چنانچہ آیت:’’ اَﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ‘‘ میں غور فرمایئے کہ کس طرح انفس کی توفی بصورت فعل رکھی ہے جو کہ مفید تجدد ہے اورآیت:’’ یٰعِیْسٰیٓ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ۰‘‘ میں کس طرح صیغہ اسم فاعل ہے جو کہ مفید وعدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی توفی چونکہ ان ہر دو عام توفیوں سے ایک مغائر توفی تھی۔ لہذا علاوہ تغیر سیاق کے لفظ رافعک کا اور اضافہ فرمایا تاکہ بالتصریح معلوم ہو جائے کہ یہ توفی مجامع مع الامساک یا مع الارسال نہیں بلکہ مجامع مع الرفع ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سارے قرآن میں بزعم مرزا قادیانی ۲۳ مقامات پر لفظ توفی کا مستعمل ہوا ہے۔ مگر کسی ایک مقام میں بھی توفی کو مجامع مع الرفع نہیں رکھا گیا۔ سوائے حضرت عیسیٰ علیہ لسلام کے‘ حتیٰ کہ جب نبی کریم کے حق میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ وہاں بھی صرف توفی کا ذکر ہے مگر رفع کا ذکر نہیں :’’کما قال! وَاِمَّانُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ۰یونس آیت۴۶‘‘ اوریہ نہیں فرمایا کہ:’’ نتوفینک ونرفغک‘‘ تاکہ معلوم ہو جائے کہ اطلاق سے غرض یہی ہے کہ آپ کی توفی کسی نئی شان کی نہیں بلکہ اسی قسم کی توفی ہے جو:’’ اَﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ۰‘‘ میں بیان فرمائی گئی۔
پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن عزیز میں تین قسم کی توفیوں کا ذکر ہے: (۱)…توفی مع الارسال۔(۲)…توفی مع الامساک۔(۳)…توفی مع الرفع‘ اول کی۔ دوتوفیاںآیت:’’ اَﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ ۰‘‘ میں مذکور ہیں جیسا کہ گزرا۔ اور تیسری توفی کا آل عمران میں ذکر ہے جیسا کہ معلوم ہوا۔ چونکہ اول دونوں نوعون کا جمیع انفس سے تعلق بیان فرمایا گیا ہے۔ لہذا ہم نے اسے غیر منقطع اور سنت دائمی تصور کیا اور تیسری نوع کا مخصوص طور پر عیسیٰ علیہ السلام ہی سے وعدہ کیا گیا ہے نہ سارے جہان سے۔ لہذا ہم نے ان ہی پر مختم مانا۔ پس کیا ہی بدقسمت ہے وہ شخص جس نے خدا کے خوارق کو عادات اور انعام کو اوہام بنایا اور کیا ہی خوش نصیب ہے وہ جماعت جس نے اس کے احکامات کو اپنے اپنے مقام پر بدوں کج بحثیوں کے تسلیم کیا اورشتان بین مشرق و مغرب۔
جب آپ نے یہ سمجھ لیا تو اب سنیئے کہ چونکہ مرزا قادیانی بھی اس امر کو جانتے ہیں کہ اہل اسلام کے نزدیک یہ تو فی مخصوص طور سے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہوئی ہے اور کسی کی توفی اس طور سے نہیں واقع ہوئی بلکہ یانوم کی صورت میں یا موت کی شکل میں ہوئی ہے۔ لہذا قاعدہ بنایا کہ جہاں کہیں اللہ فاعل ہو اور مفعول ذی روح وہاں ہر جگہ موت ہی کے معنی ہوں گے اور ہزار روپے کا اس پر اشتہار شائع کر دیا۔
’’اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا حدیث رسول اللہ ﷺ سے یا اشعار قصائد نظم و نثر قدیم و جدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجزقبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر پایا گیا ہے۔ یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کرکے مبلغ ہزار روپے نقد دوں گا۔‘‘ (ازالہ ص ۹۱۹ حصہ دوم‘ خزائن ص۶۰۳ج۳)
