ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
یہ مسائل بے دلیل بلکہ خلاف عقل ہیں اگر ان کی کوئی دلیل ہوتی تو ان کے ماننے سے مسلمانو ںکو ہر گز انکار نہیں ہو سکتا تھا۔
اب رہا یہ سوال کہ پھر
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ
کے کیا معنے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے غیب کے معنے ان امو رکے ہیں جو حواس ظاہری سے معلوم نہ ہو سکیں بلکہ ان کے ثابت کرنے کے لئے عقلی و تجرباتی دلائل کی ضرورت ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے امور بے دلیل نہیں کہلا سکتے۔ ہم ہزاروں اشیاء کو جو جسمانی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں مانتے ہیں حالانکہ حواسِ خمسہ سے ان کو محسوس نہیں کیا جاس کتا۔ مثلاً انسانی حافظہ ہے اس کا کوئی انکار کر سکتا ہے۔ مگر کوئی نہیں جو قوت حافظہ کو دیکھ سکے یا سونگھ سکے یا چکھ سکے یا سن سکے یا چھو سکے۔ اسی طرح شرم ہے جرأت ہے، محبت ہے، نفرت ہے، خود عقل اور فکر کی قوتیں ہیں ان کو کونسا شخص حواس خمسہ سے معلوم کر سکتا ہے۔ مگر کیا اس وجہ سے کہ ان کا علم حواس خمسہ سے نہیں ہوتا ان کا انکار کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح کئی اخلاقی مسائل ہیں جو حواس خمسہ سے معلوم نہیں ہو سکتے لیکن ہم ان پر یقین رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ حقیقت کہ عفو بالعموم دلوں سے بغض کو دور کرتا ہے۔ حسن سلوک مختلف انسانوں کو آپس میں رشتہ محبت سے جوڑ دیتا ہے سب دنیا کی تسلیم کردہ ہے مگر اس کو حواسہ خمسہ سے تو معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ماں اپنے بچہ سے حسن سلوک کرتی ہے لیکن وہ نہیں جانتی کہ اس حسن سلوک کے نتیجہ میں جو محبت پیدا ہو گی وہ اس کا کوء… مزہ بھی چکھ سکے گی یا نہیں۔ لیکن باوجود اس کے وہ محبت کرتی جاتی ہے۔ ایک استاد شاگردوں کو پڑھاتا ہے وہ نہیں جانتا کہ اس کی تعلیم کے نتیجہ میں اس کے طلباء کسی اعلیٰ درجہ کو پہنچیں گے یا نہیں مگر وہ پڑھانے سے باز نہیں رہتا۔ حکومتیں ملک کی حالت سدھارنے کے لئے ہزاروں جتن کرتی ہیں اور نہیں جانتیں کہ ان کے خوشگوار نتائج کب اور کس شکل میں پیدا ہوں گے مگر وہ آئندہ کی امید پر اور سابقہ تجربہ کی بناء پر اپنی کوششوں میں لگی رہتی ہیں۔ سپاہی نہیں جانتے کہ جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا لیکن اپنے ملک کی حفاظت میں جانیں دیتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سب ایمان بالغیب ہی ہوتا ہے یا کچھ اور؟
خلاصہ یہ کہ ایمان بالغیب سے مراد (۱) ان سب صداقتوں پر ایمان لانا ہے جو حواس خمسہ سے معلوم نہیں کی جا سکتیں بلکہ ان کا ثبوت اور ذرائع سے معلوم ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے مومن سنتے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے علوم غیبیہ ہیں جنہیں مومن پورا ہوتے دیکھتے ہیں اور اس کی زبردست قدرتیں ہیں جن کا ظہور مومن اپنے نفسوس اور باقی دنیا میں دیکھتے ہیں مگر باوجود ان باتوں کے خدا تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے وہ حواس خمسہ سے محسوس نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح ملائکہ کا وجود ہے۔ ملائکہ ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتے نہ دوسرے حواس ظاہری سے معلوم کئے جا سکتے ہیں لیکن باوجود اس کے اُن کا وجود وہمی نہیں ہے بلکہ ان کے وجود پر قطعی دلائل ہیں جو قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر بیان کئے گئے ہیں۔ یا مثلاً ایک غیب موت کے بعد کی زندگی ہے قرآن کریم اسپر بے دلیل ایمان لانے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے سچے ہونے پر زبردست دلائل دیتا ہے جو آئندہ مختلف مواقع پر بیان کئے جا ئیں گے۔
(۲)
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ
کے یہ معنے بھی ہیں کہ متقی صرف ایسے کام نہیں کرتے کہ جن کے نتائج نقد بہ نقد مل جاتے ہیں۔ جیسے کہ تاجر سودا فروخت کرتا ہے اور اس کی قیمت وصول کر لیتا ہے۔ بلکہ ان کی زندگی اخلاقی زندگی ہوتی ہے اور وہ اخلاق کی قوت اور ان کے نیک نتائج پر ایمان رکھتے ہیں اور تاجرانہ ذہنیت کو ترک کر کے ایسی قربانیاں کرتے ہیں کہ جو آخر میں اُن کی قوم کو اور باقی دنیا کو اُبھار دیتی ہیں۔ مثلاً دنیا میں امن کے قیام کے لئے جہاد کا کرنا ایماب بالغیب کا ہی نتیجہ ہے۔ ورنہ کون جانتا ہے کہ وہ زندہ رہے گا اور لڑائی کے اچھے نتیجہ کو دیکھے گا۔ سپاہی جب کسی اچھے مقصد
صفحہ 102
میدان جنگ میں جاتا ہے تو وہ ایمان بالغیب کا ایک مظاہرہ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گیا تو یہ بھی اچھا ہے۔ لیکن اگر وہ اس کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے مر گیا تب بھی اس کا نتیجہ حق اور صداقت کے لئے اچھا نکلے گا۔
حق یہ ہے کہ جس قدر شاندار کام ہیں وہ سب ایمان بالغیب کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ تعلیم، صدقہ، حیرات، غرباء کے اُبھارنے کے لئے کوششیں، ملکی تنظیم سب ایمان بالغیب ہی کی اقسام ہیں۔ اگر انسان آئندہ نکلنے والے اچھے نتائج پر ظاہر نگاہ سے پوشیدہ ہوتے ہیں یقین نہ رکھے تو کبھی ایسی قربانیاں نہ کر سکے پس متقی کی علامت ایمان بالغیب بتا کر قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ مومن ضروری دینی امور پر ایمان رکھنے کے علاوہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قربانیاں کرتا ہے اور تاجرانہ ذہنیت سے بالا ہو جاتا ہے اور اس امر پر اصرار نہیں کرتا کہ میں وہی کام کروں گا جن کا نقد بہ نقد نتیجہ نکلے۔ بلکہ جب اُسے یقین ہو جائے کہ جو کام اس کے سامنے پیش کیا گیا ہے اچھا اور نیک ہے تو وہ ظاہری حالات سے بے پروا ہو کر اس یقین سے اس کام کے کرنے میں لگ جاتا ہے کہ خواہ حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں نیک کام کا نتیجہ نیک ہی نکلے گا اور اس امر کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ اس نتیجہ کو خود بھی دیکھے گایا نہیں۔
