ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
( ؎) سبت کے دن یہودیوں کو کشار کھیلنا اور کوئی کام کرنا منع تھا جس سبت کی وہ تعظیم رکھتے تھے اور شکار کو نہ جاتے تھے مچھلیاں کنارہ پر کثرت سے آتی تھیں اور جس دن وہ سبت کی تعظیم توڑ دیتے تھے اور شکار کو جاتے تھے تو مچھلیاں ڈر جاتی تھیں اور کنارہ پر نہیں آتی تھیں۔
(واذا خذ ربک) اس آیت میں لفظ ” اٰدم “ سے حضرت آدم ابوالبشر کسی طرح مراد نہیں ہوسکتے کیونکہ آیت میں صاف لفظ ” بنی اٰدم “ ہے اور پھر امن ظہور ھم، اور اذریتھم ، میں ضمیر جمع کی بنی آدم کی طرف راجع ہے۔ پس یہ خیال مفسرین کا کہ بروز میثاق خدا تعالیٰ نے حضرت آدم کی پیٹھ میں سے تمام ذریات کو نکالا اور ان سے اپنے خدا ہونے کا اقرار لیا قرآن مجید کے الفاظ کے مطابق نہیں ہے۔ نہ اس آیت میں روز میثاق کا ذکر ہے نہ کسی روز میثاق کا وجود اس سے پایا جاتا ہے۔
مفسرین نے بعض حدیثوں پر جن میں بروز میثاق حضرت آدم کی پیٹھ میں سے ان کی ذریت کا نکالنا اور خدا ہونے کا اقرار لینا مذکور ہے استدلال کیا ہے مگر وہ حدیثیں صحیح نہیں ہیں نہ روایتہ اور نہ درایتہ ثابت ہوتی ہیں اس مقام پر خدا تعالیٰ نے نہایت لطیف اور دلچسپ طریقے اور بےانتہا فصیح کلام میں انسان کی فطرت کو بتلایا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ بنی آدم کی اولاد کو پیدا کیا اور خود ان کو ان پر گواہ کیا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں سب نے کہا کہ کیوں نہیں۔ یہ اشارہ اس بات کا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فطرت انسانی ایسی بنائی ہے کہ جب وہ خود اپنی فطرت پر غور کرے اور اس کو سوچے سمجھے تو وہی اس کی فطرت خدا کے دا ہونے پر گواہی دیتی ہے۔ اور ” اشھد ھم علیٰ انفسھم “ کے صریح یہی معنی ہیں اور ” قالوابلیٰ “ اسی فطرت کی تصدیق ہے۔ اور صاف اس بات کی ہدایت ہے کہ ہر انسان خدا پر ایمان لانے کو اپنی فطرت کی رو سے مکلف ہے۔
والقول شافی فی تفسیر ھذہ الا یۃ قول اصحاب النضروار باب المعقولات انہ تعالیٰ اخرج الذریۃ وھم الاولا ومن اصلاب اباھھم
عجائب پسند مفسرین نے کچھ ہی کہا ہو مگر علمائے محققین یہی کہتے ہیں جو ہم نے کہا ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ جو لوگ صاحب نظر اور معقولی ہیں ان کا قول اس آیت کی تفسیر میں وذلک الاخراج انھم کانوا نطفۃ فاخرجھا اللہ تعالیٰ فی الحام الا نھات وجعلھا علقۃ ثم مضۃ ثم جعلھم بمثل سوہا وخلقا کاملا ثم اشھدھم علی انفسھم بمارکب فیھم من دلائل محسانبیتہ و عجائب خلقہ و غرائب منعہ فیھا لا شھاد ساروا کانھم قالوا بلیٰ وان لم یکن ھناک قول باللسان وکذلک نظائر میافقولہ تعالیٰ فقال لھا وللارض ائتیا
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نکالا ذریۃ کو اور وہ ذریت اولاد ہے جو اپنے باپوں کی پیٹھ سے اس طرح نکلتی ہے کہ وہ نطفہ تھے پھر ان کو خدا نے ان کی ماؤں کے پیٹ میں سے نکال کر ڈالا پھر ان کو علقہ کیا پھر مضعہ پھر ان کو ٹھیک انسان بنایا اور پوری خلقت دی پھر خود ان کو ان پر گواہ کیا ان قوتوں سے
طوعاًاورکرھاً قالتا اتینا طایعین و منھا قولہ تعالیٰ انما امرنا لشیء اذاردناہ ان نقول لہ کن فیکون۔ وقولہ العرب۔ قال الجدنا رللوتدلم تشقنی قال سل من یدقفی فان الذی ورای ما خلانی ورائی وقال الشاعر امتلاعا الحوض وقال قطنی نفذ النوع من المجازوا لا ستعارات مشہور فی الکلام فوجب حمل انکلام علیہ (تفسیر کبیر جلد صفحہ)
جو اس نے ان میں رکھی ہیں اپنی وحدانیت کی دلیلوں کی اور اپنی عجائب مخالفت کی اور اپنی اور صنعت کی پس اس گواہ کرنے سے ان کی ایسی حالت ہوئی کہ گویا انھوں نے کہا کہ ہاں کیوں نہیں گو کہ وہاں زبان سے یہ بات کہنی نہیں تھی۔ اور حال کو قال سے تعبیر کرنے کی بہت سی مثالیں ہیں انہی
مثالوں میں سے خدا تعالیٰ کا قول ہے جب اس نے آسمان اور زمین کو کہا کہ آؤ خوشی سے یا ناخوشی سے دونوں نے کہا کہ ہم آئے خوشی سے اور یہ قول بھی اسی کی مثال ہے کہ ہمارا حکم کسی چیز کے لیے جب کہ اس کے ہونے کا ہم ارادہ کرتے ہیں اس کو یہ کہنا ہے کہ ہو پھر وہ ہوجاتی ہے۔ اور عرب کا قول ہے کہ دیوار میخ سے کہتی ہے کہ کیوں مجھ کو پھاڑتی ہے۔ میخ کہتی ہے پوچھ اس سے جو مجھے ٹھوکتا ہے بیشک جو میرے پیچھے ہے وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اور شاعر کا قول ہے کہ حوض بھر گیا اور حوض نے کہا کہ بس کافی ہے مجھ کو۔ اور اس قسم کے مجاز اور استفارے کلام عرب میں مشہور ہیں پھر ضرور ہے اس کلام کو بھی اسی پر حمل کرنا۔
(واتل علیھم نباالذی اتیناہ) اس آیت میں جو لفظ اتینا کا ہے وہ غور طلب ہے۔ صحاح جوہری میں لکھا ہے کہ ” الاتیان المجئی “ یعنی ایتان کے معنی آنے کے ہیں اور جب وہ متعدی کیا جاوے تو اس کے معنی لانے کے ہوجاتے ہیں چنانچہ صحاح میں ہے کہ ” اتاہ ای اتابہ ومنہ قولہ تعالیٰ اتنا غداء نا ای ائتنا بہ “ یعنی اتاہ کے معنی ہیں اتابہ یعنی متعدی کے جس کے معنی ہونے لایا اس کے پاس یا اس کے سامنے اور قرآن مجید میں خدا نے فرمایا ہے ” اتنا غداء نا “ یہ متعدی ہے اور اس کے معنی ہیں لا ہمارے صبح کے کھانے کو ہمارے پاس۔ اور اس کے معنی دینے کے بھی آتے ہیں جس سے کسی شے کا جس کو دی گئی ہے اس کے قبضہ میں ہوجانا یا اس کو اس کا حاصل ہوجانا اور مستنر ہوجانا مفہوم ہوتا ہے مثلاً اگر ہم کہیں کہ ہم نے ایک اشرفی زید کو دی تو اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ وہ اشرفی اس کے قبضہ اور ملکیت میں ہوگئی۔ اور جب یہ کہیں خدا نے فلاں شخص کو علم دیا تو اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ علم اس کو حاصل ہوگیا اور اس میں مستقر ہوگیا ۔ پس اب بحث یہ ہے کہ ان دونوں معنوں سے یہاں کون سے معنی مراد ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ پہلے معنی مراد ہیں اور دوسرے معنی مراد نہیں ہیں بلکہ نہیں ہوسکتے اس لیے کہ اسی آیت میں آگے لکھا ہے ” فانسلخ منھا “ یعنی جس شخص کو خدا نے اپنی نشانیاں عطا کی تھیں اور اس کو حاصل اور اس میں مستقر ہوگئی تھیں وہ ان سے نکل گیا۔ اور یہ بات کسی طرح تسلیم کے قابل نہیں ہے کہ جس کو خدا نے اپنی حکمت اور اپنی نشانیاں عطا کی ہوں جو درحقیقت نبوت کا درجہ ہے یہاں تک کہ بعض مفسرین نے ” اتیناہ ایاتنا “ کے لفظ سے اس شخص کو جس کا یہ قصہ ہے نبی قرار دیا ہے پھر وہ کافر ہوجاوے۔ اس لیے میں نے ” اتیناہ “ کی ترجمہ، لائے ہم اس کے پاس، کیا ہے جو اصلی معنی اس لفظ کے ہیں۔
یہ ترجمہ اوروں نے بھی اختیار کیا ہے تفسیر کبیر میں ابو مسلم کا یہ قول لکھا ہے اتیناہ ایاتنا ای بینا ھا فلم یقبل وعری منھا ۔ یعنی ہم نے اپنی نشانیاں اس کے سامنے ظاہر کیں پھر اس نے قبول نہ کیا اور ان سے علیحدہ ہوگیا۔ ظاہر کرنے اور پاس لانے کا ایک ہی مطلب ہے۔
دوسری بحث اس میں یہ ہے کہ ” الذی “ سے کون شخص مراد ہے اور یہ قصہ کس کا ہے۔ قرآن مجید میں اس شخص کا نام نہیں بتایا گیا اس لیے مفسرین نے اپنے قیاس کے مطابق متعدد نام لکھے ہیں اکثر مفسرین کی یہ رائے ہے کہ الذی سے بلعم باعور مراد ہے جس کا بہت بڑا قصہ توراۃ سقر اعداد باب بست ودوم وبست وسوم بست و چہارم میں مذکور ہے ان بابوں سے پایا جاتا ہے کہ وہ نبی تھا اور خدا سے ہم کلام ہوتا تھا پھر بت پرست ہوگیا اور بنی اسرائیل کو بھی بت پرستی پر مائل کیا علاوہ اس کے بہت بڑا اس کا قصہ ہے آخر کار بنی اسرائیل نے اس کو مار ڈالا۔ ہمارے علمائے مفسرین نے اسی قصہ کو اپنی تفسیروں میں لکھ دیا۔ مگر توراۃ میں اس کا قصہ ایسے طور پر لکھا ہے کہ کسی طرح تسلیم کے قابل نہیں ہے۔
بعض مفسروں کا قول ہے کہ ” الذی “ سے امیہ بن ابی صلت مشہور شاعر عرب مراد ہے جو پہلے اس آیت کا قائل تھا کہ ایک نبی ہونے والا ہے مگر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو ایمان نہ لایا اور کافر مرا۔ بعضوں کا قول ہے کہ ابی عامر الراہب مراد ہے جس نے منافقوں کو ورغلاں کر مسجد ضرار بنوائی تھی۔ مگر ان دونوں کا قصہ ایسا نہیں ہے کہ قرآن مجید میں بطور ایک قصہ عظیمہ قابل عبرت کے اس کا ذکر کیا جاوے۔ پس ہم کو خود قرآن مجید پر غور کرنا اور اسی سے الذی کے مشار الیہ کو تلاش کرنا چاہیے۔
جہاں تک قرآن مجید سے مستنبط ہوسکتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں الذی سے فرعون کی طرف اشارہ ہے۔ ہم نے ابھی ثابت کیا ہے کہ اتیناہ کے معنی اس کے پاس لانے کے ہیں جس کی تفسیر ابومسلم نے بیناھا سے کی ہے۔ خدا تعالیٰ بہت سی نشانیاں فرعون کے پاس لایا مگر اس نے کسی کو قبول کیا، فانسلخ منھا جس کی طرف اشارہ ہے۔ اور ایک جگہ خدا تعالیٰ نے فرعون کی نسبت فرمایا ہے ” ولقد اریناہ ایاتنا کلھا فکذب وابی “ یعنی ہم نے فرعون کو سب نشانیاں دکھلائیں پھر اس نے جھٹلایا اور انکار کیا۔ یہ دونوں آیتیں ایک سی ہیں اور ان دونوں کے ملانے سے ثابت ہوتا ہے کہ الذی سے فرعون کی طرف اشارہ ہے جس کا قصہ اس قابل تھا کہ لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے اس کے بیان کرنے کو کہا جاوے جیسا کہ متعدد جگہ قرآن مجید میں اس کا بیان آیا ہے۔ تفسیر کبیر میں بھی لکھا ہے کہ ” فجازان یکون ھذا المرصوف فرعون فانہ تعالیٰ ارسل الیہ موسیٰ وھارون ناعرض وابی وکان عادیا منا لا متبعا للشیطان “ یعنی ہوسکتا ہے کہ الذی کا موصوف فرعون ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے پاس موسیٰ و ہارون کو بھیجا اور اس نے نہ مانا اور گمراہ تابع شیطان تھا۔
( ھوالذی خلقکم من نفس واحدۃ) اکثر لوگ سمجھتے ہیں اور بعض مفسرین کی بھی یہی رائے ہے کہ ” نفس واحدۃ “ سے حضرت آدم مراد ہیں اور ” وجعل منھا زوجھا “ سے حضرت حوا جو حضرت آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی تھیں۔ اس امر کے قرادینے کے بعد تفسیروں میں حضرت حوا اور شیطان کا قصہ لکھا ہے جو قریب زمانہ وضع حمل کے واقع ہوا اور اس کے بہکانے سے حضرت حوا و حضرت آدم نے اپنے پہلو نئے بیٹے کا نام عبدالحرث یعنی عبدالشیطان رکھا۔ یہ سمجھ اور یہ قصہ بالکل لغو اور غلط ہے امام فخرالدین رازی نے بھی تفسیر کثیر میں اس سے انکار کیا ہے اور اس کے باطل ہونے پر چھ دلیلیں قائم کی ہیں اور اخیر کو لکھا ہے کہ ” فثبت بھذہ الوجوہ ان ھذا القول فاسد ویحب علی العاقل المسلم ان لا یلتفستللیہ یعنی یہ قصہ غلط ہے اور مسلمان کو اس پر التفات کرنی نہیں چاہیے۔
اس آیت میں نہ حضرت آدم کا ذکر ہے نہ حضرت حوا نہ من نفس واحدۃ سے کوئی شخص یا کوئی خاص شخص مراد ہے۔ اسی آیت کے بعد ” عما یشرکون “ کا لفظ بصیغہ جمع آیا ہے جس سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ ” نفس واحدۃ “ سے شخص واحد مراد نہیں ہے۔ آیت کے معنی بہت صاف ہیں خدا فرماتا ہے کہ میں نے تم کو اور تمہاری عورتوں کو جان واحد سے پیدا کیا ہے یعنی مرد و عورت سب میں ایک ہی جان ہے۔ دونوں خدا ہی کے پیدا کئے ہوئے ہیں مگر مشرکوں کا یہ حال ہے کہ جب ان کی عورتوں کو حمل رہتا ہے تو خدا سے دعا مانگتے ہیں کہ نیک یا بےنقص لڑکا پیدا ہو پھر جب پید ہوتا ہے تو خدا کے ساتھ اوروں کو شریک کرتے ہیں۔ کسی کا نام۔ عبدلات۔ اور کسی کا عبدمنات۔ اور کسی کا عبدالعزے وغیرہ رکھتے ہیں اور خدا کے سوا بتوں اور لوگوں کے بندہ ہونے کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ پس اس میں مشرکین کی عام حالت شرک کا بیان ہے۔ آدم یا حوا کے پیدا ہونے اور پہلونٹا نبینا جننے سے اور شیطان کے جھوٹے قصہ اور اس کے حضرت حوا کو بہکانے سے کچھ تعلق نہیں ہے۔
قال الفقال انہ تعالیٰ ذکر ھذہ القصۃ علے تمثیل ضرب المثل و بیان ان ھذہ الحالۃ سورة حالۃ ھولاء المشرکین فی جھنم وقولھم بالشرک و تقریر ھذا الکلام کانہ تعالیٰ یقول ھوالذی خلق کل واحد منکم من نفس واحدۃ وجعل من جنسھا زوجھا انسانا یساویہ فی الا نسانیۃ فلما تغشی الزوج زوجتہ وظاھر الحمل دعا الزوج والزوجۃ بھما لئن اتیتنا ولدا مالحا سویا لنکونن من الشاکرین لا لائک ونعمائک فلما اتاھما اللہ ولداصالحا سویا جعل الزوج والزوجۃ للہ شرکاء فیما اتاھما لا نھم تارۃ بنسبون ذلک الولد لی الطبایع کا ھوتول المطبائعیین
بعض مفسرین کی بھی یہی رائے ہے جو میں نے بیان کی ہے چنانچہ تفسیر کبیر میں قفال کا یہ قول لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بطور ضرب المثل کے اس قصہ کی تمثیل دی ہے کہ یہ حالت مشرکین کی جہل اور کفر اور شرک کی حالت ہے گویا خدا یہ فرماتا ہے کہ وہی اللہ ہے جس نے پیدا کیا ہر ایک شخص کو تم میں سے ایک جان سے اور اسی کی جنس انسان سے اس کا جوڑا بنایا یا جو انسانیت میں اس کی برابر ہے پھر جب وہ دونوں آپس میں ملتے ہیں اور حمل ہوجاتا ہے تو خصم جورو اپنے پروردگار سے دعا مانگتے ہیں کہ دے ہم کو بیٹا اچھا صحیح سالم تاکہ ہم تیری عنایتوں اور نعمتوں کے شکر کرنیوالوں میں سے ہوں۔ جب ان کو وتارۃ الی الکواکب کے ھو قول المخبین وتارۃ الی الا صنام والا وثان کما ھوقول عبدۃ الاصنام ثم قال تعالیٰ فتعالی اللہ عما یشرکون امی تنزہ الدعوۃ لک الشرک وھذا جواب فی غایۃ الصحیۃ والدہ ۔ تفسیر کبیر جلدصفحہ
اور کرنے اچھا صحیح سا (بیٹا دیا تو خصرجورو اس میں جو خدا نے ان کو دیا خدا کا شریک کرنے لگے ۔ کیونکہ کبھی تو اس لڑے کے پیدا ہونے کو طبیعت کے سبب سے کہتے ہیں جیسے کہ قول ان لوگوں کا ہے جو طبیعت کو خالق حقیقی مانتے ہیں اور کبھی اس کے ہونے کو ستاروں کے اثر سے منسوب کرتے ہیں جیسے کہ نجومیوں کا قول ہے۔ اور کبھی دیوتاؤں اور بتوں کی طرف منسوب کرتے جیسے کہ بتوں کے پوجنے والوں کا طریقہ ہے۔ اس کے بعد خدا نے فرمایا کہ پاک ہے اللہ جس بات سے جس سے وہ شرک کرتے ہیں۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ قفال بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اس آیت میں نفس واحدہ سے حضرت آدم مراد ہیں۔ امام فخر الدین فارسی نے لکھا ہے کہ یہی بات صحیح اور مضبوط ہے۔
علمائے متقدمین نے جو محقق ہونے کا درجہ رکھتے تھے ہر ایک امر کو محقق طور پر بھی بیان کیا ہے واعظمین کے سبب سے لغو و بیہودہ قصے زیادہ تر مشہور ہوگئے ہیں اور محققین کی رائیں جو عام پسند نہیں ہوتیں مشہور نہیں ہوئیں۔ فتدبر۔
( واما ینزغنک) اس آیت کی تفسیر میں مفسروں کو بڑی دقت پرسی ہے۔ کیونکہ وہ شیطان کو ایک جداگانہ مخلوق خارج از انسان اور خدا تعالیٰ کا مخالف اور لوگوں کو بدی و نافرمانی پر رغبت دینے والا اور بہکانے والا کفر و شرک میں ڈالنے والا قرار دیتے یں۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو شیطان بہکا نہیں سکتا اور اس کا بداثرذرا سا بھی انبیاء پر نہیں ہوتا۔ پھر کیونکہ خدا نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت کہا کہ ” واما یفزغنک من الشیطان نزغ “
پھر مفسرین نے اس کے جواب میں بہت سی تقریریں اور تاویلیں کی ہیں جو نہایت سردوپژمردہ ہیں لیکن اگر ٹھیک ٹھیک مطلب سمجھا جاوے تو آیت کی تفسیر میں کوئی مشکل وقت نہیں ہے۔
یہ بات مذہب اسلام کے ہر فرقہ میں مسلم ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) بھی انسانوں کی مانند بشیر ہیں جیسے کہ خدا نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے فرمایا ہے کہ ” انا بشر مثلکم یوحی الی “ پس جو مقتضاے بشریت ہے اس سے انبیاء (علیہم السلام) بھی خالی نہیں ہیں انبیاء میں اور عام انسانوں میں یہ فرق ہے کہ انبیاء اس تقاضاے بشری کو روک لیتے ہیں اور اس پر غالب آجاتے ہیں اور عام انسان اس سے مغلوب ہوجاتے ہیں اور وہ ان پر غالب ہوجاتا ہے۔ اس آیت سے اوپر کی آیت میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا تھا کہ جاہلوں سے درگز کر اور ان سے اپنا منہ پھیر لے یعنی کافر جو نالائق باتیں کرتے ہیں ان سے درگزر کرنا چاہیے۔ مگر ایسی باتوں سے رنج ہونا یا غصہ آنا ایک امر طبعی ومقتضاے بشری ہے اس لیے خدا نے فرمایا کہ اگر تجھ کو ایسا امر پیش آوے تو خدا کو یاد کر اور خدا کی طرف متوجہ ہو تاکہ وہ رنج یا غصہ جو بمقتضاے بشریت آیا تھا دب جاوے اور غالب نہ ہونے پاوے۔ اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیت میں شیطان کے لفظ سے صاف اشارہ اس قوت غضبیہ کی طرف ہے جو انسانوں میں اور انبیاء میں بھی بمقتضاے خلقت بشری موجود ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی رنج نہ ہوتا تھا یا کبھی غصہ نہ آتا تھا مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کمال نفس سے خدا کی طرف توجہ کرنے سے رنج دور فرماتے تھے اور غصہ کو دبا دیتے تھے اور فوقت غضبیہ کو اپنے پر غالب نہ ہونے دیتے تھے۔ یہ آیت علانیہ ثابت کرتی ہے کہ قرآن مجید میں شیطان کا لفظ انہی قوا پر جو بمقابلہ قوائے ملکوتیہ کے انسانوں میں بمقتضاے فطرت و خلقت انسانی کے ہیں اطلاق ہوا ہے نہ کسی ایسے وجود خارجی پر جو خدا کے مقابل اور اس کا مد مخالف ہو۔ پس آیت میں کوئی ایسی مشکل نہیں ہے جس سے ذات پاک رسول مقبول پر کوئی منقصت آسکے۔
وتقرر الکلام انہ تعالیٰ لما امرہ بالمعروف عندذلک ربما بھیج سفیہ و بقعہر السفاھۃ فعند ذلک وامرہ تعالیٰ لاسکوت عن مقابلۃ فقال واعرض عوالجاھلین ولما کان من المعلوم ان اقدام السفیہ قد ملج الغضب والغیظ ولا یبق الانسان علی مالۃ السلام ۃ وعند تلک الحالۃ یجد الشیطان مجالا فی حمل ذلک الانسان علے مالا ینبغی لاجرم بین تعالیٰ ما یجری مجری العلاج لھذا المرض فعل فاستعذباللہ۔ تفسیر کبیر جلدو صفحہ
شکر ہے کہ بعض مفسرین نے بھی قریباً قریباً اسی مطلب کی طرف رجوع کی ہے امام فخر الدین رازی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ جب خدا نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اچھے کاموں کا حکم دیا تو کبھی یہ ہوتا ہے کہ ایک بیوقوف اپنی بیوقوفی ظاہر کرکے طبیعت کو بھڑکا دیتا ہے ایسے وقت کے لیے خدا نے اس کے مقابلہ کرنے کے عوض سکوت اختیار کرنا فرمایا اور کہا کہ منہ پھیر لے جاہلوں سے اور یہ بات ظاہر ہے کہ بیوقوف کا اس طرح پیش آنا غصہ اور غضب کو بھڑکا دیتا ہے اور انسان درست حالت پر نہیں رہتا۔ ایسی حالت میں شیطان کو موقع ملتا ہے انسان کو نہ کرنے کی باتوں کے کر بیٹھنے پر برنگیختہ کرنے کا۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے ایسی بات بتادی جو اس مرض کے علاج کی جگہ ہے اور کہا کہ پناہ مانگ اللہ سے۔ یہ تمام تقریر امام صاحب کی وہی ہے جو ہم نے لکھی ہے صرف وہ فقرہ اس تقریر کا جس پر ہم نے لکیر کردی ہے مہمل ہے اگر وہ خارج کردیا جاوے تو امام صاحب کی تحریر اور ہماری تقریر میں کچھ فرق نہیں ہے۔ تعجب یہ ہے کہ جب خود امام صاحب نے لکھا ہے کہ غصہ کی حالت میں انسان درست حالت پر نہیں رہتا تو پھر شیطان کو بلانے کی کیا حاجت رہی تھی۔
( واخوانھم یمدونھم) اس آیت کی تفسیر میں صرف اس قدر بیان کرنا ہے کہ ہم کی ضمیر کس کی طرف راجع ہے۔ مفسرین ’ ھم ’ کی ضمیر کو جو ” اخرانھم “ میں ہے شیطان کی طرف راجع کرتے ہیں اور مفرد کی طرف ضمیر جمع کا راجع ہونا باعتبار جنس کے سمجھتے نہیں اور جو ضمیر ” ھم “ کی ” یمدونھم “ میں ہے اس کو ” الذین اتقول کی طرف پھیرتے ہیں۔ اور ” یمسون “ کے معنی امداد کے لیتے ہیں۔
ان المعنی واخوان الشیاطین یمسدون الشیاطین فی الغی وذلک لا ن شیاطین الانس اخوان الشیاطین الجن فشیاطین الانس یغرون الناس فیکون ذلک امدادا منہم لشیاطین الجن علی الا غوا و والا ضلال۔ والقول الثانی ان اخوانالشیاطین ھم الناس الذین لیسوا بمتقین فان الشیاطین یکونون مدد الھم فیہ والقولان مبقیان علی ان لکل کا نراخا من الشیاطین۔ تفسیر کبیر جلد صفحہ ۔
تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ” اخوانھم “ کے معنی ہیں اخوان الشیاطین۔ یعنی شیاطین مدد کرتے ہیں شیاطین کی نافرمانی میں اور یہ بات اس طرح پر ہے کہ شیطان آدمی بھائی ہیں شیاطین جن کے پھر شیطان آدمی لوگوں کو بہکاتے ہیں اور اس سے مدد ملتی ہے شیاطین جن کو بہکانے پر اور گمراہ کرنے پر۔ دوسرا قول یہ ہے کہ شیطانوں کے بھائی وہ لوگ ہیں جو پرہیزگار نہیں ہیں پس شیاطین ان کے لیے بطور مدد کے ہیں اور یہ دونوں قول اس یقین پر مبنی ہیں کہ ہر ایک کافر کا ایک شیطان بھائی ہوتا ہے۔
مگر یہ تقریروہمی اور خیال ہے۔ یہ کہہ دینا تو آسان ہے کہ ہر ایک کافر کا ایک شیطان بھائی ہوتا ہے مگر جب اس کا ثبوت چاہو تو بجز خیال و وہم کے کچھ نہیں۔ میرے نزدیک آیت کے معنی بہت صاف ہیں اور نہ ” یمدون “ کے معنی اس مقام پر امداد کے ہیں، ” اخوانھم “ کی ضمیر اور یمدونھم ، کی ضمیر الذین اتقوا کی طرف راجع ہے آیت کے معنی نہایت صاف ہیں کہ پرہیزگار آدمیوں کے دل میں جب کوئی دغدغہ آتا ہے تو خدا کو یاد کرتا ہیں اور ان کے بھائی بند ان کو گراہی میں کھینچ لے جانے میں کچھ تقصیر نہیں کرتے۔
( یسئلونک عن الانفال) جو مال کہ لڑائی میں ہاتھ ل کے اس کو انفال کہتے ہیں اس سورة میں جنگ بدر کا ذکر ہے۔ جنگ بدر کے واقعہ پر مخالفین اسلام نے بہت کچھ الزام لگائے ہیں جن کی نسبت بالتفصیل ہم بحث کرینگے لیکن اول مختصراً اس واقعہ کو بلا کسی قابل بحث اشارہ کے لکھتے ہیں اور اس کے بعد اس کی بحث طلب جزبیات کو بیان کرینگے۔
بدر بالفتح السکون ماہ مشھور بین مکتہ وللدنیۃ اسفل وادی المصفراء بینہ خربین البحار ھو ساحل البحر لیلۃ بہ کانت الواقعہ المشہورۃ بین النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واھل مکۃ۔ (مواصدالاطلاع)
بدر ایک چشمہ کا نام ہے جو وادی صفرا کے اخیر ینبوع کے قریب بحراحمر کے کنارہ کے پاس مدینہ کے تین منزل پر واقع ہے۔ اس چشمہ کے سبب سے وہ مقام مشہور ہوگیا ہے۔ عرب میں پانی کی نہایت قلت ہے اور جہاں کہیں چشمہ ہوتا ہے وہ جگہ مشہور اور نہایت عزیز ہوجاتی ہے۔ جس لڑائی کا اس سورة میں ذکر ہے وہ اسی مقام پر ہوئی تھی اور اسی لیے جنگ بدر کے نام سے مشہور ہے۔