سادے اور بھولے مسلمان اس دعوے اور اعلان کو دیکھ کر فوراگردن تسلیم خم کر بیٹھے۔حالانکہ اس عبارت میں جو کچھ بھی مرزا قادیانی نے ہوشیاری کی ہے وہی ان کے کشف حقیقت کے لئے کافی ہے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمایئے اولاً سوائے وفات کے کسی اور معنی پر ہزار روپے کا وعدہ تھا مگر جانتے تھے کہ موت کے علاوہ تودسیوں جگہ یہ لفظ مستعمل ہوا ہے۔ لہذا کسی اور معنی کی تشریح یوں فرماتے ہیں یعنی قبض جسم……الخ۔ پس ہزار روپے کا وعدہ اس تقدیر پر ہے۔ جبکہ لفظ توفی کا خدا فاعل ہو اور مفعول ذی روح اور پھر وہاں قبض جسم یعنی رفع مع الجسد کے معنی ہوں۔
اے میرے عزیزو!ذرا غور کرو کیا اہل اسلام کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور بھی آسمان پر گیا ہے؟۔ اگر نہیں گیا تو کسی ذی روح کی توفی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی کیسے ممکن ہے۔ جب خدا نے کسی کو رفع مع الجسد کا وعدہ ہی نہیں دیا سوائے ایک عیسیٰ علیہ السلام کے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ کسی ذی روح کی توفی اسی طور سے ہو سکے؟۔جائو اور سارے مرزائی زور لگائو اور بتلا دو کہ سارے قرآن میں یا کسی حدیث میں کبھی خدا نے سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے کسی اور کو بھی رفع مع الجسد کا وعدہ دیا ہے اور پھر وہاں لفظ توفی کا بھی استعمال فرمایا ہے۔ اگر کوئی مرزائی ایسا دکھا دے تو پھر اسی وقت ہم سے توفی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ قبض جسم کے معنی میں لے لے مگر اس کی بدقسمتی سے اگر سارے قرآن میں سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے کسی ایک سے بھی یہ وعدہ نہ کیا گیا ہو تو پھر اسے شرم کرنا چاہئے کہ جس کو خدا نے قبض جسم کا وعدہ ہی نہیں دیا وہ کیونکر آسمان پر جا سکتاہے؟۔
چنانچہ پڑھو قرآن کی آیت:’’وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَلَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعًا۰نبی اسرائیل آیت۹۰‘‘(۲)…:’’اَوْتَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃُٗ مِّنْ نَّخِیْلِ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَا لْاَنْھارَ خِلٰلَھَا تَفْجِیْرًا۰ بنی اسرائیل آیت۹۱‘‘ (۳)…:’’اَوْتُسْقِطَ السَّمَآئَ کَمَازَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا۰بنی اسرائیل آیت۹۲‘‘ (۴)…:’’ اَوْتَاْتِیَ بِااﷲِ وَالْمَلآئِکَۃِ قَبِیْلاً ۰ ایضاً‘‘ (۵)…:’’ اَوْیَکُوْنَ لَکَ بَیْتُ ٗ مِّنْ زُخْرُفٍ ۰بنی اسرائیل آیت۹۳‘‘ (۶)…:’’ اَوْتَرْقٰی فِی السَّمَآئِ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی ۰ بنی اسرائیل آیت ۹۳‘‘ (۷)…:’’تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتاباً نَّقْرَؤُہٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرًا رَّسُوْلاً۰بنی اسرائیل آیت۹۳‘‘
یعنی کفار کہتے تھے کہ ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے۔حتیٰ کہ تو ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری کر دے یا تیرے پاس کھجور اور انگور کے باغ ہوں۔ اس کے نیچے نہریں جاری ہوں یا توآسمانوں کا کوئی ٹکڑا برسا دے جیسا کہ تو کہا کرتا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو ضامن لے آوے یا تیرے لئے کوئی گھر سونے کا بنایا ہو یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور اس پر بھی ہم تیرے چڑھنے کو نہیں مانیں گے جب تک کہ وہاں سے کوئی ایسی کتاب نہ نازل کرے جسے ہم خود پڑھ لیں۔ اے پیغمبر ﷺ ان کو ان سوالات کے جواب میں یہی کہہ دو کہ میرا رب پاک ہے (کہ کوئی اس پرزور وتحکم کر سکے) میں تو صرف ایک (فرمانبردار) بندہ اور رسول ہوں۔‘‘
