• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

توفی کا قادیانی قاعدہ " جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہٖ ہو بجز مارنے کے اور کچھ نہیں" کا قرآنی جواب

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
چنانچہ آیت:’’ اَﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ‘‘ میں غور فرمایئے کہ کس طرح انفس کی توفی بصورت فعل رکھی ہے جو کہ مفید تجدد ہے اورآیت:’’ یٰعِیْسٰیٓ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ۰‘‘ میں کس طرح صیغہ اسم فاعل ہے جو کہ مفید وعدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی توفی چونکہ ان ہر دو عام توفیوں سے ایک مغائر توفی تھی۔ لہذا علاوہ تغیر سیاق کے لفظ رافعک کا اور اضافہ فرمایا تاکہ بالتصریح معلوم ہو جائے کہ یہ توفی مجامع مع الامساک یا مع الارسال نہیں بلکہ مجامع مع الرفع ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سارے قرآن میں بزعم مرزا قادیانی ۲۳ مقامات پر لفظ توفی کا مستعمل ہوا ہے۔ مگر کسی ایک مقام میں بھی توفی کو مجامع مع الرفع نہیں رکھا گیا۔ سوائے حضرت عیسیٰ علیہ لسلام کے‘ حتیٰ کہ جب نبی کریم کے حق میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ وہاں بھی صرف توفی کا ذکر ہے مگر رفع کا ذکر نہیں :’’کما قال! وَاِمَّانُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ۰یونس آیت۴۶‘‘ اوریہ نہیں فرمایا کہ:’’ نتوفینک ونرفغک‘‘ تاکہ معلوم ہو جائے کہ اطلاق سے غرض یہی ہے کہ آپ کی توفی کسی نئی شان کی نہیں بلکہ اسی قسم کی توفی ہے جو:’’ اَﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ۰‘‘ میں بیان فرمائی گئی۔
پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن عزیز میں تین قسم کی توفیوں کا ذکر ہے: (۱)…توفی مع الارسال۔(۲)…توفی مع الامساک۔(۳)…توفی مع الرفع‘ اول کی۔ دوتوفیاںآیت:’’ اَﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ ۰‘‘ میں مذکور ہیں جیسا کہ گزرا۔ اور تیسری توفی کا آل عمران میں ذکر ہے جیسا کہ معلوم ہوا۔ چونکہ اول دونوں نوعون کا جمیع انفس سے تعلق بیان فرمایا گیا ہے۔ لہذا ہم نے اسے غیر منقطع اور سنت دائمی تصور کیا اور تیسری نوع کا مخصوص طور پر عیسیٰ علیہ السلام ہی سے وعدہ کیا گیا ہے نہ سارے جہان سے۔ لہذا ہم نے ان ہی پر مختم مانا۔ پس کیا ہی بدقسمت ہے وہ شخص جس نے خدا کے خوارق کو عادات اور انعام کو اوہام بنایا اور کیا ہی خوش نصیب ہے وہ جماعت جس نے اس کے احکامات کو اپنے اپنے مقام پر بدوں کج بحثیوں کے تسلیم کیا اورشتان بین مشرق و مغرب۔
جب آپ نے یہ سمجھ لیا تو اب سنیئے کہ چونکہ مرزا قادیانی بھی اس امر کو جانتے ہیں کہ اہل اسلام کے نزدیک یہ تو فی مخصوص طور سے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہوئی ہے اور کسی کی توفی اس طور سے نہیں واقع ہوئی بلکہ یانوم کی صورت میں یا موت کی شکل میں ہوئی ہے۔ لہذا قاعدہ بنایا کہ جہاں کہیں اللہ فاعل ہو اور مفعول ذی روح وہاں ہر جگہ موت ہی کے معنی ہوں گے اور ہزار روپے کا اس پر اشتہار شائع کر دیا۔
’’اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا حدیث رسول اللہ ﷺ سے یا اشعار قصائد نظم و نثر قدیم و جدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجزقبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر پایا گیا ہے۔ یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کرکے مبلغ ہزار روپے نقد دوں گا۔‘‘ (ازالہ ص ۹۱۹ حصہ دوم‘ خزائن ص۶۰۳ج۳)
سادے اور بھولے مسلمان اس دعوے اور اعلان کو دیکھ کر فوراگردن تسلیم خم کر بیٹھے۔حالانکہ اس عبارت میں جو کچھ بھی مرزا قادیانی نے ہوشیاری کی ہے وہی ان کے کشف حقیقت کے لئے کافی ہے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمایئے اولاً سوائے وفات کے کسی اور معنی پر ہزار روپے کا وعدہ تھا مگر جانتے تھے کہ موت کے علاوہ تودسیوں جگہ یہ لفظ مستعمل ہوا ہے۔ لہذا کسی اور معنی کی تشریح یوں فرماتے ہیں یعنی قبض جسم……الخ۔ پس ہزار روپے کا وعدہ اس تقدیر پر ہے۔ جبکہ لفظ توفی کا خدا فاعل ہو اور مفعول ذی روح اور پھر وہاں قبض جسم یعنی رفع مع الجسد کے معنی ہوں۔
