ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
ہوتے ہیں اس کی مثال
اَنْتَ الہَّجُل
ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ بس تُو ہی مرد ہے باقی سب عورتیں ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ مرد کے کمالات کو اگر دیکھا جائے تو اس کی مکمل تعریف تجھ پر ہی صادق آتی ہے باقی مردوں میں کچھ نہ کچھ نقص ہیں استغراقی کے علاوہ جنسی ال تعریف حقیقت بیان کرنے کے لئے بھی آتا ہے جیسے
اَلْاِنْسَانُ اَفْضَلُ مِنَ الْحَیَوَانِ
انسان اپنی حقیقت کے لحاظ سے حیوان سے بہتر ہے۔ (اقرب)
کتابٌ۔ کتاب۔ کَتَبَ کا مصدر ہے اور اسی لحاظ سے ہر اس چیز کا نام کتاب رکھا گیا ہے جس میں مختلف مسائل کو فصل باب کے ساتھ لکھ دیا جائے تو رات کو بھی انہی معنوں میں کتاب کہتے ہیں اور ہر لکھی ہوئی تصنیف کو بھی کتاب کہتے ہیں اور کتاب کے معنی فرض کے بھی ہیں اور حکم کے بھی اور قضاء آسمانی کے بھی۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے کلام کو بھی کتاب کہتے ہیں اور خط کو بھی کتاب کہتے ہیں (اقرب)
پس اس لفظ کے اپنے اپنے محل پر مختلف معنی ہونگے کبھی فروض و احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت والی وحی کو کتاب کہیں گے اور کبھی صرف الہام کو مدنظر رکھتے ہوئے ہرقطعی اور یقینی وحی کو کتاب کہیں گے خواہ کتابی صورت میں جمع کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔
ریبٌ۔
الظِّنَّۃُ وَالتُّھْمَۃ۔
تخمین سے بلا دلیل کوئی بات کہنا یا محض وہم سے کسی پر الزام لگانا اور اس کی سچائی میں شبہ کرنا۔
الشَّکٌ
۔ شک۔
الَحْاَجَۃُ
۔ مکی۔ ضرورت اور
رَیْبُ الْمَنُوْنِ
کے معنے ہیں زمانہ کے مصائب آفات (اقرب)
ریب کا لفظ قرآن کریم میں اور کئی جگہ استعمال ہوا ہے مثلاً اسی سورۃ میں فرماتا ہے
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَاْتُوْ بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ
(بقرہ ع) اس جگہ مراد صداقت میں شبہ کے ہیں۔ اسی طرح سورۂ حج میں ہے
یٰٓا اَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ
(الحج عٰ) اس جگہ بھی بعث بعد الموت کی صداقت میں شک و شبہ کرنے کے معنے ہیں پھر سورۂ طور میں ہے
اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَتَوَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ
(الطور ع) یعنی کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے جس کے متعلق ہم انتظار کر رہے ہیں کہ زمانہ کے مصائب آخر اسے ہلاک کر دینگے۔ اس جگہ ریب مضائب دہر اور ہلاکت کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔
قرآن کریم میں ریب کا لفظ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ مثلاً فرماتا ہے۔
مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبٍ
(ق ع ۲) نیکی سے بہت روکنے والا۔ حد سے بڑھنے والا۔ شک و شبہ کا شکار دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ اسی طرح سورۂ مومن میں آتا ہے
کَذٰ لِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ ھُوَ سُرِفٌ مُّرْتَابٌ
(المومن ع ۴) یعنی اللہ تعالیٰ اسی طرح گمراہ قرار دیتا ہے یا ہلاک کرتا ہے اسے جو حد سے بڑھنے والا یا اپنے عقیدہ اور خیالات کی بنیاد غیر معقول شبہات و و ساوس پر رکھنے والا ہو۔ پس ریب اس شک کو نہیں کہتے جو علم کی زیادتی کا موجوب ہوتا ہو اور تحقیق میں حمد ہو بلکہ اس شک کو کہتے ہیں جو تعصب یا بدظنی کی وجہ سے ہو اور سچائی سے محروم کر دے چنانچہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ
(المدثر ع ۱) ہم نے یہ (مذکورہ بالا) کام اس لئے کیا ہے کہ تا اہل کتاب اور مومن ریب میں نہ پڑیں گویا مومن ریب میں نہیں پڑتا اور اللہ تعالیٰ مومن کو ریب سے بچاتا ہے حدیث میں آتا ہے
دَعْ مَایُرِ یْبُکَ الیٰ مالا یَرِیْبُکَ
(ترمذی مطبوعہ مطبع مجتبائی جلد دوم صفحہ ۷۴ ابواب صفۃ القیامۃ) یعنی جو چیز تیرے دل میں قلق اور وسوسہ پیدا کرے اسے چھوڑ دے اور اس چیز کو اختیار کر جس کے بارہ میں وسوسہ نہ ہو۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ریب اس شک کو کہتے ہیں جس کی بنیاد وسوسہ اور وہم پر ہو اور اس شک کو نہیں کہتے جو تحقیق و
تدقیق کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ ھُدًی۔ الرَّشَادُ
۔ سیدھے راستہ پر ہونا۔
اَلْبیَانُ
بیان کرنا۔
الدَّ لَالَۃٌ
۔ کسی امر کی طرف رہبری کرنا (اقرب)
الھدایتہ الدَّلَالَۃُ بلُطْفٍ
یعنی ہدایت (جو ھدًی کالم معنی دوسرا مصدر ہی) کے معنی محبت اور نرمی سے کسی امر کی طرف رہبری کرنے کے ہیں (مفردات) امام راغب کے نزدیک ہدایت کا لفظ قرآن کریم میں مندرجہ ذیل چار معنوں میں آتا ہے (۱) ہر عقل یا سمجھ یا ضروری جزوی ادراک کی طاقت رکھنے والی شے (جیسے حیوانات وغیرہ کہ ادراک کامل ان کو حاصل نہیں ہوتا صرف جزوی یا سطحی ادراک ایسے ضروری امو رکا جو ان کی حیات اور محدود عمل تعلق رکھتے ہیں ان کو حاصل ہوتا ہے) کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام کا طریق بتانا۔ اس کی مثال قرآن کریم میں یہ ہے
رَبُّناَ الَّذِیْٓ اَعطیٰ کُلَّ شَیًْ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَ
دٰی (طہٰ ع ۲) یعنی ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی عقل یا سمجھ یا اس کے ضروری تقاضوں کے مطابق اسے رہنمائی کی (میرے نزدیک اس جگہ ھَدٰی کے معنے یہ ہیں کہ ہر شے میں مناسب قوتیں پیدا کر کے پھر انہیں کام پر لگا دیا کیونکہ صرف قوتوں کا موجود ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ انہیں ابتدائی حرکت دیکر کام پر لگانا ان کی حیات کے شروع کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے بچہ پیدا ہوتا ہے تو گو پیدائش سے پہلے آلات تنفس کامل طور پر موجود ہوتے ہیں مگر باہر نکلنے کے بعد جب تنفس کے آلات کو ہوا لگنے یا پانی کا چھینٹا دینے سے ان میں حرکت پیدا ہوتی ہے بچہ کی عملی زندگی در حقیقت اسی وقت سے شروع ہوتی ہے جس طرح ایک گھڑی کے اندر سب ہی پُرزے موجود ہوتے ہیں مگر جب تک اسے کنجی دے کر حرکت نہ دی جائے پُرزے سے کام کرنا شروع نہیں کرتے غرض حیات کو شروع کرنے سے پہلے ایک ابتدائی دھکے کی ہر شے کو ضرورت ہوتی ہے اور ہدایت سے مُراد وہی حرکت اُولیٰ ہے اور اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو مناسب قویٰ کے ساتھ پیدا کیا ہے او رپھر حرکت اولی دیکر اسے مفوضہ کام پر لگا دیا ہے) علامہ راغب کے نزدیک ہدایت کے دوسرے معنے اس ارشاد کے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے بندوں تک پہنچاتا ہے اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے
وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا
(سجدہ ع ۳) ہم نے بنی اسرائیل میں سے ایسے امام مقرر کئے جو ہمارے الہام سے لوگوں کو ہماری طرف بلاتے تھے۔ ہدایت کے تیسرے معنے ان کے نزدیک اس توفیق کے ہیں جو ہدایت پانے والوں کو ملتی ہے یعنی ہدایت ملنے کے بعد جو عمل کی توفیق یا فکر کی بلندی پیدا ہوتی ہے یا مزید ہدایت کے حصول کی خواہش پیدا ہوتی ہے وہ بھی ہدایت کہلاتی ہے اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے
اَلَّذِیْنَ اھْتَدَ وَزْاَدَھُمْ ھُدًی
(محمدؐ ع ۲) جو لوگ ہدایت پاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت میں اور بڑھا دیتا ہے (یعنی عمل کی توفیق اور ہدایت کے سلسلہ میں مزید فکر کرکے اور علوم حاصل کرنے کا موقعہ عطا کرتا ہے) چوتھے معنی ہدایت کے انجام بخیر کے اور جنت کو پالینے کے ہیں اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے
سَیَھْدِ یْھِمْ وَیُصْلِحُ بَالَھُمْ
(محمدؐ ع ۱) اللہ تعالیٰ ان کا ا نجام بخیر کر کے انہیں جنت تک پہنچا دے گا اور ان کے حالات کو درست کر دے گا اور قرآن کریم میں جہاں یہ آات ہے
یَھْدُوْنَ بَاَمْرِنَا
(انبیاء ع ۵) وہ ہمارے حکم کے مطابق ہدایت دیتے تھے یالِکُلِّ
قَوْمٍ ھَادٍ
(رعد ع ۱) ہر قوم میں ہادی آیا ہے اس جگہ ہدایت سے مُراد لوگو ںکو ہدایت کی دعوت دینے کے ہیں اور ایسی آیات جیسے کہ
اِنَّکَ لَاتَھْدِیْ مَنْ اَجْنَبْتَ
اور ایسی آیات جن میں یہ ذکر ہے کہ کافروں اور ظالموں کو ہدایت نہیں مل سکتی۔ اس سے مُراد تیسیر اور چوتھی قسم کی ہدایتیں ہیں یعنی ہدایت پا جانے کے بعد توفیق عمل کا ملنا یا نور ایمان کا عطا ہونا یا جنت میں داخلہ کی نعمت کا حصول۔ پس ان آیات کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ کفار کو مذکور بالا انعامات نہیں مل سکتے (اور یہ ظاہر ہے کہ جو دوسری قسم کی ہدایت یعنی دعوت انبیاء کو قبول نہیں کرتا۔ وہ تیسری اور چوتھی
قسم کی ہدایتوں کو جو دوسری قسم کی ہدایتوں کے نتائج ہیں حاصل نہیں کر سکتا) (مذکورہ بالا تمام مضمون سوائے ان عبارتوں کے جو خطوط و حدانی میں ہیں عربی کی مشہور لغت کی کتاب مفردات راغب سے لیاگیا ہے) المُتَّقِیْن
۔ متقی کی جمع ہے جو
اِتَّقَی
کا اسم فاعل ہے۔ اتقاء وقی سے باب افتعال کا فعل ماضی ہے وقی کے معنے ہیں بچایا حفاظت کی۔ اور
اِتَّقَی
کے معنے ہیں۔ بچا۔ اپنی حفاظت کی (اقرب) مگر اس لفظ کا استعمال دینی کتب کے محاورہ میں معصیت اور بُری اشیاء سے بچے کے ہیں اور خالی ڈر کے معنو ںمیں یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔
وقایۃ
کے معنی ڈھال یا اس ذریعہ کے ہیں جس سے انسان پنے بچائو کا سامان کرتا ہے بعض نے کہا ہے کہ اتقاء جب اللہ تعالیٰ کے لئے آئے تو انہی معنوں میں آتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنا نجات کے لئے بطور ڈھال بنا لیا۔
قرآن کریم میں تقویٰ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے بارہ میں حضرت ابرہریرہؓ سے کسی نے پوچھا تو انہو ںنے جواب دیا کہ کانٹوں والی جگہ پر سے گزرو تو کیا کرتے ہو اس نے کہا یا اس سے پہلو بچا کر چلا جاتا ہوں یا اس سے پیچھے رہ جاتا ہوں یا آگے نکل جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بس اسی کا نام تقویٰ ہے یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مقام پر کھڑا نہ ہو اور ہر طرح اس جگہ سے بچنے کی کوشش کرے ایک شاعر (ابن المعتنر) نے ان معنوں کو لطیف اشعار میں نظم کر دیا ہے وہ کہتے ہیں۔ خَلً الذّنُوْبَ صغیرَھاو٭ کبیرَھا ذاکَ التُّقٰی وَاصنَعْ کَماشٍ فَوْقَ٭ ضِ الشَّوْکِ یَحذ رُمَایرَیٰ لَاتَحْقَرَنَّ صغیرۃً٭ اِنَّ الجبالَ مِنّ الْحَصٰی
(ابن کثیر) یعنی گناہوں کو چھوڑ دے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے یہ تقویٰ ہے اور تو اس طریق کو اختیار کر جو کانٹوں والی زمین پر چلنے والا اختیار کرتا ہے یعنی وہ کانٹوں سے خوب بچتا ہے۔ اور تو چھوٹے گناہ کو حقیر نہ سمجھ کیونکہ پہاڑ کنکروں سے ہی بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
تفسیر۔
ذٰلِکَ الْکِتَابُ
