محترم قارئین ! حقیقت تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے گستاخان رسول ﷺ عیسائیوں کو غیر ت مند مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچانے کے لیے یہ خیانت کی جس کے بارے میں خود لکھتا ہے:
’’میں اس بات کا اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی بالخصوص پرچہ نورافشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور مؤلفین نے ہمارے نبی ﷺکی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کیے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زنا کار تھاا ور صدہا پرچوں میں شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور بایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں میں یہ جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو تب میں نے ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لیے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا قدرے سختی سے جواب دیا جائے تاسریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو ۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی کیونکہ میرے کانشنش نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں ان کے غیظ وغضب بجھانے کے لیے یہ طریق کافی ہو گا کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی۔ ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزار ہا مسلمان جو پادری عماد الدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آ چکے تھے یک طرفہ ان کے اشتعال فرو ہو گئے۔۔۔۔۔۔سو مجھ سے پادریوں کے مقابل جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اول درجہ خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔ ‘‘ (تریاق القلوب صفحہ ب ج ،مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 491-490)
محترم قارئین ! یہ تھا مرزا قادیانی کا عیسیٰ اور مریم سلام اللہ علیہا کی توہین کرنے کا اصل مقصد کہ عیسائیوں کو بچانا اور اپنے آقا انگریز کو خوش رکھنا۔ اب آتے ہیں مرزا قادیانی کے اس گھناؤنے کردار کی طرف کہ اس ملعون نے کس طرح نبی آخر الزمان جناب محمدرسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین کی۔
ٍ ٭ ’’ جو شخص مجھ میں اور مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں فرق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہیں پہچانا۔‘‘ (خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد16صفحہ 259)
٭ ’’ جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی علیہ السلام کی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی، پس اس نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں بہ نسبت ان سالوں کے اقویٰ و اکمل اوراشد ہے بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔‘‘(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ272-271)
ٍ ٭ ’’ اس (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے لیے چاند کے خسوف کانشان ظاہر ہوا اور میرے لیے چاند اور سورج دونوں کا ،اب کیا تو انکار کرے گا؟‘‘ (اعجاز احمدی صفحہ 71 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 183)
٭ نبی کریم کے تین ہزار معجزات اور مرزا قادیانی کے دس لاکھ۔
’’مثلاً کوئی شریر النفس ان تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبی سے ظہور پذیر ہوئے اور حدیبیہ کی پیش گوئی کو بار بار ذکر کرے کہ وہ وقت اندازہ کردہ پر پوری نہیں ہوئی۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد17 صفحہ 157)
’’ان چند سطروں میں جو پیش گوئیاں ہیں وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس لاکھ سے زیادہ ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اول درجہ پر خارق عادت ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 72، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 72)
ٍ ٭ ’’ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ حضرت مسیح کو اتنی بڑی خصوصیت آسمان پر زندہ چڑھنے اور اتنی مدت تک زندہ رہنے اور پھر دوبارہ اترنے کی جو دی گئی ہے اس کے ہر ایک پہلو سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین ہوتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کا ایک بڑا تعلق جس کا کچھ حد وحساب نہیں حضرت مسیح سے ہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سو برس تک بھی عمر نہ پہنچی۔مگر حضرت مسیح اب قریباً دو ہزار برس سے زندہ ہیں اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت کے چھپانے کے لیے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ و تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی مگر حضرت مسیح کو آسمان پر جو بہشت کی جگہ اور فرشتوں کی ہمسائیگی کا مکان ہے بلا لیا۔ اب بتاؤ محبت کس سے زیادہ کی۔ عزت کس کی زیادہ کی۔ قرب کا مقام کس کو دیا اور پھر دوبارہ آنے کا شرف کس کو بخشا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ حاشیہ صفحہ 112مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 205)
