الحمد اللہ رب العالمین والصلوة والسلام علیٰ خاتم النبین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام مسلمان بھائیوں ،بہنوں ،بزرگوں کو اسلام علیکم!
الحمد اللہ مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام پر ہر دور میں امت مسلمہ متفق رہی ہے ۔۔۔۔لیکن کیوں کہ حق اورباطل کی جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی ۔۔۔۔اسی لئے کچھ نفس پرستوں نے خود ساختہ عقلی دلائل کا سہارا لے کر مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام پر امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔لیکن الحمد اللہ ہمارے بزرگان دین اور علماءکرام نے ایسے فتنوں کا پوری طرح تعاقب کیا۔۔۔اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا ۔
زیر نظر مضمون بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔۔۔جس میں ایک قادیانی موصوف عمر صاحب کو ایک بار پھر وہی خبط سوار ہو ا جو کہ ان کے پیشوا مرزا قادیانی کو ہوا تھا اور اسی طرح اس سے قبل کچھ عقل پرستوں کو بھی رہا ہے ۔۔۔۔ہم اپنایہ جواب اپنے بزرگوں کے پیش کردہ وضاحتوں کی روشنی میں ترتیب دے رہے ہیں ۔۔۔۔ تمام قارئین کرام سے توجہ سے پڑھنے کی درخواست ہے۔
معزز قارئین کرام !
جیسا کہ ہم نے اپنی آخری پوسٹ میں سورہ النساء115 کی آیت مبارکہ پر عمر صاحب کے جواب کا کافی انتظار کیا لیکن جواب نہ آنے کی وجہ سے ہم اپنا یہ فائنل جواب ترتیب دے رہے ہیں ۔۔۔۔ ویسے ہمیں عمر صاحب کی طرف سے کوئی واضح جواب کی امید بھی نہیں تھی ۔۔۔۔ کیوں کہ یہ ایسی دلیل ہے کہ جہاں پر آکر تمام باطل پرست یا تو خاموش ہوجاتے ہیں یا پھر ایسی تاویلات کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا نہ تو کوئی سر ہوتا ہے اور نہ کوئی پیر۔
بہرحال اس سے قبل کے ہم اپنے جوابات ترتیب دیں ۔۔۔مناسب ہے کہ یہاں پہلے آپ حضرات کے سامنے قرآن پاک سمجھنے کے لئے مرزا کے چند اصول واضح کرتے چلیں ۔۔۔۔ مرزا کہتا ہے :
” قرآن مجید کے وہ معانی اور مطالب سب سے زیادہ قابل قبول ہوں گے جن کی تائید قرآن شریف ہی میں دوسری آیت سے ہوتی ہوگی یعنی شواہد قرآنی (دیکھیے برکات الدعاءص13)
نیز مرزا کہتا ہے کہ ”(قرآن پاک سمجھنے کے لئے )دوسرا معیار تفسیر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہے اس میں شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن مجید کے سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم تھے پس اگر آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے تفسیر ثابت ہوجائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلا توقف اور بلا دغدغہ قبول کرلے نہیں تو اس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہے ۔(برکات الدعا 13 تا 15)
اور مرزا کہتا ہے کہ ”تیسرا معیار صحابہ کی تفسیر ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہ کرام آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے نوروں کو حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث تھے اور خدا کا ان پر بڑا فضل تھا اور نصرت الٰہی ان کی قوت مدرکہ ساتھ تھی کیوں کہ ان کا نہ صرف مال (ظاہر) بلکہ حال تھا (حوالہ مذکور)
معزز قارئین کرام ۔۔۔۔ مرزا ہی کے پیش کردہ ان اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ”مسئلہ رفع و نزول مسیح علیہ السلام “کسی بھی حق کے متلاشی قادیانی کے لئے چند سطرو ں میں ہی بخوبی واضح ہوسکتا ہے ۔۔۔ لیکن کیوں کہ ان سب اصولوں اور ضابطوں کے باجود بھی مرزائیوں نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے عقلی دلائل پیش کرکے اپنی نفسانی خواہشات کی تابعداری کرتے ہیں ۔۔۔۔ ان شکوک و شبہات کو دور کر نے کے لئے اور عمر صاحب پر حجت اتمام کرنے کے لئے ان شاءاللہ تعالیٰ ہم اس موضوع پر قدرے تفصیلی روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔۔۔جس میں نہ صرف نقلی دلائل پیش کریں گے بلکہ مرزائیوں کی طرف سے پیش کئے ہوئے مکڑی کے جالوں سے بھی کمزور عقلی دلائل کا پوسٹ مارٹم بھی کریں گے(وما توفیقی الاباللہ)
آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ امت مسلمہ کے پاس حیات مسیح علیہ السلام کے حق میں کیا دلیل ہے ؟؟
الحمد اللہ مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام پر ہر دور میں امت مسلمہ متفق رہی ہے ۔۔۔۔لیکن کیوں کہ حق اورباطل کی جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی ۔۔۔۔اسی لئے کچھ نفس پرستوں نے خود ساختہ عقلی دلائل کا سہارا لے کر مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام پر امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔لیکن الحمد اللہ ہمارے بزرگان دین اور علماءکرام نے ایسے فتنوں کا پوری طرح تعاقب کیا۔۔۔اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا ۔
زیر نظر مضمون بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔۔۔جس میں ایک قادیانی موصوف عمر صاحب کو ایک بار پھر وہی خبط سوار ہو ا جو کہ ان کے پیشوا مرزا قادیانی کو ہوا تھا اور اسی طرح اس سے قبل کچھ عقل پرستوں کو بھی رہا ہے ۔۔۔۔ہم اپنایہ جواب اپنے بزرگوں کے پیش کردہ وضاحتوں کی روشنی میں ترتیب دے رہے ہیں ۔۔۔۔ تمام قارئین کرام سے توجہ سے پڑھنے کی درخواست ہے۔
معزز قارئین کرام !
جیسا کہ ہم نے اپنی آخری پوسٹ میں سورہ النساء115 کی آیت مبارکہ پر عمر صاحب کے جواب کا کافی انتظار کیا لیکن جواب نہ آنے کی وجہ سے ہم اپنا یہ فائنل جواب ترتیب دے رہے ہیں ۔۔۔۔ ویسے ہمیں عمر صاحب کی طرف سے کوئی واضح جواب کی امید بھی نہیں تھی ۔۔۔۔ کیوں کہ یہ ایسی دلیل ہے کہ جہاں پر آکر تمام باطل پرست یا تو خاموش ہوجاتے ہیں یا پھر ایسی تاویلات کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا نہ تو کوئی سر ہوتا ہے اور نہ کوئی پیر۔
بہرحال اس سے قبل کے ہم اپنے جوابات ترتیب دیں ۔۔۔مناسب ہے کہ یہاں پہلے آپ حضرات کے سامنے قرآن پاک سمجھنے کے لئے مرزا کے چند اصول واضح کرتے چلیں ۔۔۔۔ مرزا کہتا ہے :
” قرآن مجید کے وہ معانی اور مطالب سب سے زیادہ قابل قبول ہوں گے جن کی تائید قرآن شریف ہی میں دوسری آیت سے ہوتی ہوگی یعنی شواہد قرآنی (دیکھیے برکات الدعاءص13)
نیز مرزا کہتا ہے کہ ”(قرآن پاک سمجھنے کے لئے )دوسرا معیار تفسیر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہے اس میں شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن مجید کے سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم تھے پس اگر آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے تفسیر ثابت ہوجائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلا توقف اور بلا دغدغہ قبول کرلے نہیں تو اس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہے ۔(برکات الدعا 13 تا 15)
اور مرزا کہتا ہے کہ ”تیسرا معیار صحابہ کی تفسیر ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہ کرام آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے نوروں کو حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث تھے اور خدا کا ان پر بڑا فضل تھا اور نصرت الٰہی ان کی قوت مدرکہ ساتھ تھی کیوں کہ ان کا نہ صرف مال (ظاہر) بلکہ حال تھا (حوالہ مذکور)
معزز قارئین کرام ۔۔۔۔ مرزا ہی کے پیش کردہ ان اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ”مسئلہ رفع و نزول مسیح علیہ السلام “کسی بھی حق کے متلاشی قادیانی کے لئے چند سطرو ں میں ہی بخوبی واضح ہوسکتا ہے ۔۔۔ لیکن کیوں کہ ان سب اصولوں اور ضابطوں کے باجود بھی مرزائیوں نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے عقلی دلائل پیش کرکے اپنی نفسانی خواہشات کی تابعداری کرتے ہیں ۔۔۔۔ ان شکوک و شبہات کو دور کر نے کے لئے اور عمر صاحب پر حجت اتمام کرنے کے لئے ان شاءاللہ تعالیٰ ہم اس موضوع پر قدرے تفصیلی روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔۔۔جس میں نہ صرف نقلی دلائل پیش کریں گے بلکہ مرزائیوں کی طرف سے پیش کئے ہوئے مکڑی کے جالوں سے بھی کمزور عقلی دلائل کا پوسٹ مارٹم بھی کریں گے(وما توفیقی الاباللہ)
آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ امت مسلمہ کے پاس حیات مسیح علیہ السلام کے حق میں کیا دلیل ہے ؟؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔(وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٥٨﴾ وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا )
النساء157،159 پارہ 6
(ترجمہ:اور ان کے کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے قتل کیا ہے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو جو رسول ہیں اللہ کے حالانکہ نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ سولی پر چڑھایا اسے بلکہ معاملہ مشتبہ کردیا گیا ان کے لئے اور بے شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا اس معاملہ میں ضرور مبتلا ہیں شک میں اس بارے میں اور نہیں ہے انہیں اس واقعہ کا کچھ بھی علم ،سوائے گمان کی پیروی کے اور نہیں قتل کیا انہوں نے مسیح کو یقینا ۔بلکہ اٹھا لیا ہے اس کو اللہ نے اپنی طرف اورہے اللہ زبردست طاقت رکھنے والا ،بڑی حکمت والا ۔اور نہیں کوئی اہل کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا (مسیح پر)اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا( مسیح) ان پر گواہ )
النساء157،159 پارہ 6
(ترجمہ:اور ان کے کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے قتل کیا ہے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو جو رسول ہیں اللہ کے حالانکہ نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ سولی پر چڑھایا اسے بلکہ معاملہ مشتبہ کردیا گیا ان کے لئے اور بے شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا اس معاملہ میں ضرور مبتلا ہیں شک میں اس بارے میں اور نہیں ہے انہیں اس واقعہ کا کچھ بھی علم ،سوائے گمان کی پیروی کے اور نہیں قتل کیا انہوں نے مسیح کو یقینا ۔بلکہ اٹھا لیا ہے اس کو اللہ نے اپنی طرف اورہے اللہ زبردست طاقت رکھنے والا ،بڑی حکمت والا ۔اور نہیں کوئی اہل کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا (مسیح پر)اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا( مسیح) ان پر گواہ )
یعنی امت مسلمہ کے مطابق جب یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف سازش کی ۔۔۔۔ اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی یا صلیب پر چڑھانے کی کوشش کی تو اللہ رب العزت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا ۔۔۔ اور قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا اور کوئی بھی اہل کتاب میں سے ایسا نہ ہوگا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لائے گا ۔
جبکہ مرزائیوں کا موقف ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل ہونے اور صلیب پر چڑھنے سے بچالیا ۔۔۔۔ لیکن آسمان کی طرف زندہ نہیں اٹھا یا بلکہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تقریبا نصف صدی حیات رہے اور پھر طبعی وفات پائی ۔
اب یہاں ان مرزائیوں کو امت مسلمہ سے کھلا اختلا ف ہے ۔۔۔۔۔قطع نظر دونوں فریقین کے دیگر دلائل کے ۔۔۔۔۔اب یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ کس کا اس آیت مبارکہ کو سمجھنا درست ہے۔۔۔۔۔ تو اس کے لئے ہم یہاں سب سے پہلے تو خود مرزا کے بیان کردہ اصول کے تحت پہلے دیکھتے ہیں کہ (مرزا صاحب کے مطابق بھی)قرآن پاک کو سب سے زیادہ سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں ۔۔۔۔نیز آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے نوروں کو حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کیا فرماتے ہیں ؟؟؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ عنقریب تم میں ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے ،عادل منصف بن کر صلیب کو توڑ دیں گے ،خنزیر کو قتل کردیں گے ،جزیہ ہٹا دیں گے ،مال اس قدر بڑھ جائے گا کہ اس کو لینا کوئی منظور نہیں کرے گا ،ایک سجدہ کرلینا ،دنیا اور دنیا کی سب چیزوں سے محبوب تر ہوگا ۔اس حدیث پاک کو بیان فرما کر راوی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بطور شہادت قرآن کی اسی آیت ”وان من “کی آخر تک تلاوت کی “