۔ اس کے متعلق اعتراض کیا گیا ہے کہ ذالک تو اشارہ بعید کے لئے ہے پھر اس لفظ کو اس جگہ کیوں استعمال کیا گیا ہے بعض علماء نیپ اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ اشارہ قریب کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے (زجاج دیکھو حل لغات) بعض نے کہا ہے کہ گو اشارہ بعید کے لئے بھی ہے لیکن جب کسی چیز کا ذکر ختم ہو جائے تو وہ بھی بعید کے حکم میں ہوتی ہے چنانچہ عام طور پر گفتگو میں جس امر کا ذکر ہو چکا ہے اس کے بارہ میں ذٰلِکَ کہہ کر اشارہ کر دیتے ہیں چنانچہ عرب اپنی بات ختم کر کے کہتے ہیں ذَالِکَ مَالَا شَکَّ فِیْہِ اور ذٰلِکَ سے مُراد وہ بات ہوتی ہے جو اس نے ختم کی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے۔
لَافَارِضٌ وَّلا بِکُرٌ عَوَانٌ بَیْنَ ذٰلِکَ
(بقرہ ع ۸) اس جگہ ذَلِکَ سے مُراد فارض اور بکر ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے پھر فرماتا ہے
ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلُّمَنِیْ رَبِّیْ (یوسف ع ۵) اس جگہ بھی جو بات
اوپر کہی ہے اس کی طرف ذٰلِکَ سے اشارہ کیا ہے (کشاف) ان آیتوں کے علاوہ اور آیات بھی قرآن کریم میں ہیں مثلا
ذٰلِکَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ (سجدہ ع ۱) تِلْکَ حُجَّتُنَٓا اٰتَیْنَا ھَآ اِبْرَاھِیْمَ
(انعام ع ۱۰) قران کریم میں دوسری جگہ
ذٰلِکَ الْکِتَابُ
کی جگہ
ھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَالْنَاہُ مُبَارَکٌ
بھی آیا ہے۔
غرض اوّل ذٰلِکَ عرب کے محاورہ کے مطابق ھٰذَا کے معنوں میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ دوم ضروری نہیں کہ جس چیز کے بارہ میں ذٰلِکَ آئے وہ دُور ہو۔ اگر ذہنی طور دُور ہو یعنی اس کا ذکر ختم ہو چکا ہو تو اس کے لئے بھی ذٰلِکَ کالفظ استعمال کر لیا جاتا ہے۔
اس تشریح کے ماتحت
ذٰلِکَ الْکِتَابُ
کے کئی معنے ہو سکتے ہیں (۱) یہ وہ کتاب ہے (۲) وہ یہ کتاب ہے (۳) یہی کامل کتاب ہے (۴) وہی کامل کتاب ہے۔
مذکورہ بالا معانی اس صورت میں ہیں کہ ذٰلِکَ مبتدا
ہو اور اَلْکِتاب خبر۔ لیکن ایک صورت یہ بھی ہے کہ ذٰلِکَ کو مبتدا اور الکتاب کو عطف بیان اور لَ
ارَیْبَ فِیْہِ
کو اس کی خبر سمجھا جائے اس صورت میں اس کے معنی یُوں ہونگے (۱) یہ یعنی کامل کتاب اپنے اندر کوئی ریب کی بات نہیں رکھتی (۲) وہ کامل کتاب (یعنے ہدایت انبیاء) اپنے اندر کوئی ریب کی بات نہیں رکھتی۔
لغوی معنے بیان کرنے کے بعد اب میں تفسیری معنی بیان کرتا ہوں (۱) جن لوگوں نے الٓمّٓ کو سورۃ کا نام قرار دیا ہے انہوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ الٓمّٓ یہ کتاب ہے یعنے الٓمّٓ نام ہے اس سورۃ کا۔ یا یہ معنے کئے ہیں کہ
الٓمّٓ
ایک کامل کتاب ہے (۲) جنہوں نے
ذٰلِکَ
کا استعمال قرآن کریم کی عظمت شان کی وجہ سے قرار دیا ہے انہوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ عظیم الشان کلام وہ کتاب ہے جس کی تعریف صحفِ موسیٰ اور دوسری کتب میں آ چکی ہے (۳) بعض نے اشارۂ بعید لے کر یہ معنی کئے ہیں کے لوحِ محفوظ میں جو کتاب ہے وہ یہی ہے یعنے قرآن کریم۔ مگر یہ معنے بہت بعید ہیں اور الفاظ قرآنی ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس رنگ میں بعض قرآنی ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس رنگ میں بعض اور معنے بھی مفسّرین نے کئے ہیں مگر وہ سب کے سب اسی طرح بعد از قیاس ہیں اور ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ میرے نزدیک ان تینوں قسم کے معنوں میں سے دوسرے معنے ہی ایسے ہیں جو الفاظ قرآنیہ کے مطابق ہیں۔ کیونکہ مشہور عام بات کی طرف اس طرح اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ پہلے ادیان کے لوگ ایک کتاب کے منتظر تھے۔ انہیں مخابط کر کے قرآن شریف کے شروع میں کہا جا سکتا تھا کہ جس کتاب کے تم منتظر ہو یہ وہی کتاب ہے۔ مگر میرے نزدیک زیادہ صحیح معنے جو الفاظ قرآنیہ کے بالکل مطابق ہیں۔ دو ہیں۔
۱۔ یہی کامل کتاب ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں
زَیْدُنِ الْعَادلُ
زید ہی عادل ہے ہے اسی طرح یہ جملہ ہے
ذٰلِکَ الْکِتَابُ
کتاب کہلانے کی مستحق تو یہی کتاب ہے یعنی اَلْ جنسی استغراقی مجازی ہے ان معنوں کی رو سے کسی ایسی چیز کی طرف اشارہ نہیں نکالنا پڑتا جس کا ذکر اس جگہ نہیں ہے اور یہ معنے مناسب موقع بھی ہیں۔ ایک الہامی کتاب جو دوسری کتب کی موجودگی میں اپنے آپ کو پیش کرے اسے ابتداء کلام میں ایسا ہی دعویٰ پیش کرنا چاہیئے کیونکہ لوگوں کے دلوں میں طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری کتب کی موجودگی میں یہ نئی کتاب کیوں پیش کی جاتی ہے۔ اس فطرقی سوال کے جواب میں قرآن کریم کے شروع میں ہی یہ الفاظ رکھ دیئے گئے کہ یہی کامل کتاب ہے اور متلاشیانِ حق کو بتلایا گیا کہ بیشک اس کے سوا اور کتب بھی موجود ہیں لیکن کتاب کا موجود ہونا اور شئے ہے اور اس کا انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنا اور شئے ہے۔ اگر کتاب کی غرض یہ ہے کہ انسان کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرے تو پھر صرف یہی کتاب اس غرض کو پورا کرتی ہے اس لئے دوسری کتب کی موجودگی میں بھی اس کی ضرورت ہے۔
