• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ231

کا مطالبہ ہے اس جگہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا یہ کفار خزانوں کے مالک اور قانونِ قدرت کے متولی ہیں سو اس کی وجہ یہ ہے کہ جن مقامات پر پورے قرآن یا دس سورتوں کا مطالبہ ہے اس جگہ سوال ایسا ہے جو کفار کے ذہن میں آ سکتا تھا اور موٹا تھا۔ پس ان کے سوال کو پیش کر کے اس کا جواب دے دیا گیا ہے لیکن بعض پہلو قرآن کریم کے بے مثل ہونے کے ایسے رہ جاتے ہیں جن کے متعلق سوال کرنے کا بھی کفار کو خیال نہیں آ سکتا تھا اگر ان کابیان کرنا بھی کفار کے سوالات پر منحصر رکھا جاتا تو وہپہلو پوشیدہ ہی رہتے۔ اس لئے ان پہلوئوں کو قرآن کریم نے خود سوال پیدا کر کے بتا دیا اور اس طرح قرآن کریم کی تکمیل کے سب پہلوئوں کو روشن کر دیا۔ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَo
اب میں تفصیل کے ساتھ ایک ایک مطالبہ کو الگ الگ لے کر بتاتا ہوں کہ کس طرح اِن آیات میں قرآن کریم کی مختلف خوبیوں کے مقابلہ کی دعوت دی گئی ہے او رہر جگہ کے مناسب حال زیادہ یا کم کلام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سب سے بڑا مطالبہ سارے قرآن کی مثل لانے کا ہے اور یہ سورۃ بنی اسرائیل میں ہے اس مطالبہ میں یہ شرط نہیں رکھی گئی۔ کہ جس کلام کو منکر پیش کریں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف بھی منسوب کریں بلکہ جائز ہے کہ ان کا پیش کردہ کلام مفتریات میں سے نہ ہو اور ان کا صرف یہ دعویٰ ہو کہ گو ہم نے یہ کلام خود بنایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے لیکن یہ کلام قرآن کریم کی مثل یااس سے بڑھ کر ہے۔ چونکہ مثل کی حد بندی بھی ضروری تھی کہ وہ کلام کس امر میں مثل ہو۔ اس لئے اس کی تشریح بھی خود کر دی اور فرمایا کہ وَلَقَدْ صَرَّ فْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰدَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثِلٍ فَاَبٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کَفُوْرًا اس کلام میں ہر پہلو سے لوگوں کے فائدہ کے لئے ہر اک ضروری دینی امر پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اس کے انکار پر مصر ہیں۔ یہی چیز ہے جس میں مثل کا مطالبہ کیا گیا ہے اگر فی الواقع وہ اس کلام کو انسانی کلام سمجھتے ہیں تو ان چار خوبیوں والا کلام پیش کریں جو اپنی خوبیوں میں قرآن کریم کے برابر ہو (۱) اس میں ہر ضروری دینی مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہو یعنی اعتقادات۔ فلسفۂ اعتقادات۔ صفات باری اور فلسفۂ ظہور صفات باری۔ علم کلام۔ عبادات۔ فلسفۂ عبادات علم اخلاق۔ فلسفۂ اخلاق۔ معاملات۔ فلسفۂ معاملات۔ مدنیت اقتصادیات۔ سیاسیات کا جو حصہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا فلسفہ معاد اور اس کے متعلق تمام امور وغیرہ وغیرہ۔ سب امور ضرور یہ پر اس میں روشنی ڈالی گئی ہو (۲) وہ بحث جو ان امور کے متعلق کی گئی ہو سیر کن ہو نہ صرو وسعت کے رُو سے احاطہہو یعنی سب علوم کے متعلق کچھ نہ کچھ بحث ہو بلکہ حق کی گہرائی کا بھی احاطہ ہو اور ہر مسئلہ کے ہر پہلو کو پیش کر کے اس میں ہدایت دی گئی ہو (۳) وہ تمام تعلیم باوجود اپنی وسعت اور باریکی کے مضرت رساں نہ ہو بلکہ اس میں نفع ہی نفع ہو (۴) اس میں کسی ایک قوم یا طبقہ کے فائدہ کو مدنظر نہ رکھا گیا ہو بلکہ تمام بنی نوع انسان کی فطرت کو مدنظر رکھا گیا ہو اور ہر قسم کی طبیعت او رہر قسم کے حالات اور ہر درجہ اور ہر فہم کے انسان کے متعلق اس میں ہدایت موجود ہو۔
چونکہ قرآن کریم ابھی مکمل نہیں ہوا تھا اس لئے یہ نہیں فرمایا کہ تم ابھی اس کی مثل لے آئو بلکہ یہ فرمایا ہے کہ نہ لا سکو گے یعنی نہ اس کی موجودہ حالت میں اور نہاس وقت جب یہ مکمل طو رپر نازَ ہو جائے گا حق یہی ہے کہ قرآن کریم نے ایسے رنگ میں روحانی امور پر بحث کی ہے کہ اوپر کے چاروں امو رکے مقابلہ میںاس قدر کلام میں بھی کوئی شخص اس کی کوئی مثل نہیں لا سکتا تھا جو اس وقت تک نازل ہو چکا تھا۔ اور اس وقت کے لحاظ سے قرآن کہلاتا تھا۔
اس آیت کے مطالب میںایک اور امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جس کا بیان کرنا فائدہ سے خالی نہ ہو گا اور وہ یہ کہ اس میں علم الارواح کے ماہرین کو بھی جنہیں انگریزی میں سپر یچولسٹ کہتے ہیں مخاطب کیا گیا ہے اور جن سے مُراد وہی ارواح ہیں جن سے تعلق پیدا کر کے روحانیت کی باریکیاں معلوم کرنے کے علم الارواح کے علماء مدعی ہیں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ232