اس آیت نے ساری بحثوں کا فیصلہ ہی کر دیا۔ اگر لوگ سمجھیں ظاہر ہے کہ کفار نے اس آیت میں محالات سے سوال نہیں کیا بلکہ ان ہی امور سے سوال کیا ہے جو ان کے زعم میں واقع ہو چکی تھی یا نبی کریمﷺ نے اس کا وعدہ دیا تھا۔چنانچہ زمین سے چشموں کا پھوٹنا:’’فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا۰ البقرہ آیت ۶۰‘‘سے ثابت ہے اور باغوں کا ہونا :’’تَبارَکَ الَّذِیْ اِنْ شَآئَ جَعَلَ لَکَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِکَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھارُ وَیَجْعَلْ لَّکَ قُصُوْرًا۰الفرقان آیت ۱۰‘‘ سے ظاہر ہے اور بیت زخزف کا امکان قول خدا وند:’’ وَلَوْلآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِھِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَیْھَا یَظْھَرُوْنَ وَلِبُیُوْتِھِمْ اَبْوَابًاوَّ سُرُرًا عَلَیْھَا یَتَّکِؤُْنَ ۰وَزُخْرُفًا۰الزحرف آیت ۳۳‘‘سے ظاہر ہے اسی طرح سقوط سماء کا حال اس طرح ارشاد ہوتاہے:’’ اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِھِمُ الْاَرْضَ اَوْنُسْقِطْ عَلَیْھِمْ کِسَفًا مِّنَ السَّمَآئِ۰ سباء آیت۹‘‘اور اتیان خداوند عالم کا بالملائکہ آیت:’’ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلاَّ اَنْ یَّاْتِیَھُمُ اﷲُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٓئِکَۃُ…الخ۰ البقرۃ آیت۲۱۰‘‘ میں مذکور ہے اور صعود والی السماء بحق عیسیٰ علیہ السلام ثابت ہے: ’’کما قال! وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اﷲُ اِلَیْہِ۰النساء آیت ۱۵۷‘ ۱۵۸‘‘ رہا نزول کتاب سو وہ تو رات موسیٰ علیہ السلام کے نزول سے ظاہر ہے۔ الحاصل ان کے سوالات میں کوئی امر مستعبد اور محال نہ تھا۔ صرف سقوط سماء ایک امر اجنبی معلوم ہوتا تھا۔ لہذا اسی کے ساتھ کما زعمت لگا دیا ۔ورنہ جمیع اشیاء ان کے نزدیک ناممکن نہیں تھیں۔ بلکہ واقع تھیں اس وجہ سے ان کا سوال کیا گیا تھا۔
پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن عزیز میں تین قسم کی توفیوں کا ذکر ہے: (۱)…توفی مع الارسال۔(۲)…توفی مع الامساک۔(۳)…توفی مع الرفع‘ اول کی۔ دوتوفیاںآیت:’’ اَﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ ۰‘‘ میں مذکور ہیں جیسا کہ گزرا۔ اور تیسری توفی کا آل عمران میں ذکر ہے جیسا کہ معلوم ہوا۔ چونکہ اول دونوں نوعون کا جمیع انفس سے تعلق بیان فرمایا گیا ہے۔ لہذا ہم نے اسے غیر منقطع اور سنت دائمی تصور کیا اور تیسری نوع کا مخصوص طور پر عیسیٰ علیہ السلام ہی سے وعدہ کیا گیا ہے نہ سارے جہان سے۔ لہذا ہم نے ان ہی پر مختم مانا۔ پس کیا ہی بدقسمت ہے وہ شخص جس نے خدا کے خوارق کو عادات اور انعام کو اوہام بنایا اور کیا ہی خوش نصیب ہے وہ جماعت جس نے اس کے احکامات کو اپنے اپنے مقام پر بدوں کج بحثیوں کے تسلیم کیا اورشتان بین مشرق و مغرب۔