شام کے ملک سے قریش کا ایک قافلہ جس میں تیس چالیس آدمی تھے ابی سفیان کے ساتھ بہت سا مال و اسباب لیے ہوئے مکہ کو آتا تھا ۔ انہی دنوں میں مکہ کے قریش نے بہت سے آدمی لڑائی کے لیے جمع کئے اور مکہ سے کوچ کیا۔ انہی دنوں میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین سو لڑنے والے لوگوں کے ساتھ مدینہ سے کوچ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مقام بدر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مکہ کے قریش سے لڑائی ہوئی۔ یہ واقعہ ہجری میں واقع ہوا۔
اب چند امور اس میں بحث طلب ہیں۔ اول یہ کہ مکہ کے قریش نے کیوں لڑائی کے لیے لوگ جمع کئے تھے اور کیوں لڑنے کے ارادہ سے نکلے تھے۔ تمام مسلمان مورخ لکھتے ہیں کہ قریش مکہ کو یہ خبر پہنچی تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ ابی سفیان والے قافلے کے لوٹنے کا ہے اس لیے انھوں نے اس قافلہ کے بچانے کو لوگ جمع کئے اور لڑائی کے ارادہ سے نکلے۔
اگر یہ روایتیں صحیح مان لی جائیں تو بھی یہ بات لازم نہیں آتی کہ جو خبر ان کو پہنچی تھی وہ صحیح تھی اور درحقیقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ اس قافلہ کو لوٹنے کا تھا۔ علاوہ اس کے جب کہ قریش مکہ نے بہت سے لڑنے والے آدمی جمع کرکے لڑائی کے ارادہ پر کوچ کیا تھا تو اس بات کا کسی طرح سے یقین نہیں ہوسکتا کہ ان کا ارادہ صرف اس قافلہ ہی کی حفاظت کا تھا اور خاص مدینہ پر چڑھائی کرنے کا نہ تھا۔ بلکہ دو دلیلیں ایسی صاف ہیں جن سے پایا جاتا ہے کہ ان کا ارادہ اس سے زیادہ تھا اس لیے کہ انھوں نے اس قدر آدمی جمع کئے تھے اور لڑائی کا سامان اور نفیر عام اس طرح پر کی تھی جو قافلہ کی حفاظت کی ضرورت سے بہت زیادہ تھی۔ اور جب کہ وہ قافلہ خدشہ کے مقام سے بچ کر نگل گیا اس وقت بھی انھوں ھنے کوچ کو اور لڑائی کے ارادہ کو موقوف نہیں کیا۔ اور اگر فرض کیا جاوے کہ ان کا ارادہ اس قافلہ ہی کے بچانے کا تھا تب بھی اہل مدینہ کو کسی طرح اس بات پر طمانیت نہیں ہوسکتی تھی کہ ان کا ارادہ مدینہ پر حملہ کرنے کا نہیں ہے بلکہ جو عادت اہل مکہ کو مہاجرین اور مدینہ کے انصار سے تھی اور جس پر حملہ کرنے اور غارت کرنے کی وہ ہمیشہ دھمکی دیتے تھے اور اس کے خواہشمند بھی تھے وہ ایک قوی دلیل اس خیال بلکہ یقین کرنے کی تھی کہ وہ ضرور مدینہ پر بھی حملہ کرینگے۔
دوسرے یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیوں مدینہ سے بقصد جنگ کوچ کیا تھا۔ تمام مسلمانوں مورخوں کا جن کی عادت میں داخل ہے کہ بلا سند روایتوں اور غلط و صحیح افواہوں کو بلا تصحیح و تنقید اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں اور انہی پر بناء واقعات قائم کرتے ہیں یہ قول ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے صحابہ نے یہ بات خیال کرکے کہ ابی سفیان کے ساتھ کے قافلہ میں لوگ بہت تھوڑے ہیں اور مال بہت زیادہ ہے لوٹ لینے کا ارادہ کیا تھا اور اسی وجہ سے کوچ کیا اس کی خبر جب قریش مکہ کو پہنچی تو انھوں نے نفیر عام کی اور قافلہ کے بچانے کو نکلے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قریش کے ساتھ لڑنے اور ان کے قافلہ کے لوٹنے کا قصہ اول آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا اور اس کے دفع کرنے کو قریش بقصد لڑائی نکلے۔
ان مسلمان مورخوں کی نادانی اور غلطی سے مخالفین مذہب اسلام کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کی نسبت قافلوں کے لوٹنے کا جو پیغمبری کی شان کے شایاں نہیں ہے اور بلا سبب لڑائی کی ابتدا کرنے کے الزام لگانے کا موقع ہاتھ آیا ہے اور بہت زور شور سے ان الزاموں کو قائم کیا ہے لیکن اس زمانہ کی حالت پر اور جو طریقہ دشمنوں کے ساتھ پیش آنے کا اس زمانہ میں بلا اعتراض کے مروج تھا اگر اس پر لحاظ کیا جاوے تو ایسا کرنے میں بھی اگر کیا گیا ہو کوئی مقام اعتراض کا نہیں ہوسکتا اور اگر ہم اس طریقہ تعجب انگیز کا جو حضرت موسیٰ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ اختیار کیا تھا اس کے ساتھ مقابلہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اگر ایسا کیا گیا بھی ہو تو حضرت موسیٰ کے برتاؤ سے بہت ہی خفیف درجہ رکھتا ہے۔
مگر درحقیقت یہ الزام محض غلط اور بےبنیاد ہیں اور وہ حدیثیں اور روایتیں جن کی بنا پر وہ الزام قائم کئے ہیں ازسرتاپا غلط اور غیر مسند ہیں۔ قرآن مجید میں یہ واقعہ نہایت صفائی سے مندرج ہے اور اس میں صاف بیان ہوا ہے کہ کس گروہ کے مقابلہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقابلہ کے قصد سے کوچ فرمایا تھا آیا قافلہ لوٹنے کے ارادہ سے یا اس گروہ کے مقابل ہ کے لیے جس کو قریش مکہ نے لڑنے کے ارادہ سے جمع کرکے کوچ کیا تھا۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوچ فرمانا قریش مکہ کے کوچ کرنے کے بعد ہوا تھا یا اس کے قبل ہوا تھا۔
ہم قرآن مجید کی آیتوں سے ثابت کرینگے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خیال بھی اس قافلہ کے لوٹنے کا نہ تھا اور قریش مکہ کے بقصد جنگ فوج کثیر کے ساتھ کوچ کرنے کے بعد جس سے ہر طرح مدینہ پر ان کا ارادہ حملہ کرنے کا پایا جاتا تھا اور ادنیٰ درجہ یہ کہ بوجہ قوی احتمال ہوتا تھا مدینہ کی حفاظت کی غرض سے کوچ کیا تھا۔ اور جب کہ خود قرآن مجید کی آیتوں سے یہ امر ثابت ہوتا ہے تو کوئی روایت یا کوئی حدیث جو اس کے برخلاف ہو اور کسی مکتاب میں مندرج ہو اور کسی نے روایت کی ہو عقلاً ونقلاً مردود ہے۔ عقلاً میں نے اس لیے کہا کہ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں اگر رف تاریخانہ اصول پر نظر رکھیں تو بھی وہ اس بات کو تسلیم کرینگے کہ زبانی روایتیں جو ایک زمانہ بعد تحریر میں آئیں قرآن مجید کے مقابلہ میں جب کہ ان دونوں میں اختلاف ہو قابل قبول اور لائق وثوق نہیں ہوسکتیں۔
اسی سورة کی پانچویں آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر یعنی مدینہ ہی میں تھے اور وہاں سے کوچ بھی نہیں کیا تھا کہ آپس میں صحابہ کے اختلاف تھا بعض تو لڑنے کے لیے نکلنا پسند کرتے تھے اور بعض ناپسند کرتے تھے۔ جو لوگ لڑنے کے لیے نکلنا ناپسند کرتے تھے اس کی وجہ چھٹی آیت میں بیان ہوئی ہے کہ ” گویا وہ موت کی طرف ہانکے جاتے ہیں اور وہ اپنے مارے جانے کو دیکھتے ہیں۔
اولیٰ تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ ابی سفیان کا قافلہ جو شام سے آتا تھا اس میں نہایت قلیل آدمی تھے ان سے لڑنے کے لیے کوچ کرنے میں اور اس کے لوٹنے میں ایسی کوئی خوف کی بات نہ تھی۔ بلکہ یہ خوف قریش مکہ کی اس فوج سے تھا جو انھوں نے نفیر عام کے بعد جمع کی تھی۔ اس سے لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قبل اس کے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے کوچ فرماویں قریش مکہ لڑنے کو نکل چکے تھے یا آمادہ جنگ ہوچکے تھے۔
اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اس آمادہ گئے جنگ کے بعد اور مدینہ سے کوچ کرنے کے قبل بعض صحابہ کی یہ رائے ہوئی کہ شام کے قافلہ کو لوٹ لیا جاوے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان مورخوں اور راویوں نے اس رائے کو جو بعض صحابہ نے دی تھی غلطی سے اس طرح پر بیان کیا ہے کہ گویا پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ قافلہ کو لوٹنے ہی کا تھا اور جو آمادگی جنگ مدینہ میں ہوئی تھی وہ قافلہ کے لوٹنے کے لیے ہوئی تھی۔ زمانہ دراز کے بعد کسی واقعہ کے بیان میں جو افواہی چلا آتا ہو اس قسم کی غلطی کا واقعہ ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے مگر قرآن مجید سے صاف ظاہر ہے کہ وہ بانی روایتیں غلط ہیں بلکہ جو آمادگی جنگ کی مدینہ میں ہوئی وہ بمقابلہ قریش مکہ کے ہوئی تھی نہ واسطے لوٹنے قافلہ کے۔
اسی سورة کی چھٹی آیت میں جو جملہ ” بعد ما تبیین “ آیا ہے وہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر منکشف کردیا تھا کہ اس لڑائی میں مسلمانوں کو فتح ہوگی اس کے بعد کی ساتویں آیت میں دو گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ گروہ جس کے ساتھ کچھ شان و شوکت یعنی لڑائی کا سامان نہ تھا۔ اس گروہ کے سے وہ قافلہ مراد ہے جو شام سے آتا تھا جو شام سے آتا تھا اور جس کے ساتھ صرف تیس چالیس آدمی تھے۔ اور دوسرا گروہ قریش مکہ کا تھا جس کے ساتھ بہت سا لشکر اور بہت کچھ شان و شوکت تھی۔ خدا نے کہا کہ ان دونوں گروہوں میں سے ایک گروہ تمہارے لیے ہے تم اس بےشان و شوکت گروہ کو لینا چاہتے ہو مگر خدا چاہتا ہے کہ جو حق بات ہے یعنی دین اسلام وہ ثابت ہوجاوے۔ اور کافروں کی جڑ کٹ جاوے۔ پس اس آیت سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ لڑنے کا حکم قریش مکہ کے مقابلہ کے لیے تھا نہ اس قافلہ کے لوٹنے کے لئے۔
ساتویں آیت سے چھٹی آیت کے مضمون کی بھی زیادہ تشریح ہوتی ہے کہ بعض صحابہ جو لڑائی کے لیے نکلنے کو ناپسند کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ گویا ان کو موت کی طرف ہانکا جاتا ہے اور وہ اپنے مارے جانے کو دیکھ رہے ہیں اس خوف کا سبب یہی تھا کہ ان کو قریش مکہ کے مقابلہ میں نکلنے کا حکم ہوا تھا جو لشکر کثیر کے ساتھ لڑائی کو نکلا تھا اور جس سے یقین یا احتمال قومی مدینہ پر اور مہاجرین اور انصار پر حملہ کرنے کا تھا نہ اس قافلہ پر حملہ کرنے کا جس کے ساتھ کچھ شان و شوکت یعنی سامان جنگ نہ تھا۔
بیان مذکورہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود قرآن مجید سے مندرجہ ذیل امر ثابت ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ ۔ مدینہ ہی میں اور مدینہ سے کوچ کرنے کے پہلے یہ بات معلوم ہوچکی تھی کہ قریش مکہ لشکر کثیر کے ساتھ جنگ کے ارادہ سے نکلے ہیں۔ دوسرے یہ کہ۔ مدینہ ہی میں خدا نے حکم دے دیا تھا کہ قریش مکہ کے مقابلہ میں لڑنے کو جاؤ اور جن صحابہ نے اس درمیان میں قافلہ لوٹنے کی رائے دی تھی خود خدا تعالیٰ نے مدینہ ہی میں اس کو نامنظور کیا تھا۔
اب ہم اگر ان روایتوں پر جو قرآن مجید کے برخلاف نہیں اعتبار کریں تو معلوم ہوتا ہے اور جو واقعات پیش آئے ان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ سے جو لوگ لڑنے کو نکلے وہ قریش مکہ کے مقابلہ میں ان کے حملہ کے دفع کرنے کے لیے نکلے تھے نہ قافلہ لوٹنے کے لئے۔
قال ابن اسحق نسلک طریقہ من المدینۃ الیٰ مکۃ (صفحہ )
سیرت ہشامی میں لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ سے مکہ کی طرف کوچ فرمایا اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کوچ قریش مکہ کے مقابلہ میں تھا نہ شام کے قافلہ پر کیونکہ وہ قافلہ شام سے آتا تھا جو مدینہ سے جانب شمال واقع ہے اور مکہ جانب جنوب اور شام سے قافلہ کے مکہ میں آنے کا رستہ مدینہ سے جانب غروب پڑتا ہے پس اگر قافلہ پر حمہ کرنے کے لیے کوچ کیا جاتا تو مدینہ سے غروب کی جانب کا راستہ اختیار کیا جاتانہ جنوب کا۔
سیرت آشامی میں لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے نکل کر نقب المدینہ میں تشریف لائے پھر وہاں سے عقیق میں وہاں سے ذوالحلیفہ میں واں سے اولات الجیش یا ذات الجیش میں وہاں سے تربان میں وہاں سے ملل میں وہاں سے غمیس الحمام میں وہاں سے ص خیرات الیمام میں وہاں سے سیالہ میں وہاں سے نحج الرجاء میں وہاں سے شتو کہ میں اور جب عرق الظبیہ میں پہنچے تو وہاں ایک عرب ملا (غالباً مکہ سے آنے والا تھا) اس سے لوگوں کا حال پوچھا مگر اس نے کچھ نہیں بتلایا پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے چل کر صبحج میں ٹھہرے پھر وہاں سے چلے اور جب منصرف میں پہنچے تو بائیں طرف مکہ کا راستہ چھوڑ دیا اور دائیں طرف پھرے اور تازیہ ہو کر بدر جانے کا ارادہ کیا اور حقان اور وہاں سے مضیق الصفرا میں پہنچے اور بسبس بن عمرو الجہنی لور عدی بن الرغباء الجہمی کو ابوسفیان کی اور لوگوں کی (یعنی قریش مکہ کی) خبر دریافت کرنے کو روانہ کیا۔ اور مضیق یصفرا کو بھی بائیں طرف چھو کر دائیں طرف چلے اور وادی ذفران میں پہنچے وہاں قریش کے آنے کی خبر ملی۔
ذفران کے مقام میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام لوگوں سے جن میں انصار بھی شامل تھے قریش کے بڑے چلے آنے کی خبر کی اور سب کو لڑنے مرنے پر مستعد یا یا تب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے ثنا یا یعنی اصافر پر گئے اور وہاں سے دبہ میں اترے اور وہاں سے قریب بدر پہنچ کر مقام کیا اور تحقیق خبر ملی کہ قریش مکہ کا لشکر یہاں سے بہت قریب پڑا ہوا ہے انجام کار دونوں لشکروں میں لڑائی ہوئی۔
فخرج ابوجھل یجمیع اھل مکۃ و ھم التفیر و فی المثل السایر لا فی العیرو لا فی التفیر فقیل لہ العیرا خذت طریق الساحل وتجت فارجح الی مکۃ بالناس فقال لا واللہ لا یکون ذلک ابذا (تفسیر کبیر جلد صفحہ )
تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ اس سے پہلے شام کا قافلہ جس کے ساتھ ابی سفیان ابن حرب تھا سمندر کے کنارہ کنارہ ہو کر نکل گیا تھا اور بدر میں نہیں آیا تھا چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ جب ابوجہل مکہ سے لوگوں کو لے کر نکلا تو اس سے کہا گیا کہ قافلہ نے سمندر کے کنارہ کا رستہ لیا اور بسلامت چلا گیا اب مکہ کو پھر چلو اس نے کہا کہ خدا کی قسم ایسا نہ ہوگا پس یہ تمام واقعات ثابت کرتے ہیں کہ مدینہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لڑائی کے لیے نکلنا صرف قریش مکہ کے مقابلہ میں اور ان کے حملہ کے دفع کرنے کی غرض سے اور مدینہ کو جہاں مہاجرین نے پناہ لی تھی اور مہاجرین اور انصار کو قریش کے حملہ سے بچانے کے لیے تھا۔ ہر ایک لائق شخص جس کو خدا نے معاملات جنگ کے سمجھنے کی لیاقت دی ہو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اگر حملہ آور قریش بدینہ کی دیواروں تک پہنچ جاتے تو ان کا روکنا اور ان کے حملہ کو دفع کرنا ناممکن تھا مہاجرین کو وہاں گئے ہوئے پورے دو برس بھی نہیں ہوئے تھے۔ مدینہ میں جن لوگوں نے ان کو پناہ دی تھی اور دل و جان سے مہاجرین کے مددگار تھے اور جو انصار کہلاتے تھے ان کی تعداد بھی بمقابلہ آبادی مدینہ اور اس کے گرد نواح کے کچھ زیادہ نہ تھی پس جب کہ اہل مدینہ یہ حالت دیکھتے کہ ان لوگوں کے سبب سے مدینہ پر کیا آفت آئی ہے اور غنیم نے ان کو گھیر لیا ہے تو ان سب کی حالت بالکل بدل جاتی اور حملہ آوروں کا حملہ دفع کرنا غیرممکن ہوجاتا اور اس لیے ضرور تھا کہ مدینہ سے آگے بڑھ کر ان کا مقابلہ کیا جاوے اور جو کچھ خدا کو کرنا منظور ہو وہ مدینہ سے باہر ہوجاوے۔ اسی لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے مقابلہ کے لیے مدینہ سے باہر نکلنا اور آگے بڑھ کر ان کو روکنا ضروری سمجھا تھا اب کون شخص ہے جو ان واقعات کو انصاف کی نظر سے دیکھ کر ان کو کسی الزام کی بنیاد قرار دے سکتا ہے۔
