• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع و نزول اور قادیانیت

ٍٰفیضان اکبر

رکن ختم نبوت فورم
٭اپنے بعد، میرے بعد٭

سورة الصف 61آیت نمبر 6۔

”اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ ؑ نے کہا ا ے میری قوم ، بنی اسرائیل ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعدآنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے، پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو کہنے لگے ، یہ تو کھلا جادو ہے“۔

سورة البقرة 2آیت نمبر133۔

کیا یعقوب ؑ کے انتقال کے وقت آپ ﷺ موجود تھے؟جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عباست کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آ پ کے آباﺅ اجداد ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرما نبردار رہیں گے۔

نوٹ۔اتنی وضاحت کے ساتھ عیسیٰ ؑ السلام نے اپنے بعد آنے والے کی خبر دی اس" بعد" سے مراد زندگی پوری ،انتقال،(جسم اور نبوت دونوں ختم)کا مفہوم ہے جیسا کہ اگلی آیت میں یعقوب ؑ کے انتقال کی بات ہوئی جس میں جسم اور نبوت دونوں ختم ایسی طرح عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں ان کے بعد محمد ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے ۔
 

ٍٰفیضان اکبر

رکن ختم نبوت فورم
سورۃ آل عمران 3آیت 55۔

اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۚثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ 55؀

جب اللہ نے فرمایا : ’’ اے عیسیٰ ؑ ، میں تیری عمرپوری کر نے والا ہوں(زندگی حیات پوری کرنے والا ہوں،وفات دینے والا ہوں،موت دینے والا ہوں) اور تیرے درجات بلند کر دوں گا (کرنے والا ہوں)اور جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے اُن سے (یعنی اُن کی معیت سے اور اُن کے گندے ماحول میں اُن کے ساتھ رہنے سے) تجھے پاک کردوں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک اُن لوگوں پر بالا دست رکھوں گا جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے ۔ پھر تم سب کو آخر کار میرے پاس آنا ہے،(55)


سورۃ المومن40آیت نمبر77۔

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ۚ فَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَـوَفَّيَنَّكَ فَاِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ 77؀

پس اے نبیﷺ !صبر کرو خدا کا وعدہ سچا ہے۔ اگر ہم تم کو کچھ اس میں سے دکھادیں جس کا ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں۔ (یعنی کافروں پر عذاب نازل کریں) یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں تو ان کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
سورۃ آلِ عمران 3آیت نمبر 193۔
رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّاڰ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ ١٩٣؁ۚ
مالک ، ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو۔ ہم نے اس کی دعوت قبول کر لی ، پس اے ہمارے آقا ، جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے در گزر فرما ، جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔(193)
٭نوٹ ۔ ان تمام آیات میں واضح اللہ کا فرمان ہے کہ توفی کا معنی زندگی حیات پوری کرنے میں آتا ہے۔

اس کی دلیل میں ایک آیت دی گئی ہے سورۃ المومن 40آیت نمبر 77۔جس میں الموت کا لفظ نہیں یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ جب آیت میں توفیٰ کے ساتھ الموت کا لفظ ہو گا تو ہی حقیقی موت ثابت ہوتی ہے ۔جبکہ ان آیات میں واضح مدت حیات پوری ہونے کا ذکر کیا جا رہا ہے ۔ایسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ میں تیری زندگی حیات پوری کرنے والا ہوں سورۃ آل عمرا ن 3 آیت نمبر55۔

توفیٰ (موت کے مفہوم اور معنی میں بھی ہے)کی ایک اور مثال ہمیں ملتی ہے جنازے کی نماز میں۔

مرد و عورت دونوں کی نمازِ جنازہ کے لیے یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا. اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَه مِنَّا فَاَحْيِه عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهمِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الإِيْمَانِ.

