• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 9 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قال الملاء : سورۃ الانفال : آیت 17

فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ۪ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ۚ وَ لِیُبۡلِیَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡہُ بَلَآءً حَسَنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۷﴾

تفسیر سرسید :

( فلم تقتلوھم) بدر کی لڑائی میں جب مسلمانوں کی باوجود جماعت قلیل ہونے کے فتح ہوئی اور دشمن مارے گئے تو اللہ تعالیٰ نے تمام مجاہدین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے ان کو قتل کیا۔ پھر خاص پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تونے دشمنوں کو تیر نہیں مارے بلکہ خدا نے مارے۔ جس طرح خدا تعالیٰ ہر ایک فعل کو جو کسی ظاہری سبب سے ہو بسبب علۃ العلل ہونے کے اپنی طرف منسوب کرتا ہے اسی طرح اس مقام پر بھی مجاہدین کے افعال اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ جیسے کہ اس سے پہلے فرمایا تھا ” وما النصر الا من عنداللہ “
اس آیت میں تمام مفسرین نے ” رمیٰ “ سے باوجو یکہ سیاق کلام اور مقتضاے مقام سے علانیہ تیر مارنا سمجھا جاتا ہے تیر مارنا مراد نہیں لیا ہے بلکہ ایک روایت کی بنیاد پر جس کو خود دلیل اس کے غیر معتبر یا ضعیف وغیر ثابت ہونے کی ہے یہ لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مٹھی خاک کی دشمنوں کے لشکر کی طرف پھینکی اور خدا کی قدرت سے اس کو اس قدر وسعت ہوئی کہ دشمنوں کے لشکر کی طرف پھینکی اور خدا کی قدرت سے اس کو اس قدر وسعت ہوئی کہ دشمنوں کے لشکر کے ہر ایک شخص کی آنکھ میں جا پہنچی وہ تو آنکھیں ملنے لگے اور مسلمانوں نے ان کو مار کر قیمہ کردیا اور مسلمانوں کی فتح ہوگئی۔
یہ طریقہ تفسیر کا اسی عجائب پسند پر مبنی ہے جو ہمارے مفسرین نے بہ تقلید یہود مذہب اسلام میں جو نہایت سیدھا اور صاف ہے اختیار کیا ہے ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ لڑائی کے موقع کا بیان ہے اس زمانہ کے عرب تلوار و تیر و کمان اور برچھی سے لڑتے تھے یہی ان کے ہتھیار تھے پھر ” رمیٰ “ سے تیر اندازی کے معنی چھوڑ کر مٹھی بھر خاک پھینکنے کے معنی لینے کس طرح پر درست ہوسکتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ” رمیٰ “ سے مٹھی بھر خاک پھینکنا مراد نہیں لیا بلکہ تیر کا ہی مارنا مراد لیا ہے مگر کہتے ہیں کہ یہ آیت بدر کی لڑائی سے متعلق قال بعضھم۔ انحا نزلت یوم خیبر۔ روی انہ (علیہ السلام) اخذ قوسا وھو علی باب خیبر فرمی سہما ناقبل الھم حق قتل این ابی الحقیق وھو علی فرسہ فنزلت ” وما رمیت اذریت ولکن اللہ رمیٰ “ تفسیر کبیر جلدصفحہ ۔
نہیں ہے بلکہ خیبر کی لڑائی سے متعلق ہے اس لڑائی میں پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کمان میں تیر جوڑ کر مارا تھا جو ابن ابی حقیق کو جالگا اور وہ مرگیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ” ماعیت اذرمیت ولکن اللہ رمی “ مگر ان حضرات سے پوچھنا چاہیے کہ جو آیت خاص بدر کی لڑائی کے قصہ میں نازل ہوئی ہے اس کو توڑ کر خیبر کی لڑائی کے قصہ میں لے جانے کی کیا ضرورت ہے اور بدر کی لڑائی میں ” رمی “ سے ” رمی الھم “ مراد لینے میں کیا قباحت ہے۔
بعض مفسرین نے اس آیت کو بدر ہی کی لڑائی سے متعلق رکھا ہے اور ” رمیٰ “ سے مٹھی بھر خاک پھینکنا مراد نہیں لیا بلکہ ہتھیار چلانا مراد لیا ہے اور ابی ابن خلف کے قتل سے متعلق کیا ہے اور کہا ہے کہ جب وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب آیا تو ” رمۃ بحربہ فکسر ضلعا من اضلا عۃ فحمل فمات ببعض الطریق فی ذلک نزلت الایہ (تفسیر کبیر)
غرضیکہ مٹھی بھر خاک پھینکنے کی روایت غیر صحیح و موضوع ہے اور بعض مفسرین بھی اس کو صحیح نہیں سمجھتے صاف صاف معنی آیت کے یہی ہیں کہ اس لڑائی میں مسلمان کافروں سے لڑے تھے ان کو قتل کیا تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بذات خاص لڑائی میں شریک تھے اور تیر وکمان سے کافروں کا مقابلہ فرماتے تھے جس کے سبب خدا نے فتح دی اور مسلمانوں سے فرمایا ” فلم تقتلو ھم و لکن اللہ قتلھم “ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا ” وسارمیعت اذرامیت ولکن اللدرمیٰ “
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قال الملاء : سورۃ الانفال : آیت 19

