• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ختم نبوت(قادیانی شبہات کا رد)

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب نمبر 3

اس آیت کی تفسیر جو مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت کے پہلے حضرات نے لکھی ہے وہ پیش خدمت ہے
(1)مرزا غلام احمد قادیانیاس آیت سے بنص صریح ثابت ہوتا ہے کہ تمام انبیاء جن میں حضرت مسیح شامل ہیں مامور تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاویں اور انہوں نے اقرار کیا کہ ہم ایمان لائے۔(عصمت الانبیاء : روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 675)
2م.jpeg
(2)حکیم نور الدین بھیروی اس آیت میں سب انبیاء سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خبر دینے اور ان کے ظہور کی پیشگوئی کرنے کا عہد لیا حتیٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کے اپنی نبوت کا اندازہ کریں۔ (حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 391)

3م.jpg
مرزا قادیانی اور حکیم نور دین کی کی ہوئی اس تفسیر سے معلوم یہ ہوا کہ تمام انبیاء سے حضور علیہ السلام کی نبوت کے بارے میں عہد لیا گیا نہ کہ ہر نبی سے اس کے بعد آنے والی نبی کی نبوت کا عہد۔

جواب نمبر 4

آیت میں ثُمَّ جَآءَکُمۡ کے الفاظ قابل غور ہیں ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام انبیاء علیہ السلام کے ساتھ تشریف لانے کو لفظ ثُمَّ کے ساتھ ادا کیا گیا ہے جو لغت عربی میں تراخی یعنی مہلت کے لیے آتا ہے یعنی جب کہا جاتا ہے "جاءني القوم ثم عمر" تو لغت عرب میں اس کے معنی ہوتے ہیں کہ پہلے تمام قوم آگئی پھر کچھ مہلت کے بعد سب سے آخر میں عمر آیا لہذا ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ کے یہ معنی ہونگے کہ تمام انبیاء کے آنے کے سب سے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔
لو قادیانیوں یہ تو ہماری دلیل نکلی۔ یہ آیت تو ختم نبوت کی دلیل ہے۔

جواب نمبر 5
قادیانیوں کی پیش کردہ دوسری آیت الاحزاب آیت نمبر 7 میں جس عہد کا ذکر ہے وہ یہ والا عہد( آل عمران آیت 81 ) نہیں ہے۔اس آیت میں عہد کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی نے تمام انبیاء علیہم السلام سے اس بات کا عہد لیا کہ دین کی تبلیغ اچھی طرح کرنا اور کسی قسم کی تفرقہ اندازی نہ کرنا اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعد میں آنے والے نبی کی تصدیق کریں گے۔جیسے الشوریٰ آیت نمبر 13 میں ہے
شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ

اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ طے کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا ، اور جو ( اے پیغمبر ) ہم نے تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ تم دین کو قائم کرو ، اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا ۔ ( پھر بھی ) مشرکین کو وہ بات بہت گراں گذرتی ہے جس کی طرف تم انہیں دعوت دے رہے ہو ۔ اللہ جس کو چاہتا ہے چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو کوئی اس سے لو لگاتا ہے اسے اپنے پاس پہنچا دیتا ہے ۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ الاحزاب کی آیت نمبر 81 میں صرف اس بات پر عہد لیا گیا کہ اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
پانچویں آیت میں قادیانی تحریف کا جواب

آیت

مَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ؕ وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا
(بنی اسرائیل : 15)

جو شخص سیدھی راہ پر چلتا ہے تو وہ خود اپنے فائدے کے لیے چلتا ہے ، اور جو گمراہی کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ اپنے ہی نقصان کے لیے اختیار کرتا ہے ۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ اور ہم کبھی کسی کو اس وقت تک سزا نہیں دیتے جب تک کوئی پیغمبر ( اس کے پاس ) نہ بھیج دیں ۔
قادیانی استدلال

قادیانی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اللہ اس وقت تک عذاب نہیں بھیجتا جب تک ایک نبی نہ بھیج دے۔ یعنی حضور علیہ صلاۃ و سلام کے بعد بھی عذاب آئے ہیں اللہ کی طرف سے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبوت جاری ہے۔
جواب نمبر 1

اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو غفلت اور بے خبری میں ہلاک نہیں کرتا بلکہ بذریعہ رسول کے ان کو آگاہ اور مطلع کر دیتا ہے۔ تاکہ وہ گمراہی کو چھوڑ کر ہدایت کا راستہ اختیار کریں تا کہ دنیوی عذاب سے نجات مل جائے اور اگر وہ رسول کی نافرمانی کریں ان کے کہنے پر نہ چلیں تو پھر ہلاک کیے جاتے ہیں اور اس کی تائید میں یہ آیت صریح موجود ہے
ذٰلِکَ اَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ رَّبُّکَ مُہۡلِکَ الۡقُرٰی بِظُلۡمٍ وَّ اَہۡلُہَا غٰفِلُوۡنَ (الانعام : 131)

یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کے سبب ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے بے خبر ہوں۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ رسول کے آنے سے پہلے تو لوگ امن میں رہتے ہیں اور ان کی آمد کے ساتھ ساتھ عذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے گویا ان کا آنا رحمت کیا ہوا الٹا زحمت بن گیا۔ اس کا مطلب یہ نکالنا نبوت جاری ہے دجل کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

جواب نمبر 2

آیت کا مفہوم تو صرف اس قدر ہے کہ اللہ تعالی کے رسول آ کر حجت پوری کرتے ہیں مگر منکرین مخالفت کرتے ہیں جس کی وجہ سے عذاب نازل ہوتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہان اور سب وقتوں کے لئے ایک ہی نبی ہیں ( چشمہ معرفت : خزائن جلد 23 صفحہ 388)
9.jpeg
اس لیے یہ تمام عذاب اسی رسالت کاملہ کی مخالفت کے باعث ہے۔
نیز جو عذاب مرزا صاحب کے دعویٰ کرنے سے پہلے دنیا پر آئے وہ کس کے انکار کی وجہ سے آئے؟ اگر وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے آئے تو اس زمانہ کے عذابوں کو کیوں مرزا صاحب کی مخلافت کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے؟ کیا اللہ تعالی نے کوئی حد مقرر کی ہے کہ 13 سو سال تک جو عذاب آئیں گے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی وجہ سے آئیں گے اور اس کے بعد جو آئیں گئے وہ کسی اور رسول کے انکار کی وجہ سے آئیں گے؟ اور اگر موجودہ عذاب مرزا صاحب کے انکار کی وجہ سے آرہے ہیں تو اس کی کوئی حد مقرر ہونی چاہیے کہ ان کی وجہ سے کتنے عرصہ تک عذاب آئیں گے۔ثابت ہوا کہ موجودہ عذاب حضور علیہ السلام کی مخالفت کی وجہ سے ہے مذکورہ بالا آیت کسی نئے نبی کو نہیں چاہتی کیونکہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام " كافة الناس " کے لئے ہیں اور آپ کے آنے سے حجت پوری ہوگی۔

جواب نمبر 3

اس آیت سے مرزا صاحب نے امت میں خلافت ثابت کی ہے کہ اب امت میں خلیفیے ہوں گے مرزا صاحب نے اسے اجرائے نبوت کی دلیل نہیں کہا ( شہادت القرآن : خزائن جلد 6 صفحہ 352)
10.jpeg
اور اب مرزا صاحب کی امت اسے اجراء نبوت کی دلیل بنا رہی ہے۔

فيا للعجب
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب نمبر 4

عموماً دنیا میں مصائب آتے ہی رہتے ہیں تو کیا ہر وقت کوئی نہ کوئی نبی ماننا ضروری ہو گا؟ اگر ہر عذاب کے موقع پر کوئی نبی یا رسول ہونا ضروری ہے تو بتایا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس قدر مصائب اور عذاب آئے وہ کن رسولوں کے باعث آئے ؟
1۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں مرض طاعون پڑی جس کی وجہ سے ہزاروں صحابہ شہید ہوئے یہ کس نبی یا رسول کے انکار کی وجہ سے ہوا۔
2۔ ٨٠ ہجری میں بہت سخت زلزلہ آیا تھا جس میں ہزاروں انسان مر گئے اور سکندریہ کے منارے گر گئے قادیانی بتائیں کہ یہ کس نبی کے انکار کی وجہ سے ہوا؟
3۔ 425 ہجری میں تمام دنیا میں زلزلے آئے اس کی شدت کا یہ عالم تھا کہ انطاکیہ میں پہاڑ سمندر میں گر پڑا لاکھوں انسان تباہ ہوئے یہ سب کس رسول کی تکذیب کے باعث ہوا ؟
4۔اندلس اور بغداد کی تباہی کے وقت کون سا رسول تھا؟
5۔انگلستان کا خطرناک طاعون 1348 میں کس رسول کے باعث آیا ؟
6۔چنگیز و ہلاکو کے زمانہ میں لاکھوں قتل ہوئے کس نبی کی تکذیب کی وجہ سے؟

جواب نمبر 5

اگر 13 سو سال تک جو عذاب آتے رہے وہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کے باعث آتے رہے تو قیامت تک جو عذاب آئیں گے وہ بھی حضور علیہ صلاۃ و سلام کی تکذیب کے باعث ہی آئیں گے یہ کہنا کہ اب کسی اور رسول کے باعث عذاب آتے ہیں یہ معنی رکھتا ہے کہ حضور علیہ السلام کا زمانہ ختم ہو گیا اگر مرزائی اس کا کھلا اعلان کریں تو ان کو جواب دیا جائے گا۔
جواب نمبر 6

(1) مولانا محمد حسین بٹالوی (2)مولانا ثناءاللہ امرتسری(3) ڈاکٹر عبد الحکیم خان پٹیالوی(4)مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی (5)مرزا سلطان محمد ساکن پٹی(6)مولانا صوفی عبد الحق غزنوی
جو مرزا قادیانی کے اشد ترین مخالف تھے مرزا قادیانی کی تقدیر کے باعث ان لوگوں پر عذاب کیوں نہ آیا؟ قادیانی جواب دیں ۔

جواب نمبر 7

وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا سے اگر یہ ثابت کیا جائے کہ اور نبی آ سکتا ہے تو وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ کا تقاضا اور سنت الہی یہی ہونی چاہیے کہ ہر بستی میں رسول آئے۔اگر قادیانی یہ کہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کافة للناس ہیں تو پھر سارے عالم میں جہاں عذاب آئے گا وہ بھی حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی تکذیب کے باعث ہی آئے گا۔
جواب نمبر 8

عذاب کا باعث صرف نبوت کا انکار نہیں بلکہ اور بھی بے شمار وجوہات عذاب کی ہو سکتی ہیں مثلاً ظلم سے عذاب آتا ہے، زنا سے عذاب آتا ہے، جھوٹی قسم سے عذاب آتا ہے وغیرہ
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
چھٹی آیت میں قادیانی تحریف کا جواب

