• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

رد قادیانیت کورس

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
احادیث نبویہﷺ پر مرزائی دجل

لانبی بعدی پر اعتراضات مع جوابات
اعتراض نمبر۱
لانبی بعدی سے مراد یہ ہے کہ میرے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہیں ہوگا جیسا کہ اکثر علماء کی تصریحات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہیں ہوسکتا نبی کریم ﷺ کی مراد بھی یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کی آمد بتلائی ہے اس سے معلوم ہوا کہ لا میں عام نفی مراد نہیں ہے ۔
۔جواب نمبر ۱
یہاں پر لا نفی جنس کا ہے او رنفی عام ہے جیسا کہ مرزا نے خود تسلیم کیا ہے کہ : ’’ الا تعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمی نبینا ﷺ خاتم النبیین بغیر استثناء وفسرہ نبینا ﷺ فی قولہ لا نبی بعدی بیان واضح للطالبین ولو جوزنا ظھور نبی بعد نبینا ﷺ لجوزنا النفتاح باب وحی النبوۃبعد تغلیقھا وھذا خلف کما لا یخفی علی المسلمین وکیف یجیٔ نبی بعد نبینا ﷺ وقد انقطع الوحی بعد وفاتہ وختم اﷲ بہ النبیین ۔ ‘‘ (حمامۃالبشری ٰ ص۲۰ مطبوعہ ۱۸۹۴ روحانی خزائن ص۲۰۰ ج۷)
مرزا صاحب نے کس صراحت کے ساتھ خاتم النبیین اور لا نبی بعدی کا وہی ترجمہ اور مفہوم لیا ہے جو ہم لیتے ہیں باقی رہا عیسیٰ علیہ السلام والا اعتراض تو اس کا جواب گزر چکا ہے ان کی آمد سے کسی قسم کا فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے دوبارہ آنے سے انبیاء کی فہرست میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوگا۔
جواب نمبر۲
جیسے لا الہ الا اﷲ میں اﷲ کے بعد اﷲ تعالیٰ کے سواس کوئی ظلی بروزی خدا نہیں اسی طرح لا نبی بعدی میں بھی یہی مفہوم ہوگا۔
۔اعتراض
یہاں پر متکلم کی مراد دیکھنی چاہیے مراد متکلم یہی ہے کہ آ پکے بعد صاحب شریعت نبی کوئی نہیں ہوگاہرکلام میں متکلم کی مراد کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔
جواب نمبر۳
ہم کہتے ہیں کہ متکلم کی مراد بھی وہی ہے جو ہم بیان کرتے ہیں اور نزع صرف لفظی ہے جیسا کہ مرزا نے اپنی کتاب چشمہ معرفت ص ۱۸۰ ،روحانی خزائن ۱۸۹ ج۲۳ پر تحریر کیا ہے واضح ہو کہ یہ کتاب مرزا کی موت سے چھ دن قبل ۲۰ مئی ۱۹۰۸ء کو چھپی۔
’’ اور ہم میں اور ہمارے مخالف مسلمانوں میں صرف لفظی نزاع ہے اور وہ یہ کہ ہم خدا کے ان کلمات کو جونبوت یعنی پیش گوئیوں پر مشتمل ہوں ،نبوت کے اسم سے موسوم کرتے ہیں اور ایسا شخص جس کو بکثرت ایسی پیش گوئیاں بذریعہ وحی دی جائیں یعنی اس قدر کہ اس کے زمانے میں اسکی کوئی نظیر نہ ہو اس کا نام ہم نبی رکھتے ہیں کیونکہ نبی اس کو کہتے ہیں جو خدا کے الہام سے بہ کثرت آئندہ کی خبریں دے مگر ہمارے مخالف مسلمان مکالمہ الہیہ کے قائل ہیں لیکن اپنی نادانی سے ایسے مکالمات کو جو بکثرت پیش گوئیوں پر مشتمل ہو ں ، نبوت کے نام سے موسوم نہیں کرتے حالانکہ نبوت صرف آئندہ کی خبر دینے کو کہتے ہیں جو بذریعہ وحی والہام ہو اور ہم سب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ شریعت قرآن شریف پر ختم ہوگئی ، صرف مبشرات یعنی پیش گوئیاں باقی ہیں ۔‘‘ (چشمہ معرفت حصہ دوم ص۱۸۰روحانی خزائن ص۱۸۹ ج ۲۳)
اعترا ض
لانبی بعدی کا یہ مطلب ہے کہ میرے مد مقابل او رمخالف ہو کر کوئی نبی نہیں آسکتا جیسا کہ حدیث فاولتھا کذابین یخر جان بعدی سے ثابت ہو رہا ہے ۔
جواب نمبر۱
بعدی سے مراد بعثت کے بعد مراد ہے خواہ زندگی میں ہویازندگی کے بعد جیسا کہ قرآن مجید میں اسی لفظ کا استعمال ہوا ہے اور وہاں موت مراد نہیں بلکہ زندگی کے متعلق استعمال ہوا ہے جیسے بئس ما خلفتمونی من بعدی اور آیت وقفینا من بعدہ الرسل سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ کی زندگی ہی میں کئی نبی موجود تھے نیز بعدی کا معنی خود مرزا نے زمانے کا کیا ہے مقابلہ کا نہیں کیا۔ (کتاب البریہ ص۲۱۷،روحانی خزائن ص۲۱۸ج۱۳)
’’ کوئی نبی نبوت کے حقیقی معنوں کی رو سے آنحضرت ﷺ کے بعد تشریف لاوے ۔‘‘(انجام آتھم ص۲۷ روحانی خزائن ص۲۷ ج ۱۱ ،حمامۃ البشریٰ ص۲۰روحانی خزائن ص۲۰۰ ج۷)
جواب نمبر۲
لفظ بعدی کا مخالفت یامقابلہ کے معنی میں استعمال ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہاں بھی یہی معنی مراد ہو اگر آپ میں ہمت ہو تو کسی قرینہ سے ثابت کریں کہ یہاں یہی معنی ہے یا کسی مسلّم مجدد نے یہ معنی کئے ہوں ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اقوال بزرگان بر اجرائے نبوت وجوابات

ضروری نوٹ﴾
(۱)
مرزائی جس قدربزرگوں کے اقوال اجرائے نبوت کے ثبوت میں پیش کرتے ہین ان میں اکثر وبیشتر میں دجل وتلبیس سے کام لیاجاتا ہے انہی بزرگوں کی ختم نبوت کے متعلق تصریحات موجود ہیں ۔
(۲) جوعبارتیں مرزائی پیش کرتے ہین جن سے وہ نبوت جاری ثابت کرتے ہیں ان تمام سے مقصد یہ ہے کہ ان کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ انکے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی چونکہ یقینی ہے اور وہ حضور ﷺ کی شریعت کے تابع ہونگے اس لئے وہ یوں کہہ دیتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے بلکہ آپ کا تابع ہوکر آسکتا ہے اس سے مراد ان کی صرف عیسیٰ علیہ السلام ہی ہوتے ہیں نہ یہ کہ کوئی قاعدے کے طور پر وہ پیش کرتے ہیں۔
تفصیل کیلئے علامہ خالد محمود کی کتاب ’’ عقیدۃ الامت ‘‘ او رمولانا محمدنافع کا رسالہ ’’ ختم نبوت اور سلف صالحین ‘‘ ملاحظہ ہو۔
(۳) سلف صالحین کی جس قدر عبارتیں پیش کی جاتی ہیں ان کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ حضور کے بعد نبوت جاری ہے بلکہ مرز اصاحب خود تسلیم کرتے ہین کہ سلف صالحین محدثیت اور مجددیت کے قائل ہیں ۔
مرزا نے اپنے مرنے سے ایک دن قبل ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء بوقت ظہر ایک سرحدی پٹھان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ میں کسی نئی نبوت کا قائل نہیں بلکہ جس قسم کی نبوت کے قائل شیخ ابن العربی وغیرہ ہیں مین بھی اسی قسم کی نبوت کا قائل ہوں اور اس کی ضرورت ہے ۔‘‘
آئیں دیکھتے ہیں شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کس قسم کی نبوت کے قاہل ہیں۔

شیخ ابن عربی رحمۃاللہ علیہ اور ختم نبوت اور مرزائیوں کی بولتی بند!

