ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
بیماری میں گرفتار ہو اس سے چنگا ہو جاتا تھا۔‘‘ یہ آیت ۱۹۳۰ء اور بعد کی اناجیل میں سے بالکل نکال دی گئی ہے۔ یوحنا باب ۷ آیت ۵۳ سے باب ۸ آیت ۱۱ تک نسخہ مطبوعہ مرزا پور میں موجود ہیں مگر نسخہ بحروف رومن اردو کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ساتویں باب لی ۵۳ آیت سے لیکر آٹھویں باب کی گیارہویں آیت تک کی عبارت اکثرقلمی نسخو ںمیں نہیں پائی جاتی۔ عیسائی علماء کا اپنا اقرار کہ بعض آیتیں جو اناجیل میں درج تھیں وہ در حقیقت اناجیل کا حصہ نہیں تھیں۔ اور پُرانے نسخوں کا آپس میں اختلاف کہ بعض آیتیں بعض میں پائی جاتی ہیں اور بعض میں نہیں۔ یہ امور اس بات کا صاف اور واضح ثبوت ہیں کہ موجودہ اناجیل شک اور شبہ سے پاک نہیں بلکہ اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہیں کہ وہ ملاوٹ سے ہر گز محفوظ نہیں۔ اور خود عیسائیوں کے مسلمات کے رو سے محرف اور مبدل ہیں۔ پس ایسی کتب کی موجودگی کے باوجود خواہ وہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کی جاتی ہوں یقینا ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس کا ہر ہر لفظ قطعی اور یقینی ہو اور جس کی حفاظت کا دشمن اور دوست کو اقرار ہو۔ اور اس ضرورت کو قرآن کریم نے پورا کیا۔ اور اس آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کے متعلق یہ اعتراض کرنا کہ پہلی کتب کی موجودگی میں اس کی کیا ضرورت ہے ایک بے معنے اعتراض تھا کیونکہ محرف مبدل کتب خود ایک محفوظ کتاب کا مطالبہ کرتی تھیں جس پر لوگ اس یقین سے عمل کر سکیں کہ اس کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس قرآن کریم نے اپنی ضرورت کی تائید میں اپنے کامل ہونے کی دلیل کے ساتھ یہ دلیل بھی پیش کی کہ ایمان کے لئے اس کتاب پر کامل یقین ضروری ہے جس پر عمل کرنے کا حکم دیا جائے اور قرآن کریم سے پہلے کی سب کتاب اپنی موجودہ شکل میں مجروح اور مشکوک ہو چکی ہیں۔ پس ایک ایسی کتاب کی ضرورت پیدا ہو چکی ہے جس کے لفظ لفظ کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے میں شک نہ کیا جا سکے۔ پس اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے تاکہ جو لوگ اس پر عمل کریں اس یقین کے ساتھ عمل کریں کہ یہ تمام کا تمام محفوظ ہے اور ہر ہر لفظ اس کا اسی طرح ہے جس طرح حدا آنے نازل کیا ہے۔ یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کے بعد کوئی شخص قرآن کریم کی ضرورت کا انکار نہیں کر سکتا او رجس کے بعد پہلی کتب کا موجود ہونا اس کی ضرورت کو باطل نہیں کر سکتا۔ علاوہ ازیں ان الفاظ میں یہ پیشگوئی بھی کر دی گئی ہے کہ یہ کتاب ہمیشہ محفوظ رہے گی اور کبھی بھی انسانی دستبرد کاشکار نہ ہو گی۔
۳۔ ریب کے ایک معنے ہلاک اور تباہی کے بھی ہیں۔ ان معنوں کے رُو سے
لَارَیْبَ فِیْہِ
کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ کتاب نہ صرف سب خوبیوں کی جامع ہے بلکہ سب نقائص سے پاک بھی ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایک نسخہ کسی خاص مرض کے لئے مفید تو ہوتا ہے لیکن اس فائدہ کے ساتھ بعص اور نقصان بھی پہنچا دیتا ہے پس ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ جو ضرورت بھی انسان کو مذہب کے بارہ میں پیدا ہو قرآن کریم اس کو پورا کرتا ہے اور ساتھ ہی اس میں یہ خوبی بھی ہے کہ اس پر عمل کرنے سے کسی اور جہت سے انسان کی روحانیت کو نقصان بھی نہیں پہنچتا۔ چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ سورۃ طہ میں فرماتا ہے مَا
اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی
(ع ۱) یعنی اس قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے انسان دن یا دنیا میں نقصان اٹھائے بلکہ اس کی تعلیم مفید ہونے کے ساتھ بے ضرر بھی ہے۔ اس بارہ میں بھی آئدہ تفسیر میں متعدد مثالیں پیش کی جائیں گی (انشاء اللہ) جن سے معلوم ہو گا کہ قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے انسان کی روحانیت یا اخلاق کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ وہ خالص خیر ہی خیر ہے۔ او ریہ امر بھی اسے دوسری کتب پر ایک زبردست فوقیت عطا کرتا ہے۔
۴۔ چوتھے معنے رَیْب کے
حَاجَۃٌ
کے بتائے گئے تھے۔ ان معنوں کے رُو سے
لَارَیْبَ فِیْہِ
کے معنے یہ ہوں گے کہ اس کتاب میں کوئی دینی امر بیان کرنے سے رہ نہیں گیا بلکہ سب ضروری امور اس میں بیان کر دیئے گئے ہیں چنانچہ یہ فضیلت بھی قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اور وہ ایک ایسی جامع کتاب ہے کہ کوئی انسانی ضرورت ایسی نہیں جس کے متعلق اس میں شافی تعلیم موجود نہیں۔ کوئی اعتقادی او رکوئی عملی اور کوئی اخلاقی اور کوئی اقتصادی اور کوئی مدنی امر نہیں جس کے بارہ میں قرآن کریم
میں بحث نہ کی گئی ہو اور اس کے متعلق ہدایت نہ دی گئی ہو بلکہ باوجود قلیل الحجم ہونے کے قرآن کریم میں سب ضروری امور پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے اور اسے قرآن کریم کا ایک زبردست معجزہ تسلیم کرنے پر مجبو رہو جاتا ہے۔ اس خوبی کی طرف شروع سے اس کے دشمنوں کی نگاہ بھی پڑتی چلی آئی ہے چنانچہ احادیث میں آتا ہے۔ کہ
قَالَ رَجُلٌ مِّنَ الْیَھُوْدِ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ یَا اَمِیْرَ الْمُؤمِنِیْنَ لَوْ عَلَیْنَا اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتَ لَکُمْ الْاِ سْلَامَ دِیْنًا لَاتَّخَذْنَاہُ ذَالِکَ الْیَوْمَ عِیْدًا فَقَالَ عُمَرُ اِنِّیْ لَاَ عْلَمُ اَیَّ یَوْمِ اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ اُنْزِلَتْ یَوْمَ عَرَفَۃَ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ
(ترمذی جلد دوم کتاب التفسیر زیر آیت الیوم اکملت لکم دینکم) کہ ایک یہودی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملا۔ اور کہنے لگا۔ کہ اگرہم پر آیت
اَلْیَوْم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
