• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حیات مسیح ( قادیانی شبہات کے جوابات)

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

سورۃ المائدہ آیت 117، 116 اور قادیانی تحریف کا جواب


آیت
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قَالَ سُبۡحٰنَکَ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اَقُوۡلَ مَا لَیۡسَ لِیۡ ٭ بِحَقٍّ ؕ؃ اِنۡ کُنۡتُ قُلۡتُہٗ فَقَدۡ عَلِمۡتَہٗ ؕ تَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِیۡ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِکَ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿۱۱۶﴾
مَا قُلۡتُ لَہُمۡ اِلَّا مَاۤ اَمَرۡتَنِیۡ بِہٖۤ اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبَّکُمۡ ۚ وَ کُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ اَنۡتَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ﴿۱۱۷﴾

اور ( اس وقت کا بھی ذکر سنو ) جب اللہ کہے گا کہ : اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے علاوہ دو معبود بناؤ؟ وہ کہیں گے : ہم تو آپ کی ذات کو ( شرک سے ) پاک سمجھتے ہیں ۔ میری مجال نہیں تھی کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو آپ کو یقینا معلوم ہوجاتا ۔ آپ وہ باتیں جانتے ہیں جو میرے دل میں پوشیدہ ہیں ، اور میں اور آپ کی پوشیدہ باتوں کو نہیں جانتا ۔ یقینا آپ کو تمام چھپی ہوئی باتوں کا پورا پورا علم ہے ۔
میں نے ان لوگوں سے اس کے سوا کوئی بات نہیں کہی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا ، اور وہ یہ کہ : اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ۔ اور جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا ، میں ان کے حالات سے واقف رہا ۔ پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ خود ان کے نگراں تھے ، اور آپ ہر چیز کے گواہ ہیں ۔

قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں اس آیت سے ثابت ہوتا ہے مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں

مکمل قادیانی عقیدہ

دلیل آپ کے دعویٰ کے مطابق نہیں
سب سے پہلے اصولی اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ آپ کی دلیل آپ کے دعویٰ کے مطابق نہیں ہے آپ حضرات کا دعویٰ تو یہ ہے کہ
مسیح علیہ السلام کی عمر جب 33 سال 6 ماہ ہوئی تو یہود نے آپ کو گرفتار کر لیا(تحفہ گولڑویہ ، خزائن جلد 17 صفحہ 311)
1.png

آپ کی توہین کی گئی، گالیاں دی گئی ، طمانچے مارے گئے ۔(ازالہ اوہام حصہ اول ، خزائن جلد 3 صفحہ 295 )
آپ علیہ السلام کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھایا گیا ، بعض اعضاء میں کیلیں ٹھونکے گئے ۔ (ازالہ اوہام حصہ اول ، خزائن جلد 3 صفحہ 295 )
2%2C3.png

آپ علیہ السلام ”صلیب سے نجات پا کر ایک سرد ملک کی طرف بھاگ گئے تھے یعنی کشمیر “ (تحفہ غزنویہ ، خزائن جلد 15 صفحہ 540)
10.png

کشمیر میں ہی آپ 125 سال کی عمر میں فوت ہوئے( خزائن جلد 15 صفحہ 55)
5.png

تو قادیانی حضرات سے گزارش ہے کہ وہ دلیل اپنے مکمل دعویٰ پر پیش کریں ، دلیل ایسی ہو جس سے ثابت ہو جائے کہ
یہود نے مسیح علیہ السلام کو گرفتار کر لیا تھا ، آپ کی توہین کی گئی تھی ، آپ کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھایا گیا تھا ، آپ کے جسم مبارک میں کیلیں ٹھونکی گئی تھی ، آپ صلیب سے نجات پا کر کشمیر آ گئے تھے ، کشمیر میں آپ 125 سال کی عمر میں فوت ہو گئے ۔
یہ آپ کا مکمل دعویٰ ہے اس کو ثابت کریں لیکن دنیا قادیانیت کا کوئی فرد بھی اپنے اس مکمل عقیدہ کو قرآن و حدیث سے ثابت نہیں کر سکتا ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

آیت کا تعلق روز قیامت سے ہے​

اعتراض
قادیانی کہتے ہیں کہ آیت کا تعلق ماضی سے ہے ، آیت نازل ہونے سے پہلے یہ سوال کیا جا چکا ہے، اس لیے ثابت ہوا کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں تبھی تو آپ سے سوال ہوا وغیرہ
جواب
آیت مبارکہ میں قیامت کے دن کا بتایا جا رہا ہے کہ بروز قیامت اللہ تعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام سے پوچھیں گے کہ کیا آپ نے عیسائیوں کو اپنی اور اپنی والدہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا ۔
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ
اس کی دلیل
ہٰذَا یَوۡمُ یَنۡفَعُ الصّٰدِقِیۡنَ صِدۡقُہُمۡ ؕ ( المائدہ: 119)
اللہ کہے گا کہ : یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ پہنچائے گا ۔
یہ آیت ہے۔
یہ سوال جواب قیامت کے دن ہوں گے اس پر حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں
”ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے بلکہ ایسے مقامات میں جبکہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقینی الوقوع ہو مضارع کو ماضی کے صیغہ پر لاتے ہیں تااس امر کا یقینی الوقوع ہونا ظاہر ہو۔ اور قرآن شریف میں اس کی بہت نظیریں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ ( براہینِ احمدیہ حصہ پنجم، خزائن جلد 21 صفحہ 159)
6.png

حوالہ سے ثابت ہوتا ہے مرزا قادیانی خود مانتا ہے کہ زیر بحث آیت کا تعلق آنے والے زمانے یعنی قیامت سے ہے۔
”اب عیسیٰ تو ہرگز نازل نہیں ہوگا کیونکہ جو اقرار اُس نے فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کے رو سے قیامت کے دن کرنا ہے اس میں صفائی سے اُس کا اعتراف پایا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئے گا“ (کشتی نوح، خزائن جلد 19 صفحہ 76)
7.png

حوالہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی اس سوال و جواب کا قیامت کے دن ہونا مان رہا ہے۔
”کیونکہ قرآن شریف کی انہی آیات سے ظاہر ہے کہ یہ سوال حضرت عیسیٰ سے قیامت کے دن ہوگا۔“ (حقِیقۃُالوَحی، خزائن جلد 22 صفحہ 33 )
8.png

مرزا قادیانی نے زیر بحث آیت کے حوالے سے صاف الفاظ میں کہ دیا ہے کہ ان آیات سے ثابت ہوتا ہے یہ سوال قیامت کے دن کو گا۔
حوالہ جات سے ثابت ہوا ہے کہ یہ سوال و جواب حضرت مسیح علیہ السلام سے بروز قیامت ہوں گے ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

عیسائی مسیح علیہ السلام کی وفات کے بعد گمراہ ہوئے ۔​

اعتراض
قادیانی کہتے ہیں آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسائی مسیح علیہ السلام کی وفات کے بعد گمراہ ہوئے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام قیامت کے دن اللہ کو فرمائیں گے کہ وَ کُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ میں تو اسی وقت تک ان پر نگران تھا جب میں ان میں موجود تھا۔ لیکن جب میں فوت ہو گیا تو تو ہی ان کا نگران تھا ۔ مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ سے ثابت ہوتا ہے مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں ۔
عیسائیوں کا گمراہ ہونا آپ بھی مانتے ہو ہم بھی مانتے ہیں اگر یہ مانا جائے کہ مسیح علیہ السلام زندہ ہیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عیسائی گمراہ نہیں ہوئے۔
جواب
آپ کا یہ کہنا کہ عیسائی مسیح علیہ السلام کی وفات کے بعد گمراہ ہوئے بغیر دلیل کے ہے ، اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
آپ نے جو دلیل پیش کی ہے اس سے مسیح علیہ السلام کی وفات نہیں بلکہ آپ علیہ السلام کی حیات ثابت ہوتی ہے ۔
آیت مبارکہ میں تو فرمایا گیا ہے کہ
وَ کُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ
جب تک میں ان میں تھا تب تک میں ان کا نگران تھا ۔
آیت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی ہونا چاہیے جب مسیح علیہ السلام اپنی قوم میں نہ ہوں اور زندہ بھی ہوں
اسی لیے تو فرمایا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ جب تک ان میں تھا ، اگر یہاں یہ کہنا مقصود ہوتا کہ جب تک میں زندہ تھا تو آپ یوں فرماتے مَا دُمۡتُ حَیًّا جیسے سورۃ مریم میں نماز اور زکوٰۃ والے حکم میں فرمایا ۔
حضرت مسیح علیہ السلام کا قیامت کے دن مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ مسیح علیہ السلام پر قیامت سے پہلے ایک دور ایسا ضرور آیا ہو گا جب آپ اپنی قوم میں موجود نہیں تھے اور زندہ تھے اور وہ دور آپ کا رفع آسمانی والا دور ہے ۔
دوسری بات مرزا قادیانی کی عبارات سے ثابت ہے کہ مسیح علیہ السلام کی زندگی میں ہی عیسائی گمراہ ہو گئے تھے ملاحظہ فرمائیں
بقول مرزا قادیانی جب واقعہ قتل صليب پیش آیا تو حضرت عيسى عليه السلام کی عمر 33 سال 6 مہینے تھی،
”واقعہ صلیبی حضرت مسیح کو تقریباً 33 سال اور 6 ماہ کی عمر میں پیش آیا۔“ (تحفہ گولڑویہ ص۱۲۷، خزائن ج۱۷ص۳۱۱) ،
1.png

اور وہ اس عمر میں صلیب سے نجات پا کر کشمیر چلے گئے۔
”جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے کہ جو کنزالعمال میں ہے یعنی یہ کہ عیسی علیہ السلام صلیب سے نجات پا کر ایک سرد ملک کی طرف بھاگ گئے تھے یعنی کشمیر ۔“ ( تحفہ غزنویہ، خزائن جلد 15 صفحہ 540)
اور وہاں ان کی وفات 125 سال یا 120 سال کی عمر میں ہوئی۔
(مسیح ہندوستان میں ، خزائن ج15 ص 55 ، 14 )
11.png

مرزا قادیانی نے یہ بھی لکھا کہ عیسائیت میں تثليث اور دوسرے گمراہ کن عقائد کو داخل کرنے والا پولوس تھا، مطلب جب حضرت عيسى عليہ السلام کشمیر چلے گئے تو اس نے پیچھے سے یہ گمراہی پھیلا دی،
”ایک شریر یہودی پولوس نام اس شخص نے عیسائی مذہب میں بہت فساد ڈالا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۳۷، خزائن ج۱۱ ص۳۲۱)
12.png

ساتھ ہی لکھا ہے
’’انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گزرے تھے کہ بجائے خدا کی پرستش کے ایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا بنائے گئے اور تمام نیک اعمال چھوڑ کر ذریعہ معافی گناہ یہ ٹھہرا دیا کہ ان کے مصلوب ہونے اور خدا کا بیٹا ہونے پر ایمان لایا جائے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۵۴، خزائن ج۲۳ ص۲۶۶)
13.png