ایک حدیث ''لم یبق من النبوت الا المبشرات '' کی تشریح میں شیخ ابن عربی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں: قالت عائشہ اول ما بدی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرویا فکان لایری رویا الاخرجت مثل فلق الصبح و ھی التی ابقی اللہ علی المسلمین وھی من اجزاء النبوۃ فما ارتفعت النبوۃ یا نکیلہ ولھذا قلنا انما ارتفعت نبوۃ التشریح فھذا معنی لا نبی بعدہ۔ (فتوحات مکیہ جلد ۲ باب ۷۳ سوال نمبر ۲۵)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کو وحی(نبوت) سے پہلے سچے خواب نظر آتے تھے۔ جو چیز رات کو خواب میں دیکھتے تھے وہ خارج میں صبح روشن کی طرح ظہور پذیر ہو جاتی تھی۔ اور یہ وہ چیزیں ہے جو مسلمانوں اللہ نے قیامت تک باقی رکھی ہے اور یہ سچا خواب نبوت کے اجزاء میں سے ہے۔ پس اس اعتبار سے نبوت کُلی طور پہ بند نہیں ہوئی اور اسی وجہ ہم نے کہا لا نبی بعدی کا معنی یہ ہے کہ حضور ﷺ کے بعد نبوت تشریعی باقی نہیں۔
اس عبارت سے بلکل واضح ہے کہ نبوت سوائے اچھے خوابوں کے کچھ باقی نہیں۔ کیا ہر اچھا خواب دیکھنے والا نبی ہوتا ہے؟ کیا اچھے خواب دیکھنے والے کو آج تک امت کے کسی فرد نے نبی قرار دیا؟
پھر بعض علماء و صوفیا کو وحی و الہام سے نوازا جاتا ہے ، اس سے بادی النظر میں ختم نبوت سے تعارض معلوم ہوتا ہے۔ مگر ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو وضاحت کر دی” فلا اولیاء والا انبیاء الخبر خاصۃ والانبیاء اشرائع و الرسل و الخبر و الحکم(فتوحات مکیہ جلد ۲ باب ۱۵۸ صفحہ ۲۵۷)
انبیاء و اولیا کو اللہ تعالی کی طرف سے خبر خاصہ کے زریعہ خصوصی خبر دی جاتی ہے اور انبیاء کے لیے تشریعی احکام، شریعت و رسالت، خبر و احکام نازل ہوتے ہیں۔
ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ تمام انبیاء کی وحی کو تشریعی قرار دیتے ہوے قادیانیوں کے دجل کا قلع قمع کر دیا۔

اب دیکھتے ہیں کہ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے جس نبوت کو جاری کہا اسکے متعلق ان کا کیا کہنا ہے۔

وھذا النبوۃ جاریۃ ساریۃ فی الحیوان مثل قولہ تعالی واوحیٰ ربک الی النحل ۔(فتوحات مکیہ جلد ۲ باب ۱۵۵صفحہ۲۵۴)
اور یہ نبوت حیوانات میں بھی جاری ہے جبکہ اللہ فرماتا ہے تیرے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی۔
ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی اس صراحت نے تو یہ بات واضح کر دی کہ وہ جہاں پر نبوت کو اولیاء کے لئے جاری مانتے ہیں انکو وحی نبوت نہیں بلکہ خبر و ولایت سمجھتے ہیں جو صرف رہنمائی تک محدود ہے۔ احکام و اخبار، امر و نہی شریعت و رسالت کا اس سے تعلق نہیں یہ صرف رہنمائی ہے جس کے لیے انھوں نے نبوت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور وہ اس نبوت کو حیوانات میں جاری سمجھتے ہیں۔ کیا ''قادیانی نبوت'' گدھوں، کتوں وغیرہ کو بھی مل سکتی ہے؟

یہ بالکل واضح ہے کہ یہ حضرات مجددیت اور محدثیت کے قائل تھے اگر یہ نبوت کے قائل ہوتے تو یہ لوگ اپنے پر ایمان لانے کی دعوت دیتے اور اپنے منکرین کو کافرکہتے حالانکہ ان میں سے کوئی بھی بات نہیں ہے ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صداقت مرزا پر ادلہ اور ان کے وجوہات

دلیل اول
’’ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ ‘‘ مرزائی کہتے ہیں کہ جس طرح نبی کریم ﷺ نے اپنی نبوت سے قبل کی زندگی جو کفار میں گزاری تھی کو بطور دلیل پیش کیا اسی طرح مرزا صاحب کی بھی نبوت سے قبل کی زندگی بے داغ ہے بعد کی زندگی پر الزامات لگائے گئے مگر چونکہ اس وقت مخالفت تھی اس لئے الزامات لگائے گئے تو مرزا کی پہلی زندگی دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بے داغ ہے اور مرزا صاحب خدا کے سچے نبی ہیں۔
جواب نمبر۱
نبی کی ساری زندگی پاک اور بے داغ ہوتی ہے بعد کی زندگی سے بحث سے فرار اختیار کرنا اس پر دال ہے کہ اس کی زندگی میں ضرور کچھ کالا کالا ہے ۔
جواب نمبر۲
مرزا نے اپنی پہلی زندگی میں انگریز کی عدالت میں مقدمہ لڑ کر وراثت حاصل کی حالانکہ نبی کسی کا وارث نہیں ہوسکتا ۔ نحن معشر الانبیاء لانرث ولانورث۔
جواب نمبر۳
آپ کا یہ صغریٰ اور کبریٰ ہی مسلم نہیں ہے یہ تو بالکل صحیح ہے کہ نبی کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاک و صاف اور بے داغ ہوتی ہے اور دعوائے نبوت سے بعد کی زندگی بھی پاک و صاف ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس کی پہلی زندگی پاک وصاف اور بے عیب ہو وہ نبی بھی ہو جائے جس طرح نبی کیلئے ضروری ہے کہ وہ شاعر نہ ہو ، وہ کسی سے لکھناپڑھنا نہ سیکھے،جو جھوٹ نہ بولتا ہو لیکن یہ تو ضروری نہیں کہ جو شاعر نہ ہو یا لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو یاجھوٹ نہ بولتا ہو وہ نبی بھی ہوجائے ۔
جواب نمبر۴
مرزا قادیانی نے خود تسلیم کیا ہے کہ انبیا ء علیہم السلا م کے سوا کوئی معصوم نہیں اور نہ میں معصوم ہوں ملاحظہ ہو : ’’ لیکن افسوس کہ بٹالوی صاحب نے یہ نہ سمجھا کہ نہ مجھے اور نہ کسی اور انسان کو بعد انبیاء علیہم السلام کے معصوم ہونے کا دعویٰ ہے ۔‘‘(کرامات الصادقین ص۵ روحانی خزائن ص۴۷ ج۷)
جواب نمبر۵
مرزا قادیانی خود اقرا ر کرتا ہے کہ میں نے بہت عرصہ گم نامی کا گزارا ہے کہتا ہے : ’’ یہ اس زمانہ کے الہام ہیں جس پر تیس برس سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے اور یہ تمام الہام براہین احمدیہ میں شائع ہوچکے ہیں جن کے شائع ہونے پر اب ۲۶ برس سے زیادہ عرصہ گذر گیا اور یہ وہ زمانہ تھا جس میں مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا نہ کوئی موافق تھا نہ مخالف کیونکہ میں اس زمانہ میں کچھ بھی چیز نہ تھا اور ایک احد من الناس اور زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا ، بلکہ اس قصبہ کے تمام لوگ اور دوسرے ہزار ہا لوگ جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں درحقیقت میں اس مردہ کی طرح تھا جو قبر میں صد ہا سال سے مدفون ہواور کوئی نہ جانتا ہو کہ یہ کس کی قبر ہے ۔‘‘(تتمہ حقیقت الوحی ص۲۷،۲۸ روحانی خزائن ،۴۵۹،۴۶۰ ج۲۲)

جب مرزا قادیانی بقول اپنے ایسا گمنام تھا کہ اس کا نہ کوئی مخالف تھا نہ موافق بلکہ وہ ایک مردے کی طرح تھا جو صد ہا سال سے قبر میں مدفون ہو تو اب ایسی زندگی کا بطور صفائی ودعویٰ پیش کرنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے ؟؟؟؟
جواب نمبر ۶ (ماں کی نافرمانی )
’’ بیان کیامجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت نے والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ بتایا کہ یہ لے لو حضرت نے فرمایا کہ نہیں میں یہ نہیں لیتا انہوں نے کوئی اور چیز بتائی حضرت صاحب نے اس پر بھی وہی جواب دیا وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھالو حضرت روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں ایک لطیفہ ہوگیا۔‘‘(سیرۃ المہدی حصہ اول ص۲۴۵روایت ۲۴۵)
ہر عقل مند بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ مرز کی ماں کا مقصود ہر گز یہ نہیں تھا کہ تم سچ مچ راکھ ہی سے روٹی کھاؤ بلکہ بطور زجر کہا گیا تھا اور جہاں اس حوالہ سے مرزا صاحب کی بے وقوفی ثابت ہورہی ہے وہاں مرزا صاحب کی ماں کی نافرمانی بھی ثابت ہورہی ہے ۔ اب بتائیے کوئی نبی اپنی ماں کی نافرمانی کرسکتا ہے ؟ اور وہ بھی معروف کام میں۔
جواب نمبر ۷
’’ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے داد ا کی پنشن وصول کرنے گئے تو اما م دین پیچھے پیچھے چلا گیا ۔ جب آپ نے پنشن وصول کرلی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا ور ادھر اُدھر پھراتا رہا پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کرلیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا ۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے گھر واپس نہیں آئے ……الخ ۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص۴۳ روایت نمبر۴۹)
واضح ہوکہ مرزاکی عمر اس وقت ۲۴؍۲۵ سال تھی کیونکہ پیدائش( حسب تحریر کتاب البریہ ص۱۴۶) ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء ہے اور تاریخ ملازمت (حسب تحریر سیرۃ المہدی ص۱۵۴) ۱۸۶۴ء ہے ۔ نیز واضح ہوکہ یہ پنشن کی رقم معمولی رقم نہ تھی بلکہ سات صد روپیہ تھی جو آج کل کے ساتھ لاکھوں کے برابر ہوسکتی ہے ۔
اب مرزا صاحب کی عمر کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اتنی خطیر رقم کو بھی ذہن میں رکھتے ہو ئے خط کشیدہ الفاظ پر غور فرمائیں کہ آخر اتنی رقم کہاں کہاں خرچ ہوئی ؟ کیا حضرت صاحب اس وقت بچے تھے کہ امام دین آپکو بہلا پھسلا کر اور دھوکہ دے کر کہیں اور لے گیا اور ادھر اُدھر پھرانے کا کیا مطلب ہے ؟ اگر مرزا صاحب اتنے بھولے اور چھوٹے تھے تو گھر والوں نے اتنی بڑی رقم لینے کیلئے انہیں کیوں بھیجا؟ ذرا غور فرمائیں کہ یہ لفظ کہاں کہاں کی غمازی کرتا ہے ؟پھر سوچیں کہ یہ روپیہ کوئی نیک کام میں خرچ نہیں ہوا بلکہ ’’ اڑایا گیا ‘‘ اور اڑانا وہاں ہی بولا جاتا ہے جہاں کار خیر نہ ہو۔
باہر جانا اصطلاح ہے جو آوارہ آدمی اپنے گھر پر قناعت نہیں کرتے وہ ادھر ادھر جاتے ہیں۔ اور کوئی نوجوان بدکاری کا عادی ہو تو کہتے ہیں”فلاں شخص باہر جاتا ہے“۔
بعض مرزائی جواب دیتے ہیں کہ یہ 700 روپے کنجریوں کے ہاں آنے جانے میں نہیں لگے تھے بلکہ مرزا صاحب نے عدالت کو جرمانے میں ادا کیے تھے اور سات سو روپے جرمانہ آپ کو مولانا کرم الدین ضلع جہلم کے دائر کیس میں ہوا تھا تو مرزا صاحب نے یہ روپے وہاں دیے تھے ادھر ادھر صرف نہیں کیے۔
یہ جواب غلط ہے مولانا کرم الدین کے کیس میں امام الدین کا ذکر نہیں ملتا مگر پینشن کے کیس میں امام الدین آپ کو ادھر ادھر پھراتا رہا۔ یہ رقم شرمناک کاموں کے سوا اور کہیں صرف نہیں ہوئی۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے مرزا غلام سؤروں کے شکار کے لیے ادھر ادھر گھومتے رہے ہوں تاکہ ان پر یہ پیشگوئی پوری ہو سکے ' یہ لوگ حیران ہو کر کہیں گے کہ یہ کیسا مسیح ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے اور باہر سؤروں کا شکار کھلتا پھر رہا ہے۔(سیرت المہدی سوم صفحہ۲۹۲)
بات کے شروع میں مرزا صاحب کی جوانی کا ذکر ہے۔ جوانی کا ذکر کر کے ادھر ادھر گھومنا کیا معٰنی رکھتا ہے؟(اور مرزا کے شوخ مزاج ہونے پر عدالت بھی گواہ ہے) اگر یہ کوئی شرمناک حرکات نہ تھی اس کے آخر میں مرزا صاحب کو شرم آنے کا بیان کیوں ہے؟ معلوم ہوا کہ واقعی ہی ان سے شرم ناک کام واقع ہوے تھے۔ پھر یہ واقع ایسا ہے کہ اسے صرف مرزا غلام کی بیوی ہی بیان کرتی ہے۔ ظاہر ہے عورتیں اپنے خاوندوں کی “اس قسم” کی حرکات کا بہت خیال رکھتی ہیں۔
ہم مرزائیوں سے سوا ل کرتے ہیں کہ آپ اس سات صد روپے کا حساب دیں کہ کہاں خرچ ہوا؟ بصورت دیگر آپ کے نبی کی عصمت باقی نہین رہتی اور آپ کا دعویٰ باطل ہو جاتا ہے کہ مرزا صاحب کی نبوت سے قبل کی زندگی بالکل بے داغ تھی۔
۔جواب نمبر ۸
نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے اپنے گھر کے آدمیوں کو بلا کر ان کے سامنے اپنی صفائی کا اعلان کیاانہوں نے یک زبان جوکر اعلان کیا کہ ’’ جربنا ک مرار فما وجدنا فیک الا صدقا ‘‘ یعنی ہم نے آپ کو بار بار آزمایا پس ہم نے تجھ میں سچائی کے سوا کچھ نہیں پایا۔ اس کے برعکس مرزا قادیانی اپنی صفائی میں مولوی محمد حسین پیش کرتا ہے جو کہ کچھ تھوڑا عرصہ اس کے ساتھ رہا تھا حالانکہ وہ مرزا قادیانی کے شہر کا رہنے والا بھی نہ تھا۔ حضور اکرم ﷺ کی صفائی تو آپکے قبیلے کے سردار ابوسفیان نے ہر قل بادشاہ کے سامنے اسوقت پیش کی تھی جبکہ ابھی انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا جو آپ کی رفیقہ حیات تھیں انہوں نے آپ کی پہلی زندگی کی صفائی پیش کی ، جبکہ آپ کی طرف پہلی دفعہ جبرائیل امین آئے تھے اور آپ ﷺ کی آخری زندگی کی صفائی حضرت عائشہ صدیقیہ رضی اﷲ عنہا پیش کررہی ہیں فرماتی ہیں ’’ کان خلقہ القرآن ‘‘ آپ کا اخلاق قرآن ہے ۔
اب مرزاقادیانی کی بیویوں کی گواہی و حالت سنیں ، مرزا قادیانی اپنی پہلی بیوی فضل احمد اور سلطان احمد کی ماں المعروف ’’ پھجے دی ماں ‘‘ سے فضل احمد کی پیدائش کے بعد تقریباً ۳۳ سال عملاً مجرد رہا نہ اسے طلاق دی اور نہ ہی اسے بیوی کی طرح بسایا بلکہ عملاً مجرد رہ کر آیت کریمہ ولا تذروھا کالمعلقۃ کی صریح مخالفت کی اس طرح عاشرو ھن بالمعروف ولا تمیلوکل المیل کی بھی صریح مخالفت ہوئی ۔
حوالہ نمبر ۱: ’’ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ۔ حافظ نور محمد متوطن فیض اﷲ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئی دفعہ فرمایاکرتے تھے کہ سلطان احمد (مرزا سلطان احمد صاحب ) ہم سے سولہ سال چھوٹا ہے اور فضل احمد بیس برس اور اس کے بعد ہمارا اپنے گھر سے کوئی تعلق نہ رہا ۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ ۲ ص۶۳روایت۳۸۲)
