ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
(۶)۔ عن ابی ھریرۃ ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال لیس بینی وبینہٗ نبی (یعنی عیسیٰ) وانہ نازل فاذارأیتموہ ماعر فوہ رجل مربو الی الحمر ۃ والبیاص، بین ممصرتین کان راءسہ یقطروَان لم یصبہ بلل فیقاتل الناس علیالاسلام فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃویھلک اللہ فی زمانہ الملل کلھا الاا لاسلام ویھلک المسیح الدجال فیمکث فی الارض اربعین سنۃ تم یتوفی فی صلی علیہ المسلمون۔(ابوداؤد ، کتاب الملاحم، باب خروج الدّجال۔ مُسند احمد مرویات ابو ہریرہؓ)
ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میرے اور اُن (یعنی عیسیٰ علیہ السلام)کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ اور یہ کہ وہ اُترنے والے ہیں ، پس جب تم ان کو دیکھو تو پہچان لینا ، وہ ایک میانہ قد آدمی ہیں ، رنگ مائل بسُرخی و سپیدی ہے ، دو زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے۔ ان کے سر کے بال ایسے ہوں گے گویا اب ان سے پانی ٹپکنے والا ہے ، حالانکہ وہ بھیگے ہوئے نہ ہوں گے۔ وہ اسلام پر لوگوں سے جنگ کریں گے ، صلیب کو پاش پاش کر دیں گے ، خنزیر کو قتل کر دیں گے ، جزیہ ختم دیں گے ، اور اللہ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام مِلّتوں کو مٹا دے گا، اور وہ مسیح دجال کو ہلاک کر دیں گے ، اور زمین میں وہ چالیس سال ٹھیریں گے۔ پھر ان کا انتقال ہو جائے گا اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔‘‘
(۷)۔ عن جابر بن عبداللہ قال سمعت روسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم.......فینزل عیسیٰ ابن مریم صلی اللہ علیہ و سلم فیقو ل امیر ھم تعل فصلِّ فیقول الا ان بعضکم علیٰ بعضامراء تکرمۃ اللہ ھٰذہ الامۃ۔ (مسلم، بیاننزول عیسیٰ ابن مریم۔ مُسند احمد بسلسلہ مرویات جابرؓ بن عبداللہ)
حضرت جابربن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سُنا کہ ....پھر عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔ مسلمانوں کا امیر اُن سے کہے گا کہ آئے ، آپ نماز پڑھائیے ، مگر وہ کہیں گے کہ نہیں ، تم لوگ خود ہی ایک دوسرے کے امیر ہو۔( یعنی تمہارا امیر خود تم ہی میں سے ہونا چاہیے۔) یہ وہ اُس عزّت کا لحاظ کرتے ہوئے کہیں گے جوجو اللہ نے اس اُمّت کو دی ہے۔‘‘
(۸)۔ عن جابر بن عبداللہ (فی قصۃ ابن صیاد)فقال عمر بن الخطاب ائذن لی فاقتلہٗ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان یکن ھو فلست صاحبہ انما صاحبہ عیسیٰ ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام، و ان لا یکن فلیس لک ان تقتل رجلا من اھل العھد(مشکوٰۃ۔ کتاب الفتن، باب قصّۂ بن صیّاد ، بحوالہشرح السُّنہ بَغَوی)
جا بر بن عبداللہ (قصّۂ ابن صیّاد کے سلسلہ میں ) روایت کرتے ہیں کہ پھر عمر بن خطاب نے عرض کیا، یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے قتل کر دوں۔ اس پر حضورؐ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر یہ وہی شخص (یعنی دجال) ہے تو اس کے قتل کرنے والے تم نہیں ہو بلکہ اسے تو عیسیٰ بن مریم ہی قتل کریں گے۔ اور اگر یہ وہ شخص نہیں ہے تو تمہیں اہلِ عہد (یعنی ذمیوں ) میں سے ایک آدمی کو قتل کر دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
(۹)۔ عن جابر عبداللہ (فی قصہ الدجال) فاذاھم بعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فتقام الصلوٰۃ فیقال لہ تقدم یا روح اللہ فیقول لیتقدم امامکم فلیصلِّ بکم فاذاصلی صلوٰۃ الصبح خرجو االیہ، قال جحین یری انکذاب کما ینماث الملح فی الماء فیمشی الیہ فیقتلہٗ حتی ان الشجر والحجر ینادی یا روح اللہ ھٰذا الیھودیُّ ، فلا یترک ممن کان یتبعہ احداالاقتلہٗ۔ (مسنداحمد ، بسلسلۂ روایات جابر بن عبداللہ)
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ (دجال کا قصہ بیان کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) اس وقت یکایک عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام مسلمانوں کے درمیان آ جائیں گے۔ پھر نماز کھڑی ہو گی اور ان سے کہا جائے گا کہ اے روح اللہ آگے بڑھئے ، مگر وہ کہیں کہ نہیں ، تمہارے امام ہی کو آگے بڑھنا چاہیے ، وہی نماز پڑھائے۔ پھر صبح کی نماز سے فارغ ہو کر مسلمان دجال کے مقابلے پر نکلیں گے۔ فرمایا، جب وہ کذّاب حضرت عیسیٰ کو دیکھے گا تو گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ پھر وہ اس کی طرف بڑھیں گے اور اسے قتل کر دیں گے اور حالت یہ ہو گی کہ درخت اور پتھر پکار اٹھیں گے کہ اے روح اللہ یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ دجال کے پیرووں میں سے کوئی نہ بچے گا وہ (یعنی عیسیٰؑ ) قتل نہ کر دیں۔