الٓمّٓ کے حروف کو جن کے معنے اوپر بتائے جا چکے ہیں مدِّنظر رکھتے ہوئے بھی یہی معنے زیادہ چسپاں ہوتے ہیں کیونکہ میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں کے الفاظ اسی پر دلالت کرتے ہیں کہ میرا علم جب اور جو تعلیم دُنیا کو دے وہی اس زمانہ کے لحاظ سے کامل اور مکمل تعلیم ہو سکتی ہے۔ نیز میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں ایک دعویٰ ہے جس کا ثبوت بھی چاہیئے اور اس کا سب سے بڑھ کر ثبوت یہی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی علمی چیز پیش کی جائے جو اپنی نظیر نہ رکھتی ہو پس الٓمّٓ کے معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ذٰلِکَ الْکِتَابُ کے بہترین معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ یہی کامل کتاب ہے۔
جب ہم واقعات کو دیکھتے ہیں تو یہ دعویٰ قطعی طور پر ثابت ہے۔ بیشک قرآن کریم سے پہلے توریت انجیل و ید زند وغیرہ کتب موجود تھیں لیکن ان کی تعلیم اور قرآن کریم کی تعلیم کا مقابلہ کر کے دیکھ لو۔ قرآن کی جامعیت کسی اور کتاب میں نہ ملیگی انجیل کا سب سے بڑا کمال محبت الہی پر زور ہے قرآن کریم میں وہ سب تعلیم موجود ہے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ توریت کا فخر جامع شریعت پر ہے لیکن شریعت کی جامعیت میں قرآن کریم
کے آگے وہ بھی خم کھاتی ہے حالانکہ حجم میں قرآن کریم دو نوکتب سے چھوٹا ہے قرآن کریم کی یہ جامعیت ایسی کامل ہے کہ ایک مسلمان کے نزدیک شریعت کا مفہوم ہی دوسروں سے جداگانہ ہو گیا ہے۔ جب ایک مسلمان شریعت کا لفظ بولتا ہے تو فوراً اس کا ذہن اس طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ اس میں والدین اور اولاد کے تعلقات میاں بیوی کے تعلقات۔ شادی اور اس کے اغراض کے متعلق میاں بیوی کے فرائض کے متعلق۔ میاں بیوی کے انتخاب کے متعلق۔ وراثت کے متعلق۔ وصیت کے متعلق۔ ہمسایہ اور اہلِ محلہ کے متعلق تجارت اور زراعت کے متعلق۔ حاکم و محکوم کے تعلقات اور ذمہ داریوں اور حکومت کی نوعیت کے متعلق۔ مزدوروں اور مزدور رکھنے والوں کے متعلق۔ حکومتوں کے باہمی تعلقات کے متعلق۔ اقتصادی مسائل کی بنیادوں کے متعلق۔ انسانوں اور جانوروں کے متعلق۔ اور سب سے آخر میں لیکن سب سے مقدم یہ کہ اللہ اور بندہ اور اس کے رسولوں کے متعلق تفصیلی اور مکمل احکام ان کی حکمتوں سمیت بیان کئے گئے ہونگے یہ سب مسائل اور ان کے علاوہ اور بہت سے اپنی حکمتو ںسمیت قرآن کریم میں بیان ہیں اور ان کا عشر عشیر بھی اور کسی کتاب میں موجود نہیں۔
ویدوں کو لو۔ تو اوّل عام ہندو ویدوں کو جانتا بھی نہیں اور جو تھوڑے سے جانتے ہیں ان میں سے اکثر انہیں بطور منتر جنتر استعمال کرت ہیں اور جو اسے سمجھتے ہیں ان کے نزدیک بھی اس کی بڑی خوبی دُعائیں اور انسانی پیدائش کے فلسفہ پر جو مکمل اور تفصیلی بحث قرآن کریم نے کی ہے اس کے مقابل میں ویدوں کی تعلیم بالکل ماند پڑ جاتی ہے قرآن کریم کی دُعائیں انسانی فطرت کی باریکیوں پر مشتمل ہیں وہ لفاظی سے پُر نہیں وہ انسان کی ضروریات کو پہلے ننگا کر کے دیکھاتی ہیں پھر انہیں قدو سیت اور پاکیزگی کی چادر اُڑھاتی ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم انسانی پیدائش کی ایسی تفصیلات بیان کرتا ہے جو استعاروں میں چھپ کر انسانی دماغ کو پریشان نہیں کر دیتیں بلکہ اسے مشاہدہ اور تجربہ کے میدان میں کھڑا کر کے اس کے ذہن کو صاف کرتیں اور اس کے فکر کو جلا بخشتی ہیں اسلام نے انسان کے انجام کو یعنے مابعد الموت کے مسئلہ کوجس طرح بیان کیا ہے اس کے مقابل پر سب کتب شکست خوردہ ہیں۔ توریت خاموش ہے انجیل بالکل نامکمل سا ذکر کرتی ہے۔ ویدوں میں مابعدالموت کا کوئی ذکر نہیں۔ زر تشت کی کتاب میں کچھ ذکر ہے مگر صرف استعارہ کے ھو رپر اور مادی الفاظ میں دیا ہوا۔ اس کے مقابل پر قرآن کریم تفصیلاً بتاتا ہے کہ نیک و بد کو کیا جزاء ملے گی اور کس طرح ملے گی اس کی کیا کیفیت ہو گی اور اس کی غرض کیا ہو گی۔ دوسری زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کے حصول کے لئے کس جدوجہد کی ضرورت ہے جزاء سزا کے اُصول کیا ہیں۔
پھر فلسفہ اخلاق ہے جس پر مذہب کی بنیاد ہے اور دُنیاوی امن و امان کے قیام کا انحصار ہے اس مضمون کو بھی دوسری کتب نے یا چھو انہیں یا صرف اس کے حوالی کو چھو کر چھوڑ دیا ہے بدُھ کی تعلیم میں بیشک جذبات پر بحث ہے مگر قرآن کریم کی تعلیم کے مقابل پر وہ بھی کچھ نہیں۔ قرآن کریم نہ صرف جذبات پر بحث کرتا ہے بلکہ وہ ان کے پیدا ہونے کی وجوہ اور ان کی ضرورت اور پھر ان کے صحیح طور پر اختیار کرنے کے ذرائع پر بھی روشنی ڈالتا ہے وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ جذبات کب اور کس صورت میں نیک ہوتے ہیں اور کب اور کس صورت میں بد۔ پھر یہ بھی بتاتا ہے کہ جذبات کو نیک کس طرح طرح بنایا جا سکتا ہے او ربد ہونے سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے او رایسے اثرات سے کس طرح اپنے نفس کو بچایا جاس کتا ہے جو جذبات کو بدی کی رو میں بہا دیتے ہیں۔
بُدھ کی تعلیم میں یہ تو یہ کہا گیا ہے کہ تم خواہشات کو ترک کرو تو گناہ سے بچ جائو گے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کونسی باتیں ہیں جن سے بدی کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ کونسے ذرائع
ہیں جن کی مدد سے ان کو روکا جا سکتا ہے مگر قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ گناہ کا منبع کہاں ہے اور پھر وہ اس منبع کو روکنے کی تدبیر بھی ہمیں بتاتا ہے۔
