• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ241

خَوَالِدُ وَ ذٰلِکَ لطُوْلِ مَکْثِھَا لَا لِلدَّ وَامِ کہ ہر وہ چیز جس سے تغیر اور فساد دُور رہے اس پر عرب خُلُوْدٌ کا لفظ بولتے ہیں جیسے اَیَّام کے لئے خَوَالِد کا لفظ بولتے ہیں او ریہ ان کی لمبائی کے لئے کہا جاتا ہے نہ اس لئے کہ وہ ہمیشہ رہتے ہیں اور مفردات میں ہے کہ اَلْخلُوْدُ ھُوَ تَبَرِّی الشَّیْئِ مِنْ اِعْتِرَاضِ الْفَسَادِ وَ بَقَّائُ ہٗ عَلَی الْحَالَۃِ الَّتِیْ ھُوَ عَلَیْہَا کسی چیز کا خراب ہونے سے محفوظ اور اپنی اصلی حالت پر رہنا خُلُود کہلاتا ہے وَاَصْلُ الْمُخَلَّدِ اَلَّذِیْ یَبْقٰی مُجدَّۃً طَوِیْلۃً اور مُخَلَّہ کے اصلی معنے اس چیز کے ہیں جو ایک لمبے عرصہ تک رہے ثُمَّ اسْتُھِیْرَ لِلْمَبْقِیِّ دَائِمًا پھر ہمیشہ رہنے والی چیز کے لئے یہ لفظ استعارۃً استعمال ہونے لگا۔ وَالْخُلُوْدُ فِی الْجَنَّۃِ بَقَائُ الْاَ شْیَائِ عَلَی الْحَالَۃِ الَّتِی عَلَیْہَا مِنْ غَیْرِ اِعْتِرَاضِ الْفَسَادِ اور جنت میں خُلُوْد سے مُراد یہ ہے کہ اشیاء بغیر خراب ہونے کے اپنی حالت پر رہیں گی۔
تفسیر۔ اس آیت میں مومنوں کے انعامات کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انہیں جنات میں جگہ ملے گی جن کے ساتھ نہریں متعلق ہونگی۔ مومنوں کے انعامات کا مسئلہ مخالفین اسلام کے لئے قابلِ اعتراض بنتا چلا آیا ہے اس پر ذیل کے اعتراض کئے جاتے ہیں (۱) اس قسم کے انعام کا وعدہ انتہائی درجہ کی لالچ ہے اور کامل ایمان کے منافی ہے کیونکہ جس ایمان کا باعث لالچ ہو وہ ایمان نہیں کہلا سکتا (۲) ایمان کے نتیجہ میں مادی انعامات قرآن نے تجویز کئے ہیں جو قابل اعتراض ہے (۳) اگر مرنے کے بعد مادی انعامات ملنے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک مرنے کے بعد پھر یہی جسم زندہ کیا جائے گا جو عقل کے خلاف ہے کیونکہ یہ جسم تو فنا ہو جاتا ہے اور ایک ہی جسم کے اجزاء کئی کئی انسانوں میں استعمال ہو جاتے ہیں پھر وہ جسم کس کس کو ملے گا (۴) اِس آیت میں اور متعدد آیات میں بتایا گیا ہے کہ مومنوں کو جنت میں بیویاں ملینگی اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جنسی تعلقات بھی ہونگے جو قابلِ اعتراض ہے اور جنسی تعلقات کی خواہش کا اخروی زندگی کے متعلق پیدا کرنا اور بھی قابلِ اعتراض ہے نیز جنسی تعلقات تو نسل چلانے کے لئے ہوتے ہیں پھر کیا وہاں بھی نسل چلے گی (۵) جنات کی کیفیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک عیش و طرب کا مقام ہو گا نہ کہ روحانی اور یہ انعام قابلِ قدر نہیں۔
خلاصہ ان اعتراضات کا یہ ہے کہ اسلام نے محض نفسانی خواہشات کو انگیحت کر کے اُخروی زندگی کو بہت ادنیٰ درجہ دے دیا ہے اور اس طرح اس زندگی کا پاک مفہوم خراب کر دیا ہے۔
ان اعتراضات کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ جنت کے اُس نقشہ کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے۔
اول۔ تو یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن کریم نے صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ اگلے جہان کے انعامات کا سمجھنا انسانی عقل سے بالا ہے پس اس دنیا کی زندگی سے اُخروی زندگی کا قیاس کرنا درست نہیں قرآن کریم فرماتا ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّٓا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً بِّمَا کانُوْا یَعْمَلُوْنَo (سجدہ ع ۲) یعنی کوئی انسان بھی اِس کو نہیں سمجھ سکتا کہ ان کے لئے اگلے جہان میں کیا کیا نعمتیں مخفی رکھی گئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے بارہ میں جو کچھ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے وہ تمثیلی زبان میں ہے اور اس سے وہ مفہوم نکالنا درست نہیں جو اس دنیا میں اسی قسم کے الفاظ سے نکالا جاتا ہے اس مضمون کی تشریح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اَعْدَدْتُ لِعبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ242

مَالاَ عَیْنٌ رَأَتَ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلیٰ قَلْبِ بَشَرٍ (بخاری جلد دوم کتاب بدء الخلق باب صفتہ الجنہ و مسلم جلد ۴ کتاب الجنتہ وصفتہ نعیمہا والہا) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندو کے لئے آخرت کی زندگی میں وہ کچھ تیار کر چھوڑا ہے کہ جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے او رنہ کسی انسان کے فکر نے اس کی حقیقت اِس دنیا کی حقیقت سے بالکل مختلف ہے کیونکہ اگر وہاں بھی اسی قسم کے مادی باغ اور مادی نہریں اور مادی پھل اور مادی بیویاں ہونی ہیں تو یہ چیزیں تو ایسی ہیں جنہیں آنکھوں نے دیکھا بھی ہے اور کانوں سے سنا بھی ہے اور فکر انسانی ان کی حقیقت کو سمجھتا بھی ہے۔
اصولی طور پر ان انعامات کے متعلق سورہ رعد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ تَجْرِیْ مِنْ تَجْتِہَا الْاَ نْھٰرُاُکُلُہَا دَآئِمٌ وَظِلُّہَا تِلْکَ عُقْبَی الَّذِیْنَ اتَّقَوْاوَّ عُقْبِی الْکَافِرِیْنَ النَّارُ (ع ۵) یعنی متقیوں کو جن جنات کا وعدہ دیا گیا ہے ان کی کیفیت یہ ہے کہ نہریں ان کے تابع ہو کر بہتی ہونگی اور ان کے پھل بھی دائمی ہونگے اور ان کے سائے بھی دائمی ہونگے یہ مومنوں کا آخری مقام ہو گا اور کافروں کا آخری مقام آگ ہو گا۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ وہ باغات جو اُخروی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اِس دُنیا کے باغوں سے مختلف ہیں کیونکہ ان کے پھل بھی دائمی ہیں اور اُن کے سائے بھی دائمی ہیں یعنی ان میں زوال نہیں۔ لیکن مادی اشیاء میں زوال کا پیدا ہونا لازمی ہے کیونکہ مادی اشیاء میں تحلیل کا سلسلہ چلتا ہے اور جن چیزوں میں تحلیل کا سلسلہ چلے انہیں غذا کی ضرورت بھی ہوتی ہے اس کے برخلاف جن میں تحلیل کا سلسلہ نہ ہو ان کو غذا کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ پس وہ جنات ایسی ہیں کہ نہ غذا کی محتاج ہیں اور نہ ان پر فنا آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی جنات ہر گز مادی نہیں ہو سکتیں۔
جنات کی تفصیل ایک اور جگہ قرآن کریم میں یوں بیان ہوئی ہے۔ مَثَلُ الْجَنَۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْھَٓا اَنْھَارٌ مِّنْ مَّآئٍ غَیْرِ اٰسِنٍ وَ اَنْھَارٌ مِّنْ لَّبِنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ وَاَنْھَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّدَّۃٍ لِّلشَّارِ بِیْنَ وَ اَنَھَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًی وَلَھُمْ فِیْہَا مِنْ کُلِّ الثَّمَوٰتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ (محمدؐ ع ۲) یعنی جس جنت کا وعدہ متقیوں کو دیا گیا ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں نہریں بہتی ہیں ایسے پانی کی جس کے لئے سڑنا ناممکن ہو گا۔ اور ایسے دودھ کی نہریں بہتی ہپیں جن کا مزہ کبھی بگڑا نہیں اور ایسی شرابوں کی نہریں رواں ہیں جو پینے والوں کے لئے لذت کا موجب ہوتی ہیں اور ایسی شہد کی نہریں جاری ہیں جو بالکل مصفیٰ ہے موم وغیرہ کوئی شئے اس میں نہیں۔ اور انہیں وہاں تمام اقسام کے پھل ملیں گے اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت بھی ملے گی۔ اس آیت میں جو امور بیان ہوئے ہیں ان سے ظاہر ہے کہ یہ جنتیں مادی نہیں کیونکہ جو پانی کبھی سڑے نہیں جو دودھ کبھی بگڑے نہیں جو شراب خمار پیدا نہ کرے جس شہد میں موم نہ ہو وہ ان مادی اقسام کی اشیاء میں سے تو ہو نہیں سکتا۔
جنت کی شراب کے متعلق جو یہ آیا ہے کہ لَذَّۃٍ لِّلشَّارِ بِیْنَ اور اس سے میں نے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ خمار پیدا کرنے والی نہ ہو گی اس کا ثبوت قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سے ملتا ہے جس میں مذکور بالا آیت کے مفہوم سے ملتا جلتا مضمون بیان ہوا ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُطَافُ عَلَیْھِمْ بِکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ بَیْضَآئَ لَذَّۃٍ لِّلشَّارِ بِیْنَ لَا فِیْہَا غَوْلٌ وَّلَا ھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ (الصافات ع ۴) یعنی مومنوں کے پاس چھلکتے ہوئے پیالے بار بار لائے جائیں گے وہ سفید ہوں گے اور پینے والوں کے لئے موجب لذت ہونگے نہ تو ان سے خمار
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ243

ہو گا او رنہ مومن ان کو پی کر مدہوش ہونگے۔ اس آیت میں بھی لَذَّۃٍ لِّلشَّارِ بِیْنَ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور بعد میں لذت کی تشریح کر دی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نہ تو نشہ ہو گا اور نہ نشہ اُترنے کے بعد کا خمار۔ اس سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیوی شراب حقیقی لذت کا موجب نہیں ہوتی بلکہ در حقیقت غفلت پیدا کر کے غم غلط کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے مگر جنت کی شراب نہ نشہ کرے گی اور نہ بعد کا خمار اس سے پیدا ہو گا۔ اسی طرح اس شراب کے بارہ میں ایک دوسری جگہ آتا ہے وَسَقَا ھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا (دھر ع ۱) اللہ تعالیٰ انہیں وہ کچھ پینے کو دے گا۔ جو پاک اور پاک کر دینے والا ہو گا۔ اسی طرح فرماتا ہے۔ یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ خِتٰمُہٗ مِسْکٌ وَ فِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَا فِسُوْنَ وَ مِنَ اجُہُ مِنْ تَسْنِیْمٍ عَیْنًا یَّشْرَبُ بِہَا الْمُقَرَیُوْنَ (تطفیف) مومنوں کو جنت میں خوشبودار شراب پینے کو دی جائے گی جس پر مہریں لگی ہوئی ہونگی اور اس کا آخری حصہ مشک کا ہو گا اور چاہیئے کہ جس نے خواہش کرنی ہو ایسی چیز کی خواہش کرے اور اس کی ملاوٹ کثرت اور بلندی سے ہو گی۔ وہ کثرت او ربلندی ایک چشمہ ہے جس سے مقرب لوگ پانی پیا کرتے ہیں اسی طرح لکھا ہے یَتَنَازَعُوْنَ فِیْھَا کَأ سًالَّا لَغْوٌ فِیْہَا وَلَا تَا ثِیْمٌ (طور ع ۱) یعنی مومن جنت میں ایسے شراب سے بھرے ہوئے پیالے ایک دوسرے سے چھین جھپٹ کر لیں گے جن میں نہ ت وکوئی لغو بات ہو گی او رنہ اس کو پی کر ایک دوسرے کو گالیاں دینگے اوپر کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں ایک ایسی شراب ملے گی جو نہ نشہ لائے گی نہ خمار پیدا کریگی۔ کثرت او ربلندی والے ایک چشمہ کا پانی بلا کر وہ مومنوں کو دی جائے گی اس میں مشک کی سی خوشبو ہو گی وہ پاک ہو گی اور جو اسے پئے گا اسے پاک کردیگی اور وہ ایسی شراب ہو گی کہ اس کے پینے والے نہ تو لغو باتیں کریں گے اور نہ ایک دوسرے کو گالیاں دینگے یہ تو جنت کی شراب کا حال بیان ہوا ہے لیکن دُنیا میں جو شراب بنتی ہے وہ نشہ لاتی ہے اور اس کو پینے والے لغو باتیں کرتے ہیں اور بعض دفعہ گالیاں دینے لگتے ہیں اس کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالَاَ نْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَیْطٰنِ فَا جْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمْ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئِ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِر وَ یَصُدَّ کُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلوٰۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُنْتَھُوْنَo(مائدہ ع ۱۲) یعنے اے مومنو! شراباور جوا اور جو بتوں کے لئے عبادت گاہیں بنائی جاتی ہیں اور لاٹریاں سب گندی باتیں ہیں پس تم ان سے بچو تاکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکو۔ شیطان تم میں شراباور جوئے کے ذریعہ سے صرف عداوت اور بغض پیداکرنا چاہتا ہے نیز اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نماز سے روکنا چاہتا ہے پھر کیا تم ایسے اعلیٰ درجہ کے کاموں سے رُک جائو گے۔
ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ شراب ایک گندی چیز ہے اس کا پینا شیطانی فعل ہے یعنے دین کے خلاف ہے اس سے عداوت اور بغض پیدا ہوتا ہے اور اس کے پینے سے ذکر الٰہی اور نماز میں روک پیدا ہوتی ہے۔ اب ان باتوں کو جنت کی شراب کی خصوصیات سے ملا کر دیکھو تو دونوں میں اندھیرے اور نور کا فر نظر آتا ہے۔ اگر پاک کرنے والی قرار دیا گیا ہے اگر دنیا کی شراب کو بغض اور عداوت پیدا کرنے والی بتایا گیا ہے کہ تو اُخروی شراب کا نتیجہ یہ بتایا ہے کہ لغو باتیں کرنے اور گالی گلوچ سے وہ بچانے والی ہو گی اگر دنیاکی شراب کو عمل شیطان کہا گیا ہے تو اُخروی شراب کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ وہ کثرت اور بلندی پیدا کرنے کا موجب ہو گی۔ اگر دنوی شراب نشہ اور خمار پیدا کرنے والی ہوتی ہے تو اُخروی شراب کی نسبت کہا گیا ہے کہ نہ اس سے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ244

نشہ پیدا ہو گا اور نہ خمار۔ اگر دُنیا کی شراب کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ اس سے بچو تو اُخروی شراب کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی خواہش کرنی ہو تو وہ اس شراب کے حصول کی خواہش کرے۔ ان اختلافات سے روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ جنت کی وہ چیز جس کا نام شراب رکھا گیا ہے نہ صرف یہ کہ دنیوی شراب سے مختلف ہے بلکہ وہ مادی چیز بھی نہیں کیونکہ مادی چیز خواہ کیسی اعلیٰ بھی ہو وہ نہ تو دل کو پاک کر سکتی ہے اور نہ اس سے کثرت اور بلندی پیدا ہوتی ہے۔ کثرت اور بلندی تو کسی روحانی چیز سے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ جنت کی نعمتوں کے نام گو دنیا کی چیزوں جیسے رکھے گئے ہیں لیکن ان سے مُراد بعض رُوحانی نعمتیں ہیں نہ کہ کوئی جسمانی اشیاء۔ کجا یہ کہ وہی اشیاء جو اس دنیا میں پائی جاتی ہیں۔
صحابہؓ کے کلام سے بھی اس مفہوم کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں۔ لَیْسَ فِی الدُّنْیَا مِمَّا فِی الْجَنَّۃِ (شَیْئٌ) اِلَّا الْاَ سْمَآء (ابن جرید جلد اول) یعنی جو کچھ جنت میں ہے اس دنیا میں صرف ان کے نام معلوم ہیں ان کی حقیقت معلوم نہیں۔
غرض اُخروی زندگی میں باغات او رنہروں اور پانی اور دودھ اور شراب اور شہد سے مُراد صرف یہ ہے کہ وہ بعض چیزیں ہونگی جو اس قسم کی رُوحانی تاثیرات پیدا کرینگے جو یہ دُنیا کی اشیاء مادی جسم پر پیدا کرتی ہیں سوائے شراب کے کہ اس کے بس خواص مُراد نہیں بلکہ بعض خاص خواص مراد ہیں اور چونکہ اس کا نام استعمال کرنے سے دھوکہ لگ سکتا تھا۔ قرآن کریم نے اُخروی شراب اور دنیوی شراب کا فرق بالتفصیل بیان کر دیا۔
وہ دھوکہ جو شراب کے نام سے لگ سکتا تھا یہ تھا کہ کیا وہ شراب بھی عقل پر پردہ ڈالنے والی ہو گی اور جسمانی نشہ کی سی کیفیت پیدا کرے گی سو اس کا جواب یہ دیا کہ ان باتوں میں اس کو دنیوی شراب شے مشابہت نہ ہو گی بلکہ اس کی مشابہت اور لحاظ سے ہے اور وہ مشابہت یہ ہے کہ جس طرح شراب انسان کے دماغ پر اثر ڈال کر یکسوئی پیدا کر دیتی ہے وہ شراب بھی یکسوئی پیدا کر دے گی اور اسے پی کر قلوب کلی طور پر خدا تعالیٰ کی محبت میں مست اور مدہوش ہو جائینگے۔