(۱۰)۔ عن النواس بن سمعان ( فی قصۃ الدجّال) فبینما ھو کذٰلک اذ بعث اللہ المسیح بن مریم فینزل عندالمنارۃ البیضاء شرقی دمشق بین مھرو ذتین واضعاً کفیہ علیٰ اجنحہ ملکین اذاطاُ طأ راسہٗ قطرواذا رفعہ تحد رمنہ جمان کا للوٗلوٗ فلایحل لکافر یجد ریح نفسہ الامات و نفسہ ینتہی الیٰ حیث ینتہی طرفہ فیطلبہ حتیٰ ید کہ ببابِلُدٍّ فیقتلہ۔(مسلم، ذکرالدجّال۔ ا بو داوٗد، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال۔ ترمذی، ابو اب الفتن ، باب فتنۃ الدّجال۔ ابن ماجہ ، کتاب الفتن، باب فتنۃالدّجال )
حضرت نَاّس بن سَمْعان کلانی (قصۂ دجال بیان کرتے ہوئے ) روایت کرتے ہیں : اس اثناء میں کہ دجال یہ کچھ کر رہا ہو گا، اللہ تعالیٰ مسیحؑ ابن مریم کو بھیج دے گا اور وہ دمشق کے مشرقی حصے میں ، سفید مینار کے پاس، زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے ، دو فرشتوں کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔جب وہ سر جھکائیں گے تو ایسا محسوس ہو گا کہ قطرے ٹپک رہے ہیں ، اور جب سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح قطرے ڈھلکتے نظر آئیں گے۔ ان کے سانس کی ہو ا جس کافر تک پہنچے گے .......اور وہ ان کی حد نظر تک جائے گی۔۔۔۔۔۔.......... وہ زندہ نہ بچے گا۔ پھر ابن مریم دجال کا پیچھا کریں گے اور لُدّ(واضح رہے کہ لُدّ (Lyddu)فلسطین میں ریاست اسرائیل کے دار السلطنت تل ابیب سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے اور یہودیوں نے وہاں بہت بڑا ہوائی اڈہ بنا رکھا ہے۔) کے دروازے پر اسے جا پکڑیں گے اور قتل کر دیں گے۔
(۱۱)۔ عن عبداللہ بن عمر وقال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یخرج الدجال فی امتی فیمکث اربعین (لا ادری اربعین یوماً اواربعین شھراً او ربعین عاماً)فیبعث اللہ عیسیٰ بن مریم کانہ عُروۃ بن مسعود فیطلبہ ثم یمکث الناس سبع سنین لیس بین اثنین عداوۃ(مسلم، ذکر الدجال)
عبداللہ بن عاص کہتے ہیں کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دجال میری امت میں نکلے گا اور چالیس( میں نہیں جانتا چالیس دن یا چالیس مہینے یاچالیس سال) (یہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کا اپنا قول ہے ) رہے گا۔ پھر اللہ عیسیٰ ابن مریم کو بھیجے گا۔ ان کا حلیہ عُروہ بن مسعود (ایک صحابی) سے مشابہ ہو گا۔ وہ اس کا پیچھا کریں گے اور اسے ہلاک کر دیں گے ، پھر سات سال تک لوگ اس حال میں رہیں گے کہ دو آدمیوں کے درمیان بھی عداوت نہ ہو گی۔
(۱۲)۔ عن حذیفۃ بن اسید الفاری قال اطلع النبی صلی اللہ علیہ و سلم علینا و نحن نتذاکر فقال ما تذکرون قالو انذ کر السّاعۃ قال انھالن تقوم حتیٰ ترون قبلھا عشراٰیات فذکر الدخان والدجال والدابۃ و طلوع الشمس من مغر بھا و نزول عیسیٰ ابن مریم ویاجوج و ماجوج و ثلثۃ خسوف، خسف بالمشرق و خسف بالمغرب، وخسف بجزیرۃ العرب ، و اٰ خر ذٰلک نار تخرج من الیمن تطرد الناس الیٰ محشر ھم(مسلم: کتاب الملاحم، باب امارات الساعہ)
حُذیفہ بن اسید الغفاری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہماری مجلس میں تشریف لائے اور ہم آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ آپ نے پوچھا کیا بات ہو رہی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ہم قیامت کا ذکر کر رہے تھے۔ فرمایا وہ ہرگز قائم نہ ہو گی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں۔ پھر آپ نے وہ دس نشانیاں یہ بتائیں : (۱) دھُواں ،(۲)دجال،(۳) دابۃ الارض، (۴) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا(۵) عیسیٰ ابنِ مریم کا نزول،(۶)یاجوج و ماجوج، (۷)تین بڑے خَسَف( زمین دھس جاناLandslide)، ایک مشرق میں ، (۸)دوسرا مغرب میں ، (۹) تیسرا جزیرۃ العرب میں ، (۱۰) سب سے آخر میں ایک زبردست آگ جو یمن سے اٹھے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی۔
(۱۳)۔ عن ثوبان مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن النبی صلی اللہ و سلم عصابتان من امتی احرز ھما اللہ تعالیٰ من النار۔ عصابۃ تغزوالھند، وعصا بۃ تکون مع عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام (نسائی، کتاب الجہاد۔ مسند احمد، بسلسلہ روایات ثُوبان)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا’’ میری امت کے دو لشکر ایسے ہیں جن کو اللہ نے دوزخ کی آگ سے بچا لیا۔ایک وہ لشکر جو ہندوستان پر حملہ کرے گا۔ دوسرا وہ جو عیسیٰ ابن مریمؑ کے ساتھ ہو گا۔
(۱۴)۔ عن مُجمِّع بن جاریۃ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول یقتل ابنُ مریم الدّجال بباب لُدّ( مسنداحمد۔ترمذی ، ابواب الفتن )
مُجَمّع بن جاریۃ انصاری کہتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ ابن مریم دجال کو لُدّ کے دروازے پر قتل کریں گے۔
(۱۵)۔ عن ابی اُمامۃ الباھلی(فی حدیث طویل فی ذکر الد جال) فبینما اما مھم قد تقدم یصلّی بھم الصنح اذنز ل علیھم عیسیٰبن مریم فرجع ذٰلک الامام ینکص یمشی تھقریٰ لیتقدم عیسیٰ فیضع عیسیٰ یدہ بین کتفیہ تم یقول لہٗتقدم فصل فانھا لک اقیمت فیصلی بھم اما مھم فا ذا انصرف قال عیسیٰ علیہ السسلام افتحوا الباب فیفتح و وراء ہ الدجال ومعہ سبعون الفیھودی کلھم ذوسیف محلی وساج فاذانظر الیہ الدجال ذاب کما یذوب الملح فی الماء وینطلق ھا رباً ویقول عیسیٰ ان لی جیک ضربۃلن تسبقنی بھا فیدرکہ عندباب الُّلدِّ الشرقی فیھزم اللہ الیھود..... وتملأالارض منالمسلم کما یملأالا ناء من الماء وتکون الکلمۃ واحدۃ فلا یعبد الا اللہ تعالیٰ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنتہ الدجال)
ابو اُمامہ باہلی (ایک طویل حدیث میں دجال کا ذکر کرتے ہوئے ) روایت کرتے ہیں کہ عین اس وقت جب مسلمانوں کا امام صبح کی نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھ چکا ہو گا۔ عیسیٰ ابن مریم اُن پر اُتر آئیں گے۔امام پیچھے پلٹے گا تاکہ عیسیٰؑ آگے بڑھیں ، مگر عیسیٰ اس کے شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہیں گے کہ نہیں تم ہی نماز پڑھاؤ کیونکہ یہ تمہارے لیے ہی کھڑی ہوئی ہے۔ چنانچہ وہی نماز پڑھائے گا۔ سلام پھیرنے کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ دروازہ کھولو ن، چنانچہ وہ کھولا جائے گا۔ باہر دجال ۷۰ ہزار مسلح یہودیوں کے ساتھ موجود ہو گا۔ جوں ہی کہ عیسیٰ علیہ السلام پر اس کی نظر پڑے گی وہ اس طرح گھُلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھُلتا ہے اور سہ بھاگ نکلے گا۔ عیسیٰ کہیں گے میرے پاس تیرے لیے ایک ایسی ضرب ہے جس سے تو بچ کر نہ جا سکے گا پھر وہ اُسے لُدّ کے مشرقی دروازے پر لے جائیں گے اور اللہ یہودیوں کو ہرا دے گا...... اور زمین مسلمانوں سے اس طرح بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جائے۔ سب دنیا کا کلمہ ایک ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہو گی۔
(۱۶)۔ عن عثمان بن انی العاص قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول .. ... وینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام عند صلوۃ الفجر فیقول لہ امیرھم یاروح اللہ تقدم ، صلِّ، فیقول ھٰذہ الامۃ بعضھم امراء علیٰ فیتادم امیر ھم فیصلی، فاذا قضیٰ صلوٰتہٗ اخذ عیسیٰ حربتہٗ فیذھب نحوالدجال فاذایراہ الدجال ذاب کما یذوب الرصاس فیضع حربتہ بین شندوبتہ فیقتلہٗ وینھزم اصحابہ لیس یومعِذ شیء یواری منھم احداحتیٰ ان الشجر لیقول یا مومن ھٰذا کافرو یقول الحجر یا مومن ھٰذا کافر(مُسند احمد۔ طُبرانی۔ حاکم)
عثمان بن انی العاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے ....اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فجر کی نماز کے وقت اُتر آئیں گے۔
مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا اے رُوح اللہ آپ نماز پڑھایئے۔ سہ جواب دیں گے کہ اس امت کے لوگ خود ہی ایک دوسرے پر امیر ہیں۔ تب مسلمانوں کا امیر آگے بڑھ کر نماز پڑھائے گا۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر عیسیٰ اپنا حربہ لے کر دجال کی طرف چلیں گے۔ وہ جب ان کو دیکھے گا تو اس طرح پگھلے گا جیسے سیسہ پگھلتا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اپنے حربے سے اس کو ہلاک کر دیں گے اور اس کے ساتھی شکست کھا کر بھاگیں گے مگر کہیں انہیں چھپنے کو جگہ نہ ملے گی، حتیٰ کہ درخت پکاریں گے اے مومن ، یہ کافر یہاں موجود ہے اور پتھر پکاریں گے کہ اے مومن، یہ کافر یہاں موجود ہے۔
(۱۷)۔ عن سمرۃ بن جُنْدُب عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم(فی حدیث طویل) فیصبح فیھم عیسیٰ ابن مریم فیھزمہ اللہ وجنودہ حتیٰ ان اجذم الحائط واصل الشجر لینادی یا مومن ھٰذا کافر یستتربی فتعال اقتلہ۔
سَمُرہ جُندُب(ایک طویل حدیث میں )نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں ، پھر صُبح کے وقت مسلمانوں کے درمیان عیسیٰ ابن مریم آ جائیں گے اور اللہ دجال اور اس کے لشکروں کو شکست دے گا یہاں تک کہ دیواریں اور درختوں کی جڑیں پکار اٹھیں گی کہ اے مومن ، یہ کافر میرے پیچھے چھپا ہوا ہے ، آ اور اسے قتل کر۔
(۱۸) عن عمر ان بن حصین انّ رسول اللہ علیہ و سلم قال لا تزال طائفۃ من امتی علی الحق ظاھرین علیٰ من نوأ ھم حتیٰ یاتی امراللہ تبارک وتعالیٰ وینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔ (مُسند احمد)
عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا: میری اُمت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو حق پر قائم اور مخالفین پر بھاری ہو گا یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فیصلہ آ جائے اور عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام نازل ہو جائیں۔
(۱۹)عن عائشۃؓ(فی قصۃ الدّجال) فینزل عیسیٰ علیہ السلام فیقتلہ ثم یمکث عیسیٰ علیہ السلام فی الارض اربعین سنۃ اماماً عادلاً حَکَماً مُقسطاً۔(مسند احمد)
حضرت عائشہؓ (دجال کے قصّے میں ) روایت کرتی ہیں : پھر عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک زمین میں ایک امامِ عادل اور حاکم منصف کی حیثیت سے رہیں گے۔‘‘
(۲۰)۔ عن سفینۃ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (فی قصۃالدجّال ) فینزل عیسیٰ الیہ السالم فیقتلہ اللہ تعالیٰ عند عقیۃ اُفیق۔(مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام سفینہ(دجال کے قصے میں )روایت کرتے ہیں : پھر عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ دجال کو اُفیق(اَفیق، جسے آج کل رفیق کہتے ہیں ،شام اور اسرائیل کی سرحد پر موجودہ ریاست شام کا آخری شہر ہے۔ اس کے آگے مغرب کی جانب چند میل کے فاصلہ پر طَبَریہ ّ نامی جھیل ہے جس میں سے دریاۓ اُردُن نکلتا ہے ، اور اس کے جنوب مغرب کی طرف پہاڑوں کے درمیان ایک نشیبی راستے کو عَقَبہْ اَفیق کی گھاٹی کہتے ہیں۔ ) کی گھاٹی کے قریب ہلاک کر دے گا۔
(۲۱(عن حذیفۃ(فی ذکرالدجال ) فلما قاموایصلّون نزل عیسیٰ بن مریم امامہم فصلّی بھم فلما انصرف قال ھٰکذا مْر کوابینی وبین عدداللہ...........ویسلط اللہ علیھم المسلمین فیقتلو نھم حتیٰ ان الشجر ولحجرلینادی یا عبداللہ یا عبدالرحمٰن یا مسلم ھٰذالیھودی فقتلھم فیفنیھم اللہ تعالیٰ ویظھر المسلمون فیکسرون الصلیب ویقتلون الخنزیر ویضعون الجزیۃ(مستدرک حاکم۔ مسلم میں بھی یہ روایت اختصار کے ساتھ آئی ہے۔ اور حافظ ابن حجرنے فتح الباری جلد۶ ص، ۴۵ میں اسے صحیح قرار دیا ہے )
حضرت حُذَیفہ بن یَمان (دجال کا ذکر کرتے ہوئے ) بیان کرتے ہیں :’’ پھر جب مسلمان نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوں گے تو اُن کی آنکھوں کے سامنے عیسیٰ ابن مریم اتر آئیں گے اور وہ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں گے پھر سلام پھیرنے کے بعد لوگوں سے کہیں گے کہ میرے اور اس دشمن خدا کے درمیان سے ہٹ جاؤ ........اور اللہ دجال کے ساتھیوں پر مسلمانوں کو مسلط کر دے گا اور مسلمان انھیں خوب ماریں گے یہاں تک کہ درخت اور پتھر پکار اٹھیں گے اے عبداللہ ، اے عبدالرحمٰن ، اے مسلمان، یہ رہا ایک یہودی، مار اسے۔ اس طرح اللہ ان کو فنا کر دے گا اور مسلمان غالب ہوں گے اور صلیب توڑ دیں گے ، خنزیر کو قتل کر دیں گے اور جزیہ ساقط کر دیں گے۔
یہ جملہ ۲۱ روایات ہیں جو ۱۴ صحابیوں سے صحیح سندوں کے ساتھ حدیث کی معتبر ترین کتابوں میں وارد ہوئی ہیں۔ اگر چہ ان کے علاوہ دوسری بہت سی احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے ، لیکن طولِ کلام سے بچنے کے لیے ہم نے ان سب کو نقل نہیں کیا ہے بلکہ صرف وہ روایتیں لے لی ہیں جو سند کے لحاظ سے قوی تر ہیں۔
اِن احادیث سے کیا ثابت ہوتا ہے ؟
جو شخص بھی ان احادیث کو پڑھے گا وہ خود دیکھ لے گا کہ ان میں کسی ’’مسیح موعود ‘‘ یا ’’مثیلِ مسیح‘‘ یا ’’ بروزِ مسیح‘‘ کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ نہ ان میں اس امر کی کوئی گنجائش ہے کہ کوئی شخص اِس زمانے میں کسی ماں کے پیٹ اور کسی باپ کے نُطفے سے پیدا ہو کر یہ دعویٰ کر دے کہ میں ہی وہ مسیح ہوں جس کے آنے کی سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشن گوئی فرمائی تھی۔ یہ تمام حدیثیں صاف اور صریح الفاظ میں اُن عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کی خبر دے رہی ہیں جو اب سے دو ہزار سال پہلے باپ کے بغیر حضرت مریمؑ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ اس مقام پر یہ بحث چھیڑنا بالکل لا حاصل ہے کہ وہ وفات پا چکے ہیں یا زندہ کہیں موجود ہیں۔ بالفرض وہ وفات ہی پا چکے ہوں تو اللہ انہیں زندہ کر کے اُٹھا لانے پر قادر ہے ( جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں انہیں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۹ ملاحظہ فرما لینی چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ اس نے اپنے ایک بندے کو۱۰۰ برس تک مُردہ رکھا اور پھر زندہ کر دیا فَاَمَاتَہُ مِائَۃَعامٍ ثمَّ بَعَثَہٗ۔ )،وگرنہ یہ بات بھی اللہ کی قدرت سے ہرگز بعید نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو اپنی کائنات میں کہیں ہزارہا سال تک زندہ رکھے اور جب چاہے دنیا میں واپس لے آئے۔ بہر حال اگر کوئی شخص حدیث کو مانتا ہو تو اُسے یہ ماننا پڑے گا کہ آنے والے سہی عیسیٰ ابن مریمؑ ہوں گے۔ اور اگر کوئی شخص حدیث کو نہ مانتا ہو تو وہ سرے سے کسی آنے والے کی آمد کا قائل ہی نہیں ہو سکتا، کیونکہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ احادیث کے سوا کسی اور چیز پر مبنی نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک عجیب مذاق ہے کہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ تولے لیا جائے احادیث سے اور پھر انہی احادیث کی اس تصریح کو نظر انداز کر دیا جائے کہ وہ آنے والے عیسیٰ ابن مریمؑ ہوں گے نہ کہ کوئی مثیلِ مسیح۔
دوسری بات جو اتنی ہی وضاحت کے ساتھ ان احادیث سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا یہ دوبارہ نزول نبی مقرر ہو کر آنے والے شخص کی حیثیت سے نہیں ہو گا۔ نہ ان پر وحی نازل ہو گی، نہ وہ خدا کی طرف سے کوئی نیا یا کوئی نئے احکام لائیں گے ، نہ وہ شریعت محمدی میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی کریں گے ، نہ ان کو تجدید دین کے لیے دنیا میں لایا جائے گا، نہ وہ آ کر لوگوں کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دیں گے ، اور نہ و ہ اپنے ماننے والوں کی ایک الگ اُمت بنائیں گے ( علماء اسلام نے اس مسئلے کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔علامۂ تَفتازانی (۷۲۲ھ۔۷۹۲ھ) شرح عقائد نُسَفی میں لکھتے ہیں:
ثبت انہ اٰخرالنبیاء۔۔۔ فان قیل قد روی فی الحدیث نزول عیسی علیہ السلام بعدہ قلنا نعم لکنہ یتابع محمدعلیہ السلام لان شریعۃ قد نسخت لا یکون الیہ وحی ولا نصب احکام بل یکون خلیفۃ رسول اللہ علیہ السلام (طبع مصر، ص ۱۳۵)
دوسری بات جو اتنی ہی وضاحت کے ساتھ ان احادیث سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کا یہ دوبارہ نزول نبی مقرر ہو کر آنے والے شخص کی حیثیت سے نہیں ہو گا۔ نہ ان پر وحی نازل ہو گی، نہ وہ خدا کی طرف سے کوئی نیا پیغام یا نئے احکام لائیں گے ، نہ وہ شریعتِ محمدی میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی کریں گے ، ان کو تجدید دین کے لیے دنیا میں لایا جائے گا، نہ وہ آ کر لوگوں کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دیں گے ، اور نہ وہ اپنے ماننے والوں کو ایک الگ امت بنائیں گے۔ (علماء نے اس مسئلے کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ علامہ تفتازانی (۷۲۲ ھ۔۷۹۲ھ ) شرح عقائد نسفی میں لکھتے ہیں : یہ ثابت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں۔۔۔ اگر کہا جائے کہ آپ کے بعد عیسی علیہ السلام کے نزول کا ذکر احادیث میں آیا ہے ، تو ہم کہیں گے کہ ہاں ، آیا ہے ، مگر وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے تابع ہوں گے ، کیونکہ ان کی شریعت تو منسوخ ہو چکی ہے ، اس لیے نہ ان کی طرف وحی ہو گی اور نہ وہ احکام مقرر کریں گے ، بلکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے نائب کی حیثیت کام کریں گے۔ اور یہی بات علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں کہتے ہیں :
ثمالہ علیہ السلام حین ینزل باق علی نبوتہ السابقۃ لم یعزل عنھا بحال لکنہ لا یتعبد بھالنسخھا نی حقہ وحق غیر ہ وتکلیفہ باحکام ہذا الشریعۃ اصلاً وفرعاً فلا یکون الیہ علیہ السلام وحی ولا نصب احکام بدیکون خلیفہ لرسول اللہ صلی اللہ لعیہ و سلم وحاکما من حکام ملتہ بین امتہ (جلد۲۲۔ص۳۲)
پھر، عیسی علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ اپنی سابق نبوت پر باقی ہوں گے ، بہر حال اس سے معزول تو نہ ہو جائیں گے ، مگر وہ اپنی پچھلی شریعت کے پیرو نہ ہوں گے کیونکہ وہ ان کے اور دوسرے سب لوگوں کے حق میں منسوخ ہو چکی ہے ، اور اب وہ اصول اور فروغ مین اس شریعت کی پیروی پر تکلف ہوں گے ، لہذا ان پر نہ اب وحی آئے گی اور نہ انہیں انہیں احکام مقرر کرنے کا اختیار ہو گا، بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نائب اور آپ کی امت میں ملت محمدیہ کے حاکموں میں سے ایک حاکم کی حیثیت سے کام کریں گے۔
امام رازی اس بات کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں :
انتہاء الانبیاء الی مبعث محمدصلی اللہ علیہ و سلم فعند مبعثہ انتھت تلک المدۃ لا یبعدان یصیر(ای عیسی ابن مریم) بعد نزولہ تبعاً لمحمدؐ (تفسیر کبیر، ج۔۳۔ص ۳۴۳)
انبیاء کا دور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت تک تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہو گئے تو انبیاء کی آمد کا زمانہ ختم ہو گیا۔ اب یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ نازل ہونے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے تابع ہوں گے۔ )
وہ صرف ایک کار خاص بھیجے جائیں گے ، اور وہ یہ ہو گا کہ دجال کے تنے کا استیصال کر دیں۔ اس غرض کے لیے وہ ایسے طریقے سے نازل ہونگے کہ جن مسلمانوں کے درمیان ان کا نزول ہو گا، انہیں اس امر میں کوئی شک نہ رہے گا کہ یہ عیسیٰ ابن مریم ہی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشین گوئیوں کے مطابق ٹھیک وقت پر تشریف لائے ہیں۔ وہ آ کر مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے ، جو بھی مسلمانوں کا امام اس وقت ہو گا اسی کے پیچھے نماز پڑھیں گے (اگرچہ دو روایتوں (نمبر۵ و۲۱) میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہونے کے بعد پہلی نماز خود پڑھائیں گے ، لیکن بیشتر اور قوی تر روایات (نمبر ۳،۷،۷،۱۵،۱۶) یہی کہتی ہیں کہ وہ نماز میں امامت کرانے سے انکار کریں گے اور جو اس وقت مسلمانوں کا امام ہو گا اسی کو آگے بڑھائیں گے۔ اسی بات کو محدثین اور مفسرین نے بالاتفاق تسلیم کیا ہے۔ ) اور جو بھی اس وقت مسلمانوں کا امیر ہو گا اسی کو آگے رکھیں گے ، تاکہ اس شبہ کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہ رہے کہ ہ اپنی سابق پیغمبرانہ حیثیت کی طرح اب پھر پیغمبری کے فرائض انجام دینے کے لیے واپس آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی جماعت میں اگر خدا کا پیغمبر موجود ہو تو نہ اس کا کوئی امام دوسرا شخص ہو سکتا ہے اور نہ امیر۔ پس جب وہ مسلمانوں کی جماعت میں آ کر محض ایک فرد کی حیثیت سے شامل ہوں گے تو یہ گویا خود بخود اس امر کا اعلان ہو گا کہ وہ پیغمبر کی حیثیت سے تشریف نہیں لائے ہیں ، اور اس بنا پر ان کی آد سے مہر نبوت کے ٹوٹنے کا قطعاً کوئی سوال پیدا نہ ہو گا۔
ان کا آنا بلا تشبیہ اسی نوعیت کا ہو گا جیسے ایک صدر ریاست کے دور میں کوئی سابق صدر آئے اور وقت کے صدر کی ماتحتی میں مملکت کی کوئی خدمت انجام دے۔ ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ایک صدر کے دور میں کسی سابق صدر کے محض آ جانے سے آئین نہیں ٹوٹتا۔ البتہ دونوں صورتوں میں آئین کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔ ایک یہ کہ سابق صدر آ کر پھر سے فرائض صدارت سنبھالنے کی کوشش کرے۔ دوسرے یہ کہ کوئی شخص کی سابق صدارت کا بھی انکار کر دے ، کیونکہ یہ ان تمام کاموں کے جواب کو چیلنج کرنے کا ہم معنی ہو گا جو ا سکے دور صدارت میں انجام پائے تھے۔ ان دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت بھی نہ تو بجائے خود سابق صدر کی آمد آئینی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ یہی معاملہ حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا بھی ہے کہ ان کے محض آ جانے سے ختم نبوت نہیں ٹوٹتی۔ البتہ اگر وہ آ کر پھر نبوت کا منصب سنبھال لیں اور فائض نبوت انجام دینے شروع کر دیں ، یا کوئی شخص ان کی سابق نبوت کا بھی انکار کر دے تو اس سے اللہ تعالیٰ کے آئین نبوت کی خلاف وری لازم آئے گی۔ احادیث نے پوری وضاحت کے ساتھ دونوں صورتوں کا سد باب کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ تصریح کرتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ اور دوسری طرف وہ خبر دیتی ہیں کہ عیسی ابن مریم ؑ دوبارہ نازل ہوں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان کی یہ آمد ثانی منصب نبوت کے فرائض انجام دینے کے لیے نہ ہو گی۔
اسی طرح ان کی آمد سے مسلمانوں کے اندر کفر و ایمان کا بھی کوئی نیا سوال پیدا نہ ہو گا۔ ان کی سابقہ نبوت پر تو آج بھی اگر کوئی ایمان نہ لائے تو کافر ہو جائے۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود ان کی اس نبوت پر ایمان رکھتے تھے اور آپ کی ساری امت ابتداء سے ان کی امت ہے۔ یہی حیثیت اس وقت بھی ہو گی۔ مسلمان کسی تازہ نبوت پر ایمان نہ لائیں گے بلکہ عیسی ابن مریم علیہ السلام کی سابقہ نبوت پر ہی ایمان رکھیں گے جس طرح آج رکھتے ہیں۔ یہ چیز نہ آج ختم نبوت کے خلاف ہے نہ اس وقت ہو گی ۔
آخری بات جو ان احادیث سے ، اور بکثرت دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دجال ، جس کے فتنہ عظیم کا استیصال کرنے کے لیے حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو بھیجا جائے گا، یہودیوں میں سے ہو گا اور اپنے آپ کو ’’مسیح‘‘ کی حیثیت سے پیش کرے گا۔ اس معاملے کی حقیقت کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ یہودیوں کی تاریخ اور ان کے مذہبی تصورات سے واقف نہ ہو۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات جب نبی اسرائیل پے درپے تنزل کی حالت میں مبتلا ہوتے چلے گئے ، یہاں تک کہ آخر کار بابل اور اسیریا کی سلطنتوں نے ان کو غلام بنا کر زمین میں تتر بتر کر دیا، تو انبیائے بنی اسرائیل نے ان کو خوشخبری دینی شروع کی کہ خدا کی طرف سے ایک ’’مسیح ‘‘ آنے والا ہے جو ان کو اس ذلت سے نجات دلائے گا۔ ان پیشینگوئیوں کی بنا پر یہودی ایک مسیح کی آمد کے متوقع تھے جو بادشاہ ہو، لڑ کر ملک فتح کرے ، بی اسرائیل کو ملک ملک سے اکر فلسطین میں جمع کر دے ، اور ان کی ایک زبردست قائم کر دے۔ لیکن ان کی ان توقعات کے خلاف جب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام خدا کی طرف سے مسیح ہو کر آئے اور کوئی لشکر ساتھ نہ لائے تو یہودیوں نے ان کی مسیحیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں ہلاک کرنے کے درپے ہو گئے۔ اس وقت سے آج تک دنیا بھر کے یہودی اس مسیح موعود (Promised Messiah) کے منتظر ہیں جس کے آنے کی خوشخبریاں ان کو دی گئی تھیں۔ ان کا لٹریچر اس آنے والے دور کے سہانے خوابوں سے بھر ا پڑا ہے۔ تلمود: اور ربیوں کے ادبیات میں اس کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس کی خیالی لذت کے سہارے صدیوں سے یہودی جی رہے ہیں اور یہ امید لئے بیٹھے ہیں کہ یہ مسیح موعود ایک زبردست جنگی و سیاسی لیڈر ہو گا جو دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ (جسے یہودی اپنی میراث کا ملک سمجھتے ہیں ) انہیں واپس دلائے گا، اور دنیا کے گوشے گوشے سے یہودیوں کو لا کر اس ملک میں پھر سے جمع کر دے گا۔
اب اگر کوئی شخص مشرقی وسطیٰ کے حالات پر ایک نگاہ ڈالے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشینگوئیوں کے پس منظر میں ان کو دیکھے تو وہ فوراً یہ محسوس کرے گا کہ اس دجال اکبر کے ظہور کے لیے اسٹیج بالکل تیار ہو چکا ہے جو حضور کی دی ہوئی خبروں کے مطابق یہودیوں کا ’’مسیح موعود‘‘ بن کر اٹھے گا۔ فلسطین کے بڑے حصے سے مسلمان بے دخل کیے جا چکے ہیں اور وہاں اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست قائم کر دی گئی ہے۔ اس ریاست میں دنیا بھر کے یہودی کھنچ کھنچ کر چلے آ رہے ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس نے اس کو ایک زبردست جنگی طاقت بنا دیا ہے۔ یہودی سرمائے کی بے پایاں امداد سے یہودی سائنس داں اور ماہرین فنون اس کو روز افزوں ترقی دیتے چلے جا رہے ہیں ،اور اس کی یہ طاقت گردو پیش کی مسلمان قوموں کے لیے ایک خطرہ عظیم بن گئی ہے۔ اس ریاست کے لیڈروں نے اپنی اس تمنا کو کچھ چھپا کر نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنی ’’میراث کا ملک‘‘ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مستقبل کی یہودی سلطنت کا جو نقشہ وہ ایک مدت سے کھلم کھلا شائع کر رہے ہیں اسے مقابل کے صفحے پر ملاحظہ فرمایئے۔ اس سے ظاہر ہو کہ وہ پورا شام، پورا لبنان پورا اردن اور تقریباً سارا عراق لینے کے علاوہ ترکی سے اسکندرون، مصر سے سینا اور ڈیلٹا کا علاقہ اور سعودی عرب سے بالائی حجاز و نجد کا علاقہ لینا چاہتے ہیں جس میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ کسی عالمگیر جنگ کی ہڑبونگ سے فائدہ اٹھا کر وہ ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ٹھیک اس موقع پر وہ دجال اکبر ان کا مسیح موعود بن کر اٹھے گا جس کے ظہور کی خبر دینے ہی پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں پر مصائب کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ ایک دن ایک سال کے برابر محسوس ہوتا ہو گا۔ اسی بناء پر آپ فتنۂ دجال سے خود بھی خدا کی پناہ مانگتے تھے اور اپنی امت کو بھی پناہ مانگنے کی تلقین فرماتے تھے۔