مختصر یہ کہ مرزا قادیانی کے بقول مسیح علیہ السلام کی زندگی میں ہی عیسائی گمراہ ہو گئے تھے ۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ مسیح علیہ السلام کی زندگی میں ہی عیسائی گمراہ ہو گئے تھے تو قادیانی حضرات کا یہ دعویٰ کہ ”اگر مسیح علیہ السلام کو زندہ مانا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عیسائی گمراہ نہیں ہوئے “ کا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا ۔
قادیانی حضرات سے ایک سوال
آپ بھی یہ مانتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کی زندگی کا ایک دور ایسا ہے جب آپ علیہ السلام زندہ تھے مگر اپنی قوم میں نہیں تھے ، ہم بھی مانتے ہیں کہ آپ علیہ السلام زندہ ہیں مگر اپنی قوم میں نہیں ہیں ۔
آپ کے اور ہمارے نظریے میں فرق اتنا ہے کہ
ہم کہتے ہیں آپ علیہ السلام آسمان میں زندہ موجود ہیں
آپ کہتے ہو آپ علیہ السلام کشمیر میں تھے
اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء ایک قوم یا ملک کی طرف آتے تھے“ ( رسالہ تشحیذ الاذہان مارچ 1906 صفحہ 4)
14.jpg

رسولوں کو تبلیغ کا حکم ہوتا ہے ، اگر یہ مانا جائے کہ مسیح علیہ السلام اپنی قوم کو چھوڑ کر کشمیر چلے گئے تو اعتراض یہ ہو گا کہ آپ علیہ السلام نے خدا کے حکم کہ ”تبلیغ کرو“ کی نافرمانی کی ، جو کہ مسیح علیہ السلام کی توہین ہے۔
اگر آپ یہ کہیں کہ اہل کشمیر بھی بنی اسرائیل تھے تو جواب پہلے ہی لے لیں رسالہ تشحیذ الاذہان میں ہندوستانی قوموں کا الگ ہونا مانا گیا ہے ۔ ( تشحیذ الاذہان ماہ ستمبر 1906 صفحہ 63)
15.jpg

مختصر یہ کہ آپ کے نظریے ”مسیح علیہ السلام اپنی قوم اور خدا کے حکم تبلیغ کو چھوڑ کر کشمیر چلے گئے“ سے مسیح علیہ السلام کی توہین ہوتی ہے۔
جبکہ ہمارے نظریے کہ ” مسیح علیہ السلام آسمان میں زندہ موجود ہیں “ سے کوئی توہین نہیں ہوتی کیونکہ مسیح علیہ السلام خود آسمان پر نہیں گئے اللہ نے آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا ہے ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

عیسائیوں کی گمراہی کا علم مسیح علیہ السلام کو نہیں ہے​


قادیانی کہتے ہیں کہ اسی سوال سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کو عیسائیوں کی گمراہی کا علم نہیں ہے اگر آپ کہو کہ مسیح علیہ السلام کو عیسائیوں کی گمراہی کا علم ہو گا تو اپ علیہ السلام کا یہ کہنا جھوٹ ہو گا ۔
قَالَ سُبۡحٰنَکَ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اَقُوۡلَ مَا لَیۡسَ لِیۡ ٭ بِحَقٍّ ؕ
وہ کہیں گے : ہم تو آپ کی ذات کو ( شرک سے ) پاک سمجھتے ہیں ۔ میری مجال نہیں تھی کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نزول نہیں فرمائیں گے کیونکہ اگر آپ علیہ السلام نازل ہو جائیں تو آپ کو عیسائیوں کی گمراہی کا علم ہو جائے گا اور آپ کو جواب جھوٹ ہو جائے گا وغیرہ ۔
جواب
پہلی بات تو یہ ہے کہ ان آیات میں سوال جو حضرت مسیح علیہ السلام سے کیا جائے گا وہ یہ ہے کہ کیا آپ نے اپنی قوم کو یہ تعلیم دی کہ وہ آپ علیہ السلام کو اور آپ علیہ السلام کی والدہ کو معبود بنا لیں؟
یہ سوال نہیں ہے کہ کیا آپ اپنی قوم کے غلط عقائد سے واقف تھے یا نہیں؟
نہ ہی مسیح علیہ السلام کے جواب میں یہ بات ہے کہ میں اپنے ماننے والوں کے غلط عقائد سے واقف ہی نہیں تھا ، آپ علیہ السلام نے یہ بات کہیں نہیں فرمائی ۔ قادیانی حضرات کا یہ کہنا کہ آپ علیہ السلام یہ فرما رہے ہیں کہ ”میں اپنے ماننے والوں کے غلط عقائد سے واقف ہی نہیں “ جھوٹ اور دجل ہے۔
دوسری بات اگر آپ کا دعویٰ من و ان مان لیں تو مرزا قادیانی کا کیا کریں گے؟
مرزا قادیانی نے یہ مانا ہے کہ مسیح علیہ السلام کو اپنی قوم کے غلط عقائد کی خبر دے دی گئی ہے ۔ حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں
”میرے پر یہ کشفاً ظاہر کیاگیا ہے کہ یہ زہرناک ہوا جو عیسائی قوم میں پھیل گئی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کی خبر دی گئی۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۵۴، خزائن ج۵ ص ایضاً)
16.png

’’خداتعالیٰ نے اس عیسائی فتنہ کے وقت میں یہ فتنہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دکھایا۔ یعنی ان کو آسمان پر اس فتنہ کی اطلاع دے دی کہ تیری امت اور تیری قوم نے اس طوفان کو برپا کیا ہے… تب وہ نزول کے لئے بے قرار ہوا۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۲۶۸، خزائن ج۵ ص ایضاً)
17.png