اگر کوئی شخص تعصّب سے آزاد ہو کر غور کرے تو ایمان بالغیب کا یہ مفہوم ایسا ہم ہے کہ اس کے ذریعہ سے قرآن کریم نے تمام قومی، ملی اور بنی نوع انسان کی ترقی کے لئے قربانیوں کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یہ ایمان بالغیب ہی تھا کہ جس نے صحابہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے وہ قربانیاں کرائیں جنہو ںنے عرب کی ہی نہیں بلکہ سب دنیاکی حالت بدل دی۔ اگر وہ تاجرانہ ذہنیت دکھاتے اور ایمان بالغیب کے ماتحت کام نہ کرتے تو دنیا میں ایسے شاندار نتائج کس طرح پیدا ہو سکتے تھے۔
اوپر جو معنے بیان ہوئے ہیں وہ تو ایمان بالغیب کے کامل اور اعلیٰ معنے ہیں۔ لیکن ایک معنے اس کے اور بھی ہیں جو ادنیٰ درجہ کے متقیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ یہ ہیںکہ ادنیٰ درجہ کا تقویٰ یہ ہے کہ انسان ایمان بالغیب رکھے یعنی دلائل عقلیہ کے ساتھ اسے خدا تعالیٰ اور ملائکہ اور بعث بعد الموت پر یقین ہو گو وہ اس مقام پر نہ پہنچا ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے حواس باطنی کے ساتھ نظر آنے لگے۔ یہ مقام تقویٰ کا ادنیٰ ہے یعنی اس تقویٰ کی بنیاد صرف دلائل پر ہوتی ہے مشاہدہ پر نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا (بقرہ ع ۴) یعنی اللہ تعالیٰ کسی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں رکھتا۔ پس ایک انسان جو ابھی تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچا اور اُسے ان امور غیبیہ پر جو ہیں تو یقینی او رقطعی لیکن ہیں انسانی ادراک سے بالا ابھی ایسا ایمان اور یقین پید نہیں ہوا جو مشاہدہ کی حد تک پہنچا ہوا ہو اس سے اللہ تعالیٰ اس امر کا مطالبہ نہیں کرتا کہ جب تک اسے مشاہدہ اور تجبرہ اولا ایمان نصیب نہ ہوا ہو اُسے متقی اور مومن نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ اس سے صرف اس قدر مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان دلائل اور براہین پر غور کر کے جو امور غیبیہ کے ثبوت کیلئے اللہ تعالیٰ نے مہیا کئے ہیں ان پر ایمان لے آئے اور یہ امر اس کے متقی ہونے کے لئے ادنیٰ دجرہ کے طو رپر کافی ہو گا۔ اب دیکھو کہ یہ کیسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو سب مدارج کے انسانوں کی ضرورت کو پورا کر دیتی ہے۔ اور ایسی ہی تعلیم خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونیوالی کہلا سکتی ہے جو سب استعداد کے لوگوں کی ضرورتوں کو پُورا کرنے والی ہو۔ یہ ادنیٰ دجرہ تقویٰ کا انسان کی نجات محض کے لئے کافی ہے۔ ہاں جب وہ اس سے ترقی کرتا ہے تو اُسے ایمان بالغیب کا وہ درجہ میسر ہو جاتا ہے جو امور غیبیہ کو مشاہدہ کے رنگ میں اُس کے سامنے لے آتا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بھی اس فرق کو ظاہر کیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرماتے ہیں کہ احسان یہ ہے کہ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (مسلم کتاب الایمان) یعنی احسان اس کا نام ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا روحانی نظروں سے وہ تیرے سامنے موجود ہے اور تو اُسے دیکھتا ہے لیکن اگر یہ درجہ تجھے حاصل نہ ہو تو کم سے کم اس درجہ پر فائز ہو کہ تجھے یقین اور وثوق سے عبادت کے وقت یہ معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس حدیث میں ایمان بالغیب کے ان دونو ںدرجوں کو بیان کر دیا گیا ہے اعلیٰ درجہ
سصفحہ103
کو بھی اور ادنیٰ درجہ کو بھی۔
جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے ایک معنے غیب کے غائب ہونے کی حاتل کے بھی ہوتے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے ایمان بالغیب کے یہ معنے بھی ہیں کہ جب انسان غیب کی حالت میں ہو یعنی لوگو ںکو نظروں سے پوشیدہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو۔ یعنی اس کا ایمان صرف قومی نہ ہو کہ جب اس کے ہم مذہب لوگ اس کے سامنے ہوں تب تو وہ ان عقائد کو تسلیم کرے جو اس کے مذہب نے اس کے سامنے پیش کئے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنے لوگوں سے جُدا ہو تو اس کا ایمان کمزور ہو جائے۔ غیب کے یہ معنے قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئے ہیں مثلاً فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ (انبیاء ع ۴) وہ مومن جو علیحدگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ (حدید ع ۳) یعنی ہم نے جنگ کے سامان اس لئے پیدا کئے ہیں تاکہ ظاہر ہو جائے کہ کون خدا تاعلیٰ اور اس کے رسول کا دل سے مددگار تھا اور صرف ظاہری دعویٰ نہیں کر رہا تھا۔ حضرت یوسفؑ کی نسبت آتا ہے اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ (یوسف ع ۷) جس کے یہی معنے ہیں کہ میں نے پس پشت نظروں سے اوجھل اپنے آقا کی خیانت نہیں کی۔
ان معنوں کے رُو سے ان لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ جو تقریریں سنتے ہیں یا وعظ کی مجالس میں بیٹھتے ہیں تو اُنہیں خوب جوش آ جاتا ہے۔ لیکن جب وہ علیحدگی میں جاتے ہیں تو ان کا ایمان کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ در حقیقت معمولی مذہب رکھتے ہیں اور ان کی حالت بھیڑ چال کی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی آراء کی رَو میں بہ جاتے ہیں ان کا اپنا مذہب کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ایسا ایمان بے حقیقت ہے ایمان وہی ہے کہ جوداتی ہو اور صرف دوسروں کے جو ش کو دیکھ کر بھڑک نہ اٹھتا ہو۔ اور جو شخص ذاتی ایمان نہیں رکھتا او راپنی قوم اور جماعت اور پر جوش واعظوں کی صحبت سے الگ ہو کر اسے دل کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے یا مٹ جاتا ہے وہ متقی نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ اس کا ایمان اپنا ایمان نہیں بلکہ عارضی طو رپر دوسرے لوگوں سے مانگا ہوا ایمان ہے ایسے لوگوں کی نسبت قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلیٰ شَیَا طِینِہِمْ قَالُوْٓا اِنّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُشتَہْرِئُ وْنَ (بقرہ ع ۲) بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب مومنوں کی مجالس میں آتے ہیں تو اُن کی باتوں کو سُن کر او راُن کے یقین اور ایمان کو دیکھ کر متاثر ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بھی ان باتو ںپر ایمان لاتے ہیں لیکن جب اُن سے الگ ہوتے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی مجلس میں جاتے ہیں تو پھر اُن کی سی کہنے لگتے ہیں۔ اور ان کے خیالات سے متاثر ہو کر کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہارے ہی ہم عقیدہ ہیں اور جو مومنوں کی ہاں میں ہاں ہم نے ملائی تھی یہ صرف ایک مذاق تھا۔ ایسے لوگوں کا ایمان در حقیت کوئی ایمان نہیں بلکہ یہ لوگ بے اصولے ہوتے ہیں۔ پس یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ متقی وہ ہوتا ہے جس کی زبان ہی ایمان کا دعویٰ نہیں کرتی بلکہ اس کا دل بھی صداقت کا مصدق ہوتا ہے اور وہ جب مومنوں کی صحبت سے دُور ہوتا ہے مثلاً غیر ملکوں اور غیر مذاہب کے پیروئوں میں چلا جاتا ہے جہاں اس کے ہم مذہب نہیں ملتے تو بھی اس کا ایمان ڈگمگاتا نہیں یا کمزور نہیں ہوتا کیونکہ وہ دوسروں کی نقل کرنے والا نہیں تھا بلکہ یقین اور وثوق سے ایمان پر قائم تھا۔
اس مضمون سے اُن مسلمان طلباء کو جو تعلیم کی خاطر کالجوں میں داخل ہوتے ہیں یا دوسرے ممالک میں جاتے ہیں سبق حاصل کرنا چاہیئے اور اپنے ایمان کا مطالعہ کرنا چاہیئے کہ اگر وہ مومنوں کے ماحول سے جدا ہو کر کمزور ہو جاتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ انہوں نے اپنے مذہب کو سمجھ کر نہیں مانا تھا اور اُن کا ایمان ذاتی نہ تھا بلکہ صرف اپنے ماحول کی ایک صدائے باز گشت تھا۔
خلاصہ یہ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کہہ کر قرآن کریم نے بتایا ہے کہ قرآن کریم ان متقیوں کو جو مندرجہ ذیل ضفات اپنے اندر رکھتے ہیں اعلیٰ روحانی مقامات تک پہنچاتا ہے (۱) ان متقیوں کو بھی دلائل اور برابین سے روحانی دنیا سے تعلق رکھنے والے عقائد پر ان کی صداقت واضح ہو جانے کے بعد پورا ایمان لے آتے
صفحہ104
ہیں خواہ ابھی اس مقام پر نہ پہنچے ہوں کہ دلیل سے بڑھ کر ذاتی تجربہ نے بھی ان کے ایمان کو مضبوط کر دیا ہو (۲) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت کی اعلیٰ راہوں پر چلاتا ہے جن کا ایمان منافقت سے پاک ہو اور ان کا دل اور زبان اور عمل ایک ہو (۳) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت کی اعلیٰ راہو ںپر چلاتا ہے جن کا ایمان قومی نہ ہو بلکہ ذاتی ہو یہ نہ ہو کہ مومنوں کی مجلس میں مومن او رکافروں کی مجلس میں کافر بلکہ خواہ اُنہیں کیسی ہی مخالف سوسائٹی یا قوم میں رہنا پڑے اُن کا ایمان ڈانوا ڈول نہ ہو اور اُن کے مومنانہ عمل میں فرق نہ آئے (۴) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت دیتا ہے جو اِن ظاہری حواس سے محسوس نہ ہونے والی صداقتوں پر کامل یقین اور اعتقاد رکھتے ہیں جن کا وجود دوسرے دلائل اور براہین سے ثابت ہے اور ایسے ایمان کو اپنے تجارب کی بناء پر کمال تک پہنچاتے ہیں (۵) ایسے متقیو ںکو بھی ہدایت کے اعلیٰ مقام تک پہنچاتا ہے جو تاجرانہ ذہنیت کو چھوڑ کر اخلاقی اور دینی نتائج پر یقین رکھتے ہیں اور ان قربانیوں کے نیک نتائج پر یقین رکھتے ہیں جو بظاہر حالات مقبول ہوتی نظر نہیں آتیں لیکن قومی ترقی اور ملی کامیابی کے لئے اُن کا وجود ضروری سمجھا جاتا ہے اور اپنے ذاتی فوائد کو قومی فوائد پر قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
جن متقیوں میں ان سے ایک یا زیادہ باتیں پائی جائیں وہ قرآن کریم کی اتباع میں حاصل ہونے والی اعلیٰ ہدایتوں کے مستحق سمجھے جاتے ہیں اور وہ ہدایت انہیں دی جاتی ہے۔
یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچ کا ہے اقامۃ الصلٰوۃ کے معنے (۱) باقاعدگی سے نماز ادا کرنے کے ہیں کیونکہ قَامَ عَلَی الْاَمْرِ کے معنے کسی چیز پر ہمیشہ قائم رہنے کے ہیں پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہوئے کہ نماز میں ناغہ نہیں کرتے۔ ایسی نماز جس میں ناغہ کیا جائے اسلام کے نزدیک نماز ہی نہیں کیونکہ نماز وقتی اعمال سے نہیں بلکہ اُس وقت مکمل عمل سمجھا جاتا ہے جبکہ تو بہ یا بلوغت کے بعد کی پہلی نماز سے لے کر وفات سے پہلے کی آخری نماز تک اس فرض میں ناغہ نہ کیا جائے جو لوگ درمیان میں نمازیں چھوڑتے رہتے ہیں اُن کی سب نمازیں ہی رد ہو جاتی ہیں۔ پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ بالغ ہو یا جب اُسے اللہ تعالیٰ توفیق دے اُس وقت سے موت تک نماز کا ناغہ نہ کرے کیونکہ نماز خدا تعالیٰ کی زیارت کا قائم مقام ہے اور جو شخص اپنے محبوب کی زیارت سے گریز کرتا ہے وہ اپنے عشق کے دعویٰ کے خلاف خود ہی ڈگری دیتا ہے (۲) دوسرے معنے اِقَامَۃ کے اعتدال اور درستی کے ہیں اِن معنوں کے رُد سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہیں کہ متقی نماز کو اُس کی ظاہری شراوط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس کے لئے جو قواعد مقرر کئے گئے ہیں ان کو توڑتے نہیں۔ مثلاً تندرستی میں یا پانی کی موجودگی میں وضوء کر کے نما زپڑھتے ہیں اور وضو بھی ٹھیک طرح ان شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں جو اس کے لئے شریعت نے مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صحیح اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں نماز میں قیام رکوع سجدہ قعدہ کو عمدگی سے ادا کرتے ہیں۔ مقررہ عبارات اور دعائیں اور تلاوت اپنے اپنے موقع پر اچھی طرح اور عمدگی سے پڑھتے ہیں غرض تمام ظاہری شرائط کا خیال رکھتے اور انہیں اچھی طرح بجا لاتے ہیں۔