اِنۡ تَسۡتَفۡتِحُوۡا فَقَدۡ جَآءَکُمُ الۡفَتۡحُ ۚ وَ اِنۡ تَنۡتَہُوۡا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَعُوۡدُوۡا نَعُدۡ ۚ وَ لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡکُمۡ فِئَتُکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَوۡ کَثُرَتۡ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿٪۱۹﴾

تفسیر سرسید :

( ان تستفتحوا) اس آیت میں جو کچھ بحث ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ کون لوگ اس کے مخاطب ہیں۔ مفسرین نے اس کا مخاطب کافروں کو ٹھہرایا ہے اور لکھا ہے یاوجود کافروں کے شکست ہونے کے ” فقد جاء کم الفتح “ کتنا تعریضاً ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تفسیر کا کتب سے خالی نہیں ہے۔ معہذا اوپر کی آیتوں میں اور مابعد کی آیتوں میں مسلمان مخاطب ہیں اور ان کی فتح ہوئی تھی پس ” فقد جاء کم الفتح “ سے کافروں کو مخاطب کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
بدر کی لڑائی میں کافروں کی شکست ہونے کے بعد ان کا تعاقب نہیں کیا گیا تھا اور ان کا تعاقب نہیں کیا گیا تھا اور ان کا تعاقب نہ کرنا خدا کو پسندیدہ تھا۔ پس خدا تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اگر تم فتح چاہتے تھے تو تمہارے پاس فتح آئی اور اگر تم اسی پر بس کرو یعنی کافروں کا تعاقب نہ کرو تو بہتر ہے تمہارے لیے اور اگر وہ یا تم کو لڑنا پڑے تو میں دوبارہ تمہاری مدد کروں گا اور بغیر خدا کی مدد کے تمہارا گروہ تم کو کچھ بھی کفایت نہ کریں گا گو کہ زیادہ ہو ” وان اللہ مع المومنین “ یعنی اور بیشک اللہ مسلمانوں کے ساتھ ہے یعنی مسلمانوں کا مددگار ہے اور اسی کی مدد سے فتح ہوتی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قال الملاء : سورۃ الانفال : آیت 20

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَوَلَّوۡا عَنۡہُ وَ اَنۡتُمۡ تَسۡمَعُوۡنَ ﴿ۚۖ۲۰﴾

تفسیر سرسید :