محترم قارئین ! ایک حدیث مبارکہ میں نبی کریم علیہ السلام نے اپنے آپ کو آخری اینٹ سے تشبیہ دی ۔ یہ حدیث اسی کتاب کے باب سوئم میں ’’عقیدہ ختم نبوت قرآن وحدیث کی روشنی میں‘‘ عنوان کے تحت درج ہے۔ مرزا قادیانی بھی اپنے آپ کو آخری اینٹ سے تشبیہ دیتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’ پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیش گوئی کو پور اکرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچادے۔ پس میں وہی اینٹ ہوں۔‘‘ (خطبہ الہامیہ صفحہ 178، مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 178)
توہین قرآن وحدیث:
مرزا قادیانی قرآن مقدس کے متعلق اپنی گندی ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے:
٭ ’’قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔‘‘ (بحوالہ تذکرہ صفحہ 77، طبع چہارم )
٭ ’’میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اس طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے۔ خدا کاکلام یقین کرتا ہوں۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 220، مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 220)
٭ مرزا قادیانی قرآن مجید میں تحریف کرتے ہوئے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں رقم طراز ہے:
’’ جس روز وہ الہام مذکورہ بالا جس میں قادیاں میں نازل ہونے کا ذکر ہے ہوا تھا اس روز کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم غلام قادر میرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انھوں نے ان فقرات کو پڑھا انا انزلناہ قریبا من القادیان تو میں نے سن کر بہت تعجب کیا کہ کیا قادیان کانام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے۔ تب انھوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے۔ تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقع پر یہ الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ واقع طور پر قادیان کانام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزا زکے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے مکہ ، مدینہ اور قادیان۔‘‘(ازالہ اوہام صفحہ 77,76 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 140)
اسی طرح اپنی کتاب ’’نور الحق‘‘ حصہ اول مندرجہ روحانی خزائن جلد 8صفحہ63 پر مرزا رقم طراز ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: وَجَادِلْھُمْ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ یہ عربی درج کرنے کے بعد حاشیہ میں سورہ النحل آیت نمبر126کا حوالہ دیا گیا ہے، جب کہ پورے قرآن پا ک میں یہ عبارت کہیں پر بھی موجود نہیں۔
٭ ’’اور ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اوروہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی ۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔‘‘ (اعجاز احمدی صفحہ 36، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 ،صفحہ 140)
٭ ’’اور جو شخص حکم ہو کر آیا ہو اس کو اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار سے چاہے خدا سے علم پاکر قبول کر لے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کر دے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ صفحہ 15، مندرجہ روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 51)
٭ محترم قارئین!یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرآن مجید کلام الٰہی ہے نہ کہ ا للہ تعالیٰ کی مخلوق۔تاریخ گواہ ہے کہ اسی ایک مسئلہ کی وجہ سے امام احمدابن حنبل رحمۃاللہ علیہ کونہ صرف قیدوبندکی صعوبتیںبرداشت کرناپڑیںبلکہ شدیدترین ظلم وتشددکاشکاربھی ہوناپڑالیکن اُن کے پایہ استقلال میں کمی نہ آئی اور وہ قرآن مجید کے کلام الہٰی ہونے کے مئوقف پرڈٹے رہے جبکہ مخالفین قرآن مجید کو مخلوق ثابت کرنے کے لیے کوئی بھی ٹھوس دلیل پیش نہ کرسکے ۔
محترم قارئین!یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ مرزاقادیانی بھی ایسا انسان تھا جس کے دوسرے انسانوںکی طرح ماںبا پ اوردوسرے عزیزرشتہ دار تھے ۔ اوربحثیت انسان وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق تھا۔مرزاقادیانی اس کے برعکس اپنے آپ کو قرآن مجید کی مانندقرقردیتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’ مَآنَااِلَّاکَالْقُرْاٰنِ وَسَیَظْھَرُعَلٰی یَدَیَّ مَاظَھَرَمِنَ الْفُرْقَانِ میں توبس قرآن ہی کی طرح ہوںاورعنقریب میرے ہاتھ پرظاہرہوگاجوکچھ فرقان سے ظاہرہوا۔‘‘ (بحوالہ تذکرہ صفحہ570طبع چہارم ازمرزاقادیانی)
’’میں اس بات کا اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی بالخصوص پرچہ نورافشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور مؤلفین نے ہمارے نبی ﷺکی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کیے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زنا کار تھاا ور صدہا پرچوں میں شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور بایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں میں یہ جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو تب میں نے ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لیے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا قدرے سختی سے جواب دیا جائے تاسریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو ۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی کیونکہ میرے کانشنش نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں ان کے غیظ وغضب بجھانے کے لیے یہ طریق کافی ہو گا کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی۔ ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزار ہا مسلمان جو پادری عماد الدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آ چکے تھے یک طرفہ ان کے اشتعال فرو ہو گئے۔۔۔۔۔۔سو مجھ سے پادریوں کے مقابل جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اول درجہ خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔ ‘‘ (تریاق القلوب صفحہ ب ج ،مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 491-490)
محترم قارئین ! یہ تھا مرزا قادیانی کا عیسیٰ اور مریم سلام اللہ علیہا کی توہین کرنے کا اصل مقصد کہ عیسائیوں کو بچانا اور اپنے آقا انگریز کو خوش رکھنا۔ اب آتے ہیں مرزا قادیانی کے اس گھناؤنے کردار کی طرف کہ اس ملعون نے کس طرح نبی آخر الزمان جناب محمدرسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین کی۔
ٍ ٭ ’’ جو شخص مجھ میں اور مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں فرق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہیں پہچانا۔‘‘ (خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد16صفحہ 259)
٭ ’’ جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی علیہ السلام کی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی، پس اس نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں بہ نسبت ان سالوں کے اقویٰ و اکمل اوراشد ہے بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔‘‘(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ272-271)
ٍ ٭ ’’ اس (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے لیے چاند کے خسوف کانشان ظاہر ہوا اور میرے لیے چاند اور سورج دونوں کا ،اب کیا تو انکار کرے گا؟‘‘ (اعجاز احمدی صفحہ 71 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 183)
٭ نبی کریم کے تین ہزار معجزات اور مرزا قادیانی کے دس لاکھ۔
’’مثلاً کوئی شریر النفس ان تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبی سے ظہور پذیر ہوئے اور حدیبیہ کی پیش گوئی کو بار بار ذکر کرے کہ وہ وقت اندازہ کردہ پر پوری نہیں ہوئی۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد17 صفحہ 157)
’’ان چند سطروں میں جو پیش گوئیاں ہیں وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس لاکھ سے زیادہ ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اول درجہ پر خارق عادت ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 72، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 72)
ٍ ٭ ’’ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ حضرت مسیح کو اتنی بڑی خصوصیت آسمان پر زندہ چڑھنے اور اتنی مدت تک زندہ رہنے اور پھر دوبارہ اترنے کی جو دی گئی ہے اس کے ہر ایک پہلو سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین ہوتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کا ایک بڑا تعلق جس کا کچھ حد وحساب نہیں حضرت مسیح سے ہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سو برس تک بھی عمر نہ پہنچی۔مگر حضرت مسیح اب قریباً دو ہزار برس سے زندہ ہیں اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت کے چھپانے کے لیے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ و تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی مگر حضرت مسیح کو آسمان پر جو بہشت کی جگہ اور فرشتوں کی ہمسائیگی کا مکان ہے بلا لیا۔ اب بتاؤ محبت کس سے زیادہ کی۔ عزت کس کی زیادہ کی۔ قرب کا مقام کس کو دیا اور پھر دوبارہ آنے کا شرف کس کو بخشا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ حاشیہ صفحہ 112مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 205)
