• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

رد قادیانیت کورس

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جھوٹی پیشگوئیاں

اس بحث سے قبل خود مرزا صاحب ہی کے قلم سے لکھے ہوئی چند ایک اصول ملاحظہ فرمائیں۔
اصول نمبر ۱
’’ بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق و کذب جانچنے کیلئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص ۲۸۸ ،روحانی خزائن ص ۲۸۸ ج۵)
اصول نمبر ۲
علاوہ اس کے جن پیش گوئیوں کو مخالف کے سامنے دعویٰ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ ایک خاص طور کی روشنی او رہدایت اپنے اندر رکھتی ہیں اور ملہم لوگ حضرت احدیت میں خاص طور پر توجہ کرکے ان کا زیادہ تر انکشاف کرالیتے ہیں ۔(ازالہ اوہام ص۴۰۴،روحانی خزائن ص۳۰۹ ج۳)

ان دواصولو ں کے بعد ہم کہتے ہیں کہ کوئی ایک پیش گوئی مرزا صاحب کی پیش کرو جس کو دشمن کے سامنے بطور دعویٰ پیش کیا ہو اور پھر وہ پوری ہوئی ہو۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ ایک دعویٰ میں بھی سچا نہ ہوا اور بقول اپنے رسوا اور ذلیل ہوا۔
چنانچہ( تریاق القلوب ص۲۵۴ روحانی خزائن ص۳۸۲ ج۱۵) پر لکھا ہے۔
’’ اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیش گوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کررسوائی ہے ۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ اس کی رسوائی کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ کسی ایک پیش گوئی میں جھوٹا ثابت ہوجائے بفرض محال اس کی کچھ پیش گوئیاں سچی بھی نکلیں تو وہ اس کے دعویٰ کی صداقت کی دلیل نہیں بن سکتیں ایسے تو بہت سے منجموں کی پیش گوئیاں بھی سچی نکلتی رہتی ہیں ہاں کسی ایک پیش گوئی کا جھوٹا نکلنا اس کے کاذب ہونے کی صریح دلیل ہے ۔
﴿نوٹ﴾ مرزا صاحب کی جھوٹی پیش گوئیاں بیان کرنے سے قبل قرآن مجید کی یہ آیت بار بار پڑھنی چاہیے :
’’ فلا تحسبن اﷲ مخلف وعدہ رسلہ ان اﷲ عزیز ذوانتقام ‘‘
یعنی خدا تعالیٰ کو اپنے رسولوں کے ساتھ وعدہ خلافی کرنے والاگمان نہ کر ، اﷲ غالب اور انتقام لینے والاہے ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
پہلی جھوٹی پیش گوئی عبداﷲ آتھم کے متعلق

’’ اور آج رات مجھ پر کھلا ہے وہ یہ کہ جب میں نے بہت تضرع سے جناب الٰہی میں دعا کی تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجزبندے ہیں تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طورپر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجزانسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک ماہ سے لیکر پندرہ ماہ تک ہا ویہ میں گرایا جائے گااور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جوشخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جو پیش گوئی ظہور میں آئے گی بعض اندھے سجا کھے کیے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سننے لگیں گے اس طرح اﷲ تعالیٰ نے جوارادہ فرمایا ہے سوالحمدﷲ والمنہ کہ اگر یہ پیش گوئی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ظہور نہ فرمائی توہمارے یہ پندرہ دن ضائع گئے تھے۔میں اس وقت اقرار کرتا ہوں اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے سزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہرایک سزا اٹھانے کیلئے تیار ہوں مجھ کو ذلیل کیاجائے ، روسیاہ کیا جائے ، میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے مجھ کو پھانسی دی جائے ہرایک بات کیلئے تیار ہوں اور میں اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا ضرور کرے گا ضرور کرے گا زمین وآسمان ٹل جائیں ، پر اس کی باتیں نہ ٹلیں اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں ، بدکاروں او رلعینوں سے مجھے زیادہ لعنتی قرار دو۔‘‘ (جنگ مقدس ص۲۰۹تا ۲۱۱ ، روحانی خزائن ص۲۹۱ تا ۲۹۳ ج۶)مرزا صاحب کی یہ پیش گوئی عبداﷲ آتھم پادری کے متعلق ہے ۔
مرزا نے اس سے ۱۸۹۳ء میں مناظرہ کیا ۔پندرہ دن برابر مناظرہ ہوتا رہا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا شکست کھا گیاپھر گھر آکر بتاریخ ۵ جون ۱۸۹۳ء اس کے متعلق یہ پیش گوئی گھڑ دی کہ وہ جتنے دن مناظرہ ہوتا رہا اتنے ماہ کے اندر اندر ہلاک ہوگا اگر ہلاک نہ ہوا تو میں جھوٹا ہوں گا ۔اس پر عبداللپ آتھم نے پندرہ ماہ خوب احتیاط سے گذارے اپنا کھانا وغیرہ خود پکاتا تھا ،آخر کار پندرہ ماہ ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء کو مکمل ہوئے مگر آتھم پادری نہ مرا۔
اس کے بعد عیسائیوں نے بٹالہ کے مقام پر عبداﷲ آتھم کوہاتھی پر سوار کرکے ایک عظیم الشان جلوس نکالا ۔مرزا غلام احمد قادیانی کا پتلا بنا کر اس کا منہ کالا کرکے اس کے گلے میں رسہ ڈال کر اس کو پھانسی دی پھر جلا کر دفن کیا۔
اب ہم مرزائیوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور پندرہ ماہ کے اندر عبداﷲ آتھم ہلاک ہوا ؟؟؟ ہر گزایسا نہیں ہوا، اور مرزا اپنی اس پیش گوئی میں دوسری پیش گوئیوں کی طرح ذلیل و رسوا ہوئے ۔
واضح رہے کہ عبداﷲ آتھم کا انتقال ۲۷ مئی۱۸۹۶ء کو ہوا جبکہ مرزا کی پیش گوئی کی مدت گذر چکی تھی ۔(نزول المسیح ص۱۶۸،روحانی خزائن ج۱۸ص۵۴۶)

