات نہیں ہے جس کو ایک لمحہ کے لیے بھی واقعہ مافوق الفطرت تصور کیا جاوے۔
دم کا لفظ البتہ لوگوں کو حیرت میں ڈالتا ہوگا۔ بعض مفسرین نے اس بات کو کہ تمام دریا اور حوض اور تمام پانی جو برتنوں میں تھا خون ہوگیا غیر قابل یقین خیال کرکے یہ لکھا کہ فرعون اور اس کی تمام قوم کو نکسیر بہنے یعنی ناک سے خون جاری ہونے کی بیماری ہوگئی تھی۔ گو کہ کسی وبا کا پھیل جانا خصوصاً قحط و طوفان کے بعد کوئی امر بعید از عقل نہیں ہے۔ لیکن اصل بات معلوم ہوتی ہے کہ دریائے نیل کا پانی اگرچہ عموماً نیلے رنگ کا رہتا ہے مگر کبھی طغیانی کے زمانہ میں اس کا رنگ سرخ لال اینٹ کے گہرے رنگ کی مانند ہوجاتا ہے (دیکھو کیٹو بیسبلکل سیکلوپیڈیا صفحہ ) اور (چیمبرڑا انسیکلوپیڈیا جلد سوم صفحہ) اور جب کبھی نباتی مادہ کثرت سے آجاتا ہے تو سبز ہوجاتا ہے (دیکھو انسیکلوپیڈیا برطینیکا صفحہ ) پس اسی قسم کے واقعات کے سبب سے اس کا پانی سرخ ہوگیا ہوگا جس کو دم سے تعبیر کیا ہے۔
بعض اوقات پانی میں نہایت باریک کیڑے سرخ رنگ کے اس قدر کثرت سے پیدا ہوجاتے ہیں کہ تمام پانی کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے بحراحمر میں بھی اس قسم کی حالت پائی جاتی ہے۔ بحراحمر کے حال میں مالٹ نے لکھا ہے کہ فروری کے مہینہ میں ایک دفعہ جہاز کے گرد کچھ دور تک سمندر نہایت سرخ ہوگیا چونکہ اس عجیب تبدیلی کا باعث ہم دریافت کرنا چاہتے تھے ہم نے ایک برتن کو پانی میں ڈالا اور اس میں بہت سی وہ چیزیں نکالیں جو پانی پر تیررہی تھیں وہ چیلی کے مشابہ ایک چیز تھی جس میں بےانتہا چھوٹے چھوٹے کیڑے تھے اور ہر ایک کے اوپر ایک سرخ دھبہ تھا یہ جانور ایک جگہ جمع ہونے سے ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے پانی میں کوئی سرخ چیز گھول دی ہو۔ ارن برگ کو بھی جو ایک بہت بڑا نیچرل فلاسفی کا عالم تھا ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا اور اس نے بھی بحر احمر ایسی حالت ہوجانے کی تصدیق کی ہے۔
پس یہی حالت دریائے نیل کی بھی ہوگی اور جب کہ ثابت ہوا ہے کہ اس کا پانی بھی کبھی سرخ ہوجاتا ہے تو اس کی ایسی حالت ہوجانے پر زیادہ یقین ہوتا ہے۔ ان کیڑوں کا بہت کثرت سے پانی میں جمع ہوجانا بلاشبہ لوگوں کو استعمال سے باز رکھتا ہوگا اور وہ پانی ناقابل استعمال ہوجاتا ہوگا۔ فرعون کے زمانہ میں بھی دریائے نیل سے گھروں میں اور کینوؤں اور حوضوں میں نلوں کے ذریعہ سے پانی لے گئے تھے پس جہاں جہاں اس کا پانی جاتا ہوگا سب جگہ یہی حال ہوگیا ہوگا۔ اس پانی کو لوگوں نے بلا خیال برتنوں میں بھر لیا ہوگا اور تھوڑی دیر بعد دیکھا ہوگا کہ وہ سرخ مثل خون کے سے ۔ اونچے مقاموں میں جہاں دریائے نیل کا پانی نہ جاتا ہوگا وہاں یہ کیفیت نہ ہوئی ہوگی۔ اور ممکن ہے کہ بنی اسرائیل اونچی زمین پر رہتے ہوں جہاں نیل کا پانی نہ جاتا ہو یا ان کے گھروں میں پانی جانے کے نل نہ ہوں اور ان کے گھروں میں یہ کیفیت نہ ہوئی ہو۔
نہم۔ غرق فی البحر
فرعون کا بنی اسرائیل کے تعاقب میں جانا اور بنی اسرائیل کا دریا کے پار اترجانا اور فرعون کا دریا میں ڈوب جانا ایک تاریخی واقعہ ہے اور ہم اس کو نہایت تفصیل سے سورة بقر کی تفسیر میں لکھ چکے ہیں پس اس مقام پر زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں۔ دہم۔ اعتکاف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہاڑ میں
وواعدناموسیٰ ثلثین لیلۃ واتمھا بعشر فتم میقات ربہ اربعین لیلۃ (سورة العراف )
اعتکاف کا واقعہ اس زمانہ کا ہے جب کہ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو فرعون کی قید سے چھوڑا کر اور فرعون کو اور اس کے لشکر کو دریا میں ڈبو کر اس جنگل میں نکال لائے جو بحر احمر کی دونوں شاخوں کے درمیان میں ہے اور جس کا نقشہ سورة بقر کی تفسیر میں بنایا ہے۔
واذواعدنا موسیٰ اربعین لیلۃ ثم اتخذتم انجل من بعدہ وانتم ظالمون (سورة بقر )
یہ کوئی امر زیادہ بحث کے قابل نہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تیس دن کا اعتکاف کرنے کے لیے پہاڑ گئے تاکہ دا کی عبادت میں مصروف ہوں مگر وہاں چالیس دن لگ گئے۔ توراۃ میں لکھا ہے کہ چالیس دن اور چالیس رات موسیٰ پہاڑ پر رہے اور نہ روٹی کھائی نہ پانی پیا (سفر توریہ مثنی باب درس) زیادہ تر مقصود اس اعتکاف سے یہ تھا کہ خدا کی ہدایت اس بات میں چاہیں کہ اس جم غفیر کی ہدایت و انتظام اور خدا کی عبادت کے لیے کیا قواعد یا احکام قرار دیئے جاویں۔
بنی اسرائیل کو چار سوبرس سے زیادہ ہوگئے تھے کہ مصر میں رہتے تھے اور گو وہ خدا کو مانتے تھے مگر وہاں کی بت پرستی اور اس کی شان و شوکت کے عادی ہوگئے تھے اور ظاہری میں بھی معبود کے وجود کے موجود ہونے کی خواہش مثل بت پرستوں کے ان کے دل میں سما گئی تھی اس لیے نہایت شکل بات تھی ، کہ ان کو ایک ایسے خدائے واحد کی پرستش پر متوجہ کیا جاوے جس کا نہ ظاہر میں کوئی وجود ہے، نہ ظاہری وجود میں اور نہ کسی ظاہری شکل میں آسکتا ہے بلکہ محض بیچون و بیچگون و بےرنگ و نمون ہے۔ غالباً یہی بات سب سے زیادہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی مشکل تھی۔ اور وہ ضرور اس خیال میں تھے کہ معبد کو ظاہری صورتوں سے اس طرح بنایا جاوے جن کی عبادت تو نہ کی جاوے مگر بنی اسرائیل کی دل بستگی کا ذریعہ ہوں۔ اور اسی وجہ سے انھوں نے معبد میں کروبین کی مجسم شکلیں چاندی و سونے کی بنائیں ہم قبول کرتے ہیں کہ انھوں نے خدا کے حکم سے بنائی ہونگی مگر بنائیں۔ جس کا سبب بجز مذکورہ بالاامر کے اور کچھ نہ تھا۔ اور اسی لیے ہم کرسکتے ہیں کہ جو سچی اور ٹھیٹ خدا پرستی اسی طرح بیچون وبیچگوں وبے رنگ و نون طریقہ پر جیسا کہ وہ معبود حقیقی ہے ۔
محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قائم کی موسیٰ سے باوجود اس شان و شوکت کے قائم نہیں ہوسکی، نہ ہم کو کروبین کی حاجت ہے، نہ ہائی پر یسٹ کی، نہ کسی معبد کی، نہ قربانی سو ختنی کی، نہ نچور کی، اور نہ آتش دان کی، نہ خاص پوشاک اور سینہ بند کی، ہم سچے خدا کی پرستش، جنگل میں دریا میں پہاڑ میں گھر میں بازار میں اندھیرے میں اجالے میں کپڑا پہنے بن کپڑا پہنے کرسکتے ہیں ہمارا دل ہی خدا کا معبد ہے ہمارا خدا ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم خدا کے ساتھ اور یہ ایسا ساتھ ہے کہ نہ کبھی ہم اس سے چھوٹ سکتے ہیں اور نہ وہ ہم کو چھوڑ سکتا ہے۔ سبحان و تعالیٰ شان والحمدللہ رب العالمین۔
یاز دہم۔ حقیقت کلام خدایا موسیٰ
کلام خدا کا جب تک نہ سنیں یہ تو معلوم نہیں ہوسکتا کہ کیسا ہوتا ہے۔ مگر انسانوں کا کلام جو سننے میں آتا ہے وہ تو یہ ہے کہ زبان اور ہونٹ ہلتے ہیں اس سے بمدد ہو اے محیط کے ایک آواز کان تک پہنچتی ہے ہر ایک لفظ کے بعد دوسرا لفظ بلکہ ہر لفظ کے پہلے حرف کے بعد دوسرا حروف نکلتا ہے اور حرفوں سے مل کر لفظ اور لفظوں سے مل کر جملہ ہوجاتا ہے۔ پھر کیا خدا کا کلام بھی ایسا ہی ہوتا ہے ؟
علمائے اسلام نے کہا ہے کہ تمام انبیائے (علیہم السلام) نے خدا کو متکلم کہا ہے اور اس کے کلام کو ثابت کیا ہے پس اس کا متکلم ہونا اور خدا کے لیے کلام کا ہونا تو ثابت ہوگیا۔ مگر انھوں نے یہ نہ بتایا کہ ایسا ہی کلام جیسا ہمارا سمارا ہے یا کسی اور طرح کا لیکن انھوں نے اس پر دوسری بحث قدیم اور حادث ہونے کی چھیڑ دی یعنی اس بات کی کہ خدا کا کلام قدیم ہے یاحادث۔ ہم اس بحث کو اس مقام پر لکھتے ہیں اور امید ہے کہ اسی سے پتہ لگ جاویگا کہ اس کا کلام کیسا ہوتا ہے۔
قاضی عضد اور علامہ سید شریف شرح مواقف میں تحریر فرماتے ہیں کہ خدا کے کلام کے قدیم و حادث ہونے پر وہ متناقض قیاس ہیں۔ ایک قیاس یہ ہے کہ۔ خدا تعالیٰ کا کلام خدا تعالیٰ کی ایک صفت ہے۔ اور جو صفت خدا کی ہے وہ قدیم ہے۔ پس خدا کا کلام قدیم ہے۔
دوسرا قیاس جو اس کے برخلاف ہے وہ یہ ہے کہ خدا کا کلام حرفوں و لفظوں کی ترتیب سے مل کر بنا ہے جو ایک بعد دوسرے کے وجود میں آئے ہیں اور جو چیز اس طرح پر بنتی ہے وہ حادث ہوتی ہے۔ پس خدا کا کلام بھی حادث ہے۔
حنبل پہلے قیاس کو ٹھیک بتاتے ہیں اور اس بات کے قابل ہیں کہ خدا کے کلام میں حرف بھی ہیں اور آواز بھی ہے اور وہ دونوں اپنے آپ قائم ہیں اور قدیم ہیں پس کلام خدا کا بھی قدیم ہے۔ پس گویا حنبلی دوسرے قیاس کے دوسرے جملہ کو کہ ” جو چیز اس طرح پر بنتی ہے وہ حادث ہوتی ہے “ نہیں مانتے۔
قاضی عضد اور علامہ سید شریف دونوں بالاتفاق کہتے ہیں کہ حنبیلوں کا دوسرے قیاس کے دوسرے جمعہ کو نہ ماننا قطعاً غلط ہے کیونکہ ہر ایک صرف ان حرفوں میں سے جن سے ان کے نزدیک کلام خدا کا مرکب ہے ایک حرف کے ختم ہونے پر دوسرے حرف کا شروع ہونا موقوف ہے تو وہ دوسرا حرف قدیم نہ ہوا اور جو کہ پہلے حرف کے لیے بھی ختم ہونا ہے تو وہ بھی قدیم نہ رہا اور جو کلام کہ ان سے مرکب ہو کر بنا ہے وہ بھی قدیم نہ رہا۔
کر امیہ فرقہ اس بات میں کہ خدا کے کلام میں حرف اور آواز ہے حنبلیوں کے ساتھ متفق ہیں مگر وہ اس کو حادث مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ خدا کی ذات میں قائم ہے کیونکہ اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ خدا کی ذات میں حوادث کا قائم ہو ناجائز ہے۔ پس گویا کر امیہ دوسرے قیاس کو تو صحیح مانتے ہیں اور پہلے قیاس کے دوسرے جملہ کو کہ ” جو صفت خدا کی ہے وہ قدیم ہے “ نہیں مانتے۔