اور ان سب تفصیلات کے باوجود قرآن کریم سب کتب سے جو الہامی ہونے کی دعویدار ہیں چھوٹا ہے جس کی وجہ سے اس کا پڑھنا۔ سمجھنا او ریاد رکھنا بہت آسان ہے حتیٰ کہ ہزاروں لاکھوں اس کے حافظ دنیا میں موجود ہیں۔ پس قرآن کریم کے شروع ہی میں اس دعویٰ کو پیش کرنا کہ یہی کامل کتاب ہے ایک ایسا دعویٰ ہے جو ضرورت کے مطابق ہونے کے علاوہ نہایت مناسب موقعہ پر پیش کیا گیا ہے۔
۲۔ ان معنوں کے علاوہ ایک اور معنی بھی اس آیت کے ہیں اور وہ بھی سیاق و سباق کے عین مطابق ہیں اور وہ یہ کہ سورۂ بقرہ سے پہلے سورہ فاتحہ ہے اس سورۃ میں ایک دُعا سکھائی گئی تھی کہ خدایا! مجھے سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام نازل کیا ہے۔ اس دُعا کا جواب ان الفاظ میں دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن ہدایت کو تم نے سورۃ فاتحہ میں طلب کیا تھا وہ یہی کتاب یعنے قرآن کریم ہے اس طرح ذٰلِکَ اشارہ بعید کے معنے ہیں دیتا ہے اور کسی اور تاویل کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ معنی سکھائے تو میں بہت خوش ہوا مگر کچھ عرصہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ مجھ سے پہلے ان معنوں کی طرف کم سے کم ایک عالم اسلام سبقت کر چکا ہے اور ہو علامہ ابو حیان کے اُستاد ابن جعفر بن ابراہیم بن الزبیر ہیں جنکی طرف منسوب کر کے علامہ ابوحیان نے یہ معنی اپنی تفسیر میں لکھے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نہایت لطیف معنی ہیں۔ ان معنوں سے سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کے تعلق پر بھی روشنی پڑتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ بقرہ کا ر کھا جانا یونہی نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس کے مضامین سورہ فاتحہ کے جواب میں ہیں اور ذٰلِکَ کے معرف معنی کو بھی نہیں چھوڑنا پڑتا۔
اس آیت کا آخری حصہ یعنے
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ
ان معنوں کی مزید تصدیق کرتا ہے۔ گویا اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے جس ہدایت کو تم نے طلب کیا تھا وہ یہی کتاب ہے اور تم نے چونکہ معوملی ہدایت طلب نہیں کی۔ بلکہ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ گروہ کی ہدایت طلب کی ہے اس لئے ہم تم کو بتاتے ہیں کہ یہ کتاب
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن
ہے یعنی معمولی ہدایت نہیں دیتی بلکہ کامل متقی کو اور اوپر لے جا کر
اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ
کے اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں شامل کر دیتی ہے اور تمام انبیاء کی تعلیموں اور ان کے حاصل کردہ انعامات کی جامع ہے۔
لَارَیْبَ فِیْہِ۔ ریب کے معنے بتائے جا چکے ہیں۔ کہ تہمت۔ شک۔ کمی۔ نقص اور آفت و مصیبت کے ہیں۔
یہ سب کے سب معنی اس آیت میں چسپان ہوتے ہیں اور قرآن کریم کے متعلق اس میں چار دیویٰ کئے گئے ہیں۔
(۱) اس میں کسی ہستی کی حق تلفی نہیں کی گئی اور کسی پر ناواجب الزام نہیں لگایا گیا۔ نہ خدا تعالیٰ پر اس میں تہمت لگائی گئی ہے اور نہ کسی نبی یا رسول پر نہ ملائکہ پر نہ بنی نوع انسان پر نہ انسانی فطرت پر۔ غرض کسی کی اس حق تلفی نہیں کی گئی۔ کسی پر اتہام نہیں لگایا گیا۔ یہ اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ اس کی نظیر دنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں ملتی اور یہ ایسی زبردست صداقت ہے جس کی مثال اور کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم کے شروع کرتے ہی یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ اس کتاب کی دوسری کتب کی موجودگی میں کیا ضرورت تھٖی اس سوال کا سہل ترین جواب یہ ہو سکتا تھا کہ پہلی کتب کی بعض مضحکہ خیز باتیں پیش کر دی جاتیں اور کہا جاتا کہ ان کتب میں فلاں فلاں عیوب ہیں اس لئے ان سے دُنیا ہدایت نہیں پا سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اُتارا ہے یہ جواب باوجود اس اذعا کے کہ قرآن کریم سب نبیونکی تعلیم کی طرف ہدایت دینے کے لئے نازل ہوا ہے درست ہوتا کیونکہ قرآن کریم گو اس امر کا مدعی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبی آتے رہے ہیں او ران میں سے بعض کو شریعت بھی ملی ہے اس امر کو تسلیم نہیں
کرتا کہ ان انبیاء کی تعلیم موجودہ وقت میں بھی محفوظ ہے پس اس کا یہ جواب کہ موجودہ زمانہ میں پہلے نبیوں کی کتب غیر محفوظ ہیں اور خراب ہیں بالکل درست ہوتا اور مخالفین قرآن کریم کے لئے نہایت درجہ مسکت بھی ہوتا مگر ایک عظیم الشان بشارت کی اس رنگ کی ابتداء نفیس طبیعتوں پر گراں ضرور گذرتی۔ کیونکہ گو پہلی کتب کی غلطیوں پر مطلع کرنا قرآن کریم کے ضروری فرائض میں سے ہے مگر ابتداء ہیں میں اس مضمون کو چھیڑ دینا نہ تو ایک غیر معمولی شان کی کتاب کے شایاں تھا اور نہ اس سے اس عظمت و شوکت کا اظہار ہو سکتا تھا جو اس مضمون سے ظاہر ہوتی ہے کہ ہم کسی فرد یا ہسی کو اس کے مقام سے نہیں گراتے بلکہ سب کے مناسب مقام اور درجہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس دعویٰ سے قرآن کریم نے ابتداء ہی میں اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لئے کسی قدر مشکلات پیدا کر لی ہیں؟ اعتراض کرنا آسان ہوتا ہے اور اعتراضوں پر ہی مختلف مذاہب کے مدعی اپنی تبلیغ کی بنیاد رکھتے ہیں لیکن قرآن کریم ابتدا ہی اس طرح کرتا ہے کہ اپنی ضرورت کے ثبوت کے لئے پہلے مذاہب کے نقائص کو پیش نہیں کرتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ میرا الکتاب یعنے کامل کتاب ہونپے کا دعویٰ اس امر پر مبنی نہیں کہ دوسری کتب میں نقص ہیں اور مجھ میں نہیں ہیں دوسروں کے مقابل میں نسبتی کمال کو اپنے سچا ہونے کّی دلیل نہیں دیتا بلکہ بغیر کسی مذہب پر اتہام لگانے کے اپنے ذاتی کمالات اور اپنے فضائل اور دینی امتیازی تعلیمات سے اپنی ضرورت اور اپنی صداقت کو ثابت کرتا ہوں۔ یہ مقام کیسا شاندار ہے اور پھر ساتھ ہی کیسا مشکل بھی؟ مگر قرآن کریم اسی کو اختیار کرتے ہوئے اپنی صداقت کو کامیاب طور پر ثابت کرتا ہے قرآن کریم اپنی سچائی کی دلیل یہ نہیں دیتا کہ دوسرے مذہب جھوٹے ہیں اس لئے ایک سچے مذہب کی ضرورت تھی جسے وہ پورا کرتا ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ
اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ
(فاطر ع ۳) کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا نبی نہ گذرا ہو اور اسی طرح فرماتا ہے
وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَا
دٍ (رعد رکوع ۱) اور ہر قوم میں ایک ہادی ہماری طرف سے آ چکا ہے اور اسی طرح وہ تمام اقوام کے متعلق اصولی طو رپر اس امر کو تسلیم کر لیتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان میں سے ہر ایک کے سمجھانے کے لئے بھی اپنی طرف سے ہدایت نامے بھجواتا رہا ہے اور اصولی طو رپر تمام مذاہب کو جو خدا تعالیٰ کی تصدیق کی مہر رکھتے ہیں جھوٹ اور فریب سے بری قرار دیتا ہے اور ان کی سچائی کا اقرار کرتا ہے برخلاف مثلاً یہود نصاریٰ اور آریو ںکے مذاہب کے کہ وہ اپنے سوا دوسرے مذاہب کو جھوٹا قرار دیتے ہیںاور یہ خیال کرتے ہیں کہ تورات انجیل اور وید کے سوا باقی سب جگہ ظلمت ہی ظلمت ہے اور ان اقوام کے سوا اللہ تعالیٰ نے باقی سب اقوام کو ہدایت کے سامانوں سے محروم کر دیا تھا بلکہ حق تو یہ ہے کہ اسلام کے سوا اور سب اویان کسی نہ سکی شکل میں دوسرے مذاہب کو جھوٹا یا ادنیٰ ہی قرار دیتے ہیں لیکن اسلام ایسا نہیں کرتا وہ ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے آسمانی ہدایت کو ضروری قرار دیتا ہے اور اپنے اپنے زمانہ کے لئے سب کو کامل اور انسانی حاجتو ںکو پورا کرنے والا تسلیم کرتا ہے اور اس طرح قرآن کریم دوسرے مذاہب سے اتہام سے پاک ہونے میں بالکل ممتاز ہے۔
اگر تفصیلات کو دیکھا جائے تو اس میں بھی قرآن کریم کو اتہام سے پاک ہونے میں دوسرے مذاہب کے مقابل پر ایک امتیاز حاصل ہے سب سے ضروری وجود مذہب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا ہے وہ تمام مذاہب کا مرکزی نقطہ ہے۔ بظاہر یہ نہیں خیال کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کسی مذہب نے کوئی اتہام لگایا ہو گا لیکن ذرا سے تامل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ ناقابل فہم غلطی بھی انسان کر چکا ہے اور خوب پیٹ بھر کر چکا ہے۔ توریت خدا کی نسبت کہتی ہے کہ وہ دنیا کو پیدا کر کے تھک گیا اوراسے آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی حالانکہ جو تھک وہ خدا نہیں ہو
سکتا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ دُنیا کو پیدا کر کے ساتویں دن اللہ تعالیٰ نے آرام کیا (پیدائش باب ۲۔ آیت ۲ و ۳ بعض اردو کے نسخوں میں مترجموں نے آرام کیا کی جگہ اعتراض کے ڈر سے فراغت پائی لکھ دیا ہے لیکن دوسرے نسخوں اور انگریزی کے نسخوں میں آرام کیا کے الفاظ ہی ہیں) اور یہ اللہ تعالیٰ پر اتہام ہے کہ وہ کام کرتے کرتے تھک گیا اور اُسے آرام کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن قرآن کریم اللہ تعالیٰ کو اس اتہام سے بری قرار دیتا ہے اور اس کی طرف سے یہ قول نقل فرماتا ہے
وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّہِ اَیَّامٍ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لَّغُوْب
(ق ع ۳) یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو چھ اوقات میں پیدا کیا لیکن اس کام سے ہمیںکوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی اور نہ آرام کرنے کی حاجت پیدا ہوئی۔ اسی طرح مثلاً بائبل میں اللہ تعالیٰ کی نسبت لکھا ہے کہ ’’تب خداوند زمین پر انسان کے پیدا کرنے سے پچھتایا اور نہایت دلگیر ہوا۔‘‘ گویا انسان کو پیدا کرنا ایک غلطی تھی او راسپر نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو ندامت پیدا ہوئی اور وہ اسپر دلگیر ہوا۔ یہ اللہ تعالیٰ پر ایک اتہام ہے وہ خدا ہی کیا ہوا جو غلطی کرتا ہے اور انہیں جانتا کہ میرے فعل کا کیا نتیجہ ہو گا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ سبحان اور قدوس یعنے وہ سب عیبوں سے پاک ہے اور سب بزرگیوں کا مالک ہے اور اسی سورۃ میں آگے چل کر فرماتا ہے کہ
اِنِّیْ اَعْلَمُ السَّمٰوتِ وَالْاَرْضِ
(بقرہ ع ۳) یعنی میں اللہ آسمان و زمین کے متعلق تمام امور ابتدائے آفرنیش سے اور آئندہ کے تمام زمانوں کے متعلق خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ جس کو آسمان اور زمین کے متعلق پورا غیب حاصل تھا اور وہ اس کے حال اور مستقبل سے اچھی طرح واقف تھا اس کی نسبت کب یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس نے غلطی سے دنیا کو پیدا کر دیا اور بعد میں پچھتانے لگا۔