اے میرے عزیزو!ذرا غور کرو کیا اہل اسلام کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور بھی آسمان پر گیا ہے؟۔ اگر نہیں گیا تو کسی ذی روح کی توفی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی کیسے ممکن ہے۔ جب خدا نے کسی کو رفع مع الجسد کا وعدہ ہی نہیں دیا سوائے ایک عیسیٰ علیہ السلام کے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ کسی ذی روح کی توفی اسی طور سے ہو سکے؟۔جائو اور سارے مرزائی زور لگائو اور بتلا دو کہ سارے قرآن میں یا کسی حدیث میں کبھی خدا نے سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے کسی اور کو بھی رفع مع الجسد کا وعدہ دیا ہے اور پھر وہاں لفظ توفی کا بھی استعمال فرمایا ہے۔ اگر کوئی مرزائی ایسا دکھا دے تو پھر اسی وقت ہم سے توفی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ قبض جسم کے معنی میں لے لے مگر اس کی بدقسمتی سے اگر سارے قرآن میں سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے کسی ایک سے بھی یہ وعدہ نہ کیا گیا ہو تو پھر اسے شرم کرنا چاہئے کہ جس کو خدا نے قبض جسم کا وعدہ ہی نہیں دیا وہ کیونکر آسمان پر جا سکتاہے؟۔
چنانچہ پڑھو قرآن کی آیت:’’وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَلَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعًا۰نبی اسرائیل آیت۹۰‘‘(۲)…:’’اَوْتَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃُٗ مِّنْ نَّخِیْلِ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَا لْاَنْھارَ خِلٰلَھَا تَفْجِیْرًا۰ بنی اسرائیل آیت۹۱‘‘ (۳)…:’’اَوْتُسْقِطَ السَّمَآئَ کَمَازَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا۰بنی اسرائیل آیت۹۲‘‘ (۴)…:’’ اَوْتَاْتِیَ بِااﷲِ وَالْمَلآئِکَۃِ قَبِیْلاً ۰ ایضاً‘‘ (۵)…:’’ اَوْیَکُوْنَ لَکَ بَیْتُ ٗ مِّنْ زُخْرُفٍ ۰بنی اسرائیل آیت۹۳‘‘ (۶)…:’’ اَوْتَرْقٰی فِی السَّمَآئِ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی ۰ بنی اسرائیل آیت ۹۳‘‘ (۷)…:’’تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتاباً نَّقْرَؤُہٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرًا رَّسُوْلاً۰بنی اسرائیل آیت۹۳‘‘
یعنی کفار کہتے تھے کہ ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے۔حتیٰ کہ تو ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری کر دے یا تیرے پاس کھجور اور انگور کے باغ ہوں۔ اس کے نیچے نہریں جاری ہوں یا توآسمانوں کا کوئی ٹکڑا برسا دے جیسا کہ تو کہا کرتا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو ضامن لے آوے یا تیرے لئے کوئی گھر سونے کا بنایا ہو یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور اس پر بھی ہم تیرے چڑھنے کو نہیں مانیں گے جب تک کہ وہاں سے کوئی ایسی کتاب نہ نازل کرے جسے ہم خود پڑھ لیں۔ اے پیغمبر ﷺ ان کو ان سوالات کے جواب میں یہی کہہ دو کہ میرا رب پاک ہے (کہ کوئی اس پرزور وتحکم کر سکے) میں تو صرف ایک (فرمانبردار) بندہ اور رسول ہوں۔‘‘
اس آیت نے ساری بحثوں کا فیصلہ ہی کر دیا۔ اگر لوگ سمجھیں ظاہر ہے کہ کفار نے اس آیت میں محالات سے سوال نہیں کیا بلکہ ان ہی امور سے سوال کیا ہے جو ان کے زعم میں واقع ہو چکی تھی یا نبی کریمﷺ نے اس کا وعدہ دیا تھا۔چنانچہ زمین سے چشموں کا پھوٹنا:’’فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا۰ البقرہ آیت ۶۰‘‘سے ثابت ہے اور باغوں کا ہونا :’’تَبارَکَ الَّذِیْ اِنْ شَآئَ جَعَلَ لَکَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِکَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھارُ وَیَجْعَلْ لَّکَ قُصُوْرًا۰الفرقان آیت ۱۰‘‘ سے ظاہر ہے اور بیت زخزف کا امکان قول خدا وند:’’ وَلَوْلآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِھِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَیْھَا یَظْھَرُوْنَ وَلِبُیُوْتِھِمْ اَبْوَابًاوَّ سُرُرًا عَلَیْھَا یَتَّکِؤُْنَ ۰وَزُخْرُفًا۰الزحرف آیت ۳۳‘‘سے ظاہر ہے اسی طرح سقوط سماء کا حال اس طرح ارشاد ہوتاہے:’’ اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِھِمُ الْاَرْضَ اَوْنُسْقِطْ عَلَیْھِمْ کِسَفًا مِّنَ السَّمَآئِ۰ سباء آیت۹‘‘اور اتیان خداوند عالم کا بالملائکہ آیت:’’ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلاَّ اَنْ یَّاْتِیَھُمُ اﷲُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٓئِکَۃُ…الخ۰ البقرۃ آیت۲۱۰‘‘ میں مذکور ہے اور صعود والی السماء بحق عیسیٰ علیہ السلام ثابت ہے: ’’کما قال! وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اﷲُ اِلَیْہِ۰النساء آیت ۱۵۷‘ ۱۵۸‘‘ رہا نزول کتاب سو وہ تو رات موسیٰ علیہ السلام کے نزول سے ظاہر ہے۔ الحاصل ان کے سوالات میں کوئی امر مستعبد اور محال نہ تھا۔ صرف سقوط سماء ایک امر اجنبی معلوم ہوتا تھا۔ لہذا اسی کے ساتھ کما زعمت لگا دیا ۔ورنہ جمیع اشیاء ان کے نزدیک ناممکن نہیں تھیں۔ بلکہ واقع تھیں اس وجہ سے ان کا سوال کیا گیا تھا۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
یعنی اگر تو رسول ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ جیسا پہلے رسولوں نے معجزہ دکھلائے ہیں تو نہیں دکھلاتا (افسوس کہ آج مرزائی ان امور کو بھی محال سمجھ رہے ہیں جن کو کفار مکہ تک نے باوجود اس حجود و عناد کے ناممکن نہیں سمجھا) ان سب کے جواب میں آپﷺ کو ایک ہی امر کی تعلیم ہوئی۔ یعنی اے محمدﷺ فرما دیجئے کہ میں تو بشر اور رسول ہوں میرے قبضہ میں کچھ نہیں۔ اگر موسیٰ علیہ السلام نے چشمے جاری کئے یا عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر تشریف لے گئے وغیرہ تو نہ اس وجہ سے کہ ان میں طاقت تھی یا اپنے طوع و اختیار سے ایسا کیا بلکہ خدا نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔ لہذا اس نے پورا کیا مگر میرے ساتھ ان امور کا وعدہ ہی نہیں میں کس طور سے آسمان پر جا سکتا ہوں کیونکہ آسمان پر جانا قوت بشری اور رسل سے خارج امر ہے صرف ایک خدا کے قبضہ میں ہے جسے چاہے لے جائے۔ الحاصل جبکہ سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے کسی اور شخص سے رفع کا وعدہ ہی نہیں ہوا تو پھر کیونکر ہم توفی بمعنے قبض جسم دکھلائیں اور کیوں مرزا قادیانی ہم کو ایسے امر پر ہزار روپے کاا علان دیں جو ہمارے مسلمات میں سے ہے …… میں پھر مکرر بآواز بلند کہتا ہوں کہ ہمارے نزدیک کسی شخص کی توفی مجامع الرفع نہیں ہوئی۔ ہاں ایک عیسیٰ علیہ السلام کی اگر خداوند عالم قرآن عزیز میں کسی اور کی توفی بھی مجامع مع الرفع قرار دیتا تو ہم اسے بھی تسلیم کر لیتے مگر ہماری نظر سے نہ کوئی ایک آیت گزری ہے نہ کوئی حدیث۔ اگر مرزائی بتلا سکیں کہ سوائے عیسیٰ علیہ السلام کی کسی اور شخص کی تو فی بھی مجامع مع الرفع ہوئی ہو تو ہم ان کے بہت مشکور ہوں گے۔ پس اب ایسے امر پر ہزار روپے کا انعام مقرر کرنا جسے بعض لحاظ سے ہم بھی تسلیم کرتے ہوں بالکل ایسا ہے جیسا کوئی شخص کہے کہ اگر مجھے کوئی دوسرا آفتاب دکھلا دے تو میں اسے دو ہزار روپے انعام دوں گا۔ ظاہر ہے کہ نہ دو آفتاب موجود ہوں گے نہ وہ دکھلا سکے گا۔ اس طرح سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نہ کسی سے خدا نے رفع مع الجسدکا وعدہ کیا ہے نہ توفی قبض جسم کے معنے سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے ملے گی اور وہی زیر بحث ہے۔
ایک ہزار روپے کا چیلنج
لیجئے مرزا کے قاعدہ کے بالمقابل میں بھی ایک قاعدہ پیش کرتا ہوں وہ یہ کہ اگر فعل توفی رفع کے ساتھ مستعمل ہو اورفاعل دونوں کا اللہ اور مفعول ذی روح ذات واحد ہو تو وہاں صرف اخذمع الرفع ہی کے معنی ہوں گے نہ کوئی اور معنے۔ اگر کوئی مرزائی سارے قرآن میں ایک مقام پر بھی اس کے خلاف دکھلا دے تو اس کو مبلغ ایک ہزار روپے انعام ملے گا۔
میرے دوستو! اگر قواعد بنانے سے ہی نبوت ملتی ہے تو آئو میں تمہیں اور چند مطرد اور منعکس قاعدہ بتلائوں پھر کیا تم مجھے بھی نبی بنا کر پوجا کرو گے۔ والعیاذ باللہ!