اس مسیح دجال کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کسی مثیل مسیح کو نہیں بلکہ اس اصل مسیح کو نازل فرمائے گا جسے دو ہزار برس پہلے یہودیوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا اور جسے وہ اپنی دانست میں صلیب پر چڑھا کر ٹھکانے لگا چکے تھے۔ اس حقیقی مسیح کے نزول کی جگہ ہندوستان یا افریقہ یا امریکہ میں نہیں بلکہ دمشق میں ہو گی کیونکہ یہی مقام اس وقت عین محاذ جنگ پر ہو گا۔ براہ کرم دوسرے صفحے پر نقشہ ملاحظہ فرمائے۔ اس میں آپ دیکھیں گے کہ اسرائیل کی سرحد سے دمشق بمشکل ۵۰۔۶۰ میل کے فاصلے پر ہے۔ پہلے جو احادیث ہم نقل کر آئے ہیں ان کا مضمون اگر آپ کو یاد ہے تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت نہ ہو گی کہ مسیح دجال ۷۰ ہزار یہودیوں کا لشکر لے کر شام میں گھسے گا اور دمشق کے سامنے جا پہنچے گا۔ ٹھیک اس ناک موقع پر دمشق کے مشرقی حصے میں ایک سفید مینار کے قریب حضرت عیسیٰؑ ابن مریم صبح دم نازل ہوں گے اور نماز فجر کے بعد مسلمانوں کو اس کے مقابلے پر لے کر نکلیں گے۔ ان کے حملے سے دجال پسپا ہو کر افیق کی گھاٹی سے (ملاحظہ ہو حدیث نمبر ۲۱) اسرائیل کی طرف پلتے گا اور وہ اس کا تعاقب کریں گے۔ آخر کا لُد کے ہوائی اڈے پر پہنچ کر وہ ان کے ہاتھوں مارا جائے گا (حدیث نمبر ۱۰،۱۴،۱۵) اس کے بعد یہودی چن چن کر قتل کیے جائیں گے اور ملت یہود کا خاتمہ ہو جائے گا (حدیث نمبر ۹،۱۵،۲۱) عیسائیت بھی حضرت عیسیٰؑ کی طرف سے اظہار حقیقت ہو جانے کے بعد ختم ہو جائے گی۔(حدیث نمبر ۱،۲،۴،۶) اور تمام ملتیں ایک ہی ملت مسلمہ میں ضم ہو جائیں گی (حدیث نمبر۶۔۱۵)
یہ ہے وہ حقیقت جو کسی اشتباہ بغیر احادیث میں صاف نظر آتی ہے۔ اس کے بعد امر میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے کہ ’’مسیح موعود‘‘ کے نام سے جو کاروبار ہمارے ملک میں پھیلایا گیا ہے وہ ایک جعل سازی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
اس جعل سازی کا سب سے زیادہ مضحکہ انگیز پہلو یہ ہے کہ جو صاحب اپنے آپ کو ان پیشن گوئیوں کا مصداق قرار دیتے ہیں انہوں نے خود ابن مریم بننے کے لیے یہ دلچسپ تاول فرمائی ہے :
’’اس نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے ) براہینِ احمدیہ کے تیسرے حصے میں میرا نام مریم رکھا۔ پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے ، دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی۔۔۔ پھر۔۔۔ مریم کی طرح عیسی کی روح مجھ سے نفخ کی گئی اور استعارے کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا،اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں ، بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم میں درج ہے ، مجھے مریم سے عیسیٰ بنا دیا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘ (کشتی نوح۔ ص ۸۷،۸۸،۸۹)
یعنی پہلے مریم بنے ، پھر خود ہی حاملہ ہوئے ، پھر اپنے پیٹ سے آپ عیسیٰ ابن مریم بن کر تولد ہو گئے ! اس کے بعد یہ مشکل پی آئی کہ عیسی ابن مریم کا نزول تو احادیث کی رو س دمشق میں ہوتا تھا جو کئی ہزار برس سے شام کا ایک مشہور و معروف مقام ہے اور آج بھی دنیا کے نقشے پر اسی نام سے موجود ہے۔ یہ مشکل ایک دوسری پر لطف تاول سے یوں رفع کی گئی:
’’واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبے کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی ابطع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں۔۔۔ یہ قصبہ قا دیان بوجہ اس کے کہ اکثر یزیدی الطبع لوگ اس میں سکونت رکھتے ہیں دمشق سے ایک مشابہت اور مناسبت رکھتا ہے ‘‘۔ (حاشیۂ ازالۂ اوہام ص ۶۳۔۷۳)
پھر ایک اور الجھن یہ باقی رہ گئی کہ احادیث کی روسے ابن مریم کو ایک سفید منارہ کے پاس اترنا تھا۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مسیح صاحب نے آ کر اپنا منارہ خود بنوا لیا۔ اب اسے کون دیکھتا ہے کہ احادیث کی رو سے منارہ وہاں ابن مریم ؑ کے نزول سے پہلے موجود ہونا چاہئے تھا، اور یہاں وہ مسیح موعود صاحب کی تشریف آوری کے بعد تعمیر کیا گیا۔
آخری اور زبردست الجھن یہ تھی کہ احادیث کی رو سے تو عیسی ابن مریم کو لُد کے دروازے پر دجال کو قتل کرنا تھا۔ اس مشکل کو رفع کرنے کی فکر میں پہلے طرح طرح کی تاویلیں کی گئیں۔ کبھی تسلیم کیا گیا کہ لُدبیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گاؤں کا نام ہے (ازالہ اوہام، شائع کردہ انجمن احمدیہ لاہور، تبقیطع خورد، صفحہ ۲۲۰) پھر کہا گیا کہ ’’لُد ان لوگوں کو کہتے ہیں جو بے جا جھگڑا کرنے والے ہوں۔۔۔ جب دجال کے بیجا جھگڑے کمال تک پہنچ جائیں گے تب مسیح موعود ظہور کرے گا اور اس کے تمام جھگڑوں کا خاتمہ کر دے گا ‘‘ (ازالۂ اوہام ، صفحہ ۷۳۰) لیکن جب اس سے بھی بات نہ بنی تو صاف کہہ دیا گیا کہ لُد سے مراد لدھیانہ ہے اور اس کے دروازے پر دجال کے قتل سے مراد ہے کہ اشرار کی مخالفت کے باوجود وہیں سب سے پہلے مرزا صاحب کے ہاتھ پر بیعت ہوئی (الہدیٰ ص ۹۱)
ان تاویلات کو جو شخص بھی کھلی آنکھوں سے دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ جھوٹے بہروپ (false impersonation) کا صریح ارتکاب ہے جو علی الاعلان کیا گیا ہے۔