(صحیح بخاری،کتاب احادیث الانبیاء:باب نزول عیسیٰ بن مریم علیھماالسلام ،ح:3448)
(صحیح مسلم ،کتاب الایمان :باب نزول عیسیٰ بن مریم ۔۔۔۔ح:255)
معزز قارئین کرام ۔۔۔۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان فرمائی لیکن احادیث کے ذخیرے میں کوئی بھی ایسی روایت نہیں ملے گی کہ کسی صحابی نے حیات و نزول مسیح علیہ السلام پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا ہو ۔۔۔جو کہ واضح ثبوت ہے کہ حیات و نزول مسیح علیہ السلام پر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اجماع تھا۔
اب دیکھا جائے توخود مراز کے اصول کے مطابق ہی فیصلہ تو اسی مقام پر ہوجاتا ہے ۔۔۔اور قرآن پاک کو سب لوگوں سے زیادہ سمجھنے والے ہمارے پیارے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اورعلم نبوت کے پہلے وارث حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت مبارکہ کا مفہوم خود سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں واضح فرمادیا ۔
اوربقول مرزا کے اس فیصلہ کو بلا توقف قبول کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔۔۔۔ورنہ ایسے شخص میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہے ۔
اسی طرح تفسیر در منشور میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے :
”اخرج ابن عسا کر و اسحاق بن بشر عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال قولہ تعالیٰ یٰعیسیٰ انی متوفیک و رافعک الیٰ یعنی رافعک ثم متوفیک فی آخر الزمان “(تفسیر در منشور ج 2 ص 36)
(ترجمہ :یعنی ابن عسا کر اور اسحاق بن بشر نے (بروایت صحیح )ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ اس آیت کا مطلب ہے کہ میں آپ کو اٹھانے والا ہوں اپنی طرف پھر آخر زمانہ میں (بعد نزول )آپ کو موت دینے والا ہوں “
اورتفسیر ابن کثیر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح روایت منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام گھر کے روزن (روشن دان )سے (زندہ) آسمان کی طرف اٹھالئے گئے “(تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 574 زیر آیت ”بل رفع اللہ۔۔۔ “)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت :آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فیعبث اللہ عیسیٰ ابن مریم انہ عروة بن مسعود فیطلبہ فیھکہ“ یعنی پس بھیجے گا اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم کو گویا وہ عروہ بن مسعود ہے “(مشکوة باب لاتقوم الساعة)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت :آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ینزل عیسیٰ ابن مریم الیٰ الارض“ یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم زمین پر اتریں گے(مشکوة باب نزول عیسیٰ فصل ثالث)
ماننے والے لئے چند دلائل ۔۔۔۔ اور نہ ماننے والے کے لئے ہزاروں دلائل بھی ناکافی ہیں ۔
جبکہ مرزائیوں کا موقف ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل ہونے اور صلیب پر چڑھنے سے بچالیا ۔۔۔۔ لیکن آسمان کی طرف زندہ نہیں اٹھا یا بلکہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تقریبا نصف صدی حیات رہے اور پھر طبعی وفات پائی ۔
