ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
ہے اور باوجود اس کے اس کا اختصار ایسا نہیں کہ وہ چیتان بن کر رہ جائے۔ قرآن کریم کے ایک رکوع کے برابر بھی متنبتی کے دیوان کے مضامین نہیں لیکن اس نے ایک ضخیم جلد شعروں کی لکھی ہے مگر وہ ہے چسیتان ہی لیکن قرآن کریم نے سینکڑوں مسائل پر اختصار سے گفتگو کر دی ہے مگر پھر بھی پہیلیوںکی صورت نہیں پیدا ہوئی۔ ہر شخص اپنی لیاقت کے مطابق اس کے مضامین کو سمجھتا ہے اور ایک عام اور سادہ زبان میں بیان کرنے والی کتاب اسے پاتا ہے کسی جگہ بھی کوئی ایسی عبارت اُسے نظر نہیں آتی کہ جو پہیلیوں کی طرح کی ہو۔
اس قسم کا اختصار ظاہر ہے کہ ایسے ہی لطیف اصولوں کی اتباع سے پیداہو سکتا ہے۔ مثلاً ایک طبعی تقسیم کا ذکر کرنا ہو تو ابتدائی آخری کڑی کو بیان کر دیا۔ کسی واقعہ سے کوئی فائدہ حاصل کرنا ہے تواس کے زائد حصوں کو چھوڑ کر صرف اس حصہ کو لے لیا جس سے استنباط کرنا ہے۔ الفاظ وہ استعمال کئے جو نہایت وسیع معنے رکھتے ہوں۔ جملوں کی بندش ایسی رکھی کہ ہر لفظ کے ہر معنے دوسرے الفاظ سے مل کر ایک الگ اور مستقل مضمون بیان کرتے ہوں، آیات میں ترتیب ایسی رکھی کہ آیت علیحدہ کر لی جائے تو اور مضمون ظاہر کرے اور دوسری آیات سے مل کر اور مطالب پر روشنی ڈالے۔ پھر مختلف آیات کا مجموعہ دوسرے مجموعوں سے الگ کر کے الگ مطالب پر روشنی ڈالے اور دوسرے مجموعوں سے ملا کر ایک نئے معنے بھی دینے لگے۔ ان اصولوں کو قرآن کریم نے اس لئے استعمال کیا تاکہ تھوڑے سے الفاظ میں غیر محدود مضامین بیان ہو جائیں۔
مجھے اس تفصیل کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ بعض نادان ایسی آیات سے یہ مضمون نکالتے ہیں کہ گویا صرف اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لانا کافی ہوتا ہے کیونکہ اس جگہ ایمان کے ثبوت کے لئے انہی دو باتوں کا ذکر ہے۔ اور یہ لوگ ان زبردست اصولوں کو بھول جاتے ہیں جو جامعیت اور اختصار کی خاطر قرآن کریم نے استعمال فرمائے ہیں اور جو تمام قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں جیسا کہ اس کے مطالب پر غور کرنے والوں لوگوں پر یہ امر کماحقہ، منکشف ہے۔
شاید کوئی کہے کہ تمہارا یہ استدلال خو ساختہ ہے کس طرح معلوم ہو کہ قرآن کریم نے واقعہ زنجیر کی اول اور آخری کڑی بیان کر کے ساری زنجیر کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ نہ سمجھا جائے کہ درحقیقت انہی دو باتوں کا بیان مقصود ہے کیونکہ یہی ایمان کی بنیاد ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کا یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ وہ ان اصولوں کی تشریح بھی خود ہی دوسری جگہ پر کر دیتا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں جو اختصار کیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی دوسری جگہ مل جاتی ہے سورۂ انعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ مَصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ لِتُنْذِ رَاُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْ لَھَا وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ یُؤْمِنُوْن بِہٖ رَھُمْ عَلیٰ صَلَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (ع۱۱) یعنی یہ کتاب اس شان کی ہے کہ اِسے خدا تعالیٰ نے اتارا ہے پھر اس کے اندر تمام ان کلاموں کی ضروری تعلیمات جمع ہو گئی ہیں جو اس سے پہلے نازل ہوئے تھے اور ان کتب سماویہ میں بھی اس کے بارہ میں خبریںتھیں جن کو اس کی آمد نے پورا کیا ہے۔ یہ کتاب دنیا کو ہدایت دینے کے لئے نازل ہوئی ہے اور اس کے گرد کی دنیا کو ہوشیار کرنے کیلئے بھی اور وہ لوگ جو یوم آخرۃ پر ایمان لاتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ضرور ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نمازوں میں بھی بہت باقاعدہ ہیں۔ اب دیکھو اس آیت میں کس طرح واضح کر دیا گیا ہے کہ ایمان بالآخرۃ ایمان بالقرآن کا مستلزم ہے اور جو قرآن کریم پر ایمان لائے گا لازماً اُسے محمد رسول اللہ پر بھی ایمان لانا ہو گا۔ کیونکہ آپؐ ہی کے ذریعہ سے قرآن کریم دنیا کو ملا ہے۔ اسی طرح اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ملائکہ پر ایمان بھی یومِ آخر میں شامل ہے کیونکہ اس میں بار بار ملائکہ کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ اس آیت میں تو یہ امر بھی زائد کر دیا گیا ہے کہ یوم آخر پر ایمان میں اعمال صالحہ بھی شامل ہیں۔ کیونکہ فرماتا ہے کہ جو یوم آخرۃ پر ایمان لاتے ہیں نہ صرف یہ کہ وہ قرآن پر ایمان لاتے ہیں بلکہ وہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔
غرض مذکورہ بالا آیت اس امر پر شاہد کہ میرا یہ استدلال کہ اللہ اور یومِ آخر کے ذکر پر اقتصار اس لئے نہیں کیا گیا کہ اُن کے
سوا کسی اور امر پر ایمان لانا مومن ہونے کے لئے ضروری نہیں بلکہ اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ دونوں امور ایمانیات کی ابتدائی اور آخری کڑیاں ہیں پس ساری زنجیر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ان کو منتخب کر لیا گیا ہے۔
ایک اور معنے بھی اس آیت کے ہو سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس جگہ منافقوں کا قول بیان کیا گیا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا پس ہو سکتا ہے کہ منافق یہ الفاظ جان بوجھ کر کہتے ہوں اور ان کی غرض مومنوں کو دھوکا دینا ہو۔ وہ مومنوں کے سامنے یہ الفاظ کہ کر ان پر تو یہ اثر ڈالنا چاہتے ہوں کہ ہم تمام اسلامی عقیدوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن دل میں یہ خیال رکھتے ہوں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو بھی مانتے ہیں اور یوم آخر کو بھی مانتے ہیں لیکن قرآن کریم اور اس کے لانے والے کو نہیں مانتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کفار عرب میں سے بہت سے ایسے لوگ تھے جو قیامت کے منکر تھے مگر سب کے سب کفار اس خیال کے نہ تھے ان میں سے ایسے لوگ بھی تھے کہ جو بعدالموت زندگی کے قائل تھے۔ چنانچہ ان کی روایات اور اشعار سے ایسے مطالب کی طرف اشارہ ملتا ہے خصوصاً مدینہ کے پاس کے لوگوں کے خیالات میں نسبتاً زیاد اصلاح تھی۔ کیونکہ یہود اور انصاریٰ کے ساتھ مل جل کر رہنے کی وجہ سے اُن میں اہل کتاب کے کئی عقیدے سرایت کر گئے تھے۔ اور یہ منافقین جن کا ذکر ہے مدینہ ہی کے رہنے والے تھے۔