اثما ابن الرابعین من ال عمرو دفرسان المنابر من جناب رابع الرئیس المذی کان یا خلاربع الغنیمۃ فی الغزور (تبریزی) ال مصر باع منھا والصفایا وحکمک والنشیطۃ والفضول المریاع ماکان یا خذہ الرئیس وھوربع الغنم۔ النشیطۃ ما یغنمہ الغزاۃ فی الطریق قبل لبلوغ الی المومنع الذی تصدوھ والصفی ما یصطفیہ الرئیس من الغنم لنفسہ قبل القسمۃ وھو الصفیہ ایضا والجمع صفایا (صحاح جوھری)
بدر کی لڑائی میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور دشمنوں کا مال و اسباب ان کے ہاتھ آیا۔ زمانہ جاہلیت میں غنیمت کے مال کا جیسے کہ یہ دستور تھا کہ تقسیم ہونے سے پہلے سردار لشکر جو چاہتا تھا پسند کرتا تھا اور بروقت تقسیم چوتھ یعنی چہارم حصہ سردار لشکر کو دیا جاتا تھا اور باقی لڑنے والوں اور فتح کرنے والوں میں تقسیم ہوتا تھا اور خاص کسی شخص کے ہاتھ جو مال آتا تھا وہ اس کو اپنی ملکیت سمجھتا تھا۔ غالباً فتح کرنے والوں میں نسبت کسی مال غنیمت کے اس قسم کا جھگڑا پیدا ہوا کہ کوئی اس کو اپنی خاص ملکیت قرار دیتا تھا اور کوئی اپنی ملکیت اور کوئی مشترک ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور اس وقت تک مسلمانوں کے لیے غنیمت کے مال کی نسبت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اس لیے لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غنیمت کے مال کی نسبت پوچھا۔ اس پر یہ حکم ملا کہ مال غنیمت کا کسی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ خدا اور خدا کے رسول کی ملکیت ہے رسول کا نام لینے سے یہ مدعا نہیں ہے کہ رسول کی ذاتی ملکیت ہے بلکہ اس طرح کے کلام سے صرف خدا ہی کی ملکیت ہونا مراد ہے۔ خدا کی ملکیت قرار دینے سے یہ مراد ہے کہ کوئی خاص شخص اس پر دعوے نہیں کرسکتا بلکہ خدا جس طرح پر حکم دے گا اس طرح پر کیا جاویگا۔
پھر اسی سورة کی بیالیسویں آیت میں یہ حکم آیا کہ مال غنیمت میں سے خمس خدا اور خدا کے رسول کے لیے ہے یعنی خدا کے لیے ہے جو قرابتمندوں اور غریبوں اور یتیموں اور مسافروں کے فائدہ کے لیے رہیگا اور چار خمس ان لوگوں میں جو لڑتے تھے یا لڑائی کے متعلق کاموں میں مصروف تھے تقسیم کیا جاویگا۔ جو رسم کہ زمانہ جاہلیت میں تھی اس سے یہ حکم تین باتوں میں مختلف تھا۔ اول ۔ سردار کی چوتھ موقوف کرنے اور خدا کے لیے خمس نکالنے میں۔ دوم۔ عام طور پر کسی خاص مال پر کسی کا حق نہ ہونے میں۔ سوم۔ جو لوگ بھی لڑائی میں موجود تھے اور جو لوگ لڑائی کے متعلق کسی کام پر متعین تھے ان کو بھی مال غنیمت میں سے حصہ ملنے میں۔ یہ تمام احکام اور خصوصاً خمس کا نکالنا ایسے عمدہ احکام ہیں کہ ان سے بہتر اور مفید تر کوئی حکم مال غنیمت کی نسبت نہیں ہوسکتا۔
اذ تقول للمومنین الن یکفیکم الزیمد کم ربکم بثلاثۃ الاف من للملئکۃ منزلین (سورة اٰل عمران ) بلیٰ ان تصبروا ونتقوا ویاترکم من نورھم ھذا یمدد کم ربکم بخمسۃ الا فمن الملائکۃ مسومین۔ (سورة اٰل عمران ) اذ تسغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من للملئکۃ (فین ، سورة انفال )
(اذ تسفیثون ربکم) لڑائی میں فرشتوں سے مدد کرنے کا مضمون اس سورة میں اور آل عمران میں اور سورة توبہ میں آیا ہے۔ ان تینوں مقام کے طرز بیان میں کسی قدر تفاوت ہے۔ سورة آل عمران میں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول استفہاماً ہے کہ کیا فرشتوں سے خدا کا مدد کرنا تم کو کافی نہیں ہے۔ اور سوہ انفال میں خدا نے کہا ہے کہ میں فرشتوں سے مدد کرونگا۔ یہ دونوں آیتیں تو بدر کی لڑائی سے علاقہ رکھتی ہیں۔ اور سورة توبہ میں جو آیت ہے وہ حنین کی لڑائی سے متعلق ہے اس میں فرشتوں کا لفظ نہیں ہے بلکہ ایک ایسے لشکر کے بھیجنے کا ذکر ہے جو دکھائی نہیں دیتا تھا اب اس باب میں چند امور تحقیق طلب ہیں۔
اول۔ یہ کہ درحقیقت لڑنے کے لیے فرشتے آئے تھے یا نہیں۔ فرشتوں کے لڑائی کے لیے آنے سے ابوبکر اصم نے انکار کیا ہے اور جو بحث کہ انھوں نے اس پر کی ہے وہ ہم نے سورة آل عمران کی تفسیر میں لکھی ہے اب اس جگہ اس امر کی تحقیق کرنی چاہتے ہیں جس کا وعدہ سورة آل عمران کی تفسیر میں کیا تھا۔
ہمارے نزدیک نہ ان لڑائیوں میں ایسے فرشتے جن کو لوگ ایک مخلوق جداگانہ اور متحیرہ بالذات مانتے ہیں آئے تھے اور نہ خدا نے ایسے فرشتوں کے بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ اور نہ قرآن مجید سے ایسے فرشتوں کا آنا یا خدا تعالیٰ کا ایسے فرشتوں کے بھیجنے کا وعدہ کرنا پایا جاتا ہے۔ اگر ہم حقیقت ملائکہ کی بحث کو الگ رکھیں اور فرشتوں کو ویسا ہی فرض کرلیں جیسا کہ لوگ مانتے ہیں تو بھی قرآن مجید سے ان کافی الواقع آنا یا لڑائی میں شریک ہونا ثابت نہیں ہے۔ سورة ال عمران کی پہلی آیت میں تو صرف استفہام ہے کہ اگر خدا تین ہزار فرشتوں سے مدد کرے تو کیا تم کو کافی نہ ہوگا۔ اور دوسری آیت میں ہے کہ اگر تم لڑائی میں صبر کرو گے تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کریگا۔ مگر ان دونوں آیتوں سے ان کا وقوع یعنی فرشتوں کا آنا کسی طرح ظاہر نہیں ہوتا۔ سورة انفال کی آیت میں خدا نے کہا کہ میں تمہاری ہزار فرشتوں سے مدد کرونگا۔ مگر اس سے بھی فرشتوں کافی الواقع آنا نہیں پایا جاتا۔ اس پر یہ خیال کرنا کہ اگر مدد موعود وقوع میں نہ آئی ہو تو خدا کی نسبت خلف وعدہ کا الزام آتا ہے صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ مدد کی حاجت باقی نہ رہنے سے مدد کا وقوع میں نہ آنا خلف وعدہ نہیں ہے مسلمانوں کی خدا کی عنایت سے فتح ہوگئی تھی اور فرشتوں کو تکلیف دینے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ یہ کہنا کہ وہ فتح فرشتوں کے آنے بسبب سے ہوئی تھی اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اس کے لیے اول قرآن مجید سے فرشتوں کا آنا ثابت کرنا چاہیے اس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ فرشتوں کے آنے سے فتح ہوئی تھی۔ روایتوں کو فرشتوں کے آنے پر سند لانا کافی نہیں ہے اول تو وہ روایتیں ہی معتبر و قابل اسناد نہیں ہیں۔ دوسرے خود ان کے مضمون ایسے بےسروپا و خیالی ہیں جن سے کسی امر کا ثبوت حاصل نہیں ہوسکتا خصوصاً اس وجہ سے کہ خود راوی فرشتوں کو دیکھتے نہیں تھے۔
برخلاف اس کے قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی ایک فرشتہ بھی نہیں آیا تھا دونوں صورتوں میں اس آیت کے بعد جس میں فرشتوں کے بھیجنے کو کہا ہے یہ آیت ہے ” وما جعلہ اللہ الا بشریٰ لکم لنطمین قلوبکم ما النصرالا من عنداللہ العزیز الحکیم “
یعنی اور نہیں کیا اس کو اللہ نے مگر خوشخبری تمہارے لیے تاکہ مطمئن ہوجاویں اس سے تمہارے دل اور فتح نہیں ہے مگر اللہ کے پاس سے بیشک اللہ غالب ہے حکمت والا۔ یہ بات غور کے لائق ہے کہ کلما جعلہ میں جو ضمیر ہے اور اس کی طرف راجع ہے امام رازی صاحب فرماتے ہیں۔ کہ ضمیر راجع ہے طرف مصدر کے جو کہ گو صریحاً مذکور ہیں ہے مگر لفظ ” یمدکم “ میں ضمناً داخل ہے یعنی ۔ ما جعلہ اللہ المدد والا یتذاد الا بشری۔ اور زجاج کا قول ہے کہ ۔ ماجعلہ اللہ ای ذکر المدد الا بشریٰ ۔ مگر امام رازی صاحب نے جو فرمایا وہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لیے کہ خدا نے کہا تھا کہ میں تمہاری فرشتوں سے مدد کرونگا پھر فرمایا کہ وہ یعنی یہ کہنا کہ میں تمہاری فرشتوں سے مدد کرونگا صرف خوشخبری تھی پس علانیہ سیاق عبارت سے ظاہر ہے کہ ” ماجعلہ “ کی ضمیر قول اماد یا ذکر امداد کی طرف راجع ہے جیسا کہ زجاج کا قول ہے نہ بطرف مصدر کے جو مذکور بھی نہیں ہے۔ البتہ اس صریح وصاف مرجع ضمیر کو چھوڑ کر مصدر کی طرف اس صورت میں ضمیر راجع ہوسکتی ہے کہ اول وقوع اس مدد کا یعنی فرشتوں کا آنا ثابت ہوجاوے اور وہ ابھی تک ثابت نہیں ہوا اور اس لیے مصدر کی طرف ضمیر کا راجع کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ ” ماجعلہ “ پر مانافیہ ہے جو عام طور پر نفی کرتا ہے۔ اور اس لیے سورة آل عمران کی آیت کے صاف معنی یہ ہیں کہ نہیں کیا خدا نے پیغمبر کے اس قول کو ۔ کہ کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے۔ کوئی چیز۔ مگر بشارت یعنی صرف بشارت تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجاویں۔ اور سورة انفال کی آیت کے صاف معنی یہ ہیں کہ جب تم نے خدا سے فریاد کی اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کیا کہ میں فرشتوں سے تمہاری مدد کرونگا تو نہیں کیا خدا نے اس قبول کرنے کو جس کے ساتھ فرشتوں سے مدد دینے کو کہا تھا کوئی چیز مگر بشارت تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجاویں
اور یہ طرز کلام قطعاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی ایسا فرشتہ جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں لڑائی کے میدان میں نہیں آیا تھا۔
یہ تمام تقریر اس صورت میں تھی جب کہ ملائکہ کو ایک ایسا وجود خارجی متحیز بالذات تسلیم کیا جاوے جیسے کہ عموماً تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور جو مشکلیں ان آیتوں کے معنوں کے حل کرنے میں پیش آتی ہیں اور موضوع روایتوں اور جھوٹے اور بےمعنی قصوں سے استدلال کرنے کی احتیاج پڑتی ہے
وہ اسی صورت میں پڑتی ہے۔ لیکن اگر ٹھیک طور پر قرآن مجید کو سمجھا جاوے اور جو اس کا طرز کلام ہے اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جاوے تو کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور خدا اور اس کے کلام کی عظمت و شان اور خدا کی قدرت کاملہ کا سچا اثر انسان کے دل پر پڑتا ہے۔
فتح کے اتفاقی اسباب سے جو بعض اوقات آفات ارضی و سماوی کے دفعتہ ظہور میں آنے سے ہوتے ہیں قطع نظر کرکے دیکھا جاوے کہ ان لوگوں پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے جو فتح پاتے ہیں۔ ان کے قواے اندرونی جوش میں آتے ہیں جرات ہمت صبر شجاعت استقلال۔ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اور یہی قواے خدا کے فرشتے ہیں جن سے خدا فتح مندوں کو فتح دیتا ہے اور اس کے برخلاف حالت یعنی بزدلی اور رعب ان لوگوں پر طاری ہوتا ہے جن کی شکست ہوتی ہے پس ان آیتوں میں خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ میں فرشتوں سے تمہاری مدد کرونگا مگر وہ بجز خوشخبری فتح کے اور کچھ نہیں ہے جس کے سبب تم میں ایسے قوے برانگیختہ ہوں گے جو فتح کے باعث ہوں گے ۔ تمہارے دل قوی ہوجاوینگے لڑائی میں تم ثابت قدم رہو گے۔ جرات ہمت شجاعت کا جوش تم میں پیدا ہوگا اور دشمنوں پر فتح پاؤ گے۔
یہ معنی ان آیتوں کے ہم نے پیدا نہیں کئے ہیں بلکہ خود خدا نے یہی تفسیر اپنے کلام کی کی ہے جہاں اسی سور ہ میں اور اسی واقعہ کی نسبت فرمایا ہے کہ ” اذ یوحی ربک الی الملائکۃ انی معکم فثبتوا الذین امنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب “ یعنی جب تیرا پروردگار فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا (یہ وہی فرشتے ہیں جن کے بھیجنے کا مدد کے لیے وعدہ کیا تھا) کہ میں تمہارے (یعنی مسلمانوں کے) ساتھ ہوں (تو ان فرشتوں سے یہ کام لینے چاہے تھے) کہ ثابت قدم رکھو ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں میں بہت جلد ان لوگوں کے دلوں میں جو کافر ہیں رعب ڈالوں گا۔
لڑائی میں ثابت قدم رکھنے والی کون چیز تھی وہی ان کی جرات و ہمت تھی کوئی اور شخص ان کے پاس کھڑے ہونے ان کو شاباش شاباش نہیں کہہ رہے تھے پس صاف ظاہر ہے کہ نہ فرشتوں سے مراد وہی قواے انسانی تھی جن کے پاس وحی بھیجی تھی اور جو لڑنے والوں میں موجود تھی اور فرشتوں سے ان کی مدد کرنے سے ان کو لڑائی میں ثابت قدم رکھنا شجاعت جرات ہمت استقلال کو قائم رکھنا مراد تھا۔ نہ خیالی فرشتوں کو سپاہئی بنا کر اور ڈھال تلوار تیر کمان دے کر اور سفید سفید گھوڑوں پر سوار کرکے بھیجنا۔
قرآن مجید کا سیاق کلام ہی یہ ہے کہ اس میں ایسے مواقع میں جو خوف و خطر کے ہوتے ہیں انسانوں کے دلوں میں طمانیت اور قوت بخشنے کو فرشتوں سے مدد کرنے اور اپنے غیبی لشکروں سے امداد کرنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور اس سے مقصود صرف دل میں طمانیت و سکینہ کا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ سے ہجرت فرمائی اور پہاڑ کے ایک غار میں جاکر چھپے جہاں نہ لشکر تھا نہ لڑائی خدا نے فرمایا ” الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ اذا خرجہ الذین کفرو اثانی ماثنین اذ ھما فی الغارا ذیقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا فانزل اللہ السکینۃ علیہ وایدہ بجنودلم تروھا وجعل کلمۃ الذین کفروا السفلی وکلمۃ اللھی العلیا واللہ عزیز حکیم “۔
وہاں غار میں کون سی فوج تھی اور کون سی لڑائی تھی جو خدا نے اپنا غیبی لشکر بھیجا تھا بلکہ لشکر سے صرف سکینہ مراد تھی ۔ اس آیت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور یہ کہنا کہ پہلا جملہ تو واقعہ غار سے متعلق ہے اور دوسرا ٹکڑا جہاں لشکر کے آنے کا ذکر ہے جنگ احد یا جنگ بدر یا جنگ احزاب سے متعلق ہے جیسا کہ بعض مفسروں نے کہا ہے ایک ایسا لغو کلام ہے جو التفات کے قابل نہیں ہے۔ اور خدا کے کلام کے ساتھ ایک قسم کی بےادبی ہے کہ اپنی مرضی کے موافق جہاں سے چاہا توڑا اور جہاں چاہا جا جوڑا۔
اسی طرح خدا تعالیٰ نے سورة توبہ میں فرمایا ” ثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ وعلی المومنین وانزل جنود الم تروھا و عذاب الذین کفرو و ذلک جزاء الکافرین “ سکینہ کی تفصیل ” جنودا الم تروھا “ واقع ہوئی ہے اور ان دونوں سے مراد صرف سکینہ ہے نہ اور کچھ۔
اسی مضمون کی آیت سورة احزاب میں ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” یا ایھا الذین امنوا اذکرو نعمۃ اللہ علیکم اذجاء تکم جنودا فار سلنا علیھم ریحا وجنود الم تروھا وکان اللہ بما تعملون بصیرا “۔