اب یہاں ان مرزائیوں کو امت مسلمہ سے کھلا اختلا ف ہے ۔۔۔۔۔قطع نظر دونوں فریقین کے دیگر دلائل کے ۔۔۔۔۔اب یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ کس کا اس آیت مبارکہ کو سمجھنا درست ہے۔۔۔۔۔ تو اس کے لئے ہم یہاں سب سے پہلے تو خود مرزا کے بیان کردہ اصول کے تحت پہلے دیکھتے ہیں کہ (مرزا صاحب کے مطابق بھی)قرآن پاک کو سب سے زیادہ سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں ۔۔۔۔نیز آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے نوروں کو حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کیا فرماتے ہیں ؟؟؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ عنقریب تم میں ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے ،عادل منصف بن کر صلیب کو توڑ دیں گے ،خنزیر کو قتل کردیں گے ،جزیہ ہٹا دیں گے ،مال اس قدر بڑھ جائے گا کہ اس کو لینا کوئی منظور نہیں کرے گا ،ایک سجدہ کرلینا ،دنیا اور دنیا کی سب چیزوں سے محبوب تر ہوگا ۔اس حدیث پاک کو بیان فرما کر راوی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بطور شہادت قرآن کی اسی آیت ”وان من “کی آخر تک تلاوت کی “
(صحیح بخاری،کتاب احادیث الانبیاء:باب نزول عیسیٰ بن مریم علیھماالسلام ،ح:3448)
(صحیح مسلم ،کتاب الایمان :باب نزول عیسیٰ بن مریم ۔۔۔۔ح:255)
معزز قارئین کرام ۔۔۔۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان فرمائی لیکن احادیث کے ذخیرے میں کوئی بھی ایسی روایت نہیں ملے گی کہ کسی صحابی نے حیات و نزول مسیح علیہ السلام پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا ہو ۔۔۔جو کہ واضح ثبوت ہے کہ حیات و نزول مسیح علیہ السلام پر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اجماع تھا۔
اب دیکھا جائے توخود مراز کے اصول کے مطابق ہی فیصلہ تو اسی مقام پر ہوجاتا ہے ۔۔۔اور قرآن پاک کو سب لوگوں سے زیادہ سمجھنے والے ہمارے پیارے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اورعلم نبوت کے پہلے وارث حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت مبارکہ کا مفہوم خود سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں واضح فرمادیا ۔
اوربقول مرزا کے اس فیصلہ کو بلا توقف قبول کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔۔۔۔ورنہ ایسے شخص میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہے ۔
اسی طرح تفسیر در منشور میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے :
”اخرج ابن عسا کر و اسحاق بن بشر عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال قولہ تعالیٰ یٰعیسیٰ انی متوفیک و رافعک الیٰ یعنی رافعک ثم متوفیک فی آخر الزمان “(تفسیر در منشور ج 2 ص 36)
(ترجمہ :یعنی ابن عسا کر اور اسحاق بن بشر نے (بروایت صحیح )ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ اس آیت کا مطلب ہے کہ میں آپ کو اٹھانے والا ہوں اپنی طرف پھر آخر زمانہ میں (بعد نزول )آپ کو موت دینے والا ہوں “
اورتفسیر ابن کثیر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح روایت منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام گھر کے روزن (روشن دان )سے (زندہ) آسمان کی طرف اٹھالئے گئے “(تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 574 زیر آیت ”بل رفع اللہ۔۔۔ “)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت :آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فیعبث اللہ عیسیٰ ابن مریم انہ عروة بن مسعود فیطلبہ فیھکہ“ یعنی پس بھیجے گا اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم کو گویا وہ عروہ بن مسعود ہے “(مشکوة باب لاتقوم الساعة)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت :آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ینزل عیسیٰ ابن مریم الیٰ الارض“ یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم زمین پر اتریں گے(مشکوة باب نزول عیسیٰ فصل ثالث)
ماننے والے لئے چند دلائل ۔۔۔۔ اور نہ ماننے والے کے لئے ہزاروں دلائل بھی ناکافی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