محترم قارئین ! ایک حدیث مبارکہ میں نبی کریم علیہ السلام نے اپنے آپ کو آخری اینٹ سے تشبیہ دی ۔ یہ حدیث اسی کتاب کے باب سوئم میں ’’عقیدہ ختم نبوت قرآن وحدیث کی روشنی میں‘‘ عنوان کے تحت درج ہے۔ مرزا قادیانی بھی اپنے آپ کو آخری اینٹ سے تشبیہ دیتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’ پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیش گوئی کو پور اکرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچادے۔ پس میں وہی اینٹ ہوں۔‘‘ (خطبہ الہامیہ صفحہ 178، مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 178)
توہین قرآن وحدیث:
مرزا قادیانی قرآن مقدس کے متعلق اپنی گندی ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے:
٭ ’’قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔‘‘ (بحوالہ تذکرہ صفحہ 77، طبع چہارم )
٭ ’’میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اس طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے۔ خدا کاکلام یقین کرتا ہوں۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 220، مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 220)
٭ مرزا قادیانی قرآن مجید میں تحریف کرتے ہوئے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں رقم طراز ہے:
’’ جس روز وہ الہام مذکورہ بالا جس میں قادیاں میں نازل ہونے کا ذکر ہے ہوا تھا اس روز کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم غلام قادر میرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انھوں نے ان فقرات کو پڑھا انا انزلناہ قریبا من القادیان تو میں نے سن کر بہت تعجب کیا کہ کیا قادیان کانام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے۔ تب انھوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے۔ تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقع پر یہ الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ واقع طور پر قادیان کانام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزا زکے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے مکہ ، مدینہ اور قادیان۔‘‘(ازالہ اوہام صفحہ 77,76 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 140)
اسی طرح اپنی کتاب ’’نور الحق‘‘ حصہ اول مندرجہ روحانی خزائن جلد 8صفحہ63 پر مرزا رقم طراز ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: وَجَادِلْھُمْ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ یہ عربی درج کرنے کے بعد حاشیہ میں سورہ النحل آیت نمبر126کا حوالہ دیا گیا ہے، جب کہ پورے قرآن پا ک میں یہ عبارت کہیں پر بھی موجود نہیں۔
٭ ’’اور ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اوروہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی ۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔‘‘ (اعجاز احمدی صفحہ 36، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 ،صفحہ 140)
٭ ’’اور جو شخص حکم ہو کر آیا ہو اس کو اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار سے چاہے خدا سے علم پاکر قبول کر لے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کر دے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ صفحہ 15، مندرجہ روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 51)
٭ محترم قارئین!یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرآن مجید کلام الٰہی ہے نہ کہ ا للہ تعالیٰ کی مخلوق۔تاریخ گواہ ہے کہ اسی ایک مسئلہ کی وجہ سے امام احمدابن حنبل رحمۃاللہ علیہ کونہ صرف قیدوبندکی صعوبتیںبرداشت کرناپڑیںبلکہ شدیدترین ظلم وتشددکاشکاربھی ہوناپڑالیکن اُن کے پایہ استقلال میں کمی نہ آئی اور وہ قرآن مجید کے کلام الہٰی ہونے کے مئوقف پرڈٹے رہے جبکہ مخالفین قرآن مجید کو مخلوق ثابت کرنے کے لیے کوئی بھی ٹھوس دلیل پیش نہ کرسکے ۔
محترم قارئین!یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ مرزاقادیانی بھی ایسا انسان تھا جس کے دوسرے انسانوںکی طرح ماںبا پ اوردوسرے عزیزرشتہ دار تھے ۔ اوربحثیت انسان وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق تھا۔مرزاقادیانی اس کے برعکس اپنے آپ کو قرآن مجید کی مانندقرقردیتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’ مَآنَااِلَّاکَالْقُرْاٰنِ وَسَیَظْھَرُعَلٰی یَدَیَّ مَاظَھَرَمِنَ الْفُرْقَانِ میں توبس قرآن ہی کی طرح ہوںاورعنقریب میرے ہاتھ پرظاہرہوگاجوکچھ فرقان سے ظاہرہوا۔‘‘ (بحوالہ تذکرہ صفحہ570طبع چہارم ازمرزاقادیانی)
آخری تدوین
: