• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ251

لا رہا ہے۔
اور ظاہر ہے کہ یہ فقرہ شکریہ اور امتنان کے جذبات سے بھرا ہوا ہے اور مومن اور خدا تعالیٰ دونوں کے شایان شان ہے۔ ہر دفعہ پھل ملنے پر وہ ایمان کی نعمت کو یاد کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو بھی یاد کریں گے کہ اس نے انہیں ایمان بخشا تھا اور ساتھ ہی وہ اس نعمت کا بھی شکریہ ادا کریں گے جو ہمیشہ کے لئے ایمان کے نتیجہ کے طو رپر رُوحانی پھل کی شکل میں انہیں آخرت میں ملے گی۔
دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ رُزِقْنَا کے معنی وعدہ کے کئے جائیں اور آیت کے معنے یہ ہوں کہ جب کبھی بھی انہیں جنتی پھل ملینگے وہ کہینگے کہ یہی وہ پھل ہیں جن کا ہم سے دُنیا میں وعدہ کیا گیا تھا اور وعدہ کے لئے ماضی کے لفظ کا استعمال قرآن کریم سے ثابت ہے چنانچہ اُجرت پر دودھ پلانے والی عورتوں کے ذکر میں فرماتا ہے اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّٓا اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (بقرہ ع ۳۰) جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ جب تم دودھ پلانے والیوں کو دے دو جو حسب قاعدہ دے چکے ہو مگر مُراد یہ ہے کہ جس کے دینے کا ان سے پختہ وعدہ کر چکے ہو اس محاورہ کے مطابق رُزِتُوْا کے معنے اس آیت میں یہ کئے جائینگے کہ جس کے دینے کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا اور آیت کے یہ معنے ہونگے کہ جس بات کا وعدہ ہم سے دُنیا میں کیا گیا تھا وہ آج اس نعمت کے ذریعہ سے پورا کیا جا رہا ہے۔ اور جب بھی جنتی پھل ملیں گے وہ بے اختیار کہہ اُٹھیں گے کہ لو اس وعدے کے مطابق آج بھی ہم کو یہ پھل ملے ہیں ان معنوں کو بعض سابق مفسرین نے بھی اختیار کیا ہے۔
وَاُتُوْابِہٖ مُتَشَابِھًا۔ یعنی وہ پھل انہیں متشابہ صورت میں دیئے جائینگے کے معنے مفسرین نے یہ کئے ہیں کہ دُنیا کے پھلوں سے ملتے ہوئے پھل دیئے جائینگے۔ یا یہ کہ جو پھل آخرت میں ملینگے ان کی شکل تو آپس میں ملتی جلتی ہو گی مگر مزہ میں فرق ہو گا پہلے معنوں کی کمزوری میں پہلے بیان کر چکا ہوں دوسرے معنی بالبداہت باطل ہیں کیونکہ پھل ہی دیئے جائیں گے تو انہیں ایک شکل میں دینے کا کیا فائدہ۔ پھر مزہ کے مختلف ہونے کا ثبوت کہاں سے ملا۔
میرے نزدیک اس کے صحیح معنے یہ ہیں (۱) جنتی پھل اپنی لذت کے لحاظ سے ان عبادات کی لذتوں کے مشابہ ہونگے کہ جو مومن اس دُنیا میں کرتے رہے ہیں یعنی مومن ان پھلوں کو کھا کر محسوس کرے گا کہ یہ وہی نماز ہے جو میں نے پڑھی تھی یہ وہی روزہ ہے جو میں نے رکھا تھا یہ وہی حج ہے جو میں نے کیا تھا یہ وہی صدقہ ہے جو میں نے دیا تھا یہ وہی عفو ہے جس سے میں نے اپنے دشمن سے معاملہ کیا تھا۔ غرض تمام نیک اعمال ایک ایک کر کے ان کے لئے جنت میں متمثل ہونگے اور ان کے دل خدا تعالیٰ کے شکر سے بھرتے جائینگے کہ میری فلاں نماز بھی اس نے نہیں بھلائی۔ میرا فلاں صدقہ بھی اس نے نہیں بھلایا۔ غرض ہر ہر پھل میں وہ خدا تعالیٰ کی قدردانی کو محسوس کرینگے اور انہیں وہ لذت یاد آ جائیگی کہ جو اس دُنیا میں اس نیک عمل کے بجا لاتے وقت ان کو حاصل ہوئی تھی۔
ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مومنوں کو اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیئے جو اعمال صالحہ کے بجا لاتے وقت ان پر عائد ہوتی ہے اگر ہماری نماز جنت میں پھل کی شکل میں آنے والی ہے ہمارا صدقہ پھل کی شکل میں سامنے آنے والا ہے تو ہمیں اپنی نماز اور اپنے صدقہ کو درست کرنا چاہیئے کیونکہ جیسی ہماری نماز اور جیسا ہمارا روزہ ہو گا اسی قسم کے مزہ کا وہ پھل وہ گا جو ہمیں جنت میں ملے گا اگر ہم اپنے اعمال کو پوری دلجمعی اور شوق سے بجا نہیں لاتے تو ہم اپنی روحانی غذا کو جو ہمیں جنت میں ملنے والی ہے دوسروں سے کم لذیذ بناتے ہیں اور اگر ہم اپنے صدقہ اور اپنے عفو اور خدمت خلق کو اور عبادت کو ٹھیک کرتے ہیں تو گویا اپنی روحانی غذا کو لذیذ بناتے ہیں۔ کیونکہ اس غذا کی لذت ہماری اس لذت کے مشابہ ہو گی جو اس وقت ہم نیک اعمال میں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ252

محسوس کرتے ہیں۔
دوسرے معنے اس جملہ کے یہ ہیں کہ جو رزق جنتیوں کو ملے گا وہ متشابہ خاصیتو ںکا ہو گا یعنی اس دُنیا میں تو جو غذا انسان کھاتا ہے وہ بسا اوقات ایک دوسرے کے اثر کو باطل کرنے والی ہوتی ہے ایک چیز معدہ کے لئے مقوی اور دوسری مضعف۔ ایک چیز دل کے لئے اچھی دوسری بری۔ ایک دماغ کو طاقت دینے والی دوسری کمزو رکرنے والی ہوتی ہے۔ اس طرح بہت سی غذا آپس میں ٹکرا کر اپنے اثر کو کمزور کر لیتی ہے اور بہت تھوڑی غذا حقیقتاً ہمارے جسم کے کام آتی ہے۔ اسی طرح اِس دُنیا میں رُوحانی اعمال کا حال ہوتا ہے کوئی نیک عمل ظاہر ہوتا ہے تو کوئی بد۔ اور بدیاں نیکیوں کے اثرات کم کرتی رہتی ہیں مگر اُخروی زندگی کے متعلق فمراتا ہے کہ وہاں جو روحانی غذا ملے گی وہ متشابہ ہو گی یعنی تاثیر کے لحاظ سے ہر چیز دوسری کی ممد ہو گی اور یہ نہ ہو گا کہ کوئی غذا رُوحانیت کی طرف لی جائے تو کوئی اس سے دُور کرے بلکہ ساری کی ساری غدا ایک دوسری کی ممد ہو گی اور رُوحانی ترقی کا موجب ہو گی اور انسانی رُوح ہر قسم کی روحانی بیماریوں سے محفوظ ہو جائیگی اور روحانی بیماریاں اسی مادی دُنیا میں رہ جائینگی۔
ایک معنی اس کے یہ بھی ہیں کہ جنت کی غذا ہر شخص کے اندرونی قویٰ کے مطابق ہو گی جیسی اس کی طاقت ویسی غذا۔ یعنی جس جس انسان کو روحانی ترقی کے لئے جس جس قسم کی روحانی غذا کی ضرورت ہو گی وہی غدا اس کے لئے مہیا کی جائے گی تاکہ اس کی رُوحانی طاقتیں بڑھتی چلی جائیںاور کوئی روک پیدا نہ ہو۔
ایک معنے اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ گو جنت کے پھل دُنیا کے پھلوں کے ہم شکل ہونگے مگر یہ مشابہت صرف شکل کی ہو گی ورنہ اپنی لذت اور تاثیر اور حقیقت کے لحاظ سے وہ اِن سے مختلف ہونگے کیونکہ یہ مادی جسم والے پھل ہیں اور وہ روحانی جسم والے پھل ہونگے۔
وَلَھُمْ فِیْہَا اَزْوُاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ۔ انہیں وہاں پاک ساتھی یا پاک بیویاں یا پاک خاوند ملیں گے۔ پاک ساتھی کے معنوں کی صورت میں تو کسی کے لئے اعتراض کرنے کی گنجائش ہی نہیں کیونکہ اِس صورت میں اِس کے یہ معنی ہونگے کہ جنت میں جس طرح غذا ایک دوسرے کی ممد ہو گی اس طرح اِس کے سب مکین ایک دوسرے کی رُوحانی ترقی میں مدد کرنے والے ہونگے گویا اندرونی اور بیرونی ہر طرح کا امن اور تعاون حاصل ہو گا۔
اور اگر خاوند یا بیوی کے معنی کئے جائیں کیونکہ ازواج مرد اور عورت دونوں کے لئے بولا جاتا ہے عورت کا زوج اس کا خاوند ہے او رمرد کا زوج اس کی بیوی تو اس صورت میں اس کے ایک معنی یہ ہونگے کہ ہر جنتی کے پاس اس کا وہ جوڑا رکھا جائے گا جو نیک ہو گا۔ اس صورت میں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا بلکہ یہ تحریک ہے کہ مرد کو اپنی نیکی کے ساتھ اپنی بیوی کی نیکی کا بھی خیال رکھنا چاہیئے اور عورت کو اپنی نیکی کے ساتھ اپنے خاوند کی نیکی کا بھی خیال رکھنا چاہیئے کیونکہ اگر وہ دنیوی زندگی کی طرح اگلے جہان میں بھی اکٹھا رہنا چاہتے ہیں تو اچہیئے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو بھی نیک بنانے کی کوشش کرے تا ایسا نہ ہو کہ میاں جنت میں ہو اور بیوی دوزخ میں ہو یا بیوی جنت میں اور میاں جنت میں ہو اور بیوی دوزخ میں ہو یا بیوی جنت میں اور میاں دوزخ میں ہو۔ ان معنوں کے رُو سے یہ روحانی پاکیزگی کی ایک اعلیٰ تعلیم ہے جس پر اعتراض کرنے کی بجائے اس کی خوبی کی داد دینی چاہیئے۔
باقی رہا یہ کہ اِس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ہر شخص کو ایک پاک جوڑا دیا جائے گا تو ان معنوں کے رو سے بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر یہی معنوی ہوں کہ ہر مرد کو ایک پاک بیوی دی جائے گی اور ہر عورت کو ایک پاک مرد دیا جائے گا تو اس پر کیا اعتراض ہے اعتراض تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کسی ناپاک فعل کی طرف اشارہ کیا جائے جب قرآن شریف پاک کا لفظ استعمال کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ جنت میں وہی کچھ ہو گا جو جنت کے لحاظ سے پاک ہے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ253

پھر اِس پر اعتراض کیسا۔
سرولیم میور نے اِس آیت کے مضمون پر ایک نہایت ناپاک اعتراض کیا ہے اور ریورنڈ وہیری نے حسب عادت اس کی تصدیق کی ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ قرآن کریم کی مکی سورتوں میں جنت میں عورتوں کا ذکر کثرت سے اور زیادہ جوش سے کیا گیا ہے لیکن مدنی سورتوں میں صرف دو دفعہ اور نہایت مختصر الفاظ میں جو یہ ہیں کہ مومنوں کو جنت میں پاک بیویاں ملینگی ذکر کیا گیا ہے اس سے (نعوذ باللہ من ذالک) یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ چونکہ مکہ میں آپؐ کی صرف ایک بیوی تھی اور وہ بھی عمر میں بڑی اس لئے محمد صاحب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو عورتوں کا خیال زیادہ آتا تھا مگر مدینہ میںچونکہ یہ خواہش پوری ہو گئی اور کئی جوان بیویاں مِل گئیں یہ خیال کم ہو گیا۔