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ جب جنت کی نعماء بالکل اور قسم کی ہیں اور روحانی ہیں ت وپھر دنیوی نام کیوں اختیارکئے گئے تو اس کاجواب یہ ہے کہ مذہب سب قسم کے لوگوں کے لئے ہوتا ہے مخالفوں کے لئے بھی اور ادنیٰ لوگوں کے لئے بھی اور اعلیٰ قسم کے لوگوں کے لئے بھی۔ ان امور کے متعلق جن کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو ضروری ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ میں کلام کیا جائے کہ ان میں مخالفوں کا بھی جواب آ جاوے اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں کی تسلی کا بھی وہ موجب ہو اور اعلیٰ درجہ کے لوگ بھی اس کے فائدہ اُٹھا سکیں اس حکمت کو مدنظر رکھ کر قرآن کریم نے اُخروی نعماء کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو سب قسم کے لوگوں کے لئے ان کی عقل اور درجہ کے بموجب تشفی کا موجب ہوں چونکہ کفار کہا کرتے تھے کہ دیکھو محمد رسول اللہ (صلعم) تو ہم سے سب قسم کی نعمتیں چھموانا چاہتے ہیں اور ان کی جماعت بھی تمام نعمتوں سے محروم ہے اللہ تعالیٰ نے اُخروی نعمتوں کو ان کے ذہن کے قریب کرنے کے لئے وہ اشیاء جن کو وہ نعمت سمجھتے تے انہی کے نام لے کر بتایا کہ مومنوں کو یہ سب کچھ حاصل ہو گا۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی مالدار کسی عالم سے کہے کہ میرے پاس مال ہے تو ہو عالم اپنے کتب خانہ کی طرف اشارہ کر کے کہے کہ میریپاس تم سے بھی بڑھ کر خزانہ ہے اس جواب کا یہ مطلب ہر گز نہ ہو گا ان کتب میں روپیہ بھرا ہوا ہے بلکہ صرف یہ کہ جس چیز کو تم خزانہ کہتے ہو اس سے زیادہ فائدہ والی چیز میرے پاس موجود ہے پس جب قرآن کریم نے یہ کہا کہ مومنوں کو وہ جنتیں ملینگی جن میں سایہ دار درخت اور نہریں اور نہ خراب ہونے والا دودھ اور نہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ245

سڑنے والا پانی اور موم اور آلائش سے پاک شہد اور نشہ نہ دینے والی بلکہ دل کو پاک کرنے والی شراب ہو گی تو اس سے ان کے اعتراض کا جواب اس رنگ میں دیا کہ جن چیزوں کو تم نعمت سمجھتے ہو وہ حقیقی مومنوں کو ملنے والے انعامات سے ادنیٰ ہیں جن نہرو ںکو تم نعمت سمجھتے ہو ان کا پانی تو سڑ جاتا ہے مومنوں کو وہ نہریں ملینگی جن کا پانی سڑنے والا نہ ہو گا اور جن باغوں کو تم نعمت خیال کرتے ہو وہ اصل نعمت نہیں اصل نعمت تو وہ باغ ہیں جو کبھی برباد نہ ہوں گے اور مومنوں کو ملینگے۔ جس شراب کو تم نعمت سمجھتے ہو اس کی مومنوں کو ضرورت نہیں وہ شراب تو گندی اور عقل پر پردہ ڈالنے والی شئے ہے مومنوں کو تو خدا وہ شراب دے گا جو عقل کو تیز کرنے والی اور پاکیزگی بڑھانے والی ہو گی۔ اور جس شہد پر تم کو ناز ہے اس میں تو آلائش ہوتی ہے خدا تعالیٰ مومنوں کو وہ شہد دے گا جو ہر آلائش سے پاک ہو گا جور جن ساتھیوں پر تم کو نا زہے وہ نعمت نہیں کیونکہ وہ گندے ہیں مومنوں کو اللہ تعالیٰ وہ ساتھی دے گا جو پاک ہونگے جن پھلوں پر تم کو ناز ہے وہ تو ختم ہو جاتے ہیں مومنوں کو تو وہ پھل ملیں گے جو کبھی ختم نہ ہونگے اور ہر وقت اور خواہش کے مطابق ملیں گے یہ مضمون ایسا واضح ہے کہ ہر شخص جو تعصب سے خالی ہو کر غور کرے اس کے مفہوم کو سمجھ سکتا ہے اور اس کے لطیف اشارہ کو پا سکتا ہے مگر جو متعصب ہو یا جاہل۔ اس کا علاج تو کوئی ہے ہی نہیں۔
مسیحی معترضین کو ہی سب سے زیادہ اس کلام پر اعتراض ہے مگر وہ خود اپنی کتب میں نہیں دیکھتے کہ وہاں لکھا ہوا ہے ’’بلکہ مال اپنے لئے آسمان پر جمع کرو‘‘ (متی باب ۶ آیت ۶۰) اسی طرح لکھا ہے ’‘تو جا کے سب کچھ جو تیرا ہے بیچ ڈال اور محتاجوں کو دے کہ تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا‘‘ (متی باب ۱۹ آیت ۲۱) اگر آسمان پر خزانہ جمع کرنا اور مرنے کے بعد آسمان پر خزانہ کا ملنا انسان کے لئے ممکن ہے تو جنتوں اور نہروں اور پانی اور دودھ اور شہد اور بے نشہ پاک کرنے والی شراب کا ملنا کیوں عقل کے خلاف ہے۔ اسی طرح لکھا ہے کہ مسیح ’’خدا کے تخت کے داہنے جا بیٹھا‘‘ (عبرانیوں باب ۱۲ آیت ۲) اگر خدا کو تخت پر بیٹھنے کی ضرورت ہے اور مسیح کو بھی آسمان پر جا کر تخت کی ضرورت پیش آئی تو مومنوں کو جنتوں کی کیوں ضرورت نہیں اور اس پر کیا تعجب ہے۔ اگر ان کا جواب ہو کہ انجیل میں مذکور خزانہ سے مراد یہ ہے کہ جو کوئی شخص خدا تعالیٰ کے لئے اپنے خزانہ کو چھوڑے گا اسے خدا تعالیٰ روحانی خزانہ عطاکرے گا۔ اور خدا تعالیٰ کے تخت سے مُراد لکڑی یا سونے چاندی کا تخت نہیں بلکہ اس سے مراد اس کے جلال کا تخت ہے تو یہی توجیہہ انہو ںنے قرآنی پانی اور دودھ اور شراب کی کیوں نہ کر لی اور کیوں نہ سمجھا کہ اس سے بھی یہی مُراد ہے کہ جب مومن خدا تعالیٰ کی خاطر پانیوں سے محروم کئے گئے ان کے اموال چھین کر انہیں دودھ اور شہد سے محروم کر دیا گیا انہوں نے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے روزے رکھے اور خود اپنے لئے دوددھ اور شہد اور پانی کو حرام کر لیا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں انہیں رُوحانی دودھ اور روحانی شہد اور روحانی پانی دے گا اور چونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے اوپر شراب کا استعمال حرام کر لیا تو اللہ تعالیٰ انہیں محبت کی شراب پلائے گا اور چونکہ وہ خدا کے لئے اپنے گھروں سے نکالے گئے یا انہو ںنے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے گھروں کو غریبوں کے ٹھہرنے کی جگہ اور مہمانوں کی آسائش کا مقام بنا دیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں اپنی رحمت کے باغوں میں جگہ دی۔
خلاصہ یہ کہ قرآب کریم میں جن باغوں اور نہروں اورپھلوں اور جس دودھ اور شہد اور شراب کا ذکر آتا ہے وہ اس دُنیا کے باغوں اور نہرو ںاور پھلوں سے بالکل مختلف ہیں اور وہاں کا دودھ اور شہد اور شراب اس دُنیا کے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ246

دودھ اور شہد اور شراب اس دُنیا کے دودھ اور شہد اور شراب سے بالکل مختلف ہے اور قرآن کریم نے ان امور کی خود ایسی تشریح فرما دی ہے کہ اس کے بعد اس امر میں شک کرنا محض تعصب کا اظہار ہے اور یہ محاورات چونکہ پٖہلی کتب میں بھی موجود ہیں اس لئے ان آیات میں کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو۔
میں اس جگہ یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میرا یہ مطلب نہیں کہ اخروی زندگی کی ایسی روحانی زندگی ہو گی جو کلی طور پر جسم سے پاک ہو گی اور جہاں صرف دل کے احساسات پر ہی سب انعامات ختم ہو جائینگے بلکہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ رُوح اپنی ہر حالت میں ایک جسم ملے گا جو اس مادی دنیا سے بالکل مختلف ہو گا۔ اور اس زندگی کے سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں عالم خواب کا سلسلہ جاری کیا ہے تاکہ انسان اگلے جہان کی زندگی کا کچھ اندازہ کر سکے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ اُخروی زندگی اور عالم خواب کا ایک گہرا جوڑ ہے چنانچہ فرماتا ہے اَللّٰہُ یَتَوَ فَّی الْاَ نْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنا مِھَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخُرْیٰٓ اِلیٰٓ اَجَلٍ مُّسَمّٰی اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَایٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(زمر ع ۵) یعنے کفار اُخروی زندگی اور اس کے عذابو ںکے منکر ہیں حالانکہ اگر غور کریں تو انہیں اس کا ثبوت اپنی زندگیوں میں مل سکتا ہے وہ دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر رُوح کو موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور جو مرتی نہیں اسے بلند کے وقت قبض کر لیتا ہے اور جو مرتی نہیں اسے نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے پھر جس پر تو موت کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے اسے اپنے پاس رہنے دیتا ہے اور دوسری رُوح کو یعنے سونے والے کی رُوح کو ایک وقت مقررہ تک کے لئے واپس کر دیتا ہے۔ اس مشاہدہ میں فکر کرنے والے لوگوں کے لئے بہت سے نشانات ہیں اس آیت ہیں بتایا گیا ہے کہ موت اور نیند آپس میں مشابہ ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ موت میں کلی طور پر رُوح کو مادی جسم سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے اور نیند کے وقت اس کے تعلق کو عارضی طور پر مادی جسم سے قطع کر دیا جاتا ہے اس عارضی قطع تعلق کے وقت روح انسانی کئی نظارے دیکھتی ہے اور اپنے لئے ایک نیا جسم اور نیا ماحول پاتی ہے اس سے اُخروی زندگی کے متعلق بہت کچھ قیاس کر سکتے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ نیند کی حالت میں جو انسان کو نظارے نظر آتے ہیں انہیں محض روحانی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کبھی کوئی شخص خواب میں خالی رُوح نہیں دیکھتا بلکہ اس کے ساتھ ایک جسم بھی دیکھتا ہے اور بسا اوقات وہ اپنے آپ کو باغوں میں پاتا ہے اور نہروں میں دیکھتا ہے اور پھل کھاتا ہے اور دودھ پیتاہے یہ بھی محض روحانی نہیں ہوتے بلکہ ظاہری شکل میں باغوں اور نہروں اور دودھ اور شہد وغیرہ سے مشابہ ہوتے ہیں مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ خواب کا دودھ ظاہری دودھ ہے یا خواب کا پانی ظاہری پانی ہے بلکہ اس کا مفہوم روحانی عالم میں کچھ اور ہوتا ہے مثلاً جب کوئی شخص اپنے آپ کو ایک ایسے باغ میں دیکھتا ہے جس میں نہر چل رہی ہو اور اس کی یہ خواب اس کے کسی خیال کا نتیجہ نہ ہو بلکہ سچی ہو اور اللہ تعالیٰ نے دکھائی ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا ایمان خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے اور اس کے ایمان اور اس کے عمل نے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جس رنگ میں جذب کیا ہوتا ہے اسے وہ باغ اور نہر کی صورت میں دیکھ کر روحانی لذت محسوس کرتا ہے یا مثلاً کوئی دیکھے کہ وہ آم کھا رہا ہے اور اس کی رئو یا سچی ہو تو اس کی تعبیر یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے نیک اعمال کے بدلہ میں اُسے نیک اولا دیا نیک دل دینے کا فیصلہ کیا ہے یا مثلاً کوئی دیکھے کہ وہ انگور
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ247

کھا رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ اس کے دل میں خشیت اللہ بڑھے گی اور محبت الٰہی ترقی کرے گی اور اس پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو گا۔ اور اگر کوئی دیکھے کہ وہ کیلا کھا رہا ہے تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ اللہ تعالیٰ اسے حلال اور طیب او ربے مشقت رزق دینے کا فیصلہ فرما چکا ہے۔ پس جبکہ انسان بظاہر کیلا یا انگور یا آم کھا رہا ہوتا ہے در حقیقت اس کی رُوح میں ان انعامات کے قبول کرنے کی قابلیت پیدا کی جا رہی ہوتی ہے جو ان پھلوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ رُوحانی انعامات سے یہ مُراد نہیں کہ اُخروی زندگی میں محض ایک اندرونی احساس خدا تعالیٰ کی نعمتو ںکا ہو گا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دُنیا کی سب نعتمیں جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے فرمایا ہے اُخروی نعماء کی تمثیل ہیں اور بجائے یہ کہنے کے کہ اُخروی زندگی میں اس دنیا کی نعمتوں کی مثل ملے گی یُوں کہنا چاہیئے کہ اخروی نعمتیں تو اصل ہیں اور یہاں کے پھل سب اُحروی زندگی کی تمثیل ہیں اور ان نعمتوں کا نقشہ کھینچے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور چونکہ یہ دُنیا مادی ہے انہیں مادی شکل دے دی گئی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے ان نعماء سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جب تمثیل ایسی لذیذ ہے تو اصل شئی کہیں لذیذ ہو گی کیونکہ رُوح اپنے احساس کے لحاظ سے جسم سے بہت زیادہ شدت رکھتی ہے۔