اس جگہ یاد رکھنا چاہیئے کہ گو شریعت کا حکم ہے کہ نماز کو اس کی مقررہ شرائط کے ماتحت ادا کیا جائے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب مجبوری ہو اور شرائط پوری نہ ہوتی ہوں تو نماز کو ترک ہی کر دے نماز بہرحال شرائط سے مقدم ہے۔ اگر کسی کو صاف کپڑا میسر نہ ہو تو وہ گندے کپڑوں میں ہی نماز پڑھ سکتا ہے خصوصاً وہم کی بناء پر نماز کا ترک تو بالکل غیر معقول ہے۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں کئی عورتیں اس وجہ سے نماز ترک کر دیتی ہیں کہ بچوں کی وجہ سے کپڑے مشتبہ ہیں۔ اور کئی مسافر نماز ترک کر دیتے ہیں کہ سفر میں طہارت کامل نہیں ہو سکتی۔ یہ سب شیطانی وساوس ہیں لَایُکَلِّفُ اللّٰہَ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا (بقرہ ع ۴۰) الٰہی حکم ہے جب تک شرائط کا پورا کرنا اختیار میں ہو اُن کے ترک میں گناہ ہے لیکن جب شرائط پوری کی ہی نہ جا سکتی ہوں تو اُن کے میسر نہ آنے کی وجہ سے نماز کا ترک گناہ ہے۔ اور ایسا شخص معذور نہیں بلکہ نماز کا تارک سجھا جائے گا۔ پس اس بارہ میں مومنوں کو خاص طور پر
صفحہ105
ہوشیار رہنے کی ضرورت (۳) تیسرے معنے اِقَامَۃ کے کھڑا کرنے کے ہیں رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ نماز کو گرنے نہیں دیتے یعنی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کی نماز درست اور باشرائط ادا ہو اس میں ان مشکلات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو نماز پڑھنے والے مبتدی کو زیادہ اور عارف کو کسی کسی وقت پیش آتی رہتی ہیں یعنی اندرونی یا بیرونی تاثرات نماز سے توجہ ہٹا کر دوسرے خیالات میں پھنسا دیتے ہیں۔ یہ امر انسانی عادت میں داخل ہے کہ اس کا خیال مختلف جہالت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے اور خاص صدموں یا جوش یا محبت کے اثر کے سوا جبکہ ایک وقت تک خیالات میں کامل یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے انسانی دماغ اِدھر اُدھر گھومتا رہتا ہے اور ایک خیال سے دوسرا خیال پیدا ہو کر ابتدائی خیال سے کہیں کا کہیں لے جاتا ہے۔ اسی طرح بیرونی آوازیں یا پاس کے لوگوں کی حرکات یا کھٹکے، بو یا خوشبوٹ جگہ کی سختی یا نرمی اور اسی قسم کے اور اُمور انسانی ذہن کو اِدھر سے اُدھر پھرا دیتے ہیں۔ یہی مشکلات نمازی کو پیش آتی ہیں او راگ راپنے خیالات پر پوار قابو نہ ہو تو اُسے پریشان خیال بنائے رکھتی ہیں اور بعض اوقات وہ نماز کے مضمون کو بھول کر دوسرے خیالات میں پھنس جاتا ہے۔ اس حالت کی نسبت یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ میں اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ بعض نمازیوں کو یہ مشکل پیش آئے گی مگر انہیں گھبراتا نہیں چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر درجہ کے انسان کے لئے ترقی کا راستہ کھول دیا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی نماز میں ایسی پریشان خیالی سے دو چار ہو تو اُسے مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور اپنی نماز کو بیکار نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں سے اسی قدر قربانی کی امید کرتا ہے جتنی قربانی اُن کے بس کی ہو پس ایسے نمازی جن کے خیالات پراگندہ ہو جاتے ہوں اگر نماز کو سنوار کر اور توجہ سے پڑھنے کی کوشش میں لگے رہیں تو چونکہ وہ اپنی نماز کو جب بھی وہ اپنے مقام سے گرے کھڑا کرنیکی کوشش میں لگے رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی نماز کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اُسے قبول کرے گا او راس نماز کو کھڑا کرنے کی کوشش کرنے والے کو متقیوں میں ہی شامل سمجھے گا۔
(۴) لُغت کے مذکورہ بالا معنوں کے رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک اور معنے بھی ہیں اور یہ کہ متقی دوسرے لوگوں کو نماز کی ترغیب دیتے ہیں کیونکہ کسی کام کو کھڑا کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ اُسے رائج کیا جائے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی جائے۔ پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے عامل متقی وہ بھی کہلائیں گے کہ جو خود نماز پڑھنے کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی نماز کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور جو مسست ہیں انہیں تحریک کر کے چست کرتے ہیں۔ رمضان کے موقع پر جو لوگ تہجد کے لئے لوگوں کو جگاتے ہیں وہ بھی اس تعریف کے ماتحت یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کی تعریف میں آتے ہیں۔
(۵) نماز باجماعت سے پہلے امام کے نماز پڑھانے کے قریب وقت میں اذان کے کلمات تھوڑی زیادتی کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں ان کلمات کو اِقَامَۃ کہتے ہیں اور نماز باجماعت بھی ان معنوں کے رُو سے اِقَامَۃ الصَّلٰوۃ کا مفہوم رکھتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں نماز کھڑی ہو گئی ہے۔ اس محاورہ کے مطابق یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہوںگے کہ وہ نماز باجماعت ادا کرتے ہیں اور دوسروں سے ادا کرواتے ہیں۔
نماز باجماعت کی ضرورت کو عام طور پر مسلمان بھول گئے ہیں اور یہ ایک بڑا موجب مسلمانوں کے تفرقہ اور اختلاف کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عبادت میں بہت سی شخصی اور قومی برکتیں رکھی تھیں مگر افسوس کہ مسلمانوں نے انہیں بھلا دیا قرآن کریم نے جہاں بھی نماز کا حکم دیا نماز باجماعت کا حکم دیا ہے خالی نماز پڑھتے کا کہیں بھی حکم نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت اہم اصول دین میں سے ہے بلکہ قرآن کریم کی آیات کو دیکھ کر کہ جب بھی نماز کا حکم بیان ہوا ہے نماز باجماعت کے الفاظ میں ہوا ہے تو صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک نماز صرف تبھی ادا ہوتی ہے کہ باجماعت ادا کی جائے سوائے اس کے کہ ناقابل علاج مجبوری ہو۔ پس جو کوئی شحص بیماری یا شہر سے باہر ہونے یا نسیان یا دوسرے مسلمان کے موجود نہ ہونے کے عذر کے
صفحہ106