’’یا اللہ! تو ہمارے زندوں کو بخش اور ہمارے مردوں کو، اور ہمارے حاضر شخصوں کو اور ہمارے غائب لوگوں کو اور ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو۔ یا اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے تو اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو ہم میں سے موت دے تو اس کو ایمان پر موت دے۔‘‘ (یہاں مراد حقیقی موت ہے )

سورۃ النسائ 4آیت 15۔

وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا 15 ؀

تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت(ان کی زندگی حیات پوری کردے) آجائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ (15)
 

ٍٰفیضان اکبر

رکن ختم نبوت فورم
السلام علیکم!
نبی کریم ﷺ کی زندگی حیات میں توفیٰ کا معنی حقیقی موت میں صحیح بخاری جلد نمبر 1صفہ نمبر 633۔

باب اذان کا بیان (نماز کے مسائل)

حدیث نمبر680

آپ نبی کریم ﷺ کی پیروی کرنے والے ،آپ کے خادم اور صحابی تھے۔۔کہ نبی کریم ﷺ کے مرض الموت میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے تھے۔

٭(یہاں توفیٰ سے کیا مفہوم لیا جاتا ہے نیند سے پہلے،پورے پورے لینے سے پہلے یعنی زندہ،یا حقیقی موت مراد ہے )


پھر آخر میں دوبارہ توفیٰ کا لفظ آتا ہے اور ترجمہ یہ ہے ۔

پس نبی کریم ﷺ کی وفات اسی دن ہو گئی (انا اللہ وانا الیہ راجعون)

اب یہاں بھی توفیٰ کا لفظ ہے عربی میں الموت کا لفظ نہیں ، عربی میں فرشتوں کا کوئی ذکر نہیں اب یہاں کیا مفہوم نکالا جائے گا؟

حقیقی موت،نیند کی موت؟پورے پورے یعنی زندہ واپس جانے کا مفہوم؟
 

ٍٰفیضان اکبر

رکن ختم نبوت فورم
سورۃ النحل 16آیت نمبر70۔

وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ ڐوَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ 70؀ۧ

اور دیکھو ، اللہ نے تم کو پیدا کیا ، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، اور تم میں سے کوئی بد ترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ حق یہ ہے کہ اللہ ہی علم میں بھی کامل ہے اور قدرت میں بھی۔(70)

سورۃ البقرہ 2آیت 240۔

وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَمِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا ښ وَّصِيَّةً لِّاَزْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاجٍ ۚ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْ مَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ٢٤٠؁

تم میں سے جو لوگ وفات پائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ رہے ہوں ، ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک ان کو نان و نفقہ دیا جائے اور وہ گھر سے نہ نکالی جائیں پھر اگر وہ خود نکل جائیں ، تو اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے وہ جو کچھ بھی کریں ، اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ، اللہ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔(240)

سورة مریم 19آیت نمبر 31۔

اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں، اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰة کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں۔


 

ٍٰفیضان اکبر

رکن ختم نبوت فورم
سورۃ آل عمران 3 آیت نمبر55۔میں وَرَافِعُكَ کا ترجمہ درجات بلند کرنا ہے ۔ کیونکہ یہودیوں کا یہ کہنا تھا کہ جس کو ہم قتل کرتے ہیں وہ مردود اور حیثیت میں کمتر ہوتا ہے عزت و ذلت اس کا مقدر ہوتا ہے جبکہ اللہ کا فرمان ہے نہ وہ انہیں قتل کر سکے نہ سولی دے سکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے کر ان کے درجات بلند کئے اللہ تعالیٰ کے نیک اور مقرب لوگوں میں شامل ہو گئے اور قیامت کے دن تک اُن پر سلام ہی سلام ہے رحمت ہی رحمت ہے۔

سورۃ الانعام 6آیت نمبر 156۔

وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ ڮوَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٦٥؀ۧ

وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہار ی آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا ربّ سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔



پھر یہ آیت دیکھیں:سورۃ مریم 57۔وَرَفَعۡنَ۔ٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا ۔"اورہم نے اسکا رفع بلند مقام پر کیا تھا" (سورہ مریم 57)
یہاں بھی حضرت ادریس علیہ السلام کی بات ہورہی ہے جو کہ ایک انسان مع الجسم تھے ناکہ اعمال و اقوال و افعال وغیرہ۔ تو کیا انہیں یہاں بھی رفع جسمانی ہی مراد لیں گے؟ یہاں تمام علما متفق ہیں کہ رفع روحانی یعنی ترقی درجات ہی مراد ہے۔
تمام مسلمان جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تماز میں دو سجدوں کے درمیان جو دعا پڑھا کرتے تھے اس میں ایک لفظ "وارفعنی" بھی ہے۔ یعنی اے اللہ میرا رفع کر۔ (ابن ماجہ)
سب مانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع ہوا مگر زمین پر ہی رہ کر۔ اور تمام مسلمان سنت رسول میں یہ دعا ہر نماز میں پڑھتے ہیں۔ تو بھائی جب آپ کے علما وہی لفظ رفع کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آتا ہے تو اس سے رفع روحانی مراد لیتے ہیں جبکہ یہاں بھی آپ کی شرط کے مطابق رفع اجسام کی بات ہورہی ہے تو پھر حضرت مسیح کے لئے کیوں رفع جسمانی زبردستی خود ساختہ قاعدے وضع کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ مسلمان روز نماز میں سنت رسول میں یہ دعا کرتے ہیں تو کیا اپنے رفع جسمانی کے لئے کرتے ہیں؟ پھر طرفہ یہ کہ پورے قرآن اور احادیث کے ذخیرے میں کہیں بھی رفع آسمان پرجسمانی طور پر جانے کے معنوں میں نہیں آیا۔ جب بھی بندے کے لئے اللہ تعالی رفع کا لفظ استعمال کرے تو اس سے مراد آسمان پر جانا نہیں ہوتا بلکہ درجات کی بلندی یا عزت والی موت کے ہوتے ہیں۔


سورۃ مریم 19آیت56۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ ۡ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا 56؀ڎ

وَّرَفَعْنٰهُ مَكَانًاعَلِيًّا 57؁

اور اس کتاب میں ادریس ؑ کا ذکر کرو ۔ وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا(56)

اور اسے ہم نے بلند مقام پر اٹھایا تھا۔ (57)



سورۃ المجادلۃ58آیت 11۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْ ۚ وَاِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ 11؀

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو جگہ کُشادہ کر دیا کرو ، اللہ تمہیں کُشادگی بخشے گا۔ اور جب تم سے کہا جائے کہ اُٹھ جائو تو اُٹھ جایا کرو تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اورجن کو علم بخشا گیا ہے ، اللہ ان کو بلند درجے عطافرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔(11)

سورۃ عبس 80آیت 14۔ مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۢ 14۝ۙ جو بلند مرتبہ ہیں، پاکیزہ (صحیفے) ہیں،(14)

سورة مریم 19آیت نمبر 33۔

اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ زندہ کھڑا کیا جاﺅ ںگا، سلام ہی سلام ہے۔

سورۃ البقرہ 2 آیت 253۔

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۘ مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ ۭ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِھِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْھُمُ الْبَيِّنٰتُ وَلٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْھُمْ مَّنْ كَفَرَ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا ۣوَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ ٢٥٣؁ۧ

یہ رسول (جو ہماری طرف سے اِنسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے ) ہم نے اِن کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے
۔ ان میں کوئی ایسا تھا جس سے خدا خود ہم کلام ہوا ، کسی کو اُس نےدوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے، اور آخر میں عیسیٰ ؑ ابنِ مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روح پاک سے اُس کی مدد کی ۔ اگر اللہ چاہتا ، تو ممکن نہ تھا کہ اِن رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے ، وہ آپس میں لڑتے۔ مگر (اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبراً اختلاف سے روکے ، اس وجہ سے) اُنہوں نے باہم اختلاف کیا ، پھر کوئی اِیمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی ۔ ہاں ، اللہ چاہتا تو وہ ہرگز نہ لڑتے ، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ (253)