خلاصہ یہ کہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں اس دھوکے کی طرف اشارہ کیا گیا جو منافق اپنے کلام سے مومنوں کو دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ اگلی آیات میں ان کیدھوکا دینے اور استہزاء کرنے کا ذکر بھی ہے۔
اس آیت کو وَمِنَ النَّاسِ سے شروعکرنے میںیہ حکمت بھی ہے کہ منافقوں کو ان کی انسانیت کی طرف توجہ دلائی جائے۔ کیونکہ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی نَاسٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے بشر کی اچھی قوتوں اور استعدادوں کی طرف اشارہ کرنے کیلئے استعمال ہوا ہے۔ ورنہ یا تو قرآن کریم کفار کا لفظ استعمال کر کے یا صرف ضمیر کے استعمال سے یا ملکوں یا قوموں کا نام بیان کر کے مخالفین صداقت کا ذکر کرتا ہے پس اس جگہ وَمِنَ النَّاس کہہ کر ایک لطیف طنز سے انہیں نیکی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انسان اور حیوان میں یہی فرق ہے کہ حیوان ایک مقرر راستہ پر چلتا جاتا ہے اور انسان سمجھ کر کام کرتا ہے سو انسانیت کے جامہ کی تم کو اس قدر تو عزت ہونی چاہیئے تھیکہ جس امر کو سچا سمجھتے تھے اس پر کاربند ہوتے اور اگر تمہاری قوم مسلمان ہو بھی گئی تھی لیکن تم خود اسلام کو برا سمجھتے تھے تو بھیڑوں کی طرح ان کے پیچھے نہ چلتے بلکہ جو تمہارا عقیدہ خلافِ اسلام تھا اس پر قائم رہتے۔
وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ کہہ کراس بات پر زور دیا ہے کہ ان کے اندر کوء شائبہ بھی ایمان کا نہیں مَا سے نفی کر کے پھر بعد میں باء کا استعمال عربی میں زور پیدا کرنے کے لئے ہوتا ہے اور اُردو میں اس کا صحیح ترجمہ ’’ہرگز‘‘ کی زیادتی سے ہوتا ہے یعنی اس جملہ کا یہ ترجمہ نہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ ہر گز مومن نہیں۔ اگر صرف عدم ایمان کا اظہار کرنا ہوتا تو اس مضمون کو دوسری ترکیب سے بیان کیا جاتا۔ مثلاً کہا جاتا کہ وَھُمْ مُنَافِقُوْنَ۔
اس قسم کے منافقوں کا جو دل سے تو کافر ہوں لیکن منہ سے مومن بنتے ہوں قرآن کریم میں متعدد بار ذکر آیا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے وَ اِذَا جَآئُ وْکُمْ قَالُٓوْا اٰمَنَّاوَقَدْ دَّخَلُوْا بِالْکُفْرِ وَھُمْ قَدْخَرَ جُوْابِہٖ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا یَکْتُمُوْنَ (مائدہ ع ۹)یعنی جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان لا چکے ہیں حالانکہ وہ جب تمہارے پاس آئے تھے تب بھی کافر تھے اور جب تمہارے پاس سے اٹھ کر گئے تب بھی کافر تھے اور جو کچھ وہ دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے قَالُٓوْا اٰمَنَّابِاَ فْواَ ھِھِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْ بُھُمْ (مائدہ ع ۶) یعنی یہ منافق لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں لیکن ان کے دل مومن نہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَا ھِہِم مَالَیْسَ
فِیْ قُلُوْ بِھِمْ (آل عمران ع ۱۷)وہ اپنے مونہوں سے وہ کچھ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔
مندرجہ بالا آیات اور آیت زیر تفسیر میں ان لوگوں کے خیالات کی زبردست تردید ہوتی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ اسلام نے لوگو ںکو زبردستی مسلمان کرنے کا حکم دیا ہے اس غلطی میں بعض مسلمان بھی پھنسے ہوئے ہیں اور دشمنانِ اسلام نے تو اس غلط عقیدہ کو اسلام کی طرف منسوب کر کے اس پر اعتراض کرنا ایک مشغلہ بنا رکھا ہے حالانکہ اگر یہ دھوکا خوردہ مسلمان اور وہ دشمنانِ اسلام اسی آیت پر غور کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ اسلام جبر کے سراسر خلاف ہے کیونکہ جبر منافقت پیدا کرتا ہے اورجبراً کسی کو مسلمان بنانے کے یہی معنے ہیں کہ گو تیرال دل اور دماغ اسلام پر تسلی نہیں پاتا لیکن تو ظاہر میں کہہ دے کہ میں مسلمان ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ جو مذہب ایسی مذہبی تبدیلی کو جائز بلکہ پسند کرے گا وہ لازماً منافق کو اپنی جماعت کا جزو سمجھے گا اور اُسے کبھی خارج نہیں کر سکتا۔ کیونکہ منافقت کے نقص کو جانتے ہوئے اُس نے جبراً ایک ایسے شخص کو اپنے مذہب میں داخل کیا ہو گا جو اس کا قائل نہ تھا لیکن قرآن کریم تو جیسا کہ اوپر کی آیات میں بتایا گیا ہے سختی سے ایسے لوگوں کو ملامت کرتا ہے اور ان کی نسبت اعلان کرتا ہے کہ وہ مومن نہیں ہیں۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ جو مذہب منافقوں کو اپنے اندر شامل کرنے کے لئے تیار نہیں اور صرف دل کی تسلی کے بعد درست عقیدہ رکھنے والے کو اپنا جزو قرار دیتا ہے وہ زبردستی اور تلوار سے کسی شخص کو نہ اپنے اندر شامل کر سکتا ہے نہ اُسے جائز قرار دے سکتا ہے چنانچہ قرآن واضح الفاظ میں فرماتا ہے اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَا لِھِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ (الحجرات ع ۲) یعنی مومن صرف وہی ہیں جو اللہ اور رسول پر ایمان لائیں اور اُن کے دل میں بعد میں بھی کوئی شبہ پیدا نہ ہوا ہو اور وہ اپنے مالو ںاور جانوں سے اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے ہر قسم کی قربانیاں بھی کریں اور یہی لوگ سچے مومن ہیں۔ پس اسلام کے نزدیک مومن ہونے کے لئے دلی یقین شرط لازم ہے۔ اور جو مذہب دلی یقین کو شرط ایمان قرار دے وہ کسی صورت میں زبردستی اور جبراً تبدیلی مذہب کی اجازت نہیں دے سکتا۔