پھر ایک اصول کے طور پر قرآن کریم میں یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے
یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمِلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْم (
جمعہ ع ۱) یعنے زمین و آسمانکا ذرّہ ذرّہ اللہ کے ہر عیب سے پاک ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اس میں کس طرح اصولاً بائبل کے خیال کے خلاف تعلیم دی ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سا دنیا کو پیدا کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی کیونکہ جو کام ایک فاعل بالارادہ غلطی سے کرتا ہے یا جو انجام کے لحاظ سے غلط ہو جاتا ہے وہ کام اپنے فاعل کے نقص پر ایک شہات ہوتا ہے اور اس کی کم علمی یا بصیرت کے صنعف پر دلالت کرتا ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ زمین اور آسمان میں جو بھی ہے انسان ہوں یا حیوا ہوں۔ فرشتے ہوں یا ارواح ہوں اسی طرح نباتات ہوں کہ جمادات ہوں باریک سے باریک ذرّہ ہو کہ بڑے سے بڑا سماوی کرہ ہو۔ سب کے سب اس بات پر شہادت دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص سے پاک ہے اور اس نے زمین و آسمان کے پیدا کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی بلکہ آیت کا مضمون اس بات کو بھی پیش کر رہا ہے کہ مومن ہوں یا کافر مخلص ہوں یا منافق سب ہی باوجود اپنے منہ کے غلط بیانات اور دماغ کے مخالف خیالات کے اپنے وجود اور اپنے عمل سے اس امر کو ثابت کر رہے ہیں کہ زمین و آسمان کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ نے غلطی نہیں کی۔
اس کے بعد فرماتا ہے کہ اس دعویٰ کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا کا وجود خدا تعالیٰ کے ملک قدوس عزیز اور حکیم ہونے پر دلالت کر رہا ہے یعنی نظامِ عالم اس امر پر دلالت کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک یعنی بادشاہ ہے اور اس کی طرف سے ایک قانون دنیا کو ملا ہے جس کی پابندی کرنے والے انعام پاتے ہیں اور خلاق ورزی کرنے والے سزا پاتے ہیں۔ ملک سے اس جگہ قانونِ شریعت مراد ہے یا قانون طبعی کا وہ حصہ جس کی خلاف ورزی کا انسان مرتکب ہو سکتا ہے جیسے مثلاًزیادہ کھا جانا یا آنکھ ناک کان سے زیادہ یا کم کام لینا۔ غرض اللہ تعالیٰ کا وہ قانون جس کی اطاعت جبراً
نہیں کی جاتی بلکہ اس پر چلنے یا نہ چلنے کی بندے کو مقدرت حاصل ہوتی ہے اس کا ملوکیت والا قانون ہے کیونکہ بادشاہی قانون بھی ایسے ہی ہوتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے توڑنے کی طاقت ہوتی ہے گو ان کے توڑے پر وہ سزا پاتے ہیں۔ اس ملوکیت والے قانون پر عمل کرنے والے روحانی انعام اور طبعی قانون پر عمل کرنے والے طبعی انعام۔ اور یہ اس امر کا ثبوت ہے۔ کہ اس نظام عالم کا کوئی بادشاہ ہے چنانچہ انبیاء اور صلحاء کے ساتھ جو معاملہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے وہ ایک قادر خدا کا جو تمام مخلوقات کا بادشاہ ہے ایک قطعی اور یقینی ثبوت ہے۔
اس کے بعد فرماتا ہے القدّوس وہ پاک اور تمام عیوب سے مبرا ہے یعنی اس کو ملوکیت کے معاملہ پر غور کرو تو تم کو معلوم ہو گا کہ اس کا معاملہ دنیوی بادشاہوں اور سلطنتو ںکا سا نہیں ہے کہ ان کے حکام اور بادشاہ اپنی حکومت کے قیام کے لئے ہر قسم کے اعمال کو جائر سمجھتے ہیں بلکہ اس کی صفت ملوکیت اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اس سے اس کی قدوسیت ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ اس کی طرف سے جو لوگ اس کے قانون کو جاری کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں وہ اعلیٰ اخلاق سے متصف ہوتے ہیں اور جس قدر کوئی اس کا قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر نبی نوع انسان کا ہمدرد ہوتا ہے۔ اسی طرح جو اس کے طبعی قانون پر عمل کرتا ہے اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ فوائد اصل کرتا ہے اور طبعی نقائص سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے جاری کردہ قانون کے مطابق آنکھوں سے کام لینے والے کی آنکھیں مضبوط ہونگی اس کے قواعد کے مطابق معدہ سے کام لینے والے کا معدہ تمام بیماریوں سے بچا رہے گا۔ غرض اس کا قانون ایسا ہے کہ اس پر عمل اسنان کو مشقت اور تکلیف میں نہیں ڈالتا بلکہ اس پر عمل سے انسان قدوسیت کی چادر پہنتا ہے یعنی جس قدر عمل کرتا ہے اسی قدر نقصوں سے پاک ہوتا جاتا ہے۔ شرعی قانون پر عمل کرنے سے روحانی طہارت ملتی ہے اور طبعی قانون پر عمل کرنے سے جسمانی طہارت اور قوت حاصل ہوتی ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ وہ عَزِیْز بھی ہے یعنی اگر مخلوقات پر نگاہ ڈالو تو اس قانون کے علاوہ جو ملوکیت کے قانون کے مشابہ ہے او رجس پر عمل کرنے یا نہ کرنے پر انسان کو مقدرت حاصل ہے اس کا ایک اور بھی قانون فطرت کہنا چاہیئے۔ یہ قانون بھی دو قسم کا ہوتا ہے روحانی بھی اور جسمانی بھی۔ روحانی قانون تو وہ ہے جسے دین الفطرۃ کہتے ہیں اور جس میں تمام اخلاقی جذبات شامل اور جوہر مومن و کافر میں پایا جاتا ہے اور جو آخر ہر اس شخص کی ہدایت کو سمجھنا چاہے اس قانون سے بچنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔ مثلاً رحم اور شکر گذاری کے جذبات ہیں کہ ہر شخص میں پائے جاتے ہیں۔ ظالم سے ظالم میں بھی یہ جذبات پائے جاتے ہیں۔ کوئی انسان ان کے اثر سے بچ نہیں سکتا۔ ایک ڈاکو جو ہزاروں قتل کر کے ندامت محسوس نہیں کرتا اپنے بچے کی بیماری پر چیخیں مار کر رونے لگتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات دیکھا جاتا ہے۔ کہ ڈاکو اور چور بھی ان لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتے جنہوں نے ان سے کبھی حسن سلوک کیا ہو۔ غرض بطور جذبۂ فطرت کے یہ مادے ہر انسان میں موجود ہیں گوبد استعمال کی وجہ سے بعض لوگ ان کا ساتعمال بہت محدود کر دیتے ہیں۔
جسمانی نظام میں یہ قانون ان طبعی خواص پر مشتمل ہے جن کے ماتحت تمام نظام عالم چل رہا ہے ایک دہر یہ خدا تعالیٰ کو مُنہ سے گالیاں دے لیتا ہے۔ لیکن اس کے اس قانون کی نافرمانی نہیں کر سکتا جو صفت عزیز کے ماتحت ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً خدا تعالیٰ نے اس کی زبان کو چکھنے کے لئے بنایا ہے اس میں یہ طاقت نہیں کہ زبان سے دیکھنے کا کام لے سکے۔ باوجود مذہب میں بغاوت کرنے کے وہ اس کے اس قانون کو بلا چون و چرا پابندی کرتا ہے
اسی طرح جو جو خواص اشیاء اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں وہ اسی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں کہ جس صورت میں خدا تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے اس قانون کے خلاف و نہیں جا سکتے۔ بیشک خواص اشیاء میں بھی تغیرات ہوتے ہیں مگر وہ تغیرات بھی دوسرے طبعی قانونوں کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اس دُنیا میں ایک قانون صفتِ عزیز کے ماتحت جاری ہے جس سے خدا تعالیٰ کے غلبہ اور قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس قانون کی ہر کہ دمہ پوری پابندی کرتا ہے اور پابندی کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ملوکی قانون کی طرح اس کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی اور یہ قانون ایک عزیر ہستی پر دلالت کرتا ہے۔
پھر فرمایا ہے کہ شاید کسی کو اعتراض ہو کہ زبردست اور حیر سے کام لینا تو اچھا کام نہیں تو اس کا یہ جواب دیا کہ نہ ہر امر میں قدرت دینا اچھا ہے او رنہ ہر امر میں جبر جائز ہے۔ قدرت اپنی جگہ اچھی ہے اور جبر اپنی جگہ جائر ہے اور یہ دونوں مرحکمت کے ماتحت برتے جائیں تبھی نتائج اچھے نکلتے ہیں اگر قانونِ قدرت نہ بنایا جاتا تو تمام علمی ترقی انسان کی محدود ہو جاتی۔ کیونکہ کیمیا اور فزکس اور بایالوجی اور زوالوجی وغیرہ تمام علوم کی بنیاد ہی غیر متبدل قوانین اور خواص پر ہے۔ اگر آگ کبھی جلاتی اور کبھی پیاس بجھاتی اور پانی کبھی سرد کرتا اور کبھی آگ لگاتا تو کارخانۂ عالم ہی درہم برہم ہو جاتا۔ غرض قانونِ قدرت ہو یا قانونِ فطرت ہو ان کا غیر معتبدل ہونا زبردست حکمتوں کے ماتحت ہے اور بلاوجہ او ربے فائدہ نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس آیت میں آسمان و زمین کی پیدائش کو خدا تعالیٰ کی چار صفات الملک۔ القدوس۔ العزیز۔ اور الحکیم کا ظاہر ہے کہ یہ جو فعل الٰہی ان چار صفات کا اور خصوصاً حکمتِ الہٰی کا ظاہر کرنے والا ہو اس پر نادم ہونے یا پچھتانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معمولی سے معمولی شخص بھی اچھے کام پر پچھتایا نہیں کرتا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے خاص اسی مضمون کو لیکر بھی وضاحت سے اس کی تردید کی ہے۔ فرماتا ہے۔
وَمَاخَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَابَیْنَھُمَالَا عِبِیْنَ
(الانبیاء ع ۲) یعنی آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ہم نے اس کو یونہی بے سوچے ہوئے پیدا نہیں کیا یہ ہمارا کام کوئی کھیل نہیں بلکہ حکمت اور حق کے ساتھ اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ اس مضمون کی تائید میں فرماتا ہے۔
خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بالْحَقِّ
(العنکبوت ع ۴) یعنے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو ایک نہایت پختہ اور اٹل قانون کے ماتحت بنایا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے متعلق سب سے بڑا اتہام شرک کا ہے۔ قرآن کریم سب کا سب اسی اتہام کے رو کے دلائل سے بھرا ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ کے شریک کئی قسم کے تجویز کئے گئے ہیں۔ بعض نے دو خدا تجویز کئے ہیں۔ ایک نور کا اور ایک ظلمت کا خدا۔ بعض نے تین خدا تجویز کئے ہیں۔ باپ۔ بیٹا اور روح القدس۔ بعض نے خدا تعالیٰ کے لئے بیویاں تجویز کی ہیں۔ بعض نے یہ تجویز کیا ہے کہ اس نے بعض ہستیوں کو پیدا کر کے اپنی صفات ان میں بانٹ دی ہیں۔ اور مختلف صفات کے ظہور کے لئے مختلف دیوتا مقرر کر دیئے ہیں۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ بندوں میں سے بعض کو چن کر اپنے اختیارات کل یا بعض ان کو سونپ دیتا ہے۔ بعض تمام بڑے مظاہر قدرت کو خدا تعالیٰ کی صفات کا بالارادہ ظاہر کرنے والا قرار دیتے ہیں اور بعض لوگ مضر اشیاء اور خوف دلانے والے جانوروں کو دیوتا تجویز کرتے ہیں۔ بعض مظاہرِ حسن کو خدا کا مظہر اور الوہیت کی صفت سے متصف قرار دیتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان تمام قسم کے شرکوں کو تفصیل سے ردّ کیا ہے۔ اور ان عقائد کے غلط ہونے کے دلائل دیئے ہیں مگر اس مفصل مضمون کو حوالو ںکے ساتھ بیان کرنے کا یہ موقعہ نہیں۔ اگلے کسی موقعہ پر ان آیات کے ماتحت ان کا ذکر آ جائیگا جن مںی توحید ما شرک