سرولیم نے جو اعتراض کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ قرآنی آئینہ میں اپنا منہ دیکھا ہے اور ریورنڈ وہیری نے پادریوں کے روایتی تعصب کو قائم کیا ہے مجھے تعجب آتا ہے کہ یہ لوگ تعلیم یافتہ کہلاتے ہوئے اور تہذیب کا دعویٰ کرتے ہوئے کروڑوں انسانوں کے پیشوائوں پر قیاسی باتوں کی بناء پر کس طرح حملہ کر دیتے ہیں حانلانکہ خود ان لوگوں کے اخلاق اس قدر گرے ہوئے اور ذلیل ہوتے ہیں کہ انسانیت کو ان سے شرم آتی ہے ان کی یہ جرأت محض اس وجہ سے ہے کہ اس وقت عیسائیوں کو حکومت حاصل ہے اور ان کو یہ شرم بھی نہیں آتی کہ جب مسلمان دُنیا پر حاکم تھے اور مسیحیوں کا اس سے بھی پتلا حال تھا کہ جو اس وقت مسلمانوں کا مسیحیوں کے مقابل پر ہے اس وقت بھی مسلمانوں نے یسوع ناصری کے بارہ میں سخت الفاظ کبھی استعمال نہیں کئے مسلمانوں نے ہزار سال تک مسیحی ممالک پر حکومت کر کے اُن کے سردار کی جس عزت کا اظہار کیا کاش مسیحی لوگ دو تین سو سال کی حکومت پر ایسے مغرور نہ ہو جاتے کہ اس نبیوں کے سردارؐ پر اس طرح درندو ںکی طرح حملے کرتے اور مسلمانوں کے اس احسان کا کچھ تو خیال کرتے کہ انہو ںنے یسوع کے خلاف کبھی جارحانہ قدم نہیں اٹھایا اور نہ حق یہ ہے کہ مسلمان یسوع کی نسبت اس سے بہت زیادہ کہہ سکتے ہیں جو مسیحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہتے ہیں۔
سر ولیم نے اپنی طرف سے ایک گندہ اعتراض تو کر دیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ مکی اور مدنی سورتوں میں اس قسم کا فرق صرف عورتوں کے بارہ میں ہی نہیں ہے بلکہ اور امو رمیں بھی ہے مثلاً یہ کہ مکی سورتوں میں یہ ذکر آیا ہے کہ جنت میں شراب ہو گی مگر کسی مدنی سورۃ میں یہ ذکر نہیں مکی سورتوں میں یہ ذکر ہے کہ جنت میں شہد ہو گا مگر کسی مدنی سورۃ میں یہ ذکر نہیں مکی سورتوں میں یہ ذکر ہے کہ جنت میں دودھ کی نہریں ہونگی مگر کسی مدنی سورۃ میں یہ ذکر نہیں (جیسا کہ اوپر گذری ہوئی آیات سے ثابت ہے) اب اگر سر ولیم کا خود ساختہ نفسیاتی نکتہ صحیح ہے کہ چونکہ مکہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم علی آلہ و اصحابہ) کی ایک ہی بیوی تھی اور وہ بڑی عمر کی اس لئے آپؐ کو جنت کے نقشے میں عورتیں نمایاں نظر آتی تھیں تو کیا شراب کے ذکر میں بھی سر ولیم کا یہ نکتہ چسپان ہو سکے گا کہ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں شراب نہ ملتی تھی اس لئے جنت میں بھی انہیں شراب نظر آتی تھی اور مدینہ میں چونکہ شراب ملنے لگی اس لئے مدنی زندگی میں قرآنی جنت میں سے شراب کا ذکر حذف ہو گی یا کیا اسی قاعدہ کی رُوسے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکے گا کہ مکہ میں آپؐ کو دودھ نہ ملتا تھا اس لئے جنت میں دودھ میسر ہونے کا آپؐ خیال کیا کرتے تھے مگر مدینہ میں چونکہ دودھ ملنے لگا یہ خیال کمزور پڑ گیا یا کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ مکہ میں چونکہ آپؐ کو شہد نہ ملتا تھا اس لئے آپؐ اس کے شوق کی وجہ سے جنت میں شہد کی کثرت کا خیال کرتے تھے مگر مدینہ میں چونکہ شہد ملنے لگا آپؐ نے اس کے ذکر کو چھوڑ دیا۔ کیا کوئی انسان بھی جس کے دماغ میں عقل ہو اس قسم کی خرافات کو تسلیم کر سکتا ہے اگر وہ نفسیاتی نکتہ صحیح ہے تو پھر ان دوسری
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ254

باتوں پر بھی اسے چسپان کر کے دکھائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مکی زندگی کے اکثر حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے زیادہ فراخی حاصل تھی جس قدر کہ مدنی زندگی میں حاصل تھی کیونکہ آپؐ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت مالدار تھیں اور جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے انہوں نے اپنا سب مال آپؐ کی خدمت میں پیش کر دیا تھا چنانچہ آپؐ کی وہ اولاد جو مکہ میں جوان ہوئی اور بیاہی گئی اس کی نسبت ثابت ہے کہ اسے قیمتی زیورات جہیز میں دئے گئے مگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو مدینہ میں بیاہی گئیں انہیں ایک چھلا تک نہیں ملا۔ غرض دنیوی لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت مکہ میں اچھی تھی لیکن چونکہ آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کی دولت کو آہستہ آہستہ نیک کامو ںمیں خرچ کر دیا اس لئے مدینہ منورہ کے ایام میں آپؐ کی وہ آسودگی کی حالت نہ رہی تھی پس اگر یہ فرق کسی نفسیاتی اثر کے ماتحث ہوتا تو معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا جیسا کہ سر ولیم نے سمجھا ہے۔
اگر سر ولیم کا طریق استدلال ٹھیک ہو تو پھر مسیحت کے مخالفوں کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیئے کہ وہ کہیں کہ یسوع کو چونکہ بوجہ غربت اور یہود کی مخالفت کے اِدھر اُدھر بھاگے پھرنا پڑتا تھا اس لئے وہ اپنے دل کی تکلیف کا ازالہ اِن خیالات کے ذریعہ کرتا رہتا تھاکہ وہ یہودیوں کا بادشاہ ہونے والا ہے اسی طرح سر ولیم کے مقرر کردہ اصل کے ماتحت یسوع کی نسبت یہ اعتراض بھی درست تسلیم کیا جانا چاہیئے کہ چونکہ ان کو شادی کی توفیق نہ ملی اس لئے ان کے ذہنی جذبات انہیں ایک دوبارہ آمد کے خیال میں مبتلا رکھتے تھے جبکہ وہ دُولھا کی شکل میں آئیں گے اور ایک نہیں دو نہیں اکٹھی پانچ کنواریوں کو لے کر مکان میں گھس جائیں گے چنانچہ انجیل میں لکھا ہے کہ یسوع نے کہا ’’اس وقت آسمان کی بادشاہت دس کنواریو ںکی مانند ہو گی جو اپنے مشعلیں لے کر دولہا کے استقبال کے واسطے نکلیں۔ اُن میں پانچ ہوشیار ار پانچ نادان تھیں جو نادان تھیں انہوں نے اپنے مشعلیں لئے مگر تیل ساتھ نہ لیا پر ہوشیاروں نے اپنے مشعلوں کے ساتھ برتنو ںمیں تیل لیا۔ جب دولہا نے دیر کی سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں آدھی رات کو دھوم مچی کہ دیکھو دُولہا آتا ہے اس کے استقبال کے واسطے تکلو تب ان سب کنواریوں نے اُٹھ کر اپنی مشعلیں درست کیں اور نادانوں نے ہوشیاروں سے کہا اپنے تیل میں سے ہمیں بھی دو کہ ہماری مشعلیں بجھی جاتی ہیں پر ہوشیاروں نے جواب میں کہا ایسا نہ ہو کہ ہمارے اور تمہارے واسطے کفایت نہ کرے بہتر ہے کہ بیچنے والوں کے پاس جائو اور اپنے واسطے مول لو۔ جب وے خریدنے گئیں دُولہا آ پہنچا اور وے جو تیار تھیں اس کے ساتھ شادی کے گھر میں گئیں اور دروازہ بند ہوا پیچھے وے دوسریکنواریاں بھی آئیں اور کہنے لگیں اے خداوند اے خداوند ہمارے لئے دروازہ کھول تب اس نے جواب میں کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تمہیں نہیں پہنچانتا‘‘ (متی بات ۲۵۔ آیت ۱ تا ۱۲) اب دیکھو اگر سر ولیم میور او رپادیر وہیری جیسے شخص اسی تمثیل سے یہ نتیجہ نکالیں کہ شادی نہ ہونے کی وجہ سے یسوع کو کنواریوں کا ہی خیال رہتا تھا تو کیا یہ درست ہو گا کیا مسیح دُنیا ایسے اعتراض کرنے والے کو منصف قرا ردیگی اگر نہیں تو میں کہتا ہوں کیوں انہوں نے اس قسم کے لوگوں کا مقابلہ نہ کیا جنہوں نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ایسے لغو اور بیہودہ اعتراض کئے اور کیوں مسیحیت کی اِس تعلیم کو یاد نہ رکھا کہ ’’تُو اپنے پڑوسی کو ایسا پیار کر جیسا آپ کو‘‘ (متی باب ۲۲ آیت ۳۹)
اگر سر ولیم اور پادری وہیری غور کرتے تو انہیں معلوم ہو سکتا تھا کہ یہ فرق جو مکی اور مدنی سورتوں کے بیان میں ہے اِس کی نہایت معقول وجہ موجود ہے اور و ہ یہ کہ مکہ میں مسلمانوں پر کفار کا یہ طعنہ ہوتا تھا کہ یہ ذلیل اور غریب ہیں ان کے پاس وہ نعمتیں نہیں ہیں جو ہمیں حاصل ہیں اس لئے انہیں کے الفاظ میں جنت کی حقیقت کو بیان کیا گیا۔ اور
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ255

بتایا گیا کہ جن چیزوں پر تم کو فخر ہے ان سے بہتر مسلمانوں کو ملینگی لیکن مدینہ میں جب مسلمانوں کے قدم اللہ تعالیٰ نے جما دیئے تو کفار کے اس اعتراض کی گنجائش نہ رہی اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی اس رنگ کے جواب کو ترک کر دیا۔ اب آیندہ زمانوں کے لئے قرآن شریف میں دونوں طرح کی تشریح جنت کی موجود ہے جن کا اعتراض مسلمانو ںپر مکی زندگی کے دشمنوں کا سا ہو ان کے لئے مکی زندگی کی آیات میں جواب موجود ہے اور جن کا اعتراض مدنی زندگی کے دشمنوں کا سا ہو ان کے لئے مدنی زمانہ کی آیات موجود ہیں۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ مکی زمانہ میں اعتقادات کی تشریح پر زور دینا ضروری تھا کیونکہ ابتداء میں اعتقادات کی درستی اور تلقین ہی ضروری ہوتی ہے اس لئے ان سورتوں میں اعتقادی مسائل کی تشریح زیادہ تفصیل سے موجود ہے اور جنت بھی اعتقادات میں سے ہے پس جنت کے متعلق زیادہ تفصیلی مکی سورتوں میں ہے مدنی سورتوں میں چونکہ اسلامی تمدن کا قیام زیادہ مقدم تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے حسبِ حال تعلیم مدنی سورتوں میں دی ہے اور وہ مدنی احکام کی زیادہ تفصیل بیان کرتی ہیں اور ان میں ان مسائل کی طرف (جب بھی ان کا ذکر آئے) صرف اشارہ ہوتا ہے جو مکی سورتوں میں بیان ہو چکے تھے اور کلام حکیم میں ایسا ہی ہونا چاہیئے۔