اب ذرا آپ کے اس قاعدے کی طرف آتے ہیں کہ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہوگا وہاں رفع اجسام ہی مراد ہوگی۔ جس آیت پر بہت زیادہ زبردستی کرنے کی کوشش کررہے ہیں اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث ملاحظہ کریں:
اذاتواضع العبد رفعہ اللہ الی السماء السابعۃ۔ (کنز العمال جلد 2 صفہ 25)۔ترجمہ: جب بندہ فروتنی اختیار کرتا ہے (اللہ کے آگے گرتا ہے) تو اللہ تعالی اسکا ساتویں آسمان پر رفع کر لیتا ہے۔یہ حدیث محاورہ عرب کے لحاظ سے اس آیت "بل رفعہ اللہ الیہ" کے معنی سمجھنے کے لئے واضع نص ہے۔ کیوں کہ اس میں لفظ رفع بھی موجود ہے۔ رفع کرنے والا بھی اللہ ہے۔ اور خاص بات اس میں یہ ہے کہ صلہ بھی الی ہی آیا ہے جیسا کہ "بل رفعہ اللہ الیہ" میں ہے۔ اور زائد بات یہ کہ ساتویں آسمان کا لفظ بھی ہے۔ حالانکہ آیت میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں۔ لیکن اس حدیث میں آسمان کا لفظ بھی ہے اور وہ ساری شرائط پوری ہورہی ہیں جن کو اب تک آپ نے پیش کیا ہے۔ لیکن پھر بھی مولوی صاحبان اس کا ترجمہ رفع روحانی یعنی بلندی درجات ہی لیتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ مسیح کے لئے بھی جو رفع کا لفظ آیا ہے اس میں بھی بلندی درجات ہی مراد ہے ناکہ آسمان کی طرف جانا۔
پھر اس حدیث کو دیکھیں:ماتواضع احد للہ الا رفعہ اللہ (مسلم جلد 2 صفہ 321)یعنی کوئی ایسا شخص نہیں کہ وہ اللہ کے آگے گرا ہو اور پھر اللہ نے اسکا رفع نہ کیا ہو۔
تمام قرآن اوراحادیث کا ذخیرہ آپ کے زبردستی کے کئے ہوئے ترجمے کو رد کرہے ہیں۔ آپ نے رفع اجسام کے بارے میں جو بھی قواعد وضع کئے وہ تو آپ نے دیکھ لئے کہ قرآن و حدیث ہی آپ کے خلاف ہیں۔ اب رفع اجسام کے بارے میں صحیح قاعدہ بھی سن لیں۔ کہ قرآن مجید، احادیث، لغات العرب اور محاورہ عرب کی رو سے لفظ "رفع" جب بھی اللہ تعالی کی طرف سے کسی انسان کی نسبت بولا جائے تو اس کے معنی ہمیشہ ہی بلندی درجات یا قرب روحانی کے ہوتے ہیں۔ چیلنج ہے کہ وہ کلام عرب سے ایک ہی مثال اس امر کی پیش کریں کہ لفظ رفع کا فاعل اللہ تعالی مذکور ہو اور کوئی انسان اس کا مفعول ہو اور رفع کے معنی جسم سمیت آسمان پر اٹھا لینے کے ہوں۔ مگر آج تک اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکی اور نہ آئندہ پیش کی جاسکے گی
۔

سورۃ الاعراف 7۔آیت 176۔

وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَلٰكِنَّهٗٓ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ ۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ ۚ اِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ ١٧٦؁ترجمہ: اگر ہم چاہتے تو اُسے اُن آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہشِ نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا لہٰذا اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اُسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو ، شاید کہ یہ کچھ غورو فکر کریں (176)
یہاں بھی رفع اجسام کی بات ہورہی ہے۔ یہ آیات بلعم باعور کے متعلق ہیں اور وہ ایک انسان ہی تھا ناکہ اعمال یا کچھ اور۔ لیکن کیا آپ کوئی ایک بھی مثال دے سکتے ہیں کہ یہاں رفع جسمانی کا معنی کیا گیا ہو۔ آپ کے علما بھی یہاں رفع روحانی ہی مراد لیتے ہیں۔