ان حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ بقول مرزا قادیانی حضرات مسیح علیہ السلام کو اپنی قوم کے غلط عقائد کا علم قیامت سے پہلے ہو گا۔
اب قادیانی حضرات بتائیں کہ اگر آپ کے بقول ”مسیح علیہ السلام کو ان کی قوم کے غلط عقائد کا علم ہے“ یہ ماننے سے مسیح علیہ السلام کے جواب کا جھوٹا ہونا لازم آتا ہے تو مرزا قادیانی نے یہ بات کر رکھی ہے۔
اس لیے ثابت ہوا کہ یہ نظریہ رکھنا کہ ”مسیح علیہ السلام کو عیسائیوں کے غلط عقائد کا علم قیامت سے پہلے ہوگا“ سے مسیح علیہ السلام کے جواب کا جھوٹا ہونا لازم نہیں آتا ۔
نہیں تو مرزا قادیانی کے بارے میں ماننا پڑے گا کہ اس نے مسیح علیہ السلام کو جھوٹا کہ کر کفر کیا ہے ۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ مسیح علیہ السلام کو عیسائیوں کے غلط عقائد کا علم قیامت سے پہلے تھا اور یہ بات ماننے سے آپ علیہ السلام کے جواب کا جھوٹا ہونا بھی لازم نہیں آتا تو قادیانی حضرات کا یہ اعتراض کہ نزول مسیح ماننے سے مسیح علیہ السلام کا جواب جھوٹا ثابت ہوتا ہے بھی صاف ہو گیا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کا معنی​

قادیانی کہتے ہیں آیت میں فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ آیا ہے جس کا معنی ہے جب تو نے مجھے موت دے دی تب تو ہی ان پر نگران تھا وغیرہ
جواب
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں کہ بقول مرزا
عیسائیوں کا عقیدہ مسیح علیہ السلام کی زندگی مبارک میں ہی بگڑ گیا تھا ۔
آپ علیہ السلام کو قیامت سے پہلے ہی عیسائیوں کے بگاڑ کا علم ہو گا۔
اس لیے جو قادیانی حضرات فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ سے اوپر والی دو چیزوں میں سے کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے مرزا صاحب کا گریبان پکڑیں ۔
دوسری بات فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ سے آج تک کسی ایک متفقہ مفسر نے وفات مسیح ثابت نہیں کی ، اگر آپ اس کے خلاف مدعی ہیں تو دلیل لائیں ۔
تیسری بات توفی کا حقیقی معنی موت نہیں ہوتا ، توفی کا معنی ہوتا ہے أَخْذُ الشَّيْءِ وَافِيًا ، کسی چیز کو پورا پورا لے لینا ، حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں
وأصل التوفي أخذ الشيء وافيا،(تفسير الثعلبي = الكشف والبيان عن تفسير القرآن (2 / 184)
18.jpg

ومعنى التوفي: أخذ الشيء وافيا، (التفسير الوسيط للواحدي (1 / 343)
19.jpg

وَمَعْنَى التَّوَفِّي: أَخْذُ الشَّيْءِ وَافِيًا،(تفسير البغوي – إحياء التراث (1 / 314)
20.jpg

وَأَصْلُ التَّوَفِّي أَخْذُ الشَّيْءِ وَافِيًا كَامِلًا،(تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (6 / 465)
21.jpg

فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي بالرفع إلى السماء لقوله: إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ والتوفي أخذ الشيء وافياً،(تفسير البيضاوي = أنوار التنزيل وأسرار التأويل (2 / 151)
22.jpg

وأصل التوفي أخذ الشيء وافيا،(تفسير الخازن = لباب التأويل في معاني التنزيل (1 / 167)
23.jpg

وأصل التوفي أخذ الشيء وافياً كاملاً، (اللباب في علوم الكتاب (4 / 189)
24.jpg

أن التَّوفِّيَ اخذ الشيء وافياً،(اللباب في علوم الكتاب (5 / 266)
25.png

التوفي أخذ الشيء وافيا أي آخذك بروحك وبجسدك جميعا (تفسير النيسابوري = غرائب القرآن ورغائب الفرقان (2 / 171)
26.png

والتوفّي أخذ الشيء وافياً(السراج المنير (1 / 408)
27.png

واصل التوفى أخذ الشيء وافيا كاملا (روح البيان (1 / 366)
28.png

{فَلَمَّا توفيتني} بالرفع إلى السمالء كما في قوله تعالى إِنّي مُتَوَفّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَىَّ فإن التوفيَ أخذُ الشيء وافياً (تفسير أبي السعود (3 / 101)
29.png

ما دُمْتُ فِيهِمْ، فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي بالرفع إلى السماء، أي: توفيت أجلي من الأرض. والتوفي أخذ الشيء وافيًا، فلما رفعتني إلى السماء كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ (البحر المديد في تفسير القرآن المجيد (2 / 93)
30.png

ما دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي يعنى قبضتنى ورفعتنى إليك والتوفى أخذ الشيء وافيا(التفسير المظهري (3 / 234)
31%2C.png

ایک اور جگہ فرمایا
والتوفى أخذ الشيء وافيا(التفسير المظهري (1 / 362)

31.png

یہ تفاسیر کے چند حوالے ہیں جن میں مفسرین اکرام نے توفی کے حقیقی معنی ” أخذ الشيء وافيا “ ہونا بیان کیا ہے ۔
اسی طرح عربی لغات میں بھی توفی کے معنی پورا وصول کرنا ، پورا لینا وغیرہ ملتے ہیں ۔
جب کہنا ہو ”میں نے اس سے اپنا مال پورا پورا لے لیا“ تو ”توفیت“ لفظ بولا جانا ہے۔ حوالے ملاحظہ فرمائیں
ويُقال: تَوَفَّيْت المالَ مِنْهُ،واسْتوْفيته، إِذا أَخَذته كُلّه.(تهذيب اللغة (15 / 419)
32.png

وتَوَفَّيْتُ المالَ مِنْهُ واسْتوْفَيته إِذَا أَخذته كُلَّهُ.(لسان العرب (15 / 400)
33.png

اسی طرح اگر یہ کہنا ہو کہ ” میں نے قوم کی پوری پوری گنتی کر لی“ تو ”توفیت“ لفظ بولا جاتا ہے ۔ حوالے ملاحظہ فرمائیں
وتَوَفَّيْتُ عَدَد القومِ إِذَا عَدَدْتهم كُلَّهم؛
وأَنشد أَبو عبيدة لِمَنْظُورٍ الوَبْرِي
إنَّ بَنِي الأَدْرَدِ لَيْسُوا مِنْ أَحَدْ،
وَلَا تَوَفَّاهُمْ قُرَيشٌ فِي العددْ