معتولے خدا کے کلام میں آواز اور حرف کو اسی طرح پر مانتے ہیں جس طرح کہ حنبلی اور کر امیہ مانتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ آواز اور حرف خدا کی ذات میں قائم نہیں ہے بلکہ خدا اس کو دوسری چیز میں پیدا کردیتا ہے مثلاً لوح محفوظ میں یا جبرائیل میں یا نبی میں اس لیے خدا کا کلام حادث ہے پس معتزلے دوسرے قیاس کو صحیح سمجھتے ہیں اور پہلے قیاس کے پہلے جملہ کو کہ ” خدا تعالیٰ کا کلام خدا تعالیٰ کی ایک صفت ہے “ نہیں مانتے۔
اس پر قاضی عضد اور علامہ سید شریف فرماتے ہیں کہ جو کچھ معتزلے کہتے ہیں ہم اس سے انکار نہیں کرتے بلکہ ہم بھی وہی کہتے ہیں مگر اس کا نام کلام لفظی رکھتے ہیں اور اس کو حادث مانتے ہیں اور ذات خدا تعالیٰ میں قائم نہیں کہتے۔ اس کے سوا ہم ایک اور امر ثابت کرتے ہیں اور وہ معنی ہیں قائم بالنفس جس کو کہ لفظوں سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہی حقیقت میں کلام ہے اور وہی قدیم ہے اور وہی خدا تعالیٰ کی ذات میں قائم ہے۔ پس دوسرے قیاس کا جو دوسرا جملہ ہے کہ ” خدا کا کلام حرفوں و لفظوں کی ترتیب سے مل کر بنا ہے “ اس کو نہیں مانتے۔ اور ہم یقین کرتے ہیں کہ معنی اور عبادت ایک نہیں ہیں کیونکہ عبارت تو زمانہ میں اور ملک میں اور قوموں میں مختلف ہوجاتی ہے اور معنی جو قائم بالنفس ہیں وہ مختلف نہیں ہوتے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ان معنوں پر دلالت کرنا بھی لفظوں ہی میں منحصر نہیں ہے کیونکہ ان معنوں پر کبھی اشارہ سے اور کبھی کنایہ سے اسی طرح پر دلالت کی جاتی ہے جیسے کہ عبادت سے۔ اور مطلب جو کہ ایک معنی ہے قائم بالنفس وہ ایک ہی ہوتا ہے اور کچھ متغیر نہیں ہوتا باوجودیکہ عبارتیں بدل جاتی ہیں اور دلالتیں مختلف ہوجاتی ہیں اور جو چیز متغیر نہیں ہوتی وہ اس چیز کے سوا ہے جو متغیر ہوجاتی ہے۔ یعنی جو چیز کہ متغیر نہیں ہوتی وہ تو معنی قائم بالنفس ہیں اور وہ اس چیز سے جو متغیر ہوجاتی ہے یعنی عبارت سے سے علیحدہ ہیں۔ (انتہیٰ ملخصاً )
جو کچھ کہ قاضی عضد اور علامہ سید شریف نے فرمایا ہے مذہب اہل سنت و جماعت کا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنی تحقیق بیان کریں مناسب ہے کہ جو باتیں ان بزرگوں نے چھپا رکھی ہیں ان کو کھول دیں تاکہ لوگوں کو صاف معلوم ہوجاوے کہ ان اصول کے ماننے سے جو ان بزرگوں نے قرار دیئے ہیں کیا نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔
معزلیوں نے کہا تھا کہ آواز اور حرف دونوں خدا کی ذات میں قائم نہیں ہیں بلکہ وہ ان کو دوسری چیز میں پیدا کردیتا ہے، قاضی صاحب اور علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ ہاں یہ صحیح ہے مگر ہم اس کا نام کلام لفظی رکھتے ہیں۔ مگر یہ نہیں فرماتے کہ کس کا کلام لفظی خدا کا یا اس کا جس میں خدا نے اس کو پیدا کردیا تھا۔
پھر اس پر زیادہ تحقیق یہ کرتے ہیں کہ صرف معانی قائم بالنفس اور غیر متغیر ہیں اور درحقیقت وہی کلام ہے اور وہی قدیم ہے اور اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ خدا کا کلام حرفوں و لفظوں کی ترکیب سے بنا ہے۔ (یہ بات زیادہ وزن رکھتی ہے۔ ابو العصر)
اس بیان میں صریح نقص یہ ہے کہ اگر اس کو تسلیم کرلیا جاوے تو جو الفاظ قرآن مجید کے ہیں وہ خدا کے لفظ نہیں رہتے بلکہ اس کے لفظ ہوتے ہیں جس میں وہ پیدا کئے ہیں خواہ وہ جبرائیل ہوں یا نبی اور جو کہ وہ کلام انہی لفظوں سے مرکب ہوا ہے تو وہ کلام بھی اسی شخص کا ہوا نہ خدا کا۔ (یہ نقص نہیں خدا کے کلام کو اس کی ذات کے شایان ہونا ضروری ہے)
میری تحقیق میں پہلا قیاس صحیح ہے اور میں خدا کے کلام کو اس کی صفت سمجھتا ہوں اور تمام صفات خدا کو قدیم مانتا ہوں اور اسی لیے خدا کے کلام کو بھی قدیم یقین کرتا ہوں۔ مگر حنبلیوں اور کر اسیوں سے اس بات میں مختلف ہوں کہ خدا کے کلام میں آواز ہے اور اہل سنت و جماعت کے اس مسئلہ سے مختلف ہوں کہ صرف معانی قائم بالنفس ہیں اور وہی درحقیقت کلام ہے اور وہی غیر متغیر ہے بلکہ میرے نزدیک معانی اور لفظ دونوں قائم بالنفس ہیں اور دونوں قدیم و غیر متغیر ہیں۔
لفظ بھی حقیقت میں ایک مقید یا مختص معانی ہیں جن پر بولے جانے کے بعد ہم لفظ کا اطلاق کرتے ہیں۔ انسان جو گفتگو کرتا ہے اس وقت بھی الفاظ اس کے نفس میں ان کے بولے جانے کے قبل موجود ہوتے ہیں۔ مگر صرف معانی کو قائم فی الذات ماننے اور معانی اور لفظ دونوں کو قائم فی الذات ماننے میں یہ فرق ہے کہ پہلی صورت میں ان معافی کو الفاظ مختلف میں تعبیر کرنا لازم نہیں آتا اور دوسری صورت میں بجز الفاظ معینہ مختصہ کے اور کسی الفاظ سے تعبیر نہیں ہوسکتے۔ مثلاً الحمد للہ کلام خدا ہے یہ ذات باری میں مع معانی والفاظ کے اس طرح پر قائم ہے کہ جب تلف میں آویگا تو الحمدللہ ہی اس کا تلفظ ہوگا للہ الحمد اس کا تلفظ نہیں ہونے کا نہ ثناء اللہ اس کا تلفظ ہوگا اور ہم قرآن مجید کو اسی معنی کر مع معانی اور الفاظ کلام خدا کہتے ہیں اور قدیم تسلیم کرتے ہیں۔
لفظوں کے قائم بالنفس ہونے میں تقدم و تاخر نہیں ہوتا۔ اس کو مثال دے کر سمجھانا بلاشبہ مشکل ہے مگر اس طرح پر سمجھ میں یا خیال میں آسکتا ہے کہ اگر جس طرح ان الفاظ کے نقوش کو آئینہ کے سامنے رکھنے سے وہ سب معابلا تقدم و تاخر آئینہ میں منقش معلوم ہوتے ہیں اسی طرح الفاظ کے بھی بمعنی مذکورہ قائم فی الذات ہونے میں تقدم و تاخر لازم نہیں آتا۔ ذات باری کی نسبت ہم ثابت کرچکے ہیں کہ وہ علۃ العلل تمام چیزوں کی ہے جو ہوچکیں اور ہوتی ہیں اور ہونے والی ہیں۔ اس لیے ضرور ہے کہ وہ تمام چیزیں ذات باری میں قائم ہوں ان کے شور کے زمانا کے مختلف ہونے اور تبدیل کیفیت و کمیت سے اس چیز میں جو قائم فی الذات ہے حدوث لازم نہیں آتا۔
اس صورت میں قاضی عضد اور علامہ سید شریف کا یہ کہنا کہ ر ایک حرف ان حرفوں میں سے جن سے کلام خدا مرکب ہو ایک حرف کے ختم ہونے پر دوسرے حرف کا شروع ہو موقوف ہے
تو وہ دوسرا حرف قدیم نہ ہوا (الیٰ آخرہ) صحیح نہیں رہتا اس لیے کہ اس امر کا وقوع اس وقت ہوتا جب کہ ہمہ کلام خدا میں حرف اور آواز دونوں مانتے مگر جب ہم کلام خدا میں آواز کو تسلیم نیں کرتے تو نقص مذکورہ لازم نہیں آتا۔
آواز کی کوئی دوسری حقیقت بجز اس کے کہ ہوا کی مدد اور زبان اور ہونٹوں کی حرکت سے پیدا ہوتی ہے ہم نہیں جانتے پس اس کو بجنسہ خدا کی صفت قرار دینا اور یہ خیال کرنا کہ خدا کے منہ سے بھی مثل ہمارے منہ کے ایک حرف دوسرے حرف کے بعد نکلتا ہے بناء فاسد علی الفاسد ہے پہلے ایک غلط امر کو تسلیم کیا ہے پھر اس کی بنا پر دوسری غلطی قائم کی ہے۔
جب کہ ہم کسی پر خواہ وہ جبرائیل ہو جو حسب اعتقاد جمہور مسلمین خدا اور انبیاء میں مثل ایلچی کے واسطہ ہے اور خواہ وہ خود بھی مبعوث ہو جیسا کہ میرا خاص اعتقاد ہے خدا کے کلام کا نازل ہونا کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ خدا نے اس کے دل میں بجنسہ وہ الفاظ جن کے بعد اس کے وہ تلفظ کرے گا مع ان کے معنی کے جو مقصود ہیں پیدا کیا ہے یا القا کیا ہے اور وہی بجنسہ نبی کے تلفظ کئے ہیں پس گو اس نبی کا ان لفظوں کو تلفظ کرنا حادث ہو مگر وہ الفاظ مع ان کے معنی کے یا وہ معنی مقید جن کا تلفظ بجز انہی الفاظ کے نہیں ہوسکتا تھا قدیم اور کلام خدا ہیں۔ اور یہی میرا اعتقاد قرآن مجید کی نسبت ہے کہ وہہ بلفظ مع معانیہا قدیم و کلام خدا ہے اور خود خدا نے اپنا کلام پیغمبر خدا میں بلاوسطہ پیدا کیا ہے جیسا کہ میں نے کسی مقام پر کہا ہے :
ز جبرائیل ا میں ، قرآن بہ پیغامے نے خواہم
ہمہ گفتار معشوق است قر آنے کہ من دارم
مگر پیغمبر خدا کا یا ہمارا ان لفظوں کو تلفظ کرنا حادث ہے۔
اس مضمون کو بذریعہ کسی مثال کے سمجھانا بلاشبہ نہایت مشکل ہے مگر ہم ایک قریب ترین مثال سے اس کو سمجھاتے ہیں۔ فرض کرو کہ ایک شخص کسی سبب سے بول نہیں سکتا مگر ایک اپنی تحریر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جس کو ہم پڑھتے ہیں پس گو اس تحریر میں آواز نہیں ہے مگر جو لفظ مطابق اس تحریر کے ہماری زبان سے نکلتے ہیں وہ لفظ بلاشبہ اسی کے ہیں جس نے اس کو لکھا ہے اور ہم صرف ان لفظوں کا تلفظ کرتے ہیں مگر درحقیقت وہ ہمارے لفظ نہیں ہیں۔ اور یہ بھی نہیں کرسکتے کہ وہ لفظ بروقت مارے تلفظ کے پیدا ہوئے ہیں۔
ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ انبیاء اور اولیا کوئی غیبی آواز نہیں سنتے۔
سنتے ہوں گے مگر وہ خدا کی آواز نہیں ہے بلکہ وہ اس القا کا اثر ہے جو ان پر ہوا ہے اور وہ انہی کے نفس کی آواز ہے جو ان کے کان میں آئی ہے۔ وہ بیداری میں اسی طرح آواز سنتے ہیں جیسے کہ سوتے میں خواب دیکھنے والا سنتا ہے۔ یا جیسے کہ بعضی دفعہ لوگوں کو جو کسی خیال میں مستفرق ہیں بغیر کسی بولنے والے کے کان میں آواز آتی ہے۔
کلام الٰہی کی نسبت جو کچھ خدا نے ہمارے دل میں ڈالا ہے بعینہ وہ وہی ہے جو حضرت مولانا و مرشدنا حضرت شیخ احمد سرہندی نقشبندی مجدد الف ثانی (رح) کو القا ہوا تھا چنانچہ اس باب میں جو حضرت محمد وح نے لکھا ہے ذیل میں مندرج ہے۔