اور بتایا ہے کہ قرآن کریم کی مثل نہ تو انسان خود لا سکتے ہیں اور نہ پوشیدہ ارواح کی مدد سے لا سکتے ہیں جن کی مدد کا ان کو دعویٰ ہے اس جگہ جن سے مراد وہ جنات نہیں کہ جو عوام الناس میں مشہور ہیں کیونکہ اِن کی مدد سے کلام لانے کا مطالبہ ایک مہمل بات ہو جاتی ہے نیز اس آیت سے پہلے وَیَسْئَلُوْ نَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِرَبِّیْ بھی مذکور ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس جگہ ارواح کا ہی ذکر ہے نہ کہ جنات کا (تفصیل کے لئے دیکھو اس آیت کی تفسیر بنی اسرائیل رکوع ۱۰ میں)
دوسری آیت جس میں کفار کا یہ اعتراض بیان کیا ہے کہ اس کے پاس خزانہ اور ملک نہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر یہ درست ہے تو تم دس سورتیں مفتریات کی اس کے مقابلہ میں لے آئو۔ پس اس جگہ سورتوں کو بطور خزانہ کے پیش کیا اور مفتریات کا مطالبہ کر کے بتایا ہے کہ اگر اس کا دعویٰ وحی یا ملائکہ کا جھوٹا ہے اور اس کے ساتھ ملائکہ نہیں آئے تو تم بھی زیادہ نہیں تو دس سورتیں ایسی پیش کرو جن کے متعلق دعویٰ ہو کہ ملائکہ نے باذن الٰہی ہم پر اُتاری ہیں پھر دیکھو کہ تمہارا کیا انجام ہوتا ہے اور اگر تم میں یہ جرأت نہیں کہ تم ایسا جھوٹا دعویٰ کر سکو تو محمد رسول کی نسبت کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ اس قدر افتراء کر رہا ہے۔ اور اگر افتراء کر رہا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی گرفت سے محفوظ کیوں ہے غرض اس جگہ عقلی مقابلہ کے ساتھ آسمانی مقابلہ کو بھی شامل کیا گیا ہے اور یہ جو اس جگہ فرمایا کہ دس سورتیں ایسی لائو اس کی یہ وجہ ہے کہ اس جگہ قرآنکریم کیہر رنگ میں مکمل ہونے کا دعویٰ نہ تھا بلکہ کلام بعض القرآن کے متعلق تھا یعنی مخالف معترض تھا کہ اس کے بعض حصے قابل اعتراض ہیں جیسا کہ آیت فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَّعْضَ مَایُوْحٰٓی اِلَیْکَ سے ظاہر ہے اور اسی طرح کفار کے اس سوال سے بھی ظاہر ہے کہ اس کے پاس خزانہ اور ملک نہیں۔ پس اس جگہ سارے قرآن کے مقابلہ کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ یہ مطالبہ کیا ہے کہ تم قرآن میں جو بھی کمزور سے کمزور حصہ سمجھتے ہو اس کے مقابلہ میں دس سورتیں بنا کر پیش کردو تا تمہارے دعویٰ کی آزمائش ہو جائے۔
دس کا عدد اس واسطے استعمال کیا کہ یہ عدد کامل ہے اور چونکہ معترض کے دعویٰ کو رد کرنا تھا اس وجہ سے اس کو دس سورتیں بنانے کو کہا کہ تم کو ایک مثال نہیں دس مثالیں بنانے کی اجازت دیتے ہیں پس یہاں دس کا لفظ اس لئے نہیں رکھا گیا کہ وہ ایک سورۃ تیار کر سکتے تھے بلکہ اس لئے کہ ان کے اس اعتراض کو دُور کرنے کا بہترین ذریعہ یہی تھا کہ انہیں کئی مواقع اعتراض کے دیئے جاتے۔ اور سب اس لئے نہیں کہا کہ اس وقت جن معترضوں کا ذکر تھا وہ صرف بعض حصوں کو قابل اعتراض قرار دیتے تھے سب کو نہیں۔ غرض سورۃ بنی اسرائیل میں چونکہ تکمیل کا دعویٰ تھا اس میں قرآن شریف کی مثل کا مطالبہ کیا گیا۔اور سورۃ ہود میں چونکہ کفار کے اس اعتراض کا جواب تھا کہ بعض حصے غیر معقول ہیں اس لئے فرمایا کہ دس ایسے حصے جو تمہارے نزدیک سب سے کمزور اور قابل اعتراض ہوں تم انہی کے مقابل میں کوئی کلام بنا کر پیش کردو تاکہ کفار یہ نہ کہیں کہ ہمیں صرف ایک اعتراض کا حق دیا تھا اور اس کا مقابلہ کرنے میں ہم سے غلطی ہو گئی۔
تیسرا مقام جس میں قرآن کریم کی بے مثلی کا دعوی ہے سورۃ یونس ہے اس میں ایک سورۃ کا مطالبہ کیا ہے جو پہلے دونوں مطالبوں سے کم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مطالبہ اپنے ایک دعویٰ کے ثبوت کے لئے تھانہ کہ کفار کے اعتراض کی تردید میں۔ اس جگہ اس آیت سے پہلے دعویٰ کیا گیا تھا کہ سب تصرف اللہ تعالیٰ کے احتیار میں ہے اور اس کے ثبوت میں قرآن کریم کو پیش کر کے اس کے متعلق پانچ دعوے کئے تھے وَمَا کَانَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ تَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ لَارَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِ الْعَالَمِیْنَoیعنی اوّل اس میں ایسی تعلیم ہے جسے انسان بنا ہی نہیں سکتا۔ دوم پہلی کتب کی اس میں تصدیق ہے۔ سوم اس میں پہلی کتب کے نامکمل احکام کو مکمل کیا گیا ہے۔ چہارم یہ کلام بالکل محفوظ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ233

اور انسانی دست بُرد سے پاک ہے۔ پنجم اس کی تعلیم تمام قسم کے انسانوں اور تمام زمانوں کے لئے ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر یہ سچ نہیں تو پھر تم بھی ایک سورۃ ایسی بنا کر پیشکردو جس میں وہ پانچ باتیں جو بیان کی گئی ہیں ایسے مکمل طو رپر بیان ہوں جیسی کہ اس سورۃ یعنی سورۃ یونس میں بیان کی گئی ہیں لیکن اگر ایک سورہ کے مقابلہ میں بھی تم کوئی کلام پیش نہ کر سکو تو پھر سمجھ لو کہ سارے کلام میں کس قدر کمالات مخفی ہونگے اور ان کا بنانا انسانی طاقت سے کس قدر بالا ہو گا۔ غرضکہ اس جگہ مِثْلِہٖ سے مراد ان پانچ کمالات کی مثل والا کلام ہے جو سورۃ یونس میں بیان کئے گئے ہیں۔
اب رہی آخری آیت یعنی فَلْیَاْ تُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِٓہٖ اِنْ کَانُوْا صَادِقِیْنَ (سورۂ طور ع ۲) اگر تم سچے ہو تو کوئی ایسی ہی بات پیش کر کے دکھائو۔ میرے نزدیک اس آیت میں سب سے چھوٹا مطالبہ ہے اور وہ صرف ایک مثال کا ہے خواہ وہ ایک سورۃ سے بھی چھوٹی ہو اور یہ مطالبہ بھی اپنے دعویٰ کے ثبوت میں ہے نہ کہ کفار کے دعویٰ کے رد میں اور وہ دعویٰ وہی ہے جو اس سورۃ کے شروع میں کیا گیا ہے یعنی وَالطُّوْرِ وَ کِتَابٍ مَّسْطُوْرٍ فِیْ رَقٍّ مَنْشُوْرٍ وَّالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ وَالسَّقْفِ الْمَرْ فُوْعِ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ مَّالَہٗ مِنْ دَافِعٍ۔ یعنی یہ کتاب جس کا وعدہ کوہِ طور پر دیا گیا تھا اور جو لکھی جائے گی اور اسلام جس کے متبعین کی تعداد بہت بڑھ جائے گی اور نہ صرف عوام بلکہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ روحانی و جسمانی فضائل والے اس میں داخل ہونگے اور یہ روحانیت کا چشمہ جو مختلف ملکوں کو سیراب کرے گا ان دونوں امور کو ہم بطور قیامت کی دلیل کے پیش کرتے ہیں۔ اس ذکر کے بعد فرمایا کہ کیا یہ لوگ اس کلام کو بناوٹی کہتے ہیں اگر ایسا ہے تو جو جو اور جس جس قسم کی پیشگوئیاں اوپر پیش کی گئی ہیں ان کی مانند یہ بھی ایک پیشگوئی پیش کر دیں اور مفتریات کی بھی ہم شرط نہیں لگاتے انہیں اجازت ہے کہ چاہیں تو پچھلی الہامی کتب سے ہی کوئی ایسی مثال نکال کر پیش کر دیں۔ مگر یاد رکھیں کہ یہ اس کی نظیر کہیں سے نہیں لا سکتے۔ اس مطالبہ میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی بھی کوئی شرط نہیں اور نہ یہ شرط ہے کہ اپنے پاس سے کوئی پیشگوئی کریں بلکہ اجازت دی ہے کہ خواہ خود بنالیں یا پچھلی کتب سے جو خواہ الہامی ہو خواہ غیر الہامی نکال کر پیش کر دیں اور پھر مطالبہ بھی نہایت چھوٹا رکھا ہے کہ ایسی ایک ہی پیشگوئی پیش کر دیں حالانکہ قرآن کریم میں اور بھی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں اور پھر دشمن کے عاجز رہنے کی وجہ سے بتا دی ہے کہ ایسی پیشگوئی کے بیان کرنے کے لئے تو زمین اور آسمان کے خالق اور خزانوں کے مالک اور نگران اور روحانی ترقی کے مالک اور غیب کے مالک کی ضرورت ہے اور یہ باتیں ان میں موجود نہیں پس یہ کیونکر اس کی مثل بنا سکتے ہیں۔
دوسرے حصے کو یعنی پہلی کتب سے مثال نہ لا سکنے کے دعویٰ کو رد کرنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ وہ کتب سچی تھیں صرف درجہ کا سوال تھا یہ مطالبہ بھی باقی مطالبوں کی طرح اب تک قائم ہے۔
اب کیا کوئی انسان خواہ کسی مذہب کا ہو۔ سورۃ طور کی اس آیت کی مثل لانے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ اگر ہے تو آگے آ کر اُسے پیش کرے۔
پانچواں مطالبہ سورۃ بقرہ کا ہے جس کی تشریح اوپر گذر چکی ہے۔
اوپر کی تشریحات سے یہ امر ثابت ہے کہ در حقیقت یہ پانچوں مطالبے الگ الگ ہیں اور سب ایک ہی وقت میں قائم ہیں کوئی مطالبہ کسی دوسرے مطالبہ کو منسوخ نہیں کرتا۔ اور سب غلطی اِسی امر سے لگی ہے کہ خیال کر لیا گیا ہے کہ جہاں جہاں مثل طلب کی گئی ہے وہاں صرف فصیح عربی کی مثل طلب کی گئی ہے اور سب آیتو ںمیں ایک ہی مطالبہ ہے حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے ان پانچ سورتوں میں ایک ہی مطالبہ نہیں بلکہ مختلف مطالبے ہیں اور ہر مطالبہ کے مناسب حال پورے