آیت
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿النور آیہ55﴾

اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے ( جس کا ایفا اور تعمیل امت پر لازم ہے ) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت ( یعنی امانتِ اقتدار کا حق ) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو ( حقِ ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے ( غلبہ و اقتدار کے ذریعہ ) مضبوط و مستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور ( اس تمکّن کے باعث ) ان کے پچھلے خوف کو ( جو ان کی سیاسی ، معاشی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے تھا ) ان کے لئے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا ، وہ ( بے خوف ہو کر ) میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ( یعنی صرف میرے حکم اور نظام کے تابع رہیں گے ) ، اور جس نے اس کے بعد ناشکری ( یعنی میرے احکام سے انحراف و انکار ) کو اختیار کیا تو وہی لوگ فاسق ( و نافرمان ) ہوں گے۔
قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح خلیفہ یعنی غیر تشریعی نبی ہوں گے۔
جواب نمبر 1

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی مسلمانوں کو سلطنت عطا کرے گا،اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کے نبی خلیفہ ہوں گے ورنہ دوسری آیات میں کیا مطلب ہوگا
قَالُوۡۤا اُوۡذِیۡنَا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَاۡتِیَنَا وَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جِئۡتَنَا ؕ قَالَ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 129)

لوگ کہنے لگے: ( اے موسٰی! ) ہمیں تو آپ کے ہمارے پاس آنے سے پہلے بھی اذیتیں پہنچائی گئیں اور آپ کے ہمارے پاس آنے کے بعد بھی ( گویا ہم دونوں طرح مارے گئے ، ہماری مصیبت کب دور ہو گی؟ ) موسٰی ( علیہ السلام ) نے ( اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے ) فرمایا: قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور ( اس کے بعد ) زمین ( کی سلطنت ) میں تمہیں جانشین بنا دے پھر وہ دیکھے کہ تم ( اقتدار میں آکر ) کیسے عمل کرتے ہو ۔
اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم سب غیر تشریعی نبی بنا دیے گئے۔
وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَکُمۡ خَلٰٓئِفَ الۡاَرۡضِ وَ رَفَعَ بَعۡضَکُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبۡلُوَکُمۡ فِیۡ مَاۤ اٰتٰکُمۡ ؕ اِنَّ رَبَّکَ سَرِیۡعُ الۡعِقَابِ ۫ ۖوَ اِنَّہٗ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ الانعام آیت نمبر 165)

اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا تاکہ وہ ان ( چیزوں ) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں ( امانتاً ) عطا کر رکھی ہیں ۔ بیشک آپ کا رب ( عذاب کے حق داروں کو ) جلد سزا دینے والا ہے اور بیشک وہ ( مغفرت کے امیدواروں کو ) بڑا بخشنے والا اور بے حد رحم فرمانے والا ہے ۔
اس کا بھی ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالی انہیں غیر تشریعی نبی بنائے۔اس خلافت سے حکومت اور زمینی وراثت مراد ہے جو حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان کے عہد میں پوری ہوگئی جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے آیات پہلے گزر چکی ہیں۔ صحابہ کرام کی جماعت اس کی مخاطب ہے اور انہی کو پہلوں کا خلیفہ ہونا بلفظ ماضی فرمایا گیا ہے۔تفسیر الخازن میں لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ کا معنی لکھا ہے ۔
ليور ثنهم أرض الكفار من العرب و العجم فجعلهم ملوكها و ساسنها

یعنی مسلمانوں کو کفار عرب ہو یا عجم میں کی زمین کا وارث بنائے گا اور ان کو بادشاہ اور وہاں کا باشندہ بنا دے گا۔
(تفسیر الخازن لباب التاویل فی معانی التنزیل جلد 3 صفحہ 302 سورۃ الانعام سورۃ نمبر 24 آیت نمبر 46 تا 55)
111.jpg
اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر تشریعی نبی بنا دے گا نیز یہی آیت تو ختم نبوت پر دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہے آگے خلفاء ہی ہوں گے پھر یہ وعدہ خلافت بھی ان سے ہے جو مومن بھی ہوں اور نیک عمل کرنے والے بھی ہوں کیا صحابہ کرام ان دونوں صفات سے موصوف نہ تھے؟ اگر تھے تو نبوت تشریعی یا غیر تشریعی کا دعویٰ انہوں نے کیوں نہ کیا؟ اور اگر جواب نفی میں ہے تو یہ قرآن عظیم کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن شاہد ہے کہ صحابہ کرام کی جماعت ان دونوں صفات سے موصوف تھی اور بعض صحابہ کرام خلیفہ بھی بنے مگر پھر بھی نبوت غیر تشریعی کا دعویٰ ان سے ثابت نہیں ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب نمبر 2

قادیانی اس آیت کی جو تفسیر کر رہے ہیں وہ خود ان کے مرزا صاحب کے خلاف ہے۔مرزا صاحب نے اس آیت سے ایسے خلیفیے مراد لئے ہیں جن کے مصداق خلفائے راشدین ہیں۔ چنانچہ مندرجہ بالا آیات کے تحت مرزا قادیانی صاحب لکھتے ہیں۔
(1) نبی تو اس امت میں آنے کو رہے۔ اب آگر خلفائے نبی بھی نہ آویں اور وقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے۔( شہادت القرآن خزائن جلد 6 صفحہ 355 )

11.jpg
(2) خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس نبی کریم کے خلیفے وقتاً فوقتاً بھیجتا رہوں گا اور خلیفہ کے لفظ کو اشارہ کے لیے اختیار کیا گیا ہے کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گئے۔ ( شہادت القرآن خزائن جلد 6 صفحہ 339 )
12.jpg
(3) قرآن کریم نے اس امت میں خلیفیوں کے پیدا ہونے کا وعدہ کیا ہے ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے تب اس خوبصورت چہرے کو دکھلانے کے لئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفیے آتے ہیں مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسے کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔(شہادت القرآن حزائن جلد 6 صفحہ 339 ،340)
13.jpg
ان حوالوں میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ امت محمدیہ کی اصلاح و تربیت کے لیے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا بلکہ انبیاء کے بجائے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفیے آئیں گئے۔
جواب نمبر 3

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ میں صحابہ کرام کی تخصیص ہے موعود لہم صحابہ ہیں ورنہ منکم نہ فرمایا جاتا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
ساتویں آیت میں قادیانی تحریف کا جواب

آیت
مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ حَتّٰی یَمِیۡزَ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطۡلِعَکُمۡ عَلَی الۡغَیۡبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجۡتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَلَکُمۡ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ
(سورۃ آل عمران آیت 179)

اللہ ایسا نہیں کرسکتا کہ مومنوں کو اس حالت پر چھوڑ رکھے جس پر تم لوگ اس وقت ہو ، جب تک وہ ناپاک کو پاک سے الگ نہ کردے ، اور ( دوسری طرف ) وہ ایسا بھی نہیں کرسکتا کہ تم کو ( براہ راست ) غیب کی باتیں بتا دے ۔ ہاں وہ ( جتنا بتانا مناسب سمجھتا ہے اس کے لیے ) اپنے پیغمبروں میں سے جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے ۔ لہذا تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو ، اور اگر ایمان رکھو گے اور تقوی اختیار کرو گے تو زبردست ثواب کے مستحق ہوگے ۔
قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ آل عمران مدنی سورة ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے کے تیرہ سال بعد نازل ہوئی اس وقت پاک اور ناپاک میں فرق ہو چکا تھا۔ اس لیے اب کوئی اور رسول آئے گا اور فرق کرے گا۔( خلاصہ کلام پاکٹ بک صفحہ 250 )
جواب نمبر 1

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح دلیل دعویٰ کے مطابق نہیں ہے۔دعویٰ تو خاص نبوت کے جاری ہونے کا ہے وہ بھی صرف مرزا صاحب تک مگر دلیل میں اس کا ذکر تک موجود نہیں۔ گزارش یہ ہے کہ دلیل اپنے دعویٰ کے مطابق پیش کریں۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ تین قسم کی نبوت میں سے ایک قسم کی نبوت جاری ہے اور دو قسم کی نبوت بند ہے تو دلیل وہ پیش کریں۔یہ دلیل تو آپ کے اپنے دعویٰ کے خلاف ہے۔
دوسرے بات جو ہمارے قادیانی دوستوں نے کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت پاک اور ناپاک میں فرق ہو چکا تھا یہ بات درست نہیں ہے اس آیت میں جو پاک اور ناپاک میں فرق کی بات ہو رہی ہے وہ مومنوں اور منافقوں میں فرق کی بات ہو رہی ہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اس آیت کے نزول کے وقت مومن منافق میں امتیاز ہو چکا تھا یا نہیں۔ جواب اسی آیت میں موجود ہے کہ کلی طور پر ابھی نہیں ہوا تھا بہت سے منافق مسلمانوں میں ملے جلے تھے چناچہ اللہ فرماتا ہے ۔
مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ
اللہ ایسا نہیں کرسکتا کہ مومنوں کو اس حالت پر چھوڑ رکھے جس پر تم لوگ اس وقت ہو
اس کے علاوہ اسی سورۃ آل عمران کی پہلی آیات میں ملتا ہے۔
ہٰۤاَنۡتُمۡ اُولَآءِ تُحِبُّوۡنَہُمۡ وَ لَا یُحِبُّوۡنَکُمۡ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡکِتٰبِ کُلِّہٖ ۚ وَ اِذَا لَقُوۡکُمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚ٭ۖ وَ اِذَا خَلَوۡا عَضُّوۡا عَلَیۡکُمُ الۡاَنَامِلَ مِنَ الۡغَیۡظِ ؕ قُلۡ مُوۡتُوۡا بِغَیۡظِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ(سورۃ آل عمران آیت 119)

دیکھو تم تو ایسے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو ، مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے ، اور تم تو تمام ( آسمانی ) کتابوں پر ایمان رکھتے ہو ، اور ( ان کا حال یہ ہے کہ ) وہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ( قرآن پر ) ایمان لے آئے ، اور جب تنہائی میں جاتے ہیں تو تمہارے خلاف غصے کے مارے اپنی انگلیاں چباتے ہیں ۔ ( ان سے ) کہہ دو کہ : اپنے غصے میں خود مر رہو ، اللہ سینوں میں چھپی ہوئی باتیں خوب جانتا ہے ۔
اس آیت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ منافقین ابھی موجود تھے اور ان میں اور مسلمانوں میں فرق نہیں ہوا تھا۔قادیانی پاکٹ بک کے مصنف صاحب نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ سورہ مدنی سورہ ہے۔اب میں آپ کی خدمت میں سورہ توبہ کی وہ آیت پیش کرتا ہوں جس سے میرا موقف اور واضح ہو جائے گا۔
وَ مِمَّنۡ حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ؕ ۛ وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ ۟ ۛ ؔ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۟ لَا تَعۡلَمُہُمۡ ؕ نَحۡنُ نَعۡلَمُہُمۡ ؕ سَنُعَذِّبُہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ ثُمَّ یُرَدُّوۡنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیۡمٍ (التوبہ آیت 101)

اور تمہارے ارد گرد جو دیہاتی ہیں ، ان میں بھی منافق لوگ موجود ہیں ، اور مدینہ کے باشندوں میں بھی ۔ یہ لوگ منافقت میں ( اتنے ) ماہر ہوگئے ہیں ( کہ ) تم انہیں نہیں جانتے ، انہیں ہم جانتے ہیں ۔ ان کو ہم دو مرتبہ سزا دیں گے ۔ پھر ان کو ایک زبردست عذاب کی طرف دھکیل دیا جائے گا ۔
اسی طرح سورۃ منافقون جو مدنی سورۃ ہے میں منافقوں کے وجود کا ذکر موجود ہے۔الحمدللہ ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت پاک اور ناپاک میں مکمل تفریق نہیں ہوئی تھی جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قادیانی حضرات کا یہ کہنا کہ "جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت پاک اور ناپاک میں مکمل تفریق ہو چکی تھی لہذا یہ آیت کسی آئندہ رسول کے متعلق ہے" سراسر غلط،جہالت بلکہ یہودیانہ تحریف ثابت ہوتی ہے۔
جواب نمبر 2

اب بعض قادیانی حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ غیب کی خبریں انبیاء دیتے ہیں اور مرزا صاحب نے بھی پیشگوئیاں کی ہیں ( یہ الگ بات ہے کہ سب غلط ثابت ہوئی ہیں ) اس لیے مرزا صاحب بھی نبی ہیں۔اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر وہ فرد جو پیشگوئیاں کرے وہ نبی ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے انبیاء میں سے بعض کو غیب کی خبریں عطا کرتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ آپ حضرات کے عقیدے کے مطابق غیب کی خبریں غیر نبی کو بھی مل سکتی ہیں۔ملاحظہ فرمائیے
(1)یہ بھی ان کو معلوم رہے کہ تحقیق وجودہ الہام ربانی کے لئے جو خاص خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے اور امور غیبیہ پر مشتمل ہوتا ہے ایک اور بھی راستہ کھلا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ امت محمدیہ میں کہ جو سچے دین پر ثابت اور قائم ہیں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کرتا ہے جو خدا کی طرف سے ملہم ہو کر ایسے امور غیبیہ بتلاتے ہیں جن کا بتلانا بجز خدائے وحدہ لاشریک کے کسی کے اختیار میں نہیں۔(روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 238)
15.jpg
(2)یہ عجیب حیرت نما امر ہے کہ بعض طوائف یعنی کنجریاں بھی جو سخت نہ پاک فرقہ دنیا میں ہیں سچی خوابیں دیکھا کرتی ہیں (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 168)
16.jpg
اور ویسے بھی مرزا صاحب کی پیش گوئیوں کا وہی حال ہے جو نجومی اور رمالوں کی پیشگوئیوں کا ہوتا ہے جس میں ایک سچ ہے تو دس جھوٹ بھی موجود ہیں۔ ایسی غیب دانی نبوت کی نشانی نہیں ہے۔ وہ اخبار بالغیب نبوت کی خصوصیات میں ہے جس میں ذرہ برابر جھوٹ نہیں ہوتا اور ہر ایک بات من و عن پوری ہوتی ہے اور مرزا صاحب کا رتبہ اس میں رمال اور نجومی سے بھی گھٹا ہوا ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب نمبر 3

قادیانی پاکٹ بُک کے مصنف صاحب نے " یَجۡتَبِیۡ "کا کا ترجمہ کیا ہے بھیجے گا یہ ترجمہ بالکل غلط ہے اور کسی لغت کی کتاب میں ایسا نہیں لکھا۔ اللّٰہَ یَجۡتَبِیۡ کا مطلب ہے اللہ چن لیتا ہے۔یعنی جو پہلے سے رسول ہیں ان میں سے غیب کی خبریں دینے کے لیے کسی کو چنتا ہے۔اور اب ختم نبوت کے بعد دنیا میں کسی قسم کا کوئی رسول پیدا نہیں ہوگا۔ کچھ قادیانی کہتے ہیں کہ" یَجۡتَبِیۡ " فعل مضارع ہے اس لیے قیامت تک اللہ رسول میں کچھ کو چنتا رہے گا اس لیے قیامت تک رسول ہونا ضروری ہیں" ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ یَجۡتَبِیۡ اس آیت میں زمانہ مستقبل کے لئے نہیں ہے۔بلکہ اس میں حکایت ہے حال ماضی کی۔ اس پر دلیل ہمارے پاس وہ آیات ہیں جن میں ان مجتبیٰ رسولوں کا نام لے کر بیان کر دیا گیا ہے۔ فرداً بھی اور یک جائی طور پر بھی۔ فرداً فرداً ملاحظہ ہو
حضرت آدم علیہ السلام کے لیے
ثُمَّ اجۡتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیۡہِ وَ ہَدٰی (طه آیت نمبر 122)

پھر ان کے رب نے انہیں چن لیا ، چنانچہ ان کی توبہ قبول فرمائی ، اور انہیں ہدایت عطا فرمائی ۔
حضرت ابرہیم علیہ السلام کے لیے
شَاکِرًا لِّاَنۡعُمِہٖ ؕ اِجۡتَبٰہُ وَ ہَدٰىہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ (النحل آیت نمبر 121)

وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گذار تھے ۔ اس نے انہیں چن لیا تھا ، اور ان کو سیدھے راستے تک پہنچا دیا تھا ۔
حضرت یونس علیہ السلام کے لیے
فَاجۡتَبٰہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ (القلم آیت 50)

پھر ان کے پروردگار نے انہیں منتخب فرما لیا ، اور انہیں صالحین میں شامل کردیا ۔
یکجائی طور پر دس پیغمبروں یعنی (1)حضرت زکریا علیہ السلام( 2)حضرت یحییٰ علیہ السلام (3)حضرت عیسیٰ علیہ السلام(4)حضرت ابراہیم علیہ السلام(5)حضرت اسحاق علیہ السلام (6)حضرت یعقوب علیہ السلام(7)حضرت موسیٰ علیہ السلام(8)حضرت ہارون علیہ السلام (9)حضرت اسماعیل علیہ السلام اور(10)حضرت ادریس علیہ السلام کے ذکر کے بعد آیا ہے ۔
وَ مِمَّنۡ ہَدَیۡنَا وَ اجۡتَبَیۡنَا ؕ (مریم آیت نمبر 50)

جن کو ہم نے ہدایت دی ، اور ( اپنے دین کے لیے ) منتخب کیا ۔
اور (الانعام میں 18) پغمبروں کا تذکرہ کر کے فرمایا
وَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ وَ اِخۡوَانِہِمۡ ۚ وَ اجۡتَبَیۡنٰہُمۡ وَ ہَدَیۡنٰہُمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ (الانعام آیت نمبر 87)

اور ان کے باپ دادوں ، ان کی اولادوں اور ان کے بھائیوں میں سے بھی بہت سے لوگوں کو ۔ ہم نے ان سب کو منتخب کر کے راہ راست تک پہنچا دیا تھا ۔
اور بھی آیات ہیں اختصار کی وجہ سےصرف یہ درج کی گئ ہیں۔
جواب نمبر 4

یہ کہنا کہ آئندہ رسول آئیں گے یہ مطلب رکھتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خباثت اور طیب میں امتیاز نہیں ہوا۔حالانکہ قرآن مجید فرماتا ہے
(1_ )اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ (الاعراف آیت نمبر 157)

جو اس رسول یعنی نبی امی کے پیچھے چلیں جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دے گا ، برائیوں سے روکے گا ، اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام قرار دے گا ، اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اتار دے گا جو ان پر لدے ہوئے تھے ۔ چنانچہ جو لوگ اس ( نبی ) پر ایمان لائیں گے اس کی تعظیم کریں گے اس کی مدد کریں گے ، اور اس کے ساتھ جو نور اتارا گیا ہے اس کے پیچھے چلیں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے ۔
(2_ )وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا (بنی اسرائیل آیت 81)

اور کہو کہ : حق آن پہنچا ، اور باطل مٹ گیا ، اور یقینا باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے ۔
پس حق اور باطل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے امتیاز قائم ہوچکا ہے اس لیے اب کسی اور رسول کی ضرورت نہیں رہی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
آٹھویں آیت میں قادیانی تحریف کا جواب

آیت
یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ اِنِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ ﴿ؕ سورة المؤمنون:۵۱﴾

اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزوں میں سے ( جو چاہو ) کھاؤ اور نیک عمل کرو ۔ یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ، مجھے اس کا پورا پورا علم ہے ۔
قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ آیت میں مضارع کا صیغہ ہے اور "رسل" جمع کا صیغہ ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے بعد بھی رسول آئیں گئے۔
جواب
المؤمنون کے دوسرے رکوع سے اس آیت کریمہ تک انبیائے سابقین کا ذکر ہے۔ان آیات میں حکایت ماضیہ کے ضمن میں یہ بتانا مقصود ہے کہ پاک اور نفیس اشیاء کا استعمال کرو۔آگے فرمایا وَ اِنَّ ہٰذِہٖۤ اُمَّتُکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ( المومنون آیت نمبر 51) یعنی اصول دین کا طریق کسی شریعت میں مختلف نہیں ہوا۔ انبیاء کرام تو اپنے امتوں کے لیے نمونہ بننے کے لئے رزق حلال و طیب اور اپنا کردار صالح اپنانے کا ارشاد ہو رہا ہے۔اصل حکم امتوں کو دینا مقصود ہے۔ دوسرے رکوع میں تفصیل کے ساتھ سابق انبیاء کا ذکر ہے آخر میں آ کر حضرت عیسی علیہ السلام کا ان الفاظ میں ذکر ملتا ہے۔ وَ جَعَلۡنَا ابۡنَ مَرۡیَمَ وَ اُمَّہٗۤ اٰیَۃً وَّ اٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیۡنٍ (المؤمنون آیت نمبر 50)
اور مریم کے بیٹے ( عیسی علیہ السلام ) کو اور ان کی ماں کو ہم نے ایک نشانی بنایا ، اور ان دونوں کو ایک ایسی بلندی پر پناہ دی جو ایک پرسکون جگہ تھی ، اور جہاں صاف ستھرا پانی بہتا تھا ۔

یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ اِنِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ (المومنون آیت نمبر 51)

اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزوں میں سے ( جو چاہو ) کھاؤ اور نیک عمل کرو ۔ یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ، مجھے اس کا پورا پورا علم ہے ۔
وَ اِنَّ ہٰذِہٖۤ اُمَّتُکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمۡ فَاتَّقُوۡنِ (المومنون آیت نمبر 52)

اور حقیقت یہ ہے کہ یہی تمہارا دین ہے ، ( سب کے لیے ) ایک ہی دین ، اور میں تمہارا پروردگار ہوں ، اس لیے دل میں ( صرف ) میرا رعب رکھو ۔
فَتَقَطَّعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ بَیۡنَہُمۡ زُبُرًا ؕ کُلُّ حِزۡبٍۭ بِمَا لَدَیۡہِمۡ فَرِحُوۡنَ (المومنون آیت 53)

پھر ہوا یہ کہ لوگوں نے اپنے دین میں باہم پھوٹ ڈال کر فرقے بنا لیے ، ہرگروہ نے اپنے خیال میں جو طریقہ اختیار کرلیا ہے ، اسی پر مگن ہے ۔
یہ آیات اپنے مطلب صاف ظاہر کر رہی ہیں کہ یہ امر ہر ایک رسول کو اپنے وقت پر ہوتا رہا ہے۔ خاص کر پچھلی آیت نے بالکل کھول دیا کہ یہ ذکر پہلی امتوں کا ہے جنہوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ باوجود اس صراحت کے میں جھوٹے کو گھر تک پہنچانے کے لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کر دیتا ہوں تا کہ حق اور واضح ہو جائے۔

حدیث

وَحَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، حَدَّثَنِيعَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ : { يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ }،