(لسان العرب (15 / 400)
33.png

وتَوَفَّيْتُ عَدَدَ القَوْمِ: إِذا عَدَدْتهم كلَّهمْ، وأَنْشَدَ أَبو عبيدَةَ لمَنْظورٍ العَنْبري:
إنَّ بَني الأَدْرَدِ لَيْسُوا مِنْ أَحَدْ
وَلَا تَوَفَّاهُمْ قُرَيشٌ فِي العددْ
(تاج العروس (40 / 225)

34.png

یہاں بطور دلیل جو شعر لکھا گیا ہے اس کا معنی بنتا ہے۔
بیشک قبیلہ بنی ادرد کسی میں سے نہیں
اور قریش نے ان کی پوری پوری نہیں کی
دیکھیں لفظ ”توفاھم“ استعمال ہوا ہے یعنی پوری پوری۔
اسی طرح اساس البلاغہ میں بھی ”واستوفاه“ اور ”وتوفّاه“ کا معنی پورا پورا لینا بتایا گیا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں
واستوفاه وتوفّاه: استكمله. (أساس البلاغة (2 / 347)
35.png
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

توفی کے حقیقی معنی ہی کیوں لیا جائے​

اب کوئی قادیانی یہ سوال بھی کر سکتا ہے کہ کیا توفی موت کے معنی میں کبھی استعمال نہیں ہوتا وغیرہ
تو اس کا جواب یہ ہے کہ توفی کے مجاذی معنی موت ہیں ہمیں اس بات سے انکار نہیں ، قادیانی جواب دیتے ہیں جب آپ مانتے ہو توفی کے مجاذی معنی موت ہیں تو کس دلیل سے اس آیت میں حقیقی معنی لیتے ہو اور مجاز نہیں ۔
جواب
اوپر والے حوالہ جات سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ توفی کے حقیقی معنی پورا پورا لینے کے ہیں اب وہ حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں جس میں موت کو توفی کا مجاذی معنی بتایا گیا ہے ۔
توفی کے مجاذی معنی موت ہیں اس پر حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں
(و) من المجازِ: أَدْرَكَتْه ( {الوَفاةُ) : أَي (المَوْتُ) والمَنِيَّةُ. (تاج العروس (40 / 220)
37.png

ومن المجاز: أ....... وتوفّي فلان، وتوفّاه الله تعالى، وأدركته الوفاة.(أساس البلاغة (2 / 348)
36.png

اب رہا یہ سوال کہ اس آیت میں مجازی معنی کیوں نہیں لیا جا سکتا تو جواب عرض ہے کہ علماء بلاغت کے نزدیک مجازی معنی وہاں لیا جاتا ہے جہاں حقیقی معنی لینا صحیح اور ممکن نہ ہو جبکہ اس آیت میں حقیقی معنی لینا صحیح بھی ہے اور ممکن بھی پھر مجاذی معنی کی طرف کیوں جایا جائے ،
ویسے بھی قرآن اپنی تفسیر خود فرماتا ہے
فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ ( المائدہ: 117 )
میں توفی کے وہی معنی ہیں جو
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ (آل عمران: 55)
میں توفی کے ہیں ، فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ اس وعدہ کے پورا ہونے کا بیان ہے جو اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ میں کیا گیا تھا ۔
یہ پورا پورا لینے کا وعدہ اسی طرح پورا ہوا جس طرح کیا گیا تھا یعنی پورا پورا لینا بصورت رَافِعُکَ اِلَیَّ ۔ اور یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کر رہے بلکہ مفسرین بھی یہی فرماتے ہیں
فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي بالرفع إلى السماء لقوله: إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ (تفسير البيضاوي = أنوار التنزيل وأسرار التأويل (2 / 151)
22.jpg

{فَلَمَّا توفيتني} بالرفع إلى السمالء كما في قوله تعالى إِنّي مُتَوَفّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَىَّ(تفسير أبي السعود = إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم (3 / 101)
29.png

«فلمَّا تَوَفَّيْتَنِي» والمرادُ منهُ: الوفاةُ بالرَّفعِ إلى السَّماءِ من قوله: {إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ} [آل عمران: 55] .(اللباب في علوم الكتاب (7 / 624)
38.png

{ما دمت فيهم فلما توفيتني} بالرفع إلى السماء لقوله تعالى: {إني متوفيك ورافعك إليّ} (آل عمران، 55)(السراج المنير (1 / 408):
27.png

فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي أي: بالرفع إلى السماء. كما في قوله تعالى: إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَّ [آل عمران: 55] .(تفسير القاسمي = محاسن التأويل (4 / 301)

مختصر یہ کہ
اصولی طور پر ایک لفظ کے حقیقی معنی ہی لینے چاہیے جب تک حقیقی معنوں لینا محال نہ ہو ، اسی لیے ہم فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کا حقیقی معنی کرتے ہیں یعنی ”جب تو نے مجھے پورا پورا لے لیا“ اور یہ پورا پورا لینا بصورت ” قبضتنى ورفعتنى إليك “ تھا ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اپنی تفسیر خود کرتا ہے فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کی تفسیر رَافِعُکَ اِلَیَّ اور بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ کی صورت میں قرآن کر چکا ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ توفی کے حقیقی معنی یعنی أخذ الشيء وافيا کو لیا جائے ۔
تیسری وجہ مفسرین اکرم نے فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کے معنی ” قبضتنى “ اور ” رفعتنى “ جیسے الفاظ سے فرمائے ہیں اسی لیے ہم توفی کے حقیقی معنی لیے کے لیے مجبور ہیں ۔ ” قبضتنى “ و ” رفعتنى “ کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں
ما دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي يعنى قبضتنى ورفعتنى إليك(التفسير المظهري (3 / 209)
31%2C.png