سوا نماز باجماعت کو ترک کرتا ہے خواہ وہ گھر پر نماز پڑھ بھی لے تو اس کی نماز نہ ہو گی اور وہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا۔
قرآن کریم میں نماز پڑھنے کا جہاں بھی حکم آیا ہے اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے الفاظ سے آیا ہے کبھی خالی صَلَّوْا کے الفاظ استمعال نہیں ہوئے یہ امر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اصل حکم یہ ہے کہ فرض نماز کو باجماعت ادا کیا جائے اور بغیر جماعت کے نماز صرف مجبوری کے ماتحت جائز ہے جیسے کوئی کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو اُسے بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے پس جس طرح کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو لیکن بیٹھ کر پڑھے تو یقینا وہ گہنگار ہو گا اسی طرح جسے باجماعت نماز کا موقع مل سکے مگر وہ باجماعت نماز ادا نہ کرے تو وہ بھی گہنگار ہو گا۔
آج کل بہت سے لوگ ایسے ملتے ہیں جو باجماعت نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں اور باتو ںمیں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ نماز ہو چکتی ہے او رپھر افسوس کرتے ہیں کہ نماز چلی گئی۔ ان کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے کیونکہ وہ معمولی غفلت سے بہت بڑے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں۔
(۶) یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ نماز چستی او رہوشیاری سے ادا کی جائے کیونکہ سستی اور غفلت کی وجہ سے خیالات میں پراگندگی پیدا ہوتی ہے اور نماز کا مغز ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں لاتی ںڈھیلی چھوڑنے یا سہارا لگانے (مسلم جلد اول کتاب الصلوٰۃ باب کراھۃ الاختصار فی الصلوٰۃ) یا کہنیاں سجدہ کے وقت زمین پر ٹیکنے سے منع فرمایا ہے (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء فی الاعتدال فی السجود) اور اس کے بالمقابل رکوع میں کمر سیدھی رکھنے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی من لایقیم صلبہ) کھڑا ہوتے وقت یا رکوع میں ٹانگوں کو سیدھا رکھنے سجدہ میں پائوں گھٹنوں ہتھیلیوں اور ماتھے پر بوجھ رکھنے (ترمذی کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی السجود علیٰ سبعہ اعتضاء) او رکمر اور پیٹ کو لاتوں سے جدا رکھنے انسانی کتاب افتتاح الصلوٰۃ باب صفۃ السجود و التجانی نی السجود دوالا عتدال فی السجود) اور قعدہ کے موقع پر دائیں پائوں کی انگلیوں کو قبلہ رُخ رکھ کر پائوں کھڑا رکھنے کا حکم دیا ہے (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء کیف الجلوس التشھد) کیونکہ یہ سب امور چستی اور ہوشیاری پیدا کرتے ہیں اور نیند اور اونگھ اور غفلت کو دُور کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اسلام نے نماز سے پہلے وضوء کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ سر اور جو ارح کے اعصاب کو تری اور سردی پہنچ کر جسم میں چستی اور خیالات میں یکسوئی پیدا ہو۔
اوپر جو معانی یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے لغوی معنوں سے استنباط کر کے لکھے گئے ہیں قرآن کریم اور احادیث سے بھی ان کی تصدیق ہوتی ہے۔ مثلاً ایک معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ باقادگی سے نماز ادا کریں اور ناغے نہ کریں اس کے مفہوم کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے ہوتی ہے الَّذِیْنَ ھُمْ عَلیٰ صَلٰو تِھِمْ دَا ئِٓمُوْنَ (معارج ع ۱) یعنی مومن اپنی نمازوں میں ناغہ نہیں ہونے دیتے بلکہ ہمیشہ باقاعدگی سے نماز ادا کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے اعتدال اور درستی کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کئے گئے تھے ان کی تائید اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰو تِھِمْ خَاشِعُوْنَ کی آیت سے ہوتی ہے (مومنون ع ۱) یعنی مومن اپنی نمازوں میں خشوع اور فرمانبرداری کو مدنظر رکھتے ہیں یعنی ظاہری اور باطنی احکام جو نماز کے بارہ میں دئے گئے ہیں سب کو پورا کرتے ہیں۔
تیسرے معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ وہ نماز کو درست رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان معنوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلٰو تِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (مومنون ع ۱) مومن کامل اپنی نماز کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ یعنی اُسے اعلیٰ اور کامل بنانے کی کشش میں لگے رہتے ہیں۔
چوتھے معنے یہ کئے گئے تھے کہ نماز باجماعت کی ترویج میں مومن لگے رہتے ہیں۔ اِن معنوں کی تصدیق قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا (طہ ع ۸) اے ہمارے مخاطب اپنے اہل کو نماز کی نصیحت کرتے رہا کرو۔ اور اس حکم کو کبھی نہ بھولو بلکہ نماز کی یاد دہانی کو ایک ضروری اور لازمی ذمہ داری سمجھ لو۔
صفحہ107
ور یہ جو معنے کئے گئے تھے کہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ سے مراد نماز باجماعت کے ہییں سو یہ مندرجہ ذیل آیت سے نکلتے ہیں وَاِذَا کُنْتُ فِیْھِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمْ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَائِفَۃٌ مِّنْھُمْ مَعَکَ وَلْیَاْ خُذُٓوْا اَسْلِحَتَہُمْ (نساء ع ۱۵) یعنی جب تو مسلمانوں میں موجود ہو اور نمازیں ان کی امامت کرائے تو چاہیئے کہ مومن سب کے سب نماز باجماعت میں شامل نہ ہوں بلکہ بوجہ جنگ کے ان مںی سے صرف ایک حصہ نماز باجماعت میں شامل ہو اور وہ حصہ بھی اپنہ ہتھیار اٹھائے رہے۔ اس آیت میں اَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اِقَامَۃ الصَّلٰوۃ سے مراد باجماعت نماز ہوتی ہے۔