(مسلم شریف کتاب البیوع،باب النسب و طلب الحلال،رقم 1015)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی پاک ہے اور سوائے پاکیزگی کے کچھ قبول نہیں کرتا بے شک اللہ تعالی نے مومنوں کو ہی حکم دیا ہے جو اس نے انبیاء کرام کو دیا تھا کہ اے رسولوں کھاؤ پاک چیزیں اور عمل صالح کرو اور ایسا ہی مسلمانوں کو فرمایا اللہ نے اے ایمان والوں کھاؤ پاک رزق سے جو میں نے تمہیں عطا کیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیت کریمہ میں حکایت ماضیہ کے ضمن میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاک اور نفیس اشیاء استعمال کرو اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت جاری ہونے کا کوئی ذکر تک موجود نہیں ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
نویں آیت میں قادیانی تحریف کا جواب

آیت
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡذَنَ لَکُمۡ اِلٰی طَعَامٍ غَیۡرَ نٰظِرِیۡنَ اِنٰىہُ ۙ وَ لٰکِنۡ اِذَا دُعِیۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡا فَاِذَا طَعِمۡتُمۡ فَانۡتَشِرُوۡا وَ لَا مُسۡتَاۡنِسِیۡنَ لِحَدِیۡثٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکُمۡ کَانَ یُؤۡذِی النَّبِیَّ فَیَسۡتَحۡیٖ مِنۡکُمۡ ۫ وَ اللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ؕ وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡئَلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَ قُلُوۡبِہِنَّ ؕ وَ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا ؕ اِنَّ ذٰلِکُمۡ کَانَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمًا (الاحزاب آیت 53)

اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں ( بلا اجازت ) داخل نہ ہو ، الا یہ کہ تمہیں کھانے پر آنے کی اجازت دے دی جائے ، وہ بھی اس طرح کہ تم اس کھانے کی تیاری کے انتظار میں نہ بیٹھے رہو ، لیکن جب تمہیں دعوت دی جائے تو جاؤ ، پھر جب کھانا کھا چکو تو اپنی اپنی راہ لو ، اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھو ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بات سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ تم سے ( کہتے ہوئے ) شرماتے ہیں ، اور اللہ حق بات میں کسی سے نہیں شرماتا اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو ۔ یہ طریقہ تمہارے دلوں کو بھی اور ان کے دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے کا ذریعہ ہوگا ۔ اور تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ ، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو ۔ یہ اللہ کے نزدیک بڑی سنگین بات ہے ۔
قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ آیت میں رسول نکرہ ہے اس لئے آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص نہیں بلکہ عام ہے۔اب اگر حضور علیہ السلام کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو گا تو اس آیت کا قرآن میں ہونے کا کیا فائدہ اسے نکال دینا چاہیے۔(خلاصہ قادیانی پاکٹ بُک صفحہ 262)
جواب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت نازل ہوئی ہے۔ صحابہ کرام کی جماعت مخاطب ہے جو حضور علیہ السلام کو رسول اللہ مانتے تھے۔ اللہ تعالی صحابہ کرام کو آداب رسول بتا رہا ہے کہ بغیر اجازت رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے گھر میں داخل نہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے پر بلائیں تو کھانا کھا کر باتوں میں نہ لگ جائیں بلکہ کھانا کھاتے ہی اپنے گھر کی طرف لوٹ جائیں۔ جب بھی ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگیں۔ اور صحابہ اکرام کو ہرگز یہ مناسب نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیں اور یہ بھی مناسب نہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کی ازواج سے نکاح کریں۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسا ہی عمل میں لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے شادی نہیں کی گئی۔ جیسے کہ آیت سے واضح ہے کہ رسول اللہ سے مراد محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پس اس آیت کو کسی آئندہ رسول کے لئے متعلق بھی قرار دینا سراسر تحریف فی القرآن ہے۔اور پاکٹ بُک کے مصنف صاحب نے یہ جو لکھا ہے کہ : رسول اللہ نکرہ ہے۔ مصنف کے جاھل، نادان اور علوم عربیہ سے نابلد ہونے کی دلیل ہے۔خادم گجراتی صاحب کو یہ تک معلوم نہیں کہ لفظ الرسول یا النبی سے ہی خصوصیت نہیں ہوتی بلکہ اسم اضافت سے بھی معروفہ ہو جاتا ہے۔ اب دیکھیں کہ لفظ غلام نقرہ ہے مگر جب غلام زید کہا جائے گا تم معرفہ ہو جائے گا۔اسی طرح آیت میں رسول کا لفظ مضاف ہے اور اللہ کا لفظ مضاف الیہ ہے۔یعنی اللہ کا رسول اور اللہ کا لفظ معرفہ ہے پس یہاں لفظ رسول اللہ نقرہ نہیں معرفہ ہے۔رسول اللہ کا لفظ معرفہ ہے اور یہاں بھی وہی رسول اللہ مراد ہے جس کا اس سورہ میں کئی بار ذکر آ چکا ہے۔جیسے کہ
(1_)لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا (الاحزاب آیت 21)

حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو ، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو ۔
(2_ )وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَ مَا زَادَہُمۡ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسۡلِیۡمًا (الاحزاب آیت 22)

اور جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ، جب انہوں نے ( دشمن کے ) لشکروں کو دیکھا تھا تو انہوں نے یہ کہا تھا کہ : یہ وہی بات ہے جس کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے کیا تھا ، اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا ۔ اور اس واقعے نے ان کے ایمان اور تابع داری کے جذبے میں اور اضافہ کردیا تھا ۔
(3_)وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡکُنَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا (الاحزاب آیت 29)