مرزائی عذر

’’عبداﷲ آتھم نے اس مجلس میں ساٹھ ستر آدمیوں کے سامنے جناب نبی اکرم ﷺ کو دجال کہنے سے رجوع کرلیا تھا ۔‘‘ (خلاصہ عبارت حاشیہ حقیقت الوحی ص۲۰۷،روحانی خزائن ص ۲۱۶ج۲۲)
﴾جواب نمبر۱
اگر اسی وقت اس نے رجوع کرلیا تھا تو مرزا کو اسی وقت اسی مجلس میں اعلان کرنا چاہیے تھا کہ چونکہ اس نے رجوع کرلیا ہے لہذا میری پیش گوئی میں کوئی حرج نہیں آئے گا بلکہ میری پیش گوئی پوری ہوگئی حالانکہ مرزا صاحب کو بعد میں بھی یقین نہیں تھا کہ یہ پیش گوئی پوری ہوگئی یا نہیں ۔ اسی لئے تو مرزا صاحب نے اسکی ہلاکت کیلئے وظائف و دعائیں کیں اور واویلا کیا وغیرہ ۔چنانچہ دیکھیں
’’ بسم اﷲ الرحمن الرحیم بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ صاحب سنوری نے کہ جب آتھم کی میعادمیں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح علیہ السلام نے مجھے اور میاں حامد علی مرحوم سے فرمایا کہ اتنے چنے (تعداد یا د نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے بتائے) لے لو اور ان پر فلاں سورت کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو (مجھے وظیفہ کی تعداد بھی یاد نہیں رہی )میاں عبداﷲ بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورت یاد نہیں مگر مجھے اتنا یاد ہے کہ کوئی چھوٹی سی سورت تھی جیسے الم ترکیف ……الخ ۔ اور ہم نے یہ وظیفہ تقریباً ساری رات صرف کرکے ختم کیا۔‘‘ ( سیرۃ المہدی حصہ اول ص۱۷۸ و حصہ دوم ص ۱۲۱ حدیث نمبر ۱۶۰)
﴾جواب نمبر۲
مرزا بشیر الدین محمود اس اعتراض کے جواب میں کہ تیری دعائیں قبول نہیں ہوئیں لکھتا ہے کہ حضرت صاحب کی بھی قبول نہیں ہوئی تھیں۔
چنانچہ دیکھئے الفضل 20 جولائی 1940
’’ آتھم کے متعلق پیش گوئی کے وقت جماعت کی جوحالت تھی وہ ہم سے مخفی نہیں ۔ میں اس وقت چھوٹا سابچہ تھا اور میری عمر کوئی ساڑھے پانچ برس کی تھی مگر وہ نظارہ مجھے خوب یاد ہے کہ جب آتھم کی پیش گوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب واضطرار سے دعائیں کی گئیں میں نے محرم کا ماتم بھی اتناسخت نہیں دیکھا ، حضرت مسیح موعود ایک طرف دعا میں مشغول تھے……الخ۔‘‘
مرزائی عذر نمبر۲
فریق سے مراد صرف عبدا ﷲ آتھم نہیں بلکہ تمام عیسائی ہیں جیسا کہ مرزا نے (انوار الاسلام ص ۲ روحانی خزائن ص۲ ج۹)میں لکھا ہے ۔
﴾جواب
مرزا صاحب نے خود مقدمہ میں تسلیم کیا ہے کہ فریق سے مراد صرف عبداﷲ آتھم ہے ، دیکھئے( کتاب البریہ ص۱۷۳ روحانی خزائن ص۲۰۶ ج۱۳)
’’ عبداﷲ آتھم کے متعلق ہم نے شرطیہ پیش گوئی کی تھی کہ اگر رجوع بحق نہ کرے گا تو مرجائے گا۔‘‘ (عبداﷲ آتھم کی درخواست پر پیش گوئی صرف اس کے واسطے کی تھی کل متعلقین مباحثہ کی بابت بحث نہ تھی)
مرزائی عذر نمبر ۳
’’عبداﷲ آتھم اس لئے نہیں مرا کہ وہ اندر سے مسلمان ہوگیا ……اگر وہ خوف زدہ نہیں ہوا اور رجوع بحق نہیں ہوا تھاتو مباہلہ کرے اور قسم اٹھائے ‘‘ (کتاب البریہ ۱۲۴ روحانی خزائن ج۱۳ ص ۱۹۶)
الجواب
اگر عبداﷲ آتھم نے رجوع کرلیا تھا توسوال پیدا ہوتا ہے کہ رجوع پندرہ ماہ کے اندر کیا تھا یا بعد میں ؟؟ اگر مدت کے اندر کیا تھاتو مرزا صاحب نے اعلان کیوں نہیں کیا تھا اگر پندرہ ماہ کے بعد رجوع کیا تھا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اسے تو پندرہ ماہ کے اندر مرنا تھا ۔ نیز اگر رجوع کرلیا تھا تو چنے کے دانے کیوں پڑھائے ، دعائیں کیوں کیں ، اور عیسائیوں نے فتح کا اتنا بھرپو ر جشن کیوں منایاتھا۔ رہی بات قسم کا نہ اٹھانا تو وہ اسلئے قسم نہیں اٹھا سکتا تھا کیونکہ عیسائی مذہب میں ہر قسم کی قَسم ناجائز ہے۔ دیکھئے
’’ پھر تم سن چکے ہوکہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ تم جھوٹی قسمیں نہ کھانا بلکہ اپنی قسمیں خداوند کیلئے پور ی کرنالیکن میں تم سے کہتاہوں کہ بالکل قسم نہ کھانا نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے ، نہ زمین کی کیونکہ وہ اس کے پاؤں کی چوکی ہے نہ یروشلم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے نہ اپنے سر کی قسم کھانا کیونکہ تو ایک بال کوبھی سفید یا کالا نہیں کرسکتا بلکہ تمہارا بھرم ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو کیونکہ جو اس سے زیادہ ہے وہ بدی ہے ۔‘‘(انجیل متی باب ۵ص۸،آیت نمبر ۳۴،۳۵ )
علاوہ ازیں خود مرزا صاحب کو بھی اس حقیقت سے مفرنہیں کہ مذہب عیسائیت میں ہر قسم کی قَسم کی ممانعت ہے چنانچہ خود مرزا صاحب ا س حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ قرآن تمہیں انجیل کی طرح نہیں کہتا کہ ہر گز قسم نہ کھاؤ بلکہ بے ہودہ قسموں سے تمہیں روکتا ہے ۔‘‘ (کشتی نوح ص۲۷ روحانی خزائن ص۲۹ ج ۱۹)
معلوم ہوا عبداﷲ آتھم کا قسم سے انکار اپنے مذہب کی بنا پر تھا ۔جیسا کہ مرزا کا سؤر خوری سے انکار اپنے مذہب کی بنا پر تھا۔ (کتاب البریہ ص۱۶۳ ، روحانی خزائن ج۱۳ ص۱۹۶)
مرزا نے اشتہار جاری کئے کہ اگر وہ خوف زدہ نہیں ہوا اور رجوع بحق نہیں ہوا تو مباہلہ کرے اور قسم اٹھائے عبداﷲ آتھم نے قسم اٹھانے سے انکار کیا کہ مسیحی مذہب میں قسم کھانا منع ہے تب ہم نے اس اشتہار حرف ’ Q‘جاری کیا تھا کہ مرزا خو ک (خنزیر)کا گوشت کھا کر ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے کیونکہ اور مسلمان اس کو مسلمان نہیں مانتے تب عبداﷲ آتھم کو یہ کہنا اس کے برابر ہوگا۔
 