اس تشریح کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ان اعتراضات کا جواب الگ الگ دینے کی ضرورت نہیں جو اوپر درج ہو چکے ہیں ان سب اعتراضوں کا سوائے ایک کے اس تشریح میں جواب آ گیا ہے کہ وہ وہ ایک اعتراض وہ ہے جو بیویوں کے متعلق ہے سو اس کا جواب آ گے چل کر اس ٹکڑے کی تفسیر کے نیچے دیا جائے گا۔
اب میں آیت زیر نفسیر کی تفسیر بیان کرتا ہوں اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں۔ انہیں جنتیں ملینگی او ریاد رکھنا چاہیئے کہ جیساکہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے۔ صَلَحَ کے معنے مناسب حال کے ہوتے ہیں پس اعمال صالحہ کے معنے مناسب حال اعمال کے ہیں قرآن کریم اور دوسری کتب میں یہ فرق ہے کہ دوسری کتب میں نیک اعمال کرنے کا حکم ہے اور نیک اعمال کا مطلب خدا تعالیٰ کی عبادت اور بندوس سے حُسنِ سلوک مثلاً صدقہ و خیرات عفو احسان وغیرہ اعمال کو سمجھا جاتا ہے مگر قرآن کریم اس کی جگہ عمل صالح کے بجا لانے کا حکم دیتا ہے جو نیک عمل سے زیادہ وسیع مفہوم پر مشتمل ہے قرآن کریم کے نزدیک ایک عمل سے زیادہ وسیع مفہوم پر مشتمل ہے قرآن کریم کے نزدیک خدا تعالیٰ کی عبادت کی ظاہری شکل کا بجا لانا کافی نہیں جب تک کہ وہ ریا اور نمائش سے بھی پاک نہ ہو۔ نماز نیک عمل ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ریا شامل ہو تو گو بظاہر وہ خدا تعالیٰ کی عبادت ہے مگر خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں کیونکہ وہ عمل صالح نہیں اسی طرح مثلاً کوئی شخص ڈوب رہا ہو اور ایک شخص جو تیرنا جانتا ہو اور اسے اس ڈوبنے والے کا علم ہو جائے وہ اگر اس وقت نماز شروع کر دے تو نماز گو نیک عمل ہے مگر اس وقت عمل صالحہ نہ ہو گا کیونکہ اس وقت کے مناسب حال عمل اس ڈوبنے والے کو بچانا ہے نہ کہ نماز پڑھنا۔ یا مثلاً ایک شخص فطرۃً رحم کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہو اور وہ کسی شخص کو دیکھے کہ دوسرے آدمی پر ظلم کر رہا ہے تو اگر وہ اس ظالم کے متعلق عفو ظاہر کرنا چاہیے تو گو عفو نیک عمل ہے مگر اس وقت وہ عمل صالح نہیں ہو گا بلکہ عمل صالح یہ ہو گا کہ وہ اس ظالم کا مقابلہ کرے اور مظلوم کی حمایت کرے یا مثلاً ایک شخص جج کی کرسی پر بیٹھا ہو اور ملک نے اسے مجرموں کی سزا کے لئے مقرر کیا ہو تو اگر وہ ایک چور کو یا ڈاکو کو اپنے طبعی رحم کی وجہ سے چھوڑ دے تو گو عفو نیک عمل ہے مگر چونکہ اس وقت وہ عمل صالح نہ ہوگا خدا تعالیٰ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ248

کے حضور میں مقبول نہ ہو گا کیونکہ جج کی کرسی پر بیٹھنے والے کے مناسب حال عمل یہ ہے کہ جو فرض اس کے ذمہ لگایا گیا ہے اُسے پورا کرے گو جس حد تک قانون اسے اجازت دیتا ہو وہ رحم سے بھی کام لے سکتا ہے۔ یا مثلاً کسی شخص کے پاس کسی نے اپنا رویہ امانت رکھوایا ہوا ہو اور وہ امین شخص اس روپیہ کو غرباء میں تقسیم کر دے تو گو غرباء کی امداد نیک عمل ہے مگر اس کا یہ فعل عمل صالح نہیں ہو گا کیونکہ امین کی حیثیت سے اس کے لئے مناسب حال عمل یہی تھا کہ وہ اس روپیہ کو محفوظ رکھتا اور اگر کسی مستحق کا اسے علم ہوتا تو مال کے مالک کو اس سے حُسن سلوک کرنے کی طرف توجہ دلاتا۔ اسی طرح مثلاً اگر کوئی شخص دوسرے کسی شخص کو دربان کے طور پر مقرر کرے اور اس دربان کو علم ہو کہ کوئی ایسی مصیبت دُنیا پر نازل ہو رہی ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوق خدا کا تباہ ہونا ممکن ہے تو گو اس وقت وہ ایک امانت پر مقرر ہے مگر اس کا فرض ہو گا کہ وہ اس وسیع تباہی کے دور کرنے میں لگ جائے کیونکہ اس وقت عمل صالح یہی ہے کہ وہ تھوڑے نقصان کی پرواہ نہ کرے اور بڑے نقصان کو دُور کرے۔ غرض عمل صالح نیک عمل سے زیادہ وسیع معنے رکھتا ہے اور عمل صالح اس نیک عمل کو کہتے ہیں کہ جو نہ صرف ظاہری طور پر اچھا ہو بلکہ باطنی طور پر بھی اچھا ہو اور صرف اپنی ذات میں اچھا نہ ہو بلکہ موقعہ کے لحاظ سے بھی اچھا ہو اور عمل صالح کنرے والا وہ شخص ہے کہ جو اندھار دھند لفظوںکی اتباع نہیں کرتا بلکہ اپنی عقل خداداد سے کام لے کر یہ بھی دیکھتا ہے کہ موقعہ کے لحاظ سے وہ عمل کس صورت میں ظاہر ہونا چاہیئے یا وہ اس پر کفایت نہیں کرتا کہ وہ کوئی نیک عمل بجا لا رہا ہے بلکہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ وہ ہر قسم کے نیک اعمال جو اس کی اور دوسری کی روحانی یا مادی بہتری کے لئے ضروری ہیں بجا لا رہا ہے قرآن کریم میں اس فرق کو ایک نہایت لطیف پیرا یہ میں بیان کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (شوریٰ ع ۴) یعنے جس شخص پر ظلم ہو وہ اس کا بدلہ اس قدر لے سکتا ہے جس قدر اس پر ظلم ہوا ہو لیکن جو شخص معاف کرے مگر ساتھ اس کے اصلاح کا پہلو مدنظر رکھے تو اس کا اجر اللہ پر ہو گا اس آیت میں عفو جو ایک نیک عمل ہے اسکی تعریف کی گئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ شرط لگا دی ہے کہ عفو اسی صورت میں خدا تعالیٰ کے حضور پسندیدہ ہو گا جبکہ اس کے نتیجہ میں اصلاح بھی پیدا ہو ورنہ نہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کو کوئی ڈاکو ملے جو پاس کے گائوں میں لوٹنے جا رہا ہو وہ ڈاکو اس کی طاقت کا غلط اندازہ لگاتے ہوئے جاتے جاتے اس پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہے مگر اس سے مغلوب ہو جائے تو گو اس کا اس ڈاکو کو معاف کر دینا بظاہر نہیں اور وہ اس سے چھٹ کر گائوں کے کسی اور غریب اور کمزوری آدمی پر حملہ کر کے اس کے مال یا اس کی جان کو نقصان پہنچائے گا تو وچونکہ اس ڈاکو کو معاف کرنا اصلاح کا نہیں بلکہ فساد کا موجب ہو گا اگر وہ شخص اس ڈاکو کو معاف کر دے تو باوجود عفو سے کام لینے کے عمل صالح کا بجا لانے والا نہ سمجھا جائے گا۔
احادیث رسول کریم سے بھی اس فرق کا پتہ چلتا ہے احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ سب سے اچھا عمل کونسا ہے آپ نے فرمایا اِیْمَانٌ بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ قِیْلَ ثُّمَّ مَا ذَا قَالَ جِہَادٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ سب سے اچھا عمل کونسا ہے تو آپؐ نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد تو آپؐ نے فرمایا اللہ کے رستہ میں جہاد کرنا (بخاری جلد اول کتاب الحج)
ایک دوسرے موقعہ پر حصرت عبداللہ بن مسعودؓ نے آپؐ سے پوچھا یا رسول اللہ سب سے اچھا عمل کونسا ہے تو آپؐ نے فرمایا الصَّلوٰۃُ عَلیٰ مِیْقَاتِہَا یعنے اپنے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ249

وقتوں پر نمازو ںکا ادا کرنا۔ وہ کہتے ہیں میں نے پھر پوچھا یا رسول اللہ اس کے بعد کونسا عمل ہے تو آپؐ نے فرمایا ثُمَّ بِرُّالْوَ الِدَیْنِ اس کے بعد والدین سے نیکی کرنا۔ فرماتے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ اس کے بعد پھر کونسا عمل اچھا ہے تو آپؐ نے فرمایا اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ پھر اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا اچھا عمل ہے (بخاری جلد دوم کتاب الجہاد) جو لوگ شریعت کی باریکیوں سے واقف نہیں۔ انہیں اس میں اختلاف نظر آیا ہے اور انہوں نے بحث شروع کر دی ہے کہ اس اختلاف کو کس طرح دُور کیا جائے اور یہ کہ اصل میں کونسا اچھا عمل ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ انہو ںنے غور نہیں کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک اعمال کا مقابلہ نہیں یا بلکہ اعمال صالحہ کا مقابلہ کیا ہے جس شخص کو آپؐ نے یہ فرمایا کہ ایمان کے بعد جہاد سب سے اچھا عمل ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جہاد کے موقعہ پر سستی دکھاتات ھا اور اس نیک عمل کے بجا لانے کے متعلق اس کے دل میں قبض تھا پس وہ اپنے تقویٰ کے مکان کو ادھورا رکھ رہا تھا اسے آپؐ نے یہ بتایا کہ جہاد سب سے اچھا عمل ہے اور مُراد یہ تھی کہ تمہارے مناسب حال عمل جہاد ہے کیونکہ تم باقی نیک اعمال بجا لاتے ہو مگر جہاد میں سستی کرتے ہو۔ اور جس وقت یہ فرمایا کہ سب سے اچھا عمل وقت پر نماز ادا کرنا ہے اور پھر ماں باپ کی خدمت اور پھر جہاد۔ اس وقت معلوم ہوتا ہے بعض ایسے لوگ مجلس میں بیٹھے تھے جو وقت پر نماز ادا کرنے میں سست تھے اور ماں باپ سے اچھا سلوک نہ کرتے تھے۔ پس ان کے مناسب حال یہی حکم تھا کہ وہ نماز وقت پر ادا کریں اور ماں باپ کی خدمت کریں تا ان کی نیکیوں میں یہ رخنہ باقی نہ رہ جائے۔
اس آیت میں ایمان اور عمل صالح بجا لانے والے کو جنتو ںکی بشارت دی گئی ہے اس میں یہ حکمت ہے کہ ایمان ایک باغ کی حیثیت رکھتا ہے اور عمل اسے سر سبز کرتا ہے اور اس کو پانی دے کر بڑھاتا ہے جو شخص ایمان لانے کے بعد عمل نہیں کرتا اس کے ایمان کا درخت سوکھا جاتا ہے چنانچہ عملی منافقوں کی مثال میں اوپر بتایا جا چکا ہے کہ اگر وہ ایمان کے بعد اعمال کی طرف توجہ نہ کرینگے تو ان کا ایمان بھی ضائع ہو جائے گا (دیکھو نوٹ ۲۰؎ سورہ ہذا)قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ و الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ (فاطر ع ۲) یعنے جب انسان ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے لیکن اسے خدا تعالیٰ تک اُٹھا کر لے جانے والا عمل صالح ہوتا ہے یعنے ایمان کی تکمیل عمل صالح سے ہوتی ہے اگر عمل صالح نہ ہو تو ایمان درمیان میں ہی رہ جائے اور اپنا پھل پوری طرح نہ دے ایک دوسری آیت میں کلمہ طیبہ پاک تعلیم کو جس کا نتیجہ ایمان ہوتا ہے شجرہ طیبہ سے مثال دی ہے فرماتا ہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃًّ طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ (ابراہیم ع ۴) یعنے کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پاک کلمہ کو پاک درخت سے تمثیل دی ہے پاک درخت سے مشابہت دینے کے معنے یہ بھی ہیں کہ جس طرح درخت پانی کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح کلمہ طیبہ کا اختیار کر لینا ہی کافی نہیں۔