حوالہ نمبر ۲: ’’ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اوائل سے ہی مرزا فضل احمد کی والدہ جن کو لوگ عام طور پر ’’ پھجے دی ماں ‘‘ کہا کرتے تھے بے تعلقی سی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتہ داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کاان کی طرف میلان تھاا ور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں اسلئے حضرت مسیح موعود نے ان سے مباشرت ترک کردی تھی ۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص۳۳ روایت ۴۱)
اس حوالہ کی چند سطور کے بعد لکھا ہے ’’ حتی کہ محمدی بیگم کا سوال اٹھا اور آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کرکے محمدی بیگم کانکاح دوسری جگہ کرا دیا اور فضل احمد کی والدہ نے (مرزا کی دوسری بیوی ) ان سے قطع تعلق نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ رہیں تب حضرت صاحب نے ان کو طلاق دی ۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص۳۴ روایت ۴۱)
نوٹ ﴾ مرزا نے دوسری شادی نصرت جہاں بیگم سے ۱۸۸۴ء میں کی تھی اور پھجے کی ماں کو ۱۸۹۲ء میں طلاق دی تھی اور ۱۸۹۲ء میں محمدی بیگم کا نکاح سلطان احمد سے ہوا۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دلیل ثانی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ’’ ولو تقول علینا بعض الاقاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین ‘‘ ۔ اگر محمد مصطفی ﷺ مجھ پر کوئی جھوٹا افترا باندھیں میں ان کی شہ رگ کاٹ کر ہلاک کردیتا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر مرزا قادیانی خدا تعالیٰ پر جھوٹا افترا کرتا تھا تو اسے ۲۳ سال کے اندر اند رہلاک کردیا جاتا اور اسکی شہ رگ کاٹ دی جاتی کیونکہ نبی اکرم ﷺ دعویٰ نبوت کے بعد ۲۳ سال تک بقید حیات رہے ۔
جواب نمبر۱
اس آیت کا سیاق وسباق دیکھیں تو بات واضح ہوجائے گی کہ اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشادکسی قاعدہ کلیہ کے طور پر نہیں بلکہ یہ قضیہ شخصیہ ہے اور صرف حضور ﷺ کے متعلق یہ بات کہی جارہی ہے اور یہ بھی اس بنا ء پر کہ بائبل میں موجود تھا کہ اگر آنے والا پیغمبر اپنی طرف سے کوئی جھوٹا الہام یا نبوت کا دعویٰ کرے تووہ جلد مارا جائے گا :’’میں ان کیلئے ان ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جوکچھ اسے حکم دوں گا وہی ان سے کہے گا اور جوکوئی میری باتوں کو جن کو وہ میرانام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب ان سے لوں گا لیکن جو نبی گستاخ بن کرکوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے تو ہ نبی قتل کیا جائے ‘‘(کتاب استثناء ۱۸ تا ۲ )
جواب نمبر۲
اگر مرزاقادیانی اوراس کے متبعین کے اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو کئی سچے نبی نعوذ باﷲ جھوٹے بن جائیں گے اورکئی جھوٹے نبی سچے ہوجائیں گے ۔
حضرت یحیٰ اور ان کے علاوہ کئی اور اسرائیلی پیغمبر بہت تھوڑی عمر میں یعنی ۲۳ سال کی مدت کے اندر اندر شہید کردیے گئے ۔ مرزا کے اصول کے مطابق یحیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاء جو ۲۳ سال کے اندر شہید ہوئے وہ جھوٹے بن جائیں گے نعوذ باﷲ اور کئی جھوٹے نبی سچے ہوجائیں گے جیسے بہاؤاﷲ ایرانی جو دعویٰ نبوت کے چالیس سال بعد تک زندہ رہا ، مرزا قادیانی کے اس اصو ل کے مطابق بہاؤاﷲ جو صاحب شریعت نبی ہونے کا مدعی تھا سچا ثابت ہورہا ہے حالانکہ مرزا ئی اس کو جھوٹا مانتے ہین ۔ بہاؤاﷲ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ۱۲۶۹ھ میں کیا تھا اور ۱۳۰۹ھ تک زندہ رہا تو اسکی بعد ازدعویٰ نبوت زندگی چالیس سال بنتی ہے ۔(کتاب الفرائد بہائیوں کی کتاب ص۲۵،۲۶ اور الحکم ۲۴ أکتوبر ۱۹۰۴ ص۴)
جواب نمبر ۳
مرز اقادیانی اپنی دلیل کی رو سے بھی جھوٹا ثابت ہوتا ہے اس کا دعویٰ نبوت اگر چہ محل نزاع ہے کیونکہ اس کے ماننے والے دوجماعتوں میں منقسم ہیں لاہوری گروپ اس کو نبی نہیں تسلیم کرتا اور نہ اس کادعویٰ نبوت مانتا ہے اس کے برعکس قادیانی گروپ اس کو نبی مانتا ہے لیکن ان کی تحقیق یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے دعوائے نبوت ۱۹۰۱ء میں کیا ہے اور مرزا قادیانی کی موت ۱۹۰۸ء میں ہوئی ۔ لہذا ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی اپنی دلیل کیمطابق بھی جھوٹا ہے کیونکہ وہ ۲۳ سال کی مدت کے اندر ہیضے سے ہلاک ہوا ۔
جواب نمبر۴
بالفرض اگر یہ قانون عام بھی تسلیم کرلیاجائے تو سچے نبیوں کے متعلق ہو گا جھوٹے نبیوں کو مہلت مل سکتی ہے فرعون و نمرود جنہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا ان کو بھی مہلت ملی اور جب مرزا کا دیگر دلائل سے جھوٹا ہو ناثابت ہوگیا تو ان پر یہ قانون نہ لگے گا پہلے مرزا کے سچا نبی ہونے کا ثبوت پیش کرو۔
مرزا ئی عذر
مرزا پر جب علما ء نے اعتراض کیا کہ بعض ایسے مفتری بھی ہیں جو ۲۳ سال کے اندر اندر ہلاک نہ ہوئے جیسے اکبر بادشاہ اور روشن دین جالندھری وغیرہ ۔ اگر ۲۳ سال کے اندر ہلاک ہونا ضروری ہے تو یہ حضرات جنہوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے کیے تھے ۲۳ سال کے اندر اندر ہلاک کیوں نہ ہوئے ؟
تو مرزا قادیانی نے اس کا یہ جواب دیا کہ جن جھوٹوں کے آپ نام پیش کرتے ہیں آپ ثابت کریں کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ بھی کیا ہو اور اپنے پر وحی نازل ہو نیکا بھی دعویٰ کیا ہو پھر وہ ۲۳ سال تک زندہ رہے ہوں ۔ کیونکہ ہماری تمام تر بحث وحی نبوت میں ہے ۔ مطلق دعوے میں نہیں ۔
’’ اس مقام سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیاجاتا ہے اب اس کے مقابل یہ پیش کرنا کہ اکبر بادشاہ نے نبوت کا دعویٰ کیا یا روشن دین جالندھری نے دعویٰ کیا یا کسی اور شخص نے دعویٰ کیا اور وہ ہلاک نہیں ہوئے یہ دوسری حماقت ہے جو ظاہر کی جاتی ہے بھلا اگریہ سچ ہے کہ ان لوگوں نے نبوت کے دعوے کیے اور ۲۳ برس تک ہلاک نہ ہوئے تو پہلے ان لوگوں کو خاص تحریر سے ان کا دعویٰ ثابت کرنا چاہیے اور وہ الہام پیش کرنا چاہیئے جو الہام انہوں نے خدا کے نام پر لوگوں کو سنایا یعنی یہ کہا کہ ان لفظوں کے ساتھ میرے پر وحی نازل ہوئی ہے کہ میں خد اکا رسول ہوں اصل لفظ ان کی وحی کے کامل ثبوت کے ساتھ پیش کرنے چاہیے کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے ۔‘‘(ضمیمہ اربعین۳،۴ ص۱۱،روحانی خزائن ص۴۷۷ ج۱۷ ،ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۴ تا ۶ روحانی خزائن ص۴۲،۴۴ ج۱۷ )
الجواب
یہ عبارت ہمارے حق میں ہے کیوں کہ اگر تمام بحث وحی نبوت میں مانی جائے تو مرزا نے ۱۹۰۱ء مین دعویٰ کیا اور ۱۹۰۸ء میں مرگیا اور اس اپنی تحریر سے اس کے کذب پر مہر لگ گئی۔
؂ الجھا ہے پاؤں یا ر کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دلیل ثالث

پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا کہ مہدی کی نشانی یہ ہے کہ اس کے زمانہ میں رمضان المبارک کے مہینہ میں چاند اور سورج گرہن ہوگا یہ نشان مرزا قادیانی پر پورا ہوتا ہے جس سے ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی حدیث نبوی کے مطابق سچا مہدی ہے ۔
جواب
قادیانی جس روایت کو حدیث نبوی بنا کر پیش کرتے ہیں یہ سراسر جھوٹ ہے ،پیغمبر خدا پر بہتان عظیم ہے اورصریح دھوکہ ہے ۔ یہ حدیث رسول نہیں بلکہ اما م محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے (بلکہ یہ بھی ثابت نہیں کہ یہ امام باقر رحمۃ اللہ علیہ کا ہے) جو دار قطنی نے اپنی کتا ب میں نقل کیا ہے ۔
اما م محمد باقر کا یہ قول سند کے لحاظ سے انتہائی ساقط اور مردود ہے یہ قول مع سند یوں ہے: ’’ عن عمر و بن شمر عن جابر عن محمد بن علی قال ان لمھدینا آیتین لم تکونا منذ خلق اﷲ السموات والارض تنکسف القمر لاول لیلۃ من رمضان وتنکسف الشمس فی النصف منہ ولم تکونا منذ خلق اﷲ السموات والارض ‘‘ (دار قطنی ج۱ص۸۸)
اس عبارت میں پہلا راو ی عمر و بن شمر ہے جس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ ’’ لیس بشئی زائغ ، کذاب،رافضی ،یشتم الصحابۃ ویروی الموضوعات عن الثقات ، منکر الحدیث ،لایکتب حدیثہ ، متروک الحدیث۔ ‘‘علامہ شمس الدین ذہبی جو فن رجال کے امام ہیں وہ اس راوی کی مذمت میں نو جملے لکھتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس راوی کی روایت ہر گز قابل اعتبا رنہیں ۔
دوسرا راوی ہے جابر ، اس نام کے بہت سے راوی ہیں جن میں ایک جابر جعفی ہے جس کے متعلق اما م ابو حنیفہ رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے جس قدر جھوٹے لوگ ملے ہیں جابرجعفی سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں ملا۔
تیسرا راوی محمد بن علی ہے اس نام کے بہت سے راوی گذرے ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں کہ ا س محمد بن علی سے مراد محمد باقر ہی ہوں ۔ کیونکہ عمرو بن شمر کی عادت تھی ’’یروی الموضوعات عن الثقات‘‘ کہ وہ موضوع روایت ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرکے روایت کیا کرتا تھا ۔ جس روایت کی سند کا یہ حال ہووہ کیسے قابل حجت ہوسکتی ہے ۔
بفرض محال اگر اسے امام محمد باقر کا صحیح قول مان لیا جائے تو مرزا قادیانی پھر بھی جھوٹا ہے کیونکہ مرزا قادیانی کے زمانہ میں رمضان کی جن تاریخوں میں یہ گرہن لگا تھا وہ اس قول کے مطابق نہیں ہے ۔ مرزا قادیانی کے زمانہ میں رمضان کی تیرہ تاریخ کو چاند گرہن اور اٹھائیس تاریخ کو سورج گرہن لگا تھا ۔ حالانکہ اس قول کے مطابق مہدی کی نشانی یہ ہے کہ اس زمانہ میں چاند گرہن رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو اور سورج گرہن پندرہ تاریخ کولگے گا۔
مرزائی عذر
قانون قدرت یہ ہے کہ چاند گرہن ہمیشہ تیرہ ،چودہ ،پندرہ چاند کی تاریخوں میں سے کسی ایک تاریخ میں لگتا ہے اور سورج گرہن چاندکی ستائیس ، اٹھائیس اور انتیس میں سی کسی ایک تاریخ کولگتا ہے ۔ آج تک چاند کی پہلی تاریخ میں چاند گرہن اورپندرہ تاریخ میں سورج گرہن نہیں لگا۔ لہذا امام محمد باقر ؒکے قول میں لاول لیلۃ من رمضان سے مراد گرہن کی ان راتوں میں سے پہلی رات یعنی تیرھویں کی رات مراد ہے اور فی النصف منہ سے مراد سورج گرہن کی تین تاریخوں میں سے درمیانی تاریخ یعنی اٹھائیس مراد ہے اور مرزا صاحب کے زمانہ میں رمضان کی تیرہ کو چاند گرہن اور اٹھائیس کو سورج گرہن لگا تو یہ گرہن امام محمد باقرؒ کے قول کے مطابق ہوگیا۔
جواب نمبر ۱
روایت کے الفاظ اس بے ہودہ تاویل کے ہر گز متحمل نہیں ہوسکتے ۔آپ نے فرمایا ’’اول لیلۃ من رمضان ‘‘ نہ کہ ’’ اول لیلۃ من لیالی الکسوف ‘‘ ۔تیرہ رمضان کو کوئی احمق بھی اول رمضان نہیں کہتا اور نہ ہی ’’ فی النصف منہ ‘‘ سے مراد اٹھائیس تاریخ مراد لی جاسکتی ہے۔ اٹھائیس تاریخ ،ستائیس،اٹھائیس ،انتیس تاریخوں میں درمیانی کہلا سکتی ہے ان تاریخوں کی نصف نہیں ہوسکتی ، اور نہ ہی کوئی احمق اٹھائیس تاریخ کو نصف رمضان کہہ سکتا ہے ۔
جواب نمبر۲
مرزا قادیانی کی یہ تاویل اس لئے بھی باطل ہے کہ اس قول میں دو مرتبہ یہ جملہ آیا ہے کہ ’’ لم تکونا منذ خلق اﷲ السموات والارض ‘‘ یعنی ہمارے مہدی کے یہ دونشان ایسے ہوں گے کہ جب سے آسمان وزمین بنے ہیں تب سے ایسے نشان ظاہر نہیں ہوئے ہوں گے ۔
یہ قول اسی صور ت میں صحیح ہوسکتا ہے کہ جب اسے ظاہری الفاظ کے مطابق رکھا جائے ، اول لیلۃ سے یکم رمضان اور نصف منہ سے پندرہ رمضان مراد لی جائے کیونکہ جب سے آسمان وزمین بنے ہیں ان تاریخوں میں چاند اور سورج کا بھی گرہن نہیں لگا ۔ تیرہ رمضان کو چاند گرہن اور اٹھائیس رمضان کو سورج گرہن مرزا قادیانی سے قبل ہزاروں مرتبہ لگ چکا ہے مرزا سے قبل ۴۵ سال کے عرصہ میں تین مرتبہ رمضان کی انہی تاریخوں میں گرہن لگ چکا ہے ۔ مسٹر کیتھ کی کتاب ’’ ویوز آف دی گلوبز ‘‘ اور ’’ حدائق النجوم ‘‘ میں اٹھارہ سو ایک سے لے کر ۱۹۰۰ تک ایک صدی کے گرہنوں کی فہرست دی گئی ہے جس میں سے ۴۵ سالوں کی فہرست اس کتاب یعنی’’ شہادت آسمانی ‘‘ مولفہ مولا ناسید ابو احمد رحمانی میں صفحہ ۱۵ سے ۲۲ تک درج ہے ۔
٭ایک اہم قاعدہ ٭
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی ۲۷ ویں جلد میں گرہن کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سات سو تریسٹھ برس پہلے سے ۱۹۰۱ء تک کا تجربہ لکھا ہے جس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ہر ثابت شدہ یامانا ہوا گہن ۲۲۳ برس قبل اور بعد اس قسم کا گہن ہوتا ہے یعنی وہ مانا ہوا گہن جس وقت اور جس مہینہ میں جس طور کا ہوگا ۲۲۳ بر س سے قبل اور بعد بھی ان ہی خصوصیات کے ساتھ ویسا ہی دوسرا گہن ہوگا اب اس حساب کی روشنی میں آپ غور کریں جب ۱۲۶۷ھ سے ۱۳۱۲ھ تک چھیالیس بر س میں تین مرتبہ گرہنوں کا اجتماع رمضان کی تیرہ اور اٹھائیس کو ہوا، اس قاعدے کو جاری کرکے دیکھا جائے کہ کس وقت میں گرہنوں کا اجتماع رمضان کی تیرہ اور اٹھائیس کو ہوا ہے ۔ ذیل میں اس کا حساب پیش کرکے چند مدعیوں کے نام جو میرے علم میں ہیں پیش کئے جاتے ہیں اس واقع میں کتنے ہوئے ہیں اس سے زیادہ ماہرین تاریخ جان سکتے ہیں ۔
(۱) ۱۱۷ ھ مطابق ۷۳۶ء رمضان کی تیرہ اور اٹھائیس تاریخوں کو گرہن لگا اور اس وقت ظریف نامی بادشاہ مدعی موجود تھا یہ صاحب شریعت نبی ہونے کا مدعی تھا ۱۲۶ھ میں مرا تو اس کا بیٹا صالح بادشاہ ہوا۔
(۲) ۳۴۶ھ مطابق ۹۵۹ء رمضان کی انہی تاریخوں میں گرہن لگااس وقت ابو منصور عیسیٰ مدعی نبوت موجود تھاتفصیل کیلئے کتاب ’’دوسری شہادت آسمانی ص ۸۳،۸۴‘‘ ملاحظہ فرمائیں ۔دوسرے نقشے کے مطابق پہلا گرہن ۱۶۱ھ مطابق ۷۷۹ء رمضان کی انہی تاریخوں میں لگا۔ اس وقت صالح نامی مدعی نبوت موجود تھا اور اس صالح کے زمانہ میں مرزا قادیانی کی طرح دو مرتبہ رمضان کی ان تاریخوں میں گرہن لگا ہے یعنی ۱۶۱ھ اور۱۶۲ھ کا ظہور ہندوستان میں نہ ہوا بلکہ امریکہ میں ہوا اس وقت مسٹر ’ڈوئی‘ وہاں مسیح موعود ہونے کا جھوٹا مدعی تھا۔
(۳) اس کے بعد ایک گرہن ۱۶۲ھ مطابق ۷۸۰ء میں لگا جس میں صالح مدعی تھا اور دوسراگرہن ۱۳۱۲ھ مطابق ۱۸۹۵ء میں لگا جس میں مرزا قادیانی جھوٹا مدعی نبوت تھا۔
اس نقشہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ۴۵ سال میں سورج گرہن اور چاند گرہن تین مرتبہ رمضان المبارک میں اکٹھے لگے ، تاریخیں حسب ذیل ہیں :
پہلا اجتماع ﴾ پہلا چاند گرہن ۱۳ رمضان ۱۲۶۷ ھ مطابق ۱۳ جولائی۱۸۵۱ء اورسورج گرہن ۲۸ جولائی ۱۸۵۱ء مطابق ۲۸ رمضان ۱۲۶۷ھ کو لگا۔
دوسرا اجتماع ﴾ چاند گرہن ۲۱ مارچ ۱۸۹۴ء مطابق۱۳ رمضان ۱۳۱۱ھ، سورج گرہن ۶ أپریل۱۸۹۴ء مطابق ۲۸ رمضان ۱۳۱۱ھ
تیسرااجتماع﴾ چاند گرہن ۱۱ مارچ ۱۸۹۵ء مطابق ۱۳ رمضان ۱۳۱۲ھ اور سورج گرہن ۲۶ مارچ ۱۸۹۵ء مطابق ۲۸ رمضان۱۳۱۲ھ۔
واضح رہے کہ ان ۴۵ سالوں میں صرف مرزا قادیانی ہی نہیں بلکہ اور بھی مسیح یا نبی ہونے کے مدعی موجود تھے جس کی تفصیل کتاب ’’ دوسری شہادت آسمانی ‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
﴿خلاصہ بحث﴾
ہر ایک ذی علم سمجھتا ہے کہ اگر اس اجتماع کو نشان قرار دیا جائے گا تو صرف ایک نشان ثابت ہوگا اور حدیث میں نہایت صاف طور سے دونشانوں کی پیش گوئی کی گئی ہے اور ہر ایک نشان کو بے نظیر کہا ہے ۔ اس لئے اگر ۱۳ اور ۲۸ رمضان کو گہن ہونا نشان ہے تو حدیث کے بموجب ہر ایک گہن کونشان ہونا چاہیے اور ہر ایک کو بے نظیر ہونا چاہیے مگر مذکورہ فہرست سے ظاہر ہے کہ ۹۰ برس کے عرصہ میں چاند گرہن رمضان کی ۱۳ تاریخ کوپانچ مرتبہ یعنی ۱۲۶۳ھ،۱۲۶۷ھ،۱۲۹۱ھ،۱۳۱۰ھ،۱۳۱۱ھ،۱۳۱۲ھ ہوا ہے ۔ اور سورج گرہن اٹھائیس رمضان کو ۴۶ برس میں چھ مرتبہ ہو ا ہے ، اور ان دونوں کا اجتماع ان تاریخوں میں تین مرتبہ ہوا۔پھر کیا ایسے ہی گہن نشان و معجزہ ہو سکتے ہیں ؟ ذرا ہوش کرکے جواب دو۔ ( دوسری شہادت آسمانی ص۱۴ برحاشیہ ۲)
2z5okr8.jpg
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴿متفرقات﴾

پاپی مسیح
(۱) بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ میں گھر میں آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا(چینی ) اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی بس پھر کیاتھا میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص۲۴۴ روایت نمبر ۲۴۴)
(۲) براہین احمدیہ کی ابتدا میں مرزا کے ایک مرید معراج الدین عمر مرزائی نے مرزا صاحب کے حالات لکھے ہیں لکھتا ہے : ’’ اگر کبھی اتفاق سے ان سے (مرزا کے والد سے ) کوئی دریافت کرتا کہ مرزا غلام احمد کہاں ہے تو وہ یہ جواب دیتے کہ مسجد جاکر سقاوہ کی ٹونٹی میں تلاش کرو اگر وہاں نہ ملے تو مایوس ہو کر واپس مت آنا مسجد کے اندر چلے جانا اور وہاں کسی گوشہ میں تلاش کرنا اگر وہاں بھی نہ ملے تو پھر بھی ناامید ہو کر مت لوٹ آنا ۔ کسی صف میں دیکھنا کہ کوئی اسکو لپیٹ کر کھڑا کرگیا ہوگا کیونکہ وہ تو زندگی میں مرا ہوا ہے اور اگر کوئی اسے صف میں لپیٹ دے تو وہ آگے سے حرکت بھی نہیں کرے گا آپ کوشیرینی سے بہت پیار ہے اور مرض بول بھی عرصہ سے آپ کو لگا ہوا ہے اس زمانہ میں آپ مٹی کے ڈھیلے بعض وقت جیب میں رکھتے تھے اور اسی جیب میں گڑ کے ڈھیلے بھی رکھ لیا کرتے تھے اس قسم کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ آپ کو اپنے یار ازل کی محبت میں ایسی محویت تھی کہ جس کے باعث سے اس دنیا سے بالک بے خبر ہورہے تھے ۔ (سیرۃ المہدی حصہ اول ۲۱۱ روایت۱۸۱)
(۳) ایک دفعہ کوئی شخص آپ کیلئے گرگابی لے آیا اور آپ نے پہن لی مگر اسکے الٹے سیدھے پاؤں کا پتہ نہیں چلتا تھا کئی دفعہ الٹا پہن لیتے تھے ۔ والدہ صاحبہ فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے واسطے الٹے سیدھے پاؤں کی شناخت کیلئے نشان لگادیے تھے باوجود اسکے آپ الٹے سیدھے پہن لیتے تھے ۔ (سیرۃ المہدی ص۶۷ حصہ اول روایت۸۸)
(۴) بارہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہوتے تھے بلکہ صدری کے بٹن کوٹ کے کاجوں میں لگائے گئے دیکھے گئے ۔(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۱۲۶ روایت ۴۴۴)
(۵)
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اسکی ایڑی پاؤں کے تلوے کی بجائے اوپر کی طرف ہوجاتی تھی اور بار ہا ایک کاج کابٹن دوسرے کاج میں لگا ہوتا تھا آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں پاؤں دائیں میں اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھاکہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھا رہے ہیں جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجاتا ۔ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۵۸ روایت ۳۷۵)
(۶)
مگر بار ہا جراب اسطرح پہن لیتے کہ پیر پر سر آگے لٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آجاتی کبھی ایک جراب سیدھی اور دوسری الٹی اگر ایک جراب کہیں سے پھٹ جاتی تو بھی مسح جائز رکھتے ، جوتی اگر تنگ ہوتی تو ایڑی پھٹا لیتے ۔(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۱۲۷ روایت۴۴۴)
مرزائی عذر