جب آپ نے یہ سمجھ لیا تو اب سنیئے کہ چونکہ مرزا قادیانی بھی اس امر کو جانتے ہیں کہ اہل اسلام کے نزدیک یہ تو فی مخصوص طور سے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہوئی ہے اور کسی کی توفی اس طور سے نہیں واقع ہوئی بلکہ یانوم کی صورت میں یا موت کی شکل میں ہوئی ہے۔ لہذا قاعدہ بنایا کہ جہاں کہیں اللہ فاعل ہو اور مفعول ذی روح وہاں ہر جگہ موت ہی کے معنی ہوں گے اور ہزار روپے کا اس پر اشتہار شائع کر دیا۔
’’اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا حدیث رسول اللہ ﷺ سے یا اشعار قصائد نظم و نثر قدیم و جدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجزقبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر پایا گیا ہے۔ یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کرکے مبلغ ہزار روپے نقد دوں گا۔‘‘ (ازالہ ص ۹۱۹ حصہ دوم‘ خزائن ص۶۰۳ج۳)
سادے اور بھولے مسلمان اس دعوے اور اعلان کو دیکھ کر فوراگردن تسلیم خم کر بیٹھے۔حالانکہ اس عبارت میں جو کچھ بھی مرزا قادیانی نے ہوشیاری کی ہے وہی ان کے کشف حقیقت کے لئے کافی ہے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمایئے اولاً سوائے وفات کے کسی اور معنی پر ہزار روپے کا وعدہ تھا مگر جانتے تھے کہ موت کے علاوہ تودسیوں جگہ یہ لفظ مستعمل ہوا ہے۔ لہذا کسی اور معنی کی تشریح یوں فرماتے ہیں یعنی قبض جسم……الخ۔ پس ہزار روپے کا وعدہ اس تقدیر پر ہے۔ جبکہ لفظ توفی کا خدا فاعل ہو اور مفعول ذی روح اور پھر وہاں قبض جسم یعنی رفع مع الجسد کے معنی ہوں۔
اے میرے عزیزو!ذرا غور کرو کیا اہل اسلام کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور بھی آسمان پر گیا ہے؟۔ اگر نہیں گیا تو کسی ذی روح کی توفی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی کیسے ممکن ہے۔ جب خدا نے کسی کو رفع مع الجسد کا وعدہ ہی نہیں دیا سوائے ایک عیسیٰ علیہ السلام کے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ کسی ذی روح کی توفی اسی طور سے ہو سکے؟۔جائو اور سارے مرزائی زور لگائو اور بتلا دو کہ سارے قرآن میں یا کسی حدیث میں کبھی خدا نے سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے کسی اور کو بھی رفع مع الجسد کا وعدہ دیا ہے اور پھر وہاں لفظ توفی کا بھی استعمال فرمایا ہے۔ اگر کوئی مرزائی ایسا دکھا دے تو پھر اسی وقت ہم سے توفی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ قبض جسم کے معنی میں لے لے مگر اس کی بدقسمتی سے اگر سارے قرآن میں سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے کسی ایک سے بھی یہ وعدہ نہ کیا گیا ہو تو پھر اسے شرم کرنا چاہئے کہ جس کو خدا نے قبض جسم کا وعدہ ہی نہیں دیا وہ کیونکر آسمان پر جا سکتاہے؟۔
چنانچہ پڑھو قرآن کی آیت:’’وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَلَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعًا۰نبی اسرائیل آیت۹۰‘‘(۲)…:’’اَوْتَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃُٗ مِّنْ نَّخِیْلِ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَا لْاَنْھارَ خِلٰلَھَا تَفْجِیْرًا۰ بنی اسرائیل آیت۹۱‘‘ (۳)…:’’اَوْتُسْقِطَ السَّمَآئَ کَمَازَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا۰بنی اسرائیل آیت۹۲‘‘ (۴)…:’’ اَوْتَاْتِیَ بِااﷲِ وَالْمَلآئِکَۃِ قَبِیْلاً ۰ ایضاً‘‘ (۵)…:’’ اَوْیَکُوْنَ لَکَ بَیْتُ ٗ مِّنْ زُخْرُفٍ ۰بنی اسرائیل آیت۹۳‘‘ (۶)…:’’ اَوْتَرْقٰی فِی السَّمَآئِ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی ۰ بنی اسرائیل آیت ۹۳‘‘ (۷)…:’’تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتاباً نَّقْرَؤُہٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرًا رَّسُوْلاً۰بنی اسرائیل آیت۹۳‘‘
