عجائبات مرزا
قادیانی فرشتے
(i)۔ ٹیچی ٹیچی
’’ایک دفعہ مارچ 1905ء کے مہینے میں بوقت قلت آمدنی لنگرخانہ کے مصارف میں بہت دقت ہوئی کیوں کہ کثرت سے مہمانوں کی آمد تھی اور اس کے مقابل پر روپیہ کی آمدنی کم ،اس لیے دعا کی گئی۔ 5مارچ 1905ء کو میں نے دیکھ کہ ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا میرے سامنے آیا اور بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا۔ میں نے اس کا نام پوچھا ،اس نے کہا: نام کچھ نہیں ،میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہو گا۔ اس نے کہا : میرا نام ہے : ٹیچی ٹیچی۔ ٹیچی ٹیچی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا۔ تب میری آنکھ کھل گئی۔ بعد اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے کیا ڈاک کے ذریعے سے اور کیا براہ راست لوگوں کے ہاتھوں سے اس قدر مالی فتوحات ہوئیں جن کا وہم و گمان بھی نہ تھا اور کئی ہزار روپیہ آگیا۔‘‘
(حقیقت الوحی صفحہ 346،مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 346)
(ii)۔ خیراتی اور شیر علی
’’من جملہ نشانات کے ،ایک نشان یہ ہے کہ تخمیناً پچیس برس کے قریب عرصہ گزر گیا ہے کہ میں گورداسپور میں تھا کہ مجھے خواب آئی کہ میں ایک جگہ چارپائی پر بیٹھا ہوں اور اسی چارپائی پر بائیں طرف میرے مولوی عبداﷲ صاحب مرحوم غزنوی بیٹھے ہیں ،جن کی اولاد اب امرتسر میں رہتی ہے۔ اتنے میں میرے دل میں محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تحریک پیدا ہوئی کہ مولوی صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتاروں۔ چنانچہ میں نے اپنی جگہ کو چھوڑ کر مولوی صاحب کی جگہ کی طرف رجوع کیا، یعنی جس حصہ چارپائی پر وہ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اس حصے میں میں نے بیٹھنا چاہا تب انہوں نے وہ جگہ چھوڑ دی اور وہاں سے کھسک کر پائنتی کی طرف چند انگلی کے فاصلے پر بیٹھے تب پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی ان کو اٹھا دوں ۔ پھر میں ان کیطرف جھکا تو وہ اس جگہ کو بھی چھوڑ کر چند انگلی کی مقدار پر پیچھے ہٹ گئے۔ پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی ان کو اور زیادہ پائنتی کی طرف کیا جائے ۔ تب پھر وہ چند انگلی پائنتی کی طرف کھسک کر ہو بیٹھے۔ القصہ میں ایسا ہی ان کی طرف کھسکتا گیا اور وہ پائنتی کی طرف کھسکتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کو آخر کا ر چار پائی پر سے اترنا پڑا اور وہ زمین پر جو محض خاک تھی اور اس پر چٹائی وغیرہ کچھ بھی نہ تھی اتر کر بیٹھ گئے۔
اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے ۔ ایک کا نام خیراتی تھا ، وہ بھی ان پر زمین پر بیٹھ گئے اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا۔۔۔۔۔۔ اور انہی دنوں میں شاید اس رات سے اول یا اس رات کے بعد میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے ،مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیر علی ہے، اس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکال لی ہیں اور صاف کی ہیں۔
(تریاق القلوب صفحہ 224-225 ،مندرجہ روحانی خزائن جلد15صفحہ 352-351)
(iii)۔ آئل
جَآئَ نِیْ آئِلٌ وَاخْتَارَ وَاَدَارَ اِصْبَعَہُ وَاَشَارَ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا وََیَسْطُوْا بِکُلِّ مَنْ سَطَا۔
آئل جبرائیل ہے فرشتہ بشارت دینے والا۔
ترجمہ: آیا میرے پاس آئل اور اس نے اختیار کیا(یعنی چن لیا تجھ کو) اور گھمایا اس نے اپنی انگلی کو اور اشارہ کیا کہ خدا تجھے دشمنوں سے بچاوے گا اور ٹوٹ کر پڑے گا اس شخص پر جو تجھ پر اچھلا۔ فرمایا آئل اصل میں ایالت سے ہے۔ یعنی اصلاح کرنے والا جو مظلوم کو ظالم سے بچاتا ہے ۔ یہاں جبرائیل نہیں کہا آئل کہا اس لفظ کی حکمت یہی ہے کہ وہ دلالت کرے کہ مظلوم کو ظالموں سے بچاوے اس لیے فرشتہ کا نام ہی آئل رکھ دیا۔ پھر اس نے انگلی ہلائی کہ چاروں طرف کے دشمن اور اشارہ کیا کہ یعصمک اﷲ من العداء وغیرہ۔