( یا ایھا الذین امنوا) بدر کی لڑائی کے بعد خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک اور بری فتح کی بشارت دی جو کافروں یعنی قریش مکہ اور مسلمانوں میں فیصلہ کردینے والی ہو جس سے فتح مکہ کی مراد ہے اور اسی فتح کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو پرہیزگاری کرو اللہ کی وہ کرے گا تمہارے لیے فیصلہ کردینے والی فتح اور اسی بشارت کے ساتھ قریش مکہ سے لڑنے کی اجازت دی جہاں فرمایا ہے ” و قاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ “ یعنی ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین بالکل اللہ کے لیے ہو “۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قال الملاء : سورۃ الانفال : آیت 30

وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ ؕ وَ یَمۡکُرُوۡنَ وَ یَمۡکُرُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ﴿۳۰﴾

تفسیر سرسید :

(واذیمکریک) اس آیت میں اور اس کے بعد کہ آیتوں میں خدا تعالیٰ قریش مکہ کے حالات اور ان کے برتاؤ کو بیان کرتا ہے جو وہ قبل ہجرت کے مکہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے ساتھ برتتے تھے۔ یہ سب آیتیں نہایت صاف ہیں صرف چند آیتیں تفسیر طلب ہیں جن کی تفسیر ذیل میں لکھی جاتی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قال الملاء : سورۃ الانفال : آیت 32

وَ اِذۡ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنۡ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الۡحَقَّ مِنۡ عِنۡدِکَ فَاَمۡطِرۡ عَلَیۡنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائۡتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۳۲﴾

تفسیر سرسید :

( واذ قالوا) اس آیت میں جو یہ الفاظ ہیں ” فامطرعلینا حجارۃ من السماء “ ان سے بالتخصیص آسمان سے پتھر برسانا مراد نہیں ہے بلکہ عموماً عذاب آسانی یا آفت و مصیبت مراد ہے ” امطر “ کا استعمال عذاب کے معنوں میں ہوتا ہے قال صاحب الکشاف ” وقد کثرا لا مطارفی معنی العذاب “ اور امطار کحجارۃ اور رمیٰ بالحجارۃ دونوں کا ایک مقصد ہے اور اس سے واہیہ عظیمہ کا واقع ہونا مراد ہونا ہے پس قریش مکہ کا جو قول اس آیت میں منقول ہے اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ اے خدا اگر قرآن سچ ہے اور تیرے پاس سے آیا ہے تو ہم پر کوئی آسمانی عذاب نازل کر یا کوئی اور سخت عذاب بھیج اور ان الفاظ سے ان کا مطلب قرآن کے حق ہونے سے انکار کرنے کا تھا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قال الملاء : سورۃ الانفال : آیت 33

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ ﴿۳۳﴾

تفسیر سرسید :