۱۰؎ حل لغات۔
یُخَادِعُوْنَ:۔ خَادَعَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ خَادَعَ خَدَعَہسے رباعی مزید فیہ ہے اور خَدَعَ کے اصل لغوی معنے فساد کے ہیں چنانچہ تابع العروس میں ہے خَدَعَ الشَّیْئُ خَدْعًا: فَسَدَ کہ جب خَدَعَ الشَّیْئُ کہیں تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ اس چیز میں فساد پیدا ہو گیا۔ اقرب میں اس لفظ کی تشریح میں لکھا ہے ’’خَدَعَہٗ: خَتَلَہٗ وَاَ رَادَ بِہِ الْمُکْرُوْہَ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُہٗ‘‘ کہ خَدَعَ کے معنے ہیں اُسے دھوکا دیا اور ایسے ایسے طریقوں سے تکلیف پہنچانی چاہی جن سے وہ بے خبر تھا وَفِی الْکُلِّیَاتِ یُقَالُ خَادَعَ اِذَا لَمْ یَبْلُغْ مُرَادَہٗ وَخَدَعَ اِذَا بَلَغَ مُرَادَہٗ۔ اور کلیات (ابی البقاء) میں ہے کہ جب دھوکا دینے والا کامیاب ہو جائے تو خَدَعَ کا لفظ (مجرد) استعمال کرتے ہیں۔ اور اپنی کوشش میں ناکام رہے تو خَادَعَ کا لفظ بولتے ہیں۔ خَادَعَہٗ کے ایک معنے تَرَکہٗ یعنی چھوڑ دینے کے ہیں۔ اور خَادَعَ الْعَیْنَ کے معنے شَکَّکَھَا فِیْمَا تَرٰی۔ آنکھوں پوری طرح دیکھ نہ سکی اور کسی چیز کی اصلیت میں شک پڑ گیا۔
وَخَادَعَہٗ : کَامَدَہٗ خَادَعَ کے معنی گھاٹا دینے کے بھی ہیں نیز مضردات میں ہے اَلْخِدَاعُ اِنْزَالُ الْغَیْرِ عَمَّا ھُوَ بِصَدَدِہٖ بِاَمْرٍیُبْدِ یْہِ عَلیٰ خِلَافِ مَایْخفِیْہِ کسی کو اس کے اصل مقصود سے جس کے وہ درپے ہو ایسے طریق سے ہٹا دینا کہ دل میں کچھ اور ہو اور ظاہر میں کچھ اور خداع کہلاتا ہے۔ لسان العرب میں ہے اَلْخَدْعُ اِظْھَارُ خِلَافِ مَاتُخْفِیْہِ جس بات کو پوشیدہ رکھا گیا ہے اس کے خلاف بات کا اظہار کرنا خَدَعَ کہلاتا ہے وَجَازَ یُفَا عِلُ لِغَیْرِ اثْنَیْنِ لِاَنَّ الْمِثَالَ یَفُعُ کَثِیْرًا فِی اللُّغَۃِ لِلْوَاجِدِ نَخوَعَاقَبْتُ الاِّصَّ اور خَادَعَ باب مفاعلہ ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ دونوں فریق نے بالمقابل ویسا ہی کام کیا لیکن بعض اوقات اس طرح بھی استعمال ہوتا ہے کہ اس سے صرف ایک شخص کے فعل پر دلالت ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں عَاقَبْتُ اللِّصَّ کہ میں نے چور کو سزا دی حالانکہ سزا صرف حاکم چور کو دیتا ہے۔ چور حاکم کو سزا نہیں دیتا۔ وَالْعَرَبُ تَقُوْلُ خَادَعْتُ فُلَانًا اِذَا کُنْتَ تَرُوْمُ خَدْعَہُ اور خَادَعَ عرب ان معنو ںمیں بھی استعمال کرتے ہیں جبکہ کوئی کسی کو دھوکا دینے کا قصد کرے خواہ دوسرا شخص دھوکے میں آئے نہیں تاج العروس میں ہے کہ خدع کے ایک معنے روک لینے یا روک دینے کے بھی ہیں چنانچہ جب کہتے ہیں کَانَ فُلَانًا کَرِیْمًا ثُمَّ خَدَعَ تو اس کے معنے ہوتے ہیں اَمْسَکَ وَمَنَعَ کہ فلاں شخص بہت عطا کیا کرتا تھا پھر اس نے اپنے مال کو روک لیا اور اپنے نفس کو اس طرح خرچ کرنے سے باز رکھا۔ پھر ایک اور معنے کرتے ہوئے لکھا ہے سُوْقٌ خَادِعَۃٌ: ای مُخْتَلِفَۃٗ مُتَلَوِّنَۃٌ تَقُوْمُ تَارَۃً وَتَکْسِدُ اُخْرٰی کہ جب کہیں بار خادع ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ کبھی بھائو بڑھ جاتا ہے کبھی گھٹ جاتا ہے۔ نیز اقرب میں ہے کہ جب کہیں خَادَعَ الْحَمْدَ تو اس کے معنے تَرَکَہ کے ہوتے کہ اس نے حمد کو چھوڑ دیا۔ پس یُخَادِعُونَ اللّٰہَ کے معنے یہ ہوں گے (۱) کہ وہ اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ دھوکا نہیں کھاتا۔ (۲) جو اُن کے دلوں میں بات ہے اس کے خلاف اظہار کر کے شک میں ڈالنا چاہتے ہیں (۳) وہ خدا کے دین کے معاملہ میں فساد کرتے ہیں (۴) وہ اللہ کو روکتے ہیں یعنی دین کی اشاعت میں روکیں ڈالتے ہیں۔
یَشْعُرُوْنَ: شَعَرَ سے مصارع جمع غائب کا صیغہ ہے اور شعرہ کے معنے ہیں عَلِمَ بہٖ اس کو جانا شَعَرَ لِکَذا: فَطَنَ لَہٗ۔ اس کو خوب سمجھ لیا۔ عَقَلَہٗ۔ اس کو جان لیا۔ وَاَحَسَّ بِہٖ۔ اس کو محسوس کیا (اقرب) تاج العروس میں ہے الَشِّعْرُ ھُوَا لْعِلْمُ بِدَ قَائِقِ الْاُ مُوْرِ وَ قِیْلَ ھُوَ الْاِ دْرَاکُ بِالْحَوَاسِّ کہ شعر علم کی وہ قسم ہے جس کے ذریعہ سے امور کی باریکیاں معلوم ہو سکیں۔ اور بعض نے کہا ہے کہ حواس کے ذریعہ سے کسی امر کو معلوم کر لینا شِعَر کہلاتا ہے۔ نیز لکھا ہے کہ لَایَشْعُرَونَ کی جگہ لَایَعْقِلُوْنَ استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اکثر اوقات ایک چیز معقول تو ہوتی ہے لیکن محسوس نہیں ہوتی۔ شعور اور علم میںیہ فرق ہے کہ شعور ایک حس باطنی کے متعلق ہے جو بلا سامان ظاہری بھی اپنا کام کرتی ہے لیکن علم بیرونی چیزوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ممکن ہے علم کا اثر قلب پر نہ ہو لین شعور کا بالضرور ہوتا ہے۔ پس وَمَایَشْعُرُوْنَ کے معنے ہونگے۔ وہ سمجھتے نہیں۔
تفسیر۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان وہی کار آمد ہوتا ہے جو نیک نیتی اور اخلاص اور صداقت پر مبنی ہو جس ایمان میں اخلاص نہیں وہ کسی کام کا نہیں کیونکہ وہ تو دھوکا ہے اور خدا تعالیٰ جو عالم الغیب ہے وہ دھوکا کب کھا سکتا ہے۔
اس آیت پر بعض اعتراضات کئے جاتے ہیں جن کا ذکر اس جگہ ضروری ہے۔ وہ اعتراض یہ ہیں (۱) اللہ تعالیٰ کو کوئی دھوکا کب دے سکتا ہے (۲) اگر دھوکا دینے کے قصد کے معنے کئے جائیں تو اللہ تعالیٰ کو مان کر کوئی شحص اسے دھوکا دینے کا قصد ہی کب کر سکتا ہے (۳) اس جگہ یُخَادِعُوْنَ کے الفاظ ہیں اور خَادَعَ باب مفاعلہ سے ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اس فعل میں دونوں فریق شریک ہیں او ران معنوں کے لحاظ سے آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ منافق خدا تعالیٰ کو دھوکا دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کو دھوکا دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف دھوکے کی نسبت کرنا اس کی ہتک ہے۔ ان اعتراضات کا جواب علی الترتیب یہ ہے