ایک معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ نماز ہوشیاری اور چستی کی حالت میں ادا کرتے ہیں۔سو ان معنوں پر یہ آیت دلاتل کرتی ہے۔ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلٰو تِھِمْ سَاھُوْنَ (الماعون ع ۱) یعنی ان نمازیوں پر خدا کا عذاب نازل ہو گا جو اپنی نمازوں میں غفلت برتتے ہیں یعنی نماز تو پڑھتے ہیں مگر اُن کے دلو ںمیں پوری رغبت اور چستی نہیں ہوتی ایسی طرح ظاہری سستی اور غفلت کی طرف سے اس آیت میں اشارہ کیا ہے وَلاَیَاْ تُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَھُمْ کُسَالٰی (توبہ ع ۷) یعنی وہ جب بھی نماز پڑھتے ہیں اُن پرستی اور غفلت غالب ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے یَا بَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُ وْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْتِجدٍ (الاعراف ع ۳) یعنی اے مومنو ہر مسجد کے پاس جاتے ہوئے اپنی زینت کے سامان مکمل کر لیا کرو۔ یعنی وضوء کر لیا کرو اور ہوشیار ہو جایا کرو۔ اسی طرح فرمایا یَٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ (نساء ع ۷) یعنی اے مومنو جبکہ تمہارے خیالات پراگندہ ہوں نماز کے قریب مت جائو بلکہ اُسی وقت نماز پڑھو جبکہ تم یہ جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو یعنی دماغی پراگندگی یا سستی کی حالت میں انسان نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس کی نماز خراب ہو جاتی ہے ایسی حالت میں نماز پڑھنی چنداں مفید نہیں ہوتی۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ خیالات پراگندہ ہوں تو نماز نہیں پڑھنی چاہیئے بلکہ یہ مراد ہے کہ خیالات کو پراگندگی سے بچائو اور ذہنی بیداری اور چستی پیدا کرو اور جو باتیں کہ پراگندگی کو پیدا کرنے والی ہیں اُنہیں دُور کرو۔ اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ نماز سے کچھ عرصہ پہلے اذان ہونی چاہیئے جسے سُنکر مسلمانوں کو اپنے کاروبار ترک کر کے نماز کی تیاری شروع کر دینی چاہیئے۔ اسی طرح یہ کہ نماز سے پہلے وضوء کرنا چاہیئے پھر مسجد میں جا کر یا گھر پر سنتیں پڑھنی چاہئیں پھر مسجد میں امام کے انتظار میں ذکر الٰہی کرنا چاہیئے۔ اِن سب کاموں سے ظاہری اور باطنی سستی دُور ہوتی ہے کیونکہ خیالات میں پراگندگی اور سستی اِسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ دھیان کسی اور طرف ہو۔ مگر جو شخص نماز سے پہلے اپنا کاروبار ترک کر دے گا اس کے خیالات جو تجارتی یا دوسرے کاروبار کی وجہ سے یا گھر کے جھگڑوں یا فکروں کی وجہ سے پراگندہ ہو رہے تھے آہستہ آہستہ نماز اور عبادت کی طرف پھر جائیں گے۔ پھر مسجد میں جانے اور سنتیں پڑھنے اور ذکرِ الٰہی کرنے کی وجہ سے وہ دوسری تمام طرفوں سے ہٹکر عبادت اور نماز کی طرف منتقل ہو جائیں گے اور وہ تمام ذرائع مہیا ہو جائینگے جن کی وجہ سے نماز میں خیالات کی یکسوئی پیدا ہو سکتی ہے۔ اِسی پراگندگی کی حالت کو دُور کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ اس حالت میں پیشاب پاخانہ وغیرہ کی حاجت معلوم ہو نماز نہیں پڑھنی چاہیئے بلکہ پہلے ان حاجات کو پورا کرے پھر نماز پڑھے (ابو دائود کتاب الطہارۃ باب ایصلی الرجل وھو حاقن) اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِذَا وُضِعَ الْعَشَائُ وَاُقِیْمَت الصَّلٰوۃُ فَابْدَ ؤا بِالْعَشَائِ (بخاری کتاب الآ ذان باب اذاحمضر الطعام و اقیمت الصلوۃ) یعنی جب شام کا کھانا سامنے آ جائے تو عشاء کی نماز سے پہلے کھانا کھا لیا کرو۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کھانے سامنے آ جانے کے بعد خیال کھانے کی طرف رہے گا پس پہلے کھانا کھا کر نماز پڑھی جائے تاکہ طبیعت میں یکسوئی پیدا ہو۔ اس حدیث میں جو شام کے کھانے کا خاص طور پر ذکر ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل تو دوپہر کا کھانا نماز ظہرؔ سے اس قدر نہیں ٹکراتا جس قدر
صفحہ108
کہے شام کا کھانا عشاء کی نماز سے ٹکراتا ہے۔ دوسرے اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ رات کو سونے سے کافی پہلے کھانا کھا لینا چاہیئے تا نیند پریشان نہ ہو اور بدہضمی کی شکایت پیدا نہ ہو۔ اگر شام کے کھانے کو عشاء کی نماز کے بعد کے لئے اٹھا رکھا جائے تو چونکہ اسلام عشاء کے بعد جلد سونے کی ہدایت دیتا ہے تاتہجد کے لئے اُٹھنے میں آسانی پیدا ہو شام کے کھانے اور سونے کے وقت میں تھوڑا فرق رہ جائے گا اور صحت خراب ہو گی۔
صَلٰوۃ کے معنے حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ دُعا، رحم دین، شریعت، استغفار، تعظیم، برکت او رمسلمانوں کی اصطلاحی عبادت کے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ بولا جائے تو اس کے معنے رحم اور برکت کے ہوتے ہیں اور جب بندوں کے لئے استعمال ہو تو دُعا، دین، شریعت، استغفار، تعظیم، عام عبادت یا مسلمانوں کی اصطلاحی عبادت کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ دُرود شریف کے لئے بھی صلوۃ کا لفظ بولا جاتا ہے اور اس کے معنے دعا اور برکت اور تعظیم کے ہوتے ہیں او رمطلب یہ ہوتا ہے کہ مومن اپنے آقا کے مدارج کی ترقی کے لئے دعا کریں۔ اس کے لئے خدا تعالیٰ سے برکت طلب کریں اور اس کی بڑائی بیان کریں۔ ان معنوں میں قرآن کریم میں یہ لفظ سورۂ احزاب میں استعمالل ہوا ہے۔ وہاں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَآ ئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اصَلُّوْ ا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (احزاب ع ۷) اللہ اپنے رسول پر برکات نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے اور اس کی بڑائی بیان کرتے ہیںپس اے مومنو تم بھی اس کے لئے دعائیں کرو اور اس کی بڑائی بیان کرو اور اس کے تمام احکام کی کامل فرمانبرداری کرو۔ استغفار کے خالص معنوں میں یہ لفظ سورۂ توبہ میں استعمال ہوا ہے وہاں آتا ہے وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَھُمْ (توبہ ع ۱۳) اے رسول جن سچے مومنوں سے کمزوریاں ہو جائیں تو اُن کیلئے استغفار کر کیونکہ تیرا اُن کے لئے استعفار کرنا ان کی تسلی کا موجب ہوتا ہے۔