یہ بھی اس سے پہلے الہام سے ملتا ہے :
اِنَّہُ کَرِیْمٌ تَمَشّٰی اَمَامَک َوَعَادٰی
وہ کریم ہے تیرے آگے آگے چلتا ہے جس نے تیری عداوت کی اس نے اس کی عداوت کی ۔ چونکہ آئل کا لفظ لغت میں نہ مل سکتا ہو گا یا زبان میں کم مستعمل ہوتا ہو گا اس لیے الہام نے خود ہی اس کی تفصیل کر دی ہے۔‘‘
(بحوالہ تذکرہ صفحہ369طبع چہارم )
(iv)۔ درشنی
’’ایک فرشتہ کو میں نے 20برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا ، صورت اس کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ بہت ہی خوب صورت ہیں۔ اس نے کہا: ہاں میں درشنی آدمی ہوں۔‘‘
(ملفوظات مرزا قادیانی جلد چہارم صفحہ 69)
(v)حفیظ
صوفی نبی بخش صاحب لاہوری نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا:
’’ بڑے مرزا صاحب پر ایک مقدمہ تھا۔ میں نے دعا کی تو ایک فرشتہ مجھے خواب میں ملا جو چھوٹے لڑکے کی شکل میں تھا۔ میں نے پوچھا تمھارا کیا نام ہے۔ وہ کہنے لگا ، میرا نام حفیظ ہے۔ پھر وہ مقدمہ رفع دفع ہو گیا۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 643طبع چہارم)
(vi)۔ مٹھن لال
’’فرمایا : نصف رات سے فجر تک مولوی عبدالکریم کے لیے دعا کی گئی ۔ صبح (کی نماز) کے بعد جب سویا تو یہ خواب آئی۔۔۔۔۔۔میں نے دیکھا کہ عبداﷲ سنوری میرے پاس آیا ہے اور وہ ایک کاغذ پیش کر کے کہتا ہے کہ اس کاغذ پر میں نے حاکم سے دستخط کرانا ہے اور جلدی جانا ہے ۔ میری عورت سخت بیمار ہے اور کوئی مجھے پوچھتا نہیں۔ دستخط نہیں ہوتے۔ اس وقت میں نے عبداﷲ کے چہرے کی طرف دیکھا تو زرد رنگ اور سخت گھبراہٹ اس کے چہرہ پر ٹپک رہی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ لوگ روکھے ہوتے ہیں ،نہ کسی کی سفارش مانیں اور نہ کسی کی شفاعت میں تیرا کاغذ لے جاتا ہوں۔ آگے جب کاغذ لے کر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص مٹھن لال نام جو کسی زمانہ میں بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھا، کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ کام کر رہا ہے اور گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں ۔ میں نے جا کر کاغذ اس کو دیا ور کہا کہ یہ ایک میرا دوست ہے اور پرانا دوست ہے اور واقف ہے۔ اس پر دستخط کر دو۔ اس نے بلا تامل اسی وقت لے کر دستخط کر دیے۔ پھر میں نے واپس آ کر وہ کاغذ ایک شخص کو دیا اور کہا خبردار ہوش سے پکڑو ابھی دستخط کیے گئے ہیں اور پوچھا کہ عبداﷲ کہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہیں باہر گیا ہے۔ بعد اس کے آنکھ کھل گئی اور ساتھ پھر غنودگی کی حالت ہو گئی۔ تب میں نے دیکھا کہ اس وقت میں کہتا ہوں، مقبول کو بلاؤ اس کے کاغذ پر دستخط ہو گئے ہیں۔‘‘
یہ جو مٹھن لال دیکھا گیا ہے ملائک طرح طرح کے تمثیلات اختیار کر لیا کرتے ہیں۔ مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ تھا۔‘‘
(تذکرہ طبع چہارم صفحہ 474-473 از مرزا قادیانی)
جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے
(الف)۔نبی آخر الزمان جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی اولاد مبارکہ میں تمام مؤرخین اور محدثین متفق ہیں کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے تین بیٹے قاسم، عبداﷲ ،ابراہیم اور چار بیٹیاں : فاطمہ، زینب ، رقیہ ، ام کلثوم، رضوان اﷲ علیہم اجمعین ہیں۔ فقط شیعہ حضرات اس بات سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کی فقط ایک ہی بیٹی ہے جو فاطمہ رضی اﷲ عنہا ہے اور باقی بیٹیوں کو سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے پہلے خاوند سے شمار کرتے ہیں لیکن ان کی یہ بات اس لیے غلط قرار پاتی ہے کہ قرآن مقدس میں نبی کریم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے لفظ بنات آیا ہے جو کہ بنت کی جمع ہے یعنی ایک سے زیادہ بیٹیاں ‘جہاں تک پہلے خاوند کی بیٹیوں کا تعلق ہے تو اس کے لیے ربائب کا لفظ آیا ہے۔ اس کے لیے ملاحظہ کریں سورۃ النساء آیت نمبر23۔