اگر مرزائی اعتراض کریں کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ خدا وند عالم نے عیسیٰ علیہ السلام سے کوئی ایسا وعدہ کیا ہو جو کسی سے نہیں کیا بلکہ ضروری ہے کہ ان سے قبل بھی کسی سے ایسا وعدہ نہ ہوا ہو تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر جانا بھی مسلم نہیں۔
ہر چند کہ یہ اعتراض محض مہمل ہے مگر چونکہ اکثر ان حضرات کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے۔ لہذا ایک مقدمہ کی شکل میں اس کا جواب بھی تحریر کرتا ہوں جس کے مطالعہ کے بعد انشاء اﷲتعالیٰ جمیع شکوک کا فور ہو جائیں گے۔ وبہ التکلان
ایک ضروری مقدمہ
یہ مقدمہ ہر ذی فہم کے نزدیک قابل تسلیم ہے کہ جو ذات خالق السموات والارضین ہے نہ اس کے افعال کی کنہ ہم دریافت کر سکتے ہیں اور نہ ان پر کوئی حق اعتراض رکھتے ہیں۔ چنانچہ قرآن پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سب سے پہلا سوال آدم علیہ السلام کے خلاف پر ملائکہ کی جانب سے کیا گیا تھا۔ ہر چند کہ یہ سوال معترضانہ نظر سے نہیں بلکہ طالبانہ وسائلانہ طریق پر تھا مگر باایں ہمہ ملائکہ کو پشیمانی اور معذرت سے چارہ نہ لگا اور بالآخر :’’سُبْحٰنَکَ لاَ عِلْمَ لَنَآ……الخ۰البقرہ آیت۳۲‘‘ کہنا پڑا حتی کہ شیطان جو اس معاملہ کو معترضانہ نظر سے دیکھ کر:’’ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍوَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ۰ الاعراف آیت۱۲‘‘ پکار اٹھا تھا۔ ابدالآ باد کے لئے حطب جہنم بن گیا۔ اس ایک ہی واقعہ میں اہل بصیرت اور اصحاب فہم کے واسطے ایک بڑا سبق ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوق کو خالق کے ساتھ کیا معاملہ چاہئے۔ عجب نہیں کہ سوال ملائکہ سے بھی مقصود ہو جیسا کہ:’’خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ۰الاعراف آیت۵۴‘‘میں تعلیم کا راز مضمر تھا۔
الغرض عقل سلیم تسلیم کرتی ہے کہ خدا کی شان بے شک:’’ لاَیُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ‘‘ اور ہماری حالت :’’وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ‘‘ ہونی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان بشر کو ایمان ملائکہ پر ایک نوع کی فضیلت ہے کیونکہ ان کا ایمان مبنی علی الشہادۃ ہے اور ہمارا علی الغیب اس وجہ سے قرآن عزیز میں خصوصیات کے ساتھ مومنین کے اس وصف کو ذکر کیا گیا ہے:’’ ھُدًی ِلّلْمُتَّقِیْنَ۰ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘ پس خدائی افعال پر معترضانہ نظر شیطانی خصلت اور گردن تسلیم کرنا سنت انبیاء علیہم السلام اور شعار مؤمنین ہے۔ یہی حنیفیت ہے۔
حنیفیت کیاشیٔ ہے
حنیفیت مقابل کفر نہیں بلکہ نفس اسلام کی ایک خصوصیت ہے جس سے یہی مراد ہے کہ غیر اللہ کو چھوڑ کر ایک خدا کی طرف متوجہ رہنا کہ پھر یمین ویسار کی طرف میلان نہ ہو …… چونکہ سب سے اول یہ کلمہ انبیاء علیہم السلام میں سے حضرت ابراھیم علیہ السلام ہی کی زبان سے ادا ہوا ہے اسی لئے ان کو حنیف کہا گیا:’’ کما قال! اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۰ انعام آیت ۷۹‘‘ پس حنیفیت دراصل وصف تھا پھر ملت ابراہیم کا لقب بن گیا ہے۔ جیسا کہ شیخ جلال الدین سیوطی ؒ نے اسلام کی نسبت دعویٰ کیا ہے ۔الحاصل حنیفیت اسلام میں ایک خصوصیت ہے جیسا کہ:’’ وَلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا۰آل عمران آیت۶۷‘‘ سے ظاہر ہے۔
رہی تقدیم حنیفیت تو شاید وصف مختص ہونے کے لحاظ سے ہو غالباً اسی وجہ سے حنیفیت کو یہودیت ونصرانیت کا مقابل قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں قومیں اپنے اپنے و قتوں میں:’’ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۰‘‘ میں سے تھیں۔ مگرحنیف نہ ہونے کے باعث ضَآلِیْنَ اور مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ سے بن گئیں ولہذا قرآن مجید میں:’’ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۰‘‘ کے بعد:’’ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَالضَّآلِیْنَ۰‘‘ فرمایا تاکہ ان سے احتراز ہو جائے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ ہم مومن اور متبع ملت ابراہیمی جب ہی کہلا سکتے ہیں جبکہ ہمارا غیوب پر ایمان ہو اور فضول تشویشیں بے جا سوال و جواب کے بدوں خدائی قصص و احکام کی تسلیم ہو۔
اس کے بعد قرآن عزیز میں خدائی افعال پر اعتراض کفار کی جانب سے بھی منقول ہے:’’وَقَالُوْا لَوْلاَ نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْآنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ۰ الزخرف آیت ۳۱‘‘ یعنی کفار مکہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن مکہ وطائف کے کسی بڑے رئیس پر کیوں نہ اترا ایک یتیم پر کیوں نازل ہوا ہے۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
مرزائیوں کے نزدیک تو اس سائل کا سوال جس میں سرا سر مرزا قادیانی کی روح ہو گی بہت عمدہ اور موزوں ہونا چاہئے کیونکہ ظاہر ہے کہ قرآن ایک بڑی نعمت ہے وہ تو کسی بڑے
شخص ہی کے مناسب ہے۔ جیسا کہ بزعم مرزا قادیانی امت محمدیہﷺ میں سوائے ان کے …… کسی کو نبوت نہ مل سکی مگر بار گاہ ایزدی میں اس اعتراض کی جو وقعت ہوئی وہ آئندہ فرمان عالی سے ظاہر ہے:’’(فقال)اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ ۰(بل) نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ……الخ۰ الزخرف آیت ۳۲‘‘ یعنی کیا تیرے پروردگار کی رحمت وہ تقسیم کرتے ہیں؟۔ ہر گز نہیں بلکہ اپنی رحمت کے ہم تقسیم کرنے والے ہیں۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:’’ اَﷲُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسالَتَہٗ۰ الانعام آیت۱۲۴‘‘ یعنی خدا ہی خوب جانتا ہے جس جگہ وہ اپنی رسالت کو رکھتا ہے۔ پس جو تقسیم کرنے والا ہے وہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ ملائکہ کے مقابلہ میں کہا تھا کہ:’’ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالاَ تَعْلَمُوْنَ۰البقرہ آیت۳۰‘‘ آئندہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’(بل) نَحْنُ قَسَمْنَا… الخ۰الزخرف آیت۳۲‘‘ یعنی نبوت اور رسالت تو ایک بڑا امر ہے زندگی کے سامان جیسے معمولی شے کے بھی ہم ہی تقسیم کرنے والے ہیں تو جیسا کہ تم یہ سوال نہیں کر سکتے کہ فلاں کو رئیس کیوں بنایا اور فلاں کوغریب کیوں؟ اسی طرح تمہیں اس سوال کا بھی حق نہیں کہ فلاں کو کیوں نبی بنایا اور فلاں کو کیوں نہ بنایا یہ سب اس وجہ سے ہی کہ خدا میں صفت علم سب سے اعلی ہے اور اس کی شان وہی ہے جو خود اس نے قرآن عزیز میں بیان فرمائی یعنی:’’ لاَیُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ۰ الانبیاء آیت۲۳‘‘ یعنی خدا کے افعال پر خدا سے کوئی باز پرس کوئی سوال نہیں کیا جا سکتا۔