 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ234

قرآن یا بعض قرآن کی مثل طلب کی گئی ہے۔
اوپر کی تشریح سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیئے کہ مثل کا مطالبہ انہی سورتوں تک محدود ہے جن میں اس دعویٰ کو پیش کیا گیا ہے کیونکہ گو ایک جگہ سارے قرآن کی مثل لانے کا ایک جگہ دس سورتوں کی مثل لانے کا اور ایک جگہ اِس دعویٰ کی مثل لانے کا مطالبہ ہے جو سورہ طٰہ کے شروع میں بیان کیا گیا ہے اور سورہ یونس کا مطالبہ بھی اسی مضمون کے متعلق ہے جو سورہ یونس میں بیان ہوا ہے مگر سورہ بقرہ کا مطالبہ عام ہے کیونکہ سورہ بقرہ کے شروع میں جو مضمون ہے وہ ساری سورتوں میں مشترک ہے۔ قرآن کریم کی ہر ایک سورۃ گذشتہ انبیاء کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی ہے۔ (دیکھو سورہ فاتحہ میں بسم اللہ کا نوٹ ۲؎) اسی طرح سب کی سب سورتیں ریب والی تعلیم سے پاک ہیں اور سب ہی ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ہیں پس اِس سورۃ میں جو مطالبہ ہے وہ باقی ساری سورتوں کے متعلق بھی ہے اور کسی ایک سورۃ کی مثل بھی اگر کوئی ان شرائط کے مطابق لے آئے جو سورہ بقرہ کے شروع میں بیان ہوئی ہیں اور جو شخص ایسی کوشش بھی کرے گا مُنہ کی کھائے گا۔ ایک جاہل شخص نے جو عربی بھی صحیح طور پر نہ لکھ سکتا تھا چند سال ہوئے تمسخر کے رنگ میں قرآن کریم کی مثل پیش کی تھی آج اس کا نام و نشان بھی کہیں باقی نہیں اور قرآن کریم کے پیش کردہ امو رمیں صرف ایک امر کو لے لیا جائے یعنی ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کو تو اس کا دعویٰ مثل کا جھوٹا ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا تو ماننے والا دُنیا میں کوئی بھی نہیں پھر وہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کیونکہ ہوئی۔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کے الفاظ کتاب کے الہامی ہونے پر بھی دلالت کرتے ہیں اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو الہام کا جھوٹا دعویٰ کرے تباہ کر دیا جاتا ہے کسی زمانہ میں مسیلمہ کذاب نے بھی جھوٹے الہام کا دعویٰ کیا تھا مگر چند ہی سال میں ہلاک ہوا اور اس کی تباہی نے اور قرآن کریم کے قائم رہنے نے بتا دیا کہ اس کا پیش کردہ کلام قران کریم کی مثل نہ تھا۔ امام رازیؒ نے ایک مضحکہ خیز کلام اس کا نقل کیا ہے جو اس نے سورۃ الکوثر کے مقابل پر پیش کیا تھا جو یہ ہے اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الْجَمَاھِرَ فَصَلِّ لِرِبِّکَ وَ ھَاجِزْ اِنَّ مُبْغِضَکَ رَجُلٌ کَافِرٌ۔ اس کلام کو مثل قرار دینا کسی مجنون کا کام ہے یہ تو اس سے بھی احمقانہ فعل ہے جیسے کوئی شخص غالب اور میر کی غزلوں کو لے کر اس میں بعض الفاظ بدلکر غالب او رمیر کے مدمقابل ہونے کا دعویٰ کرے قرآن کریم کی ہی سورۃ میں سے بعض الفاظ بدلکر ایک کلام پیش کرنا اور وہ بھی معنے اور مطلب سے عاری حالانکہ سورہ کوثر زبردست پیگوئیو ںپر مشتمل ہے جن میں سے بہت سی غیر معمولی حالات میں پوری ہو چکی اور بعض پوری ہونے والی ہیں ایک مجنون ہی کا کام ہو سکتا ہے اور بعض مسیحی مصنفوں کا اس پوچ عبارت کو قرآن کریم کی سورہ کے مدمقابل پیش کرنا یقینا ان کے تقویٰ کو اچھی شکل میں پیش نہیں کرتا۔ مگر میں پھر کہتا ہوں قرآن کریم کا دعویٰ ہر سورۃ کے بارہ میں ہے کہ اس پر قیامت تک عمل کیا جائے گا مگر مسیلمہ کا کلام کہاں ہے اور اُسے کون مانتا ہے؟
مِمَّا نَزَّلْنَا… الخ اس آیت کے متعلق ایک یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بعض مفسرین نے کفار کے شبہ کی وجہ نَزَّلْنَا کے باب تفعیل سے ہے اور باب تفعیل میں ایک خاصیت آہستہ آہستہ یا بار بار فعل کے صدور کی پائی جاتی ہے اس لئے مراد یہ ہے کہ اے کفار اگر تم کو قرآن کے آہستہ آہستہ اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل ہونے پر اعتراض ہے اور تمہارے نزدیک سارا قرآن اکٹھا اُترتا تو اور بات تھی مگر وہ چونکہ آہستہ آہستہ پیش کیا جا رہا ہے اور آہستہ آہستہ پیش کرنے میں اس کے مصنف کو آسانی رہتی ہے کہ جوں جوں واقعات پیش آتے جاء…ں وہ ان کے مطابق کلام بناتا جاتا ہے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ235

اسلئے وہ معجزانہ کلام نہیں ہو سکتا تو ہم تم کو کہتے ہیں کہ تم ایک ٹکڑا ہی قرآن جیسا بنا دو اگر تم ایک ٹکڑا ہی بنا سکے تو تمہارا اعتراض درست ہو گا ورنہ نہیں۔ معنًی تو یہ استنباط لطیف معلوم ہوتا ہے لیکن عربی زبان کے قواعد کے لحاظ سے یہ امر درست نہیں ثابت ہوتا کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ باب تفعیل میں تکرار اور کثرت کا مفہوم پایا جاتا ہے جن کے مجرد کا صیغہ متعدی ہو مثلاً ضَرَبَ کا لفظ ہے اس کے معنی ہیس کسی کو مارا یہ متعدی ہے اس کو اگر ضَرَّبَ بنا دیا جائے تو اس میں تکرار اور شدت کے معنے پیدا ہو جائیں گے اور ضَرَبَ کے معنے اگر مجرد مارنے کے ہوں گے تو ضَرَّبَ کے معنے بار بار اور خوب مارنے کے ہوں گے۔ یا ذَبَحَ کا لفظ ہے اس کے معنے کسی کو ذبح کرنے یا ہلاک کرنے کے ہوتے ہیں اگر ذَبَّحَ کہیں گے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اسے بار بار ذبح کیا یعنی ایک ہی وار میں ذبح نہیں کر دیا بلکہ بار بار چھری پھیر کر آہستہ آہستہ ذبح کیا مگر نَزَلَ جو نَزَّلَ کا مجرد ہے اس کے معنے اُتارنے کے نہیں ہوتے بلکہ اُترنے کے ہوتے ہیں یعنی وہ لازم ہے متعدی نہیں اس صورت میں نَزَّلَ کی زاء کا دوبارہ لانا صرف اسے متعدی بنائے گا بار بار یا آہستہ آہستہ اُتارنے کے معنے نہ دے گا۔ کیونکہ عربی زبان کا اصل قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی حرف زیادہ کیا جائے تو وہ کچھ نہ کچھ زیادتی معنوں میں کرتا ہے اور اس جگہ لازم کو متعدی بنا کر زیادتی حرف نے اپنی غرض کو پورا کر دیا ہے۔ اس امر کا مزید ثبوت کہ خالی نَزَّلَ کے لفظ سے یہ استدلال نہیں ہو سکتا اس امر سے بھی ہو سکتا ہے کہ کفار کا یہ اعتراض کہ قرآن کریم کیوں ایک ہی دفعہ نہیں اُتارا گیا جس آیت میں بیان کیا گیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں۔ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْالَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلۃً وَّاحِدَۃً (فرقان ع ۳) یعنی کفار کہتے ہیں کہ کیوں اس پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ نہیں اُتارا گیا اور اس آیت میں بھی نُزِّلَ زاء کی تضعیف سے استعمال ہوا ہے پس کم سے کم اس آیت میں نَزَّلَ (بِتَشْدِیْدالزَّائِ) سارے قرآن کے اکٹھا نازل ہونے کے معنوں میں استعمال ہؤا ہے پس جب اکٹھا اُتارنے کے لئے بھی تنزیل کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ اس جگہ قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُتارنے پر اعتراض ہے درست ثابت نہ ہوتا کیونکہ کفار کے مُنہ سے اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کو بیان کرتے وقت اُنْزِلَ کا لفظ بیان نہیں کیا بلکہ نُزِّلَ کا لفظ بیان فرمایا ہے پس اس آیت سے یہ استدلال درست نہیں معلوم ہوتا لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ نَزَّلَ تشدید کے ساتھ کہیں بھی آہستہ آہستہ اُترنے کے معنوں پر دلالت نہیں کرتا۔ کیونکہ بعض جگہ پر اس لفظ کے بعد مصدر بھی لایا گیا ہے جیسے نَزَّلْنَاہُ تَنْزِیْلًا کہا گیا ہے (بنی اسرائیل ع ۱۲) جس سے یہ غرض پوری ہو گئی ہے اور مصدر کی زیادتی نے وہ معنے پیدا کر دئے ہیں مگر بہرحال آیت زیر تفسیر میں بار بار اور آہستہ اُترنے پر اعتراض نہیں بلکہ توحید کے مضمون پر اعتراض ہے جو اس آیت سے پہلے بیان ہؤا ہے اور مراد یہ ہے کہ توحید کی تعلیم نے دلوں میں قسم قسم کے شک پیدا کر دیئے ہیں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ236