پہلا اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی شخص دھوکا کب دے سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ (الف) اس جگہ خَادَعَ کا لفظ ہے خَدَعَ کا نہیں اور خَادَعَ کے معنے عربی زبان میں دھوکا دینے کے نہیں بلکہ دھوکا دینے کا قصد کرنے کے ہیں خواہ دوسرا دھوکا کھائے یا نہ کھائے۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچ کا ہے پس یہ اعتراض اس آیت پر نہیں پڑ سکتا کہ خدا تعالیٰ کو کوئی دھوکا کیونکر دے سکتا ہے (ب) اگر دھوکا دینے کے معنے بھی کئے جائیں تب بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا کیونکہ اس صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ایسا معاملہ کرتے ہیں کہ جو دھوکے مشابہ ہوتا ہے یعنی اس میں صداقت اور اخلاص نہیںہوتا اور یہ امر مشاہدہ سے ثابت ہے کہ بعض لوگ اپنے ایمان میں مخلص نہیں ہوتے۔ پس جب مشاہدہ اس امر کی تائید کرتا ہے تو اس پر اعتراض کیسا۔ آخر ایک منافق خواہ بہ ظاہر مومن ہو اور کفار سے ملا جلا رہے۔ یا بظاہر کافر ہو اور مسلمانوں سے ملا جلا رہے وہ ایسا فعل کیوں کرتا ہے۔ ظاہرہے کہ اس کی غرض یہی ہوتی ہے کہ ہندوں کو دھوکا دے کر فائدہ اٹھائے مگر چونکہ ایمان کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہے اس لئے اس کے اس فعل کے معنے بہر صورت یہ ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ سے اخلاص کا معاملہ نہیں کر رہا اور جس طرح اخلاص کا تعلق اس سے رکھنا چاہیئے اس قسم کا تعلق نہیں رکھتا۔ پس اس کی نیت خواہ بندوں کو دھوکا دینے کی ہو اگر اس کے عمل کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے یہی معنے ہوں گے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔ اور جب کسی انسان کا دل حراب ہو جائے تو اس سے اس قسم کے متضاد افعال کا صدور غیر ممکن نہیں ہوتا۔ باقی خدا تعالیٰ پر اس سے کوئی اعتراض نہیں آتا کیونکہ جیسا کہ اس فعل کے معنوں سے ثابت ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ خدا تعالیٰ بھی دھوکا کھا جاتا ہے بلکہ جیسا کہ اس آیت کے آخری حصہ میں وَمَایَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہُمْ فرمایا ہے وہ خدا تعالیٰ کو دھوکا نہیں دیتے بلکہ اپنی جانوں کو دھوکا دیتے ہیں یعنی اس قسم کے نامناسب افعال سے سمجھتے تو یہ ہیں کہ ہم دکھوں سے محفوظ ہو گئے ہیں حالانکہ وہ اس طرح خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو سہیڑ لیتے ہیں اور عذابوں کا مورد بن جاتے ہیں۔
خادع کا یہ استعمال عرب شعراء کے کلام میں بھی آتا ہے جیسے کہ ایک شاعر کہتا ہے ؎ وَخَارَعْتُ الْمَنِیَّۃَ عَنْکَ سِرًّا یعنی میں نے چھپ کر تیری موت کو دھوکا دے دیا جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ میں نے موت کے اثر کو دور کر دیا۔ اسی طرح اس جگہ خدا تعالیٰ کے احکام اور ذمہ داریو ںکو ٹلانے کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور منافقوں کے اس قسم کے فعل کو مجازًا خداع کہا گیا ہے۔
(۲) دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر دھوکے کے قصد کے معنے کئے جائیں تو بھی درست نہیں کیونکہ کوئی شخص خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ یہ اعتراض بھی درست نہیں کیونکہ اول تو ایک گروہ دنیا کا ایسا ہے بلکہ تمام فلسفی ہی اس گروہ میں شامل ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے علیم ہونے کے قائل نہیں بلکہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کلیات کا علم ہے جرئیات کا علم نہیں۔ قرآن کریم کے زمانۂ نزول کے وقت بھی ایسے لوگ پائے جاتے تھے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے وَلٰکِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَعْلَمُ کَثِیْرًا مِمَّاتَعْمَلُوْنَ وَ ذَا لِکُمْ ظَنُّکُمْ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ اَر ادَا کُمْ فَاَصْبَحْکُمْ مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ (رٰم سجدہ ع ۳) یعنی تم وہ لوگ ہو کہ تم کو یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اکثر اعمال کو نہیں جانتا (یعنی اُسے کلیات کا علم ہے جزئیات کا علم نہیں) اور یہی تمہارا وہم جو تم نے اپنے رب کے متعلق غلط طو رپر اپنے دلوں میں بٹھا لیا ہے تمہاری ہلاکت کا موجب ہو گیا ہے۔ یعنی اس کی وجہ سے تمہیں اپنے اعمال کی اصلاح کا خیال نہیں رہا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم زیاں کار ہ وگئے ہو۔ اسی طرح فرماتا ہے اَلَا اِنَّھُمْ یَثْنُوْن صُدُ وْرَ ھُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْہُ اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَا بَھُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (ہود ع ۱) یعنی سنو وہ یقینا اپنے سینوں کو اس لئے موڑتے رہتے کہ اس سے چھپے رہیں۔ سنو جس وقت وہ اپنے کپڑے اوڑھتے ہیں تو اس وقت بھی جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں
اُسے وہ جانتا ہوتا ہے وُہ یقینا سینو ں کی باتوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس عقیدہ کے لوگ اگر ایسے افعال کریں کہ جن میں اللہ تعالیٰ سے اخلاص کی رُوح نہ پائی جائے تو یہ کچھ بعید نہیں ہے کیونکہ وہ اس کی نسبت جزئیات کے علم کے قائل نہیں اور دراصل اس عقیدہ کی بھی شرط نہیں بالعموم جو لوگ کمزور ایمان کے ہوتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا کامل علم نہ رکھنے کی وجہ سے ہی کمزور ہوتے ہیں اور جب صفات الٰہیہ کا علم کامل نہ ہو تو ایسے متضاد اعتقادات اور اعمال کا صدور اُن سے ناممکن نہیں ہوتا چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ قیامت کو جب مشرک خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش ہوں گے تو اُن میں سے بعض اس سے یہ کہنے گے کہ وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَاکُنَّا مُشْرِکِیْنَ (انعام ع ۳) یعنی ہمیں اللہ اپنے رب کی قسم کہ ہم مشرک نہ تھے۔ عربی کی مثل ہے کہ اَلْغَرِیْقُ یَتَشَبَّتُ بِالْحَشِیْشِ یعنی جو شخص غرق ہو رہا ہو وہ تنکے کے سہارے کو بھی نہیں چھوڑتا پس وہ کمزور ایمان والے جو مصائب اور مشکلات کا مقابلہ نہیں کر سکتے قسم قسم کے بہانوں سے اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اللہ رحم کرنے والا ہے۔ اللہ بخشنے والا ہے۔ اس وقت انسانوں کے عذاب سے اپنے آپ کو بچا لو جب خدا تعالیٰ سے معاملہ ہو گا تو ہم اس کی بخشش کے طالب ہوں گے۔ اسی قسم کے غلط خیالات ہیں جن کی وجہ سے کسی شاعر نے کہہ دیا کہ ؎
مستحق شفاعت گناہ گار اند
خدا تعالیٰ کی بخشش آخر گنہگاروں کے ذریعہ سے ہی ظاہر ہو گی پس اگر ہم گناہ کرتے ہیں تو کیا ہوا ہم ہی لوگ تو اللہ تعالیٰ کی بخشش کو ظاہر کرنے والے ہوں گے۔ اس قسم کے خیالات اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے کے قصد کو ظاہر نہیں کرتے تو اور کیا ظاہر کرتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے اخلاص کا معاملہ اس کی صفات کے کام علم سے ہوتا ہے جو لوگ اس علم سے محروم ہوتے ہیں وہ اس قسم کے بیسویں بہانے بنا کر اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں حالانکہ یہ تسلی ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کہ کہتے ہیں کہ کبوتر بلی کے حملہ کے وقت آنکھیں بند کر کے سمجھ لیتا ہے کہ وہ بلی کے حملہ سے محفوظ ہو گیا ہے۔
(۳) تیسرا اعتراض یہ ہے ک یہاں مُخَادَعَہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو دونوں فریق کے فعل میں مشارکت پر دلالت کرتا ہے اور معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا بھی ان کو دھوکا دیتا ہے اور یہ امر خدا تعالیٰ کی شان سے بعید ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ (الف) باب مفاعلہ ہمیشہ دونوں کے فعل میں شریک ہونے پر دلالت نہیں کرتا بلکہ کبھی صرف ایک شخص کے فعل پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے۔ کہ عَاقَبْتُ اللِّصَّ کا محاورہ عربی میں ہے جس کے معنے یہ نہیں کہ میں نے یعنی قاضی نے چور کو سزا دی اور چور نے مجھ کو سزا دی بلکہ صرف یہ معنے ہوتے ہیں کہ میں نے چور کو سزا دی۔ پس یُخٰدِعُوْنَ کے معنوں میں خدا تعالیٰ کی مشارکت ثابت نہیں بلکہ صرف اس قدر مفہوم ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں (ب) دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کبھی جرم کا لفظ جزاء کے اظہار کے لئے دہرا دیا جاتا ہے پس اس جملہ کی تشریح ہوں ہو گی کہ اَلُمَنَافِقُوْنَ یَخْدَعُوْنَ اللّٰہَ وَاللّٰہُ یَخْدَ عُھُمْ اور اللہ تعالیٰ کے متعلق جو یَخْدَعُہُمْ کا لفظ آئے گا اس کے معنے یہ نہ ہوں گے کہ وہ ان کو دھوکا دیتا ہے بلکہ یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دھوکے کی سزا دیتا ہے یہ محاورہ جیسا کہ نوٹ ۴ ؎ سورۃ ہذا میں بتایا جا چکا ہے قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے چنانچہ آتا ہے جَزَٓاُء سَیِّئَٔۃٍ سَیِّئَٔۃٌ مِّثْلُہَا (شوریٰ ع ۴) یعنی بدی کا بدلہ ویسی ہی بدی ہے چونکہ بدی کا بدلہ بدی نہیں ہوتا اس لئے اس کے یہ معنے ہیں کہ بدی کا بدلہ اُسُ قدر جزاء ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (بقرہ ع ۲۴) اس پر اُسی قدر زیادتی کر لو جس قدر کہ اُس نے تم پر زیادتی کی تھی ظاہر ہے کہ زیادتی اور ظلم کا اُسی قدر بدلہ ظلم نہیں کہلا سکتا۔ پس یہاں بھی فَاعْتَدُوْا کے معنے اسی قدر سزا کے ہیں۔
عربی زبان میں بھی یہ محاورہ کثرت سے استعمال ہوتا ہے چنانچہ اقرب المواء د میں جو عربی لغت کی کتاب ہے لکھا ہے کہ عربی کا محاورہ ہے حَسَدَ فِیَ اللّٰہُ اِنْ کُنْتُ اَحْسَدُکَ یعنی
اگر میں تجھ سے حسد رکھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے حسد کرے اور اس کے معنے یہ لکھے ہیں عَاقَبَنِیْ عَلَی الْحَسَدِ یعنی اس کا یہ مفہوم نہیں کہ اللہ مجھ سے حسد کرے (کیونکہ اللہ تو حسد کر ہی نہیں سکتا) بلکہ یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے میرے حسد کرنے کی سزا دے۔ پھر آگے لکھا ہے وَھُوَ مِنْ بَابِ الْمُشَا کَلَۃِ اور یہ استعمال مشاکلہ کی قسم سے ہے یعنی اس جگہ جرم کے لفظ کو سزا کے معنوں کے اظہار کے لئے استعمال کر لیا گیا ہے اور جرم کی مانند لفظ کو دہرا دیا گیا ہے۔ عرب شعراء نے بھی اس محاورہ کو استعمال کیا ہے عمرو بن کلثوم کہتا ہے ؎
اَلَا لَا یَجْھَلَنْ اَحَدٌ عَلَیْنَا فَنَجْھَلْ فَوْقَ جَھْلِا الْجَاھِلِیْنَا سنو ہم سے کوئی شخص جہالت کا معاملہ نہ کرے ورنہ ہم جاہلوں سے زیادہ جہالت کا معاملہ کریں گے۔ مطلب یہ کہ ہم طاقتور ہیں جو ہم پر حملہ کرے گا یہ اس کی حماقت ہو گی ہم اس کی حماقت کی اُسے سزا دیں گے کیونکہ کمزور کا طاقتو رپر حملہ جہالت کہلا سکتا ہے طاقتور کا جواب حماقت نہیں کہلا سکتا۔
اسی طرح ابوالفول الطحوی کہتا ہے ؎
فَنَکَّبَ عَنْہُمْ دَرْئَ الْاَ عَادِی۔ وَ دَ ادَوْابِا لْجُنُوْنِ مِنَ الْجُنُوْنِ یعنی انہوں نے اپنی قوم سے دشمن کے حملہ دُور کیا اور جنون کا علاج جنون سے کیا۔ اس جگہ بھی حملہ آور کے جنون سے مراد اس کا کمزور ہو کر طاقتور پر حملہ کرنا ہے پس طاقتور کا جواب جنون نہیں کہلا سکتا اس کے معنے محض جزاء کے ہیں۔
غرض اگر باب مفاعلہ کے اصلی معنوں کو قائم رکھا جائے تب بھی اس آیت پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نسبت خَدَعَ کے لفظ کے معنے بسبب اس کے کہ یہ لفظ ایک جُرم کے جواب میں استعمال ہوا ہے صرف یہ ہوں گے کہ وُہ ان کے دھوکے کی سزا دے گا۔ سورۂ نساء میں جو یہ الفاظ ہیں کہ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَھَوَ خَادِ عُھُمْ (نساء ع ۲۱) اس کے بھی یہی معنے ہیں کہ منافق خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں مگر وہ ان کے اس بد عمل کی اُن کو سزا دے گا۔
یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ اللہ کو چھوڑتے ہیں۔ چنانچہ اقرب میں لکھا ہے خَادَعَ الْحَمْدَ: تَرَکَہُ یعنی جب خَادَعَ الْحَمْدَ کا محاورہ بولیں تو اس کے معنے ہوں گے اس نے حمد کو چھوڑ دیا۔
غرض اس آیت سے ہر گز یہ مطلب نہیں نکلتا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی دھوکا دے سکتا ہے یہ تعلیم تو قرآن کریم کی صریح آیات کے خلاف ہے اور محض عناد سے ایسا خیال اس آیت کے متعلق کر لیا گیا ہے۔ ورنہ قرآن کریم کے رو سے تو اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ سے پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔ اور اس تعلیم کی موجودگی میں یہ کہنا کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیا جا سکتا ہے ایک ظلم عظیم ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَاتُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (ق ع ۲) کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم اس کے دلی خیالات تک سے واقف ہیں اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں۔ اور فرماتا ہے اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (انفال ع ۵) کہ اللہ تعالیٰ سینوں تک کی باتوں سے واقف ہے۔ اور فرماتا ہے عَالِمِ الْغَیْبِ لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذَالِکَ وَلَآ اَکْبَرُ اِلاَّ فِی کِتَابٍ مُّبِیْنٍ (سباء ع ۱) کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور ذرّہ بھر آسمانوں اور زمین کی چیزوں میں سے اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور ذرّہ سے چھوٹی اور ذرّہ سے بڑی جتنی چیزیں بھی ہیں سب اس کو معلوم ہیں اور فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مَایَکُوْنَ مِنْ نَّجْویٰ ثَلٰثَۃٍ اِلَّاھُوَرَ ابِعُۂمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ھُوَ سَادِ سُھُمْ وَلَآ اَدْنیٰ مِنْ ذَالِکَ وَلَآ اَکْثَرَ اِلَّا ھُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا ثُمَّ یُنَبِّۂُمْ بِمَا عَمِلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِنَّ اللّٰہ بِکُلِّ شَیْیئٍ عَلِیْمٍ۔ (مجادلہ ع ۲) کہ کیا تم کو معلوم نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے خدا کو سب معلوم ہے۔ کسی تین شخصوں کا مشورہ نہیں ہوتا مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ے اور نہ کہیں پانچ کا مگر وہ ان میں چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم یا زیادہ مگر وہ جہاں ہوں خدا ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے۔ پھر جو جو کام یہ کرتے ہیں
قیامت کے دن ایک ایک کر کے ان کو بتائے گا بیشک خدا ہر چیز سے واقف ہے۔ پھر فرماتا ہے تَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْر (مومن ع ۲) وہ آنکھوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور جو باتیں سینو ںمیں پوشیدہ ہیں ان کو بھی۔ قرآن کی ایسی تعلیم کی موجودگی میں کسی کا یہ کہنا کہ مسلمانو ںکا خدا دھوکا میں آ جاتا ہے یا اس پر کسی شخص کا دائو فریب چل جاتا ہے ایک صریح ظلم ہے۔
خلاصہ یہ کہ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ کے معنے اس جگہ یہہیں کہ (۱) وہ خدا تعالیٰ سے ایسا معاملہ کرتے ہیں جو دھوکے کے مشابہ ہے (۲) وہ خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ دھوکا میں نہیں آ سکتا (۳) وہ خدا تعالیٰ سے دھوکے کا معاملہ کرتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ اُن کے غیر مخلصانہ افعال کی سزا دے گا۔ (۴) وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ رہے ہیں۔
(۵) حل لغات میں ایک اور محاورہ بھی لکھا گیا ہے۔ کہ عرب کہتے ہیں سُوْقٌ حَادِعَۃٗ بازار دھوکا دے رہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ منڈی کے بھائو ایک رنگ میں نہیں چل رہے بلکہ کبھی یکدم بڑھ جاتے ہیں کبھی یکدم گھٹ جاتے ہیں۔ ان معنوں کے رُو سے اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ منافقوں کا معاملہ خدا تعالیٰ سے اخلاص کا نہیں ہے کبھی وہ مومنوں کے رعب میں آ کر اچھے کام کرنے لگ جاتے ہیں اور کبھی کفار کے اثر کے نیچے دین کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔
(۶) ایک معنے خِدَاع کے فساد کے بھی حل لغات میں لکھے جا چکے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ خدا تعالیٰ سے فساد کا معاملہ کرتے ہیں یعنی ان کے کامو ںمیں اخلاص نہیں ہے۔
(۷) ایک معنے اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دھوکا کرنے سے مراد یہ ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کے رسول اور مومنوں سے دھوکے کا معاملہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اس قسم کا محاورہ قرآن کریم میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ جیسے کہ فرمایا اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَا یِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِ یْھِمْ (فتح ع ۱) یعنی جو لوگ تیری بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں بیعت کے وقت خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے۔ اس آیت میں رسول کی بیعت کو خدا تعالیٰ کی بیعت قرار دیا ہے اسی طرح ایک دوسری جگہ فرماتا ہے فَاِنَّھُمْ لَایُکَذِّ بُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ (انعام ع ۴) کیونکہ وہ تیری تکذیب نہیں کرتے بلکہ ظالم اللہ تعالیٰ کے نشانات کی تکذیب کرتے ہیں۔ اِن دونوں آیات میں رسول کے ساتھ ہونے والے ایک فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اسی طرح آیت زیر بحث میں رسول سے ہونے والے ایک فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ ایک حدیث قدسی میں بھی اس طریقِ کلام کو استعمال کیا گیا ہے اور وُہ یہ ہے عَنْ اَبیْ ھُرَیْرۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَ جَلَّ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعْدِ نِیْ قَالَ یَارَبِّ کَیْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ انَّ عَبْدِیْ فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْہُ اَمَا عَلِمْتَ انَّکَ لَوْعُدْتَہٗ لَوَجَدْ تَنِیْ عِنْدَہٗ یَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَطْعَتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اُطْعِمُکَ وَ اَنْتَ رَبُّ الْعٰالَمِیْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّہٗ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْہٗ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ اَطْعَمْتَہٗ لَوَ جَدْتَ ذَالِکَ عِنْدِیْ یَا ابْنَ اٰٖدَمَ اسْتَسْقَیْتُکَ فَلَمْ تُسْقِنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اَسْتَقِیْکَ وَ اَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ قَالَ اسْتَسْقَاکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِہٖ اَمَا اِنَّکَ لَوْ سَفَیْتَہٗ لَوَ جَدْتَ ذَالِکَ عِنْدِیْ (مسلم جز رابع کتاب البرو الصلۃ والا داب باب فضل عیادۃ المریض) یعنی حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا اے میرے رب میں تیری عیادت کس طرح کر سکتا ہوں حالانکہ تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے یہ علم نہیں ہوا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے مگر تُو
نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ اگر تو میرے اس بندے کی عیادت کو جاتا ُتو تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ پھر خدا فرمائے گا اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ وہ کہے گا اے میرے رب میں تجھے کس طرح کھانا کھلا سکتا ہوں حالانکہ تو رب العالمین ہے۔ خدا فرمائے گا کیا تجھے یہ علم نہیں ہوا تھا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے اُسے کھانا نہیں دیا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تُو اُسے کھانا کھلا دیتا تو تُو اُسے میرے پاس پاتا۔ اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ کہے گا اے میرے رب میں تجھے پانی کس طرح پلا سکتا ہوں حالانکہ تو رب العالمین ہے۔ خدا فرمائے گا تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا مگر تو نے اُسے پانی نہیں پلایا۔ اگر تُو اُسے پانی پلا دیتا تو تُو اُسے میرے پاس پاتا یعنی تیرا یہ پانی مجھے پہنچتا۔ اس حدیث سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے معاملہ کو اپنے ساتھ معاملہ قرار دیتا ہے۔ پس جس طرح بندوں کو کھانا نہ کھلانا خدا تعالیٰ کو کھلانا نہ کھلانا اور بندوں کی عیادت نہ کرنے کے معنے خدا تعالیٰ کی عیادت نہ کرنا اور بندوںکو پانی نہ پلانا خدا تعالیٰ کو پانی نہ پلانا ہو سکتے ہیں اسی طرح اس کے بندوں کو دھوکا دینا خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا کہلا سکتا ہے۔ اس طریق کلام کو انجیل میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس طریق کلام کو انجیل میں بھی استعمال کیا گیا ہے چنانچہ انجیل میں آتا ہے کہ مسیح کی آمد ثانی کے موقع پر سب قومیں اس کے سامنے پیش کی جائیں گی اور وہ مومنوں سے کہے گا کہ خدا تعالیٰ کی میراث حاصل کرو کیونکہ ’’میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا می ںپردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں اتارا۔ ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنچایا۔ بیمرا تھا تم نے میری عیادت کی۔ قید میں تھا تم میرے پاس آئے۔ اس وقت راستباز اُسے جواب میں کہنے گے اے خداوند! کب ہم نے تجھے بھوکا دیکھا اور کھانا کھلایا یا پیاسا دیکھا اور پانی پلایا۔ کب ہم نے تجھے پردیسی دیکھا اور اپنے گھر میں اتارا۔ یا ننگا دیکھا اور کپڑا پہنایا۔ ہم کب تجھے بیمار یا قیدی دیکھ کر تجھ پاس آئے۔ تب بادشاہ اُن سے جواب میں کہے گا میں تم سے سچ کہتا ہو ںکہ جب تم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے ایک کے ساتھ یہ کیا تو میرے ساتھ کیا۔‘‘ (متی باب ۲۵ آیت ۳۵ تا ۴۰) گو انجیل کے ناقلوں نے خدا تعالیٰ کی جگہ مسیح کو رکھ کر اس لطیف پُر استعارہ کلام کو بھونڈا بنا دیا ہے مگر اس سے یہ تو ثابت ہو جاتا ہے کہ کسی کے مقرب یا پیار سے سلوک کرنا خود اسی سے سلوک کہلا سکتا ہے اور اسی لطیف استعارہ کو یُخَادِعُوْنَ اللّٰہ میں استعمال کیا گیا ہے۔
وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہُمْ میں اس حقیقت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ منافقوںکے غیر مخلصانہ افعال خود اُن کے لئے وبال بن جائیں گے۔ کیونکہ جو شخص دھوکے سے کام لیتا ہے آخر اس کا وبال جائیں گے۔ کیونکہ جو شخص دھوکے سے کام لیتا ہے آخر اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے اور وہ دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوتا ہے پس جبکہ وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں دوسروں کو دھوکا دے رہا ہوں وہ در حقیقت اپنے نفس کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے اور خود اپنی تباہی کے سامان کر رہا ہوتا ہے۔
وَمَا یَشْعُرُوْنَ اور وہ سمجھتے نہیں۔ شعور کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے باریک امو رکے جاننے کے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس کے مشابہ الفاظ علم، عرفان، عقل اور فکر کے استعمال ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ الفاظ مشابہ ہیں لیکن ان سب الفاظ کے معانی ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ جیسا کہ عربی زبان کے ماہروں نے لکھا ہے دراصل عربی زبان میں کوئی لفظ بھی ایسا نہیں جو دوسرے لفظ کا کلی طور پر ہم معنی ہو بلکہ ہر لفظ مختلف اور زائد معنے دیتا ہے۔ چنانچہ علم اس قسم کے جاننے کیلئے آتا ہے۔ جو باہر سے پیدا ہو۔ یعنی سن کر یا دیکھ کر یا چھو کر یا چکھ کر پیدا ہو مثلاً کسی شخص کو ایک میٹھی چیز کا چکھ کر جس ذائقہ کا پتہ چلتا ہے وہ علم کہلا سکتا ہے شعور یا عرفان نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح عرفان اس علم کو کہتے ہیں جو دوبارہ حاصل ہو کیونکہ عرفان پہچاننے کو کہتے ہیں اور پہچانتا انسان اُس شئے کو ہے جس کا علم اُسے پہلے حاصل ہو چکا ہو۔ ایک شخص کو پہچاننے کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے اُسے پہلے دیکھا ہوا تھا دوبارہ دیکھ کر ہمارا وہ سابق علم تازہ ہو گیا اور ہم نے اس علم کے متعلق غلھی نہیں کی۔ روحانی علوم کو اسی لئے
عرفان کے نام سے موسوم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے ذریعہ سے یا فطرت صحیحہ کے ذریعہ سے جو روحانی امو رہمیں معلوم تھے ہم نے ان کا جب مشاہدہ کیا توپہچان لیا کہ یہ وہی چیز ہے جس کا علم کلام الٰہی یا فطرت صحیحہ کے ذریعہ سے ہم کو حاصل ہو چکا تھا۔ اسی وجہ سے عارف اُسے کہتے ہیں کہ اس نے خدا تعالیٰ کی صفات کا جن کا علم اُسے کتاب الٰہیہ کے ذریعہ سے حاصل ہو چکا تھا مشاہدہ کر لیا اور سمجھ لیا کہ یہ وہی صفات ہیں جن کو اس نے کلام الٰہی میں پڑھا تھا۔ عقل اس قوت کو کہتے ہیں کہ جو انسان کو علم، فکر اور شعور کے مطابق کام کرنے کی توفیق بخشتی ہے اور عاقل وہ ہے جو علم صحیح، فکر صحیح اور شعور صحیح کے مطابق کام کرے اور اپنے نفس کو ان کے خلاف چلنے سے رہ کے۔ فکر اس قوت کا نام ہے جو بیرونی علم سے نتائج اخذ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اور مفکر اُسے کہتے ہیں کہ جو اس بسیط علم کو جو اُسے حاصل ہو چکا جوڑ کر اور ملا کر ایک نیا نتیجہ پیدا کرے۔ جو محض بسیط علم سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ اور شعور اس حس کو کہتے ہیں جو اندر سے پیدا ہوتی ہے اور فطرت صحیحہ کو معلوم کرنے کا نام ہے۔ پس شعور کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جب انسان اپنی اندرونی طاقتوں کو محسوس کرنے لگتا ہیاور ان جبلی طاقتوں کو محسوس کر کے اپنے لئے نیک راہ تجویز کرنے لگتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ نے اس کے اندر پیدا کی تھیں۔ چنانچہ بالوں کو اَشْعَارٌ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اندر سے باہر کی طرف اگتے ہیں۔ اسی طرح اَشْعَارٌ اس لباس کو کہتے ہیں کہ جو دوسرے کپڑوں کے نیچے ہو اور جسم سے لگا ہوا ہو۔ اَشْعَارٌ درخت کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ زمین سے باہر نکلتا ہے۔ اور اَشْعَارٌ اس اشارہ کو بھی کہتے ہیں کہ جو فوجیں باہم مقرر کر لیتی ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سہ واپنے سپاہیوں کو اپنا مطلب سمجھا سکیں۔ اور اسے یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ وہ مخفی ہوتا ہے اور باہمی راز کو ظاہر کرتا ہے اسے انگریزی میںPass Word) یا (watch word کہتے ہیں شِعْر کو بھی شعر اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اندرونی جذبات کو بیان کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارادے کو ظاہر کرنے والے امو رک وبھی شَعَائِر کہتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کے منشاء کا پتہ چلتا ہے اور اس کی صفات کا ظہور ان کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ اسی طرح مَشَاعِر باطنی حواس کو کہتے ہیں۔ پس شعور وہ مخفی حس ہے جو انسان کو اس کے اندرونی قویٰ کا علم دیتی ہے اور اس کا تعلق بیرونی علم سے نہیں۔ پس وَمَا یَشْعُرُوْنَ کے یہ معنے ہوئے کہ دھوکا دینا ایک ایسا فعل ہے جس کے خلاف فطرت صحیحہ گواہی دیتی ہے مگر یہ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے مذہب کو توکیا سمجھنا ہے خود اپنے نفس کو بھی نہیں سمجھتے اور نہیں جانتے کہ منافقت ان افعال قبیحہ میں سے ہے کہ جن کو فطرت صحیحہ بھی ردّ کرتی ہے اور کسی دوسرے شخص کے بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔
جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس آیت میں ان مسلمانوں کہلانے والے لوگوں کا ذکر ہے جو دل سے مسلمان نہ تھے اور صرف ظاہری طور پر مسلمانوں سے مل گئے تھے۔ یہ لوگ مدینہ کے رہنے والے تھے جب مدینہ کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کیا تو یہ لوگ بھی دیکھا دیکھی اسلام پر پورا غور کئے بغیر مسلمان ہو گئے مگر جب اسلام میں داخل ہونے کی شرائط پر غور کیا اُس میں داخل ہو کر جو قربانیاں کرنی پڑتی ہیں انہیں دیکھا تو اسلام میں ترقی نہ کر سکے بلکہ آہستہ آہستہ اس سے دُور ہو گئے لیکن اپنی قوم کی وجہ سے ظاہراً اسلام کو ترک بھی نہ کر سکے۔ اس مگر وہ کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں آیا ہے لَاتَعْتَذِ رُوْا قَدْ کَفَرْ تُمْ بَعْدَ ایْمَا نِکُمْ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَۃٍ مِّنْکُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَۃً بِاَ نَّھُمْ کَانُوْا مُجْرِ مِیْنَ اَلْمُنَا فِقُوْنَ وَالْمُنَافِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ یَاْ مُروْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ ھُمْ الفَاسِقُوْنَ (توبہ ع ۸ و ع ۹) یعنی جب منافق لوگ شرارتیں کرتے ہیں اور انہیں اس پر گرفت ہوتی ہے تو وُہ عذر کرنے اور بہانے بنانے لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عذر نہ کرو کیونکہ عذر بے فائدہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تم