سر ولیم نے اعتراض کا ایک اور پہلو بھی اختیار کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ بات نہیں جو اوپر بیان ہوئی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ میں آئے تو یہود و نصاریٰ کے اثر سے انہوں نے جنت کے بارہ میں اپنے کلام کو بدل دیا کسی نے سچ کہا ہے کہ دروغ گورا حافظہ بنا شد۔ مسیحی مصنف کفار مکہ کے اِسی اعتراض کو بڑی وقعت دیتے ہیں کہ محمد رسول اللہ کو کوئی اور شخص سکھاتا ہے اور اس پر زور دیتے ہیں کہ بعض مسیحی لوگ جو غلام تھے محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مسیحی کتب کی باتیں بتاتے تھے اور کبھی وہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپؐ نے ایک مسیحی راہب سے اپنی جوانی میں مسیحی مذہب کی تعلیم حاصل کی تھی اور اسے قرآن میں نقل کر دیا۔ سر ولیم میور نے اپنی کتاب میں اس امر کی تصدیق کی ہے کہ آپؐ نے صہیب رضی اللہ عنہ سے جو ایک رومی غلام تھے اور مکہ میں رہتے تھے عیسائیت کے بارہ میں علم حاصل کیا تھا (لائف آف محمد صفحہ ۶۷) اگر یہ بات درست ہے تو مدینہ میں آنے سے پہلے ہی آپ کو مسیحی تعلیم کا علم تھا اور مدینہ میں آ کر جنت کے بارہ میں مسیحی تعلیم سے متاثر ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر واقعہ میں مسیحی اور یہودی غلام آپؐ کو پرانے اور نئے عہد نامہ کی باتیں بتایا کرتے تھے تو یہ علم آپ کو مکہ میں ہی حاصل ہو جانا چاہیئے تھا۔
بات یہ ہے کہ یہودی اور نصرانی لٹریچر میں جنت کا کوئی ذکر ہی نہیں اسرائیلی لوگوں کو اس دُنیا کی زندگی سے ایسی اُلفت رہی ہے اور اُن کی شاخ مسیحیت بھی اسی مرض میں مبتلا رہی ہے کہ اُخروی زندگی کے بارہ میں اُن کی کتب میں کوئی معین تعلیم موجود نہیں وہ سب ان وعدوں کو جو انبیاء نے اُخروی زندگی کے بارہ میں کئے ہیں اِسی دُنیا پر چسپان کرتے چلے آئے ہیں۔ پس ان سے کسی کا متاثر ہونا امر محال ہے ان کی کتب میں نہ ان مسائل پر بحث ہے اور نہ کوئی ان سے کچھ اخذ کر سکا ہے وہ تو اِسی دُنیا کی طرف راغب رہے ہیں جیسا کہ قرآن کریم ان کے حق میں فرماتا ہے کہ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (سورہ کہف ع ۱۲) یعنی ان کی تمام کوششیں اسی دُنیا میں غائب ہو کر رہ جاتی ہیں پس اگر کوئی ان سے اس بارہ میں حاصل کرنا بھی چاہے تو کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔ ہاں قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے ان مسائل پر سیر کن بحث کی ہے جو اپنے اپنے موقعہ پر بیان ہو گی۔
میں آخر میں اس امر کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس آیت کے بارہ میں جو مضامین میں نے بیان کئے ہیں وہ بانی سلسلہ احمدؐیہ کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کی روشنی
 
Top