اس حدیث مبارکہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا نام “احمد” ہے ۔ قرآن مجید کی سورة الصف آیت نمبر چھ میں بھی اس کا ذکر ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنے بعد ایک “احمد “ نامی رسول کی بعثت کی بشارت دی تھی اس کا مصداق بھی اس حدیث کی رو سے محمد صلی الله علیہ وسلم ہی ہیں ۔
یہ ایک اجماعی عقیدہ ہے جس کی بناء پر تمام مسلمانوں کے خون میں شامل ہے کہ “احمد “ نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے مسلمان اپنے بچوں کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اس مبارک نام کی نسبت سے “احمد “ رکھتے آ رہے ہیں ۔
مفسرین کرام نے تفسیر القرآن کے لیے کچھ اصول مرتب کیے ہیں ۔۔۔ جھوٹا نبی مرزا قادیانی تفسیر قرآن کے ضمن میں مفسرینِ کرام کا ایک اصول لکھتا ہے
“(قرآن مجید سمجھنے کے لیے ) دوسرا معیار تفسیر رسول صلی الله علیہ وسلم ہے اس میں شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن مجید کو سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم تھے پس اگر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے تفسیر ثابت ہوجائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلاتوقف قبول کر لے نہیں تو اس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہے “
(برکات الدعا صفحہ ۱۳ تا ۱۵)
مرزا کی تصریح سے معلوم ہوا کہ مندرجہ بالا حدیث سورة الصف کی آیت نمبر ۶ کی نبوی تفسیر ہے
مذکورہ حقائق سے ثابت ہوا اور اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہ رہی کہ “احمد” نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا حقیقی نام مبارک ہے اور اس میں شک کرنے والا منافق اور مرتد ہے ۔۔۔ لیکن حیرت کا مقام ہے کہ اسلام میں خلافت قائم کرنے والے قادیانی/ مرزائی اپنے نبی مرزا قادیانی کی مندرجہ بالا مخصوص تحریر کوپسِ پشت ڈال کر قرآنی نام “احمد” کو اپنے جھوٹے نبی مرزا قادیانی سے منسوب کرتے ہیں ۔
لعنت الله علی الکاذبین
مرزا قادیانی کا بیٹا خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود لکھتا ہے
“اسمه احمد کی پیشگوئی کا مصداق حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) ہیں ۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے اور احمد آپ ہی ہیں ، لیکن اس کے خلاف کہا جاتا ہے کہ احمد نام رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا ہے ۔ اور آپ کے سوا کسی اور شخص کو احمد کہنا آپ کی ہتک ہے ۔ لیکن میں جہاں تک غور کرتا ہوں میرا یقین بڑھتا جاتا ہے اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ احمد کا جو لفظ قرآن کریم میں آیا ہے وہ حضرت مسیح موعود کے متعلق ہی ہے “
(انوار خلافت ، انوار العلوم جلد ۳ صفحہ ۸۳ ومابعد )
مرزا بشیر الدین کی اس تحریر کے بعد قادیانیوں کے دجل و الحاد میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ۔۔۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایسا گھٹیا اور کافرانہ عقیدے کا حامل گروہ اگر صحابک کرام رضوان الله علیھم کے دور میں ہوتا تو سورج کو طلوع وغروب ہوتا دیکھ سکتا ؟ یقینا ایسا زندیق ٹولہ صحابہ کرام رضوان الله کے غضب سے بچ نہ پاتا ۔۔۔!!
یہ ایک اجماعی عقیدہ ہے جس کی بناء پر تمام مسلمانوں کے خون میں شامل ہے کہ “احمد “ نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے مسلمان اپنے بچوں کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اس مبارک نام کی نسبت سے “احمد “ رکھتے آ رہے ہیں ۔
مفسرین کرام نے تفسیر القرآن کے لیے کچھ اصول مرتب کیے ہیں ۔۔۔ جھوٹا نبی مرزا قادیانی تفسیر قرآن کے ضمن میں مفسرینِ کرام کا ایک اصول لکھتا ہے
“(قرآن مجید سمجھنے کے لیے ) دوسرا معیار تفسیر رسول صلی الله علیہ وسلم ہے اس میں شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن مجید کو سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم تھے پس اگر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے تفسیر ثابت ہوجائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلاتوقف قبول کر لے نہیں تو اس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہے “
(برکات الدعا صفحہ ۱۳ تا ۱۵)
مرزا کی تصریح سے معلوم ہوا کہ مندرجہ بالا حدیث سورة الصف کی آیت نمبر ۶ کی نبوی تفسیر ہے
مذکورہ حقائق سے ثابت ہوا اور اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہ رہی کہ “احمد” نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا حقیقی نام مبارک ہے اور اس میں شک کرنے والا منافق اور مرتد ہے ۔۔۔ لیکن حیرت کا مقام ہے کہ اسلام میں خلافت قائم کرنے والے قادیانی/ مرزائی اپنے نبی مرزا قادیانی کی مندرجہ بالا مخصوص تحریر کوپسِ پشت ڈال کر قرآنی نام “احمد” کو اپنے جھوٹے نبی مرزا قادیانی سے منسوب کرتے ہیں ۔
لعنت الله علی الکاذبین
مرزا قادیانی کا بیٹا خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود لکھتا ہے
“اسمه احمد کی پیشگوئی کا مصداق حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) ہیں ۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے اور احمد آپ ہی ہیں ، لیکن اس کے خلاف کہا جاتا ہے کہ احمد نام رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا ہے ۔ اور آپ کے سوا کسی اور شخص کو احمد کہنا آپ کی ہتک ہے ۔ لیکن میں جہاں تک غور کرتا ہوں میرا یقین بڑھتا جاتا ہے اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ احمد کا جو لفظ قرآن کریم میں آیا ہے وہ حضرت مسیح موعود کے متعلق ہی ہے “
(انوار خلافت ، انوار العلوم جلد ۳ صفحہ ۸۳ ومابعد )
مرزا بشیر الدین کی اس تحریر کے بعد قادیانیوں کے دجل و الحاد میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ۔۔۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایسا گھٹیا اور کافرانہ عقیدے کا حامل گروہ اگر صحابک کرام رضوان الله علیھم کے دور میں ہوتا تو سورج کو طلوع وغروب ہوتا دیکھ سکتا ؟ یقینا ایسا زندیق ٹولہ صحابہ کرام رضوان الله کے غضب سے بچ نہ پاتا ۔۔۔!!