{مَا دُمْت فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتنِي} قَبَضْتنِي بِالرَّفْعِ إلَى السَّمَاء(تفسير الجلالين (1 / 161)
41.png

فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي، قَبَضْتَنِي وَرَفَعْتَنِي إِلَيْكَ،(تفسير البغوي – إحياء التراث (2 / 105)
39.png

فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي اى قبضتنى إليك من بينهم ورفعتنى الى السماء(روح البيان (2 / 466)
40.png
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
لیکن قادیانی حضرات کو ان کے گھر تک پہنچانے کے لیے ان کے مرزا صاحب کا ایک اصول ملاحظہ فرمائیں
مرزا قادیانی نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں حقیقی اور مجازی معنی کا ایک اصول لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں
’’یہ بات ادنیٰ ذی علم کو بھی معلوم ہو گی کہ جب کوئی لفظ حقیقت مسلّمہ کے طورپر استعمال کیا جاتاہے یعنی ایسے معنوں پر جن کے لئے وہ عام طور پر موضوع یا عام طور پر مستعمل ہوگیا ہے تو اس جگہ متکلم کے لئے کچھ ضروری نہیں ہوتا کہ اس کی شناخت کے لئے کوئی قرینہ قائم کرے کیونکہ وہ اُن معنوں میں شائع متعارف اور متبادرالفہم ہے لیکن جب ایک متکلم کسی لفظ کے معانی حقیقت مسلّمہ سے پھیر کر کسی مجازی معنی کی طرف لے جاتا ہے تو اس جگہ صراحتًا یا کنایتًا یا کسی دوسرے رنگ کے پَیرائے میں کوئی قرینہ اس کو قائم کرنا پڑتا ہے تا اس کا سمجھنا مشتبہ نہ ہو اور اس بات کے دریا فت کے لئے کہ متکلّم نے ایک لفظ بطور حقیقت مُسلّمہ استعمال کیا ہے یا بطور مجاز اوراستعارہ نادرہ کے بھی کھلی کھلی علامت ہوتی ہے کہ وہ حقیقت مسلّمہ کو ایک متبادر اور شائع و متعارف لفظ سمجھ کر بغیر احتیاج قرائن کے یونہی مختصر بیان کر دیتا ہے۔مگر مجاز یا استعارہ نادرہ کے وقت ایسا اختصار پسند نہیں کرتا بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ کسی ایسی علامت سے جس کو ایک دانشمند سمجھ سکے اپنے اس مدعا کو ظاہر کرجائے کہؔ یہ لفظ اپنے اصل معنوں پر مستعمل نہیں ہوا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۳۳، خزائن ج۳ ص۲۶۹)
42.png

اصول آپ نے دیکھ لیا مرزا کہتا ہے مجازی معنی لینے کے لیے کوئی نہ کوئی قرینہ ہونا ضروری ہے ، ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں کہ توفی کا حقیقی معنی ” أخذ الشيء وافيا “ ہے اور مجازی معنوں ”موت“ ہے۔اس لیے ہمیں حقیقی معنی لینے کے لیے تو کسی قرینہ کی ضرورت نہیں مگر قادیانی حضرات تو مجازی معنی ”موت“ لینے کے لیے مرزا قادیانی کے اصول کے مطابق ضرور قرینہ چاہیے اور ہماری زیر بحث آیت میں توفی کا معنی موت لینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ۔ توفی کا حقیقی معنی پورا پورا لینا اس پر ہم دلائل کا انبار لگا چکے ہیں ۔
ویسے تو ہم توفی کے معنی پورا پورا لینا پر تفاسیر سے بھی حوالہ جات پیش کر چکے ہیں اور عربی لغات سے بھی اب آخر میں کچھ حوالہ جات قادیانی کتب سے بھی ملاحظہ فرمائیں
مرزا قادیانی نے توفی کا معنی ”پوری نعمت دینا “ کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں
انی متوفیک ورافعک الی وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ ۔۔۔۔۔۔ (آگے عربی لمبی عربی عبارت ہے) ۔۔۔۔ (پر ترجمہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے ) میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ اور جو لوگ تیری متابعت اختیار کریں یعنی حقیقی طور پر اللہ و رسول کے متبعین میں داخل ہو جائیں ان کو ان کے مخالفوں پر کہ جو انکاری ہیں۔ قیامت تک غلبہ بخشوں گا۔ “
(روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 620)
43.png

آپ نے ملاحظہ فرمائیں عبارت میں مرزا قادیانی نے توفی کا معنی پوری نعمت دینا کیا ہے ۔ دوسرا حوالہ ملاحظہ فرمائیں
مرزا قادیانی اپنا ایک الہام لکھتا ہے اور آگے اس کا معنی بتاتا ہے ،
یا عیسٰی انی متوفّیک ورافعک الیّ وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الٰی یوم القیامۃ اس جگہ میرا نام عیسیٰ رکھا گیا اور اس الہام نے ظاہر کیا کہ وہ عیسیٰ پیدا ہوگیا۔
(روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 49)
44.png

دیکھیں مرزا قادیانی نے متوفّیک کا معنی ”عیسیٰ پیدا ہوگیا“ کیے ہیں ، قادیانی حضرات تو کہتے ہیں توفی کا معنی موت کے علاوہ ہوتا ہی نہیں ہے اب بتائیں مرزا قادیانی کا کیا کرنا ہے ؟
خیر ایک اور حوالہ ملاحظہ فرمائیں
” براہین احمدیہ کا وہ الہام یعنی یا عیسٰی انّی متوفیک جو سترہ برس سے شائع ہو چکا ہے اس کے اس وقت خوب معنے کھلے یعنی یہ الہام حضرت عیسیٰ کو اس وقت بطور تسلی ہوا تھا جب یہود ان کے مصلوب کرنے کے لئے کوشش کر رہے تھے۔ اور اس جگہ بجائے یہود ہنود کوشش کر رہے ہیں اور الہام کے یہ معنے ہیں کہ میں تجھے ایسی ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچاؤں گا۔ “
(روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 23)
45.png

