حدیث میں ایک علامت مسیح علیہ اسلام کی یہ ہے کے "وہ میرے مقبرے میں دفن ہوگا " مگر مرزا مقبرہ نبوی میں دفن ہونا تو کیا زیارت بھی نہ کر سکا ۔
قادیانی اعتراض : حدیث میں "یدفن معی فی قبری " لکھا ہے یعنی مسیح علیہ اسلام میری قبر میں دفن ہو گا اور نبی صلم کی قبر کو پھاڑ کر مسیح علیہ اسلام کو اس میں دفن کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت ہے پس اس سے مراد روحانی قبر ہے "ایک جگہ مرزا بھی اس حدیث کا مطلب یہ بتاتا ہے آنحضرت ُ فرماتے ہیں کے مسیح میری قبر میں دفن ہو گا یعنی وہ میں ہی ہوں (کشتی نوح صفحہ 15 خزائن جلد 19 صفحہ16 )
جواب :
یہاں قبر معنے مقبرہ ہے۔ ایک حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے ملا علی قاری فرماتے ہیں : وقَدَ جَائَ ان عیسٰی بَعْدَ لبثہ فی الارض یحج ویعود فیموت بین مکۃ والمدینۃ فَیُحْمَلُ الی المدیۃ فید فن فی الحجرۃ الشریفۃ (مرقاۃ المعاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ص۶۸،ج۱۱) عیسیٰ علیہ السلام زمین میں اپنی عمر کا زمانہ گزار کر حج کرنے جائیں گے اور پھر واپس آئیں گے اور مکہ اور مدینہ کے درمیان فوت ہوں گے اور پھر وہاں سے مدینہ کی طرف ان کو اٹھا کر لے جایا جائے گا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ میں دفن کیا جائے گا۔
مرزائیو! دیکھا خدا کی قدرت کہ کس طرح تمہیں ذلیل اور جھوٹا ثابت فرما رہا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔
یہ تحریر صاف فیصلہ کر رہی ہے کہ ''قبر'' کے معنی حجرہ مزار نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
اہل عرب قبر بمعنی مقبرہ بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ چیز ان کے ہاں بول چال میں عام تھی:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ اَدْفنونی فِیْ قَبْرِ عُثْمَان بْنِ مَظْعُوْنٍ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ص349، ج3 فی الجنازۃ باب فی الرجل یوصی ان یدفن فی الموضع)
دوسری روایت ہے:
حدثنا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ھِشَامٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ رَجُلٍ اَنَّ خیثمۃ اَوْصٰی اَنْ یُدْفَنَ فِیْ مَقْبَرَۃِ فَقَراء قومہٖ (ایضاً)
ان دونوں روایتوں سے یہ معلوم ہوگیا کہ ''قبر'' اور ''مقبرہ'' ایک مضمون میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔
الجواب نمبر ۲:
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے معنی مقبرہ بتائے ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہو حدیث ذیل:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَرٰی أَ نِّیْ اعیش بَعْدَکَ فَتَاذَنُ اَنْ اُدفَنَ اِلٰی جَنْبِکَ فَقَالَ وَانّٰی لِیْ بِذَالِکَ الْموضع مَا فِیْہِ اِلاَّ مَوْضَعُ قَبْرِیْ وَقَبْرُ اَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ۔ (کنز العمال برحاشیہ مسند امام احمد ص57، ج6)
جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ میں ایسا معلوم کر رہی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہوں گی لہٰذا مجھے اجازت مرحمت فرمائیے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کی جاؤں۔ فرمایا میرا اس جگہ پر اختیار نہیں کیونکہ وہاں چار قبروں میری۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ ، عیسیٰ علیہ السلام کے سوا اور جگہ ہی نہیں۔
یہ حدیث فیصلہ فرما رہی ہے کہ جناب مسیح ابن مریم علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقبرہ میں دفن ہوں گے اور مرزا صاحب قادیان میں براج رہے ہیں پس وہ مسیح موعود نہیں ہوسکتے۔
الجواب نمبر ۳:
فِیْ قَبْرِیْ سے مراد میری قبر کے پاس ہیں فِیْ سے مراد کبھی قرب کے ہوتے ہیں جیسے فرمایا: بُ ورِکَ مَنْ فِی النَّارِ (پ19 النمل آیت 10) یعنے موسیٰ علیہ السلام پر برکت نازل کی گئی جو آگ کے قریب تھا۔ نہ کہ اندر چنانچہ علامہ رازی فرماتے ہیں: وَھٰذَا اَقْرَبُ لِاَنَّ الْقَرِیْبَ مِنَ الشَّیْئِ قَدْ یُقَالُ اِنَّہٗ فِیْہِ (تفسیر کبیر زیر آیت سورہ النمل آیت 10)
مرزا صاحب بھی اس معنی کی تائید کرتے ہیں لکھتے ہیں:
'' ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی آجائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے پاس مدفون ہو۔'' (ازالہ اوہام ص470 و روحانی ص352، ج3)
اس حوالہ سے قبر بمعنے روضہ (مقبرہ) بھی مانا گیا ہے اور پاس دفن ہونا بھی مانا گیا ہے۔
روضہ مطہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نقشہ حسب ذیل ہے:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ... حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ... موضع قبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ... حضرت عمر رضی اللہ عنہ
--------------------------------------------------------------------
آخری تدوین
: