ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
ان فلسفیوں کو اس غلط خیال کی طرف ایک اور چیز نے بھی راہنمائی کی ہے۔ میں اس کا بھی ازالہ کردینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بائبل اور دوسری کتب میںانہوں نے جب یہ پڑھا کہ ہمارے قبیلہ کا خدا ایسا ہے اور ویسا ہے تو یہ نتیجہ نکالا کہ گو ایک خدا کا وجود ان میں پایا جاتا ہے مگر یہ خیال قبائلی خدا کے خیال سے ترقی پا کر بنا ہے حالانکہ یہ غلطی محض اس لئے لگی ہے کہ اسلام سے پہلے تمام مذاہب ایک ایک قوم کی طرف آتے تھے اور چونکہ وہ قبائلی مذاہب ہوتے تھے اپنی بول چال میں وہ لازماً ہمارے خدا اور ان کے خدا کے الفاظ بولتے تھے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مذاہب الہامی نہ تھے بلکہ یہ محاورات محض اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ مختلف اقوام کے مذاہب بھی مختلف تھے جاہل لوگ جو مذہب کی اس حقیقت سے ناواقف تھے یہ خیال کرتے تھے کہ جس خدا نے ہمیں مذہب عطاکیا ہے وہ اور ہے اور دوسروں کا خدا اور ہے حالانکہ خدا ایک ہی تھا صرف مختلف اقوام کے لحاظ سے اس نے ہر قوم کی ضرورت کے لحاظ سے مختلف تعلیم دی تھی اور یہ محاورات خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ تھے بلکہ قومی اختلافات سے دھوکہ کھا کر لوگوں نے ایسا سمجھا لیا تھا۔ یہوا وہی تھا جو ہندوستان میں برہما یا پرم ایشور کہلاتا تھا اور جو ایران میں یزدان کہلاتا تھا مختلف ناموں کی وجہ سے اور مختلف تعلیمات کی وجہ سے ان مذاہب کے جاہل پیروئوں نے ان کو الگ الگ خدا سمجھ لیا۔ مگر مذاہب کے بعض ناواقف ماننے والو ںکی غلطی سے یہ نتیجہ ہر گز نہیں نکالا جا سکتا کہ ایک خدا کا وجود ان میں نہ تھا اسلام نے اس غلطی پر سے پردہ اُٹھا دیا اور صاف کہہ دیا کہ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ الَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ (فاطر ع ۳) یعنی ہر قوم میں خدا تعالیٰ کے نبی گذر چکے ہیں۔ ہندوستان میں بھی اور ایران میں بھی اور کنعان میں بھی اور عرب میں بھی۔ اور ان ممالک کے مذاہب کے پاس جو کتب ہیں وہ سب خدائے واحد کی نازل کردہ تھیں۔ اس حقیقت کو نہ سمجھ کر ایک غلط عقیدہ کی بناء پر ایک تاریخی نتیجہ نکال لینا ایک صریح ظلم ہے قوم کے ناواقفوں یا مذہبی تعصب رکھنے والوں کی رائے پر حقائق کی بنیاد نہیں رکھی جاتی بلکہ اصل صداقت سے نتائج نکالے جاتے ہیں۔ اگر اس طرح بعض جاہلوں کی غلطیوں پر بنیاد رکھ کر صداقتیں معلوم کرنے کی کوشش کی جائے تو دنیا میں اندھیر پڑ جائے اور علم کی جگہ جہالت لے لے۔
مجھے تعجب آتا ہے ان لوگوں پر جو موسیٰ کے بعد ایک ترقی پذیر یہوا کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ موسیٰ سے پہلے حضرت ابراہیمؑ کا وجود گذر چکا ہے ان کی نسل سے ایک قوم عرب کی مکہ میں بستی تھی وہ عقیدتاً یہود کے خلاف تھی اور خطرناک مشرک تھی کہ کعبہ جیسے مقام میں جو توحید کا مرکز تھا اس نے بتو ںکی ایک فوج رکھ چھوڑی تھی بیرونی تہذیب کے اثر سے وہ بالکل غیر متاثر تھی ان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کی وہ قوم جانی دشمن تھی ببانگ بلند یہ دعویٰ کیا کہ ان کے دادا ابراہیم وحد تھے مشرک نہ تھے چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے مَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (بقرہ ع ۱۶) ابراہیم مشرک نہ تھے بلکہ خالص موحد تھے مگر ان مشرکوں میں سے ایک بھی نہ بولا کہ ابراہیم تو مشرک تھے۔ باوجود شرک میں مبتلا ہونے کے وہ اس امر کو تسلیم کرتے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام مشرک نہ تھے اور ایک بت کی نسبت بھی ان کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام اُس کی پوجا کیا کرتے تھے ایسی مشرک قوم کا ابراہیم کی نسبت تسلیم کرنا کہ وہ مشرک نہ تھے اور قرآن کریم کے بار بار اعلان کی کہ ابراہیم مشرک نہ تھے تردید نہ کرنا جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے بتاتا ہے کہ عربو ںکا یہ عقیدہ تھا کہ ابراہیم مشرک نہ تھے بلکہ موحد تھے اور ان کی قدیم روایات اسی امر کی تصدیق کرتی تھیں اور ایسی قدیم روایات خصوصاً ایسی قوم کی جو بیرونی دُنیا کے خیالات سے متاثر نہ ہوئی تھی ایک زبردست ثبوت ہے اس امر کا کہ موسیٰ ؑ
کے ظہور سے پہلے ایک خدا کا وجود دُنیا میں مانا جاتا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کے آباء میں مانا جاتا تھا۔ پھر اس حقیقت کی موجودگی میں یہ کہنا کہ ایک خدا کا وجود یہود میں جو حضرت ابراہیم کے صدیوں بعد ہوئے اور ان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے تھے پایا نہ جاتا تھا اوری ایک یہود انامی دیوتا کے ڈر سے جس کی نسبت ان کا خیال تھا کہ وہ بڑا غیور ہے انہوں نے دوسرے دیوتائوں کو چھوڑ کر اس کی عبادت شروع کر دی اور اس طرح ایک خدا کا خیال پیدا ہوا کیسا بودا استدلال ہے۔
خلاصہ یہ کہ ایک خدا کا عقیدہ جسے ان آیات میں پیش کیا گیا ہے کہ کسی مشرکانہ عقیدہ کی ارتقائی کڑی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جس پر وہ دلائل و براہین جو اوپر بیان کئے گئے ہیں اور تاریخ اور تمام غیر مہذب اقوام کے حالات اس پر گواہ ہیںکہ توحید کا عقیدہ ہی اصل اور پرانا عقیدہ ہے اور شرک صرف قوموں کے زوال کی حالت میں پیدا ہوا ہے اور ابتدائی انسانی عقیدہ نہیں ہے۔