حضرت ممدوح نے مکتوب نودودوم جلد سوم میں جو بنام فقیر ہاشم کشمی تحریر فرمایا ہے اس طرح پر لکھا ہے۔ ” پرسیدہ بودند آکلہ بعض عرفا فرمودہ اندکہ ما کلام حق رامے شنویہ دیا مارا بااوتعالیٰ مکالمہ مے شود چنانچہ ازا ام ہمام جعفر صادق (رض) منقول است کہ گفت مازک اردو الا یہ خنی سمع تھا من المکلم بھا۔ نیز ازرسالہ غوثیہ کہ منسوب بحضرت شیخ عبدالقادر جیلانی است قدس سرہ مفہوم مے گردوچہ معنی است و تحقیق آں نزد قوچیست ! بداں ارشہ ک، اللہ تعالیٰ کہ کلام حق جل وعلادر رنگ ذات حق وسائر صفات حق جل شانہ بیچون و بیچگون است وسماع آں کلام بیچوں نیز بیچون است زیرا کہ چوں رابہ بیچوں راہ نیست پس ایں سماع مربوط بحاسہ سمع نہ باشد کہ سراسر چون است آنجا اگر ازبندہ استملء است بتلقی روحانیست کہ نصیبے ازبیچونی دارو وبے واسطہ حروف و کلمات است ونیزگرازبندہ کلام است ہم بالقاے روحانی است بےحروف و کلمہ وایں کلام نصیبے از بیچونی دارد کہ مسموع بیچون مے گرد و یا آنکہ گو نیم کہ کلام لفظی کہ از بند صادر مے شود حضرت حق سبحانہ تعالیٰ الخ نیز بہ سماع بیچونی استماع مے فرما یدو بےتوسط حروف و کلمات و بےتقدیم و تاخیرآں رایشنود اذلا یجری علیہ تعالیٰ زمان یسع نیہ التقدیم واتا خیر دوراں موطن کہ از بندہ سماع است بکلیت ساماع واگرکلام امست ہم بکلیۃ، متکلم تمام گوش د تمام زبان است روز میثاق ذرات مخرجہ تول الست بربکم رابے واسطہ بکلیت خود شنید ندو بکلیت خود جواب ملے گقتند تمام گوش بودند و تمام زبان زیرا کہ اگر گوش اززبان متمیز بودے سماع کلام بیچون حاصل نیامدے دشایان ارتباط مرتبہ بیچون نہ گشتے لا یحمل عطایا الملک الا مطایا غایۃ مانی الباب آں معنی متلقی ازراہ روحانیت اخذ مودہ بود ثانیا ور عالم خیال کہ آں درانسان شال عالم مثال است بصورت حروف و کلمات مرتبہ متمثل مے گردو وآں تلقی والقا بصورت سماع و کلام لفظی رتسم مے شود چہ ہر معنی ر اور اں عالم صورتے است اگرچہ آں معنی بیچوں بود اماارقسام بیچون ہم آنجا بصورت چون است کہ فہم و افہام باں مربوط است کہ مقصود ازاں ارقسام است وچوں سالک متوسط در خود حروف و کلمات مرتبہ مے یا بد وسماع و کلام لفظی احساس مے نماید خیال میکنسنہ کہ ایں حروف و کلمات را از اصل شنیدہ است و بےتفاوت از انجا اخذ کردہ نمے داند کہ ایں حروف و کلمات صور خیالیہ آں معنی متلقی است وایں سماع و کلام لفظی تمثال سماع و کلا بیچونی، عارف تام المعرفت ربا ید کہ حکم ہر مرتبہ راجدا سازدوی کے ابدیگرے بلنش نہ گرداند پس سماع و کلام ایں اکابر کہ بمرتبہ بیچونی مربوط است از قبیل تلقی القائے روحانی است وایں کلمات و حروف کہ تعبیر ازاں معنی متلقی بآں مے نمایداز عاہ صور مثالیہ دو گرد ہے کہ گمان بردہ اند کہ ماحروف و کلمات رازاں حضرت جل سلفانہ استماع مے نمانیم دو فریق اندی کے ازاں دو فریق کہ احسن حال اندمے گویند کہ ایں حروف و کلمات حادثہ مسموعہ دال اندبراں کلام نغمے قدیم فریق دیگر اطلاق قول بسماع کلام حق جل شانہ مے نماید و ہمیں حروف و کلمات مرتبہ را کلام حق میدانند جل وعلاوفرق نمے کنند درمیان آنکہ لائق بشان او تعالیٰ کدام است نہ کدام ہت کہ شان جناب قدس اونیست سبحانہ وھم الجھال البطال لم یعرفوا مایجو زعلی اللہ سبحانہ عما لا یجوز علیہ تعالیٰ سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت السمیع العلیم الحکیم والصلوٰۃ والسلام علیٰ خیر البشر واٰلہ و اصحابہ الاطھر۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے مقام سے مع اپنے گھر والوں کے مصر کو روانہ ہوئے۔ جو جو خیالات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سنبت ان مشکلات کے ہوں گے جو مصر میں پیش آنے والی تھیں۔ اور اپنی قوم کو فرعون کے ظلم سے نجات دینے کی مشکلات نے ان کے دل کو کس قدر غمگین اور متفکر کیا ہوگا اور ان تمام حالتوں کے سبب ان کو ذات باری میں کس قدر استغراق رہا ہوگا۔ کیونکہ ایسی مشکلات لا ینحل کے حل کرنے میں بجز ذات باری پر بھروسہ کے دوسرا کوئی بھروسہ نہ تھا۔ یہ تمام اسباب تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ذات باری میں کامل طور پر مستغرق ہوجانے کے۔ اور فطرت نبوت جو خدا نے ان میں پیدا کی تھی سب سے زیادہ اس استغراق کا باعث تھی۔
اتفاق سے وہ رستہ بھولے ہوئے تھے جب انھوں نے ایک طرف آگ دیکھی تو اس طرف گئے۔ جب اس کے قریب پہنچے تو انھوں نے اس جنگل کو پہچانا کہ وہ وادی ایلن یا ھوے ہے جو پہلے سے نہایت مقدس اور متبرک اور خدا کی جگہ سمجھا جاتا تھا۔ دفعۃً اس بات کے معلوم ہونے سے خدا کی طرف طبیعت کا ذوق اور خدا کا شوق بھڑک اٹھا۔ اور ان کے کان میں آواز آئی۔ یا موسیٰ انی اناربک۔ انہ انا اللہ العزیز الحکیم۔ انی انا اللہ رب العالمین۔ فاخلع لغلیک انک بالوادی المقدس مری۔ یہ آواز کسی بونے والے کی نہ تھی نہ خدا کی آواز تھی کیونکہ جیسا ہم نے ابھی بیان کیا خدا کے کلام میں آواز نہیں ہوتی۔ بیشک خدا نے یہ الفاظ جو کلام خدا تھے موسیٰ کے دل میں ڈالے اور خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کی آواز اس کے کان میں آئی جو خدا کے پکارنے سے تعبیر کی گئی۔
اسی جوش دلی اور استغراق قلبی کا سبب تھا جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی حیثیت کا ذہوا ہوا اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر کہنے لگے ۔ رب ارنی انظر الیک۔ خدا نے جواب دیا نہ اپنی آواز سے اور نہ کسی فانی جسم میں آواز ڈالنے سے بلکہ خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں اپنا کلام ڈالنے سے کہ ۔ لن ترانی۔ جہاں جہاں خدا اور موسیٰ میں کلام ہونے کا ذکر ہے اس کی یہی ماہیت ہے۔ اور وکلم اللہ موسیٰ تکلیما۔ کی یہی حقیقت ہے ھذا ما افھمنی اللہ حقیقۃ کلام العظیم وھو الھادی الی الصراط المستقیم۔
دوازدہم ۔ حقیقت تجلی للجبل
وھل اتک حدیث موسیٰ ۔ ذرای نارا فقال لاھلہ امکثوا انی انست نارا۔ لعلی اتیکم منھا بقبس واجد علی النار ھدیٰ ۔ فلما اتاھا نودی یاموسی۔ انی اتا ربک فاخلع نعلیک انک بالوادی للمقدس طوی (طہ -)
پہاڑ پر خدا کی تجلی ہونے اور آگ کی صورت میں نزول فرمانے کی نسبت تفسیروں میں بہت کچھ بھرا ہوا ہے مگر قرآن مجید میں یہ واقعہ نہایت صاف صاف اور سیدھے لفظوں میں بیان ہوا ہے جس میں کچھ بھی پیچدہ بات نہیں ہے چنانچہ سورة طہ میں خدا نے فرمایا کہ کیا تجھ تک موسیٰ کا قصہ پہنچا ہے۔ جب کہ اس نے آگ کو دیکھا پھر اپنے گھر والوں سے کہا کہ ٹھہر جاؤ مجھ کو آگ دکھائی دی ہے شاید میں تمہارے لیے اس میں سے جلتی ہوئی لکڑی لے آؤں یا اس آگ پر کسی راہ بتانے والے کو پالوں۔ پھر جبحضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے پاس پہنچے اس کو پکارا گیا یعنی آواز آئی کہ اے موسیٰ بیشک میں تیرا خدا ہوں اپنی جوتی پاؤں سے اتار بیشک تو پاک میدان میں ہے۔
اذ قال موسیٰ لاھلہ انی انست نارا ساتیکم
یہی مضمون کسی قدر الفاظ کی تبدیل سے سورة نمل میں آیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ مجھ کو آگ دکھائی دی ہے میں اس منھا بخبرا واتیکم بشھاب قبس لعلکم تصطلون فلما جادھانوی ان بورک من فی النار ھن حولھا و سبحان اللہ رب العالمین۔ یا موسیٰ انہ انا اللہ العزیز الحکیم (نمل۔ )
وہاں سے تمہارے لیے کوئی خبر لاتا ہوں یا تمہارے لیے جلتی لکڑی لاتا ہوں تاکہ تم تاپو۔ پھر جبحضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے پاس آیا تو آواز دی گئی کہ برکت دی گئی اس کو جو آگ کے قریب ہے (یعنی موسیٰ کو) اور اس کو جو اس کے گرد ہے (یعنی ہارون کو جو موسیٰ کے گھر کے لوگوں کے ساتھ تھے) اور پاک ہے اللہ پروردگار عالموں کا اے موسیٰ ٹھیک بات یہ ہے کہ میں ہوں خدا زبردست حکمت والا۔
فلما تضی موسیٰ الا جل وسار باھلہ انس من جانب الطور نارا قال لا ھسرا مکثوانی انست نارالعلی اتیکم منھا بخبر اوجزوۃ من النار لعلکم تصطلون۔ فلما اتاھانودی من بشاطئی الوادا لا یمن بالبقعۃ المبارکۃ من الشجرۃ ان یا موسیٰ انی انا اللہ رب العالمین (قصص۔ )
اور سورة قصص میں اس طرح فرمایا ہے کہ ۔ جب موسیٰ مدین سے اپنے گھر والوں کو لے کر غالبا ً مصر کے جانے کے قصد سے روانہ ہوا تو اس نے طور کی جانب آگ دیکھی اس نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ ٹھہرو میں نے آگ کو دیکھا ہے شاید میں وہاں سے تمہاری کوئی خبر یا کچھ تھوڑی سی آگ لاؤں تاکہ تم تاپو پھر جب موسیٰ آگ کے پاس آئے تو مبارک میدان کے کنارہ سے مبارک جگہ میں درخت کی طرف سے آواز دی گئی کہ اے موسیٰ بیشک میں اللہ ہوں پروردگار عالموں کا۔
ولما جاء موسیٰ لمیقات اور کلمہ ربہ قال رب اونی انظر الیک قال لن ترالی ولا کن انظرالی الجبل فان استقر مکانہ فسوف تزائی فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا وخر موسیٰ صعقا فلما افاق قال سبحانک تبت الیک وانا اول للمومنون۔ (سورة اعراف )
اور سورة اعراف میں یوں آیا ہے کہ ۔ جب موسیٰ ہماری مقرر کی ہوئی جگہ میں آیا اور اس کے پروردگار نے اس سے کلام کیا تو موسیٰ نے کہا اے پروردگار اپنے تئیں مجھے دکھلادے خدا نے کہا کہ تو مجھے نہ دیکھے گا مگر اس پہاڑ کی طرف دیکھ پھر اگر وہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو تو مجھ کو بھی دیکھ لے گا۔ پھر جب اس کے پروردگار نے پہاڑ کے لیے تجلی کی تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گرپڑے موسیٰ بیہوش ہو کر۔ پھر جب ہوش آیا تو کہا کہ پاک ہے تو معافی مانگتا ہوں تجھ سے اور میں پہلا ایمان والوں میں ہوں۔