اس مقام پر یہ ا مر بھی قابل غور ہے کہ معیشت کو بینھم رکھا ہے مگر نبوت کو نہیں رکھا۔ اس کے بعد تقسیم دونوں کی اپنے ہاتھ میں لی ہے۔ یعنی یوں نہیں فرمایا کہ:’’اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ ۰الزخرف آیت۳۲‘‘برخلاف اس کے دوسرے جملہ میں: ’’(بل) نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُم ۰‘‘ پس اول تو تقسیم رحمت یعنی نبوت سے اطلاع دی ثانیاً :’’ اَﷲُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسالَتَہٗ۰الانعام آیت۱۲۴‘‘میں مخصوص افراد کو بخشنا بیان فرمایا گیا ہے ثالثاً:’’اَﷲُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلآئِکَۃِ رُسُلاً وَّمِنَّ النَّاسِ۰الحج آیت ۷۵‘‘میں نبوت کا اصطفاء پر مبنی ہونا مذکور ہوا۔ اس سے مستفاد ہوا کہ نبوت امت محمدیہ میں بطور فیضان جاری نہیں ہو سکتی۔ اولاً تو اس وجہ سے کہ نبوت بینھم رکھی ہی نہیں گئی بلکہ جس امر کی تقسیم بینھم ہے۔ وہ معیشت ہے۔ ثانیاً اس وجہ سے کہ نبوت ان افراد کو جو خدا کے علم میں ہیں مل چکی ہے۔ بطور اصطفاء نہ بطور کسب لہذا کسب بے کار۔ ثالثاً اس وجہ سے کہ خود قرآن عزیز نے بتلا دیا ہے کہ تقسیم تام ہو گئی۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ:’’ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ……الخ۰ المائدہ آیت ۳‘‘لہذا کسی جدید قسم کی گنجائش نہیں۔
اس آیت میں اولاً چند امور قابل غور ہیں پہلے تو یہ کہ دین کا اکمال ذکر فرمایا اور نعمت کا اتمام پھر یہ کہ تکمیل دین میں لکم فرمایا اور اتمام نعمت میں علیکم نہ فیکم‘پہلے سوال کی نسبت گزارش ہے کہ لغویین نے تصریح کی ہے کہ کمال بحسب الاوصاف ہوتا ہے اور تمام بحسب الاجزاء خصوصاً جبکہ یہ دونوں لفظ ایک ہی آیت میں مجتمع ہیں تو پھر تفریق ضروری ہے۔ جیسا کہ شیخ سید محمد آلوسی ؒ نے تفسیر روح المعانی میں فرمایا ہے کہ: ’’اذا اجتمعا افترقاو اذا افترقا اجتمعاو علی ہذا‘‘ دین کے ساتھ اکمال ہی مناسب تھا کیونکہ اصول دین جمیع شرائع میں واحد ہی رہے ہیں۔ لہذا دین محمدی میں تکمیل اوصاف کے ہی لحاظ سے رہی مگر نبوت فقط اوصاف کے لحاظ سے کامل نہیں ہوئی بلکہ بلحاظ اجزاء بھی مکمل ہو چکی ہے جو اس مقام پر افراد نبوت سے عبارت ہیں وعلیٰ ہذا خاتم النبیین کی فقط یہ مراد لینا کہ آپﷺ جیسا کامل نبی اب کوئی نہ ہو گا اور امتی نبی برابر ہوتے رہیں گے محض غلط ہے۔ کیونکہ ختم نبوت فرع ہے اتمام نعمت کی اور جبکہ اتمام نعمت بحسب الاجزاء ہے تو لامحالا خاتم النبیین با اعتبار الافراد ہو گا نہ بحسب الوصف جیسا کہ حدیث:’’ وانا اللبنۃ میں اقامۃ الافراد‘‘ مقام الاجزاء ہی ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ جملہ اولیٰ میں باوجود یہ کہ دین کی تکمیل مذکور ہے۔ مگر باایں ہمہ کوئی مرزائی قرآن عزیز کے بعد کسی نئی شریعت کا قائل نہیں ہوا۔ اور جملہ ثانیہ میں حالانکہ تتمیم نعمت مصرح ہے مگر پھر بھی نبوت کو جاری ہی مانا جاتا ہے۔ پس اگر اتمام نعمت کسی جدید نبی کی بعثت کے منافی نہیں ہے تو پھر تکمیل دین کسی جدید دین کے لئے کیونکر مانع ہو سکتی ہے؟۔ رہا:’’ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ‘‘ فرمانا نہ’’ فیکم‘‘ یہ اسی بناء پر ہے کہ نظر شریعت میں نبوت جاری نہیں بلکہ مسدود ہے۔ لہذا عندالبیان تمامیتہ علینا ہی انسب ہے نہ فینا الحاصل ایک طرف تو تقسیم نبوت کا تذکرہ‘ دوسری طرف اتمام نعمت کا اعلان۔ اس کے بعد خاتم النبیین کی خبر یہ سارے اجزاء بداہتہً دلالت کرتے ہیں کہ اب آئندہ نبوت جاری نہیں۔
کیونکہ جب تقسیم تام ہو گئی تو اب نہ ظلی کی گنجائش ہے نہ بروزی کی۔ یہ سارے اقسام خدائی تقسیم کی تمامیتہ کے بعد حادث ہوئے ہیں۔ لہذا محض دجل ہیں۔ یہ ایک بخث درمیان میں آ گئی جس کی اس مقام پر تفصیل مدنظر نہیں۔ لہذا میں اپنے اصل بیان کی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ جب مقدمہ بالا سے یہ امر واضح ہو گیا کہ معیشت جیسی معمولی شی پر بھی ہمیں بار گاہ خداوندی میں سوال کا کوئی حق نہیں ہے تو نبوت یا خصائص نبوت یا کسی اور شے اہم کی نسبت کیا حق ہو سکتاہے۔