اگرہم مفسرین کو ایک طرف رکھ کر سورہ آل عمران کی آیت "اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنے حضور عزت دونگا (یعیسی انی متوفیک الی رافعک الی) کو سورہ النسا کی آیت "بلکہ اللہ نے عیسی کو اپنے حضور عزت دی" (بل رفعہ اللہ علیہ) کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو ہم پر یہ امر واضع ہوگا کہ پہلی آیت میں اللہ تعالی نے ایک وعدہ فرمایا ہے اور دوسری آیت میں اس امر کی تصدیق کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے اس وعدہ کو پورا فرمایا۔ خداتعالی کا وعدہ جیسا کہ پہلی آیت میں مذکور ہے یہ ہے کہ اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام کو خود وفات دے کر انہیں اپنے حضور عزت و رفعت دیگا۔ اور انکو کافروں کے الزامات سے پاک کریگا۔ اور موخرالذکر آیت میں تمام امور کا حوالہ دیئے بغیر صرف مسیح علیہ السلام کی سرفرازی اور خدا کے حضور رفعت دئیے جانے کا ذکر ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں آیات کی تفسیر اور تطبیق ایک دوسرے کی روشنی میں کی جانی چاہئے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالی نے واقعی مسیح علیہ السلام کو موت دی اور ان کا اپنے حضور میں رفع درجات فرمایا۔ اور کفر کرنے والوں کے الزامات سے ان کو پاک فرمایا۔ قرآن کریم کی لغت کے ایک بہت بڑے مستند مفسر علامہ الالوسی نے اس آیت کے معنی "میں تجھے موت دونگا" اس مفہوم میں کئے ہیں کہ اللہ تعالی نے مسیح علیہ السلام کو پوری طبعی عمر عطا فرمائی اور ان کی وفات بھی طبعی رنگ میں اس طرح فرمائی کہ انہیں ان کے دشمنوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا کہ وہ آپ کو قتل کر سکتے یا آپ کے خلاف اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوسکتے۔یہ ظاہر ہے کہ عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کے حضور سرفرازی اور بلندی درجات عطا کی گئی۔ آیت میں لفظ رفع توفی کے بعد مذکور ہے اس لئے اس کے معنی رفع درجات کے ہی ہوسکتے ہیں۔ مادی جسم کے آسمان پر اٹھائے جانے کے نہیں۔اس ترجمہ کی تائید اللہ تعالی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام سے فرمایا ہے کہ وہ انہیں ان پر ایمان نہ لانے والوں (کافروں) سے پاک کرے گا۔ گویا ساری آیت کا مقصد مسیح علیہ السلام کی سرفرازی اور اللہ تعالی کے دربار میں بلندی درجات کو بیان کرنا ہے۔قرآن کریم کے دوسرے متعدد مقامات میں اور عربی زبان کے کلاسیکی ادب میں لفظ رفع کے عربی مفہوم سے بھی مذکورہ بالا معنوں کی تائید ہوتی ہے۔ آخر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کے تعلق میں اس لفظ کے استعمال کے ایک اور صرف ایک ہی معنی ہوسکتے ہیں یعنی اللہ کی نصرت اور حفاظت۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری تفسر کرنا قرآن کریم سے بے انصافی کے مترادف ہوگا۔ البتہ بے بنیاد کہانیوں اور من گھڑت روایات کے بے جا تائید ضرور ہوگی۔ ------------ حیرانی ہوتی ہے کہ مسیح کو ان کے دشمنوں کے درمیان سے اٹھا کر مع ان کے مادی جسم کے آسمان پر لے جانا کس طرح اللہ تعالی کی تدبیر کہلا سکتا ہے۔ اور کیسے اس تدبیر کو مسیح کے دشمنوں کی تدبیر سے بہتر اور برتر کہا جاسکتا ہے۔ جبکہ کمزور انسان ہونے کی حیثیت سے ان کے لئے اللہ تعالی کے اس فعل کا مقابلہ کرنا ہرگز ممکن نہیں تھا۔اس طویل مقالہ کی بحث میں ہم مندرجہ ذیل نتائج پر پہنچتے ہیں:



یہاں یہ بل رفعہ اللہ علیہ پر صرف مفتی مصر علامہ محمود شلتوت کی رائے پیش کی گئی ہے۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
مربی فیضان اکبر صاحب آپ اپنی پوسٹ میں عربی عبارت پر عربی ٹیگ لگائیں اور دو لائینوں کی سپیس کو ختم کریں ۔ مذید یہ کہ جس ویب سائٹ سے کاپی کر کے آپ یہاں پیسٹ کر رہے ہیں اس ویب سائٹ کا آخر میں لنک بھی دیا کریں تا کہ کاپی رائٹ نہ ہو سکے شکریہ
 
Top