اگر ان قصوں اور کہانیوں سے قطع نظر کی جاوے جو یہودیوں نے اس کی سنبت بنالی ہیں اور ان کی کتابوں میں مندرج ہیں اور جن کی پیروی کرکے ہمارے ہاں کے مفسروں نے انہی قصوں کو مختلف طرح پر اپنی تفسیروں میں بھر دیا ہے اور صرف قرآن مجید کی آیتوں پر غور کیا جاوے تو ان آیتوں سے مندرجہ ذیل امور پائے جاتے ہیں۔
۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو آگ دیکھی حقیقت میں وہ آگ ہی تھی نہ خدا تھا اور نہ خدا کا نور اور نہ ہرے سبز درخت میں سے وہ آگ روشن ہوئی تھی اور درخت نہیں جلتا تھا جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں بلکہ صرف بات اس قدر تھی کی درحقیقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پہاڑ کی جانب آگ جلتی ہوئی دیکھی رستہ پر آگ جلانا پرانی قوموں کا دستور تھا۔ رات کا وقت اور موسم سردی کا تھا اور جنگل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) رستہ بھی بھول گئے تھے انھوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم ٹھہرو میں وہاں جاتا ہوں یا وہاں کوئی شخص رستہ بتانے والا مل جائے گا ۔ یا میں تمہارے لیے وہہاں سے کوئی جلتی ہوئی لکڑی لے آؤں گا جس سے تم تاپنا تاکہ سردی سے بچو۔
یہ واقعہ کوہ سینا یا کوہ طور کے قریب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر گزرا تھا جب کہ وہ مدین سے اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر مصر کو جاتے تھے۔ ہم نے سورة بقر کی تیسیر میں اس بات کو کامل تحقیقات سے ثابت کردیا ہے۔ کہ طور سینا آتشیں پہاڑ تھا اس میں سے جو لو نکلی ہوگی اس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھ کر یہ بات کہی کہ میں نے آگ دیکھی ہے وہاں سے کوئی خبر یا تھوڑی سی آگ لے کر آتا ہوں۔
۔ ان آیتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو آواز موسیٰ کو وہاں آئی یا جو کلام خدا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا کیا اس کو اس آگ سے کچھ تعلق نہ تھا۔ سورة طہ اور سورة نمل میں بیان ہوا ہے کہ جبحضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے پاس آئے تو ان کو آواز دی گئی۔ نہ وہاں یہ بیان ہوا ہے کہ آگ نے آواز دی مندیہ بیان ہوا ہے کہ آگ میں سے آواز آئی بلکہ باوجو یکہ آگ کا ذکروہاں موجود ہے اور پھر نودی صیغہ مجہول کا آیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس آواز یا کلام کو آگ سے کچھ تعلق نہیں تھا۔ مثلاً ایک شخص دریا میں سے پانی بھرنے جاوے اور وہ کہے کہ جب میں دریا کے قریب پہنچا تو میں نے پکارنے کی آواز سنی۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خواہ مخواہ دریا میں سے وہ آواز آئی۔ اسی طرح جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے قریب پہنچے تو ان کے کان میں آواز آئی۔ پس اس بات کا قرار دینا کہ وہ آواز آگ میں سے آئی تھی کسی طرح قرآن مجید سے نہیں پایاجاتا۔
علا کہ اس کے سورة قصص میں بیان ہوا ہے کہ مبارک جنگل کے کنارہ سے ایک درخت کی طرف سے وہ آواز آئی تھی اور یہ آیت نص صریح اس بات کی ہے کہ آگ میں سے آواز نہیں آئی تھی۔
سورة قصص کی آیت میں آواز کا آنا من الشجرۃ بیان ہوا ہے لفظ من سے خاص درخت میں سے آواز کا آنا نہیں ثابت ہوتا کیونکہ اس آیت میں خود خدا نے جانب کے معنی کی تصریح کردی ہے جہاں فرمایا ہے من جانب الطور۔ اور اسی تصریح پر من شاطی الرامل الایمن۔ ای من جانب الشاطی الوامی الا یمن۔ من الشجرۃ من جانب الشجرۃ محمول کیا جاتا ہے۔ اور یہ خیال کرنا کہ یہ شجروہ شچر تھا جس میں آگ روشن ہوئی تھی اور درخت سبز کا سبز تھا اور نہیں جلتا تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی سبز درخت میں آگ دیکھی تھی یہودیوں کی کتابوں کی کہانیاں اور بےثبوت قصے ہیں قرآن مجید سے مطلق ثابت نہیں ہے۔ سورة یسین میں جو آیا ہے کہ من الشجر الا خضر نارا۔ اس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔
۔ تجلی للجبل کی نسبت بہت تھوڑی گفتگو کرنی ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کہا۔ رب ارنی نظر الیک۔ اس کی تفصیل سورة بقر میں بیان ہوچکی ہے کہ کس حالت ذہول میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ ناممکن خواہش خدا سے کی تھی اس کا جواب خدا کی طرف بےبجز ۔ لن ترانی۔ کے اور کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر جو کہ خدا کا وجود اس کی تمام مخلوقات سے اور خصوصاً ایسی مخلوق سے جو لوگوں کی آنکھ میں زیادہ تر عجیب ہیں ثابت ہوتا ہے اس لیے خدا نیحضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس عجیب مخلوق کی طرف متوجہ کیا جو ان کے قریب موجود تھی اور جس سے خدا کی شان و قدرت ظاہر ہوتی تھی۔ یعنی اس آتشیں پہاڑ کی طرف جو روشن ہونا شروع ہوا تھا اور جس کی نو کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دیکھ کر آگ لینے دوڑے تھے مگر جب وہ پہاڑ بھڑکا اور گرا اور اس کے پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اڑے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غش کھا کر گرے۔ پھر جب ہوش آیا تو اس سوال سے توبہ کی اور کہا انا اول المومنون۔
تجلی خدا کی اس کی تمام مخلوق میں موجود ہے جیسا کہ ہم نے سورة بقر میں بیان کیا ہے پس فلما تجلی ربہ للجبل کے معنی یہ ہیں کہ ۔ فلماظہر شان ربہ و کمال قدرتہ علی الجبل استرھب موسیٰ و خر صعقا۔
سیزدہم۔ بیان کتابت فی الالواح
یہ لوحیں پتھر کی تختیاں تھیں جن پر وہ احکام کھدے ہوئے تھے جو بنی اسرائیل کے لیے قال یا موسیٰ الی اصطفیتک علی الناس خدا نے دیئے تھے توراۃ میں ایک جگہ لکھا ہے برسالاتی وبکلامی فخذمااتیت وکن من الشا کو ین و کتھنا لہ فی الالواح من کل شی موعظۃ وتفصیلا لکل شیء فخذھا بقوۃ وامر قومک یاخذ وابا حسنھا ساوریکم دارالذسقین (سورة اعراف ) ولک رجع موسیٰ الی قومہ غضبان اسفاقال بئسما خلفقونی من بعدے اعجلتم امر ربکم و القی الا لواح واخذ براس اخیہ یجرہ الیہ۔ ولما سکت عن موسیٰ الغضب اخذ الالواح وفی نسختھا ھدی ورحمۃ للذین ھم اربھم یرطبون۔ (سورة اعراف - )
کہ جب خدا نے موسیٰ کو سب احکام بتا دیئے تو موسیٰ نے ان تمام حکموں کو جو خدا نے دیئے تھے لکھ لیا۔ (سفر خروج باب درس ) اس سے اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو لکھنا آتا تھا۔ دوسری جگہ لکھا ہے کہ ۔ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ میرے پاس پہاڑ پر آتا کہ پتھر کی لوحیں اور توراۃ اور آذر احک اور جو میں نے لکھے ہیں تجھ کو دوں تاکہ بنی اسرائیل کو تعلیم کرے (سفر خروج باب درس ) اور ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ۔ جب خدا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو سپرد کیں۔ (سفر خروج باب درس ) اور ایک جگہ پھر لکھا ہے کہ ۔ چالیس دن رات پہاڑ پر رہنے کے بعد خدا نے دو پتھر کی لوحیں جو خدا کی انگلی سے لکھی گئی تھیں موسیٰ کو دیں اور جو کچھ خدا نے پہاڑ میں بنی اسرائیل کے سرداروں سے آگ کے بیچ میں سے کہا تھا لکھا گیا تھا (سفر توریہ مثنے باب نہم درس ) بعد اس کے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان لوحوں کو لے کر آئے اور ہارون پر خفگی ہونے کی حالت میں ان کو پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئیں تو خدا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ۔ اپنے لیے پتھر کی دو لوحیں پہلی لوحوں کے برابر بنادے اور میرے پاس پہاڑ میں لے آ اور ان کے لیے لکڑی کا ایک صندوق بنا۔ جو کلمات کہ پہلی لوحوں پر لکھے ہوئے تھے۔ وہ میں پھر ان لوحوں پر لکھ دونگا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا اور خدا نے پہلی تحریر کے موافق ان دس کلموں کو جو خدا نے بنی اسرائیل پر پہاڑ پر آگ کے بیچ میں سے کہے تھے لکھ دیئے اور لوحیں موسیٰ کو دے دیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے احتیاط سے ان کو ضندوق میں رکھ چھوڑا (سفر توریہ مثنے باب درس لغایت ) یہ بات ہر کوئی تسلیم کرسکتا ہے کہ خدا کی شان اور اس کے تنزہ سے بعید ہے کہ وہ خود اپنے ہاتھ اپنی انگلی سے مثل ایک سنگتراش کے پتھر پر عبارت کندہ کرے۔ یہودی اور عیسائی اور وہ تمام لوگ بھی جو ایسے واقعات کو ہمیشہ ایک عجیب پیریہ میں ظاہر کرنا چاہتے ہیں ان لفظوں کے جو توراۃ میں ہیں ظاہر معنی نہیں لیتے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان لفظوں سے یہ مراد ہے کہ خدا کی قدرت سے وہ کلمات اس پر کھد گئے تھے۔ تمام عادت سے
اور اس طرز بیان سے جو توراۃ میں آیا ہے بخوبی پایا جاتا ہے کہ وہ لوحیں خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنائی تھیں اور جو احکام خدا نے ان کو دیئے تھے وہ خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر کندہ کئے تھے۔
وقال وھب کانت من صخرۃ صما لینھا اللہ سے لمو (علیہ السلام) (تفسیر کبیر)
ہمارے علمائے مفسرین نے اس بات پر بحث کی ہے کہ وہ لوحیں کس چیز کی تھیں اور کے تھیں بعضوں نے کہا دس تھیں بعضوں نے کہا سات تھیں کسی نے کہا زمرد کی تھیں کسی نے کہا سبز زبر جد کی تھیں اور سرخ یاقوت کی تھیں۔ حسن نے کہا کہ لکڑی کی تھیں جو آسمان سے اتری تھیں اور وہب کا قول ہے کہ وہ سخت پتھر کی تھیں ان کو خدا نے موسیٰ کے لیے نرم کردیا تھا۔
واما کیفیۃ الکتابۃ فقال ابن جریح کب تھا جبرائیل بالقلم الذی کتب بہ الذکروا مستمد من نھرالنور د اعلم انہ لیس فے لفظ الا یہ ما یدل علیٰ کیفیۃ تلک الا لواح وعلی کیفیۃ تلک والکتابۃ فان ثبت ذلک التفصیل بدلیل منفصل قوی وجب القول بہ والا وجب السکوت عنہ (تفسیر کبیر) بہرحال وہ لوحیں کسی چیز کی ہوں وہ چنداں بحث کے قابل نہیں ہیں جو امر بحث طلب ہے وہ یہ ہے کہ ان پر لکھا کس نے تھا ہمارے علما نے درحقیقت اس میں سکوت اختیار کیا ہے اگرچہ بعضوں کا قول ہے کہ جبرائیل نے لکھا تھا مگر مگر تفسیر کبیر میں قول فیصل یہ لکھا ہے کہ آیت کے لفظوں سے کتابت فی الالواح کی کیفیت معلوم نہیں ہوتی پس اگر اور کسی قوی دلیل سے اس کی کیفیت معلوم نہ ہو تو سکونت کرنا چاہیے۔
میں یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ آیت کے لفظوں سے یہ بات یقینی معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ ان لوحوں کا کاتب نہ تھا کیونکہ تمام قرآن مجید میں لفظ ” کتبنا “ کا جہاں آیا ہے اس سے خدا کی نسبت فعل کتابت کی مراد نہیں لی گئی بلکہ مقرر کرنے فرض کرنے کے معنی لیے گئے ہیں چنانچہ ” کتبنا “ کے ہر جگہ سب علما نے یہی معنی قرار دیئے ہیں ” علی “ اور ” لہ “ جو کتابت کے صلہ میں آتا ہے اس سے کچھ تغیر معنی میں نہیں ہوتا۔ بلکہ ” فی “ کے صلہ میں آنے سے بھی کچھ تغیر واقع نہیں ہوتا چنانچہ سورة انبیاء کی ایک سو پانچویں آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں ” ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکوان الارض یرثھا عبادی الصالحون “ یہ بات ظاہر ہے کہ زبور کا لکھنا یعنی فعل کتابت کسی نے بھی خدا کی طرف منسوب نہیں کیا پس اس کے معنی یہی ہیں کہ ” فرضنافی الزبور “ پس قرآن مجید کی کوئی آیت اس بات پر اشارہ بھی نہیں کرتی کہ ان کا کاتب خدا تھا۔
بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ کبھی بندوں کے اور اشیا کے بعض افعال کو اپنی طرف نسبت کرتا ہے اس طرح بھی فعل کتابت الواح کا خدا نے اپنی طرف منسوب نہیں کیا۔
اب رہی یہ بات کہ پھر ان پر کس نے لکھا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سوا وہاں اور کوئی لکھنے والا نہ تھا۔ وہب نے جو یہ کہا ہے کہ وہ سخت پتھر کی لوحیں تھیں خدا نے موسیٰ کے لیے ان کو نرم کردیا تھا۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وہب کے نزدیک بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی ان کے لکھنے والے تھے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک مہینہ میں واپس آنے کا اقرار کرکے پہاڑ پر گئے تھے ان کو جو مہینہ بھر عبادت میں مشغول رہنے کا حکم ہوا اور وہ اسی کو میعاد عطائے احکام سمجھے حالانکہ احکام اس کے بعد ملنے کو تھے چنانچہ اس روز میں وہ احکام ملے یا ان کے کھودنے میں دس دن لگ گئے۔ غرضیکہ چالیس دن رات ہوگئے خدا نے جو احکام ان کو وحی سے بتائے تھے انھوں نے چاہا کہ ان کو پتھر کی لوحوں میں کندہ کرلیں اور بنی اسرائیل کو جاکر دکھائیں۔ وعدہ سے دس دن زیادہ لگ جانے سے بنی اسرائیل کو ان کے واپس آنے کی توقع جاتی رہی اور انھوں نے اپنے لیے بطور دیوتا کے بچھڑا بنا لیا اور اس کی پوجا کرنے لگے۔
چہاردہم۔ اتخاذ عجل
واتخذقوم موسیٰ من بعدہ من حلیھم عجلا جدالنخوار الم یروانہ لا یکلمھم ولا یھدیھم سبیلا (سورة اعراف )
بچھڑا بنانے کا کچھ مختصر سا ذکر ہم نے سورة بقرہ کی تفسیر میں لکھا ہے مگر اس مقام پر اس کے متعلق خاص باتوں سے بحث کرنی چاہتے ہیں اور اول ان آیتوں کو لکھتے ہیں جن سے وہ بحث متعلق ہے۔
وما اعجلک عن قومک یا موسیٰ قال ھم ولاء علی تری وعجلت الیک رب ترضی قال ناناقد تمت قومک من بعدک وضنھم السامری نرجہ موسیٰ لی قومہ عضبان اسفاقال یقوم الم یعدکم ربکم وعدا حسنا افطال علیکم العھد
خدا نے سورة اعراف میں فرمایا ہے۔ اور بنایا موسیٰ کی قوم نے موسیٰ کے پہاڑ پر جانے کے بعد ان کے گہنوں سے پچھڑا مجسم کہ اس کے لیے آواز تھی یعنی اس میں سے آواز بھی نکلتی تھی
امارد تملان یحل علیکم غضب من ربکم فاخلشتم موعدی قالوا ما اخلفنا موعدک بملکنا اولکنا تحملنا اوزارا من زینۃ القوم فقد فناھا فذلک القی السامری فاخرج لھم عجلا حدالاخوار فقالوا ھذا الھکم والہ موسیٰ فنسی افازیرون الا یرجع الیھم قولا ولا یملک لھم ضرار ولا نفعا ونقد قال لھم ہارون میں قبل یا قوم فافتنتم بہ وان ربکم الرحمن فاتبعونی واطعیوا امری قالو لن تبرح علیہ عاکفین حتی یرجع الینا موسیٰ قال یاھرون مامنعک اذرایتم ضلوا الا تنبنسن انعصیت امری قال یا بنووم لا تاخذ بلحیتی ولا براسی انی خشیت ان تقول فرفت بین بنی اسرائیل ولم ترقب قولی قال فاخطبک یاسامری قال بصرت بھائم یبصروا بہ فقبضت قبضۃ من اثرالرسول فنبذ تھا وکذلک سولت لی نفسی۔ (سورة طہٰ لغایت)
اور سورة طہٰ میں فرمایا ہے کہ اے موسیٰ کیا چیز مجھ کو تیری قوم سے چھوڑا کر ایسی جلدی لے آئی۔ موسیٰ نے کہا کہ وہ لوگ میری پیروی پر ہیں اور میں جلد چلا آیا تیرے پاس تاکہ تو راضی ہو۔ خدا نے کہا کہ بیشک میں نے تیری قوم کو تیرے پیچھے آفت میں ڈالا ہے اور سامری نے اس کو گمراہ کیا ہے۔ پھر لوٹ آیا موسیٰ بنی قوم کے پاس غصہ میں بھرا ہوا غمگین۔ کہا اے میری قوم کے لوگو کیا تمہارے پروردگار نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا۔ کیا تم پر لمبی مدت گزر گئی یا تم نے یہ چاہا کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے غضب نازل ہو پھر تم نے میرے وعدہ کے برخلاف کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے اپنے اختیار سے تیرے وعدہ کے برخلاف نہیں کیا ، لیکن ہم سے فرعون کی قوم کے گہنوں کا بوجھ اٹھویا گیا پھر ہم نے اس کو پھینک دیا اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا (آگ میں) پھر اس نے ان کے لیے ایک بچھڑا نکالا مجسم کہ اس کے لیے آواز تھی یعنی اس میں سے آواز بھی نکلتی تھی۔ پھر ان لوگوں نے کہا کہ یہ تمہارا پروردگار اور موسیٰ کا پروردگار ہے پھر موسیٰ بھول گیا ہے۔ کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ پھر کر ان کی بات کا جواب نہیں دیتا اور نہ اس کے اختیار میں ان کے لیے ضرر پہنچانا ہے نہ فائدہ۔ بیشک اس سے پہلے ہارون نے ان سے کہا تھا کہ اے میری قوم تم اس کے سبب سے آفت میں پڑے ہو اور بیشک تمہارا پروردگار خداے مہربان سے پھر تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کو بجا لاؤ انھوں نے کہا کہ ہم تو اسی کے گرد بیٹھے رہینگے جب تک پھر ہمارے پاس موسیٰ آوے۔ جب موسیٰ آئے تو انھوں نے کہا اے ہارون کس چیز نے تجھ کو اس بات سے روکا کہ جب تونے ان کو گمراہی میں دیکھا تو میری پیروی کرے کیا تونے میرے حکم کی نافرمانی کی۔ ہارون نے کہا اے میرے ماں جائے (بھائی) تم میری ڈاڑھی اور میرے سر کے بال مت پکڑو بیشک میں اس بات سے ڈرا کہ تم یہ نہ کہو تونے تفرقہ ڈال دیا بنی اسرائیل میں اور میری بات کو نگاہ نہ رکھا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے سامری تیرا کیا حال ہے ان نے کہا مجھے ایسی بات سوجھی جو کسی کو وہ نہ سوجھی تھی پھر میں نے رسول کے نقش قدم سے (یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نقش قدم سے جب کہ وہ پہاڑ کو جاتے تھے) مٹی کی مٹھی بھرلی پھر اس کو بچھڑے میں میں نے ڈال دیا اور اس طرح میرے نفس نے مجھ کو دھوکا دیا۔
قرآن کے لفظ ہم نے اس مقام پر لکھے ہیں اور ان کا مطلب بھی جو صاف صاف قرآن کے لفظوں سے نکلتا ہے لکھ دیا یا اب ہمارے عجائب پرست مفسروں نے اس پر لغو و بیہودہ قصوں پر قصے باندھ دیئے ہیں۔ پہلے تو یہ قرار دیا کہ اس بچھڑے میں اسی طرح کی آواز تھی جس طرح کہ سچ مچ کی اور خدا کی پیدا کی ہوئی بچھڑے میں آواز ہوتی ہے پھر ضرور ہوا اس کا کوئی سبب بھی قرار دیں اس لیے ” الرسل “ کے لفظ سے تو جبرائیل مراد ہے۔ ” بصرت “ سے یہ معنی لیے کہ سامری نے جبرائیل کو دیکھا تھا اور کسی نے نہیں دیکھا تھا اور وہ کہاں عین اس وقت جب کہ بحراحمر سے بنی اسرائیل گزرے رہے تھے اور فرعون تعاقب میں تھا اور فرعون کے لشکر اور بنی اسرائیل کے لشکر کے درمیان میں جبرائیل آگئے تھے اس وقت سامری نے ان کو دیکھا اور پہچان لیا اور نہایت دور اندیشی سے ان کی یا ان کے گھوڑے کے (کیونکہ بعض مفسرین کے نزدیک اس وقت گھوڑے پر چڑھے ہوئے تھے) پاؤں تلے کی مٹی اٹھالی کہ کسی وقت کام آویگی اور یہاں اس کو کام میں لایا اور بچھڑے کے منہ میں ڈال دی وہ سچ مچ کے خدا کے پیدا کئے ہوئے بچھڑے کی مانند بولنے لگا۔
ان خرافات و لغویات کا کچھ ٹھکانا ہے کیسے جبرائیل وہ کہاں تھے کجا سمندر کہاں کی بات کہاں لے دوڑے سمندر میں جبرائیل کا آنا کیسا ان کا گھوڑے پر سوار ہونا کیسا اللہ کے رسول یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہاں موجود تھے جن کی طرف صاف اشارہ ہے ہمارے مفسرین خدا ان کو بخشے ان کو چھوڑ کر سمندر میں جاڈوبے۔
ایک لفظ بھی قرآن مجید کا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ اس کو بچھڑے میں سچ مچ کی اور خدا کے پیدا کئے ہوئے بچھڑے کی مانند آواز تھی بلکہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سامری نے اس بچھڑے کو اس طرح بنایا تھا کہ اس میں سے آواز بھی نکلتی تھی ہزاروں جانور اب بھی کاریگر اس طرح سے بناتے ہیں کہ وہ اڑتے ہیں ہلتے ہیں حرکت کرتے ہیں بولتے ہیں۔ سامری نے بھی اس بچھڑے کو ایسی کاریگری سے بنایا تھا کہ اس میں سے آواز بھی نکلتی تھی سیدھے مطلب کو ٹیڑھا کرنا ہمارے مفسروں کی عجائب پرستی اور یہودیوں کی تقلید کے سوا کچھ نہیں ہے مذہب اسلام اور خدا کا کلام یعنی قرآن مجید ان سب لغویات سے پاک ہے۔