مدیر کی آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دوسری جھوٹی پیشگوئی

مرز اصاحب اپنی موت کے متعلق پیش گوئی کرتے ہیں ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں (البشریٰ ص۱۵۵،تذکرہ جدیدص۵۹۱،تذکرہ قدیم نسخہ ص۵۸۴) ہمارا دعویٰ ہے کہ مکہ میں مرنا تو درکنا مرزا صاحب کو مکہ مدینہ دیکھنا نصیب نہ ہوا اور اس پیش گوئی میں بھی ذلیل و رسوا ہوا ۔ثبوت کیلئے دیکھیں (سیرۃ المہدی حصہ۳ ص۱۱۹) لکھا ہے۔
’’ ڈاکٹرمیر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے حج نہیں کیا اور نہ اعتکاف کیا اور زکواۃ نہیں دی ، تسبیح نہیں رکھی ، میرے سامنے ضب یعنی گوہ کھانے سے انکار کیا ۔‘‘
اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ مرز اصاحب کو مکہ میں جانا نصیب نہ ہوابلکہ اسکی وفات لاہور میں بمرض ہیضہ لیٹرین کی جگہ پر ہوئی ۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص۱۱) کہاں مکہ اور مدینہ اور کہاں جائے حاجت(لیٹرین)

ببیں تفاوت راہ از کجا است تا بکجا
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تیسری جھوٹی پیش گوئی

پیر منظور کے ہاں لڑکے کی پیدائش
’’ پہلے یہ وحی الہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جونمونہ قیامت ہوگا بہت جلدآنے والا ہے اس کیلئے نشان دیا گیا تھا کہ پیر منظورمحمد لدھیانوی کی بیوی محمدی بیگم کو لڑکاپیدا ہوگا اور وہ لڑکا اس زلزلے کیلئے ایک نشان ہوگا‘‘۔(حقیقت الوحی حاشیہ در حاشیہ ص۱۰۰، روحانی خزائن ص۱۰۳ج۲۲)

یہ پیر منظور اس کا خاص مرید تھا مرزا کو معلوم ہوا کہ اُس کی بیوی حاملہ ہے ، پیش گوئی گھڑ لی کہ اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ لڑکی پیدا ہوگئی ۔ مرزا صاحب نے یہ کہا کہ اس سے یہ تھوڑا ہی مراد ہے کہ اسی حمل سے لڑکا پیدا ہوگا آئندہ کبھی لڑکاپیدا ہوسکتاہے مگر ہوا یہ کہ وہ عورت ہی مر گئی اور دوسری پیش گوئیوں کی طرح یہ بھی صاف جھوٹ ثابت ہوئی نہ اس عورت کے لڑکا پیدا ہوا اور نہ ہی زلزلہ آیا اور یوں مرزا صاحب ذلیل ورسوا ہوئے ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
چوتھی جھوٹی پیش گوئی

لیکھ رام کے متعلق
مرز اصاحب کی غلط او رجھوٹی پیش گوئیوں میں سے آپ مسلمانوں اور عیسائیوں کے متعلق پیش گوئیاں سن چکے ہیں اب تیسری قوم ہندوؤں کے متعلق سنیے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ان تینوں قوموں کے مقابلہ میں مرز اکی پیش گوئیاں جھوٹی نکلیں اور ذلیل ورسوا ہوا۔لیکھ رام ایک پنڈت تھا جس سے مرز اکا اکثر مناظرہ رہتا تھا ایک مرتبہ اس سے تنگ آکر مورخہ ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو اس کے متعلق یہ پیش گوئی کی:
’’ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں و بیماریوں سے نرالا اورخارق عادت( یعنی طبعی موتوں سے جو عادت میں داخل ہیں الگ ہو) اور اپنے اندر الہی ہیبت رکھتا ہو۔(یعنی انسان سمجھ سکتا ہو کہ یہ ایک ناگہانی آفت ہے جو دلوں پر ایک ڈرانے والا اثر کرتی ہے) تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیش گوئی میں کاذب نکلا (یعنی اگر ہیبت ناک طور پر لیکھ رام کی موت نہ ہوئی ) تو ہر ایک سزا بھگتنے کیلئے تیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے ۔‘‘ (ملحقہ آئینہ کمالات اسلام ص۳،تریاق القلوب ، روحانی خزائن ص۳۸۱ ج۱۵، روحانی خزائن ص۶۵۰،۶۵۱ ج۵)
مرزائی عذر
یہ پیش گوئی پوری ہوگئی کیونکہ لیکھ رام مقررہ مدت کے اندر چھری سے قتل کردیا گیا تھا۔
الجواب
مرز اصاحب کی یہ پیش گوئی بھی پوری نہ ہوئی کیونکہ اس پیش گوئی میں تصریح ہے کہ وہ خارق عادت عذاب سے ہلاک ہوگا اور خارق عادت عذاب وہ ہوتا ہے جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہ پائی جائے اور اس طرح کی نظیریں تو سینکڑوں پائی جاتی ہیں لہذا خار ق عادت عذاب نہ ہوا اور مرزا صاحب کی پیش گوئی جھوٹی نکلی ۔ مرز انے خو دخار ق عادت کی تعریف اپنی کتاب حقیقت الوحی ص۱۹۶ روحانی خزائن ص۲۰۴ ج۲۲ پر لکھی ہے : ’’ خارق عادت اسی کو کہتے ہیں کہ اس کی نظیر دنیامیں نہ پائی جائے۔‘‘
اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ تعریف ضمیمہ براہین احمدیہ ج۵ص۹۷ پر لکھی ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی یہ پیش گوئی بھی صاف جھوٹ نکلی ۔کیونکہ لیکھ رام ۶ مارچ ۱۸۹۷ء کو بذریعہ قتل فوت ہوا۔
مرز اصاحب کا دجل
لیکھ رام کے قتل کے بعد مرزا نے دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے نزول مسیح میں چھری کا لفظ بھی اپنی پیش گوئی کو سچا بنانے کیلئے اپنے پاس سے اضافہ کردیا جو اس کا صریح دجل و فریب ہے یہ اضافہ دیکھئے نزول المسیح ص۱۷۷ روحانی خزائن ج ۱۸ ص۵۵۳ ورنہ چھری کا لفظ اس کی پیش گوئی کے الفاظ میں موجودنہیں ہے ۔
لیکھ رام کی پیش گوئی
مرز اصاحب نے جو لیکھ رام کے متعلق پیش گوئی کی تھی وہ توصاف جھوٹی نکلی۔ اس کے بالمقابل لیکھ رام نے بھی مرز اصاحب کے متعلق پیش گوئی کی تھی کہ مرزا صاحب تین سال کے اندر ہیضہ کی موت مرجائے گا جو پوری ہوگئی ۔
مرزائی عذر
لیکھ رام کی پیش گوئی جھوٹی نکلی کیونکہ مرزا صاحب اگرچہ ہیضہ سے مرے ہیں مگر اس کی مقررہ مدت کے بعد مرے ہیں اس لئے اسکی پیش گوئی سچی نہ ہوئی ۔
جواب
لیکھ رام کی نفس پیش گوئی ہیضہ کے ساتھ مرنے کی تھی او روہ پوری ہوئی مرزاصاحب ہیضہ سے ہی مرا۔ دیکھو (سیرۃ المہدی حصہ اول ص۱۱ و حیات ناصر ص۱۴) رہی مدت کی بات تو مدت کے بارے میں خود مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ استعارہ بھی ہوتا ہے جیسا کہ مرزا قادیانی نے محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد داماد احمد بیگ کے متعلق پیش گوئی کی تھی کہ وہ اڑھائی سال کے اندر مرے گا اور جب وہ اڑھائی سال کے اند ر نہ مرا تو مرزا صاحب نے فرمایا ’’ میں بار بار کہتاہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ (سلطان محمد خاوند محمد ی بیگم ) کی تقدیر مبرم ہے اس کی انتظار کرو او راگر میں جھوٹا ہو ں تو یہ پیش گوئی پوری نہ ہوگی اور میری موت آجائے گی اور اگر میں سچا ہوں تو خدا تعالیٰ ضروری اس کو بھی ایسے ہی پوری کرے گا جیسا کہ احمد بیگ اور آتھم کی پیش گوئی پوری ہوگئی ۔
اصل مدعا تونفس مفہوم ہے اور وقتوں میں کبھی استعارہ کا بھی دخل ہوتا ہے ۔‘‘ (انجام آتھم حاشیہ روحانی خزائن ج۱۱ ص ۳۱)
ہم کہتے ہیں کہ جب مرز اصاحب نے خود تسلیم کرلیا کہ وقتوں میں کبھی استعارہ بھی ہوتا ہے اسی طرح لیکھ رام کی پیش گوئی میں بھی استعارہ ہوگا اور یوں اس کی پیش گوئی پوری ہوگئی۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
پانچویں پیش گوئی

مرزا صاحب کی عمر کے متعلق
’’ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ میری پیش گوئیوں سے صرف اس زمانہ کے لوگ ہی فائدہ نہ اٹھا ئیں بلکہ بعض پیش گوئیاں ایسی ہوں کہ آئندہ زمانہ کے لوگوں کیلئے ایک عظیم الشان نشان ہوں جیسا کہ براہین احمدیہ کتاب کی یہ پیش گوئی کہ میں تجھے اسی برس یا چند سال زیادہ یا اس سے کچھ کم عمر دوں گا۔‘‘
(تریاق القلوب حاشیہ ص۲۴، روحانی خزائن ج۱۵ ص۱۵۲)
’’خدا تعالیٰ نے مجھے صریح الفاظ میں اطلاع دی تھی کہ تیری عمر اسیّ برس کی ہوگی اور یہ کہ پانچ چھ سال زیادہ یا پانچ چھ سال کم‘‘ (روحانی جلد۲۱ ص ۲۵۸) ’’اور جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں تو وہ چوہتر اور چھیاسی کے اندر اندر عمرکا تعین کرتے ہیں ۔ بہرحال یہ میرے پر تہمت ہے کہ میں نے اس پیش گوئی کے زمانہ کی کوئی بھی تعین نہیں کی اور خدا تعالیٰ بار بار اپنی وحی فرمارہے ہیں کہ ہم تیرے لئے یہ نشان دکھلائیں گے اور ان کو کہہ دے کہ یہ نشان میری سچائی کا گواہ ہو گا۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۷ ،روحانی خزائن ص۲۵۹ ج۲۱)
اب مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش معلوم کرنا ضروری ہے مرزا صاحب نے خود لکھا ہے کہ میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں ہوئی ۔(کتاب البریہ ص۱۵۹ بر حاشیہ روحانی خزائن ص۱۷۷ ج۱۳)
دوسرا قرینہ یہ ہے کہ اس کتاب میں آگے مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ کے وقت میں سولہ یا سترہ سال کا تھا (کتاب البریہ ص۱۵۹ روحانی خزائن ص۱۷۷ج۱۳) مرز اکے مرنے کے بعد مرزا صاحب کی یہ پیش گوئی صاف جھوٹی ہوگئی اور یہ عظیم الشان نشان بھی مرزا کے کذب کا عظیم الشان اور زندہ جاوید ثبوت بن گیا۔
مرزا کے مرنے کے بعد مرزائی سخت پریشان ہوئے کیونکہ اس حسب سے اس کی عمر ۶۸ سال یا ۶۹ سال بنتی ہے اور پیش گوئی جھوٹی ثابت ہوئی ہے ۔ مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا کہ میری تحقیق میں مرزا صاحب کی پیدائش ۱۸۳۷ء میں ہوئی مگر پھر بھی عمر پیش گوئی کے موافق نہیں بنتی ۔ پھر بشیر احمد ایم اے نے کہا کہ حضرت کی پیدائش ۱۸۳۶ء میں ہوئی مگر پھر ایک اور تحقیق کی گئی کہ پیدائش ۱۲ فروری ۱۸۳۵ء میں ہوئی مگر پھر ایک اور تحقیق کی گئی کہ پیدائش ۱۲ فروری ۱۸۳۵ء میں ہوئی اس لحاظ سے بھی پوری ۷۴ سال نہیں بنتے پھر ڈاکٹر بشارت احمد لاہوری نے مرز ا کی سیرت پر کتاب لکھی جس کا نام ’’ مجدداعظم ‘‘ رکھا اس نے تحقیق کی کہ حضرت کی پیدائش ۱۸۳۳ء میں ہوئی ۔ ان کے ایک اور محقق نے بتا یا کہ حضرت ۱۸۳۰ء میں پیدا ہوئے ،سوال یہ کہ اس کی تاریخ پیدائش میں مرنے کے بعد اس قدر اختلاف کیوں ہوا؟؟؟
یہی اس کے جھوٹے ہونے کی صریح دلیل ہے ایک کا ابطال دوسرے کو لازم ہے ، مرزائی خود فیصلہ کریں کہ مرز اصاحب سچے ہیں یا ان کے چیلے ،اور مرز اصاحب کا اپنا بیان صحیح اور قوی ہے ۔ کیونکہ یہ اس کا عدالتی بیان ہے کہ اس عدالتی بیان کی رو سے اس کی عمر ۶۸ ؍۶۹ سال بنتی ہے ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
چھٹی جھوٹی پیش گوئی

محمدی بیگم کے متعلق
اس پیش گوئی کے بارے میں دو باتیں پیش نظر رکھیں۔
۱) محمدی بیگم کی مرزا قادیانی سے رشتہ دار ی
(۱) محمدی بیگم کا والد’’احمد بیگ ‘‘مرزا قادیانی کا ماموں زاد بھائی تھا اور اسکی والدہ مرزا کی چچا زاد بہن تھی ۔
(۲) مرزا کی پہلی بیوی (پھجے کی ماں) کے چچا زاد بھائی کی بیٹی تھی(۳) مرزا کے لڑکے فصل احمد کی بیوی کی ماموں زاد بہن تھی۔

۲) اس پیش گوئی کا پس منظر

مرز اقادیانی نے محمد ی بیگم کو زبر دستی اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کیا اتفاق ایسا ہو ا کہ ایک زمین کے ہبہ نامہ کے سلسلہ میں مرزا احمد بیگ کو مرزا قادیانی کے دستخط کی ضرورت پڑی چنانچہ وہ مرزا قادیانی کے پاس گیا او ر اس سے کاغذات پر دستخط کرنے کی درخواست کی مرزا قادیانی نے اپنی مطلب براری کیلئے اس موقع کو غنیمت جانا اور احمد بیگ سے کہا کہ استخارہ کرنے کے بعد دستخط کروں گا جب کچھ دن بعد دوبارہ احمد بیگ نے دستخط کرنے کی بات کی تو مرزا نے جواب دیا کہ دستخط اس شرط پر ہوں گے کہ اپنی لڑکی محمدی بیگم کا نکاح میرے ساتھ کردو۔
مرزا لکھتا ہے کہ محمدی بیگم ابھی چھوکری ہے اور میری عمر پچاس سال سے متجاوز ہے ۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۴،روحانی خزائن ص۵۷۴ج۵)
مرزا کی پیش گوئی کے الفاظ یہ ہیں :’’ پھر ان دونوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کیلئے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقررکر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دورکرنیکے بعد انجام کار اس عاجز کے نکاح میں لادے گا اور بے دینوں کو مسلمان بنادے گا اور گمراہوں میں ہدایت پھیلائے گا۔چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے :
’’ کذبوا بایتنا وکانوا بہا یستھزؤن فسیکفیکہم اﷲ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اﷲ ان ربک فعال لما یرید انت معی وانا معک عسی ان یبعثک ربک مقامامحمودا۔ ‘‘
یعنی انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور پہلے سے ہنسی کررہے تھے سو خدا تعالیٰ ان سے سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مددگا ر ہوگا اور انجام کا ر اس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے ……الخ۔‘(آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۶تا ۲۸۸ ، روحانی خزائن ج۵ص ۲۸۷؍۲۸۶)
’’میری اس پیش گوئی میں ایک نہیں بلکہ چھ دعوے ہیں
(اول) نکاح کے وقت تک میرز زندہ رہنا
(دوم) نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینی زندہ رہنا
(سوم) پھر نکاح کے بعد لڑکی کے باپ کا جلدی مرجانا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا
(چہارم) اس کے خاوند کااڑھائی برس کے عرصہ تک مرجانا
(پنجم) اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں اس لڑکی کا زندہ رہنا
(ششم) پھر آخر یہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کرباوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا۔
اب آپ ایمان سے کہیں کہ کیا یہ باتیں کسی انسان کے اختیار میں ہیں اور ذرا اپنے د ل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیش گوئی سچ ہونے کی حالت میں انسان کا فعل ہوسکتی ہیں ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ج۵ ص۳۲۵ ،روحانی خزائن ج۵ص۳۲۵)
’’ میں با ربار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے اس کی انتظار کرو اور اگر میں جھوٹا ہو ں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آ جا و ے گی اور اگر میں سچا ہوں تو خدا تعالیٰ ضرور اس کو بھی ایسے ہی پوری کردیگا جیسا کہ احمد بیگ اور آتھم کی پیش گوئی پوری ہوگئی اصل ہی مدعا تو نفس مفہوم ہے اور وقتوں میں تو کبھی استعارات کا بھی دخل ہوجاتا ہے ۔‘‘ (انجام آتھم حاشیہ روحانی خزائن ص۳۱ج۱۱)
اس پیش گوئی کے بارے میں چند اہم معلومات
۱)
مرزا نے ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۸ ء میں محمدی بیگم سے نکاح کی پیش گوئی کی ۔
۲) محمدی بیگم کا نکاح ،سلطان احمد سے ۷ ؍ اپریل ۱۸۹۲ء کو ہوا۔
۳) احمد بیگ ۳۰ ستمبر ۱۸۹۲ء کو فوت ہوا ۔
(آئینہ کمالات الاسلام روحانی خزائن ج۵ ص۲۸۶)
مرز اکا دجل و فریب
مرزا کو اصل الہام یہ ہوا تھاکہ و ہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی خواہ پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے یا خداتعالیٰ بیوہ کرکے اس کولے آئے ۔
(مجموعہ اشتہارات ج۱ص۲۱۹)
جب محمدی بیگم کا نکاح سلطان بیگ سے ہوا تو مرزا نے پیش گوئی کے الفاظ بدل دیے چنانچہ لکھتا ہے :
’’ ۱) مرز ا احمد بیگ ہوشیار پوری تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو
۲) اور پھر داماد اسکا جو اس کی دختر کلاں کا شوہر ہے اڑھائی سال کے اندر فوت ہو
۳) اور پھر یہ کہ مرزا احمد بیگ تاروز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو
۴) اور پھر یہ کہ وہ دختربھی تا نکاح اور تا ایام بیوہ ہونے اورنکاح ثانی کے فوت نہ ہو
۵)اور پھر عاجز ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو
۶)اور پھر اس عاجز سے نکاح ہوجائے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام واقعات انسان کے اختیار میں نہیں ۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۸۰روحانی خزائن ص۳۷۶ ج۶)
محمدی بیگم کے متعلق چند مزید الہامات

’’ انازوجناکھا (تذکرہ ص۲۴۸) یعنی ہم نے تیرا نکاح اس سے کردیا‘‘
اور یہی عبارت مرزائیوں کے قرآن یعنی تذکرہ کے صفحہ ۲۸۳ پر بھی موجود ہے ان میں صاف آگیا کہ خدا تعالیٰ نے مرزا صاحب کا نکاح محمدی بیگم سے کردیا۔
انا مھلکوا بعلھا کما اھلکنا اباھا ورادوھا الیک (تذکرہ قدیم ص۲۲۶) یعنی ہم محمدی بیگم کے خاوند کو ہلاک کریں گے جس طرح اس کے باپ کو ہلاک کیا اور اس کو تیری طرف لوٹائیں گے۔
تبصرہ
مرزا قادیانی اپنی اس پیش گوئی میں دوسری پیش گوئیوں کی طرح جھوٹا نکلا اور یہ پیش گوئی جس کو اپنی صداقت کا نشان ٹہرایا تھا وہ اس کے جھوٹے ہونے کا واضح اور کھلا نشان ثابت ہو ا مرز اغلام احمد قادیانی اور اس کی امت اس میں ذلیل ورسوا ہو کرپریشانی کے عالم میں اس کی مختلف تاویلات کرتی ہیں ۔امر واقع یہ ہے کہ مرزا قادیانی اپنے ان دعووں میں پورے طور پر جھوٹا ثابت ہوا کوئی ایک دعویٰ بھی اس کا سچا ثابت نہیں ہوا اور مرزا سلطان محمد جس کو بمطابق پیش گوئی مرز ا ، اڑھائی سال میں مرنا تھا یا کم از کم مرزا کی زندگی میں مرنا تھا وہ بقید حیات رہا اور مرزا کے مرنے کے چالیس سال بعد تک زندہ رہا یعنی ۱۹۴۸ ء میں فوت ہوا، اور محمدی بیگم جو مرزا قادیانی کے کذب کا کھلا نشان اور منہ بولتا ثبوت تھی ۱۹۶۶ء میں بحالت اسلام ۱۹ نومبر بروز ہفتہ بمقام لاہو ر فوت ہوئیں ۔ حالانکہ مرز اقادیانی نے اپنی اس پیش گوئی کی تائید میں وہ حدیث بھی پیش کی جسمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلا دنیا میں تشریف لانے کے بعد شادی بھی کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہوگی ۔ ’’ یتزوج ویولد لہ ‘‘ کے الفاظ ہیں مرز اقادیانی نے اس حدیث کو اپنے متعلق قرار دیتے ہوئے اس سے محمدی بیگم سے شادی ہونا مراد لی ۔ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳ ،روحانی خزائن ج ۱۱حاشیہ ص۳۳۷)
خدا کو منظو ر ہی یہ تھا کہ اس دجال کو ذلیل ورسوا کیا جائے اور مرزا قادیانی باوجود اتنے دعووں اور اتنے زور وشور سے پراپیگنڈہ کرنے کے باوجود خائب وحاسر ہوا۔ فالحمدﷲ علی ذلک ۔
نوٹ﴾
مرزا فضل احمد کی سا س یعنی مرزا صاحب کی سمدھن محمدی بیگم کی پھوپھی لگتی تھی یعنی احمد بیگ کی بھانجی لگتی ہے اسکا نا م عزت بی بی تھا ۔مرزا نے تریاق القلوب مطبوعہ ۱۹۰۱ء ص۷۰ پر لکھا ہے کہ ’’ عرصہ ۲۱ برس کے قریب یہ الہام بھی ہوا کہ’ بکروثیب‘ یعنی ایک کنواری اور ایک بیوہ تمہارے نکاح میں آئے گی ۔‘‘
مرزا کو ۲۱ برس بعد یہ الہام یاد آیا اور امید تھی کہ محمدی بیگم اگر کنواری نہیں تو بیوہ ہوکر عقد میں آئے گی مگر مرزا کی وفا ت تک وہ مرزا سلطان محمد کی سہاگن ہی رہی اور یہی عرصہ نہیں بلکہ مرز اکے بعد چالیس بر س تک وہ سلطان محمد کے بستر راحت کی زینت رہی اور بہر حال مرزا کی اس نامراد عاشقی کے ایام مستعار میں نہ وہ بیوہ ہوئی اور نہ ہی مرزا کا یہ الہام شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
تذکرہ( مجموعہ الہامات مرزا)کے مصنف نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ الہام اپنے دونوں پہلوؤں سے مرزا کی بیوی نصرت جہاں کی ذات میں ہی پورا ہوا جو کہ باکرہ آئی اور ثیبہ ہوکررہ گئی ۔ (تذکرہ حاشیہ ص۳۹)
یہ تاویل قادیانی تاویلات کی ایک ادنیٰ سی جھلک اور نمونہ ہے کہ اگر مرزا کی بیوی بیوہ ہوگئی توگویا مرزا کا بیوہ سے نکاح ہوگیا اور یہ پیش گوئی اس طرح پوری ہوگئی۔مرزائی عقل کا عمدہ نشان!
مرزا کی اکثر پیش گوئیاں اسی انداز سے پوری ہوئیں اور درحقیقت اسی طرح کی تاویلات سے قادیانیت کا قصر ارتداد کھڑا ہے اگر ان تاویلات کا سہارا ہٹادیاجائے تو ایک لحظہ میں قادیانی کا قصر ارتداد زمین بوس ہوجائے۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
شاعری مرزا