اب آتے ہیں مرزا قادیانی کی طرف کہ وہ اولاد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتا ہے ملاحظہ ہو۔
-1 ’’تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہو گئے تھے۔‘‘
(چشمہ معرفت صفحہ 286 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 299 از مرزا قادیانی)
-2 ’’دیکھو ہمارے پیغمبر کے ہاں 12لڑکیاں ہوئیں۔ آپ نے کبھی نہیں کہا کہ لڑکا کیوں نہ ہوا۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 372 طبع جدید از مرزا قادیانی)
(ب)
محترم قارئین! ساری دنیا جانتی ہے کہ اسلامی سال کا آغاز ماہ محرم سے ہوتا ہے اور صفر ہجری سال کا دوسرا مہینہ ہے لیکن مرزا قادیانی اس کے برعکس لکھتا ہے کہ:
’’اور جیسا کہ وہ چوتھا لڑکا تھا اسی مناسبت کے لحاظ سے اس نے اسلامی مہینوں میں سے چوتھا مہینہ لیا یعنی ماہ صفر اور ہفتہ کے دنوں میں سے چوتھا دن لیا یعنی چار شنبہ اور دن کے گھنٹوں میں سے دوپہر کے بعد چوتھا گھنٹہ لیا۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 41 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 218از مرزا قادیانی)
محترم قارئین! اسلامی ہفتے کا آغاز جمعہ سے ہوتا ہے اسی مناسبت سے چہار شنبہ ہفتہ کا پانچواں دن بنتا ہے، جس کی وضاحت اس چاٹ سے ہوتی ہے۔
-1شنبہ،-2 یک شنبہ-3 دوشنبہ-4سہ شنبہ-5 چہارشنبہ-6 پنج شنبہ-7جمعہ
جبکہ مرزا قادیانی چار شنبہ کو چوتھا دن شمار کر رہا ہے کیوں نہ کرے ۔اس کے آقائوں(عیسائیوں)کے کیلنڈر میں ہفتے کے دنوں کا آغاز شنبہ(ہفتہ)کی بجائے یک شنبہ (اتوار) سے ہوتا ہے۔ اور عیسائی کیلنڈر کے مطابق ہی چار شنبہ ہفتے کا چوتھا دن بنتا ہے۔
محترم قارئین !اب مرزا قادیانی کی زندگی کے کچھ ایسے واقعات کا ذکر کرتا ہوں جنہیں قادیانی ذریت اپنے خود ساختہ جعلی نبی کی سادگی سے تعبیر کرتے ہیں لیکن کوئی بھی با شعور شخص ان واقعات سے مرزا قادیانی کی ذہنی اپروچ اور دماغی خلل کا اندازہ لگا سکتا ہے ۔ چنانچہ مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد رقم طراز ہے کہ
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اس کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بارہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگا ہوتا تھا۔ اور بعض اوقات کوئی دوست حضور کے لیے گرگابی ہدیۃً لاتا تو آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں دائیں میں۔ چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے۔ اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھا رہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آ جاتا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ344روایت نمبر378طبع چہارم )
’’ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لیے گرگابی لے آیا۔ آپ نے پہن لی مگر اس کے الٹے سیدھے پاؤں کا آپ کو پتہ نہیں لگتا تھا۔ کئی دفعہ الٹی پہن لیتے تھے اور پھر تکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آپ کا الٹا پاؤں پڑ جاتا تو تنگ ہو کر فرماتے ان کی کوئی چیز بھی اچھی نہیں ہے والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے واسطے الٹے سیدھے پاؤں کی شناخت کے لئے نشان لگا دیے تھے مگر باوجود اس کے آپ الٹا سیدھا پہن لیتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ60روایت نمبر83طبع چہارم)
محترم قارئین !مرزا بشیر احمد نے مرزا قادیانی کے حالات زندگی پر مشتمل اپنے حقیقی ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل کا ایک مضمون اپنی کتاب سیرت المہدی میں روایت نمبر447کے تحت درج کیا ہے۔ اس مضمون کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے مرزا بشیر احمد رقم طراز ہے کہ