وقال اکثر المفسرینمن المعتزلۃ انہ کان قد جعل ذلک العجل مجوفاو وضع فی جو نہ الا نابیب ویظاھر منہ حسرت مخصوص یشبہ خوارالعجل وقال اخرون انہ جعل ذلک التمثال اجرف وجعل تحتہ فی الموضع الذی نصب فیہ العجل من ینفخ فیہ من حیث لا یشعریہ اننا سرنسموا الصوت من جوف کالخوار۔ قال صاحب ھذا القول والناس قد یفعلون الان فی ھذہ التصاویرالتی یجرون فیہ الماء علی سبیل القوارات وما یشبہ ذلک فبھذا الطریق وغیرہ اطھرالصوت من ذلک التمشال ثم القرالی الناس ھذہ العجل الھھم والہ موسیٰ ۔ (تفسیر کبیر جلد صفحہ )
یہی قول معتزلے عالموں کا بھی ہے چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ۔ اکثر معزتے مفسروں کا یہ قول ہے کہ سامری نے وہ بچھڑا اندر سے کھوکھلا بنایا تھا اور اس کے اندر نالیاں لگائی تھیں ان سے آواز بچھڑے کی آواز کے مشابہ نکلتی تھی اور مفسروں نے یہ کہا کہ وہ مورت کھوکھلی تھی اور جہاں وہ بچھڑا کھڑا کیا گیا تھا اس کے نیچے ایک ایسا مقام تھا جہاں ایک شخص کھڑا ہو کر اس میں پھونکتا تھا اور لوگ اس کو نہیں جانتے تھے اس کے پیٹ میں سے بچھڑے کی آواز کی مانند آواز سنتے تھے ۔ اس قول کے قائل نے کہا کہ اب بھی لوگ ان مورتوں تاول الخوار علی ان السامری صاغ عجلا وجعل فیہ خروقا یدخلہ الریح فیخرج منھا صوت کالمخوار ودھا ھم الی عبادتہ فاجابوہ وعبدوہ ۔ عن الجبائی۔
وقیل انہ احتال بادخال الریح کما یعمل ھذہ الالات التی تصوف بالحیل عن الزجاج والجبائی والبلخی (تفسیر مجمع البیان)
میں جن میں پانی کے فوارے چھوٹتے معلوم ہوتے ہیں اور اسی قسم کی چیزیں معلوم ہوتی ہیں ایسا ہی کرتے ہیں۔ پس اسی طرح اس بچھڑے کی موت سے آواز نکالی تھی پھر لوگوں کو بتایا کہ یہ بچھڑا ان کا خدا اور موسیٰ کا خدا ہے۔
تفسیر مجمع البیان میں لکھا ہے کہ حیائی نے بچھڑے کی آواز کی نسبت بیان کیا ہے کہ سامری نے بچھڑا بنایا اس کو اندر سے خالی رکھا اس میں ہوا جاتی تھی پھر اس سے بچھڑے کی آواز کی مانند آواز نکلتی تھی اور اس نے لوگوں سے اس کی پوجا کرنے کو کا ان لوگوں نے مان لیا اور اس کی پوجا کی۔
اور اسی تفسیر میں زجاج اور جبائی اور بلخی کا قول ہے کہ سامری نے بچھڑے میں ہوا کے بھر دینے سے قریب کیا تھا جس طرح اس قسم کی چیزیں دھوکادینے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔
بات صرف اس قدر ہے کہ مصر میں رہنے سے بنی اسرائیل کے دل میں بت پرستی کا خیال جما ہوا تھا وہ چاہتے تھے کہ ان کے لیے کوئی دیوتا بنایا جاوے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی انھوں نے چاہا تھا کہ ان کے لیے ایک دیوتا بنادیں انھوں نے ان کو دھمکا دیا جب وہ پہاڑ پر چلے گئے تو حضرت ہارون کا اتنا خوف ان کو نہ تھا ان کے منع کرنے سے انھوں نے نہ مانا۔ مصر میں ایک دیو تھا جس کا نام ” نیوس “ تھا اور اس کی صورت بچھڑے کیسی تھی اسی صورت کا انھوں نے بچھڑا بنایا اور بنانے والے نے اس میں ایسی ترکیب رکھی کہ اس ترکیب سے بچھڑے میں آواز نکلتی تھی اور لوگوں کو دھوکا و فریب دینے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاؤں تلے کی مٹی حقیقۃً یا صرف دھوکا دینے کو اس مٹی کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاؤں تلے کی مٹی بیان کرکے بچھڑے میں ڈال دی۔ خود قرآن مجید میں سامری کا قول منقول ہے کہ ۔ کذلک سولت لی نفس۔ یعنی اس طرح اس کے نفس نے دھوکا دیا۔
اس مقام پر قابل غور یہ بحث ہے کہ بچھڑا بنانے والا کون تھا توراۃ میں لکھا ہے کہ خود حضرت ہارون بچھڑا بنانے والے تھے اور خود انھوں نے ہی بچھڑے کی پرستش کروائی۔ مگر جب ہم خود توراۃ کے مضامین پر خیال کرتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا نے ہارون کو بھی برکت دی تھی اور تمام احکام جو خدا نے موسیٰ کو دیئے تھے ان کو حضرت ہارون ہی تعمیل کرتے تھے بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو صرف نام ہی کے تھے خدا کے تمام احکام بذریعہ حضرت ہارون پورے ہوتے تھے تو ہم اس بات کو کہ حضرت ہارون اس بچھڑے کے بنانے والے اور بت پرستی کی اجازت دینے والے تھے جیسا کہ توراۃ میں لکھا ہے صحیح تسلیم نہیں کرسکتے۔ یہ بات ممکن ہے کہ یہ بچھڑا اس زمانہ میں بنایا گیا جب کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پہاڑ پر تھے اور حضرت ہارون کو تمام بنی اسرائیل پر سردار کر گئے تھے اور ان کے عہد سرداری میں یہ بچھڑا بنا اس لیے حضرت ہارون کی طرف منسوب کیا گیا۔ مگر یہ بات کہ خود حضرت ہارون اس کے بنانے والے تھے کسی طرح صحیح متصور نہیں ہوسکتی۔
قرآن مجید نے صاف صاف بتادیا کہ حضرت ہارون نہیں بلکہ سامری اس کا بنانے والا تھا۔ ہمارے مفسرین کی جیسی عادت ہے کہ تفسیروں میں رطب دیا بس صحیح و غلط روایتیں بھر دیتے ہیں اسی طرح سامری کی نسبت بھی روایتیں بھر دی ہیں جن میں سے بعض کی کچھ اہمیت بھی ہے مگر ٹھیک طور پر بیان نہیں کیں ۔ اور بعضوں نے نہایت غلطی سے سامری خاص نام بنانے والے کا سمجھا ہے جو صریح غلط ہے۔
عیسائی علما نے یہ بات چاہی ہے کہ قرآن مجید کی غلطی ثابت کریں مسٹر سلیڈن نے کہا کہ دراصل ہارون اور سامری ایک ہی شخص ہے نعوذ باللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلطی سے ان کو دو سمجھا ہے۔ نمر یا شامر عبری لفظ ہے اور اس کے معنی محافظ کے ہیں اور جب کہ موسیٰ پہاڑ پر گئے تھے تو ہارون بنی اسرائیل کے محافظ ہوئے تھے اور اس لیے وہی شامر تھے۔
مگر مسٹر سلیڈن کا یہ قیاس محض غلط ہے اس لیے کہ اگر یہ لفظ قرآن مجید میں اخذ کیا جاتا تو اس کے ساتھ یاے نسبت کسی طرح نہیں آسکتی تھی۔ اور اگر وہ علم عینی خاص شخص کا نام متصور ہوتا تو اس پر الف لام لازم نہیں آسکتا تھا حالانکہ قرآن مجید میں یاے نسبت اور الف لام دونوں موجود ہیں یعنی ” السامری “ آیا ہے پس یہ دونوں خیال محض غلط ہیں۔
صحیح امر جس کو ہمارے مفسرین نے بھی بیان کیا ہے یہ ہے کہ بچھڑے کا بنانے والا سمارتن والوں کا ایک شخص تھا جس کا نام بیان نہیں ہوا پس ” السامری “ کے معنی یہ ہیں کہ ” رجل من الذین ھم السامری “ مسٹر سیل نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس زمانہ میں سمارتن قوم موجود نہ تھی بلکہ اس کے بہت زمانہ بعد وہ قوم بنی تھی۔
مگر اس اعتراض میں بھی غلطی ہے قرآن مجید کے الفاظ سے اس وقت ہی نام ہونا لازم نہیں آتا۔ بنی اسرائیل کے بارہ سبط تھے اور سب ایک سلطنت کے ماتحت تھے۔ مگر جب ” جسعام “ حضرت سلیمان کا بادشاہ ہوا تو بنی اسرائیل کے دس سبط نے اس سے بغاوت کی ” یارجام “ پسرنباط کو اپنا بادشاہ بنایا اس نے اپنے ملک میں بمقام بیت ایل اور دان کے مونے کے بچھڑے بنائے (دیکھو اول سلاطین باب درس - ) اور ان کی پرستش شروع کی۔ جب کہ ” عمری “ ان لوگوں پر بادشاہ ہوا تو اس نے کوہ شومون کو اس کے مالک سے جس کا نام ” شمر “ تھا خرید لیا اور وہاں شہر بنایا جو دارلخلافت ہوگیا (دیکھو اول سلاطین باب درس لغایت) اور سای سبب سے وہ لوگ سمارتن یا شامری یا سامری مشہور ہوئے اور وہ قوم جس میں کے شخص نے بنی اسرائیل کے لیے بچھڑا بنایا تھا قرآن مجید کے بہت پہلے سے سامری کے نام سے کہلاتی تھی۔ قرآن مجید میں السامری کہنے سے صرف یہ اشارہ ہے کہ اس کا بنانے والا اس قوم میں سے تھا جنہوں نے آخر کار یاربعام کی اطاعت کرکے سونے کے بچھڑوں کی پرستش کی تھی اور جو لوگ سامری یعنی سمارتن کے لقب سے مشہور ہیں۔
جو لوگ کہ توراۃ کے ان مقامات کو جو قرآن مجید کے بیان کے مخالف ہیں قرآن مجید کی غلطی ثابت کرنے کو پیش کرتے ہیں ان کو ایسی جرات کرنے سے پہلے توراۃ کے تمام مضامین مندرجہ کی صحت ثابت کرنی چاہیے۔ اور ان کو اس بات کا بھولنا نہیں چاہیے کہ اب تک یہ بھی تحقیق نہیں ہوا ہے کہ موجودہ توراۃ کس نے لکھی اور کب لکھی گئی خود توراۃ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے مضامین یاد سے اور کچھ تحریروں سے اخذ کئے گئے ہیں اور بہت سی باتیں جو اس زمانہ میں جب کہ وہ لکھی گئی یہودیوں میں مشہور یا مروج تھیں وہ بھی اس میں داخل کی گئی ہیں اور جو مضامین اس میں داخل ہیں وہ ایسے افسانہ آئنہ ہیں کہ جب تک ان افسانوں کو علیحدہ نہ کیا جاوے اصل واقعہ پر کسی طرح یقین نہیں ہوسکتا۔ بشپ نینال نے جو کچھ اس کی نسبت لکھا ہے اس کو بھی بھولنا نہیں چاہیے پس امر کہ کوئی واقعہ جو توراۃ کے برخلاف ہو وہ صحیح نہیں ہے اس کو کوئی ذی عقل تسلیم نہیں کرسکتا۔ بلاشبہ توراۃ میں احکام الٰہی بھی مندرج ہیں اور وہ ” فیھا اھدی ونور “ کہنے کے مستحق ہیں اور تاریخی واقعات بھی ہیں جو غلطی سے پاک نہیں۔
(ضھیرا المونث فی کلمۃ اتمنا ھا عندنا راجع الی مصدروعدنا وھوا لمراعد کافی قویہ دوے اعدلواھوا قرب للتقوی۔ منہ)
پانزد ہم۔ ستر آدمیوں کا منتخب کرنا
واذقلتم یا موسیٰ لن نومن لک حتی نری اللدشجرۃ فاخذتکم لصتفنۃ وانتم تنظرون۔ (سورة بقرہ ) ونختار موسیٰ قومہ سبعدین الجملا صیۃ التنا (سورة اعراف )