مرزا نے اپنی صداقت میں قصیدہ اعجاز یہ پیش کیا اسکے علاوہ مرز ا کا اوربے شمار منظوم کلام بھی ہے جس کو ’’ در ثمین ‘‘ عربی اردو اور فارسی تین حصوں میں علیحدہ علیحدہ جمع کیا گیا ہے۔ حالانکہ شعر نبی کیلئے لائق نہیں بلکہ نبی کیلئے تہمت ہے اور کفار نا ہنجار نے رسول اﷲ ﷺ پر یہ تہمت لگائی
’’ أئنالتارکوا الھتنا لشاعر مجنون ‘‘ (پ۲۳سورۃ۲۷ آیت ۳۶ع۲)
اور خدا تعالیٰ نے اس کا جواب دیا :’’ وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ ‘‘ (پ۲۳،سورۃ یس آیت۶۹)
مرزاچونکہ جناب نبی اکرم ﷺ کے ظل اور بروز ہونے کا مدعی ہے ، لہذا اس کو بھی شعر کہنا زیب نہیں دیتا ۔ مرز ا کو کیا معلوم تھا کہ جس شاعری کووہ اپنا کمال سمجھ رہاہے وہی اس کے جھوٹے ہونے کا کھلا نشان بن جائے گا۔
باقی رسول اﷲ ﷺ سے جو موزوں کلام منقول ہے وہ شعر نہیں ہے وہ کلام اتفاقیہ موزوں ہوگیا ، جیسے ’’ ھل انت الااصبع دمیت وفیی سبیل اﷲ مالقیت ‘‘ یا جیسے ’’ اللھم لاعیش ال عیش الاخرۃ فاغفرالانصار والمھاجر ۃ ‘‘
ان کو اصطلاحاً شعرکہنا مناسب نہیں ہے ۔
شعر کی تعریف یہ ہے
’’ ھو کلام موزون یقصد بہ قال الشیخ السمعانی النظم ھو الکلام المقفی الموزون قصداً ‘‘
یعنی شعر میں قصد اورارادہ شرط ہے جو بلا ارادہ و بلا قصد کلام موزوں ہوجائے اس کو شعر نہیں کہتے ۔
علاوہ ازیں مرز اصاحب نے اپنے اس قصیدے کو اعجازیہ کہا یعنی اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا مگر مولوی منت اﷲ مونگیری نے اس قصیدے کا جواب لکھ کراس کے اعجاز کو خاک میں ملادیا تھااورپیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے بھی اس قصیدہ کی اغلاط اور چوریاں بیان کیں تھیں لیکن اگر اس کا مقابلہ کوئی بھی نہ کرسکتا تو پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ وہ بجائے خود مرزا صاحب کے کذاب ہونے کی کھلی نشانی تھی ۔ جو چیز اصل (حضرت محمد مصطفیﷺ) میں ہونا عیب ہو ،وہ بروز (مرزا غلام احمد ) میں ہوناکمال کیسے ہوسکتی ہے؟ فافہم و تدبر ۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مختلف زبانوں میں وحی

قرآنی اصول
قرآن مجید میں ہے’’ وما ارسلنا من رسول الابلسان قومہ ‘‘ (پ۱۳ سورۃ ابراہیم آیت ۴ ) کہ ہم نے ہر رسول کو اس کی زبان کے اندر وحی کی اور یہ اصول حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت محمد ﷺ تک قائم رہا ۔
اب سوچئے اگر مرز اخدا کا نبی تھا تو اس کی وحی بھی اس کی قوم کی زبان کے مطابق یعنی پنجابی یا اردو میں ہونی چاہیے تھی۔ مگر مرزائیوں کے قرآن (تذکرہ) کے اندر جو وحی مذکور ہے اس میں تقریباً د س زبانیں ہیں یہ تعدد السنۃ ہی مرزا کے کذاب ہونے کی صریح دلیل ہے علاوہ ازیں بھی مرزا پر بعض ایسی زبانوں میں بھی وحی ہوئی جن کو وہ خود بھی نہ جانتا تھا اور اپنی وحیوں کے ترجمے دوسروں سے سمجھتا تھا یہ بھی اس کے جھوٹا ہونے کی صریح دلیل ہے ۔
مرزائیو! کوئی نبی ایسا بتاؤ جسکے اوپر دوتین زبانوں میں وحی آئی ہو اور کوئی نبی بتاؤ جو اپنی وحی کا ترجمہ نہ جانتا ہو۔

مرزائی عذر نمبر ۱
یہ متعدد زبانوں کے اندر وحی ہونا مرزا صاحب کے کمال کی دلیل ہے نہ کہ ان کے جھوٹا ہونے کی ۔ جتنی زیادہ زبانوں میں وحی ہوگی وہ اس نبی کا کمال ہوگا۔
جواب
اول تو قرآنی ر وسے یہ کمال ہی نہیں کمال یہی ہے کہ اس کی اپنی قومی زبان کے اندر وحی ہو بفرض محال اگرکمال مانیں بھی تو اس وحی کو سمجھنا بھی کمال ہے اور مرزا اپنی بعض وحیوں کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا بلکہ دوسرے لوگوں سے ترجمہ پوچھتا تھا اور پھر اگر یہ کمال ہے تو گویا مرزا تمام انبیاء سے اس کمال میں سبقت لے گیا کیونکہ دیگر انبیاء کو تو صرف ایک ہی زبان میں وحی ہوتی تھی ۔
مرزائی عذر
مرزا صاحب چونکہ انٹرنیشنل نبی تھے اس لیے ان کے اوپر متعدد زبانوں میں وحی آئی ۔
جواب نمبر ۱
حضرت محمد مصطفی ﷺ انٹرنیشنل نبی تھے ان کے اوپر کیوں نہ متعدد زبانوں میں وحی آئی اور مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ میں ان کا ظل اور بروز ہوں تو نبی ﷺ پر اتنی زبانوں میں کیوں نہ وحی آئی ؟ عجب بات ہے کہ اصل سے ظل اور بروز بڑھ جائے۔
جواب نمبر ۲
اس وقت دنیا میں تقریباً ساڑھے چار ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں اگر مرزا انٹرنیشنل نبی تھا تو پھر اس کو ساڑھے چار ہزار زبانوں میں وحی ہونی چاہیے تھی۔ مزید لطف کی بات یہ ہے کہ مرز ا صاحب پر بعض وحی ایسی بھی آئی جو لفظاً ولغۃً ٹھیک نہ تھی یہ بھی اس کے جھوٹا ہونے دلیل ہے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ

اس کے بارے میں مکمل تفصیلات (محمدی پاکٹ بک ص۶۴۹) پر ملاحظہ فرمائیں ۔
’ بخدمت جناب مولوی ثناء اﷲ صاحب السلام علی من ا تبع الھدیٰ۔ مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب وتفسیق کا سلسلہ جاری ہے ہمیشہ آپ مجھے اس پرچہ میں کذاب و دجال ، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں ۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایااو رصبر کرتا رہا اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہوجاؤں گا اور اگر میں کذاب ومفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اورمخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اﷲکے موافق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں ، آپ پر میری زندگی میں وارد نہ ہویں تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی وحی یا الہام کی بنا ء پر پیش گوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہا ہے ۔ اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کوخوش کردے ۔آمین!
بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جوچاہیں اس کے نیچے لکھ دیں اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ۔‘‘
الراقم عبدالصمد مرزا غلام احمد مسیح موعود
مرقومہ یکم ربیع الاوّل ۱۳۲۵ھ ،۱۵ ؍اپریل ۱۹۰۷ء
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
خدائی فیصلہ
اﷲ تعالیٰ کی نظروں میں چونکہ مرزا قادیانی کذاب و دجال اور جھوٹا تھا اس لیے اس دعاء کے پورے ایک سال ایک ماہ گیارہ دن بعد یعنی ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو مرزا ہیضہ کی مو ت سے لاہور میں مرگیا اور اﷲ تعالیٰ نے مولوی ثناء اﷲ صاحب اور ان کی جماعت اور تمام مسلمانوں کو خوش کردیا۔ مرزا کے مرنے کے بعد چالیس سال تک مولوی صاحب زندہ رہے اور ۱۹۴۸ء میں سرگودہا میں وفات پائی ۔
مرزا صاحب کا ہیضہ سے مرنا
حوالہ نمبر ۱
’’والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودکو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سوگئے اور میں بھی سوگئی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دودفعہ رفع حاجت کیلئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے اس کے بعد آ پ نے زیادہ ضعف محسوس کیا آپ نے ہاتھ سے مجھے جگایا میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پرہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کیلئے بیٹھ گئی تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا تم اب سوجاؤ میں نے کہا نہیں میں دباتی ہوں اتنے میں آپ کو ایک او ردست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے اس لیے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کردیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کرلیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی مگر ضعف بہت ہوگیا تھا اس کے بعد ایک او ردست آیا اور پھر آپ کو قے آئی جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کاسر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا او ر حالت دگر گوں ہوگئی ۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص۱۱ حدیث ۱۲)
اس حوالہ سے مرزا قادیانی کا ہیضہ سے مرنا روز روشن کی طرح واضح ہے کیونکہ دست اور قے جب دونوں اکٹھے ہوجائیں اس کو ہیضہ کہتے ہیں نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی اپنے پاخانہ پر مرا تھا۔
مرزائی عذر
مرزا صاحب ہیضہ کی مرض سے نہیں مرے اگر وہ ہیضہ سے مرتے تو ریل گاڑی میں انکی میت لے جانے کی اجازت ہر گز نہ ہوتی کیونکہ یہ قانونا منع ہے حالانکہ مرز اکی لاش کو ریل گاڑی پرلادکر قادیان لے جایا گیا ۔
جواب نمبر ۱
مرزا قادیانی بقول اپنے ’’ انگریز کا خود کاشتہ پودا‘‘ تھااسلئے اس کی لاش کو ریل گاڑی پر لے جانا کچھ مشکل بات نہ تھی۔
جواب نمبر ۲
اس جواب کے دو مقدمے ہیں
۱) ریل گاڑی مرزا قادیانی کے بقول دجال کا گدھا ہے
۲) مرزا نے ۱۹۰۸ ء میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے بالمقابل ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں کہا تھا کہ اگر میں مولانا ثناء اﷲ کی زندگی میں مرجاؤں تو میں کذاب ودجال ٹہروں گا اور عملاً یہی ہوا کہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو مرزا کا مولانا ثناء اﷲ کی زندگی میں انتقال ہوگیا ۔ جس سے مرزا کا اپنے قول کیمطابق دجال ہونا ثابت ہوا ۔ اب ہم کہتے ہیں کہ جب مرزا دجال اور ریل گاڑی دجال کا گدھا ہے (بقول مرزا کے ) تو قدرت الٰہی نے دجال کیلئے اس کے گدھے پر سوار ہونے کا انتظام کردیا اور انگریزی پولیس اپنی نگرانی میں اس کی لاش لاہور سے قادیان لے گئی۔
حوالہ نمبر ۲
مرزا قادیانی نے اپنے سسر میر ناصر نواب کو بلا کر کہا :
’’ میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہوگیاہے ‘‘ (حیات ناصر ص۱۴)
مرزا صاحب کے اس اعتراف کے بعد کہ مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے اب کسی تاویل یا انکار کی گنجائش نہیں ہے واضح ہوکہ مرزا صاحب نے طب کی کتب بھی پڑھی ہوئی تھیں لہذا ان کا یہ کہنا قابل اعتبار ہوگا ۔
مرزائیوں کا ایک اور عذر
مرزا قادیانی نے اس آخری فیصلہ کے ذریعے مولوی ثناء اﷲ کو مباہلہ کی دعوت دی تھی کیونکہ مولوی ثناء اﷲ بالمقابل مباہلہ کیلئے تیار نہ ہو ا اس لیئے مرزا صاحب کا اسکی زندگی میں مرنا جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں ۔
جواب
یہ سراسر جھوٹ ہے مرزا کے اس آخری فیصلہ میں کوئی مباہلہ کا لفظ نہیں ہے نہ ہی اس میں یہ موجود ہے کہ مولوی ثناء اﷲ بھی اس قسم کی دعا کریں یہ محض یکطرفہ دعا تھی جو مرزا قادیانی نے اﷲ تعالیٰ کی بار گاہ میں مانگی جس کو خدا تعالیٰ نے قبول فرما کر فیصلہ کردیا اسی بات پر کہ مرزا صاحب کا یہ اشتہار محض یکطرفہ دعا ہے یامباہلہ ہے ؟ مولوی ثنا ء اﷲ صاحب امرتسری اور میرقاسم علی قادیانی کا لدھیانہ میں ۱۹۱۲ء میں تحریری مناظرہ ہوا تھا جس میں سردا ربچن سنگھ وکیل کو سرپنچ مقرر کیاگیاتھا ۔ اور دونوں حضرات نے تین تین صد روپیہ اس کے پاس جمع کرادیا کہ جو اپنا دعویٰ ثابت کرے اسکو یہ چھ صد روپیہ دے ۔ بالآخر سردار بچن سنگھ نے فیصلہ مولوی ثناء اﷲ کے حق میں کردیا او رچھ صدر وپیہ بھی انکے حوالے کردیا اس رقم سے مولوی صاحب نے اس مناظرہ کو ’’ فاتح قادیان ‘‘ کے نام سے شائع کیا جو کہ آج بھی سرگودہا سے دستیاب ہے ۔
 
آخری تدوین :
Top