اسے عمل کے پانی سے سیراب کرنا بھی ضروری ہے تبھی اس کی سرسبزی اور شادابی قائم رہے گی۔ عمل صالح کرنے والے مومنوں کو ایسے باغات کی بشارت دے کر جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ چونکہ انہوں نے اپنے ایمان کی کھیتی کو عمل کے پانی سے سینچا تھا اللہ تعالیٰ بھی انہیں ایسے باغوں میں رکھے گا جن کے اندر نہریں بہتی ہونگی اور یہ نہروں کا بہنا انہیں یاد کراتا رہے گا کہ ان کا ایمان اور عمل ضائع نہیں ہوا بلکہ اس سے ہمیشہ کی راحت پیدا ہوئی۔ باغوں کے سائے ان کی توجہ کو ایمان کی طرف کھینچیں گے جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچتا ہے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ250

اور اس کے اند ربہنے والی نہریں انہیں ان کے اعمال صالحہ کی یاد دلائینگی جنہو ںنے ایمان کے درخت کو سوکھنے سے بچایا۔
یہ جو فرمایا ہے کہ ان باغوں کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جنت میں ہر شخص کا دائرہ عمل دوسروں کے اثر اور دخل اندازی سے آزاد ہو گا اور نیچے بہنے سے مُراد یہی ہے کہ ہر باغ کی نہر اس سے متعلق ہو گی اور اس کے انتظام کا حصہ ہو گی اس دُنیا کی طرف نہ ہو گا کہ ایک نہر کئی باغوں اور کھیتو ںکو پانی دیتی ہے اور بسا اوقات لوگو ںمیں اس کے پانی کی تقسیم پر جھگڑا ہو جاتا ہے۔
کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا اس میں رِّزْقًا مفعول مطلق بھی ہو سکتا ہے او رمفعول بہ بھی مفعول مطلق کی صورت میں رِزْقًا کے معنے ہونگے اچھی طرح دینا۔ اور آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ جب کبھی پھلوں کی قسم سے کوئی چیز انہیں بطریق احسن دی جائے گی۔ ان معنوں کے لحاظ سے آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ مومنوںکو ان کے ایمان کا پھل ہی نہیں ملے گا بلکہ ان کا ایسا اعزاز کیا جائے گا کہ وہ پھل کامل طور پر انہیں ملے گا اور خدا تعالیٰ کی عطا اسی طرح ہو گی کہ جو عطا کرنے کا حق ہے رِزْقًا کو اگر مفعول بہ مانا جائے تو اس کے معنے مَرْزُوْقٌ کے کئے جائیں گے یعنے کھانے کی چیز یا دی جانے والی چیز اور اس صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ جب کبھی کوئی کھانے کی چیز انہیں دی جائے گی جو پھلوں کی قسم سے ہو گی تو وہ اگلا بیان کردہ فقرہ دہرائیں گے۔ اس صورت میں زور عبارت کا مِنْ ثَمَرَۃٍ پر ہو گا اور اس طرف اشارہ سمجھا جائے گا کہ جو کچھ انہیں ملے گا وہ ان کے ایمان اشارہ سمجھا جائے گا کہ جو کچھ انہیں ملے گا وہ ان کے ایمان اور اعمال کا نتیجہ ہو گا۔
قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ۔ وہ کہینگے کہ یہ وہی ہے جو ہمیں پہلے مل چکا ہے مفسرین لکھتے ہیں کہ یا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ دُنیا میں اللہ تعالیٰ ہمیں جو پھل دیتا تھا وہی پھل ہمیں وہ یہاں بھی دے رہا ہے یا اس کے یہ معنے ہیں کہ بار با پھل ملے گے اور وہ ہر دوسری بار کہیں گے کہ یہ وہی چیز ہے جو ہمیں پہلے بھی مل چکی ہے گویا جنت کی نعمتوں کی تکرار کی طرف اشارہ کریں گے لیکن میرے نزدیک یہ دونوں معنی درست نہیں کیونکہ اگر اس کے یہ معنی کئے جائیں کہ دُنیا میں بھی ہم کو پھل ملے تھے اور اب بھی ملے ہیں تو اس کے معنے تو یہ ہنوگے کہ دُنیا میں بھی ہم کو پھل ملے تھے اور اب بھی ملے ہیں تو اس کے معنے تو یہ ہونگے کہ دُنیا کے پھل اور آخرت کے پھل ایک قسم کے ہیں حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّٓا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ (سجدہ ع ۲) کوئی شخص بھی نہیں جانتا کہ جنت میں اسے کیا ملنے والا ہے پھر جنت کے پھلوں کو دنیا کے مادی پھلوں جیسا قرار دینے کے معنے کیا ہوئے اور اگر یہ معنے کئے جائیں گے کہ ایسے پھل ہمیں جنت میں پہلے بھی مل چکے ہیں تو اول تو اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے جب بھی انہیں پھل ملیں گے وہ یہ فقرہ کہیں گے لیکن ظاہر ہے کہ پٖہلی دفعہ پھل ملنے یہ وہ یہ فقرہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں پہلے یہ پھل مل چکے ہیں۔ دوسرا اعتراض اس پر یہ پڑتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا کفران ہے شکریہ نہیں کیونکہ احسان کی قدردانی کے موقعہ پر تو انسان یہ کہتا ہے کہ آج جیسی لطیف چیز ملی ہے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی کسی میزبان کو یہ کہنا کہ ایسا کھانا آپ مجھے پہلے بھی کھلا چکے ہیں اس کی ہجو ہے نہ کہ تعریف۔ اس کا تو یہ مطلب نکلتا ہے کہ اب کچھ او رکھلائو کب تک وہی چیز دوبارہ دیتے رہو گے۔
میرے نزدیک اس کے دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ چونکہ باغ ایمان کی تمثیلی شکل ہونگے اور پھل ایمان کی لذت کا تمثل ہو گا مومنو ںکو جب بھی جتنی جنتی پھل ملیں گے وہ کہیں گے کہ یہ وہی ایمان کی حلاوت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو دُنیا میں عطا فرمائی تھی اور ہمارا وہ ایمان ضائع نہیں ہوا بلکہ برابر پھل
 
Top