میں ان فلسفیوں کی محنت کے نتائج کا بالکل منکر نہیں ان کی ان تحقیقاتوں کو اس حد تک مان سکتا ہو ںکہ انہو ںنے شرک کے اسباب کو ایک حد تک دریافت کیا ہے اور جن اقوام میں شرک پھیلا ہے ان کے خیالات میں تنزل جس جس وجہ سے ہوا اس کی انہوں نے ایک حد تک تحقیق کی ہے مگر اس تحقیق سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شرک ایک خدا کے خیال کا موجب تھا بالکل درست نہیں اور ویسی ہی غیر معقول چھلانگ ہے جیسے کہ انسانی نسل کے ارتقاء کی نسبت انہو ںنے لگائی ہے اور دوسرے حیوانات اور انسان کی بناوٹ کی مناسبتوں اور ان کے باہمی اختلافات اور ان کے اور انسان کی بناوٹ کے اختلافات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان حیوانات کی زنجیر کی آخری کڑی ہے۔ جس طرح پیدائش کے ارتقاء کی ایک غائب کڑی کو نظر انداز کر کے انہوں نے غلط نتیجہ نکال لیا ہے اسی طرح اس بارہ میں بھی ایک غلط نتیجہ نکال لیا ہے اگر وہ اپنی تحقیق کا نام شرک کے اسباب کی دریافت رکھتے تو یہ ایک حد تک معقول ہوتا اور ان کے خیالات سے ہمیں جس حد تک کہ ان کا نتیجہ درست اور معقول ہوتا۔ اتفاق ہوتا۔
۲۴؎ حل لغات
رَیْب:۔ رَیْب کے لئے دیکھو سورہ بقرہ حل لغات ۳؎
نَزَّلْنَا:۔ نَزَّلَ (جو نَزَلَسے باب تفعیل ہے) سے جمع متکلم کا صیغہ ہے۔ اور نَزَّلَہٗ کے معنے ہیں صَیَّرَہٗ نَازِلًا۔ اس کو اُترنے والا کر دیا۔ یعنی اس حالت میں کر دیا کہ وہ اُترے۔ اور نَزَّلَ الْقَوْمَ کے معنے ہیں اَنْزَ لَھُمُ الْمَنَازِلَ لوگوں کو ان کی جگہوں پر اُتارا۔ نَزَّلَ الشَّیْئَ رَتَّبَہٗ کسی چیز کو مرتب کیا۔ نَزَّلَ الْعِیْرَ: قَدَّرَ لَھَا الْمَنَازِلَ قافلہ کے امام نے قافلہ کے لوگوں کے لئے جگہیں مقرر کر دیں۔ تَنْزِیْلٌ اصل میں آہستہ آہستہ اُتارنے کو کہتے ہیں چنانچہ لکھا ہے اَلتَّنْزِیْلُ یْکُوْنُ تَدْرِیْجِیًّا وَمِرَّۃً بَعْدَ مَرَّۃٍ وَالْاِ نْزَالُ اَعَمُّ مِنْہُ کہ تنزیل میں تدریجاً اور یکے بعد دیگرے اُترنا ہوات ہے لیکن لفظ انزال تنزیل سے عام ہے۔ اس میں یہ شرط نہیں (اقرب) مفردات میں ان دونوں میں فرق کرتے ہوئے لکھا ہے۔ وَالْفَرْقُ بَیْنَ الْاِنْزَالِ
وَالتَّنْزِیْلِ اَنَّ التَّنْزِیْلَ یَخْتَصُّ بِالْمَوْ ضِعِ الَّذِیْ یُشِیْرَ اِلَیْہِ اِنْزَالُہٗ مُفَرَّقًا وَمَرَّۃً بَعْدَ اُخْرٰی وَالْاِ نْزَالُ عَامٌ کہ انزال اور تنزیل میں یہ فر قہے کہ تنزیل کا لفظ آہستہ آہست اُتارنے اور یکے بعد دیگرے اتارنے کے معنوں سے مخصوص ہے لیکن لفظ انزال (اُتارنا) عام ہے یعنی خواہ اکٹھا اُترے یا یکے بعد دیگرے۔ (مفردات)
عَبْدِنَا:۔ عَبَدَلَہٗ کے معنے ہیں تَاَلَّہٗ لَہٗ تمامتر کوشش کے ساتھ پرستش میں لگ گیا۔ اور عَبَدَاللّٰہَ کے معنی ہیں طَاعَ لَہٗ وَخَضَعَ وَ ذَلَّ وَخَدَمَہٗ وَالْتَزَمَ شَرَائِعَ دِیْنِہٖ وَ وَحَّدَہٗ یعنی اللہ کا فرمانبردار بن گیا اور اپنے آپ کو اسی ایک کا بنا کر اس کے احکام کا پابند ہو گیا (اقرب) العُبُوْدیَّۃُ اِظْہَارُ الْتَّذَلُّلِ وَالْعِبَادَۃُ اَبْلَغُ مِنْہَا لِاَنَّھَا غَایَۃُ التَّذَلَّلِ۔ عبودیت کے معنی عاجزی کے اظہار کے ہیں اور لفظ عبادت اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ اس کے معنے انتہائی عاجزی کرنے کے ہیں۔ وَلَا یَسْتَحِقُہَا اِلَّا مَنْ لَہٗ غَایَۃُ الْاِفْضَالِ وَھُوَ اللّٰہُ تَعالیٰ۔ اور انتہائی عاجزی اسی کے سامنے کی جا سکتی ہے جس کے انعام و اکرام بہت زیادہ ہوں اور ایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہے۔ وَالْعَبَادَۃُ ضَرْبَانِ عِبَادَۃٌ بِالتَّسْخِیْرِ وَ عِبَادَۃٌ بِالْاِ خْتِیَارِ اور عبادت کی دو اقسام ہیں (۱) کسی چیز کا اپنے طبعی اعمال کے ذریعہ سے اظہار فرمانبرداری کرنا (۲) اختیاری عبادت اور یہ انسانوں کے ساتھ خاص ہے۔ وَالْعَبْدُ یُقَالُ عَلیٰ اَرْبَعَۃِ اَضْرُبٍ اور عبد کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (۱) عَبْدٌ بِحُکْمِ الشَّرْعِ شریعت کی رو سے غلام جس کا بیچنا اور خریدنا جائر ہو ان معنوں کے اعتبار سے لفظ عبد کی جمع عبید ہو گی (۲) عَبْدٌ بِالْاِ یْجَادِوَ ذَالِکَ لَیْسَ اِلَّالِلّٰہِ پیدا کئے جانے کے باعث عبد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور اس لحاظ سے عبد کی اضافت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہو گی کیونکہ خالق صرف وہی ذات ہے (۳) عَبْدٌ بِالْعِبَادَۃِ وَالْخِدْمَۃِ عبادت اور خدمت کے باعث عبد کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس لحاظ سے لوگ دو حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے (الف) جو محض اللہ تعالیٰ کے لئے عبادت کرنے والے ہیں یعنی عابد ان معنوں کے لحاظ سے اس کی جمع عِیَاد آتی ہی (ب) جو دُنیا کے غلام اور دُنیا دار ہوں (مفردات) مصنف تاج العروس کہتے ہیں قَالَ بَعْضُ اَئِمَۃِ الْاِ شْتِقَاقِ اَصْلُ الْعُبُوْدِیَّۃِ الذُّلُّ وَالْخُضُوْعُ یعنی علم اشتقاق کے بعض آئمہ نے کہا ہے کہ عبودیت کے اصل معنے عاجزی اور خضوع کے ہیں۔ وَقَالَ اٰخَرُوْن العُبُوْدَۃُ: اَلرِّضَا بِمَا یَفْعَلُ الرَّبُّ وَالْعِبَادَۃُ فِعْلُ مَایَرْضٰی بِہٖ الرَبُّ وَالْاَوَّلُ اَقْویٰ اور بعض آئمہ نے کہا ہے کہ عبودیت اللہ تعالیٰ کی قضا کے ساتھ راضی رہنے کو کہتے ہیں اور عبادت وہ فعل ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ راضی رہتا ہے لیکن بقول مصنف تاج العروس پہلے معنے زیادہ صحیح ہیں نیز اَلْعَابِدُ کے معنے ہیں اَلْمُوَحِّدُ توحید پرست اور التَّعْبِیْدَۃُ کے معنی ہیں اَلْعُبُوْدِیَّۃُ عاجزی کرنا۔ کہتے ہیں مَا عَبَدَکَ عَنِّیْ اَیْ مَا جَلَسَکَ کس چیز نے تجھ کو مجھ سے روکا اور جب عَبَدَبِہٖ کہیں تو اس کے معنے ہونگے لَزِمَہٗ وَلَمْ یُفَارِقْہُ اس کے ساتھ اس طرح چمٹ گیا کہ اس سے جدا نہ ہوا۔ قَالَ ابنُ الْاَنْبَارِیْ فُلَانٌ عَابِدٌ وَھُوَ الْخَاضِعُ لِرَبِّہِ الْمُسْتَسْلِمُ الْمُنْقَادُ لِاَمْرِہٖ ابن انباری کہتے کہ عابد کے معنے ہیں وہ شخص جو اپنے رب کے سامنے عاجزی کرنے والا ہو اور اس کے حکموں کے سامنے سر تسلیم خم کرنیوالا ہو وَالْمُتَعَبِّدُ اَلْمُنْفَرِدُ بِالْعِبَادَۃِ اور وہ شخص جو عبادت میں ہی لگا رہے اسے متعبد کہتے ہیں۔ (تاج العروس) الغرض عبد کے معنی کے اندر انتہائی عاجزی ’’تذلل‘ خضوع‘‘ توحید پرستی خدمت گذاری‘ کسی کے ساتھ چمٹ جانا اور مفارقت اختیار نہ کرنا اور دُنیا سے اپنے آپ کو روک کر اللہ کا ہی ہو جانیکی طرف اشارہ ہے۔
سُوْرَۃٌ:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات فاتحہ ۱؎
شُھَدَآء:۔ شَھِیْدٌ کی جمع ہے اور یہ شَھِدَ سے صفت مشبہ کا صیفہ ہے۔ شَھَادَۃٌ اور شُہُوْدٌ (جو شَہِدَ کے مصدر ہیں) کے معنی ہیں اَلْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ کہ کسی واقعہ کے وقت حاضر ہو کر اس کا مشاہدہ کرنا خواہ وہ مشاہدہ ظاہری آنکھ سے ہو یا بصیرت سے وَقَدْ یُقَالُ لِلْحُضُوْرِ مُفْرَدًا اور کبھی صرف حاضر ہونے پر شَہَادَۃ اور شُہُوْد کالفظ بولا جاتا ہے وَالشَّہَادَۃُ قَوْلٌ صَادِرٌ عَنْ عِلْمٍ حَصَلَ بِمُشَاھَدَۃِ بَصِیْرَۃٍ اَوْ بَصَرٍ اور کسی واقعہ کے متعلق اس بیان کو جو ایسے علم کے ساتھ دیا جائے جو آنکھ کے ساتھ مشاہدہ کرنے یا بصیرت کے ذریعہ حاصل ہوا ہو شہادت کہتے ہیں۔ وَقَدْ یُعَبَّرُ بِالشَّھَادَۃِ عَنِ الْحُکْمِ وَالْاِ قْراَرِ اور کبھی شہادت کے لفظ سے مُراد کسی بات کا کا اقرار ہوتا ہے وَقَوْلُہٗ مَا شَہِدْنَا اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا اَے مَا اَخْبَرْنَا اور آیت مَا شَھِدٰنَا… الخ میں شہادت سے مراد خبر ہے کہ ہمیں جس چیز کا علم تھا اسی کی خبر دی نیز شہادۃ کے معنے یقینی خبر کے کئے گئے ہیں وَادْعُوْا شُھَدَآئَ کُمْ کے معنے کرتے ہوئے لکھا ہے۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاٍس مَعْنَاہُ اَعْوَالَکُمْ کہ ابن عباسؓ نے شُہَدَائَ کے معنے مددگاروں کے کئے ہیں وَقَالَ مُجَاھِدٌ الَّذِیْنَ یَشْہَدُوْنَ لَکُمْ اور مجاہد کے نزدیک شہداء سے مراد وہ لوگ ہیں۔ جو گواہی دیں وَقَالَ بَعْضُہُمْ اَلَّذِیْنَ یُعْتَدُّ بِحُضُوْرِ ھِمْ کہ شہداء ان لوگوں کو کہیں گے جن کی گواہی کی کوئی دقت سمجھی جائے (مفردات) اَلشَّھِیْدُ:۔ الشَّاھِدُ گواہ۔ اَلْاَمِیْنُ فِیْ شَہَادَتہِ:۔ سچی گواہی دینے والا۔ اَلَّذِیْ لَایَغِیْبُ عَنْ عِلْمِہٖ شَیْئٌ:۔ جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہ ہو۔ (اقرب) پس وَادْ عُوْا شُہَدَآئَ کُمْ کے یہ معنے ہونگے (۱) کہ تم اپنے معاونوں اور دوستوں کو بلا لو۔ (۲) تم اپنے گواہوں کو بلا لو(۳) اپنے معبودوں کو بلا لو۔
دُوْن:۔ دُوْن کے ایک معنی غَیر کے ہیں۔ یعنی سوا (اقرب) پس دُوْن اللّٰہِ کے معنے ہونگے غَیْرُ اللّٰہِ یعنے اللہ کے سوا۔
تفسیر۔ اس اس آیت سے پہلی دو آیت میں قرآن کریم کا سب سے پہلا حکم حکم کی شکل میں نازل ہوا تھا۔ اس سے پہلے بیشک قرآنی خوبیاں اور متقیوں کے فرائض اور سورۃ فاتحہ میں مومنوں کی دعائوں۔ ارادوں او رکاموں کا ذکر ہوا تھا مگر انسان کو خداکی طرف سے مخاطب کر کے کوئی حکم نہ سورۃ فاتحہ میں بیان ہوا تھا اور نہ سورۂ بقرہ کی ان آیات میں جو اس سے پہلے گذر چکی ہیں اور یہ ایک طبعی امر ہے کہ انسان خطاب پر ہی اعتراض کی طرف مائل ہوتا ہے کیونکہ جب تک اسے مخاطب نہ کیا جائے وہ سمجھتا ہے کہ اس کلام سے مجھے کیا تعلق ہے لیکن جب اس کو مخاطب کیا جائے تو فوراً اس کی توجہ یا ماننے کی طرف یا غور کی طرف یا مقابلہ کی طرف مائل ہو جاتی ہے پس پہلے حکم کے بعد جو اس کا لازمی نتیجہ نکلا یعنے وہ رد عمل جو قرآن کریم کے حکم کو سن کر کفار کے دل میں پیدا ہوا اس کا ذکر آیت زیر تفسیر میں کیا گیا ہے اور وہ رد عمل یہ تھا کہ یہ کلام تو ہم کو کوئی ایسا اچھا معلوم نہیںہوتا اس نے تو ہمارے امن کو برباد کر دیا ہے اور ہمارے دلوں کو اس یقین سے بھی محروم کر دیا ہے جو اس سے پہلے ہم کو حاصل تھا اور شکوک و شبہات کا دروازہ کھول دیا ہے یہ استدلال جو میں نے کیا ہے اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا کے الفاظ سے کیا ہے کیونکہ رَیْب کے معنے جب شک کے ہوں تو شک کی طرح اس کا صلہ بھی فی آنا چاہیئے مثلاً کہیں گے فِیْہِ رَیْبٌ یہ امر شک پیدا کرنے والاہے چنانہ قرآن کریم میں ہے اَنَّ السَّاعَۃ لَا رَیْبَ فِیْھَا (کہف ع ۳)موعود ساعت کے بارہ میں کوئی شک نہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے وَالسَّاعَۃُ لَا رَیْبَ فِیْہَا (جاثیہ ع ۴) ساعت مقررہ کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ قرآن کریم میں ایک اور جگہ پر مِنْ اس کے بعد استعمال کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِنَ الْبَعْثِ (حج ع ۱) مگر اس کے معنے بھی یہ کئے جاس کتے ہیں کہ اگر بَعْث کے مسئلہ کے سبب سے تم شکوک میں پڑ گئے ہو۔ یہ نہیں کہ
بعث کے مسئلہ میں تم کو شک ہے کیونکہ کفار کو تو بعث کے بارہ میں شک نہ تھا بلکہ و ہ قطعی طو رپر اس کا انکار کرتے تھے۔
ریب اور شک میں یہ فرق ہے کہ شک انسان کرتا ہے لیکن ریب انسان نہیں کرتا بلکہ ریب کو ہمیشہ اس چیز کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جس سے شک پیدا ہوا ہو مثلاً یہ تو کہیں گے کہ اَشُکُّ فِیْ ذَالِکَ میں اس معاملہ میں شک کرتا ہوں مگر یہ نہیں کہیں گے کہ اُرِیْبُ فِیْہِ بلکہ یُوں کہیں گے رَابَنِی یَا اَرَابَنِیْ ھٰذَا الْاَمْرُ اس بات نے مجھے شک میں ڈال دیا ہے۔ غرض کفار نے صرف قرآن کریم کے دعویٰ کے بارہ میں شک کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ اظہار کیا ہے کہ (۱) قرآن کریم نے ہمارے شکوک کیا دُور کرنے تھے اس کے مضامین کی وجہ سے تو ہمارے دلوں میں بعض اور صداقتوں کے بارہ میں بھی جن کو ہم پہلے مانتے تھے شکوک پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں اور اس کتاب نے بجائے شک دور کرنے کے ہمارے دلوں میں شکوک پیدا کر دئے ہیں (۲) ہم پہلے تو محمد رسول اللہ کے دعویٰ کو قابلِ غور سمجھتے تھے اور اس پر غور کرنے پر تیار تھے لیکن جوں جوں قرآن نازل ہوا ہمارے دلوں میں اس کے مضامین کی وجہ سے اس کے دعویٰ کے بارہ میں شکوک کا سلسلہ بڑھنا شروع ہو گیا۔ گویا وہ قرآن پر دو اعتراض کرتے ہیں ایک یہ کہ اس کے مضامین اس غرض کو پورا نہیں کرتے جس کے لئے یہ نارل ہوا ہے۔ دوم یہ کہ اگر اسے مانا جائے تو کئی صداقتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے اور بجائے صداقت کی طرف لے جانے کے یہ اور کئی صداقتوں سے دُور کر دیتا ہے۔
علامہ ابو البقاء مِمَّا نَزَّلْنَا کی ترکیب دو طرح کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ریب کی صفت ہے یعنی تم ایسے ریب میں پڑ گئے ہو جو ہمارے بندے پر اُتارے گئے کلام سے پیدا ہوا ہے اور اس کی یوں تشریح کرتے ہیں کہ فِیْ رَیْبٍ کَائِنٍ مِنَ الَّذِیْ نَزَّلْنَا اور دوسرا مقام اس کا یہ بتاتے ہیں کہ مِمَّا نَزَّلْنَا ریب کا متعلق ہے اور معنے یہ ہیں کہ فِیْ رَیْبٍ مِنْ اَجْلٍ مَانَزَّلْنَا یعنے ایسے شک میں ہو جو ہمارے اُتارے ہوئے کلام کے سبب سے پیدا ہوا ہے علامہ ابو حیان اپنی تفسیر بحر محیط میں اس آیت کے ماتحت لکھتے ہیں۔ وَمِنٌ یَحْتَمِلُ اِبْتَدَائَ الْغَایَۃِ وَالسَّبَبیَّۃِ مِنْ کے معنے اس جگہ یہ ہیں کہ مَا نَزَّلْنَا سے شک پیدا ہوا ہے یا یہ کہ مَا نَزَّلْنَا شک کا باعث ہوا ہے۔
خلاصہ اوپر کے حوالوں کا یہ ہے کہ مِمَّا کے الفاظ نے اس امر پر دلالت کی ہے کہ جس شک کا ذکر اوپر ہوا ہے وہ قرآن کریم پر اعتراض کرنے والوں کے نزدیک قرآن کریم سے پیدا ہوا تھا اور ان کا یہ اعتراض اس جگہ بیان کیا گیا ہے کہ ہمیں تو قرآن کریم نے قلق اور اضطراب میں ڈال دیا ہے۔
اس آیت میں جو اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یہ شک پر دلالت نہیں کرتے بلکہ کفار کے اعتراض کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کفار کہتے ہیں کہ ہمیں تو اس قرآن نے شکوک میں ڈال دیا ہے ان کے اس دعویٰ کے جھوٹا ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے لئے فرمایا کہ اگر تم کو قرآن کی وجہ سے شک ہوا ہے تو ایسا ایسا کرو یعنی تمہارا یہ دعویٰ کہ قرآن کی وجہ سے شک پڑ گیا ہے غلط ہے۔ چنانچہ عربی کا محارہ ہے کہ اِنْ کُنْتَ عَبْدِیْ فَاَطِعْنِیْ اگر تو میرا غلام ہے تو میری اطاعت بھی کر۔ یہ ایسے موقعہ پر بولا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص جھوٹا دعویٰ کرتا ہے کہ میں تو آپ کا غلام ہوں۔ اس کے جواب میں وہ شخص جس کی غلامی کا دعویٰ قائل کرتا ہے کہتا ہے کہ اِنْ کُنْتَ عَبْدِیْ فَاَطِعْنِیْ یعنی تو اپنے اس قول میں کہ تو میرا غلام ہے جھوٹا ہے اگر سچا ہے تو پھر میری اطاعت بھی کر لیکن جبکہ تو اطاعت نہیں کرتا تو معلوم ہوا کہ صرف منہ سے غلامی کا دعویٰ کرتا ہے اسی مفہوم میں یہاں اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور مُراد یہ ہے کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ تم کو قرآن کریم نے شک میں ڈال
دیا ہے جھوٹا ہے اگر سچا ہے توپھر اس کا ثبوت اس طرح تم دے سکتے ہو کہ ایسی ہی ایک سورۃ بنا کر پیش کرو لیکن اگر تم ایسی سورۃ کے لانے کی کوشش بھی نہ کرو تو معلوم ہوا کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ قرآن کریم نے تم کو شکوک میں ڈال دیا ہے باطل ہے اور صرف دفع الوقتی کے طور پر ہے ورنہ جو کلام اس قدر گندہ اور خراب ہو کہ اس سے دلوں میں شکوک پیدا ہو جاتے ہیں اس کی مثل تو ایک بچہ بھی لا سکتا ہے کجا یہ کہ تمام کفار اور ان کے انصار مل کر بھی اس کی مثل نہ لا سکیں بلکہ اس کی کوشش تک جرأت نہ کر سکے ہوں پس ان کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔
اعتراض کرنا سہل ترین کام ہے جو کوئی شخص اپنے مد مقابل کے خلاف کر سکتا ہے۔ صداقت کے منکر ہمیشہ اعتراضوں تک ہی اپنے حملہ کو محدود رکھتے ہیں کبھی کوئی ٹھوس کام مقابل پر نہیں کرتے جس سے ان کے جوہر بھی ظاہر ہوں اور ان کے اعتراض کی حقیقت بھی ظاہر ہو۔ یہی حال قرآن کریم کے منکروں کا تھا۔ وہ قرآن کریم پر اعتراض تو کرتے تھے لیکن اس کے مقابل پر کوئی تعلیم ایسی پیش نہ کرتے تھے جو اس سے برتر تو الگ رہی اس کے برابر بھی ہو۔ آج تک قرآن کریم کے مخالفوں کا یہی حال رہا ہے مسیحی مصنف قرآن کریم پر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں لیکن اج تک اس مطالبہ کو پورا کرنے کی جرأت نہیں کر سکے۔ کہ اس کی مثل لائیں وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے انجیل کا فلاں مسئلہ چرا لیا ہے۔ تو راۃ سے فلاں بات اڑا لی ہے زرد شتی کتب سے فلاں تعلیم اخذ کر لی ہے لیکن یہ جرأت نہیں کہ انجیل توراۃ اور زردشتی کتب میں سے مضامین لے کر خود کوئی کتاب ایسی بنا دیں جو قرآن کریم جیسی جامع ہو شہد پر انسان اعتراض تو آسانی سے کر سکتا ہے کہ مکھیوں نے پھولوں سے خوشبو اُڑا لی پھلوں میں سے مٹھاس چرا لی۔ مگر بات تو تب ہے کہ ویسا شہد بنا کر دکھا دے اچھی چیزوں کو مختلف جگہوں سے اڑا کر کوئی نئی اور اعلیٰ چیز بنا دینا بھی تو ایک کمال ہے اگر یہ آسان بات ہے تو معترض ویسا ہی کام کر کے کیو ںنہیں دکھا دیتے۔ مگر یہ جواب بطور تنزل ہے۔ ورنہ قرآن کریم کا دعویٰ یہ ہے کہ اس میں وہ سب صداقتیں بھی موجود ہیں جو پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں چنانچہ فرماتا ہے فِیْہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیہ) اس میں سب قائم رہنے والی صداقتیں جو زمانہ کے لحاظ سے منسوخ کرنے کے قابل نہ تھیںموجود ہیں اور اس کے علاوہ فرماتا ہے وَیُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ (بقرہ ع ۱۸) یعنی یہ رسول تم کو وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم پہلے نہ جانتے تھے۔ یعنی اس کی تعلیم صرف انہی اچھی تعلیمات پر مشتمل نہیں جو پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں بلکہ اس سے زائد اس میں ایسی باتیں بھی ہیں جو پہلے دنیا کو معلوم نہ تھیں۔ اسی طرح فرماتا ہے فَاِذَٓا اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُواللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ (بقرہ ع ۳۱) یعنی جب تم امن میں آ جائو تو اللہ تعالیٰ کو ان صفات سے یاد کرو جو خدا تعالیٰ نے اس قرآن کریم کے ذریعہ سے تم کو سکھائی ہیں اور جن کا علم اس سے پہلے تم کو حاصل نہ تھا اِس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں صفات الٰہیہ کا ایسا زائد علم دیا گیا ہے جو اس سے پہلے دنیا کو حاصل نہ تھا۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ قرآن کریم میں بعض متشابہات ہیں یعنی ایسے امور ہیں جو پہلی کتب سے ملتے جلتے ہیں۔ اور بعض محکمات ہیں یعنی ایسے امور ہیں کہ جو دوسری کتب کے علاوہ ہیں اور فرماتا ہے ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وہی اس کتاب کی ماں ہیں یعنی وہی اس کے نزول کا سبب ہیں (آل عمران ع ۱) اسی طرح فرماتا ہے یَمْوُا اللّٰہُ مَا یَشَٓائُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ (رعد ع ۶) یعنی کفار اعتراض کرتے ہیں کہ یہ شخص پہلی کتب کے خلاف تعلیم لایا ہے اور یہ اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے تو ان سے کہدے کہ ہر قوم کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت پورا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس تعلیم کے بعض حصوں کو جو اسے دی گئی تھی مٹا دیتا ہے اور بعض حصے رہنے دیتا ہے اور اس کے پاس وہ احکام محفوظ ہیں جو اس کے زمانہ کے لئے ضروری ہیں اور جو نئے نبی کو دیئے جاتے ہیں۔ پس ان کا اعتراض فضول ہے۔ پہلی کتب کے مفید حصوں کو بھی ہم نے لے لیا اور ان کے علاوہ وہ نئی تعلیم جو پہلے زمانہ کے
مناسب حال نہ تھی اور اسی زمانہ کے مناسب حال تھی وہ بھی تجھ کو عطا کر دی۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم پہلی کتب کی مفید تعلیم اخذ کرنے کا تو خود اقرار کرتا ہے مگر وہ اس کے علاوہ اس اس سے زائد نئی تعلیمات کے پیش کرنے کا بھی دعویٰ دار ہے پس صرف چند متشابہ باتو ں کو پیش کر کے اعتراض کرنا خلاف دیانت ہے جسے دعویٰ ہو کہ قرآن کریم صرف چوری کے مضامین پر مشتمل ہے وہ پہلی کتب سے مضامین اخذ کر کے قرآن کریم کی مثل پیش کر دے اور پھر دیکھے کہ کیا اس کی محنت ان مضامین کا ہزارواں حصہ بھی پیش کرتی ہے جو قرآن کریم نے پیش کئے ہیں۔
اس آیت کا تعلق پہلی آیات سے یہ ہے کہ شروع سورۃ میں کہا گیا تھا کہ لَارَیْبَ فِیْہِ اس میں کوئی بات ریب والی نہیں جب تمام بنی نوع انسان کو ایک خدا کی پرستش کی طرف بلایا گیا اور مخالفین قرآن کی رگ حمیت بھڑکی تو انہوں نے یہ اعتراض کر دیا کہ تم ہمیں کیا دعوت دیتے ہو تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ اس کتاب میں کوئی ریب والی بات نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب نے شروع میں ہی وہ تعلیم دے دی ہے کہ جو شکوکو و شبہات کا دروازہ کھول دیتی ہے یعنی ایک خدا کی تعلیم دیتی ہے حالانکہ توحید کا مسئلہ (ان کے خیال کے مطابق) بالکل باطل ہے۔ اس قسم کی تعلیم کو سن کر تو ہم کو مذہب پر ہی شکوک و شبہات شروع ہو جاتے ہیں کہ کوئی یقینی سے یقینی بات بھی اعتراض سے محفوظ نہیں۔ پھر مذہب کا کیا فائدہ ہوا اور اس سے کیا تسلی حاصل ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ (۱) فَاتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (۲) وَادْ عُوْا شُھَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ تم دو کام کرو اوّل تو اس قسم کیکوئی سورۃ بنا لائو یعنے جو مضامین اس سے پہلے سورۃ بقرہ میں بیان ہوئے ہیں اس قسم کے مطالب پر مشتمل کوئی کلام پیش کر دو اور دوسرے یہ کہ اپنے شہداء کو پکارو۔