یعنی کفار کہتے تھے کہ ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے۔حتیٰ کہ تو ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری کر دے یا تیرے پاس کھجور اور انگور کے باغ ہوں۔ اس کے نیچے نہریں جاری ہوں یا توآسمانوں کا کوئی ٹکڑا برسا دے جیسا کہ تو کہا کرتا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو ضامن لے آوے یا تیرے لئے کوئی گھر سونے کا بنایا ہو یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور اس پر بھی ہم تیرے چڑھنے کو نہیں مانیں گے جب تک کہ وہاں سے کوئی ایسی کتاب نہ نازل کرے جسے ہم خود پڑھ لیں۔ اے پیغمبر ﷺ ان کو ان سوالات کے جواب میں یہی کہہ دو کہ میرا رب پاک ہے (کہ کوئی اس پرزور وتحکم کر سکے) میں تو صرف ایک (فرمانبردار) بندہ اور رسول ہوں۔‘‘
اس آیت نے ساری بحثوں کا فیصلہ ہی کر دیا۔ اگر لوگ سمجھیں ظاہر ہے کہ کفار نے اس آیت میں محالات سے سوال نہیں کیا بلکہ ان ہی امور سے سوال کیا ہے جو ان کے زعم میں واقع ہو چکی تھی یا نبی کریمﷺ نے اس کا وعدہ دیا تھا۔چنانچہ زمین سے چشموں کا پھوٹنا:’’فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا۰ البقرہ آیت ۶۰‘‘سے ثابت ہے اور باغوں کا ہونا :’’تَبارَکَ الَّذِیْ اِنْ شَآئَ جَعَلَ لَکَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِکَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھارُ وَیَجْعَلْ لَّکَ قُصُوْرًا۰الفرقان آیت ۱۰‘‘ سے ظاہر ہے اور بیت زخزف کا امکان قول خدا وند:’’ وَلَوْلآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِھِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَیْھَا یَظْھَرُوْنَ وَلِبُیُوْتِھِمْ اَبْوَابًاوَّ سُرُرًا عَلَیْھَا یَتَّکِؤُْنَ ۰وَزُخْرُفًا۰الزحرف آیت ۳۳‘‘سے ظاہر ہے اسی طرح سقوط سماء کا حال اس طرح ارشاد ہوتاہے:’’ اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِھِمُ الْاَرْضَ اَوْنُسْقِطْ عَلَیْھِمْ کِسَفًا مِّنَ السَّمَآئِ۰ سباء آیت۹‘‘اور اتیان خداوند عالم کا بالملائکہ آیت:’’ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلاَّ اَنْ یَّاْتِیَھُمُ اﷲُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٓئِکَۃُ…الخ۰ البقرۃ آیت۲۱۰‘‘ میں مذکور ہے اور صعود والی السماء بحق عیسیٰ علیہ السلام ثابت ہے: ’’کما قال! وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اﷲُ اِلَیْہِ۰النساء آیت ۱۵۷‘ ۱۵۸‘‘ رہا نزول کتاب سو وہ تو رات موسیٰ علیہ السلام کے نزول سے ظاہر ہے۔ الحاصل ان کے سوالات میں کوئی امر مستعبد اور محال نہ تھا۔ صرف سقوط سماء ایک امر اجنبی معلوم ہوتا تھا۔ لہذا اسی کے ساتھ کما زعمت لگا دیا ۔ورنہ جمیع اشیاء ان کے نزدیک ناممکن نہیں تھیں۔ بلکہ واقع تھیں اس وجہ سے ان کا سوال کیا گیا تھا۔