قرآن مجید میں ایک جگہ یہ بیان ہوا ہے کہ موسیٰ کی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تجھ پر ایمان نہیں لانے کے جب تک کہ ہم کھلم کھلا خدا کو نہ دیکھ لیں اور سورة اعراف میں فرمایا ہے کہ موسیٰ نے ستر آدمیوں کو خدا کے وعدہ کی جگہ لے جانے کے لیے منتخب کیا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی بحالت ذہول خدا سے کہا تھا کہ ” رب الرنی انظر الیک “ خدا نے جواب دیا تھا کہ ۔۔۔ لن ترالی ولکن نظرالی الجبل “ بنی اسرائیل نے بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ ہمیں خدا دکھا دو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر یہ واقعہ خود گزر چکا تھا اور وہ جان چکے تھے کہ خدا کا دیکھنا محال ہے بلکہ صرف خدا کے وجود پر ایقان ہی خدا کا دیدار ہے۔ اور خدا کے وجود پر ایقان اس کی عجائب مخلوقات پر غور وفکر کرنے اس کے دیکھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ خدا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اس عجیب ہیبت ناک آتشین پہاڑ کی طرف خدا پر ایقان لانے کے لیے متوجہ کیا تھا اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل میں سے ستر آدمیوں کو خدا کی اس قدرت کاملہ اور تجلی شان دکھانے کو منتخب کیا تاکہ ان کو بھی ایقان وجود باری عزاسمہ پر حاصل ہو۔
خدا کا دیکھنا دنیا میں نہ ان آنکھوں سے ہوسکتا ہے اور نہ ان آنکھوں سے جو دل کی آنکھیں کہلاتی ہیں اور نہ قیامت میں کوئی شخص خدا کو دیکھ سکتا ہے وہ بیچون و بیچگون ہے کسی حیزو صورت میں آنے کے قابل ہی نہیں ہے پھر وہ کیونکر دنیا میں یا عقبے میں دکھائی دے سکتا ہے۔ بہت سے عابد وزاہد دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے آنکھوں سے دنیا ہی میں خدا کو دیکھا ہے۔ بہت سے کہتے ہیں کہ ان آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ انھوں نے دیکھا دکھایا کچھ نہیں بلکہ خود انہی کا خیال یا ایقان ہے جو انھوں نے دیکھا ہوگا ۔ عقبے میں اگر خدا کا دیکھنا تسلیم کیا جاوے تو وہ بھی خدا کا دیکھنا نہ ہوگا بلکہ خود انہی کا ایقان ان کو دکھائی دے گا نہ خدائے بیچون و بیچگون و بےمثل و بےنمون۔ (تاب یک جھونبا وردنہ موسیٰ ونہ طور ایں ولم ہست کہ ایں گونہ ہزاراں دیداست)
علمائے ظاہر جو اس مسئلہ کی حقیقت نہیں سمجھتے صرف لفظوں پر بحث کیا کرتے ہیں وہ اس مسئلہ کی حقیقت کے سمجھنے کے لائق ہی نہیں ہیں۔ ہاں علمائے ربانی جنہوں نے اپنے نفس پر اور انسان کے نیچر پر غور کی ہے ان کی سمجھ اس مسئلہ کی نسبت علمائے ظاہری کی سمجھ سے زیادہ اعتبار کے قابل ہے اور ان میں سے بھی بالتخصیص ان کے جو باوجود علم باطنی کے علم ظاہری میں بھی بہت بڑا درجہ کمال کا رکھتے تھے۔ اس مسئلہ کی تحقیق میں مرشدنا ومولانا عالم ربانی حضرت شیخ احمد سرہندی نقشبندی مجدد الف ثانی (رح) نے جو کچھ فرمایا ہے بجنسہ اس مقام پر لکھا جاتا ہے۔
حضرت ممدوح قدس سرہٗ نے جلدسوم مکتوب نودہم جو بنام فقیر ہاشم کشمی لکھا ہے اور جس میں درباب کیفیت مشاہدہ قلب عرفا حق جل وعلا کو سوال کیا گیا تھا اس طرح ارقام فرمایا ہے ” پرسیدہ بودند کے بعضے از محققان صوفیہ اثبات رویۃ و مشاہدہ اوتھالئے بدیدہ دل ور دنیا لے فرمایند کما قال الشیخ العارف فی کتابہ العوارف ۔ موضع المشاہد بصرا القلبدالخ وشیخ ابواسحاق کلابادی قدس سرہٗ کہ از قدماے ایں طائفحہ علیہ است دازروساے ایشاں در کتاب تعرف امارو اجمعوا علیٰ انہ تعالیٰ یا لری فی الدنیا بالا بصارولا بالقلوب الا من جھۃ الایقان توفیق میان ایں وہ تحقیق چیست وراے تو برکدام واجماع باوجود اختلاف بچہ معنی است۔ بداں ارشدک اللہ تعالیٰ کو مختارایں فقیر دریں مسئلہ قول صاحب تعرف است قدس سرہ وسیداند کہ قلوب رادریں نشا ازاں حضرت جل سلطانہ غیر از ایقان نصیبے نیست آں را رویۃ انگارند یا مشاہدہ وچوں قلب رارویۃ ہنود والعباء راچہ بود کہ ودریں نشادر ایں معاملہ بیکار و معطل است غلیۃ مافی الباب معنی ایقان کہ قلب را حاصل شدہ است در عالم مثال بصورت رویۃ ظاہر ہے شود و موقن بہ صورت مرئی ج در عالم مثال ہر معنی راصورتیست مناسب وچوں در عالم شہادت کمال یقین دررویۃ است آں ایقان نیز بصورت ریۃ ۔ ویۃ ور مثال ظاہرے گردو وچوں ایقان بصورت رویۃ ظاہر شود متعلق آنکہ موقن بہ است ناچار بصورت مرئی آنجا ظاہر گردو وچوں سالک آں رادرمرات مثال مشاہدہ مے نمایدتوسط مرات ذاہل گشتہ و صورت۔ احقیقت دانستہ مے انگار و کہ حقیقت ویتے اور احاصل شتہ است ومرئی پیدا آمدوے داند کہ آں رویت صورت ایقان اوست وآں مرئی صورت موقن بہ او۔ ایں از اغلاط صوفیہ اسست داز بتسات صوربحقایق۔ وہ میں دیچوں غالب می آید وازباطن بظاہرے تراود سالک رادرہم مے اندازو کہ رویۃ بصری نیز حاصل گشت و مطلوب از گوش بہ آغوش آمد نمیداند کہ حصول ایں معنی چوں دراصل کہ بصیرت است نیز مبنی بر تو ہم وتلبس است بہ بصر ک ہدریں نشافرح اداست چہ رسد دردیت اور ا ازکجا حاصل شوددرروایت قبی جم غضیراز صوفیہ در تو ہم افتادہ اندو حکم بوقوع آں کردہ دور رویت بصری مگر ناقصے ازیں طائفہ در تو ہم وقع آں افتادوباشد کہ مخالف اجماع اہل سنت و جماعت است شکراللہ سعیہم۔
سوال موتن بہ راچوں صورت درمثال پیدا شد لازم آمد کہ حق راسبحانہ آنجا صورت بود۔
جواب تجویز نمودہ اند کہ حق را سبحانہ ہرچند مثل نیست اما مثال است وروادہشتہ اندکہ درمثال بصورتے ظہور فرمایدچنانچہ صاحب فصوص قدس سرہ روایت اخروی رانیز بصور جاحہ لطیفہ مثالیہ مقرر ساختہ است و تحقیق ویں جواب آنست کہ آں صورت موقن یہ صورت حق نیست سبحانہ در مثال بلکہ صورت مکشوف صاحب ایقان است کہ ایقان اوبآں تعلق گرفتہ است وآں مکشوف بعض وجوہ داغنبارات ذات حق است سبحانہ تہ ذات حق جل وعلا لہٰذا چوں معاملہ عارف بذات سرسد جل سلطانہ صورتے کائن نیست تا آنرا بصورت مرئی و انمایدوایقان آنرا بصورت وانما یدیا آنکہ گوئیم در عالم مثال صور معانی است نہ صورت ذات وچوں عالم ہتمامہ مظاہرا اسد وصفات است واز ذاتیتہ بہرہ ندار و چنانچہ تحقیق آں ر اور مواضع متعددہ مودہ ایم پس ناچار ہتمامراز قسم معانی باشد ودرمثال آنرا صورتے کائن بودو در کمالات و جو بی ہر جا صفت و شان است کہ قیام بذات دار و از قبیل معافی است کہ اگر آں ر اور مثال صورتے بودداوبالنقص گنجائش دار داتا ذات اور اسبحانہ حاشا کہ در مرتبہ از مراتب صورت بودچہ صورت مستلزم تہدید و تقنیداست ورہر مرتبہ کہ باشد مجوز نیست مراتب ہمہ کہ مخلوق اویند سبحانہ کجا گنجائش دارند کہ خالق را محدود و مقید سازندہر کہ تجویز مثال در آنحضرت جل شانہ نمودہ است باعتبار ۔ وجود و اعتبارات است نہ باعتبار عین ذات تعالیٰ و ہرچند تجویز مثال دروجود دا اعتبارات حضرت ذات تعالیٰ ہم بریں فقیرگراں است مگر آنکہ درظلے از اظلال بعیدہ آں تجویز نمودہ آیدازیں بیان واضح گشت ک ہدر عالم مثال ارقسام صور معانی و صفات رکائن است نہ ذات تعالیٰ ۔ اپس آنچہ صاحب نصوص تجویز روایت اخری بصورت مثالیہ نمودہ است چنانچہ گزشت آں رویت حق نیست تعالیٰ بلکہ رویت صورت حق ہم نیست سبحانہ چہ اور اسبحانہ صورتے نیست نارویت باں تعلق پیدا کندواگردرمثال صورتے ہست ظلے انہ اظلال بعیدہ ور اکائن است پس رویت آں رویت حق چرابا شد سبحانہ شیخ قدس سرہٗ ور نفی روایت حق جل وعلااز معتزلہ وفلاسفہ بیچ کم پائی نمے کند بلکہ اثبات رویت بر نہجے مے نماید کہ مستلزم نفی روایت است و آں ابلغ در نفی است از صریح نفی لان الکنایۃ ابلغ من اتصریح فیضہ مقررہ است ایں قدر فرق است کہ مقتدائے آنجماعت عقل شان است و مقتدائے شیح کشف ( ؎) بعید از صحت مانا کہ اذلہ غیر تامہ مخالفان کہ در متخیلہ شیخ نشستہ بود کشف اور انیزدریں مسئلہ از صواب منحرف گردانیدہ است ومائل بمذہب شاں ساختہ چوں ازاہل سنت بود صورت ، ثبات مودو است وبآں اکتفاکردہ دآں رارویت ان کا شتہ ربنا لا تر اخذنا ان فینا اواخط ناوتحقیق ایں مسئلہ دقیقہ کہ درحل بعض از مواضع کتاب عوارف نوشتہ است نیز تحریر یافتہ است وآنچہ از اجماع پر سیدہ بودند تواندبود کہ تاآں وقت خلافے کہ شایان اعتداد باشد بظہور نیا مدہ باشد یا اجماع مشائخ عصہ خود خواستہ باشد واللہ سبحانہ اعلم بحقیقہ لحال۔ انتہیٰ
یہی ایک بات تھی جس کا اس مقام پر لکھنا تھا باقی حالات اس واقعہ کے تفسیر سورة بقرہ میں بیان ہوچکے ہیں۔
شانزدہم۔ ذکر استسقاے قوم موسیٰ ، ہفدہم ۔ سایہ کرنا ابر کا، ہیزدہم ۔
من وسلویٰ کا اترنا نوزدہم ۔ دخول باب
ان چاروں امور کی نسبت ہم نے سورة بقر کی تفسیر میں بالا ستیعاب بحث کی ہے اب ان پر دوبارہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ من شاء فلنضرالیہ۔
( ایجدونہ مکتوباعند ھم فی التورٰۃ والانجیل) یہ ایک آیت ہے جس میں اشارہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہونے کی بشارت توراۃ و انجیل میں موجود ہے میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارات پر ایک مفصل خطبہ خطبات احمدیہ میں لکھا ہے جس میں موافق اصول اہل مذہب کے مقتدانہ یعنی بعد تسلیم ان امور کے جو عیسائی و مسلمان نسبت بشارات کے تسلیم کرتے ہیں بحث کی ہے اور توراۃ و انجیل سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارات کو ثابت کیا ہے۔ مگر میں اپنی اس تفسیر میں اس سے زیادہ دقیق امور پر بحث کرنا اور بشارات کی حقیقت اور اس کا قوانین قدرت کے مطابق ہونا بیان کرنا چاہتا ہوں۔ مگر اس بحث کے لیے بنسبت اس آیت کے سورة الصف کی آیت جہاں آیا ہے ” مبشرا برسول یاتی من بعد اسمہ احمد “ زیادہ تر مناسب ہے (نہایت افسوس سے یہ کہ اس سورة کی تفسیر لکھنے سے پہلے سر سید رحلت فرمائے عالم ہما و دانی ہوگئے۔ حمد بابا مخدومی) اس لیے انشاء اللہ تعالیٰ اس آیت کی تفسیر میں یہ پوری بحث لکھی جاویگی۔ اور اس مقام پر بلا کسی بحث کے توراۃ و انجیل کی وہ آیتیں لکھ دی جاتی ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارات لکھی ہیں۔