دعا کے معنوں میں بھی سورۂ توبہ میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے فرماتا ہے وَمِنَ الْاَ غَرابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰ خِرِوَ یَتَّخِذُ مَایُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللّٰہِ وَصَلَواَتِ الرَّسُوْلِ اَلَآ اِنَّھَا قُرْبَۃٌ لَّھُمْ سَیُدْ خِلُھُمُ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِۃٖ (التوبہ ع ۱۲) یعنی چھوٹے دیہات یا جنگلوں میں رہنے والے بعض عرب بھی ایسے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور یوم آخر پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ بھی وہ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ تعالیٰ کے قرب اور رسول کی دعائیں حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں اور خوب سن رکھو کہ ان کا یہ فعل خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ ان کی اس نیک نیتی اور رسول کی دعائوں کی وجہ سے اُن کو ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔
نماز کے معنو ںمیں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس میں اصطلاحی نماز کے علاوہ یہ امور بھی مدنظر ہوتے ہیں کہ نماز دعا ہے اور اس سے دین کا مغز پورا ہوتا ہے اور شریعت کی غرض پوری ہوتی ہے اور اس میں بندہ اپنی کمزوریوں کی معانی کی درخواست اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت کو طلب کرتا ہے چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُتْلُ مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃِ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ (عنکبوت ع ۵) یعنی قرآن کریم کی تلاوت کر اور نماز باجماعت ادا کر یقینا نماز اُن بُری باتوں سے بھی کہ جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں اور ان سے بھی کہ جو سوسائٹی پر گراں گذرتی ہیں روکتی ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ نماز کو ایک رسم کے طو رپر مقرر نہیں کیا گیا بلکہ یہ عبادت اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ بدی سے نفرت ہوتا ہے اور اندرونی پاکیزگی اس سے حاصل ہوتی ہے۔
یہ الفاظ استعمال فرما کر کہ نماز بدی سے روکتی ہے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ نماز میں یہ ذاتی خوبی ہے کہ وہ بدی سے روکتی ہے۔ پس جس شحص کو باوجود نماز پڑھنے کے بدی سے نفرت پیدا نہ ہو اُس کی نماز میں ضرور نقص ہے اور یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ میںاسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ متقی صرف رسمی طور پر نماز نہیں ادا کرتے بلکہ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی
صفحہ109
نماز کھڑی ہو جائے یعنی وہ اُن کی روحانیت کے لئے بطور سہارے کے بن جائے جس طرح ٹیک اور سہارے جب تک اپنی جگہ پر کھڑے رہیں چھتوں کو کھڑا رکھتے ہیں اسی طرح نماز جب کامل ہو جائے تو متقی کے تقویٰ کو سہارا دے کر اپنی جگہ پر کھڑا رکھتی ہے پس صرف نماز پڑھنے پر تسلی نہیں پانی چاہیئے بلکہ نماز کو کھڑا کرنا چاہیے تاکہ اس کے سہارے پر انسان کا تقویٰ بھی کھڑا رہے۔
اسلامی نماز۔ چونکہ قرآن کریم میں نماز قائم کرنے کا حکم یہاں پہلی دفعہ بیان ہوا ہے میں اسلامی نماز کی کیفیت کو اس جگہ مختصراً بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ جو غیر مسلم اس تفسیر کو پڑھیں انہیں نماز کے متعلق کچھ واقفیت ہو جائے۔
اسلامی نماز کے ادا کرنے سے پہلے وضو ء یاتمیم فرض ہے وضوء کا حکم اصل ہے اور تمیم کا حکم بطور قائم مقام کے ہے۔ (سورۃ مائدہ رکوع اول آیت ۴) وضوء پانی سے کیا جاتا ہے اور اس میں پہلے ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کے بعد کلی کر کے منہ صاف کیا جاتا ہے اور نتھنوں سے پانی اوپر کی طرف کھینچ کر ناک کو صاف کیا جاتا ہے اس کے بعد منہ دھویا جاتا ہے پھر کہنیو ںتک کہنیوں کو شامل کرتے ہوئے دونوں ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کے بعد ہاتھ گیلے کر کے سر کے بالوں پر ایک ثلث سے دو ثلث تک مسح کیا جاتا ہے او رپھر انگوٹھے کے پاس کی انگلی سے کانو ںکے سوراخوں کو گیلا کیا جاتا ہے اور انگوٹھوں کو کانو ںکی پشت پر پھرایا جاتا ہے تاکہ کان کی پشت بھی گیلی ہو جائے اس کے بعد دونوں پائوں ٹخنوں تک دھوئے جاتے ہیں (بخاری تکاب الوضوء باب الوضوء ثلاثاً و نسانی کتاب الوضوء باب مسیح الاذنین مع الراس) باہو ںاور پائوں کے دھونے میں اس امر کو ملحوظ رھا جاتا ہے کہ دائیں طرف پہلے دھوئی جائے اور بائیں طرف بعد میں۔ (نسائی کتاب الوضوء باب بای الرجلین یبدا بالغل) وضوء کرتے وقت یہ نیت کرنی بھی ضروری ہوتی ہے کہ نماز کے لئے یا طہارت کے لئے وضوء کیا جا رہا ہے (نسائی کتاب الوضوء باب النیتہ فی الوضوء) اس سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ خیالات کی رو عبادت کی طرف پھر جائے اور اس وقت سے خیالات دوسرے کاموں کی طرف سے ہٹ جائیں یہ فعل ظاہری صفاء… کا بھی موجب ہوتا ہے کیونکہ جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے بوجہ بالعموم ننگا رہنے کے وہی گردو غبار کا نشانہ بنتے ہیں۔
ان اعضاء کا دھونا یا گیلا کرنا خیالات کے اجتماع کے لئے بھی مفید اور ضروری ہوتا ہے کیونکہ خیالات کی پراگندگی حواس خمسہ کے مقامات کی تیزی سے ہوتی ہے اور حواس خمسہ کے مقامات آنکھیں کان ناک اور منہ اور جسم ہیں۔ وضوء میں کلی کے ذریعہ سے منہ کو تر کیا جاات ہے اور اس میں یکسوئی کی قوت پیدا کی جاتی ہے۔ ناک میں پانی ڈال کر اُسے ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ منہ دھوتے ہوئے آنکھوں کو تری پہنچائی جاتی ہے۔ کانوں میں گیلی انگلیاں ڈال کر اور اُن کے پیچھے انگوٹھے کو حرکت دے کر کانوں کی حس کی پراگندگی کو دُور کیا جاتا ہے ۔ جسم کی زیادہ حس کو دُور کرنے کے لئے باہیں اور پائوں دھوئے جاتے ہیں۔ اور طبی تجربہ اس امر پر شاہد ہے کہ بخار کی تیزی کو دُور کرنے کے لئے صرف یا ہوں اور پائوں کا ٹھنڈے پانی سے دھونا یا تر کرنا سارے بدن سے بخار کی گرمی دور کرنے کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے۔ سر کی گرمی خیالات کو بہت پراگندہ کر دیتی ہے اس وجہ سے سر کا مسح رکھا گیا ہے جو سر کو ٹھنڈا کر کے سر کی گرمی کو دُور کرتا اور خیالات کے اجتماع میں ممد ہوتا ہے۔
