• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

خاتم النبیین پر ایک بہترین ، عمدہ اور معلوماتی تحریر

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
خاتم النبیین پر ایک بہترین ، عمدہ اور معلوماتی تحریر
بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 1
  1. ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں . اور عہد نبوت سے لے کر اس عہد تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا کسی تاویل اور تصخیص کے خاتم النبیین ہیں .
  2. قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ، رحمت عالم ﷺ کی احادیث متواترہ (دوسو دس احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے.
  3. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ وحیات میں اسلام کے تحفظ و حیات کے لیے جتنی بھی جنگیں لڑیں گئیں ، ان میں شہید ہونے والے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کی کل تعداد 259 ہے .
  4. عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ ودفاع کے لئے اسلام کی تاریخ کی پہلی جنگ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مسلیمہ کزاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی .
  5. اس ایک خنگ میں شہید ہونے والے صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین رحمتہ اللہ کی تعداد بارہ سو ہے جن میں 700 سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے.
  6. رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ ہی ہیں . جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کر گئی . اس سے ختم نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہو جاتا ہے .
جاری ہے
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور فضیلت

بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 2

حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسلیمہ کزاب کے پاس بھیجا، مسلیمہ کذاب نے حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کو کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ؟
حضرت حبیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں ... مسلیمہ نے کہا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسلیمہ) بھی اللہ کا رسول ہوں؟؟
حضرت حبیب بن ذید انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا ....
مسلیمہ بار بار سوال کرتا رہا ،وہ یہی جواب دیتے رہے ..
مسلیمہ آپ کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی' کہ حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کہ ان کو شہید کردیا گیا..
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہ مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت وعظمت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے ...
اب تابعین رضی اللہ عنہ میں سے ایک تابعی کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو ............
"حضرت ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ جن کا نام عبدللہ بن ثوب رضی اللہ عنہ ہے اور یہ امت محمدیہ کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لئے اللہ نے آگ کواس طرح بے اثر فرما دیا ..
جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنا دیا . یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے .اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں ہی اسلام کے آئے تھے .لیکن ارکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا .
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کے جھوٹادعوےدار اسود عنسی پیدا ہوا .جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے پر مجبور کیا کرتا تھا .
اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی .... حضرت ابو مسلم رضی اللہ عنہ نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو ؟؟؟
حضرت ابو مسلم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ...ہاں
اس پر اسود عنسی نے آگ دھکائی اور ابو مسلم لو اس خوفناک آگ میں ڈال دیا ، لیکن اللہ تعالی نے ان کے لئے آگ کو بے اثر کر دیا اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے. یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقاء کو اس پر ہیبت سی طاری ہو گئی اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلا وطن کر دو . ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیرووں کے ایمان میں تزلزل آجائے گا. چنانچہ انہیں یمن سے جلا وطن کر دیا گیا .
یمن سے نکل کر آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے .حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب ان سے ملے تو فرمایا : شکر اللہ تعالی کا کہ اس نے مجھے موت سے پہلے اس نے امت محمدیہ صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ اس شخص کی زیارت کرا دی جس کے ساتھ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ اسلام جیسا معاملہ فرمایا "
(جاری ہے)...........
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور فضیلت و منصب ختم نبوت کا اعزاز

بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 3

قرآن مجید میں ذات باری تعالی کے متعلق "رب العالمین" آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے "رحمتہ للعالمین" قرآن مجید کے لئے "زکرللعالمین" اور بہت اللہ کےلئے " ھدی للعالمین " فرمایا گیا ہے.
اس سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت کی آفاقییت وعالمگیریت ثابت ہوتی ہے،وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے. اس لئے کے پہلے تمام انبیاء علیہ السلام اپنے اپنے علاقہ مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لائے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حق تعالی نے کل کائنات کو آپ کی نبوت ورسالت کے لئے اکائی بنا دیا .
جس طرح کل کائنات کےلئے اللہ تعالی "رب" ہے .اسی طرح کل کائنات کےلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "نبی" ہیں.
یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز اختصاص ہے. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنے لئےجن چھے خصوصیات کا زکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے ::
"میں تمام مخلوق کو نبی بنا کر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ بند کر دیا گیا "(مشکوہ صفحہ 512 فضائل المرسلین 'مسلم جلد 1 صفحہ 199)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آخری امت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبلہ آخری قبلہ بیت شریف ہے .آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے .
یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو اللہ تعالی نے پورے کر دیے ہیں.
چنانچہ قرآن مجید کو "زکر للعالمین" بیت اللہ شریف کو "ھدی للعالمین" کا اعزاز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا ہے.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آخری امت قرار پائی جیسا کہ ارشاد نبوی ہے "انا آخر الانبیاء وانتم آخرالامم" (ابن ماجہ صفحہ 297)
جاری ہے..........
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ ختم نبوت قرآنی آیات کی روشنی میں

بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 4

ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شئی علیما ۔“ (سورۂ احزاب:40)
ترجمہ: ”محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہے اورا للہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو منصبِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائیگا۔
خاتم النبیین کی نبوی تفسیر

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“(ابوداؤد، ترمذی) اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ”خاتم النبیین“ کی تفسیر ”لانبی بعدی“ کے ساتھ خود فرمادی ہے۔اسی لئے حافظ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد آٹھ سطر پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز ارشاد فرماتے ہیں۔ چند جملے آپ بھی پڑھ لیجئے۔
”اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم نصلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا وہ بہت جھوٹا‘ بہت بڑا افترا پرداز‘ بڑا ہی مکار اور فریبی‘ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا‘ اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔“ (تفسیر ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ جلد3 صفحہ494)
خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق مؤقف کیلئے یہاں پر صرف دوصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی آرأ مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا”اور لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔“ (ابن جریر صفحہ 16جلد 22) حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ”اللہ تعالیٰ نے تمام انبیأ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان رسولوں میں سے جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔“ (درّ منثور صفحہ204 جلد5) کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے؟ اور بروزی یا ظلی کی تاویل چل سکتی ہے؟
جاری ہے
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
خاتم النبیین اور اجماع امت

بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 5

1) حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول، اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں اور اس کا منکر یقینااجماع امت کا منکر ہے۔“
(الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ 123)
2) علامہ سید محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں زیر آیت خاتم النبیین لکھتے ہیں:اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن ناطق ہے، احادیث نبویہ نے جس کو واشگاف طور پر بیان فرمایا ہے اور امت نے جس پر اجماع کیا ہے، پس جو شخص اس کے خلاف کا مدعی ہو اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔“ (روح المعانی ص 39 ج 22)
3) امام حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے ذیل میں اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ”یہ آیت اس مسئلہ میں نص ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں تو رسول بدرجہ اولیٰ نہیں ہوسکتا، کیونکہ مقام نبوت مقام رسالت سے عام ہے۔ کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا او ر اس مسئلہ پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث وارد ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے۔
(تفسیر ابن کثیر صفحہ493، جلد3)
4) امام قرطبی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ”خاتم النبیین کے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علماء کے امت کے نزدیک کامل عموم پر ہیں۔ جو نص قطعی کے ساتھ تقاضا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (تفسیر قرطبی صفحہ196 جلد14) پس عقیدۂ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے اور ہر دور میں امت کا اس پر اجماع و اتفاق چلا آیا ہے. سورۂ احزاب کی آیت 40 آیت خاتم النبیین کی تشریح و توضیح پہلے گزر چکی ہے،
اب دوسری آیات ملاحظہ ہوں:
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا “ (سورہ مائدہ: 3)
ترجمہ: ”آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے دین تمہارا‘ اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا‘ اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔“
نوٹ:…… یوں تو ہر نبی اپنے اپنے زمانہ کے مطابق دینی احکام لاتے رہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل زمانہ کے حالات اور تقاضے تغیرپذیر تھے‘ اس لئے تمام نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی خوشخبری دیتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے اختتام سے دین پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا تمام نبیوں کی نبوتوں اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے، اسی لئے اس کے بعد ”واتممت علیکم نعمتی“ فرمایا، علیکم یعنی نعمت نبوت کو میں نے تم پر تمام کردیا، لہٰذا دین کے اکمال اور نعمت نبوت کے اتمام کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آسکتا ہے اور نہ سلسلہئ وحی جاری رہ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ اے امیر المومنین: ”قرآن کی یہ آیت اگر ہم پر نازل ہوتی ہم اس دن کو عید مناتے“ (رواہ البخاری) ،اور حضور علیہ السلام اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اکیاسی(81) دن زندہ رہے (معارف صفحہ41 جلد3) اور اس کے نزول کے بعد کوئی حکم حلال و حرام نازل نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب کامل و مکمل،آخری کتاب ہے
جاری ہے......
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آپ ﷺ کی ذات رحمۃُ اللعالمین

بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 6

و ما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ًو نذیراً۔ “ (سورۂ سبا: 28)
ترجمہ: ”ہم نے تم کو تمام دنیا کے انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر بھیجا ہے۔“
قل یٰایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ “ (سورۂ اعراف: 158)
ترجمہ: ”فرمادیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔“
یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کررہی ہیں کہ حضور علیہ السلام بغیر استثنأ تمام انسانوں کی طرف رسول ہوکر تشریف لائے ہیں جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”انا رسول من ادرکت حیا و من یولد بعدی۔“ترجمہ: ”میں اس کے لئے بھی اللہ کا رسول ہوں جس کو اس کی زندگی میں پالوں اور اس کے لئے بھی جو میرے بعد پیدا ہو۔“ (کنز العمال جلد11 صفحہ 404 حدیث 31885، خصائص کبریٰ صفحہ 88جلد 2)پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی صاحب الزماں رسول ہیں۔ بالفرض اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو حضور علیہ السلام کا فۃ الناسکی طرف اللہ تعالیٰ کے صاحب الزماں رسول نہیں ہوسکتے بلکہ براہ راست مستقل طور پر اسی نبی پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا اور اس کو اپنی طرف اللہ کا بھیجا ہوا اعتقاد کرنا فرض ہوگا، ورنہ نجات ممکن نہیں اور حضور علیہ السلام کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا اس کے ضمن میں داخل ہوگا۔ (معاذ اللہ)
و ما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین۔ “ (سورۂ انبیاء: 107)
ترجمہ: ”میں نے تم کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔“
یعنی حضور علیہ السلام پر ایمان لانا تمام جہان والوں کو نجات کے لئے کافی ہے۔ پس اگر بالفرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اس پر اور اس کی وحی پر ایمان فرض ہوگا، اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کامل رکھتے ہوئے بھی اس کی نبوت اور اس کی وحی پر ایمان نہ لاوے تو نجات نہ ہوگی اور یہ رحمۃ للعالمینی کے منافی ہے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مستقلاً ایمان لانا کافی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب الزمان رسول نہیں رہے؟ (معاذ اللہ)
و الذین یؤمنون بما انزل الیک و ما انزل من قبلک و بالآخرۃ ھم یوقنون۔ اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون۔ “(سورۂ بقرہ: 4،5)
ترجمہ: ”جو ایمان لاتے ہیں، اس وحی پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی اور اس وحی پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل کی گئی اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، یہی لوگ خدا کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“
یٰایھا الذین آمنوا اٰمنوا باللہ و رسولہ و الکتاب الذی نزل علی رسولہ و الکتاب الذی انزل من قبل۔
(النسأ: 136) ترجمہ: ”اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس کتاب پر جس کو اپنے رسول پر نازل کیا ہے اور ان کتابوں پر جو ان سے پہلے نازل کی گئیں۔“
یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہے کہ ہم کو صرف حضور علیہ السلام کی نبوت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد کوئی بعہدۂ نبوت مشرف کیا جاتا تو ضرور تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا، معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔
جاری ہے.........
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ ختم نبوت حدیث مبارکہ کی روشنی میں

بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 7

حدیث(1)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیأ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا مگر اس کے کسی کونے میں ا یک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں وہی (کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔“
(صحیح بخاری کتاب صفحہ501 جلد 1، صحیح مسلم صفحہ248 جلد 2)
حدیث(2)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیأ کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے:

  1. مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے
  2. رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی
  3. مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا ہے
  4. روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیا گیا ہے
  5. مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے
  6. اورمجھ پرنبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔“
(صحیح مسلم صفحہ 199 جلد 1، مشکوٰۃ صفحہ512)
اس مضمون کی ایک حدیث صحیحین میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں، اس کے آخر میں ہے:” وکان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ ۔“
(مشکوٰۃ صفحہ 512)
ترجمہ: ”پہلے انبیأ کو خاص ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔“
حدیث(3)
”سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ (علیہما السلام) سے تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“
(بخاری صفحہ633 جلد2)
اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ:
”میرے بعد نبوت نہیں۔“
(صحیح مسلم صفحہ278 جلد2)
حضرت شا ہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ یہ حدیث متواتر ہے۔
جاری ہے......
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ ختم نبوت احادیث کی روشنی میں

بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 8

حدیث(4)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیأ کیا کرتے تھے، جب کسی نبی کی وفات ہوتی تھی تو اس کی جگہ دوسرا نبی آتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفأ ہوں گے اور بہت ہوں گے۔“
(صحیح بخاری صفحہ491 جلد 1، صحیح مسلم صفحہ126 جلد2، مسند احمد صفحہ297 جلد 2)
حدیث(5)
”حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا کوئی نبی نہیں۔“
(ابوداؤد صفحہ 127 جلد 2،ترمذی صفحہ 45 جلد 2)
حدیث(6)
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔“
(ترمذی صفحہ51 جلد2، مسند احمد صفحہ267 جلد3)
حدیث(7)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، صرف اتنا ہوا کہ ان کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی۔“
(صحیح بخاری صفحہ120 جلد1، صحیح مسلم صفحہ282 جلد1)
حدیث(8)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے۔
(ترمذی صفحہ209 جلد2)
حدیث(9)
”حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ میرے چند نام ہیں: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائیں گے اور میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب (سب کے بعد آنے والا) ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“
(متفق علیہ، مشکوۃصفحہ515)
حدیث(10)
متعدد احادیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:”بعثت أنا والساعۃ کھاتین“مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے۔
(مسلم صفحہ 406 جلد 2)
جاری ہے
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ختم نبوت کی تحریکیں

بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 9

متحدہ ہندوستان میں انگریز اپنے جوروستم اور استبدادی حربوں سے جب مسلمانوں کے قلوب کو مغلوب نہ کرسکا تو اس نے ایک کمیشن قائم کیا جس نے پورے ہندوستان کا سروے کیا اورواپس جا کر برطانوی پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کی کہ مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہادمٹانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے شخص سے نبوت کا دعویٰ کرایا جائے جو جہاد کو حرام اور انگریز کی اطاعت کو مسلمانوں پر اولوالامر کی حیثیت سے فرض قرار دے۔
ان دنوں مرزا غلام احمد قادیانی سیالکوٹ ڈی سی آفس میں معمولی درجہ کاکلرک تھا۔ اردو، عربی اور فارسی اپنے گھر میں پڑھی تھی۔ مختاری کا امتحان دیا مگر ناکام ہوگیا۔ غرضیکہ اس کی تعلیم دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے ناقص تھی۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے انگریزی ڈپٹی کمشنر کے توسط سے مسیحی مشن کے ایک اہم اور ذمہ دار شخص نے اس سے ڈی سی آفس میں ملاقات کی۔ گویا یہ انٹرویو تھا مسیحی مشن کااور ساتھ ہی یہ فرد انگلینڈ روانہ ہوگیااور مرزا قادیانی ملازمت چھوڑکر قادیان پہنچ گیا۔ با پ نے کہا کہ نوکری کی فکرکرو، جواب دیا کہ میں نوکر ہوگیا ہوں اور پھر بغیر مرسل کے پتہ کے منی آرڈر ملنے شروع ہوگئے۔ مرزا قادیانی نے مذہبی اختلافات کو ہوا دی۔ بحث و مباحثہ، اشتہار بازی شروع کردی۔ یہ تمام تر تفصیل مرزائی کتب میں موجود ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کام کے لئے برطانوی سامراج نے مرزا قادیانی کا کیوں انتخاب کیا۔ اس کا جواب خود مرزائی لٹریچر میں موجود ہے کہ مرزا قادیانی کا خاندان جدی پشتی انگریز کا نمک خوار خوشامدی اور مسلمانوں کا غدار تھا۔ مرزا قادیانی کے والدنے 1857ء کی جنگ آزادی میں برطانوی سامراج کو پچاس گھوڑے بمعہ سازو سامان مہیاکیے اور یوں مسلمانوں کے قتل عام سے اپنے ہاتھ رنگین کر کے انگریز سے انعام میں جائیداد حاصل کی۔ مرزا غلام احمد لکھتا ہے کہ میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکار میں مصروف رہا۔ ستارہ قیصریہ صفحہ 4 میں اپنے بارے میں لکھتا ہے کہ میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید و حمایت میں گذرا اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھرسکتی ہیں (تریا ق القلوب صفحہ25)۔غرضیکہ مرزا قادیانی کے گوشت پوست میں انگریز کی وفاداری اور مسلمانوں سے غداری رچی بسی تھی۔ یہی وہ وجہ ہے کہ اس مقصد کے لئے انگریز کی نظر انتخاب مرزا قادیانی پر پڑی اور اس کی خدمات حاصل کی گئیں۔جن حضرات کی مرزائیت کے لٹریچر پر نظرہے وہ جانتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی ہر بات میں تضاد ہے لیکن حرمت جہاد اور فرضیت اطاعت انگریز ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس میں مرزا قادیانی کی کبھی دورائیں نہیں ہوئیں کیونکہ یہ اس کا بنیادی مقصد اور غرض و غایت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو گورنمنٹ برطانیہ کا خود کاشتہ پودا قرار دیا۔ سرسید احمد خان مرحوم کی روایت جو ان کے مشہور مجلہ تہذیب الاخلاق میں چھپ چکی ہے کہ خود سرسید احمد خان سے انگریز وائسرائے ہند نے مرزا قادیانی کی امداد و اعانت کرنے کا کہا۔ بقول ان کے انہوں نے نہ صرف رد کردیا بلکہ اس منصوبہ کا راز افشاکردیا جس کے نتیجہ میں انگریز وائسرائے سرسید احمد خاں سے ناراض ہوگئے۔ مرزا قادیانی کے دعویٰ جات پر نظر ڈالیے۔ اس نے بتدریج خادم اسلام، مبلغ اسلام، مجدد، مہدی، مثیل مسیح، ظلی نبی، مستقل نبی، انبیاء سے افضل حتیٰ کہ خدائی تک کا دعویٰ کیا۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبہ، گہری چال اور خطر ناک سازش کے تحت کیا۔ قطب عالم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے نور ایمانی اور بصیرت وجدانی سے مرزا قادیانی کے دعویٰ سے بہت پہلے پنجاب کے معروف روحانی بزرگ حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃاللہ علیہ سے حجاز مقدس میں ارشاد فرمایا کہ پنجاب میں ایک فتنہ اٹھنے والا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کے خلاف آپ سے کام لیں گے۔ بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایااور اس فتنہ کے خلاف کام کرنے کی تلقین فرمائی۔
جاری ہے.....
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ختم نبوت کی تحریکیں

بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 10

ردقادیانیت کے سلسلہ میں امت محمدیہ کے جن خوش نصیب و خوش بخت حضرات نے بڑی تندہی اورجانفشانی سے کام کیا۔ ان میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمدحسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ، جناب مولانا قاضی حمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری رحمۃ اللہ علیہ، حصرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ،پروفیسر محمد الیاس برنی رحمۃ اللہ علیہ،علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا ظفر علی خان رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مظہر علی اظہر رحمۃ اللہ علیہ، حافظ کفایت حسین رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا پیرجماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

علمائے لدھیانہ نے مرزا قادیانی کی گستاخ و بے باک طبیعت کو اس کی ابتدائی تحریروں میں دیکھ کر اس کے خلاف کفر کا فتویٰ سب سے پہلے دیا تھا۔ ان حضرات کاخدشہ صحیح ثابت ہوا اور آگے چل کر پوری امت نے علمائے لدھیانہ کے فتویٰ کی تصدیق و توثیق کی۔غرضیکہ پوری امت کی اجتماعی جدوجہد سے مرزائیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کی کوشش کی گئی یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی نے بھی اپنی تصانیف میں مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ،مولانا سید علی الحائری رحمۃ اللہ علیہ سمیت امت کے تمام طبقات کو اپنے سب و شتم کانشانہ بنایاکیونکہ یہی وہ حضرات تھے جنہوں نے تحریر و تقریر و مناظرہ و مباہلہ کے میدان میں مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کوچاروں شانے چت کیا اور یوں اپنے فرض کی تکمیل کر کے پوری امت کی طرف سے شکریہ کے مستحق قرارپائے۔
جاری ہے....
 
Top