اس جگہ مرزا قادیانی نے توفی کا معنی ”لعنتی اور ذلت کی موت سے بچانا “ کیا ہے ۔
اسی طرح براہین احمدیہ حصہ پنجم میں لکھا ہے
”اس لئے اُس نے بطور پیشگوئی مجھے بھی مخاطب کر کے یہی فرمایا کہ یا عیسٰی انّی متوفیک اس میں یہی اشارہ تھا کہ مَیں قتل اور صلیب سے بچاؤں گا“ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، خزائن جلد 21 صفحہ 362)
46.png

دیکھیں اس جگہ توفی کا معنی ”قتل اور صلیب سے بچانا“ کیے ہیں ۔
اب قادیانی حضرات بتائیں کہ ان تینوں معنی میں سے کون سا والا درست ہے اور کون سا غلط ؟ کون سا حقیقی ہے کون سا مجازی ؟
اگے چلتے ہیں قادیانیوں کا پہلا خلیفہ حکیم نور دین توفی کا کیا معنی کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں
”اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ
جب اللہ نے فرمایا اے عیسی میں لینے والا ہوں تجھ کو اور بلند کرنے والا ہوں اپنی طرف اور پاک کرنے والا۔ تجھے کافروں سے اور کرنے والا ہوں تیرے اتباع کو کافروں کے اوپر قیامت تک۔“ (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ 7)
47.png

دیکھیں حکیم نور دین مُتَوَفِّیۡکَ کا معنی ”لینے والا ہوں“ کر رہا ہے ۔
اسی طرح کتاب ” عسل مصفی“ جو کہ قادیانی حضرات کی معتبر کتاب ہے ، اس کتاب کو مرزا قادیانی نے اول سے اخر تک مکمل سنا اور تعریف کی (عسل مصفی صفحہ 7)
48.png

میں بھی ”حاشیہ شیخ احمد مالکی علی جلالین “ اور ”تفسیر جامع البیان “ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”توفی“ کا معنی ”کسی چیز کو پورا پورا لینا“ ہے۔ ( عسل مصفی صفحہ 263)
49.png

قادیانی حضرات کے تمام حجت کے لیے چند حوالے تھے، امید ہے یہ کافی شافی ہوں گے۔
(نوٹ: چونکہ ہم مانتے ہیں کہ توفی کے مجازی معنی موت ہیں اس لیے قادیانی حضرات کا کوئی ایسا حوالہ پیش کرنا جس میں ”توفی کا معنی موت بتایا گیا ہو یا موت کو توفی کی قسم بتایا گیا ہو“ ہمارے خلاف نہیں ہو گا)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قیامت کے دل حضور صلی اللہ علیہ کا بھی یہی الفاظ استعمال کرنا​

اعتراض
قادیانی حضرات کہتے ہیں بخاری میں حدیث ہے قیامت کے روز جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ لوگ جہنم میں داخل کیے جائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ فرمائیں گے یہ میرے ساتھی ہیں تو جواب دیا جائے گا آپ صلی اللہ علیہ نہیں جانتے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شریعت کو اضافہ کر دیا تھا اس پر آپ علیہ السلام فرمائیں گے
وَ کُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ
اس سے ثابت ہوا توفی کا معنی موت ہے ، جب ثابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے معنی موت ہے تو مسیح علیہ السلام کے لیے کیوں نہیں ؟
مکمل حدیث ملاحظہ فرمائیں
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا ، ثُمَّ قَالَ : كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ ، ثُمَّ قَالَ : أَلَا وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَائِقِ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ ، أَلَا وَإِنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي ، فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ ، فَأَقُولُ : يَا رَبِّ أُصحَابِي ، فَيُقَالُ : إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ ، فَأَقُولُ : كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ ، وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ سورة المائدة آية 117 ، فَيُقَالُ : إِنَّ هَؤُلَاءِ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ .( صحیح البخاری رقم : 4625)
رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا : اے لوگو ! تم اللہ کے پاس جمع کئے جاؤ گے ، ننگے پاؤں ، ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے ، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ” جس طرح ہم نے اول بار پیدا کرنے کے وقت ابتدا کی تھی ، اسی طرح اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے ، ہمارے ذمہ وعدہ ہے ، ہم ضرور اسے کر کے ہی رہیں گے ۔“ آخر آیت تک ۔ پھر فرمایا قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا ۔ ہاں اور میری امت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا اور انہیں جہنم کی بائیں طرف لے جایا جائے گا ۔ میں عرض کروں گا ، میرے رب ! یہ تو میرے ساتھی ہیں ؟ مجھ سے کہا جائے گا ، آپ کو نہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے بعد نئی نئی باتیں شریعت میں نکالی تھیں ۔ اس وقت بھی اسی کی مثل کہوں گا جو عبد صالح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ہو گا کہ ” میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا ، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا ( جب سے ) تو ہی ان پر نگران ہے ۔“ مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی جدائی کے بعد یہ لوگ دین سے پھر گئے تھے ۔
جواب
سب سے پہلے ایک اصول ملاحظہ فرمائیں
ایک ہی لفظ جب دو مختلف افراد کے لیے بولا جاتا ہے تو لفظ کے معنی دونوں افراد کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں ۔
اس اصول پر اب دلائل ملاحظہ فرمائیں
تَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِیۡ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِکَ ؕ ( المائدہ:116)
تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں ۔
دیکھیں آیت مبارکہ میں مسیح علیہ السلام نے اپنے لیے بھی نفس لفظ کا استعمال کیا ہے اور اللہ رب العزت کے لیے بھی اسی لفظ کا استعمال کیا ہے اور یہ اتفاقی امر ہے کہ دونوں کے اعتبار سے ایک ہی لفظ نفس کے معنی الگ الگ ہیں ،
اسی طرح مرزا قادیانی نے توفی کا لفظ جب مسیح علیہ السلام کے لیے آیا تو معنی ”موت سے وفات دینا“ کیے ہیں ۔( تریَاق القلوُب، خزائن جلد 15 صفحہ 452)
50.png