اس سے بھی عمدہ طریقہ پر اس مضمون کو سورة فتح میں بیان کیا ہے جہاں فرمایا ہے ” ھوالذی انزل السکینۃ فی قلوب المومنین لیزدا دوا ایمانا مع ایمانھم و للہ جنود السموات والارض وکان اللہ عزیز حکیما “ اسی انزال سکینہ کو خدا نے اپنے لشکروں سے تعبیر کیا ہے۔ پس بدر کی لڑائی میں بھی نہ جنگ جو مجسم و متحیز بالذات فرشتوں کے بھیجنے کا وعدہ کیا تھا نہ ایسے فرشتے بھیجے تھے بلکہ صرف مسلمانوں کے دلوں کو اور ان کے قوے جنگ کو صرف خوشخبری فتح سے تقویت دینے کا وعدہ تھا جس کو خدا نے پورا کیا اور قلیل جماعت کو کثیر جماعت پر فتح دی۔ اہل عرب زمانہ جاہلیت میں بہت سے قواے غیر مرئیہ کو مربی انسان اور دنیا میں کارکن سمجھتے تھے ملائکہ کو بھی وہ ایک قوت غیر مرشد جانتے تھے اور گو وہ اس بات کے قائل تھے کہ ان میں مجسم و مرئی ہوجانے کی بھی طاقت ہے مگر یہ نہیں تھا کہ ملائکہ کا مفہوم بغیر اس کے کہ وہ ان کو مجسم و مرئی سمجھیں ان کے ذہن میں نہیں آتا تھا۔ انہی آیتوں میں جہاں خدا تعالیٰ نے لفظ ” جنوالم تروھا “ کا استعمال کیا ہے اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اس زمانہ کے عرب قواے غیر مرئیہ کو کارکن سمجھتے تھے پس یہ کہنا کہ جو معنی آیت کے ہم نے بیان کئے ہیں (اگرچہ ایسا کہنا ہم پر تہمت ہے کیونکہ ہم نے نہیں بیان کئے بلکہ خود خدا نے بیان کئے ہیں) وہ معنی نہ اس زمانہ کے عرب جاہلیت سمجھتے تھے نہ صحابہ کرام محض غلط ہے۔ اس زمانہ کے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ بغیر کسی فرضی شکل و صورت کے ان کے ذہن میں فرشتوں کا خیال ہی نہیں آسکتا۔ مگر عرب جاہلیت کا ایسا خیال نہ تھا۔ بیشک فرشتوں میں وہ مجسم ہوتے و مختلف سورتوں میں ظاہر ہونے کی طاقت سمجھتے تھے مگر بلا خیال شکل و صورت و تحیز کے بھی ان کے ذہن میں فرشتوں کا خیال تھا جس کو ہم نے بلفظ قوے تعبیر کیا ہے۔ گو اس زمانہ کے مسلمان آیت کے معنی سمجھنے کے قابل نہ ہوں مگر اس زمانہ کے عرب بلاشبہ اس قابل تھے۔
اب باقی رہی بحث نسبت عدد ملائکہ کے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے مقامات میں عدد کے ذکر کرنے سے خاص عدد معین مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس امر کا مکمل ہونا جس کی نسبت مدد کا بیان ہوا ہے مقصود ہوتا ہے علاوہ اس کے عدو وں کا بیان مختلف مواقع پر ہوا ہے جس کے سبب کچھ اختلاف آیتوں میں نہیں ہے۔ اسی سورة کی چوتھی آیت کی تفسیر میں ہم نے بیان کیا ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تھے اور قریش مکہ کے مقابلہ میں نکلنے کا ارادہ تھا تو ایک گروہ مسلمانوں کا بسبب کثرت مخالفین کے خائف تھا اور وہ ان کے مقابلہ میں لڑنے کو جانا ناپسند کرتا تھا۔ اس وقت مسلمانوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ ” الن کیفکم ان بیدکم ربکم بثلاثۃ الا ف من الملائکۃ منزلیں بلی ان تصبروا وتتقوا ویاتو کسم من فورھم ھذا بحدد ربکم بخمسۃ الاف من الملائکۃ مسومین (سورة -) یعنی کیا تم کو قریش مکہ کے مقابلہ کے لیے یہ بھی کافی نہ ہوگا کہ خدا تین ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے بلکہ اگر تم لڑائی میں صیر کرو اور خدا سے ڈرو اور وہ ابھی تم پر ان پڑیں تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا پس رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا صرف ان لوگوں کی ھمانیت اور جرات بڑھانے کے لیے تھا اور اس سے کسی عدد خاص کا تعین مقصود نہ تھا۔
مگر جب مسلمان بمقابلہ قریش مکہ بدر میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ قریش مکہ کے لشکر میں ہزار آدمی لڑنے والے ہیں جن کے مقابلہ کے لیے ہزار فرشتوں سے مدد دینے کی بشارت دینا کافی تھا اس لیے پروردگار نے فرمایا ” انی ممدکم بالف من الملائکۃ مردفین “ اور اسی کے ساتھ بتلا دیا کہ یہ کہنا یا وعدہ کرنا صرف فتح کی خوشخبری ہے تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجاویں ۔ یہ کہ ہزار فرشتے سپاہی بن کر تمہارے ساتھ لڑنے کو آوینگے۔ نتیجہ اس سب کا یہ نکلا کہ میں تمہارے دلوں کو ہزار آدمی کے لشکر کے برابر تقویت اور جرات دیدے گا جس کے سبب تم ان کا مقابلہ کرسکو گے۔
( اذیغشیکم انعاس امنۃ منہ ) ہم نے سورة آل عمران کی تفسیر میں نسبت نعاس کی کافی بحث کی ہے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اس مقام پر باقی آیت کی نسبت ہم کو تفسیر لکھنی ہے۔
خدا نے فرمایا ” وینزل علیکم من السماء ماء لیطھرکم بدویذھب عنکم رجز الشیطان “ ہمارے مفسروں نے ان سیدھے و صاف لفظوں کی ایسی ناپاک تفسیر کی ہے جس سے تعجب ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تمام لشکر سو گیا تھا اور شیطان سب کے پاس آیا اور سب کو احتلام ہوگیا۔ اس لیے خدا نے مینہ برسایا تاکہ نہا دھو کر جنابت سے پاک ہوجاویں۔
مگر یہ تمام باتیں محض لغو و خرافات ہیں اور قرآن مجید میں ایسا ناپاک مضمون نہیں ہے بات صرف اتنی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اولاً مدینہ سے مکہ کی طرف کوچ کیا اور ثناے راہ سے میں جیسا کہ ہم ابھی بیان کرچکے ہیں مکہ کے رستہ کو چھوڑ کر بدر کی جانب پھرے۔ اس میں کچھ کلام نہیں ہوسکتا کہ اس قدر منزلیں طے کرنے میں تمام لوگ گروآلودہ تھے ان کے کپڑے میلے کچیلے ہوگئے تھے اور رستہ میں پانی کی بےانتہا تکلیف اٹھائی تھی۔ بدر میں ان کو کافی پانی کے ملنے کی توقع تھی مگر جب وہ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ پانی کے چشمہ پر قریش مکہ نے قبضہ کرلیا ہے۔ ایسی حالت میں جس قدر پریشانی اور ناامیدی مسلمانوں کو ہوئی ہوگی اس کا اندازہ ہر شخص جو کسی قدر سمجھ رکھتا ہے کرسکتا ہے۔ بلاشبہ وہ نہایت مفسطر ہوئے ہوں گے جیسے کہ ” اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم “ سے ظاہر ہوتا ہے اور اگرچہ ان کو مدینہ سے کوچ کرتے وقت فتح کی بشارت مل چکی تھی مگر ان کے دل میں شیطانی وسوسہ آیا کہ ایسی حالت میں کہ پانی پینے کو بھی میسر نہیں اور دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے فتح ہونا ناممکن ہے۔ ایسی تنگ حالت میں خدا نے مینہ برسایا تاکہ وہ نہاد ھو کر میل کچیل سے پاک صاف ہوجائیں اور جو وسوسہ فتح نہ ہونے کا پانی نہ ملنے کے سبب سے شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالا تھا وہ دور ہوجاوے پانی پی پی کر ترو تازہ ہوں ان کے دل مضبوط ہوجاویں اور لڑائی میں ثابت قدم رہیں۔ ایسی سیدھی وصاف آیت کو جو بالکل واقعات کے مطابق ہے ہمارے مفسرین نے ایسے ناپاک طریقہ پر سے اس محمول کیا ہے کہ بجز اس کے کہ خدا ان کو معاف کرے اور کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ بزرگ یہ بھی نہیں سمجھے کہ اگر طہارت سے طہارت شرعی مراد تھی تو اس کے لیے پانی ہی کی کیا ضرورت تھی اس کے لیے تو تیمم ہی کافی تھا اور یہ کہنا کہ گو تیمم شرعی طہارت ہے مگر بغیر تہاے انسان کے دل میں نجاست کا خیال رہتا ہے ان لوگوں کا کام ہے جن کو
احکام شرعی پر پورا ایمان نہیں ہے نہ صحابہ کا۔