پس اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع اور حیات میں نیچریانہ سوالات اور فلسفانہ اوہام پیدا کرنا قطعاً شیطان لعین اور کفار مکہ کی اقتداء کرنا ہے۔ مرزا قادیانی اور ان کے متبعین کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کے بارے میں ایک بڑا اشکال یہ بھی ہے کہ جب ان سے قبل کوئی نبی آسمان پر نہیں گیا تو عیسیٰ علیہ السلام کیسے جا سکتے ہیں؟۔
معزز حضرات! یہ محض ایک مہمل اور احمقانہ سوال ہے کیونکہ اسکا لازم یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی خاتمیت کا بھی انکار کر دیا جائے کیونکہ آپﷺ سے پیشتر کوئی خاتم نہیں گزرا۔ قرآن شریف کے معجز ہونے کا بھی انکار کیا جائے کیونکہ قرآن سے قبل کوئی کلام معجز نازل نہیں ہوا۔ شق القمر بھی غیر مسلم ٹھہرے کیونکہ پہلے کسی نے قمر کوشق نہیں کیا۔ معراج بھی ایک فسانہ ہو جائے کیونکہ کبھی کسی کو معراج نہیں ہوئی۔ اسی طرح کوہ طور‘ ناقہ صالح علیہ السلام یہ سب امور محض حکایات ہوں کیونکہ نہ کسی نبی کے لئے سوائے موسیٰ علیہ السلام کے کوہ طور ہوا نہ کسی کے لئے سوائے صالح علیہ السلام کے ناقہ‘ دوم اس اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ کوئی صفت کسی نبی میں جب پائی جا سکتی ہے۔ جب اس کا تحقق نہ صرف ایک نبی میں بلکہ جمیع انبیاء علیہم السلام میں پہلے ہو گیا ہو کیونکہ اگر عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و حیات سے اس لئے انکار ہے کہ ان سے پیشتر کوئی ایسا نبی نہیں گزرا جو مرفوع الی السماء ہو تو میں عرض کروں گا کہ اگر بالفرض آپﷺ سے پیشتر کوئی ایسا نبی گزر بھی جاتا جب بھی عیسیٰ علیہ السلام کا رفع مرزا قادیانی کے اصول پر قابل تسلیم نہ ہوتا کیونکہ پھر اس نبی میں کلام جاری ہو گا اور اس کا رفع جب قابل تسلیم ہے جب اس سے پیشتر کوئی نبی آسمان پر جا چکا ہو وہکذا۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
پس ایسے مہمل اعتراض کرنا آدمی کی نبوت پر ہی نہیں بلکہ ایمان وعقل پر سخت بدنما داغ کا باعث ہیں۔
دیکھو قرآن عزیز تصریح کرتا ہے کہ:’’ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ مِنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اﷲُ وَ رَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجاتٍ۰البقرہ آیت ۲۵۳‘‘ یعنی یہ رسول ہیں جن میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ پس بعض ان میں سے وہ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا ہے اور وہ یہی ہیں جن کے مرتبہ بلند
کئے تو خود قرآن ہی نے تصریح کر دی کہ فضیلت من کل وجہ کسی کو نہیں سوائے ایک ذات واحد عزاسمہ کے ہاں۔ بعض کو فضیلت کلیہ ضرور ہے مگر فضیلت کلیہ من کل وجہ میں فرق ہے۔ کون نہیں جانتا کہ موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے افضل تھے مگر پھر بھی خضر علیہ السلام میں ایک وہ علم تھا جس سے موسیٰ علیہ السلام بے خبر تھے اور کیا قرآن میں نہیں ہے کہ:’’ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْم۰یوسف آیت۷۶‘‘ و علیٰ ہذاباب مفاضلۃ مخلوق سے چل کر خالق تک پہنچتا ہے اور ایک خدا ہی کی ذات پر منتہی ہے جسے ہر جہت سے جمیع ماسوا پر ایسی فضیلت ہے کہ اس کا افضل کہنا بھی بے ادبی میں داخل ہے کیونکہ مفاضلۃ متماثلین میں ہوتاہے۔ ’’نہ من لہ مثل و من لیس لہ مثل‘‘ میں الحاصل رفع درجات اور فضلیت اور شے ہے اور کسی خصوصیت جزئیہ میں کسی نبی کا کسی سے متفرد ہو جانا امر دیگر بلکہ منطوق قرآن عزیز ہے۔