(وما کان اللہ) اس آیت میں جو یہ الفاظ ہیں ” وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم “ اس میں عذاب کو کسی خاص قسم کے عذاب سے مقید اور مخصوص نہیں کیا اس لیے اس بات پر غور کرنی پرور ہے کہ اس عذاب سے کس قسم کا عذاب مراد ہے۔ اگلی اور پچھلی تمام آیتوں پر غور کرنے سے اور خصوصاً انتیسویں آیات پر لحاظ کرنے سے جس میں ایک فیصلہ کرنے والی فتح کی بشارت دی گئی ہے اور چالیسویں آیت پر لحاظ کرنے سے جس میں قریش مکہ سے لڑنے اور ان کے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور چونتیسویں آیت پر غور کرنے سے جس میں قریش مکہ کو عذاب
دینے کی وجہ بیان کی ہے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس آیت میں عذاب سے لڑائی میں شکست پانے اور مارے جانے کا عذاب مراد ہے اور اس مطلب کو الفاظ ” وانت فیھم “ زیادہ تر روشن کردیتے ہیں کیونکہ جب تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تشریف رکھتے تھے تو قریش سے جو مکہ کے حاکم تھے لڑنا اور ان کو قتل کرنا ناواجب تھا۔ مگر جب وہاں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور مسلمانوں نے ہجرت کرلی تو اب ان سے لڑنا اور ان کو قتل کرنا ناواجب نہیں رہا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس آیت کے بعد کی آیت میں فرمایا کہ ” وما لھم الا یعذبھم اللہ وھم یصدون عن المسجد الحرام “ یعنی اب ان کے لیے کیا ہے کہ اللہ ان کو عذاب دے اور وہ روکتے ہیں (مسلمانوں کو) مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ میں آنے سے۔
ثم بین تعالیٰ ما لا جلہ یعذبھم فقال وھم یصدون عن المسجد الحرام (تفسیر کبیر)
تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ قریش مکہ کا مسجد حرام میں آنے سے روکنا ان کے عذاب کا سبب تھا پس وہ عذاب بجز اس کے کہ لڑائی میں شکست پانے کا عذاب ہو اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ علاوہ اس کے قرآن مجید میں لڑائی میں قتل ہونے کو علانیہ اور بالتصریح عذاب سے تعبیر کیا ہے۔
قاتلوھم یعذبھم اللہ بایدیکم ونحن ھم وینصرکم علیھم ویشفھدور قوم مومنین۔ (سورة توبہ آیت )
چنانچہ سورة توبہ میں فرمایا ہے۔ مارو ان کو عذاب دے گا ان کو اللہ تمہارے ہاتھوں سے اور خوار کرے گا ان کو اور مدد کرے گا تمہاری اور چین دے گا دلوں کو ایمان والوں کی ایک قوم کے۔
مفسرین نے بھی اس عذاب سے لڑائی میں شکست پانے اور قید و قتل ہونے کا عذاب مراد لیا ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے
قال ابن عباس۔ ومالھم ان لا یعذبھم اللہ واعلم انہ تعالیٰ بین فی الایۃ الاولی ان لا یعذبھم مادام رسول اللہ فیھم
کہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ ان کو عذاب ذکر فی ھذہ الایۃ انہ لا یعذبھم اذاخرج الرسول من بینھم ۔ ثم اختلفوا فی ھذا العذاب نقال بعضھم الحقھم عذاب التوعد بہ یوم بدر وقیل بل یوم فتح مکہ (تفسیرکبیر جلدصفحہ )
نہ دے گا جب تک کہ خدا کا رسول ان میں ہے اور اس آیت میں فرمایا کہ ان کو عذاب دے گا کہ کب اللہ کا رسول ان میں سے نکل آیا ہے پھر علما نے اس عذاب میں اختلاف کیا ہے بعضوں نے کہا کہ بدر کی لڑائی میں وہ عذاب ان کو ملا اور بعضوں نے کہا کہ مکہ کی فتح کے دن۔ غرضیکہ ان علما نے عذاب سے لڑائی میں شکست پانے کا عذاب مراد لیا ہے۔
ھم یستغفرون فی الموضع المحال و معناہ نفی الا ستغفار عتھم ای لو کانوا ممن یومن ویستغفر من الکفر لمباعدۃ بھم کقولہ و ما کان ربک لھنک القری بنملم واھلھا مصلحون ولکنھم
اب اس آیت کے ان لفظوں پر ” وما کان اللہ معذبھم یستغفرون “ غور باقی رہے گئی ہے۔ تفسیر کشف میں لکھا ہے وھم یستغفرون سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ استغفار کرتے ہیں بلکہ اس سے نفی استغفار مراد ہے پس ان لفظوں کے معنی لایومنون ولا یستغفرون ولا یتوقع ذلک منھم (تفسیر کشاف صفحہ )
یہ ہیں در حالیکہ وہ استغفار کرتے تو خدا ان کو عذاب نہ کرتا مگر وہ استغفار نہیں کرتے اس لیے ان کو خدا عذاب دے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام علما صاحب کشاف کہ علم ادب کا بہت بڑا عالم سمجھتے ، اور جو معنے انھوں نے بیان کئے ہیں اس کو سب تسلیم کرینگے۔
 
Top