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جو ہمارے حقیقی ماموں ہیں ان کا ایک مضمون الحق دہلی مورخہ۲۶/۱۹جون۱۹۱۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شمائل کے متعلق شائع ہوا تھا یہ مضمون حضرت صاحب کے شمائل میں ایک بہت عمدہ مضمون ہے اور میر صاحب موصوف کے بیس سالہ ذاتی مشاہدہ اور تجربہ پر مبنی ہے ۔ لہٰذا درج ذیل کیا جاتا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ409روایت نمبر 447طبع چہارم)
محترم قارئین !آپ بھی اس مضمون کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں قادیانی ذریت کی عقلمندی کی داد دیں کہ انہوں کیسی شاندار شخصیت نبوت کے لیے پسند کی ہے ۔لہٰذا اب اس مضمون کے اقتباسات درج کیے جاتے ہیں۔
’’بارہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہوئے ہوتے تھے بلکہ صدری کے بٹن کاجوں میں لگائے ہوئے دیکھے گئے ۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ417روایت نمبر447طبع چہارم)
’’بعض اوقات زیادہ سردی میں دو جرابیں اوپر تلے چڑھا لیتے ۔مگر بارہا جراب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر پر ٹھیک نہ چڑھتی کبھی تو سرا آگے لٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیرکی پشت پر آ جاتی ۔کبھی ایک جراب سیدھی دوسری اُلٹی۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ418روایت نمبر 447طبع چہارم)
’’کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کوٹ‘ صدری‘ ٹوپی‘ عمامہ رات کو اتار کر تکیہ کے نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانک دیتے ہیں۔ وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے ملے جاتے اور صبح کو ان کی ایسی حالت ہو جاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلدادہ اور سلوٹ کا دشمن ان کو دیکھ لے تو سر پیٹ لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کے پاس کچھ کنجیاں بھی رہتی تھیں یہ بات و رومال میں یا اکثر ازاربند میں باندھ کر رکھتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ419روایت نمبر 447طبع چہارم)
محترم قارئین !مرزا بشیر احمد ایک اور مقام پر رقم طراز ہے کہ
’’ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاجاموں میں میں نے اکثر ریشمی ازار بند پڑا ہوا دیکھا ہے اور ازاربند میں کنجیوں کا گچھا بندھا ہوتا تھا۔ ریشمی ازاربند کے متعلق بعض اوقات فرماتے تھے کہ ہمیں پیشاب کثرت سے اور جلدی جلدی آتا ہے تو ایسے ازاربند کے کھولنے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ614روایت نمبر652طبع چہارم)
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ آپ معمولی نقدی وغیرہ اپنے رومال میں جو بڑے سائز کا ململ کا بنا ہوا ہوتا تھا باندھ لیا کرتے تھے اور رومال کا دوسرا کنارہ واسکٹ کے ساتھ سلوا لیتے تھے یا کاج میں بندھوا لیتے تھے ۔اور چابیاں ازاربند سے باندھتے تھے جو بوجھ سے بعض اوقات لٹک آتا تھا ۔اور والدہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود عموماً ریشمی ازاربند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا اس لیے ریشمی ازاربند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہو اور گرہ بھی پڑ جاوے تو کھولنے میں دقت نہ ہو۔ سوتی ازاربند میں آپ سے بعض دفعہ گرہ پڑ جاتی تھی تو آپ کوبڑی تکلیف ہوتی تھی۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ49روایت نمبر65طبع چہارم)
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعود۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔کھانا کھاتے ہوئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے جاتے تھے کچھ کھاتے تھے کچھ چھوڑ دیتے تھے ۔کھانے کے بعد آپ کے سامنے سے بہت سے ریزے اُٹھتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ45روایت نمبر56طبع چہارم)