۲۵؎ حل لغات

فَاتَّقُوْا:۔ باب افتعال سے امر جمع کا صیغہ ہے اور اِتَّقٰی۔ یَتَّقِیْ کے لئے دیکھو حل لغات سورہ بقرہ ۳؎
وَقُوْدُھَا:۔ اَلْوَقُوْدُ:۔ مَا تُوْ قَدُبِہِ النَّارُ مِنَ الْحَطَبِ۔ایندھن جس سے آگ جلائی جاتی ہے (اقرب)
الحِجَارَۃُ:۔ الحَجَرُ کی جمع ہے اور الحَجَرُ کے معنی ہیں الجَوْھَرُ الصُّلْبُ پتھر (مفردات) اس کی جمع اَحْجَارٌ بھی آتی ہے اور حَجَرَانٍ سونے اور چاندی کو کہتے ہیں (اقرب)
اُعِدَّتْ:۔ اَعَدَّ سے ماضی مجہول مؤنث کا صیغہ ہے اور اَعَدَّہٗ لاَمْرٍکَذَا کے معنی ہیں ھَیَّأَہُ وَاَحْضَرَہٗ اس کو اس کے لئے تیار کیا اور حاضر کیا (اقرب) پس اُعِدَّتْ کے معنے ہونگے وہ تیار کی گئی ہے اور حاضر رکھی گئی ہے۔
اَلْکَافِرِیْنَ: الکافِرُ کی جمع ہے اور یہ کَفَرَ کا اسم فاعل ہے مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لعات سورۂ بقرہ ۷؎
تفسیر۔ فرماتا ہے کہ اگر تم اس دعویٰ کا مقابلہ نہ کر سکو اور قرآن کریم کی کسی سورۃ کی مثل نہ لا سکو اور وہ امور جو یہاں بیان کئے گئے ہیں اپنے کلام میں بتا نہ سکو اورتم ایسا کبھی نہ کر سکو گے تو سمجھ لو کہ یہ کلام خدا تعالیٰ کا ہے اور تم انسان کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ کر رہے ہو اور اس صورت میں تم کو اِس سزا کے بھگتنے کے لئے بھی تیار ہو جانا چاہیئے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی صداقتوں کا مقابلہ کرنے والو ںکو ملتی ہے۔
ولن تفعلوا کے معنے یہ بھی ہیں کہ تم ایسا ہر گز نہ کر سکو گے اور یہ بھی کہ تم ایسا نہیں کرو گے۔ دوسرے معنوں کے رُوسے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو کفار خدا تعالیٰ کے ساتھ بعض ہستیوں کو شریک قرار دیتے تھے مگر اپنے دلوں میں جانتے تھے کہ ان میں الہام نازل کرنے کی طاقت نہیں اور وہ کبھی وحی نازل نہیں کرتے پس وہ کس منہ سے اپنے شہداء کو بلاتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب مشرکوں کو توجہ دلائی کہ اپنے معبودوں سے پوچھو کہ وہ فلاں امر کے بارہ میں کیا کہتے ہیں تو انہوں نے مجبور ہو کر جواب دیا کہ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاھٰٓؤُلَآئٍ یَنْطِقُوْنَ (انبیاء ع ۵) یعنی تم جانتے ہو کہ وہ بولتے نہیں۔ اسی طرف قرآن کریم بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہم تو اس کلام کو خدا تعالیٰ کے کلام کے طور پر پیش کرتے ہیں تم کو بھی یہ کہنا ہو گا کہ ہمارے بتو ںنے یا خدا تعالیٰ کے سوا دوسرے خود ساختہ معبودوں نے اس سورۃ کے مضامین ہمیں بتائے ہیں جو قرآن کریم کے مقابل پر ہم پیش کرتے ہیں مگر تم شرک کے دعوے تو بہت کرتے ہو مگر اس مقابلہ کے لئے تم کبھی تیار نہیں ہو گے کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہارے معبود تمہارے ذہنوں میں ہی ہیں ان کا خارجی وجود کوئی نہیں ا ور وہ زندہ خدا کی طرح بول نہیں سکتے۔
جس سزا سے ڈرایا گیا ہے اس کے متعلق بتایا کہ وہ سزا آگ ہے جس کا ایندھن ناس اور حجارہ ہیں۔ نار کے معنی اگر دوزخ کے کئے جائیں تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ جس دوزخ میں کافر جائیں گے اِس کا ایندھن کچھ انسان او رپتھر ہیں یعنی مشرک اور ان کے بُت جن کو وہ پُوجتے ہیں چنانچہ ایک دوسری جگہ آتا ہے اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ (انباء ع ۷) تم اور تمہارے بُت جہنم میں جائو گے یہ بھی مُراد ہے کہ وہ آگ پتھروں کی ہو گی جو زیادہ سخت ہوتی ہے جیسے پتھر کے کوئکہ یا چونہ کے پتھر کی آگ نہایت سخت ہوتی ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایندھن کا لفظ استعارہ کے طور پر ہو اور معنے یہ ہوں کہ اس آگ کے بھڑکانے کا موجب
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ237