اور اپنے لیے توفی کے معنی ”پوری نعمت دوں گا“ کیے ہیں ۔(براہین احمدیہ ص۵۵۶،۵۱۹، خزائن ج۱ ص۶۲۰،۶۶۴)
43.png

دیکھیں مرزا قادیانی نے اپنی اور مسیح علیہ السلام کی توفی کو الگ الگ مانا ہے ۔ دونوں کے معنی الگ الگ کیے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ نے فرمایا
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ (الفتح :29)
محمد ( صلی۔اللہ۔علیہ۔وآلہ۔وسلم ) اللہ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں ، ( اور ) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں ۔
جبکہ مرزا قادیانی کہتا ہے اللہ نے مجھے بھی کہا
’’محمد رسول اﷲ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم
اس وحی الٰہی میں خدا نے میرا نام محمد رکھا اور رسول بھی۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷)
51.png

اب قادیانی بتائیں کہ کیا رسول کا معنی مرزا قادیانی کے حق میں بھی وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں رسول کا لفظ بولا گیا جس کا معنی ہے صاحب شریعت ، کامل ، افضل الانبیاء ، خاتم النبیین، رسول کیا مرزا قادیانی کے حق میں جو بقول مرزا لفظ رسول آیا ہے اس کا بھی یہی معنی ہے ؟ واضح بات ہے قادیانی انکار ہی کریں گے تو ثابت ہوا ایک ہی لفظ جب دو اشخاص کے لیے آتا ہے تو دونوں کے لحاظ سے معنی الگ الگ ہو سکتا ہے ۔
دلیل سے ثابت ہوا کہ ایک ہی لفظ کے معنی دو مختلف افراد کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں ۔
جب یہ بات ثابت ہو گئی تو قادیانی حضرات کا اعتراض کہ ”توفی کے جو معنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کرتے ہو وہی مسیح علیہ السلام کے لیے کرو“ جاتا رہا۔
دوسی بات حدیث میں لفظ ” کما “ آیا ہے یعنی ”میں اس کے مثل کہوں گا جو عبد الصالح نے کہا“ یہ ” کما “ لفظ بتا رہا ہے کہ مسیح علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں فرق ہے ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانا چاہتے کہ ”میں وہی کہاوں گا جو مسیح علیہ السلام نے کہا “ تو آپ ” كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ “ کی جگہ ” ما قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ “ فرماتے۔
کما تشبیہ کے لیے آتا ہے اور یہ اصول ہے مشبہ اور مشبہ بہ میں مغایرت ضروری ہے ، اس اصول پر حوالہ ملاحظہ فرمائیں
”مشبہ اور مشبہ بہ میں کچھ مغایرت ضروری ہے“ (تحفہ گولڑویہ ، خزائن جلد 17 صفحہ 193)
52.png

اسی اصول پر ایک مثال سمجھ
”عمر میرے بھائی کی طرح ہے“ اس جملے میں تشبیہ ہے ، اور تشبیہ چاہتی ہے کہ ”عمر“ اور ”بھائی“ میں فرق ہو۔ عمر میرا بھائی نہیں ہے اس تشبیہ سے یہ ثابت ہوا ، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ”میں بھی اس کے مثل کہوں گا جو مسیح علیہ السلام نے کہا“ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور جو کہیں گے وہ وہ نہیں ہوگا جو مسیح علیہ السلام نے کہا ہو گا، یعنی دونوں توفی میں فرق ضرور ہوگا۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ نبی علیہ السلام نے اپنے قول اور مسیح علیہ السلام کے قول میں تشبیہ بیان کی ہے اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ تشبیہ میں مغایرت ہوتی ہے تو مسیح علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا الگ ہونا واضح ہو گیا۔
اس لیے ثابت ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی اور مسیح علیہ السلام کی توفی دونوں میں فرق ہونا ضروری ہے ۔ دونوں توفی میں فرق یہ ہے
مسیح علیہ السلام کی توفی بالرفع السماء ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی بالموت ہے۔
اب قادیانی حضرات یہ سوال کر سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں توفی کا معنی موت کو توفی کا مجازی معنی ہے کس قرینے سے لیا جا رہا ہے ۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ جہنم میں داخل کیے جائیں گے اور آپ کہیں گے یہ میرے ساتھی ہیں جواب آئے گا ”إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ“ آپ نہیں جانتے انہوں نے آپ کے بعد آپ کی شریعت میں اضافے کر دے تھے۔ یہ اضافے کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امت میں آئے ہیں ، یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی کا معنی موت لیا جائے ، جبکہ مسیح علیہ السلام کے حق میں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ
ایک لفظ جب دو مختلف اشخاص کے لیے بولے جائیں گے تو معنی مختلف ہو سکتا ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی اور ہے مسیح علیہ السلام کی توفی اور ہے۔
حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور مسیح علیہ السلام کے قول میں تشبیہ بیان کی اور تشبیہ کے لیے ضروری ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہ میں فرق ہو ، اس سے ثابت ہوا کہ مسیح علیہ السلام کی توفی رسول اللہ کی توفی میں فرق ہے ۔
مسیح علیہ السلام کے توفی بالرفع السماء ہوئی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی بالموت ہوئی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی کے مجازی معنوں موت لینے کا قرینہ موجود ہے مگر مسیح علیہ السلام کی توفی کا معنی موت لینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں ۔
 
Top