اوپر کی تشریح سے ظاہر ہے کہ اس جگہ جس بات کا مطالب کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ سورۃ بقرہ کی پہلی آیات میں جو مضمون گذرا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے کوئی سورۃ ایسی لے آئو جو اس معیار کو پہنچتی ہو جو ان مضامین میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ باقی قرآن کریم کی مثل لوگ لا سکتے ہیں بلکہ یہ حجت ملزمہ ہے کہ قرآن کریم میں جو اور اصول بیان ہوئے ہیں ان کی مثال تو تم نے کیا لانی ہے ان چند آیات میں بیان کردہ مضمون کے مطابق ہی کوئی سورۃ لے آئو کیونکہ وہی تمہارے اعتراض کا موجب ہوئے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیںکہ اس اعتراض سے پہلے قرآن کریم میں کیا مضامین گذرے ہیں تو ہمیں پہلی آیت میں ہی جس میں لَا رَیْبَ فِیْہِ کہا گیا ہے اور جس کی بناء پر کفار نے اپنے ریب کا ذکر کیا ہے یہ مضامین نظر آتے ہیں (۱) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ (الف) یہ موعود کتاب ہے یعنے پہلے انبیاء نے ایک کامل کتاب کی خبر دی تھی یہ وہی ہے اور اس کے ذریعہ سے ان انبیاء کی پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں (باء) یہ ایک کامل کتاب ہے اس میں تمام ضروری امور جو روحانی تکمیل کے لئے ضروری ہیں بیان ہیں (ج) یہ کتاب اس دُعا کو پُورا کرنے والی ہے جو سورۃ فاتحہ میں سکھائی گئی ہے یعنی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ہمیں سیدھا راستہ دکھا وہ راستہ جو منعم علیہ گروہ یعنے انبیاء صدیقوں شہداء اور صالحین کو دکھا گیا تھا (تفصیل کے لئے دیکھو نوٹ ۷؎ سورۃ فاتحہ زیر آیت اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ)
(۲) لَا رَیْبَ فِیْہِ یعنے (الف)اس میں کوئی بات ایسی بیان نہیں کی گئی جو فی الحقیقت قلق و اضطراب پیدا کرنے والی ہو بلکہ یہ ہر امر کے لئے دلائل و براہین مہیا کرتی ہے اور ہر گناہ اور نیکی کے اسباب بتا کر بدی کا دروازہ بند کرتی۔ اور نیکی کے لئے راستہ کھولتی ہے (باء) اس میں کوئی بات ایسی بیان نہیں کی گئی جس سے خدا تعالیٰ پر یا کسی راستباز انسان پر یا کسی سچی تعلیم پر کوئی تہمت لگائی گئی ہو (ج) اس سے
کوئی بات ایسی نہیں رہ گئی جس کا بیان کرنا روحانی تکمیل کے لئے ضروری ہو (د) اس میں کوئی تعلیم ایسی نہیں دی گئی کہ جو انسان کو مشقت یا ہلاکت میں ڈالتی ہو۔ اس کے بعد کی آیات میں مندرجہ ذیل امور بیان ہوئے ہیں۔
(۳) ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ یہ صرف انسان سے ہی اعمال حسنہ کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ وعدہ کرتی ہے کہ جو لوگ اس کی تعلیم پر چلیں گے انہیں خدا تعالیٰ اپنے وصال کے مقام پر پہنچائے گا اور اپنے قریب میں جگہ دے گا اور اپنے منشاء سے انہیں مطلع فرمائے گا۔
(۴) اس کا ضد سے انکار کرنے والے خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہونگے۔
(۵) جو لوگ اس سے اخلاص کا معاملہ نہ کریں گے خواہ عقیدہ کے لحاظ سے یا اخلاص عمل کے لحاظ سے وہ بھی آسمانی سزائوں میں مبتلا ہونگے۔
(۶) یہ ذاتِ باری کے متعلق سچی اور مدلل تعلیم پیش کرتی ہے۔
یہ وہ امو رہیں جو اس آیت سے پہلے گذر چکے ہیں اور مثل کا مطالبہ وہی سورہ پورا کر سکتی ہے جو ان تمام امور پر مشتمل ہو مگر ظاہر ہے کہ ان امور میں مثل کا مطالبہ پورا کرنا انسانی طاقت سے بالا ہے ایسی مثل تو وہی کتاب پیش کر سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو۔
چونکہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ میں ایک ایسا دعویٰ قرآن کریم کی نسبت کیا گیا تھا کہ جو انسان کے بس کا ہی نہیں بلکہ اسے صرف خدا تعالیٰ ہی پورا کر سکتا ہے اس لئے آخر میں یہ بھی فرما دیا وَادْ عُوْا شُھَدَآئَ کُمْ تم اپنے معبودوں کو بھی بلا لو کہ وہ تم کو الہام کریں کیونکہ ایک دعویٰ اس کتاب کا یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمانی الہام کا دروازہ کھلے گا۔
یہ وہ مطالعہ ہے جو اس آیت میں کیا گیا ہے اس میں زبان کی خوبی میں شامل ہے کیونکہ اگر زبان اعلیٰ نہ ہو تو مطلب واضح نہیں ہوتا اور شک پیدا ہوتا ہے پس جب یہ فرمایا اس میں کوئی امر ایسا نہیں جو قلق و اضطراب پیدا کرے تو اس میں یہ دعویٰ بھی آ گیا کہ اس کی زبان بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے اور اس کا کلام فصیح و بلیغ ہے۔ لیکن اس آیت کے یہ معنے کرنے کہ اس میں صرف اس امر کا مطالبہ ہے کہ قرآن کریم جیسی فصیح و بلیغ عبارت پیش کرو درست نہیں اور سمندر میں سے ایک قطرہ لے کر پیش کرنے والی بات ہے قرآن کریم کا مطالبہ وسیع ہے اور صرف زبان پر مشتمل نہیں اور نہ زبان کا یہاں کوئی ذکر ہے زبان کا ذکر تو لَارَیْبَ فِیْہِ سے ہی نکل سکتا ہے مگر اس میں بھی اور مطالب کا ذکر ہے اور یہ درست نہیں کہ لَارَیْبَ فِیْہِ کے ایک معنی کو لے لیا جائے اور باقی معانی کو چھوڑ دیا جائے اور نہ یہ درست ہے کہ صرف لَارَیْبَ فِیْہِ کے حصہ کو لے لیا جائے اور باقی مطالب جن کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ان کو چھوڑ دیا جائے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں کفار کے اس اعتراض کا کہ ہمیں تو قرآن کریم کے مضامین سے اور بھی شبہات دین پر پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں اور یا یہ کہ قرآنی مضامین کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں اور بھی شبہات پیدا ہو گئے ہیں ایسا منہ توڑ جواب دیا ہے کہ نہ اس سے کوئی اس سے پہلے عہدہ برا ہو سکا ہے اور نہ آیندہ کوئی ہو سکتا ہے۔ باقی رہے اعتراض تو وہ لوگ پہلے بھی کرتے چلے آئے ہیں اور پھر بھی کرتے چلے جائیں گے جب تک انسانوں میں تقویٰ سے خالی لوگ موجود ہیں اس وقت تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا۔ ہاں تعصب سے خالی ہو کر کوئی شخص اس مطالبہ کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو اسے اپنے عجز کے اقرار کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا چنانچہ قرآن کریم اگلی آیت میں خود ہی فرماتا ہے کہ تم لوگ اس کی مثل نہ قریب زمانہ میں نہ آیندہ کسی زمانہ میں لا سکو گے۔
قرآن کریم میں یہ مثل کا مطالبہ پانچ جگہ ہوا ہے۔ اور میرے نزدیک پانچوں جگہ میں اس کا مفہوم جدا جدا ہے ایک تو اسی آیت میںجس کی تفسیر اوپر بیان کی گئی ہے۔ دوم سورہ یونس ع ۴ میں۔ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرَاہُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَoسوم:۔ سورۃ ہود ع ۲ میں جہاں فرماتا ہے اَمْ یَقُوْ لُوْنَ افْتَرَاہُ قُلْ
فَاْ تُوْابعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَoچہارم سورہ بنی اسرائیل ع ۱۰ میں۔ وہاں آتا ہے۔ قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٓیٰ اَنْ یَاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَایَاْ تُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًاoپنجم سورۃ طور ع ۲ میں وہاں آیا ہے۔ اَمْ یَقُوْ لُوْنَ تَقَوَّ لَہٗ بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَ فَلْیَاْ تُوْا مَجِدِیْثٍ مِّثْلِٓہٖ اِنْ کَانُوْا صَادِقِیْنَo
ان پانچوں جگہوں میں سے سورہ بقرہ اور سورہ یونس میں تو ایک ہی قسم کا مطالبہ ہے۔ باقی تین جگہ میں علیحد علیحد مطالبے کئے گئے ہیں۔ چنانسہ سورہ بنی اسرائیل میں سارے قرآن کریم کی مثال کا مطالبہ کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر سارے جن و انس بھی اکٹھے ہو جائیں تو قرآن کی کی مثال نہیں لا سکیں گیح سورۃ ہود میں فرمایا ہے اگر تم سچے ہو تو دس سورتیں اپنے پاس سے بنا کر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے شائع کرو۔ سورہ بقرہاور سورہ یونس میں ایک سورۃ کا مطالبہ ہے اور سورہ طور میں ایک سورۃ کی بھی شرط نہیں ہے خواہ وہ ایک بات ہی بنا کر لے آئیں اب بظاہر یہ بات عجیب نظر آتی ہے کہ کہیں سارے قرآن کا مطالبہ ہے کہیں دس سورتوں کا مطالبہ ہے اور کہیں ایک سورۃ کا اور کہیں ایک ہی بات پر اکتفا کی گئی ہے اور طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرق کیوں ہے بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ ترتیب نزول کے لحاظ سے ایسا ہوا ہے۔
پہلے سارے قرآن کی مثال کا مطالبہ کیا۔ جب وہ نہ لا سکے تو دس سورتوں کا مطالبہ کیا۔ جب وہ بھی نہ لا سکے تو پھر فرمایا کہ ایک سورۃ ہی لے آئو۔ جب وہ بھی نہ لا سکے تو پھر فرمایا کچھ ہی لے آئو۔ خواہ ایک بات ہی ہو۔ میرے نزدیک اس میں کچھ استباہ معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ ان سورتوں میں سے کہ جن میں اس مضمون کا ذکر آیا ہے نزول کے لحاظ سے سب سے پہلے سورہ طور ہے اور اس میں قرآن کریم کی بجائے بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہ ہے۔ یعنی اس جیسا کوئی کلام لے آئو اور شرط ایک سورۃ کی بھی نہیں رکھی گئی۔ خواہ وہ کلام ایک سورۃ سے بھی کم ہو۔ پس عقلاً یہ بتا عجیب معلوم ہوتی ہے کہ سورۃ طور میں تو بغیر مقدار مقرر کرنے کے مثل کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ اور اس کے بعد سورۃ بنی اسرائیل میں پورے قرآن کا مطالبہ کیا گیا ہو اور بعد میں اس مطالبہ کو گرا کر دس سورتوں میں اور پھر دس سورتوں سے گرا کر ایک سورۃ میں محصور کر دیا گیا ہو۔
دوسرے یہ کہ یہ کوئی واقعہ تو ہے نہیں کہ ہم اس سے عبرت پکڑیں بلکہ ایک چیلنج ہے جو ہم نے دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے اب ہم دُنیا کے سامنے کیا پیش کریں آیا یہ کہ سارا قرآن لائو یا یہ کہ دس دسورتیں لائو یا ایک سورۃ یا ایک بات لائو اگر یک آیت کا مطالبہ کافی ہے تو ایک سورۃ کا مطالبہ کیوں کریں۔ اور اگر ایک سورۃ کا لانا کافی ہو سکتا ہے تو دس سورتوں کا مطالبہ کیوں کریں۔ اور اگر دس سورتوں کا لے آنا کافی ہے تو سارے قرآن کی مثل لانے کے لئے کیوں کہیں۔ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ اس میں ترتیب نکالنے کی ضرورت نہیں۔ اوّل تو اِن میں سے بعض سورتیں یسے قریب قریب کے زمانہ کی نازل شدہ ہیں کہ ان کی صحیح ترتیب کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ دوسرے قرآن کریم کی تنزیل اس طرح نہیں ہوئی کہ ایک وقت میں ایک ہی سورۃ نازل ہوئی ہو۔بلکہ قریب قریب نازل ہونے والی سورتیں بعض دفعہ ایک ہی وقت میں تین تین چار چار نازل ہوتی جاتی تھیں اور اِن میں سے ایک کو پہلی کہنا اور دوسری کو بعد کی کہنا اس لحاظ سے تو گو درست ہو کہ ایک کی آخری آیت پہلے اور دوسری
کی آخری آیت پیچھے نازل ہوئی ہو لیکن ایک کی سب آیتوں کے متعلق کہنا کہ یہ پہلے نازل ہوئی ہیں اور دوسری کی سب آیتوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ پیچھے نازل ہوئی ہیں درست نہیں ہو سکتا پس میرے نزدیک ان آیتوں میں ایسے مطالبات ہیں جو ترتیب نزول کے حل کرنے کے محتاج نہیںہیں اور سب کے سب ایک ہی وقت میں آج بھی اس طرح پیش کئے جا سکتے ہیں جس طرح کہ زمانہ نزول میں پیش کئے جا سکتے تھے۔
پیشتر اس کے کہ میں ان مختلف تحدیوں کی تشریح کروں جو ان آیات میں مذکور ہیں۔ میں اس عجیب بات کی طرف توجہ پھرانی چاہتا ہوںکہ یہ چیلنج جس جس جگہ کے لئے ہیں اُن کے ساتھ ہی مال و دولت اور طاقت و قدرت کا بھی ذکر آیا ہے سوائے سورہ بقرہ کے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کوئی نیا چیلنج نہیں ہے بلکہ سورۃ یونس کے چیلنج کو سورۃ بقرہ کے مضامین کی ضرورت کے لحاظ سے دہرایا گیا ہے (سورۃ یونس مکیہے اور سورۃ بقرہ مدنی ہے) اسلئے اس میںاس ذکر کو غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دیا گیا ہے اس کے سوا باقی سب سورتوں کو دیکھ لو۔ سب میں مال و دولت یا طاقت و قدرت کا ذکر ہے سورۃ یونس میں اس مطالبے سے چند آیات پہلے آیا ہے۔ قُلْ مَنْ یَّرْزُ قُکُمْ مِّنَ السَّمآئِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکَ السَّمْعَ وَالْاَ بْصَارَ وَ مَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الٰحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُالْاَ مْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَoگویا دعویٰ کیا ہے کہ سب خزانے اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں خواہ و رزق کے ہوں یا قوائے طبعیہ کے یا قوائے عملیہ کے ہوں یا مختلف قوتوں کو ایک نظام میں لانے کے متعلق ہوں۔اور پھر اس کے بعد فرمایا قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَائِ کُمْ مَنْ یَبْدَئُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ قُلِ اللّٰہُ یَبْدَؤُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ فَاَنّٰی تُؤْ فَکُوْنَ قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَآئِ کُمْ مَنْ یَّھْدِٓیْ اِلَی الْحَقِّ قُلِ اللّٰہُ یَھْدِیْ لِلْحَقِّ۔ اَفَمَنْ یَّھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُتَّبَعَ اَمَّنْ لَّایَھِدِّیْٓ اِلَّا اَنْ یُّھْدٰی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَoاس میں بھی طاقت و قوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پپر سورۃ طور میں تحدی کے بعد فرماتا ہے۔ اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئِ اَمْ ھُمْ الْخَالِقُوْنَo اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَo اَمْ عِنْدَ ھُمْ خَزَآئِنُ رَبِّکَ اَمْ ھُمْ الْمُصَیْطِرُوْنَo یہاں پر بھی دولت اور حکومت اور طاقت و قدرت کا ذکر کیا گیا ہے۔
سورۃ ہود کی آیت سے پہلے بھی لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌاَوْ جَآئَ مَعَہٗ مَلَکٌ آیا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں تحدی کے بعدآیا ہے وَقَا لُوْا لَنْ نُّؤْ مِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَتْبُوْعًا اَوْ تَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَ لْھٰرَ خِلٰلَھَا تَفْجِیْرًا اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآئَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیْلًاo اَوْیَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٌ اَوْ تَرْقٰی فِی السَّمٓائٍ اس جگہ بھی مال و دولت اور طاقت و قوت کا ہی ذک رہے۔ غرض چاروں جگہ پر ایک ہی قسم کا مطالبہ بیان ہوا ہے یا مطالبہ کا ذکر نہیں۔ لیکن مطالبہ کا جواب دیا گیا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ خزانوں کے سوال اور مطالبہ مثل میں کوئی گہرا تعلق ہے۔ اور وہ یہی تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو خزانہ قرار دیا ہے اور مخالفین کے خزانہ کے مطالبہ کا یہ جواب دیا ہے کہ اس کا اصل خزانہ قرآن کریم ہے اور لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ کا بھی یہی جواب دیا ہے کہ ملائکہ ظاہری مقابلوں کے لئے نہیں اُترتے بلکہ کلام الٰہی لے کر اُترا کرتے ہیں اور وہ اس پر نازل ہو چکا ہے پس یہ کہنا کہ اس پر ملک نہیں اُترا یا یہ کہ اُترنا چاہیئے بے معنی قول ہے اور ایسی چیز کا مطالبہ ہے جو پہلے سے حاصل ہے۔ پھر چونکہ ملائکہ کا اُترنا یا روحانی خزانہ کا حصول بظاہر ایک دعویٰ معلوم ہوتا ہے جس کا ثبوت نہیں اس کے لئے خود قران کریم کے بے مثل ہونے کو پیش کیا ہے کہ یہ اپنی صداقت کی آپ دلیل ہے اور اس کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اسے لاثانی خزانہ اور منجانب اللہ کلام ثابت کرتے ہیںاور یہ جو فرق کیا ہے کہ جس جگہ زیادہ کلام کا مطالبہ ہے اس جگہ کفار کی طرف سے خزانوں یا ملک کا مطالبہ ہے اور جس جگہ تھوڑے کلام کی مثل