انسانوں اور پتھرو ںکا تعلق ہو گا یعنیبُت پرستی۔
ناس او رحجارہ کی تشریح بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ کی ہے کہ ان الفاظ سے دوزحیوں کی دو اقسام بیان کی گئی ہیں ایک وہ جو کسی قدر محبت الٰہی اپنے دل میں رکھتے ہیں اور ناس کے لفظ سے جو محبت پر دلالت کرتا ہے بالکل خارج نہیں ہو گئے مگر ایک گروہ دوزخ میں وہ جائے گا جو حجارہ کے مشابہ ہو گا یعنی ان کے دل محبت الٰہی سے بالکل سرد ہونگے او روہ پتھروں کی مانند ہونگے کہ کوئی رأفت اور شفقت ان کے دلو ںمیں باقی نہ رہی ہو گی۔ یہ معنے نہایت لطیف ہیں اور قرآن کریم سے ان کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں کفار کو پتھروں سے مشابہت دی گی ہے چنانچہ یہود کی نسبت فرماتا ہے ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْ بُکُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَھِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً (بقرہ ع ۹) یعنی اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھنے کے بعد بھی تمہارے دل پتھروں کی طرح ہو گئے بلکہ بعض کے دل تو پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو گئْ پس اس تشبیہہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ دوزخ کی آگ مںی عام کفار بھی ڈالے جائیں گے اور وہ لوگ بھی جو شقاوت کی وجہ سے پتھروں کے مشابہ ہو گئے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ اس صورت میں تو حجارہ کو پہلے بیان کرنا چاہیئے تھا اور ناس کو بعد میں۔ کیونکہ وہ لوگ جو پتھروں کی طرح ہو گئے ہیں دوزخ کے زیادہ مستحق ہیںتو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں فرمایا یہ گیا ہے کہ فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُ ھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ۔ یعنی تم کو آگ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور ظاہر ہے کہ اس حکم سے فائدہ اٹھانے کی زیادہ قابلیت انہی لوگوں میں ہو سکتی ہے کہ جو کسی قدر انشانیت کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہوں پس موقعہ کے لحاظ سے ناس کا لفظ حجارہ سے پہلے ہی رکھنا مناسب تھا۔
قرآن کریم نے شرارت کے لحاظ سے بھی کفار کے دو نام رکھے ہیں جن اور ناس اور سزا کے لحاظ سے بھی دو نام رکھے ہیں حجارہ اور ناس۔ سورۃ الناس میں فرماتا ہے اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ یعنے وسوسے ڈالنے والے وجود سے میں پناہ مانگتا ہوں جو کبھیجن ہوتا ہے اور کبھی انسان۔ اس محاورہ کا استعمال سورۃ حٰم سجدہ میں بھی ہوا ہے وہاں فرماتا ہے کہ دوزخ میں ڈالے جانے کے وقت عام دوزخی کہیں گے کہ رَبَّنَٓا اَرِنَا الَّذَیْنَ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ نَجْعَلْھُمَا تَحْتَ اَقَدَا مِنَا لِیَکُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ (ع ۴) یعنی اے ہمارے رب جن لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا خواہ جن تھے خواہ انس ان کو ہمارے حوالے کر کہ انہیں خواب پائوں تلے روندیں۔ اس آیت میں بھی گمراہ کرنے والے انسانوں کو دو گروہ قرار دیا ہے اورایک کو جن کہا ہے اور ایک کو انس (جن کی پوری تشریح کے لئے دیکھو حجر ۲۶؎) غرض گمراہ کرنے کے لحاظ سے کفار کی دو قسمیں بتائی گئی ہیں جن اور انس۔ اور سزا کے لحاظ سے بھی دو قسمیں بتائی ہیں ناس اور حجارہ۔ اس فرق کی یہ وجہ ہے کہ شرارت کو مدنظر رکھتے ہوئے تو اخفا کے پہلو پر زور دینا ضروری ہوتا ہے کیونکہ شریر لوگ ہمیشہ باریک راہوں سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنی شرارتوں کو ظاہر کر دیں تو لوگ ان کے فریب میں نہ آویں پس ان کی اس کوشش کے مدنظر ان کا جن رکھا لیکن سزا کا جب ذکر ہو تو ان کی سزا کی سختی کی وجہ بتانے کے لئے ان کے دلوں کی سختی کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہوتا ہے تا سزا کے ذکر کے ساتھ اس کی سختی کی معقولیت بھی ثابت ہو پس ایسے موقعہ پر انہی انسانو ںکو جو شرارت اور فساد کے لحاظ سے جن کہلاتے تھے دوخ کی سزا کے لحاظ سے پتھر کے نام سے یاد کیا۔
گو اس آیت میں آگ اور خصوصاً پتھروں کی آگ کا ذکر کیا گیا ہے لیکن مابعدالموت سزا اور جزاء کے بارہ میں جو کچھ قرآن کریم نے بیان کیا ہے وہ تمثیلی زبان میں ہے جیسا کہ آگے چل کر مختلف آیات کے ماتحت بتایا جائے گا صرف عذاب اور ثواب کو انسانی ذہن کے قریب لانے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ238

کے لئے وہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن کو انسان اس دُنیا میں سمجھتا ہے تا وہ بعد الموت عذاب یا ثواب کی کیفیتوں کو ایک حد تک سمجھ سکے۔
اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ عذاب الٰہی صرف انکار کی صورت میں آتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو نجات کے لئے پیدا کیا ہے۔ اِس آیت سے بعض مسلمانو ںکے اس خیال کی تردید ہوتی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ہر مومن و کافر دوزخ کا مزہ تھوڑا بہت ضرور چکھے گا کیونکہ اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ دوزخ صرف کفار کے لئے تیار کی گئی ہے مگر یہ بھی اس کے معنی نہیں کہ کوئی مومن کہلانے والا دوزخ میں نہ جائے گا کیونکہ قرآن کریم نے ایسے لوگوں کو جو اسلام کی تعلیم پر پوری طرح عمل نہیں کرتے اور اپنی اصلاح کی بھی کوشش نہیں کرتے بمنزلہ کفار کے قرار دیا ہے پس ایسے لوگ جو عقیدہً مسلمان ہوں لیکن عملاً کفار کا سا رنگ رکھتے ہوں اس آیت کے مضمون کی وجہ سے عذاب سے محفوظ نہیں سمجھے جا سکتے۔
یہ بھی یاد ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے رو سے سزا دائمی اور ابدی نہیں ہوتی نہ اس کی غرض انتقام اور بے حکمت تکلیف دینا ہے بلکہ اسلام کی تعلیم کے رو سے سزا وقتی ہوتی ہے اور اس کی غرض یہ ہے کہ وہ پاکیزگی پیدا کی جائے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے قابل بنا دے اور اس کی حیثیت ایک شفا خانہ کی ہے جو بیماری کے علاج کے لئے مقرر کیا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل آیندہ متعلقہ آیات کے ماتحت آئے گی (مثال کے لئے دیکھو سورہ ہود نوٹ ۱۰۹؎)

۲۶؎ حل لغات

بَشِّرْ:۔ اَلْبَشَرَۃُ ظَاھُِر الْجِلْدِ جلد کے اوپر کے حصہ کو بَشَرَۃٌ کہتے ہیں اور بَشَّرْتُہُ کے معنے ہیں اَخْبَرْتُہٗ بِسَارٍّ بَسَطَ بَشَرَۃَ وَجْھِہِ وَ ذَالِکَ اَنَّ النَّفْسَ اِذا سُرَّتْ اِنْتَشَرَالدَّمُ فِیْہَا اِنْتِشَارَ الْمَائِ فِی الشَّجَرِ میں نے اسے خوشخبری
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ239

سنائی جس سے اس کے چہرہ پر اثر ہوا اور چہرہ خوشی سے پھیل گیا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب نفس انسانی خوش ہو تو خون اس میں ایسے ہی پھیل جاتا ہے جس طرح درخت میں پانی۔ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کفََرُ وْا بِعَذابٍ اَلِمْمٍ فَاسْتِعَارَۃُ دَالِکَ تَنْبِیْہٌ اَنَّ اَسَرَّ مَا یَسْمَعُوْنہٗ الخَبَرُ بِمَایَنَا لُھُمْ مِنَ الْعَذَابِ اور کفار کو عذاب کی خبر دیتے ہوئْ بشارت کا لفظ استعمال کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خوش کرنے والی بات جو وہ سنیں گے وہ اس عذاب کی خبر ہو گی جو انہیں پہنچے (مفردات) تاج میں ہے اَلْبَشَارَۃُ الْمُطْلَقَۃُ لَاتَکُوْنُ اِلَّا بِالْخَیْرِ بشارت کا لفظ جب بغیر کسی قید کے بولا جائے تو اس سے مُراد اچھی خبر ہوتی ہے۔ وَ اِنَّمَا تَکُوْنُ بِالشَّرِّ اِذَا کَانَتْ مُقیَّدَۃً کَقَوْلِہٖ تعالیٰ فَبَشِّرْ ھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ اور وہ بُری چیز کے لئے اس وقت بولا جاتا ہے جبکہ ساتھ کی بُری بات کا ذکر ہو جیسے کہ آیت مذکورہ میں عَذَاب اَلِیْم کے ساتھ اسے مقید کیا گیا ہے وَالتَّبْشِیْرُ یَکُوْنُ بِالْخَیْرِ وَالشَّرِّکَقَوْلِہٖ تَعَالیٰ فَبَشِّرْ ھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ لیکن تبشیر کا لفظ خیر اور شر دونں معنوں کے ادا کرنے کے لئے بولا جاتا ہے وَقَدْ یَکُوْن ھٰذَا عَلیٰ قَوْ لِہِمْ تحِیَّتُکَ الضَّرْبُ وَعِتَابُکَ السَّیْفُ اور تبشیر کا یہ استعمال ایسا ہی ہے جیساکہ کسی شخص کو جو سخت غُصیلا ہو کہتے ہیں کہ تیرا تحفہ مار ہے اور تیری ناراضگی تلوار۔ یعنی معمولی غصہ میں تو تلوار نکال لیتا ہے اور کسی پر خوش ہو تو مار کا تحفہ دیتا ہے اسی طرح یہ کہہ دیا گیا کہ انہیں عذاب کی بشارت ملے گی وَالتَّبْشِیْرُ فِیْ عُرْفِ اللُّغَّۃِ مُخْتَصَّۃٌ بِالْخَبَرِ الَّذِیْ یُفِیْدِ السُّرُوْرَ اِلَّا اَنَّہٗ بِحَسْبِ اَصْلِ اللُّغَۃِ عِبَادۃٌ عَنِ الْخَبرِ الَّذِیْ یُؤَثِّرُ فِی الْبَشَرَۃِ تَغَیُّرًا وَّھٰذَا یَکُوْنُ لِلْحُزْنِ اَیضًا فَوَجَبَ اَنْ یَکُوْنَ لَفْظُ التَّبْشِیْرِ حَقِیْقَۃً فِی الْقِسْمَیْنِ اور لفظ تبشیر عام لغت میں خوشی کی خبر دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن اصل لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے معنی ایسی خبر دینے کے ہیں جس سے چہرہ پر اثر ہو اور یہ دونوں طرح ہو سکتا ہے خوشی سے بھی اور غم و اندوہ سے بھی۔ اس لئے در حقیقت یہ لفظ دونوں معنے اپنے اندر رکھتا ہے (تاج)
الصَّالِحَات:۔ الصَّالِحَۃُ کی جمع ہے جو صَلَحَ سے نکلا ہے اور صَلَحَ الشَّیْئُ کے معنے ہیں ضِدُّ فَسَدَ کوئی چیز فساد سے پاک ہو گئی نیز کہتے ہیں ھٰذَ ایَصْلُحُ لَکَ اَیْ مِنْ بَابَتِکَ یعنی یہ تیرے مناسب حال ہے اور صَالَحَہٗ کے معنے ہیں وافقہ اس سے موافقت کی الصَّالِحُ کے معنے ہیں ضِدُّ الْفَاسِدِ فساد سے پاک وَالصَّلَاحِیَۃُ حَالَۃٌ بَکُوْنَ بِھَا الشَّیْئُ صَالِحاً وہ حالت جس سے کوئی چیز مناسب و موزون ہو جائے (اقرب) پس صالحان کے معنے ہونگے وہ اعمال جو فساد سے پاک اور بامصلحت اور مناسب حال ہوں۔
جَنّٰتٌ:۔ جَنَّتٌۃ کی جمع ہے اور اَلْجَنَّۃُ جَنَّ میں سے ہے وَاَصْلُ الْجَنِّ سَتْرُ الشَّیْئِ یعنی جَنَّ کے اصل معنے کسی چیز کو ڈھانپنے کے ہیں۔ یُقَالُ جَنَّہٗ اللَّیْلُ چنانچہ جَنَّہُ اللَّیْلُ کا محاورہ یہی معنے ادا کرنے کے لئے مستعمل ہے کہ رات نے اس کو ڈھانپ لیا۔ وَالْجَنَّۃُ کُلُّ بُسْتَانٍ ذِیْ شَجَرٍ یَسْتُرُ بِاَشْجَادِہِ الْاَرْضَ اور جنت ہر اس باغ کو کہتے ہیں جس میں کثرت سے درخت ہوں اور وہ درختوں کے سایہ سے زمین کو ڈھانپ لے۔ وَقَدْ تُسَمَّی الْاَشْجَارُ السَّاتِرَۃُ جَنَّۃَّ اور ڈھانپنے اور چھپانے والے یعنے گھنے درختوں کو بھی جنت کہتے ہیں وَسُمِّیَتِ الْجَنَّۃُ اِمَّا تشْبِیْھًا بِالْجنَّۃِ فِی الْاَرْضِ وَاِنْ کَانَ بَیْنَھُمَا بَوْنٌ وَاِمَّا لِسَتْرِہِ نِعَمَھا عَنَّا الْمُشَارَ اِلَیْھَا بقَوْلِہٖ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ اور جن کو اس لئے جنت کے نام سے پکارا گیا ہے کہ یا تو وہ دنیاوی باغات کے مشابہ ہے اگرچہ ان میں اور اس میں بہت فرق ہے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ240

یا اس وجہ سے ہے کہ اس کی نعمتیں ہم سے پوشیدہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ میں فرمایا ہے کہ جنت کی نعماء کاکسی کو علم نہیں (مفردات)
اَلْاَنْھٰرُ:۔ النَّھْرُ کی جمع ہے او رالنَّھْرُ کے معنے ہیں مَجْرَیِ المَائِ الْفَائِضِ بہنے والے پانی کے چلنے کی جگہ۔ وَجَعَلَ اللّٰہُ تعالیٰ ذٰلِکَ مَثَلاً لِّمَایُدِ رُّمِنْ فَیْضِہٖ وَفَضْلِہٖ فِی الْجَنَّۃِ عَلَی النَّاسِ قَالَ اِنَّ الْمُّتَقِیْنَ فِی جَنّٰتٍ وَّنَھَرٍ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ سے بطور مثال کے اپنے اس فیض اور فضل کو جو اس کے بندوں پر جنت میں بکثرت نازل ہو گا بیان کیا ہے۔ جیسے کہ فرمایا اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَھَرٍ کہ متقی باغات اور نہروں میں ہونگے وَالنَّھَرُ السَّعَۃُ تَشْبِیْھًا بِنَھْرِ المَائِ نَھَر کے معنی وسعت کے ہیں۔ نہر کا پانی چونکہ وسیع ہوتا ہے اس لئْ اس کو اس پر قیاس کر لیا چنانچہ کہتے ہیں نَھْرٌ نَھِرٌ اَیْ کَثِیْرُ الْمَائِ بہت پانی والا دریا (مفردات)
اَزْوَاجٌ:۔ زَوْجٌ کی جمع ہے اور زَوْجِ کے معنے ہیں کُلُّ وَاحِدٍ مَعَہٗ اٰخَرُ مِنْ جِنْسِہٖ ہر اک وہ چیز جس کے ساتھ اس کی جنس میں سے ایک اور وجود بھی ہو (اقرب) عام لوگ زوج کے معنے سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ زوج کے معنے جوڑے کے ہیں حالانکہ عرب لوگ اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے زوج کا لفظ استمعال نہیں کرتے بلکہ وہ تثنیہ کا صیغہ بولتے ہیں مثلاً وہ کبوتروں کے جوڑے کے لئے (مذکر اور مؤنث کے لئے) زَوْحُ حَمامٍ نہیں کہیں گے بلکہ زَوْجَانِ مِنْ حَمَامٍ کہیں گے اسی طرح دو موزوں کے لئے زَوْجَانِ مِنْ خَفَافٍ کہیں گے چنانچہ قرآن مجید میں سورہ ہود کی آیت قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلِّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنَ بھی اس استعمال کو واضح کرتی ہے اور اس سے ثابت ہے کہ زوج کے معنے نرو مادہ کے نہیں بلکہ یا نریا مادہ کے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اس آیت میں اِثْنَیْنِ کا لفظ لگا کر واضح کر دیا گیا ہے کہ مُراد دو ہم جنس جانور ہیں نہ کہ دو جوڑے (یعنی چار جانور مُراد نہیں) حضرت نوحؒ کو حکم تھا کہ ضروری جانوروں میں سے ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ اپنے ساتھ رکھ لیں۔ پس آیت وَلَہُمْ فِیْھَا اَزْوَاجٌ میں اَزْوَاجٌ سے مراد ہم جنس ساتھی کے ہیں یعنی ایسے وجود جن کے ساتھ مل کر تمام ترقیاں اور تمام آرام مکمل ہونگے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ سوائے ذات باری کے ہر چیز ایک جوڑے کی محتاج ہے اس قاعدہ کے مطابق جنتی بھی جوڑوں کے محتاج ہونگے خواہ مرد ہوں یا عورتیں۔ باقی رہا یہ سوال کہ وہ جوڑے کس قسم کے ہونگے یہ تفصیل اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ انسان اس کو تفصیلاً اسی وقت معلوم کرے گا جب وہ جنت میں جائے گا۔
مُطَھَّرَۃٌ:۔ طَھَّرَ سے اسم مفعول مؤنث کا صیغہ ہے اور طَھَرَ (مجرد) کے معنی ہیں ضِدُّ نَجِسَ پاک ہو گیا اور طَھَّرَہٗ کے معنے ہیں جَعَلَہٗ طَاھِرًا اسے پاک کیا (اقرب) مفردات میں ہے الطَّھَارَۃُ ضَرْبَانِ طَھَارَۃُ جِسْمٍ وَ طَھَارَۃُ نَفْسٍ پاکیزگی دو قسم کی ہوتی ہے (۱) جسمانی (۲) باطنی پس اَزْوَاجٌ مُطَھَّرَۃٌ کے معنے ہوں گے پاک ساتھی۔
خَالِدُوْنَ:۔ خَلَدَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور الخُلْدُ کے معنے عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ اَلْبَقَائُ باقی رہنا۔ الدَّوَامُ چلتے ہی چلے جانا۔ اور خَلَدَ (یَخْلُدُ) خُلُوْدًا کے معنے ہیں دَامَ وَ بَقِیَ دائم رہا اور باقی رہا کہتے ہیں خَلَدَ الرَّجُلُ خَلْدً اوَ خُلُوْدًا اَیْ اَبْطَأَ عَنْہُ المَشِیْبُ وَ قَدْاَ سَنَّ کہ اس آدمی کی کی عمر زیادہ ہو گئی۔ اور بڑھاپا نہ آیا۔ خَلَدَ بِالمَکَانِ وَاِلیٰ المَکَانِ کے معنے ہیں اَقَاَمَ بِہٖ کسی جگہ میں ٹھہر گیا بس گیا اور جب خَلَدَ اِلَی الْاَرْضِ کہیں تو یہ معنے ہونگے کہ لَصِقَ بھَا وَاطْمَأَنَّ اِلَیْھَا کہ وہ زمین پر چمٹ گیا اور اس پر مطمئن ہو گیا (اقرب) کلیات ابی البقاء میں ہے کُلُّ مَایَتَبَا طَأُعَنْہُ التَّغَیُّرُ وَالْفَسَادُ تَصِفُہُ العَرَبُ بِالْخُلُوْدِ کَقَوْ لِھِمْ لِلْاَ یَّامِ
 
Top