اترتی۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی دینی امر بیان کرنے سے رہ نہیں گیا بلکہ سب ضروری امور اس میں بیان کر دیئے گئے ہیں اور قرآن مجید کامل کتاب ہے۔ تو ہم اس دن کو جس دن وہ آیت اُترتی عید کا دن مقرر کرتے۔ اور خوشی مناتے۔ کہ ہماری شریعت کامل شریعت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے خوب یاد ہے کہ کب او رکہاں یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ آیت حج کے ایام میں یوم عرفہ میں جمعہ کے روز نازل ہوئی۔ گویا تم تو ایک دن عید مناتے لیکن ہمارے لئے یہ دو عیدیں تھیں ایک جمعہ کا دن اور دُوسرا یوم عرفہ۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے آیت
اَلْیَوْم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
پڑھی۔ اور پاس ہی ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے اُن سے کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس روز عید مناتے۔ حضرت ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ یہ آیت نازل ہی ایسے ایام میں ہوئی جبکہ دو عیدیں جمع تھیں (ترمذی جلد دوم کتاب التفسیر)
خلاصہ کلام یہ کہ لَ
ا رَیْبَ فِیْہِ
میں صرف اس امر کی تاکید نہیں کی گئی کہ یہ کلام سچا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ بلکہ ریب کے معنوں پر نظر کرتے ہوئے اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ (۱) اس میں کسی صداقت کا انکار نہیں ہے بلکہ سب صداقتوں کا اقرار کیا گیا ہے اور مذہب کے سب ضروریامو رپر سے تہمتوں اور بدگمانیوں کو دور کیا گیا ہے (۲) اس میں کوئی ظنی اور شکی بات نہیں بلکہ ہر بات دلیل سے بیان کی گئی ہے (۳) یہ کلام محفوظ اور یقینی ہے اور ہمیشہ محفوظ رہیگا (۴) اس میں کوئی ایسا امر نہیں جو انسان کے لئے تکلیف اور تباہی کا وجب ہو (۵) اس میں سب ضروری امور بیان کر دیئے گئے ہیں اور کوئی ایسا مذہبی اخلاقی تمدنی اقتصادی سیاسی وغیرہ مسئلہ نہیں جس کے بارہ میں اس میں مکمل تعلیم نہ دی گئی ہو۔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ
۔ ان الفاظ یہ بتایا کہ (۱) قرآن کریم میں وصال الٰہی کی تڑپ پیدا کرنپے کے سامان موجود ہیں یعنی ہر فطرت صحیحہ کو اس کی تلاوت کے ذریعہ سے وہ ضروری دھکا لگتا ہے جس کے بغیر والہانہ اور عاشقانہ قدم ارواح اپنے معشوق حقیقی کی طرف نہیں اٹھا سکتیں۔ صرف فلسفیانہ خیالات کا پیدا ہونا انسان کے لئے کافی نہیں ہوتا کیونکہ فلسفہ صرف خیالات کو درست کرتا ہے ایک ناقابل برداشت جذبہ اس سے پیدا نہیں ہوتا مگر عمل کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ فطرۃ انسانی کو ایک ایسا دھکا لگے کہ وہ آپ ہی آپ آگے بڑھتی چلی جائے۔ خدمت اور ایثار پر فلسفی زبردست تقریر کر سکتا ہے ایک جاہل ماں اس کا لاکھواں حصہ بھی بیان نہیں کر سکتی لیکن اپنے بچہ کے لئے جس ایثار اور قربانی کا عملی نمونہ وہ دکھاتی ہے ایک فلسفی بنی نوع انسان کے لئے اس نمونہ کا لاکھواں حصہ بھی پیش نہیں کر سکتا۔ پس جب تک کوئی کوئی کتاب
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ
نہ ہو یعنی جن لوگوں کے خیالات و افکار دلیل اور بُرہان سے پاک ہو چکے ہوں اُن کے اندر عشق اور محبت کی آگ نہ بھڑکا دے اور ایک طرف خدا تعالیٰ کی طرف محبت سے بڑھتے چلے جانے اور دوسری طرف مخلوق کی طرف شفقت سے جھکتے چلے جانے کا بے پناہ جذبہ نہ پیدا کر دے وہ دنیا کی عملی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اور قرآن کریم
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ
کے الفاظ سے اسی مقصد کے پورا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور بتاتا ہے
کہ اس کتاب کے مطالعہ سے انسانی فطرت کو وہ ابتدائی دھکا لگتا ہے جو اُسے عشق کیر اہ پر گامزن کر دیتا ہے۔
دوسرے معنے ہدایت کے اس ارشاد کے ہوتے ہیں جو نبیو ںکے ذریعہ سے انسانوں کو پہنچایا جاتا ہے۔ ان معنوں کے رُو سے اس جملہ کے معنے یہ ہوں گے کہ جو لوگ اس امر کے شائق ہیں کہ ان کو ان کے خالق و مالک کی طرف سے ہدایت ملتی رہے ان کی حواہش کے پوار کرنے کے بھی اس میں سامان موجود ہیں اور خواہ کسی درجہ کا متقی ہو اس کی راہنمائی کے لیے اس کتاب میں پاک اور مصفی الٰہی تعلیم موجود ہے جس سے متقی کے دل کو یہ تسکین حاصل ہوتی ہے کہ وہ صرف اپنی عقل سے کام نہیں لے رہا۔ بلکہ اُسے خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت حاصل ہے جس کی مدد سے وہ ہر قدم یقین اور اطمینان سے اٹھا سکتا ہے اور شک و شبہ کی زندگی سے پاک ہو جاتا ہے۔
تیسرے معنے ہدایت کے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے عمل کی مزید توفیق اور فکر کی بلندی کے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے اس جملہ کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم میں ایسی قوت ہے کہ جب اس کے کسی حکم پر انسانع مل کرنے تو اسے مزید نیکیو ںکی توفیق ملتی ہے اور اس کے خیالات میں جلا پیدا ہوتی ے اور اس کا فکر اور اس کا حوصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور باریک در باریک تقویٰ کی راہیں اس پر کھولی جاتی ہیں۔ گویا وہ ایک لامتناہی نیکی اور تقویٰ کی نہ ختم ہونے والی راہوں پر چل پڑتا ہے اور اس کی ترقیات کی کوئی انتہاء مقرر نہیں کی جا سکتی۔ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَ ھُمْ ھُدًی وَّاٰتٰھُمْ تَقْوھٰمْ
(محمد ۶ع۲) یعنی جو لوگ ہدایت پا جائیں انہیں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعہ سے ہدایت میں اور بھی بڑھاتا ہے اور ان کے مناسب حال تقویٰ انہیں عطا کرتا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے۔ کہ ہدایت اور تقویٰ کسی ایک مقام کا نام نہیں ہیں بلکہ ہدایت کے بھی مختلف مقامات ہیں اور تقویٰ کے بھی مختلف مقامات ہیں۔ قرآن کریم ہدایت یا فتو ںکو ان کے مقام سے اوپر کے مقام ہدایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور پھر اس مقام کے مناسب حال تقویٰ کا مقام اس شخص کو دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ لامتناہی ترقیات کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُ وْافِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا
(العنکبوت ۳ ع ۷) یعنی جو لوگ ہماری محبت او رہمارے وصال کے حصول کے لئے ہمارے بتائے ہوئے قواعد کے مطابق (اس پر فینا کے الفاظ دلالت کرتے ہیں اور ان سے ایک مراد قرآن کریم ہے) جدوجہد کرتے ہیں انہیں ہم یکے بعد دیگرے ان راستوں کا پتہ بتاتے چلے جاتے ہیں جو ہم تک پہنچنے والے ہیں۔ اس آیت میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف ہدایت کے راستے محدود نہیں بلکہ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا راستہ ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے
نُوْرُ ھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِ یْھِمْ وَبِاَیْمَا نِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْر
(التحریم ۱۰ ع ۲) یہ آیت مابعد الموت زندگی کے متعلق ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کو جب آنحضرت صلعم اور مومن جنت کی طرف جائیں گے تو ان کے ایمان و عمل کے نتیجہ میں پیدا شدہ نور ان کے آگے ہو گااور وہ یہ کہتے جائیں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے نور کو مکمل کر دے او رہماری کمزوریوں کو ڈھانپ دے تو ہر شئے پر قادر ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت صرف اسی دنیا میں نہیں بڑھتی بلکہ بعد الموت بھی ہدایت اور عرفان میں انسان ترقی کرے گا اور نئی طاقتیں اُسے ملتی جائیں گی۔ خلاصہ یہ کہ ہدایت کے لفظ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسری آیت قرآنیہ اس کی وموید ہیںکہ روحانی ترقیات غیر محدود ہیں اور قرآن کریم متقیوں کو ان اعلیٰ ترقیات کی طرف بڑھاتا لئے جاتا ہے۔
چوتھے معنے ہدایت کے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے قرآن کریم سے یہ ثابت ہیں کہ انجام بخیر اور جنت حاصل ہو جاتی ہے۔ ان معنوں کے رُو سے اس جملہ ی معنے ہوتے ہیں کہ قرآن کریم میںایسی تعلیم ہے کہ جس کی امداد سے خدا ترس انسان اپنے منزل مقصود یعنی جنت کو حاصل کر لیتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ دعویٰ سب مذاہب ہی کرتے ہیں اور بظاہر اس
مضمون میں کوئی جدت یا افضلیت نہیں پائی جاتی۔ لیکن جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ اس میں جنت کے حصول کے کیا معنے ہیں تو پھر یہ دعویٰ بالکل جدید اور نرالا ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ جنت کے حصول کے یہ معنے نہیں کہ انسان مرنے کے بعد جنت میں داخل ہو جائے بلکہ مرنے کے بعد کی جنت کا حصول اس دنیا میں جنت کے حصول سے وابستہ ہے جسے اس دنیا میں جنت مل جائے صرف اسی کو بعد الموت جنت ملے گی۔ چنانچہ فرماتا ہے
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ
(الرحمن ع ۳) یعنی جو شخص تقویٰ کے سچے مقام پر ہوتا ہے اُسے دو جنتیں ملتی ہیں۔ ایک اس دنیا میں اور ایک اگلے جہان میں۔ اور ایک دوسری جگہ فرماتا ہے
مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰ خِرَۃِ اَعْمٰی
(بنی اسرائیل ع ۸) یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا ہو یعنی اُسے دیدار الٰہی نصیب نہ ہو وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا اور یدار الٰہی یا دوسرے الفاظ میںجنت سے محروم رہیگا۔
قرآن کریم کی اس تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے جنت کے ملنے کے معنے صرف یہ نہیں کہ مرنے کے بعد قرآن کریم کا مومن جنت حاصل کرے گا کیونکہ یہ صرف ایک دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم پر ایمان لانے والا اور اس کی روشنی سے فائدہ اٹھانے والا شخص اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہو جاتا ہے اور ایمان بالغیب اس کے لئے ایمان بالمعاینہ ہو جاتا ہے۔ وہ صرف عقیدۃ اس امر کو نہیں مانتا کہ اسے مرنے کے بعد جنت مل جائے گی بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنی صفات کو اس کے لئے ظاہر کرتا ہے او راپنے وجود کو اس کے سامنے لے آتا ہے یہاں تک کہ وہ موت سے پہلے ہی اپنے آپ کو جنت میں محسوس کرنے لگتا ہے اور جسمانی موت صرف اُس کے مشاہدہ کو زیادہ روشن کرنے کا موجب ہوتی ہے ورنہ مشاہدہ اور دیدار الٰہی اُسے اسی دنیا میں میسر آ جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ ایسا مقام ہے جس کے بعد کوئی بے چینی اور شک باقی نہیں رہتا اور ایسا انسان ہر ٹھوکر اور ابتلاء سے محفوظ ہو جاتا ہے اور گویا اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کی گو دمیں جا بیٹھتا ہے۔ پس قرآن کا مومنوں کو قرآن کریم کے ذریعہ سے جنت ملنے کا دعویٰ کرنا محض ایک بے دلیل دعویٰ نہیں بلکہ وہ اسے ایک ایسی شہادت کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا جھوٹ اور سچ اسی دنیا میں آزمایا جا سکتا ہے۔ اور اسلام کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو اس دعویٰ کے لئے دلیل کے طور پر تھے اور جن کو اللہ تعالیٰ کا وصال اور دیدار کامل طو رپر اسی دنیا میں حاصل ہو گیا اور اسی دنیا میں جنت میں داخل ہو گئے۔ یعنی ہر قسم کے شیطانی حملوں سے محفوظ ہو گئے اور ہر قسم کی روحانی نعمتوں سے متمتع ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے تازہ بتازہ کلام کو انہو ںنے سُنا اور اس سے بالمشافہ انہو ںنے باتیں کیں اور اس کے زندہ نشانوں کو انہو ںنے اپنی ذات میں دیکھا اور دوسروں کے وجودوں میں انہیں دیکھایا۔
بعض لوگ اس آیت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر قرآن کریم متقیوں کے لئے ہدایت ہے تو معلوم ہوا کہ متقی پیدا کرنے کیلئے اور کسی کلام یا کتاب کی ضرورت ہے۔ سو یاد رہے کہ یہ اعتراض محض قلت تدبر سے پیدا ہوا ہے کیونکہ قرآن کریم تقویٰ پیدا کرنے کا بھی مدعی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے
فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِینَتَہٗ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَالتَّقْویٰ وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلَہَا
(فتح ۱۱ ع ۳) یعنے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اپنی کتاب پر ایمان لانے والوں پر سکینت او راطمینان نازل کیا اور اُن سے تقویٰ کی حقیقت کو وابستہ کر دیا اور مومن بالقرآن ہی حقیقت تقویٰ کے مستحق اور اس کے اہل ہیں۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے ذریعہ سے اور اس پر ایمان لا کر انسان کو کامل تقویٰ میسر آتا ہے بلکہ ایسا تقویٰ میسر آتا ہے جو دائمی ہوتا ہے۔ بلکہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقویٰ کے اہل اور اس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھنے والے صرف مومنین قرآن ہیں۔
اس آیت کی موجودگی میں یہ اعتراض کرنا کہ گویا قرآن کریم صرف مقتیوں کو ہدایت دینے کا دعویٰ دار ہے تقویٰ پیدا کرنے کا دعویٰ نہیں کرتا بالبداہت باطل ہے۔ اس کے برخلاف قرآن کریم
تو اس امر کا مدعی ہے کہ حقیقی تقویٰ صرف قرآن کریم پر ایمان لانے سے پیدا ہو سکتا ہے۔
اس آیت کے علاوہ قرآن کریم کی اور بہت سی آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم صرف مقتیوں کے لیے ہدایت نہیں بلکہ سب بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ہے خواہ وہ روحانی زندگی میں اعلیٰ مقام پر ہوں یا ادنیٰ پر۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی
(آل عمران ۵ ع ۱۴) یہ قرآن تمام انسانوں کے لئے ضروری امور بیان کرتا ہے اور انہیں ہدایت دیتا ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآنی ہدایت صرف متقیوں کیلئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ قرآن کریم میں ہے
ھُدًی لِّلنَّاسِ وبَیِّنَتٍ مِّنَ الْھُدٰی
(البقرہ ۶ ع ۲۳) یعنی قرآن کریم سب انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی تمام اقسام بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے۔ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ
ط (الکف ۲۰ ع ۸) یعنی اس قرآن میں تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے خواہ متقی ہو ںیا غیر متقی ہر بات اعلیٰ سے اعلیٰ پیرایہ میں بیان کر دی گئی ہے یعنی ہر انسان کی حالت کے مطابق اس میں ایسی تعلیم ہے جو اسے اوپر کے درجہ کی طرف لے جاتی ہے اور اس کی رحوانی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذا الْقُرْاٰن مِنْ کُلِّ مَثَلٍ
(الروم ۹ چ ۶) اس آیت کے بھی قریباً وہی معنے ہیں جو اوپر کی آیت کے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ پہلی آیت میں
صَرَّفْنَا
کہا گیا تھا یہاں
صَرَّفْنَا
کہا گیا ہے۔
اورصَرَّفْنَا
میں اس امر پر زور ہے کہ مختلف پیرایوں سے اس ہدایت کو بیان کیا ہے۔ اور صَرَّفْنَا میں اس امر پر زور ہے کہ فطرت کی صحیح مثالوں اور واضح نمونوں کے مقابل پر رکھ رکھ کر ہدایت کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَیَذَّ کَّرُوْ
ا (بنی اسرائیل ۵ ع ۵) یعنی قرآن کریم میں تمام ضروری امور ہدایت مختلف پیرایوں میں بیان کئے گئے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور فائدہ اٹھائیں۔ اس جگہ بھی متقیوں یا مومنوں کے لئے ہدایت کو مخصوص نہیں کیا گیا بلکہ تمام انسانوں کے لئے اسے پیش کیاگیا۔
قرآن کریم کی متعدد آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کی راہیں بھی قرآن کریم نے تمام انسانوں کے لئے بیان کی ہیں چناچنہ فرماتا ہے
یَآ اَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ
(البقرہ ۳ ع ۳) یعنی اے انسانو (نہ کہ مومنو یا مسلمانو) اپنے اس رب کی جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا ہے عبادت کرو تاکہ تم متقی بنو۔ اسی طرح فرماتا ہے۔
وَکَذَ ایِکَ اَنْزَلْنَاہ قُرْآنًا عَرَبِیًّا وَّصَرَّ فْنَا فِیْہِ مِنَ الْوَعِیْدِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْن
(طہ ۱۵ ع ۶) یعنی قرآن کریم کو ہم نے عربی زبان میں اتارا ہے اور اس میں تمام عذاب کی خبریں بھی بیان کی گئی ہیں تاکہ جو مومن نہیں وہ بھی متقی ہو جائیں۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم کافروں کو بھی متقی بناتا ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ پھر اس جگہ یہ کیوں فرمایا کہ قرآن کریم متقیوں کے لئے ہدایت ہے یہ کیوں نہ فرمایا کہ قرآن کریم تقویٰ پیدا کرات ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ قرآن کریم کی افضلیت کا ذک ہے یعنی یہ بیان ہے کہ دوسری کتب کی موجودگی میں اس کتاب کی کیا ضرورت ہے۔ پس اس مضمون کے لحاظ سے ان اعلیٰ مقامات کے حصول کا ذکر ہی مناسب اور درست تھا جن میں قرآن کریم منفرد ہے او رجس میں اس کا مقابلہ کرنے کا دوسرے مذاہب کو دعویٰ تک بھی نہیں۔
اس جواب کے علاوہ اس اعتراض کا ایک اور بھی جواب ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں تقویٰ کی ایک اور بھی تعریف بیان کیگئی ہے اور اس تعریف کے رُو سے تقویٰ کا تعلق انسانی فطرت سے ہے نہ کہ مذہب سے۔ چنانچہ سورہ شمس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَ ھَا وَتَقْوٰھَا
۔ ہر انسان کو اس کی پیدائش کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک امتیازی قابلیت بخشی ہے جس کے ذریعہ سے وہ بُرے اور بھلے میں تمیز کرتا ہے۔ یہ قابلیت مسلمان یا غیر مسلمان کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی بلکہ ہر انسان میں پیدا کی گئی ہے۔ پس اس تعریف کے مطابق تقویٰ کے
معنے فطرت کی حفاظت کے ہیں نہ کسی خاص مذہب یا عقیدہ کے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ہدایت وہی لوگ پا سکتے ہیں جو فطرۃ کو گندے اثرات سے پاک رکھتے ہیں ورنہ جو لوگ فطرت کو پاک رکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور صداقت کے مانے سے انکار کرتے ہیں وہ ہدایت نہیں پا سکتے ان کو ہدایت تبھی مل سکتی ہے جب جبر سے کام لیا جائے۔ اور قرآن کریم جبر کے خلاف ہے۔
