(ربوہ والے آپ کی نظر میں مسلمان ہیں یا نہیں؟)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، مولانا! آپ میرا مطلب نہیں سمجھے۔ یہاں اس قوم کو ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے۔ آپ یہ تو مانتے ہیں کہ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ ان معاملوں میں پڑے، جھگڑوں میں پڑے۔ مگر اسمبلی کو مجبوراً یہ سوال پیش ہے اور اس کا کوئی حل ڈھونڈنا ہے اور اس میں آپ مدد کرسکتے ہیں اسمبلی کی، اپنے علم کی وجہ سے، اپنے تجربہ کی وجہ سے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ ان کو کافر قرار دیں، یا میں یہ نہیں کہتا کہ کافر قرار نہ دیں۔ میں ایک سوال یہ پوچھتا ہوں کہ آپ میں اور ان میں اِختلافات ہیں اور آپ نے خود فرمایا ہے کہ ’’نبی‘‘ کے سوال پر جو کہ وہ تاویل کر رہے تھے، آپ اس کے، خلاف ہیں۔ تو میں عرض کرتا ہوں جو معنی وہ دیتے ہیں مرزا صاحب کی نبوّت کو، اس کے مطابق کیا وہ لوگ مسلمان رہتے ہیں یا نہیں رہتے ہیں آپ کی نظر میں؟
1577جناب عبدالمنان عمر: میری گزارش یہ ہے جی کہ میں نے عرض کیا ہے کہ ہمارے ملک کی بڑی بدقسمتی ہوگی اگر ہم لوگوں کے معتقدات کا فیصلہ ان سے معتقدات کے متعلق بیان سننے کی بجائے دُوسرے کی تشریح کو قبول کرنے لگیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، قبول کوئی نہیں کر رہا جی، یہ صرف بات یہ ہے کہ اسمبلی نے ہر طرف سے نقطئہ نظر پوچھنا ہے، دیکھنا ہے۔ وہ خود بھی اپنی طرف سے پڑھ رہی ہے، خود بھی سوچ رہی ہے، کتابیں بھی دیکھیں انہوں نے۔ نہ صرف یہ کہ ربوہ کے ڈیلی گیشن کی بات سنی، باقی علماء بھی موجود ہیں، ان کا بھی نقطئہ نظر ان کے سامنے ہے۔ آپ کا نقطئہ نظر بھی سامنے ہوگا تو اس پر وہ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں گے کہ آخر آپ کے جو اتنے اِختلافات ہیں وہ کیوں، کیا وجہ ہے؟ اگر وہ بھی ایک نبی ایسا ہے جو دُوسرے معنی میں ہے کہ جو اُمت کا ہے، نبی اس کا مطلب میں نہیں کہ محدث ہے اور اگر وہ بھی ایسے ہی سمجھتے ہیں تو آپ کے اِختلاف نہیں ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ اگر اِختلاف ہے کچھ تو اس کی تفصیل بتائیے، اس اِختلاف کی بناء پر آپ ان کو پھر بھی یہاں مسلمان سمجھتے ہیں یا نہیں سمجھتے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں کہ میں نے گزارش یہ کی تھی کہ اس ملک کی بہتری کا تقاضا یہ ہے کہ میں جناب سے یہ گزارش کروں کہ اگر یہ راستہ کھول دیا گیا کہ کسی دُوسرے فریق کے معتقدات اس سے سننے کی بجائے یا اس پر فیصلہ کرنے کی بجائے دُوسروں کی تشریحات، توضیحات پر اور دُوسروں کے مطالعے پر اس کا مدار رکھا جائے تو اس سے بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی اور یہ وہی مشکلات ہیں جس کی وجہ سے، جو شروع میں، میں نے گزارش کی تھی، کہ تکفیر کا دروازہ کھلتا ہے۔ اگلا شخص نہ معلوم اس کی کیا تأویل کرتا ہے، کیا تشریح کرتا ہے۔ میں اپنے خیال سے اس کا موقف۔۔۔۔۔۔
1578جناب یحییٰ بختیار: میں، مولانا صاحب! صاف بات کرتا ہوں، آپ سے پوچھوں کہ ’’پارسی کافر ہیں یا نہیں؟‘‘ تو آپ کیا کہیں گے کہ: ’’نہیں، یہ تو ہم سب پاکستانی ہیں، اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا‘‘؟
جناب عبدالمنان عمر: جی، یہ نہیں آپ پوچھتے، آپ پوچھتے ہیں کہ: ’’پارسی کے معتقدات کیا ہیں؟‘‘ آپ کا سوال یہ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: میں یہی آپ سے پوچھتا ہوں کہ وہ کس معنی۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: معتقدات تو آپ ان سے پوچھئے ناں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ مجھ سے کیوں آپ ان کے معتقدات پوچھتے ہیں؟ مجھ سے میرے معتقدات پوچھئے، ان کے معتقدات ان سے پوچھئے، پھر آپ فیصلہ کیجئے۔ میں اس کے حق میں نہیں ہوں کہ میرے معتقدات کا فیصلہ زید کرے، اور زید کے معتقدات کا فیصلہ بکر کرے۔ معتقدات کے متعلق آپ کو یہ قانون بنانا چاہئے، میری گزارش ہوگی کہ آپ ڈیکلریشن لیں ہر فرقے سے کہ وہ اپنے معتقدات کیا سمجھتے ہیں۔