محترم قارئین !یہ تو تھے مرزا قادیانی کے کھانے اور لباس پہننے کے انداز و اطوار اب اس کی زندگی کے مزید نادر نمونے بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ معراج دین عمر قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’آپ کے ایک بچے نے آپ کی واسکٹ کی جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈال دی۔ آپ جب لیٹتے تو وہ اینٹ چبھتی کئی دن ایسا ہوتا رہا۔ ایک دن کہنے لگے کہ میری پسلی میں درد ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز چبھتی ہے۔ وہ حیران ہوا اور آپ کے جسد مبارک پر ہاتھ پھیرنے لگا اس کا ہاتھ اینٹ پر جا لگا۔ جھٹ جیب سے نکال لی ۔دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ چند روز ہوئے محمود نے میری جیب میں ڈالی تھی اور کہا تھا کہ اسے نکالنا نہیں میں اس سے کھیلوں گا۔‘‘
(مسیح موعود کے مختصر حالات ملحقہ براہین احمدیہ صفحہ53طبع چہارم مرتبہ معراج دین عمر قادیانی)
’’آپ کو شیرینی سے بہت پیار تھا اور مرض بول بھی عرصہ سے آپ کو لگی ہوئی تھی ۔ اس زمانہ میں آپ مٹی کے ڈھیلے بعض وقت جیب میں ہی رکھتے تھے۔ اور اسی جیب میں گڑکے ڈھیلے بھی رکھ لیا کرتے تھے۔‘‘
(مسیح موعود کے مختصر حالات ملحقہ براہین احمدیہ صفحہ 67 طبع چہارم مرتبہ معراج دین عمر قادیانی)
مرزا قادیانی کا کلمہ
مرزا بشیر احمد رقم طراز ہے کہ
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کا ایک کلمہ ہوتا ہے۔ مرزا کا کلمہ یہ ہے ’’میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ824روایت نمبر974طبع چہارم)
تیمم
مرزا بشیر احمد اپنی کتاب سیرت المہدی میں لکھتا ہے کہ
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اگر تیمم کرنا ہوتا تو بسا اوقات تکیہ یا لحاف پرہی ہاتھ مار کر تیمم کر لیا کرتے تھے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ تکیہ یا لحاف میں سے جو گرد نکلتی ہے وہ تیمم کی غرض سے کافی ہوتی ہے ۔لیکن اگر کوئی تکیہ یا لحاف بالکل نیا ہو اور اس میں کوئی گردنہ ہو تو پھر اس سے تیمم جائز ہو گا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ774‘775روایت نمبر878طبع چہارم)
نماز میں فارسی نظم
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گرمیوں میں مسجد مبارک میں مغرب کی نماز پیر سراج الحق صاحب نے پڑھائی۔ حضور علیہ السلام بھی اس نماز میں شامل تھے۔ تیسری رکعت میں رکوع کے بعد انہوں نے بجائے مشہور دعاؤں کے حضور کی ایک فارسی نظم پڑھی۔ جس کا یہ مصرع ہے
’’اے خدا! اے چارئہ آزارِما‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فارسی نظم نہایت اعلیٰ درجہ کی مناجات ہے جو روحانیت سے پر ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ644روایت نمبر707طبع چہارم)
قادیانی خشوع و خضوع
محترم قارئین! قادیانی سلطان القلم سورہ المؤمنون کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کس طرح بازاری زبان استعمال کرتا ہے۔ ملاحظہ کریں
’’یاد رکھنا چاہیے کہ نماز اور یاد الٰہی میں جو کبھی انسان کو حالت خشوع میسر آتی ہے اور وجد اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے یا لذت محسوس ہوتی ہے یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس انسان کو رحیم خدا سے حقیقی تعلق ہے جیسا کہ اگر نطفہ اندام نہانی کے اندر داخل ہو جائے اور لذت بھی محسوس ہو تو اس سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اس نطفہ کو رحم سے تعلق ہو گیا ہے، بلکہ تعلق کے لیے علیحدہ آثار اور علامات ہیں۔ پس یاد الٰہی میں ذوق و شوق جس کو دوسرے لفظوں میں حالت خشوع کہتے ہیں نطفہ کی اسی حالت سے مشابہ ہے جب وہ ایک صورت انزال پکڑ کر اندام نہانی کے اندر گر جاتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 192 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 192)
’’جیسا کہ نطفہ کبھی حرام کاری کے طور پر کسی رنڈی کے اندام نہانی میں پڑتا ہے تو اس سے بھی وہی لذت ، نطفہ ڈالنے والے کو حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اپنی بیوی کے ساتھ ۔ایسا ہی بت پرستوں اور مخلوق پرستوں کا خشوع و خضوع اور حالت ذوق و شوق ، رنڈی بازوں سے مشابہ ہے۔ یعنی خشوع اور خضوع مشرکوں اور ان لوگوں کو جو محض اغراض دنیویہ کی بنا پر خدا تعالیٰ کو یا د کرتے ہیں اس نطفہ سے مشابہت رکھتا ہے جو حرامکار عورتوں کے اندام نہانی میں جا کر باعث لذت ہوتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ نطفہ میں تعلق پکڑنے کی استعداد ہے مگر صرف حالت خشوع اور رقت اور سوز اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ وہ تعلق بھی ہو گیا ہے جیسا کہ نطفہ کی صورت میں جو اس روحانی صورت کے مقابل پر ہی مشاہدہ ظاہر کر رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت کرے اور منی عورت کے اندام نہانی میں داخل ہو جائے اور اس کو اس فعل سے کمال لذت حاصل ہو تو یہ لذت اس بات پر دلالت نہیں کرے گی کہ حمل ضرور ہو گیا ہے۔ پس ایسا خشوع اور سوز و گداز کی حالت گو وہ کیسی ہی لذت اور سرور کے ساتھ ہو خدا سے تعلق پکڑنے کے لیے لازمی علامت نہیں ہے۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 193 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 193)
’’ اور پھر ایک مشابہت خشوع اور نطفہ میں ہے اور وہ یہ کہ جب ایک شخص کا نطفہ اس کی بیوی یا کسی اور عورت کے اندر داخل ہوتا ہے تو اس نطفہ کا اندام نہانی کے اندر داخل ہونا اور انزال کی صورت پکڑ کر رواں ہو جانا بعینہٖ رونے کی صورت پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ خشوع کی حالت کا نتیجہ بھی رونا ہی ہوتا ہے اور جیسے بے اختیار نطفہ اچھل کر صورت انزال اختیار کرتا ہے۔ یہی صورت کمال خشوع کے وقت رونے سے ہوتی ہے کہ رونا آنکھوں سے اچھلتا ہے اور جیسی انزال کی لذت کبھی حلال طور پر ہوتی ہے جب کہ اپنی بیوی سے انسان صحبت کرتا ہے ۔ یہی صورت خشوع اور سوز و گداز اور گریہ زاری کی ہے یعنی کبھی خشوع اور سوز و گداز محض خدائے واحد ولا شریک کے لیے ہوتا ہے، جس کے ساتھ کسی بدعت اور شرک کا رنگ نہیں ہوتا۔ یہی وہ لذت سوز و گداز کی ایک لذت حلال ہوتی ہے مگر کبھی خشوع اور سوز و گداز اور اس کی لذت بدعات کی آمیزش سے یا مخلوق کی پرستش اور بتوں اور دیویوں کی پوجا میں بھی حاصل ہوتی ہے۔ مگر وہ حرام کاری میں جماع سے مشابہ ہوتی ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ ،حصہ پنجم صفحہ 196 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 196)
لیلۃ القدر
محترم قارئین ! اﷲ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِO وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِO لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ
ترجمہ: ہم نے اس (قرآن مجید)کو شب قدر میں نازل کیا اور تمھیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
(سورۃ القدر آیت3-1)
محترم قارئین! شب قدر کے حوالہ سے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اسے ماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ اور ان راتوں میں نبی کریم علیہ السلام نے یہ دعا بہ کثرت پڑھنے کی ترغیب دی ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّتُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ×
یعنی اے اﷲ ! بے شک تو معافی کو پسند کرتا ہے، پس تو مجھے معاف کر دے۔
مرزا قادیانی اس اسلامی عقیدے کی نفی کرتے ہوئے لیلۃ القدر کا ایک نیا مفہوم ایجاد کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’لیلۃ القدر اس ظلمانی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ ایک نور نازل ہو جو اس ظلمت کو دور کر ے ۔ اس زمانہ کا نام بطور استعارہ کے لیلۃ القدر رکھا گیا ہے۔ مگر درحقیقت یہ ایک رات نہیں ہے ،یہ ایک زمانہ ہے جو بوجہ ظلمت رات کا ہم رنگ ہے ۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ 32مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 32)
قادیانی عقیدہ تثلیث
مرزا قادیانی اپنے عقیدہ تثلیث کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ:
’’اگر یہ استفسار ہو کہ جس خاصیت اور قوت روحانی میں یہ عاجز اور مسیح ابن مریم مشابہت رکھتے ہیں وہ کیا شے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک مجموعی خاصیت ہے جو ہم دونوں کے روحانی قویٰ میں ایک خاص طور پر رکھی گئی ہے جس کے سلسلہ کی ایک طرف نیچے کو اور ایک طرف اوپر کو جاتی ہے ۔ نیچے کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی دلسوزی اور غم خوار خلق اﷲ ہے جو داعی الی اﷲ کے نفس پاک میں موجود ہے۔ ان تمام سر سبز شاخوں میں پھیلاتی ہے۔ اوپر کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی محبت قوی ایمان سے ملی ہوئی ہے جو اول بندہ کے دل میں با ارادہ الٰہی پیدا ہو کر رب قدیر کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور پھر ان دونوں محبتوں کے ملنے سے جو درحقیقت ندا اور مادہ کا حکم رکھتی ہیں، اور ایک شدید مواصلت خالق اور مخلوق میں پیدا ہو کر الٰہی محبت کے چمکنے والی آگ سے جو مخلوق کی ہیزم مثال محبت کو پکڑ لیتی ہے ،ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جس کا نام روح القدس ہے ۔ سو اس درجہ کے انسان کی روحانی پیدائش اس وقت سمجھی جاتی ہے جب کہ خدا تعالیٰ اپنے ارادہ خاص سے اس میں اس طور کی محبت پیدا کر دیتا ہے اور اس مقام اور اس مرتبہ کی محبت میں بطور استعارہ یہ کہنا بجا نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے بھری ہوئی روح اس انسانی روح کو جو بار گاہ الٰہی اب محبت سے بھر گئی ہے ، ایک نیا تولد بخشتی ہے۔ اسی وجہ سے اس محبت کی بھری ہوئی روح کو خدا تعالیٰ کی روح سے جو نافخ المحبت سے استعارہ کے طور پر ابنیت کا علاقہ ہوتا ہے اور چوں کہ روح القدس ان دونوں کے ملنے سے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان دونوں کے لیے بطور ابن ہے اور یہی پاک تثلیث ہے جو اس درجہ محبت کے لیے ضروری ہے جس کو ناپاک طبیعتوں نے مشرکانہ طور پر سمجھ لیا ہے۔‘‘
(توضیح مرام صفحہ 14-13 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 61‘62از مرزا قادیانی)
قادیانی الہامی حمل
محترم قارئین ! اگر مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کی تحریروں کو ملاحظہ کریں تو انسان اس شش و پنج میں پڑ جاتا ہے کہ مرزا قادیانی مرد تھا یا عورت یا پھر اس کا تعلق مخنثوں سے تھا۔ آئیے ذرا اس حوالے سے مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کی عجیب و غریب تحریروں کو ملاحظہ فرمائیں۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’درحقیقت میرے اور میرے خدا کے درمیان ایسے باریک راز ہیں جن کو دنیا نہیں جانتی اور مجھے خدا سے ایک نہانی تعلق ہے جو ناقابل بیان ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 63 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 81)
مرزا قادیانی کا مرید خاص قاضی یار محمد قادیانی اپنی کتاب ’’اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر34 پر اس تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ
’’حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔ سمجھنے والے کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔‘‘
(اسلامی قربانی صفحہ 12از قاضی یار محمد قادیانی)
محترم قارئین ! مرزا قادیانی ایک اور مقام پر رقم طراز ہے کہ:
’’اس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا ہے، پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریمیت میں ،میں نے پرورش پائی اور پردہ میں نشوونما پاتا رہا۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براہین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 496 میں درج ہے مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم ص 556میں درج ہے:’’مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا ، پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 50)
محترم قارئین ! جب مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو الہامی طور پر عورت کے روپ میں پیش کیا تو بعض لوگوں نے مرزا قادیانی پر یہ اعتراض کیا کہ کیا تمھیں حیض بھی آتا ہے تو ایسے ہی ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ :
’’اسی طرح میری کتاب اربعین نمبر4صفحہ 19میں بابو الٰہی بخش صاحب کی نسبت یہ الہام ہے ،یعنی بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اور ناپاکی پر اطلاع پائے مگر خدا تعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہو گیا ہے۔ ایسا بچہ جو بمنزلہ اطفال اﷲ ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی صفحہ 143، مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 581)
محترم قارئین! مزید قابلِ غور بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے اپنے حمل کی مدت دس ماہ بیان کی ہے جبکہ طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عورت کی مدت حمل زیادہ سے زیادہ نو ماہ ہوتی ہے جبکہ بھینس کی مدت حمل دس ماہ ہوتی ہے اب قادیانیوں کو اپنے خود ساختہ نبی کی جنس کے بارے میں بھی غور کرنا ہو گا کہ وہ مرد تھا یا کہ عورت ‘انسان تھا یا کہ حیوان؟
مزید ملاحظہ فرمائیے کہ مرزا قادیانی الہامی حمل کے ساتھ ساتھ کس طرح دردزِہ کا تذکرہ کرتا ہے چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’خدا نے مجھے پہلے مریم کا خطاب دیا اور پھر نفخ روح کا الہام کیا۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا تھا۔ فاجاء ھاالمخاض الٰی جزع النخلۃ قالت یالیتنی مت قبل ھذاوکنت نسیامنسیّا۔ یعنی پھر مریم کو جو مراد اس عاجز سے ہے دردزِہ تنہ کھجور کی طرف لے آئی۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ48مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ51)
مرشد اور مرید کا تعلق
مرشد اور مرید کے درمیان تعلق کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’ایسا ہی قرآن کریم اور حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مرشد کے ساتھ مرید کا تعلق ایسا ہونا چاہیے‘ جیسا عورت کا تعلق مرد سے ہو۔‘‘
کیا کوئی قادیانی بتا سکتا ہے کہ قرآن مقدس میں کون سی آیت مبارکہ میں اس تعلق کی تفصیل موجود ہے۔ نیز مرشد اور مرید میں سے مرد کا کردار کون ادا کرے گا اور عورت کا کون؟
دن میں سو مرتبہ پیشاب
قارئین محترم! مرزا قادیانی ساری زندگی مختلف بیماریوں میں مبتلا رہا۔ انہی بیماریوں میں سے ایک بیماری دن میں سو مرتبہ پیشاب کرنا بھی تھی جس کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزا قادیانی خود رقم طراز ہے کہ
’’مجھے کئی سال سے ذیابیطس کی بیماری ہے۔ پندرہ بیس مرتبہ روز پیشاب آتا ہے ۔اور بعض وقت سوسو دفعہ ایک ایک دن میں پیشاب آیا ہے۔ اور بوجہ اس کے کہ پیشاب میں شکر ہے‘ کبھی کبھی خارش کا عارضہ بھی ہو جاتا ہے اور کثرت پیشاب سے بہت ضعف تک نوبت پہنچتی ہے۔ ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صلاح دی کہ ذیابیطس کے لیے افیون مفید ہوتی ہے ۔پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کر دی جائے ۔میں نے جواب دیا کہ یہ آپ نے بڑی مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی لیکن اگر میں ذیابیطس کے لیے افیون کھانے کی عادت کر لوں تو میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کر کے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح تو شرابی تھا اور دوسرا افیونی۔‘‘
(نسیم دعوت صفحہ74‘75مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ434‘435)