خلاصہ یہ کہ اوپر کی تعریف کے رُو سے اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جو لوگ صداقت کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوں قرآن کریم ان کو ہدایت دیتا ہے اور اعلیٰ مدارج تک پہنچاتا ہے۔ او رلوگ ہدایت کو ماننے کیلئے تیار ہی نہ ہوں وہ گویا اپنی ہلاکت کا خود ہی فیصلہ کر دیتے ہیں اور انہیں ہدایت جبر ہی سے دی جا سکتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جبر سے جو ہدایت ملے اس کا فائدہ جبر کرنے والے کو حاصل ہو سکتا ہے اسے نہیں ہو سکتا جسے ہدایت دیجائے۔ جیسے مثلاً کسی سے زبردستی مال چھین کر صدقہ کر دیا جائے تو اس صدقہ کا کوئی فائدہ اُسے نہیں مل سکتا جو صدقہ کا قائل ہی نہیں اور صدقہ دینا ہی نہیں چاہتا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں دوسری کتب کی موجودگی میں قرآن کریم کی ضرورت کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ غیر الہامی کتب کی موجودگی میں تو اس کی یہ ضرورت ہے کہ بغیر آسمانی ہدایت کے انسان ہدایت پا ہی نہیں سکتا۔ اس لئے آسمانی ہدات کی ضرورت تھی جسے قرآن کریم نے پورا کیا ہے اور الہامی کتب کی موجودگی میں اس کی یہ ضرورت ہے کہ (۱) اس سے پہلے سب ہدایت نامے نامکمل تھے یہ مکمل ہے (۲) ان میں خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں اور یہ سب خرابیوں سے محفوظ ہے (۳) وہ سب ہدایت نامے ایک ایک قوم اور مذہب کے لئے تھے اور یہ ہدایت نامہ سب قوموں کے لئے ہے اور سب قوموں کے بزرگوں کی عزت قائم کرنے اور سب ضائع شدہ ہدایتو ںکو زندہ کرنے کے لئے آیا ہے۔ (۴) ان کتب میں بوجہ اندرونی بیرونی نقائص کے وصال الٰہی پیدا کرنیکی خاصیت باقی نہ رہی تھی اب اس کے ذریعہ سے پھر انسان کو وصال الٰہی حاصل کرنے او رکلام الٰہی سے مشرف ہونے کا موقعہ دیا جائے گا وغیرہا وغیرہا۔
اس چھوٹی سی آیت میں اس قدر وسیع مطالب کا بیان ہونا قرآن کریم کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس کی مثال پیش کرنے سے دوسری کتب قاصر ہیں۔
مذکورہ بالا مضمون بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے بتائے ہوئے مطالب کی روشنی اور ہدایت میں لکھے گئے ہیں۔ لیکن بطور مثال میں ان بے شمار مطلالب سے جو ان کی کتب میں پائے جائے ہیں ایک نکتہ براہِ راست بھی ان کی طرف سے اس جگہ بیان کر دیتا ہوں۔ تا معلوم ہو کہ کس طرح انہوںنے اس آیت کے عمیق سمندر میں سے روحانیت کے ہوتی نکالے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہر شے کی تکمیل کے لئے چار علل کی تکمیل ضروری ہوتی ہے یعنی (۱) اس کے بنانے والا کامل ہو (۲) وہ جس مادہ سے بنائی جائے وہ اعلیٰ ہو (۳) اس کی شکل و صورت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو (۴) جو نتیجہ اس سے پیدا ہو وہ بھی اعلیٰ دجرہ کا ہو۔ گویا علمت فاعلی علت مادی علت صوری اور علت غائی۔ ان چار علتوں کے کمال سے کوئی چیز مکمل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے قرآن میں ہی اس کے حق میں چاروں علتوں کے مکمل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ الم جس کے معنے ہیں کہ میں اللہ سب سے زیادہ جانتا ہوں علت فاعلی کے مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا بنانے والا علم میں کامل ہے اور سب سے افضل ہے۔ پس ایسی علیم ہستی جس کتاب کو بنائیگی یقینا وہ ان تمام کتب سے افضل ہو گی جو ادنیٰ علم والی ہستیوں کی طرف سے تیار کی جائیں گی۔
ذَالِکَ الْکِتٰبُ
یعنی یہی کامل کتاب ہے قرآن کریم کی علت مادی کے مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ تمام اعلیٰ اور ضروری مطالب اس کتاب میں موجود ہیں پس اس کا مادہ بھی دوسری کتب کے مادہ سے اعلیٰ اور مکمل ہے۔
لَا رَیْبَ فِیْہِ
کہہ کر یہ بتایا کہ قرآن کریم اپنی بے مثل فصیح زبان اور غیر معمولی حفاظت کی وجہ سے اپنی ظاہری مشکل میں بھی نہایت اعلیٰ درجہ کا اور محفوظ کلام ہے۔ پس اس کی علت صوری بھی تمام دوسری کتب
سے مکمل اور اعلیٰ ہے۔ پھر
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ
کہ کر بتایا کہ دوسری کتب تو صرف متقی کے درجہ تک پہنچاتی ہیں مگر یہ کتاب متقیوں کو بلند مقامات پر لے جا کر اللہ تعالیٰ سے مکالمہ مخاطبہ کا شرف دلواتی ہے اور اس سے کامل اتحاد پیدا کر دیتی ہے پس اس کی علت غائی بھی دوسری کتب سے افضل اور اکمل ہے۔
یہ خلاصہ ہے بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک تحریر کا اور جو صاحبِ بصیرت اور پر غور کرے گا وہ ان سب مطالب کو جو اوپر بیان ہوئے ہیں بلکہ ان کے علاوہ اور مطالب بھی اس لطیف تفسیر میں مخفی پائیگا۔
۴؎ حل لغات یُؤْمِنُوْنَ:۔ اٰمَنَ
۔ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور
اٰمَنَہٗ اِیْمَانًا
کے معنے
ہیںاٰمَّنَہٗ
: اس کو امن دیا اور جب اس کا صلہ حرف باء ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو معنے ہونگے
صَدَّقَہٗ وَوَثَّقَ بِہٖ
۔ اس کی امن دیا اور جب اس کا صلہ حرف باء ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو معنے ہونگے
صَدَّقَہٗ وَوَثَّقَ بِہٖ
اس کی تصدیق کی اور اس پر اعتماد کیا اور جب اٰمَنَ کے بعد لام صلہ ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو اس کے معنے ہونگے
خَضَعَ وَ انْقَادَ
: یعنی فرمانبرداری اختیار کی۔ مطیع ہو گیا اور کہنا مان لیا (اقرب)
اَلْاِیْمَانْ: اَلَّصْدِیْقُ
۔ ایمان جو اٰمَنَ کا مصدر ہے اس کے معنے تصدیق کرنے کے ہیں۔ (اقرب) تاج العروس میں ہے۔
اَلْاِیْمَانْ یَتَعَدَّی بِنَفْسِہٖ کَصَدَّقَ وَبِاْللَّامِ باِعْتبَارِ مَعْنَی الْاِذْعَانِ وَبِالْبَائِ باِغْتبَارِ مَعْنَی الْاِعْتِرَافِ اشَارَۃ اِلَی اَنَّ التَّصْدِیْقَ لَایُعْتَبرُ بِہُ وْن اِعْتِرَافٍ۔
کہ لفظ ایمان کبھی بغیر صلہ کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس کا صلہ لام آتا ہے اور اس میں اذعان یعنی فرمانبرداری کے معنے ملحوظ ہوتے ہیں۔ اور جب باء کے صلہ کے ساتھ استعمال ہو تو اس وقت اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ایمان کے معنے تصدیق کے ہیں اور تصدیق کے ساتھ اعتراف بھی ہوتا ہے اس لئے اس کو اعتراف کے معنے میں استعمال کر لیتے ہیں۔ پس
یُؤْمِنُوْنَ
کے تین معنے ہوں گے (۱) تصدیق کرتے ہیں (۲) اعتراف کرتے ہیں (۳) پختہ یقین اور اعتماد رکھتے ہیں۔ اَلْغَیْبُ:۔ غَاتَبَ (یَغِیْبُ)
کا مصدر ہے کہتے ہیں
غَابَتِ الشَّمْسُ وَغَیْرُھَا: اِذَا اسْتَتَرَتْ مِنَ الْعَیْنِ
یعنی غَابَ کا لفظ سورج اور دیگر اشیاء کے لئے اس وقت بولتے ہیں جبکہ سورج اور دوسری چیزیں آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں
وَاسْتُعْمِلَ فِیْ کُلِّ غَاِئبٍ عَنِ الْحَاسَّۃِ وَعَمَّا یَغِیْبُ عَنْ عِلْمِ الْاِنْسَانِ بِمَعْنَی الْغَائِبِ۔
جس کا علم جو اس ظاہری سے حاصل نہ ہو سکے یا جس کا علم انسان کو نہ ہو اُسے غائب کہتے ہیں۔
وَالْغَیْبُ فِیْ قَوْلِہٖ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ مَالَایَقَعُ تَحْتَ الْحَوَاسِّ وَلَا تَقْتَضِیْہِ بَدَ اَیۃُ الْعُقُوْلِ
اور آیت
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ
میں غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو حواس ظاہری سے معلوم نہ کی جا سکے اور سرسری نظر میں انسانی عقلیں اس تک نہ پہنچ سکیں (مفردات) لسان میں ہے
وَقَوْلُدٗ تعالیٰ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ اَیْ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا غَابَ عَنْھُمْ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ
میں غیب کے یہ معنے ہیں کہ جو باتی ںاُن کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں اُن پر ایمان لاتے ہیں۔
وَالْغَیْبُ مَاغَابَ عَنِ الْعُیُوْنِ وَاِنْ کَانَ مُحَصَّلًافِی الْقُلُوْبِ اَوْغَیْرَ مُحَصَّلٍ
اور غیب کا لفظ ہر اس امر پر بولا جاتا ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو خواہ وہ ایسا امر ہو کہ دماغی طو رپر اس کا علم حاصل ہو یا ایسا ہو کہ عقلاً بھی اس کا علم حاصل ہو
کُلُّ مَکَانٍ لَایُدْرٰی مَافِیْہِ فَھُوَ غَیْبٌ
۔ ہر وہ جگہ جس کے متعلق معلوم نہ ہو کہ اس کے اند رکیا ہے اس کو غیب کہتے ہیں۔
وَکَذَا الِکَ الْمَوْضِعُ الَّذِیْ لَایُدْریٰ مَاوَ وَائَ ہٗ
۔ اوری اسی طرح اس جگہ پر بھی غیب کا لفظ بولتے ہیں جس کے پیچھے کی
اشیاء کا علم نہ ہو۔ نیز کہتے ہیں۔
غَابَ الرَّجُلُ غَیْبًا اَیْ سَافَرَ اَوْبَانَ
۔ کہ فلاں شخص نے سفر کیا یا کسی سے جدا ہو گیا۔ پس غیب ہر وہ امر ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو نہ یہ کہ وہ موہوم اور بے ثبوت ہو۔ پس
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ
کے معنے ہوں گے (۱)ہر وہ چیز (امر) جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی اور ظاہری حواس اُسے پانے سے قاصر ہیں لیکن وہ موجود ہے اور ایمانیات میں داخل ہے اس کے حق ہونے پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور اس کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں (۲) اس زندگی کے بعد کے پیش آنیوالے حالات پر پختہ یقین رکھتے ہیں (۳) نیز اس کے یہ بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ غیبوبت کی حالت میں یعنی علیحدگی میں بھی ایمان رکھتے ہیں اور ان میں منافقوں کی طرح دورنگی نہیں پائی جاتی۔ یُقِیْمُوْنَ:۔ اَقَامَ
سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور قَامَ سے جو اس کا مجرد ہے بنا ہے۔
قِیَامٌ
(کھڑا ہونا) کا لفظ جُلُوْسَّ (بیٹھ جانے) کا نقیض ہے۔ کہتے ہیں۔
قَامَ الْاَمْرُ۔ اِعْتَدَلَ
معاملہ درست ہو گیا۔ قام علی الامر: دام و ثبت۔ یعنی کسی چیز پر دوام و ثبات اختیار کیا۔
قَامَ الْحَقُّ ظَہَرَ وَ ثَبَتَ
حق ظاہر اور ثابت ہو گیا۔ اور
اَقَامَ السُّوْقُ
کے معنے ہیں
نَفَقَتْ
بازار بار رونق ہو گیا۔ اور
اَقَامَ الصَّلٰوۃَ
کے معنے ہیں اَدَامَ فِعْلَہَا نما زپر دوام اختیار کیا۔
اَقَامَ لِلصَّلٰوۃِ
کے معنے ہیں
نَادٰی لَہَا
نماز کے لئے تکبیر کہی۔
اَقَامَ اللّٰہُ السُّوْقَ: جَعَلَہَانَا فِقَۃً
اللہ تعالیٰ نے برکت دی اور بازار کو بارونق بنا دیا (اقرب) مفردات میں ہے
یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ اَیْ یُدِیْمُوْنَ فِعْلَہَا وَیُحَافِظُوْنَ عَلَیْہَا۔
نماز کو اس کی شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس پر دوام اختیار کرتے ہیں۔ نیز لکھا ہے
اِنَّمَا خُصَّ لَفْظُ الْاِقَامَۃِ تَنْبِیْھًا اَنَّ الْمَقْصُوْدَ مِنْ فَعْلِہَا تَوْفِیَۃُ حقُوْقِہَا وَ شَرَائِطِہَا
۔ کہ صلٰوۃ کے ذکر کے ساتھ اقامت کا لفظ اس لئے لایا گیا ہے تاکہ اس طرف توجہ مبذول کرائی جائے کہ نماز کے حقوق اور شرائط کو پوری طرح ادا کیا جائے نہ کہ صرف ظاہری صورت میں اس کو دادا کر دیا جائے۔ نسان میں
اَلْقِیَامُ
کے معنے
اَلْعَزْمُ
کے بھی لکھے ہیں یعنی کسی چیز کا پختہ ارادہ کر لینا۔ اَلصَّلٰوۃُ
:۔
صَلَّی
سے مشتق ہے اور اس کا وزن
فَعْلَۃٌ
ہے۔ الف دائو سے منقلب ہے۔ صَلَّی (یُصَلِّیْ) کے معنے دعا کرنے کے ہیں اور
اَلصَّلٰوۃُ
کے اصطلاحی معنے
عِبَادَۃٌ فِیْہَا رکُوْعٌ وَسجُوْدٌ
کے ہیں یعنی اس مخصوص طریق سے دعا کرنا جس میں رکوع و سجود ہوتے ہیں جس کو ہماری زبان میں نماز کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے اور بھی کئی معانی ہیں جو بے تعلق نہیں بلکہ سب ایک ہی حقیقت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کے دوسرے معنے مندرجہ ذیل ہیں
اَلرَّحْمَۃُ
۔ رحمت۔
الدِّیْنُ
۔ شریعت۔
الَاِسْتِغْفَار
۔ بخشش مانگنا۔ الدعاء دعا (اقرب)
التَّعْظِیْمُ
۔ بڑائی کا اظہار۔
اَلْبَرَکَۃُ
۔ برکت (تاج)
وَالصَّلٰوۃُ مِنَ اللّٰہِ الرَّحْمَۃُ وَمِنَ الْمَلَآئِکَۃِ الْاِسْتِغْفَارُ وَمِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ الدُّعَائُ وَمِنَ الطَّیْرِ وَالْھَوَامِّر التَّسْبِیْحُ
۔ اور صلوۃ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے رحم کرنے کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکہ کیلئے استعمال ہو تو اس وقت اس کے معنے استغفار کے ہوتے ہیں اور جب مومنوں کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے دعا یا نماز کے ہوتے ہیں اور جب پرند اور حشرات کیلئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے تسبیح کرنے کے ہوتے ہیں۔
وَھِیَ لَاتَکُوْنُ اِلَّافِی الْخَیْرِ بِخَلَافِ الدُّعَائِ فَاِنَّہٗ یَکُوْنُ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِّ۔
اور لفظ صلوۃ صرف نیک دُعا کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن لفظ دعا، بد دعا اور نیک دعا دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لفظ صلوۃ کے ایک معنے
حُسْنُ الثَّنَائِ مِنَ اللّٰہِ عَلَی الرَّسُوْلِ
کے بھی ہیں یعنی جب صَلَّی فعل کا فاعل اللہ تعالیٰ ہو اور مفعول آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہو تو اس وقت اس کے معنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم کی بہترین کے ہوتے ہیں۔ (اقرب)
وَیُسَمَّی مَوْضِعْ الْعِبَادِۃِ الصَّلٰوۃَ
اور عبادت گاہ کو بھی الَّصلٰوۃَ کہہ دیتے ہیں (مفردات) پس
یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ
کے معنے ہونگے (۱) نماز کو باجماعت ادا کرتے ہیں (۲) نماز کو اس کی شرائط کے مطابق اور اس کے اوقات میں صحیح طو رپر ادا کرتے ہیں (۳) لوگوں کو نماز کی تعین کر کے مساجد کو بارونق بناتے ہیں (۴) نماز کی محبت اور خواہش لوگوں کے دلو ںمیں پیدا کرتے ہیں (۵) نماز پر دوام اختیا کرتے ہیں اور اس پر پابندی اختیار کرتے
ہیں (۶) نماز کو قائم رکھتے ہیں یعنے گرنے سے بچاتے رہتے اور اس کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں۔ رَزَقْنَا:۔ رَزَقَ
سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے اور
الرِّزْقُ
(جورَزَقَ کا مصدر ہے) کے معنے
اَلْعَطَائُ
۔ عطا کرنا۔ دینا۔ جیسے کہتے ہیں
رُزِقْتُ عِلْمًا
کے مجھے علم دیا گیا ہے۔ اور اس کے ایک معنی حصہ کے بھی ہیں جیسے
وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ
(الواقعہ) کہ تم نے اپنے ذمہ یہ لگا لیا ہے کہ رسول اور خدا کی باتوں کا انکار کرتے ہو (مفردات) اقرب الموارد میں ہے۔
الرِّزْقُ۔ مَایُنْتَفَعُ بِہِ
ہر وہ چیز جس سے نفع اُٹھایا جائے۔ اور
رَزَقَہُ
اللّٰہُ (
یَرْزُقُ
) رِزْقًا کے معنے ہیں
اَوْصَلَ الیہِ رِزْقًا
کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے ایسی اشیاء عطا فرمائیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ رزق اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو غذا کے طور پر استعمال کی جائے (مفردات)
یُنْفِقُوْنَ:۔ اَنْفَقَ
سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور
اِنْفَقَ مَالہٗ
کے معنے ہیں
صَرَفَہُ وَاَنْفَدَہٗ۔
مال کو خرچ کرتا رہا اور اس کو ختم کر دیا۔
اِنْفَاق
کے اصل معنے کسی چیز کو مقبول اور ہاتھوں ہاتھ بک جانے والا بنا دینے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں
اَنْفَقَ التَّاجِرُ: نَفقَتْ تِجَارتُہٗ
کہ تاجر کی تجارت خون چل پڑی اور سامان تجارت مقبول ہو کر فروخت ہونے لگا۔ اور
اَنْفَقَ السِلْعَۃَ
کے معنے ہیں
رَوَّجَہَا
۔ سامان کو ایسا بنا دیا کہ ہاتھوں ہاتھ بک جائے۔ چنانچہ جب کسی سامان تجارت کے گاہک زیادہ ہوں یا کسی عورت کی شادی کے خواہشمند زیادہ تعداد میں ہوں تو نفق کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں
نَفَقَتِ الْمَرأْۃُ وَالسِّلعَۃُ اَیْ کَئُٔر طُلَّا بُہَا وَخُطَّا بُہَا
یعنی اس عورت یا مال کے بہت سے خواہش کرنے والے یا طالب پیدا ہو گئے ہیں اور
النَّافِقُ
اس مال کو کہتے ہیں جو بازار میں جاتے ہی بک جائے (اقرب) پس مادہ کے لحاظ سے اس کے معنے نکالنے اور جاری کرنے اور مسلسل طو رپر مال کو خرچ کرنے کے ہیں۔
تفسیر۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے ایمان کے معنے یقین رکھنے اور فرمانبرداری کرنے کے ہوتے ہیں۔ جس کو یقین نہ ہو وہ مومن نہیں کہلا سکتا بلکہ منافق کہلاتا ہے۔ جیسا کہ سورۂ البقرہ ع ۲ آیت صفحہ ۹ میں فرمایا
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰ خِرِوَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ
یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو مُنہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخر پر ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ دل سے اس امر کو نہیں مانتے۔ اسی طرح قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جن میں یقین ہو اور اطاعت نہ ہو وہ بھی مومن نہیں بلکہ کافر کہلاتے ہیں۔ جیسا کہ سورۃ النمل ع ۱ آیت ۱۵ میں فرمایا
وَجَحَدُ وْابِہَا وَا سْتَیْقَنَتْھَٓا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا
۔ یعنی وہ اس کا انکار ظلم اور دشمنی سے کرتے ہیں حالانکہ اُن کے دل اس پر یقین رکھتے ہیں۔ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ
کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ اندھا دُھند مان لیتے ہیں۔ یہ معنے نہ زبان عرب کے رُو سے درست ہیں اور نہ قرآن کریم ہی ان معنوں کی تصدیق کرتا ہے۔ کیونکہ بے دلیل ماننے والوں کو قرآن نے بار بار الزام دیا ہے۔ جیسے کہ سورۃ انجم ع ۱ آیت ۲۴ میں فرمایا۔
اِنْ ھِیَ اِلَّا اَسْمَآئُ سَمَّیْتُمُوْھَا اَنْتُمْ وَاٰبَٓاؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطَانٍ اِنْ یَتَّبِعُونَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَھخوَی الْاَنْفُسُ