( مسلمانو ! ) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے۔
اور وہی رسول اللہ مراد ہے جس کے متعلق کتب احادیث میں ہزارہا مرتبہ یہ الفاظ آتے ہیںقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَمجھے خطرہ ہے کہ آج کل کے قادیانی کہیں احادیث نبویہ کے بارے میں یہ نہ کہنا شروع کر دیں کہ کتب حدیث میں جہاںقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَوارد ہوا ہے وہ خاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں بلکہ لفظ "رسول اللہ" نقرہ ہے اور اس میں ہر رسول داخل ہے۔
اب رہا اعتراض کے اگر اب نبی پیدا نہیں ہو گا تو اس آیت کی کیا ضرورت ہے ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ آدم علیہ سلام کے بے ماں باپ یا عیسیٰ علیہ السلام کے بے باپ پیدا ہونے کا ذکر قرآن سے نکال دیں کیونکہ اب کوئی اس طرح پیدا نہیں ہوگا۔
قرآن مجید میں یہ آیت باقی رکھنے کی ضرورت یہ تھی کہ عرب معاشرے میں امراء کی وفات پر ان کی ازواج سے شادی کرنا فضیلت میں شمار ہوتا تھا اور قرآن شریف نے سورہ نور میں بیوہ سے نکاح کرنے کا حکم دیا ہے۔قرآن نے سری حکم دیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سے نکاح نہ کیا جائے وہ آخر امہات المومنین ہیں۔دوسری بات یہ آیت مبارکہ حضور علیہ السلام کی شان اور فضیلت کا اظہار کرتی ہے جو کہے کہ اسے نکال دو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو مٹانے والا ہے۔ویسے بھی مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
تحریف تغیر کرنا بندروں اور سؤروں کا کام ہے۔ ( خزائن جلد 8 صفحہ 291)
17.jpg
تحریف قرآن کا مشورہ دینے والے خادم گجراتی صاحب بتائیں کہ وہ ان میں سے کیا ہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
دسویں آیت میں قادیانی تحریف کا جواب

آیت
وَ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ یُوۡسُفُ مِنۡ قَبۡلُ بِالۡبَیِّنٰتِ فَمَا زِلۡتُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّا جَآءَکُمۡ بِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَا ہَلَکَ قُلۡتُمۡ لَنۡ یَّبۡعَثَ اللّٰہُ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ رَسُوۡلًا ؕ کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ ہُوَ مُسۡرِفٌ مُّرۡتَابُۨ (المؤمن آیت 34)

اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے یوسف ( علیہ السلام ) تمہارے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے تھے ( 8 ) تب بھی تم ان کی لائی ہوئی باتوں کے متعلق شک میں پڑے رہے ۔ پھر جب وہ وفات پا گئے تو تم نے کہا کہ ان کے بعد اللہ اب کوئی پیغمبر نہیں بھیجے گا ( 9 ) ۔ اسی طرح اللہ ان تمام لوگوں کو گمراہی میں ڈالے رکھتا ہے جو حد سے گذرے ہوئے ، شکی ہوتے ہیں ۔
قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں اس ایت سے صاف ظاہر ہے کہ کفار مصر حضرت یوسف پر نبوت ختم سمجھتے تھے۔اس سے ثابت ہوا کہ ختم نبوت کا عقیدہ کفار کا عقیدہ ہے اور جو نبوت کو بند سمجھے وہ کافر ہے۔
جواب
یہ ان لوگوں کا قول ذکر کیا گیا ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کی نبوت پر ایمان نہ لائے تھے جیسا کہ فَمَا زِلۡتُمۡ فِیۡ شَکٍّ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ انہوں نے ازروئے کفر کہا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں تو چھٹکارہ ہوا ( معاذاللہ) اب خدا کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔
یہ خدائی فیصلے کا ذکر نہیں ہے اور ان کا یہ قول اس لئے بھی غلط تھا کہ اس وقت خدا کے علم میں سلسلہ نبوت میں سیکڑوں نبی باقی تھے تو ان کفار کا اس وقت کا قول غلط ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس وقت جب اللہ نے اپنے فیصلے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت خاتم النبیین فرما دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرما دیا کہ نبوت و رسالت میرے بعد منقطع ہو چکی ہے ( معاذاللہ) یہ سب غلط ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فرعون اور آل فرعون سلسلہ رسالت کے منکر تھے۔ بلکہ فرعون کی قوم تو اسے خدا سمجھتی تھی اور اللہ کی منکر تھی۔ پس جو رب العالمین کا انکار کرے وہ رسولوں اور نبیوں کا قائل کیسے ہو سکتا ہے۔
نیز حضرت یوسف علیہ السلام کو خدا تعالی نے کبھی یہ وحی نہیں کی تھی کہ تو خاتم النبین ہے اور نہ حضرت یوسف علیہ السلام نے لا نبی بعدی کا کبھی دعویٰ کیا لیکن اس کے برعکس قرآن میں خدا کا قطعی فیصلہ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صاف الفاظ احادیث میں موجود ہیں کہ آپ صلی اللہ وسلم کے بعد ہر قسم کی نبوت ختم ہو چکی ہے۔ہماری اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا قائل ہوں اور یقین کامل سے جانتا اور اس بات پر محکم ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین اور آن جناب کے بعد اس امت کے لیے کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ( ذیشان آسمانی : خزائن جلد 4 صفحہ 414)
18.jpg
رہی یہ بات کہ کفار کا عقیدہ ہے کہ نبوت بند ہے تو اس وجہ سے جو یہ عقیدہ رکھے وہ کافر ہے تو جواب یہ ہے کہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ نبوت جاری ہے یعنی جو یہ عقیدہ رکھے کہ نبوت جاری ہے وہ عیسائی ہے۔

ماھو جوابکم فھو جوابنا
 
Top