ابو الفرح مالطی یعنی مالٹا کا رہنے والا جو ایک عیسائی عالم ہے اس نے ایک کتاب عربی زبان میں لکھی ہے جس کا نام ” تاریخ مختصر الدول “ ہے وہ کتابء میں اکسفورڈ میں چھپی ہے اس کے صفحہ میں یہ عبارت مندرج ہے :۔
وقد ادعی علماء الا سلامیین درودذکرہ فی کتب اللہ المنزلۃ مافی التوربافی ایۃ۔ جاء اللہ من سینا و اشرف من ساعیر واسغلن من جبل فاران۔ قالوا ھذہ اشارۃ الی نزول للنوراۃ علی موسیٰ والا نجیل علی عسیٰ والقراٰن علیٰ محمد۔ واما الزبور فقی ایۃ۔ یظاھر للہ من صیہوں اکلملا خمود۔ قالوا الا کلیل رمز علے الملک والمحمود علی محمد۔ وامافی الا نجیل قفی ایۃ۔ انا انالم ذھب۔ الفارقلیہ لا یجیکم۔
توریت سفر پنجم باب ہزدہم آیت - میں یہ لکھا ہے۔ قائم کرے گا تیرا معبود تیرے لیے نبی تجھ میں سے تیرے بھائیوں میں سے مجھ سا اس کو مانیو۔ ان کے بھائیوں میں سے نبی تیرا سا قائم کرونگا۔ اور اپنا کلام اس کے منہ میں دونگا اور جو کچھ میں اس سے کہونگا وہ ان بنی اسرائیل کے بھائی بنی اسمعٰیل ہیں جس سے اشارہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے اور سو اے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کوئی دوسرا نبی موسیٰ کی مانند نہیں ہوا اور ان الفاظ سے کہ اپنا کلام اس کے منہ میں رکھونگا قرآن مجید کے نازل کرنے کی طرف اشارہ ہے۔
توریت سفر پنجم باب سی وسوم آیت میں لکھا ہے۔ اور کہا خدا سینا سے نکلا اور سعیر سے چمکا اور فاران کے پہاڑ سے ظاہر ہوا اس کے دہنے ہاتھ میں شریعت روشن ساتھ لشکر ملائکہ کے آیا۔
کتاب جبقوق باب سوم آیت آئے گا اللہ جنوب سے اور قدوس فاران کے پہاڑ سے آسمانوں کو جمال سے چھپا دیا اس کی ستایش سے زمین بھر گئی۔ فاران خاص مکہ معظمہ کے پہاڑوں کا قدیم نام ہے پس ان آیتوں میں نبی حجازی کا ذکر لکھا ہے۔
سرود سلیمان باب پنجم کی دسویں آیت سے سولہویں آیت تک یہ لکھا ہے۔ میرا دوست نورانی گندم گوں ہزاروں میں سردار ہے اس کا سر ہیرے کا سا چمکدار ہے اس کی زلفیں مسلسل مثل کوے کے کالی ہیں۔ اس کی آنکھیں ایسی ہیں جیسے پانی کے کنڈپر کبوتر۔ دودھ میں دھلی ہوئیں۔ نگینہ کی مانند جڑی ہوئیں خانہ میں۔ اس کے ر خسارے ایسے ہیں جیسے ٹٹی پر خوشبودار بیل چھائی ہوئی۔ اور چکلے پر خوشبورگڑی ہوئی۔ اس کے ہونٹ پھول کی پنکھڑیاں جن سے خوشبو ٹپکتی ہے اس کے ہاتھ ہیں سونے کے دھلے ہوئے۔ جوار سے جڑے ہوئے۔ اس کا پیٹ جیسے ہاتھی دانت کی تختی۔ جواہر سے لپی ہوئی۔ اس کی پنڈلیاں ہیں جیسے سنگ مر مر کے ستون۔ سونے کی بیٹھ کی پر جڑے ہوئے۔ اس کا چہرہ مانند ماہتاب کے۔ جوان مانند صنوبر کے ۔ اس کا گلا نہایت شیریں۔ اور وہ بالکل محمدیم (محمد) یعنی بہت تعریف کیا گیا ہے۔ یہ ہے میرا دوست اور میرا محبوب اے بیٹو یروشلیم کے۔
عبری زبان کے قاعدہ میں نام کو بھی بلحاظ تعظیم جمع بنادیتے ہیں جیسے لعل کو لعالیم۔ لیکن محمدیم کو اگر صفت ہی تسلیم کیا جاوے تو بھی اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اشارہ ہے۔
کتاب سچی باب یازدہم آیت میں تکھا ہے۔ سب قوموں کو بلاؤ ونگا۔ اور ” حمدث “ (احمد) سب قوموں کا آویگا اور اس گھر کو بزرگی سے بھردونگا ۔ کہا خداوند خلایق نے۔
حمدث عبری لفظ میں حرف ث مبالغہ کے لیے ہے یعنی سب قوموں کا بہت بڑا محمود۔ اور اس عبری لفظ کے مقابلہ میں احمد کا صیغہ جو حمد کے مادہ سے نکلا ہے بالکل درست آتا ہے پس خواہ اس لفظ کو صرف نام قرار دو خواہ صفت اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر لکھا ہے۔
کتاب اشعیاہ نبی باب بست و یکم آیت ۔ اور ایک جوڑی سواروں کی دیکھی ایک سوار گدھے کا اور ایک سوار اونٹ کا اور خوب متوجہ ہوا۔
حضرت اشعیاء نبی نے اپنے مکاشفہ سے دو نبیوں کے پیدا ہونے کی خبر دی ایک کو گدھے کے سوار سے تعبیر کیا ہے جس سے حضرت عیسیٰ مراد ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ بیت المقدس میں داخل ہوئے تو وہ گدھے پر سوار تھے۔ دوسرے کو اونٹ کے سوار سے تعبیر کیا ہے جس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں کیونکہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ہیں تو اونٹ پر سوار تھے۔
انجیل یوحنا باب شانزدہم آیت ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہ بھلا ہے تمہارے لیے کہ یہاں سے میں چلا جاؤں کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو فارقلیط (احمد) تمہارے پاس نہ آویگا۔
فار قلیط اصل میں یونانی لفظ نہیں ہے بلکہ دراصل کالدی زبان کا لفظ ہے جو عبرانی کی مانند زبان ہے مسلمانوں میں اس کا املا اور تلفظ عربی زبان کے موافق ہے جو کا لڈی یا عبری زبان سے چنداں بعید نہیں ہے مگر حضرت یوحنا نے اپنی باتحصیل یونانی میں لکھی تھی اس لیے اس لفظ کا تلفظ اور املا یونانی زبان کے موافق لکھا تھا جو کالدی یا عبری زبان سے نہہایت بعید ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یونانی زبان میں اس کا تلفظ مختلف طرح پر ہو اور اسی سبب سے قدیم و جدید یونانی نسخوں میں اس کا املا بھی مختلف طور پر لکھا گیا جس کے سبب تلفظ بھی اور معنی بھی کس قدر بدل جاتے ہیں۔ مسلمان تو اس لفظ کا ترجمہ موافق قدیم یونانی تلفظ و املا کے احمد کرتے ہیں۔ مگر اس زمانہ کے عیسائی اس قدیم املا کو تسلیم نہیں کرتے اور موافق جدید تلفظ و املا کے اس کے متعدد ترجمے کرتے ہیں۔
نہایت قدیم عربی ترجمہ جو روم کبیر میں میں چھپا اس میں تو اس لفظ کا ترجمہ ” فارقلیط “ ہی کیا ہے۔
ایک عربی ترجمہ جو بطور خلاصہ چاروں انجیلوں کے فلارنس میںء میں چھپا ہے اس میں بھی اس لفظ کا فارقلیط ہی ترجمہ کیا ہے۔
ایک عربی ترجمہ جوء میں چھپا اس کا ترجمہ ” مسلی “ کیا ہے یعنی تسلی دہندہ۔ اور خاص اس آیت میں اس کا ترجمہ ہی نہیں کیا بلکہ لفظ ” الغری “ بطور اشارہ کے لکھا ہے۔
اس کے بعد جس قدر ترجمے فارسی اردو کے چھپے ہیں ان سب میں اس کا ترجمہ تلی دینے والا کیا گیا ہے۔
لیکن اس املا کے تغیر و تبدل اور ترجموں یا معنی کے اختلاف سے مسلمانوں کے اس دخولے میں کہ اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت ہے کچھ فرق نہیں آتا۔ کیونکہ کسی بشارت میں اس کا جس کی بشارت ہے خاص نام بتایا نہیں جاتا بلکہ اس کی صفت بیان کی جاتی ہے پس اس لفظ کے کوئی صفتی معنی لو وہ سوائے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور کسی پر صادق نہیں آتے۔
کیونکہ حضرت عیسیٰ کے بعد کوئی اور نبی موسیٰ کی مانند سوائے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نہیں ہوا۔ قرآن مجید میں بھی خاص نام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان نہیں ہوا بلکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسم مبارک کی صفت، احمد، بیان ہوئی ہے یعنی ” یاتی من بعدی اسماء احمد ای اسمہ یحسد لان مافعل یجئی لمبالغۃ الفاعل والمفعول۔ بالفرض اگر اس سے نزول روح القدس مراد ہو تو بھی حضرت عیسیٰ کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی پر نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ حواریوں پر جیسا کہ انجیلوں میں بیان ہے قبل اس کے نازل ہوچکی تھی۔
انجیل لوط باب بست و چہارم آیت ۔ اور دیکھو میں بھیجتا ہوں وعدہ اپنے باپ کا تم پر لیکن تم ٹھہرو شہر یروشلیم میں جب تک کہ عطا ہو تم کو قوت اوپر سے۔
روح القدس تو حواریوں پر آچکی تھی اور یروشلیم میں ٹھہرارہنا یعنی اس کو معبد سمجھنا موقت تھا اور وہ تبدیل ہوگیا اور اس کے مبعوث ہونے پر جس نے کعبہ معبد قرار دیا پس جس کے بھیجنے کا اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔
انجیل یوحنا باب یکم آیت بیس سے پچیس تک میں لکھا ہے۔ اس نے یعنی حضرت یحییٰ نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا اور اقرار کیا کہ میں کر سٹ اس یعنی عیسیٰ مسیح نہیں ہوں اور انھوں نے پوچھا اس سے کہ پھر کون ؟ کیا تو الیاس (یعنی خضر) ہے اور اس نے کہا کہ میں نہیں ہوں۔ تو وہ بتی ہے ؟ اور اس نے جواب دیا نہیں ۔ تب انھوں نے اس سے کہا کہ کون ہے تو تاکہ ہم جواب دے سکیں ان کو کہ جنہوں نے ہم کو بھیجا ہے۔ اپنے تئیں تو کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا میں ہوں آواز اس کی جو کہ جنگل میں چلاتا ہے۔ سیدھا کرو رستہ خداوند کا جیسا کہ نبی اشعیاہ نے کہا۔ اور وہ جو بھیجے گنے تھے فروسی تھے اور انھوں نے اس سے پوچھا اور اس سے کہا کہ تو کیوں اصطباغ کرتا ہے ؟ جب کہ تو نہ کر سٹ اس یعنی عیسیٰ مسیح ہے اور نہ الیاس اور نہ وہ نبی۔
حضرت یحییٰ سے یہودیوں نے الیاس کو اس لیے پوچھا کہ یہودی ان کو زندہ مانتے تھے مسیح کے آنے کے متوقع تھے اور علاوہ حضرت مسیح کے ایک اور نبی کے آنے کے متوقع تھے جن کو وہ نبی کرکے پوچھا پس ” وہ “ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور کسی کی طرف اشارہ نہیں ہوسکتا جس کی نسبت خدا نے موسیٰ سے کہا تھا کہ میں بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے مثل موسیٰ کے ایک نبی پیدا کرونگا۔