۔ یعنی یہ تو چند نام ہیں جو تم لوگوں نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی رکھ دئے ہیں خدا تعالیٰ نے اس کی کوئی دلیل بیان نہیں کی۔ یہ لوگ صرف اپنے وہموں کی یا اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم دشمنان اسلام پر اعتراض کرتا ہے کہ وہ بے دلیل باتوں کو جن کے لئے نہ آسمانی دلیل ہوتی ہے نہ عقلی، مانتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور وہمی باتوں کے پیچھے چلتے ہیں۔ پس جبکہ اللہ تعالیٰ وہمی باتوں کے ماننے کو قابل اعتراض قرار دیتا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ قرآن کریم کی ابتدا ہی میں وہ مسلمانوں کو بے دلیل باتوں کے ماننے کا حکم دے اور اس امر کو تقویٰ کا جزو قرار دے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ایمان دلائل اور براہین پر مبنی ہونا چاہیئے نہ کہ وہم اور گمان پر۔ چنانچہ سورۃ احقاف ع ۱ میں فرماتا ہے۔
قُلْ اَرَئَٔیْتُمْ مَّاتَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ
شِرْکَ فِی السَّمٰوٰتِ ط اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِنْ قَبْلِ ھٰذٓا اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
۔ یعنی مجھے بتائو تو سہی کہ خدا کے سوا جن وجودوں کو تم پکارتے ہو کیا ان میں کوئی حقیقت بھی ہے اگر ہے تو مجھے بتائو تو کہ انہوں نے زمین میں سے کس چیز کو پیدا کیا ہے یا یہ تو ثابت کرو کہ آسمانی بادشاہت میں اُن کا کوئی حصہ ہے اور اگر تم سچے ہو ت واس کے َئے یا تو قرآن سے پہلے کی کسی آسمانی کتاب میں سے دلیل پیش کرو یا اپنے باپ دادوں کی بتائی ہوئی کسی علمی بات کو ہیش پیرو کرو۔ یعنی تمام شرکیہ مسائل نہ تو کسی آسمانی کتاب سے ثابت ہیں نہ کسی علمی دلیل سے ثابت ہو سکتے ہیں پھر ان پر ایمان لانا کس طرح جائز اور ممکن ہو سکتا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے
اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْہِمْ سُلْطَانًا فَھُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوْابِہٖ یُشْرِکُوْنَ
(روم ع ۴) یعنی کیا اللہ تعالیٰ کے شریک قرار دینے کی کوئی بھی دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا کی ہو اور وہ شرک کی صداقت پر گواہ ہو اگر ایسا نہیں تو پھر بے دلیل بات کو یہ لوگ کس طرح مان رہے ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے
قُلْ ھَلْ عِنْدَ کُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِ جُوْہُ لَنَا اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اَلَّاتَخْرُسُوْنَ۔ قُلْ الِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ
(انعام ع ۱۸ آیت ۱۴۹ و ۱۵۰) یعنی کفار سے کہدو کہ کیا تمہارے پاس اپنے دعاوی کی کوئی علمی دلیل بھی ہے جسے تم ہمارے سامنے پیش کر سکو تمہارے پاس ہر گز ایسی کوئی دلیل نہیں بلکہ تم تو صرف وہم کی پیروی کرتے ہو اور صرف ڈھکو نسلے مارتے ہو۔ پھر فرماتا ہے کہ اے ہمارے رسول ان سے یہ بھی کہو کہ اللہ تعالیٰ تو وہ باتیں اپنے بندوں سے منواتا ہے جن کے دلائل مکمل طور پر موجود ہوتے ہیں۔ پس جو بات بے ثبوت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح مومنوں کی نسبت قرآن کریم میں فرماتا ہے
اَلَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُ وْا بِاٰیَاتِ رَبِّھِم لَمْ یَخِرُّ وْاعَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا
(فرقان ع ۶) یعنی مومنون کے سامنے جب اُن کے رب کی آیات بیان کی جاتی ہیں تو وہ اُنہیں اندھا دُھند نہیں مانتے بلکہ سوچ سمجھ کر اور دلالئل کے ساتھ مانتے ہیں۔ نیز فمراتا ہے
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِٓیْ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ
(یوسف ع ۱۲) اے ہمارے رسول اپنے منکروں سے کہہ دو کہ میرا راستہ مذکورہ بالاراستہ ہے میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں اور میں اور میرے متبع کسی بے دلیل بات کو نہیں مانتے بلکہ ہم سوچ سمجھ کر اور دلائل قطعیہ کی بناء پر جو شک و شبہ سے بالا ہوتے ہیں ایمان لاتے ہیں۔
قرآن کریم میں غیب کا لفظ جن معنوں میں استعمال ہوا ہے ان سے بھی ثابت ہے ہ اس سے مراد وہمی امور نہیں فرماتا ہے
اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
(حجرات ع ۲) اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کے غیب کو جانتا ہے اس جگہ غیب کا لفظ حقیقت کے لوے بولا گیا ہے۔ کیونکہ اگر غیب کے معنے محض وہمی اور بے دلیل باتوں کے ہوں تو اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ بے دلیل اور وہمی باتوں کو جانتا ہے اور یہ ترجمہ بالبداہت غلط ہے اسی طرح فرماتا ہے
ذَالِکَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ
(سجدہ ع ۱) یعنی خدا ہی غیب اور ظاہر کو جانتا ہے اس آیت میں غیب کا لفظ یقینی مگر نظروں سے پوشیدہ امور کے لیے بولا گیا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے
وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ
(انعام ع ۷) اللہ عالیٰ کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں۔ اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ غیب وہمی باتوں کا نام نہیں بلکہ ان تمام مخفی خزانوں کا نام ہے جو انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ
کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ متقی وہ ہیں جو بغیر دلیل کے قرآن کریم کی باتو ںکو مان لیتے ہیں کیونکہ یہ معنے قرآن کریم کی دوسری آیات کے خلاف ہیں۔
ریورنڈ ویری نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے نیچے لکھا ہے کہ جب مسلمان اپنی کتاب کے اسرار کو مانتے ہیں تو کیوں پہلی کتابوں کے اسرار کو جیسے کہ تثلیث یا کفارہ ہیں نہیں مانتے۔ مگر جیسا کہ ظاہر ہے یہ اعتراض
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ
کے معنوں کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ قرآن کریم کسی ایسے امر کو ماننے کی تلقین نہیں کرتا جو بے دلیل ہو بلکہ وہ تو ان دوسرے مذاہب پر جو بے دلیل باتی مانتے ہیں اعتراض کرتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے متبعین کی نسبت گواہی دیتا ہے کہ وہ ہر امر کو دلیل او ربرہان سے مانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کفارہ اور تثلیث کا اس لئے انکار نہیں کرتے کہ وہ اسرار میں سے ہیں بلکہ اس لئے