اعصابی ماہرین ماہرین کے تجربہ سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھوں او رپائوں کی انگلیوں کے ٹھنڈا کرنے سے بھی خیالات کی رَد کو بدلا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مسمریزم کے ماہرین کا تجربہ ہے کہ مسمریزم کے عمل کے بعد اگر ہاتھوں او رپائوں کو پانی ڈال کر ٹھنڈا کر لیا جائے تو اس دماغی برتی طاقت کے ضاوع ہونے سے انسان بچ جاتا ہے جو مسمریز کے عمل کے بعد دیر تک جاری رہ کر انسان کو کمزور کر دیتی ہے۔ پس ہاتھوں اور پائوں کے دھونے سے بھی ان خیالات کی رد کو رد کا جا سکتا ہے جو نماز سے پہلے انسان کے دماغ میں جاری وتی ہے اور اُسے پھیر کر عبادت اور ذکر الٰہی کی طرف لایا جا سکتا ہے۔
غرض وضوء ایک نہایت پر حکمت حکم ہے جس کے ایک جزو کی تجربہ اور علم الاعصاب تائید کرتے ہیں۔ وضوء کا حکم
صفحہ110
قرآن کریم میں موجود ہے (دیکھو سورۂ مائدہ ع ۲)
جب پانی میسر نہ ہو یا انسان بیمار ہو یا وضوء سے بیماری کا خطرہ ہو۔ تو اس صورت میں اسلام نے تمیم کا حکم دیا ہے کہ (سورۂ مائدہ آیت ۶ و نساء ۴) اور وہ حکم یہ ہے کہ پاک مٹی یا کسی پاکیزہ گرد والی چیز پر ہاتھ مار کر اپنے منہ پر او رہاتھوں اور باہوں پر پھیر لے (بخاری کتاب التمیم باب التمیم للوجہ والکفین) یہ حکم بھی انہی حکمتوں سے پُر ہے کیونکہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ صاف اور پاک مٹی بھی پانی کا قائم مقام ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اسی حکمت کو کسی وقت سمجھ کر ہندو سادھوئوں نے جسم پر بھبوت ملنے کا طریقہ جاری کیا تھا مگر یہ بات اُن سے نظر انداز ہو گئی کہ یہ طریق ادنیٰ درجہ کا ہے او رپانی کے میسر نہ آنے یا استعمال نہ کر سکنے کی صورت میں ایک قائم مقام کے طور پر ہی استعمال ہو سکتا ہے ورنہ پانی کا استعمال بہرحال افضل اور اعلیٰ ہے۔ تمیم کا حکم بھی قرآن کریم میں مذکور ہے اور سورۃ نساء ع میں اس کا ذکر آتا ہے۔
مرد اور عورت کے شہوانی اجتماع کے بعد کے لئے ایک زائد حکم بھی ہے اور وہ یہ کہ نماز پڑھنے سے پہلے نہا بھی لے۔ اس حکم میں یہ حکمت ہے کہ یہ فعل جیسا کہ تجربہ اس پر شاہد ہے سارے جسم پر اثر کرتا ہے اور جسم کے ہر حصہ کی برتی طاقت میں ایک ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔ پس اس کو ٹھنڈا کر کے سارے جسم کی برتی طاقت اور خیالات کے انتشار کو دُور کرنا عبادت کی تکمیل اور خدا تعالیٰ کے ساتھ حصول اتصال کے لئے ضروری ہے۔ اس کا حکم سورۃ نساء کے رکوع میں بیان ہے۔ مگر جس طرح بیماری اور پانی کے میسر نہ آنے کی صورت میں وضوء کی جگہ تمیم کو کافی قرار دیا گیا ہے اسی طرح ان دونوں صورتوں میں بھی غسل کی جگہ تمیم کو کافی قرار دیاگیا ہے۔
وضوء یا تمیم جو بھی صورت ہو اس کے بعد مسلمان کو حکم کہ اگر امن کی حالت ہو اور زمین پر ہو تو قبلہ رو کھڑا ہو کر (بخاری کتاب الصلوۃ باب التوجہ سخو القبلۃ) دونو ںہاتھ اٹھا کر اور ہاتھوں کو قبلہ رُو کر کے انگوٹھوں کو اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہتے ہوئے (جس کے معنے ہیں اللہ سب سے بڑا ہے) کانو ںکی لوئوں تک لائے (ابو دائد کتاب الصلوۃ باب استفتاع الصلوۃ و نسائی کتاب الا فتتاح اصلوۃ باب موضع الا بہامین عندالرفع) او راس نیت کے ساتھ کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے لگا ہے دوسرے سب خیالات کو دور کر کے عبادت الٰہی کے خیال میں محو ہو جائے۔ اس طرح ہاتھ اُٹھانے میں علاوہ توجہ کے قیام کے یہ بھی حکمت ہے کہ یہ حرکت طبعی طور پر باقی سب امور کو ترک کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ پس اس حرکت سے مسلمان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت دنیا کے سب خیالات اور کاموں سے علیحدہ ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہو گیا ہے۔ ہاتھو ںکی اسی قسم کی حرکت کی طرف غالب نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے۔ ؎
کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہوئے کرتے ہیں سلام
جس سے ہے یہ مراد کہ ہم آشنا نہیں
پس اس حرکت سے مومن گویا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ سب دنیا سے قطع تعلق کر کے اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے بیداری اور چستی بھی پیدا ہوتی ہے۔
اس کے بعد مسلمان اپنے سینہ پر ہاتھ باندھ لیتا ہے۔ (ابن حزیمہ بروایت وائل بن حجر) گویا مودب ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور یہ عبارت کہتا ہے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالیٰ جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ (ترمذی ابواب الصلوۃ باب مایقول عند افتتاح الصلوۃ و نسائی کتاب الافتتاح باب الذکربین افتتاح الصلوۃ و نسائی کتاب الا فتتاح باب الدکر بین افتتاح الصلوۃ و بین القراۃ) یعنی اے اللہ توہر نقص سے جو تیرے مقام کے خلاف ہے پاک ہے او رہر خوبی سے جو تیری شان کے لائق ہے متصف ہے اور تیرا نام تمام برکتوں کا جامع ہے اور تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اس کے بعد وہ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھتا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ اے اللہ میں ہر اُس بد روح سے جو تیری درگاہ سے دور کی گئی ہے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ اس کا اثر مجھ پر نہ ہو اور میں تیری درگاہ سے دور ہونیوالوں میں شامل نہ ہو جائوں۔ پھر وہ سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے (نسائی کتاب الافتتاح باب البداء ۃ بقاتحتہ الکتاب قبل السورۃ و ایجاب قرأۃ فاتحتہ الکتاب)