جیساکہ: ’’مِنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اﷲُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجات۰ البقرہ آیت ۲۵۳‘‘ سے واضح ہے ۔
پس کیا اگر نبی کریمﷺ کے زمانہ میں کوئی کوہ طور نہ تھا۔ آپﷺ کے پاس صالح علیہ السلام جیسی ناقہ نہ تھی یا موسیٰ علیہ السلام جیسا عصاء نہ تھا تو آپﷺ اس وجہ سے العیاذ باللہ! مفضول ہو گئے۔
ہرگز نہیں۔ کیونکہ دارومدار فضیلت کلیۃ کا تقرب پر ہے نہ عصاء پر نہ کوہ طور پر اور نہ رفع الی السماء پر کیونکہ معجزات ہر زمانہ میں احوال کے لحاظ سے مختلف رہے ہیں۔ لہذا معجزات سے اگر فضیلت نکالنی ہے تو پھر مرزائی جواب دیں کہ کیا مرزا قادیانی نے اپنے معجزات نبی کریمﷺ کے معجزات سے سینکڑوں درجہ زیادہ بیان نہیں کئے۔ اگر آنحضرت کے معجزات کی تعداد چند ہزار لکھی ہے تو اپنے معجزات کی تعداد تین لاکھ اور براہین احمدیہ میں ایک کروڑ سے زیادہ بیان کی ہے تو کیا یہ صریح مقابلہ اور دعویٰ افضلیت نہیں ہے۔
پس اے میرے دوستو!دہریوں کا راستہ چھوڑو اور اہل ایمان کی راہ لو۔ اگر سلامتی درکار ہے۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات سے اس لئے انکار ہے کہ ان سے قبل کوئی نبی ایسا نہیں گزرا تھا تو پھر قرآن کے معجز ہونے کا بھی انکار کرو گے یا اس جیسا کلام معجز بھی کوئی اور دوسرا بتلائو گے۔ اگر نہیں تو کیوں خدائی افعال پر اعتراض کرتے ہو اور کیوں انہیں اپنے عقلی اعتراضات کی بناء پر رد کرنے کھڑے ہو جاتے ہو۔ اگر خدا نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کیلئے کبھی کوئی امر ظاہر کر دیا تو کیا ضروری ہے کہ ہمیشہ ویسا ہی ہوا کرے۔ یاد کرو جبکہ بنی اسرائیل نے خدا کے بہت سے نبیوں کو قتل کیا۔ پس اگر خدا نے بنی اسرائیل کے آخری نبی کو اپنی اظہار قدرت کی غرض سے مع الجسدا ٹھا لیا تاکہ دنیا دیکھ لے کہ اگر خدا چاہے تو ایسا بھی کر سکتا ہے تو اس میں کیا استحالہ ہے؟۔ کیونکہ اب معاملہ قتل کا ختم کرنا تھا۔ لہذا ایک نبی کو اٹھا بھی لیا۔ چنانچہ ان کے بعد پھر قتل کی سنت معدوم ہو گئی۔ لہذا اب عیسیٰ علیہ السلام کا مخصوص رفع تسلیم کر لیا جائے جیسا کہ اہل سنت و الجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے۔
یاد رکھو کہ ہر ما بالعرض مابالذات کی طرف منتہی ہوتا ہے۔ پس حکمت کے باب میں مابالذات صرف ایک خدا کی ذات ہے۔ لہذا ہم سے یا کسی سے کیوں ایسے سوالات کئے جاتے ہیں۔ ہماری کیا قدرت ہے کہ ہم جمیع اشیاء کی حکم بیان کر سکیں؟۔ ہمیں تو ایک گھاس کے تنکے کی حکمت بھی معلوم نہیں۔ اتنا سمجھ لینے کے بعد میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ! جمیع اوہام مند فع ہو گئے ہوں گے اور آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ توفی کا لفظ جس میں مرزاجی نے ساری عمر صرف
کی اور پھر بھی حق تک ان کی رسائی نہ ہوئی آج اس کو اسلام کے ایک ادنیٰ غلام نے کماحقہ واضح کر دکھایا۔ اور بتلا دیا کہ مدعی نبوت کی ساری کائنات از قبیل اصغاث احلام تھیں۔
ہر چند کہ میرے ذہن میں اس لفظ کے متعلق ابھی کچھ اور بھی فوائد ہیں جن کو بوجہ طوالت ذکر کرنا پسند نہیں کرتا کیونکہ ایک ہدایت کے طالب کے لئے اس اختصار ہی میں کفایت دیکھتا ہوں۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
ازریختہ قلم استاذ الاساتذہ انورالشموس المستنیرہ
حضرت مولانا الحاج المولوی السید محمد انورشاہ صاحب کشمیری
صدر نشین مسند تدریس دارالعلوم دیو بند
متعنااللہ بعموم فیوضہ وطول حیوتہ
والسلام!
 
Top