مرزائی ان روایات کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ ان کی سادگی پر دلالت کرتی ہیں۔
اب ذرا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کس قد ر ماہر تھا۔
’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ صاحب سنوری نے کہ مدت کی بات ہے کہ جب میاں ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی پہلی بیوی فوت ہوگئی اور ان کو دوسری بیوی کی تلاش ہوئی تو ایک دفعہ حضرت صاحب نے ان کو کہا کہ ہمارے گھر میں دولڑکیاں رہتی ہیں میں ان کولاتا ہوں آپ ان کو دیکھ لیں پھر ان میں سے جو آپ کو پسند ہو اس سے آپ کی شادی کردی جائے ۔ چنانچہ حضرت صاحب گئے ان دولڑکیوں کو بلا کر کمرہ کے باہر کھڑا کردیا اور پھر اندر آکر کہا کہ وہ باہر کھڑی ہیں آپ چک کے اندر سے دیکھ لیں چنانچہ میاں ظفر احمد صاحب نے ان کو دیکھ لیا پھر حضر ت صاحب نے ان کو رخصت کردیا اس کے بعد میاں ظفر صاحب سے پوچھنے لگے کہ آپ کو کون سی لڑکی پسند ہے وہ نام تو کسی کا جانتے نہیں تھے اس لیے انہوں نے کہا کہ جس کا منہ لمبا ہے وہ اچھی ہے اس کے بعد حضرت صاحب نے میری رائے لی میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے تو نہیں دیکھا پھر خود فرمانے لگے کہ میرے خیال میں تو دوسری لڑکی بہتر ہے جس کا منہ گول ہے پھر فرمایا جس شخص کا چہرہ لمبا ہوتا ہووہ بیماری وغیرہ کے بعد عموماً بدنما ہوجاتا ہے لیکن گول چہرہ کی خوبصورتی قائم رہتی ہے ۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص۲۵۹ روایت نمبر ۲۶۸)
۔غیر محرم عورتیں اور مرزاقادیانی
تصویر کا ایک رخ
(۱)ہمارے سید مولیٰ افضل الانبیاء خیر الاصفیا ء محمد مصطفی ﷺ کا تقویٰ دیکھئے کہ وہ ان عورتوں کے ہاتھ سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے جو پاک دامن اور نیک بخت ہوتی تھیں اور بیعت کیلئے آتی تھیں بلکہ دور ہی بٹھا کر تلقین توبہ کرتے تھے ۔(نورالقرآن ۲ ص۷۴ روحانی خزائن ص۴۴۹ ج۹)
(۲) بسم اﷲ الرحمن الرحیم مولوی شیرعلی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود سے عرض کیا کہ میرے ساتھ شفاخانہ میں ایک انگریز لیڈی کام کرتی ہے وہ ایک بوڑھی عورت ہے وہ کبھی کبھی میرے ساتھ مصافحۃ کرتی ہے اس کے متعلق کیا حکم ہے ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ تو جائز نہیں ہے آپ کو عذر کردینا چاہیے کہ ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں۔(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۷۶ روایت ۴۰۱)
(۳) عورتوں کو چا ہیے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چراویں اور نا محرم سے اپنے تئیں بچاویں اور یاد رکھناچاہیے کہ بغیر خاوند اور لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جتنے مرد ہیں ان سے پردہ کرنا ضروری ہے ۔(تبلیغ رسالت ج۱ص۴۰ ، مجموعہ اشتہارات ص۶۹ج۱)
(۴) یہ اسلا م کی اعلیٰ تعلیم کا ایک نمونہ ہے کہ ہر گز قصداً کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھو کہ یہ بد نظری کا پیش خیمہ ہے ۔(نورالقرآن نمبر۲ص۷۲ مطبوعہ الشرکہ الاسلامیہ چناب نگر(ربوہ) روحانی خزائن ص۴۴۸ج۹)
تصویر کا دوسر ارخ
(۱) اس سلسلہ میں اس سے قبل ایک حوالہ گذر چکا ہے گول منہ والی اور لمبے منہ والی لڑکی ۔
(۲) ’’ مائی رسول بی بی صاحبہ بیوہ حامد علی صاحب مرحوم نے بواسطہ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں مَیں اور اہلیہ بابوشاہ دین رات کا پہرہ دیتی تھیں اور حضرت صاحب نے فرمایا ہوا تھا کہ اگر میں سوتے میں کوئی بات کیا کروں تو مجھے جگا دیا کرو ۔ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے آپ کی زبان پر کوئی لفظ جاری ہوتے ہوئے سنے اور آپ کو جگا دیا اس وقت رات کے بارہ بجے تھے ان ایام میں عام طور پر پہرہ پرمائی فجو منشیانی اہلیہ منشی محمد دین گوجرانوالہ اور اہلیہ بابو شاہ دین ہوتی تھیں ۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۱۳ روایت ۷۸۶)
(۳) بسم اﷲ الرحمن الرحیم ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھ سے میری لڑکی زینب نے بیان کیاکہ میں تین ما ہ کے قریب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں رہی ہوں ۔ گرمیوں میں پنکھا وغیرہ اور اسی طرح کی خدمت کرتی تھی بسا اوقات ایسا ہوتا کہ نصف رات یا اس سے زیادہ مجھ کو پنکھا ہلاتے گزر جاتی تھی مجھ کو اس اثناء میں کسی قسم کی تھکان اور تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی بلکہ خوشی سے دل بھر جاتا تھا دو دفعہ ایسا موقع پیش آیا کہ عشاء کی نماز سے لے کر صبح کی اذان تک مجھے ساری رات خدمت کرنے کا موقع ملا پھر بھی اس حالت میں مجھ کو نہ نیند نہ غنودگی اور تھکان معلوم ہوتی بلکہ خوشی اور سرور پیدا ہوتا تھا ۔ حضور نے فرمایا کہ زینب اس قدر خدمت کرتی ہے کہ ہمیں اس سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔(سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۷۲ روایت نمبر ۹۱۵)
(۴) بسم اﷲ الرحمن الرحیم ۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت ام المؤمنین نے ایک دن سنایا کہ حضرت صاحب کے ہاں ایک بوڑھی ملازمہ مسماۃ بھانو تھی وہ ایک رات جبکہ خوب سردی پڑرہی تھی حضور کو دبانے بیٹھی چونکہ وہ لحاف کے اوپر سے دباتی تھی اس لیے اسے یہ پتہ نہ لگا کہ جس چیز کو میں دبا رہی ہوں وہ حضور کی ٹانگیں نہیں بلکہ پلنگ کی پٹی ہے تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا بھانو آج بڑی سردی ہے ۔ بھانو کہنے لگی ’’ جی ہاں تدے تے تہاڈی لتاں لکڑی وانگوں ہویاں ہویاں نیں ‘‘ یعنی جبھی تو آپ کی لاتیں لکڑی کی طرح سخت ہورہی ہیں ۔(سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۱۰ روایت ۷۸۰)
(۵) حضور کو مرحومہ کی خدمت(پاؤں دبانے کی ) بہت پسند تھی ۔ حضور نے ایک دفعہ مرحومہ کو دعا دے کر فرمایا اﷲ تجھے اولاد دے ۔ حضور کی دعاسے مرحومہ کے چھ بچے ہوئے ایک لڑکی اور پانچ لڑکے پیدا ہوئے ۔ (الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ء)
﴿نوٹ ﴾
مرحومہ عائشہ نام کی ایک کنواری دوشیزہ تھی جو پندرہ سال کی عمر میں مرزا صاحب کی خدمت میں بھیجی گئی تقریباً دوسال مرزا صاحب کی خدمت میں رہی اور ان کے پاؤں دبایا کرتی تھی بعد میں مرزا صاحب نے اس کی شادی کردی لیکن یہ شرط لگادی کہ اسے قادیان سے باہر نہ لے جایا جائے۔ (الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ء)
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیرو کار کافر کیوں؟


مرزا غلا م احمد قادیانی اور اسکے پیروکاروں کے کفر میں کسی مسلمان کو شک نہیں رہا ۔ پاکستان سمیت دنیا کے تقریباً جمیع مسلم ممالک نے مرزائیوں کے کفر کے احکامات جاری کردیے ہیں اور مسلمان علماء ،فقہا ء تومرزا کے دَور سے مرزائیوں کے کفر کی قلعی کھولتے آرہے ہیں ۔قادیانی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلا م کے نام پر اپنے باطل اور کفریہ عقائد کی تبلیغ اور اشاعت اور امت مسلمہ کے مفادات سے غداری کرتے ہیں اور عالم اسلام میں استعمار اور اسرائیل کی ایجنٹی کا کام سرانجام دیتے ہیں انکی انہی ناپاک سازشوں اور اسلام دشمنی کی بنا ء پر مکہ مکرمہ میں ۱۰ أپریل ۱۹۷۴ء کو پورے عالم اسلام کی ایک سو چار (۱۰۴) تنظیموں کا اجتماع ہوا جس میں دس أپریل ۱۹۷۴ء کو ان تمام تنظیموں کے اجتماع میں ایک مشترکہ قراردا د پا س کی گئی جس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ۔چنانچہ حکومت پاکستان نے بھی ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء قومی اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر رابطہ عالم اسلا می کے فیصلہ کی تائید کی ۔ ذیل میں مختصراً قادیانیوں کے کفر کی چند وجوہات درج کی جاتی ہیں ۔
۱﴾ مرزا کا دعویٰ نبوت
امت مسلمہ کا اس بات پر عہد صحابہ سے آج تک اجتماع چلا آرہا ہے کہ آنحضرت ﷺ اﷲ کے آخری نبی ہیں اورآپ کے بعد مدعی نبوت کا فر ہے ۔ چنانچہ ملاعلی قاری (م۱۰۱۶ھ) شرح فقہ اکبر میں ص۲۰۲ پر لکھتے ہیں ’’ دعوی النبوۃ بعد نبینا ﷺ کفر بالاجماع ‘‘ یعنی اس بات پر امت کا کامل اجماع ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا کفر ہے ۔ اور مرزا نے جس وقت تک دعویٰ نبوت نہیں کیا تھا اس وقت وہ بھی مدعی نبوت کو کافرسمجھتا تھا چنانچہ اپنی کتاب حمامۃ البشریٰ ص۷۹ روحانی خزائن ص۲۹۷ ج۷ پر لکھتا ہے:
’’ وما کان لی ان ادعی النبوۃ واخراج من الاسلام والحق بقوم کفرین ‘‘ ترجمہ : میرا کیا حق ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کروں اور اسلام سے خارج ہوجاؤں اورکفارسے جاملوں ۔
مگر جب مرزا کو اس مقام پر فائز ہونے کا شوق ہوا تو اس وقت نہ اس نے اسلام اور اہل اسلام کا فتویٰ دیکھا اور نہ اپنے ہی گریبان میں جھانک کر دیکھا بلکہ فورا ً کہہ اٹھا کہ :
(۱) میں رسول اور نبی ہوں ۔ (نزول مسیح ص۷روحانی خزائن ص۳۸۱ج۱۸)
(۲) سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان مین اپنا رسول بھیجا۔(دافع البلا ء ص۱۱ روحانی خزائن ۲۳۱ ج۱۸)
(۳) محمد رسول اﷲ والذین معہ اس وحی میں میرا نام محمد رکھا گیا ہے ۔ رسول بھی رکھا گیا ہے ۔ (ایک غلطی کا ازالہ ص۳روحانی خزائن ص۲۰۷ج۱۸)
(۴) اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے ۔(حقیقت الوحی ص۶۸ روحانی خزائن ص۵۰۳ ج۲۲)
۲﴾توہین انبیاء کرام
انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کفر ہے اور یہ کفر ایک بدیہی بات ہے کسی دلیل کا محتاج نہیں ۔ مرزا قادیانی ہی کی زبانی سنیے۔
(۱) اسلام میں کسی نبی کی تحقیر کرنا کفر اور سب پر ایمان لانا فرض ہے۔(چشمہ معرفت ص۱۸روحانی خزائن ص۳۹۰ ج۲۳)
(۲) وہ شخص بڑا ہی خبیث اور مطعون اور بد ذات ہے جو خدا کے برگزیدہ ومقدس لوگوں کو گالیاں دیتا ہے ۔ (البلاغ المبین ص۱۹)
اب مرزا کی طرف سے توہین انبیاء مختصراً ملاحظہ فرماویں ۔
(۱) شیطانی کلمہ کا دخل انبیاء اور رسولوں کی وحی میں بھی پایا جاتا ہے۔ (ازالہ اوہام ج۲ص۶۲۸ روحانی خزائن ۴۳۹ ج۳)
(۲) چار سو انبیا ء کی پیش گوئی جھوٹی نکلی (ازالہ اوہام ص۶۲۹ ج۳ سائیڈ والا ، روحانی خزائن ج ۳ ص ۴۳۹)
(۳) چوہڑہ ،بھنگی اور حرامزادہ بھی نبی اور رسول ہوسکتا ہے ۔(تریاق القلوب ۱۳۳روحانی خزائن ۲۷۹ ج۱۵)
(۴) سورۃ رو م کی پیش گوئی صاف صاف ظاہر کررہی ہے کہ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے اپنے اجتہاد سے پیش گوئی کا محل و مصداق سمجھا تھاوہ غلط نکلا۔ (ازالہ اوہام ج۲ ص۶۸۹ ،روحانی خزائن ص۴۷۲ ج۳)
(۵) خداوند تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو چھپانے کیلئے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ اور تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی ۔(تحفہ گولڑویہ ص۷۰ روحانی خزائن ص۲۰۵ ج۱۷)
(۶) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام ) نے خود اخلاقی تعلیم پر عمل نہیں کیا…… بدزبانی میں اس قدرآگے بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو ولد الحرام تک کہہ دیا ور ہر ایک وعظ میں ہے کہ یہود علماء کو سخت گالیاں دیں ۔ (چشمہ مسیحی ص۱۱ روحانی خزائن ص۳۴۶ ج۲۰)
(۷) یسوع (یعنی حضرت عیسیٰ ) اس لئے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی اور خراب چلن کا ہے ۔ (ست بچن ص۱۷۲ روحانی خزائن ص۲۹۶ ج۱۰)
(۸) حضرت عیسیٰ شراب پیا کرتے تھے شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔ (کشتی نوح ص۶۶ جدید ص۶۵ قدیم حاشیہ روحانی خزائن ص۷۱ ج۱۹)
(۹) آپ (حضرت عیسیٰ) کو گالیاں دینے اور بد زبانی کی اکثر عادت تھی آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی ۔ (حاشیہ انجام آتھم ص۵روحانی خزائن ج ۱۱ ص ۲۸۹)
(۱۰) آپ (حضرت عیسیٰ) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ،تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کاراور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۷ روحانی خزائن ص۲۹۱ ج۱۱)
(۱۱) لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانے میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ شراب نہیں پیتاتھا اور کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملاتھا یا ہاتھوں اور سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوا تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کانام حصور رکھا مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے ۔(دافع البلا ء ص۴ روحانی خزائن ص۲۲۰ ج۱۸)
۳﴾حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع ونزول کا انکار
امت مسلمہ کا چوددہ سو برس سے اجماعی عقیدہ ہے کہ رب العزت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بجسدہ عنصری آسمان پر اٹھا لیا ہے اور قرب قیامت میں ان کا نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کریں گے اور دین اسلام کی تائید کریں گے۔
چنانچہ تفسیر بحرالمحیط ج۲ص۴۷۳ پر مذکور ہے :’’ حیاۃ المسیح بجسمہ الی الیوم و نزولہ من السماء بجسمہ العنصری مما اجمع علیہ الامۃ وتواتر بہ الا احادیث‘ ‘۔ ’’ترجمہ : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس وقت تک زندہ ہونے اور اسی جسم عنصری کے ساتھ نازل ہونے کا عقیدہ ایسا عقیدہ ہے جس پر امت کا اجماع ہے اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔ ‘‘چنانچہ ۱۸۹۲ء تک مرزا کا یہی عقیدہ تھا بلکہ اس نے آیات قرآنیہ سے استدلال کرکے اس عقیدہ کو ثابت کیا ہے مگر جب خود مسیح ابن مریم بننے کا شوق ہوا تو اس عقیقدہ سے منحرف ہو کر یوں گویاہوا:
(۱) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی اور ان کی حیات کا عقیدہ عیسائیوں کی عبارت آرائی اور ان کی اختراع پردازی ہے اور مسلمانوں میں سے جولوگ حضرت عیسیٰ کے اترنے کا گمان کرتے ہیں لاریب انہوں نے حق کی پیروی نہیں کی بلکہ وہ گمراہی کی وادیوں میں سرگرداں ہیں ۔ (تذکرہ ص۳۴۲،۳۴۳)
(۲) یہ کہنا کہ عیسیٰ نہیں مرے سوء ادبی اور شرک عظیم ہے جو عقل ورائے کے خلاف ہے اور نیکیوں کو کھا جانے والی چیز ہے بلکہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح وفات پاگیا ہے اور اپنے اہل زمان کی طرح ہوگیا اور اسکی حیات کا عقیدہ عیسائیوں سے آیا ہو ا ہے (ملخص از ضمیمہ حقیقت الوحی باب الاستفتا ء اردو ترجمہ ص۳۹ روحانی خزائن ص۶۶۰ج۲۲)
(۳) حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں اور ان کا زندہ مع جسم عنصری جانا اور اب تک زندہ ہونا اور پھر کسی وقت مع جسم عنصری زمین پر آنا یہ ان پر تہمتیں ہیں ۔(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ ۵ ص۲۳۰ قدیم ،جدید حصہ ۵ روحانی خزائن ۴۰۶ ج۲۱)
(۴) مگر یہ بات (رفع ونزول عیسیٰ بجسد عنصری ، ناقل) تو بالکل جھوٹا منصوبہ اور یا کسی مراقی عورت کا وہم تھا ۔ (کتاب البریہ حاشیہ ص۲۳۹ روحانی خزائن ص۲۷۴ج۱۳)
۴﴾ حرمت جہاد
آنحضرت ﷺکا فرمان ہے کہ ’’ الجھاد ماض الی یوم القیامۃ ‘‘ جہاد (قرب ) یوم قیامت تک جاری رہے گا۔ یعنی جس وقت تک دنیا میں طاغوتی طاقتیں موجود ہیں اس وقت تک جہاد جاری رہے گا اور جب عیسیٰ کے نزول کے بعد باطل اور طاغوتی قوتیں ختم ہوجائیں گی توپھر جہاد بھی ختم ہوجائے گا کیونکہ جہاد ہوتا ہے کفار اور اہل باطل سے جبکہ اس وقت کفار اور ہل باطل کا خاتمہ ہوجائے گا۔
انگریزوں نے جب ہندوستان پر اپنا طاغوتی قدم رکھا تو مسلم مجاہدین نے ان کا بھر پور مقابلہ کیا جس کے باعث اس کا مستقبل ہندوستان میں خطرے میں پڑ گیا چنانچہ مسلمانوں کے ازلی غدار مرزا غلام مرتضیٰ نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ۶۴ گھوڑے اور ۶۴ شہسوار بھیج کر مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کی مدد کی او رپھر بھی جب کچھ نہ بنا اور مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم نہ ہوا تو اس خاندان کے ایک چشم وچراغ نے اسلام اور مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آقاؤں کے مستقبل کو پر امید اور خالی از خطرات بنانے کے لئے جہاد کے منسوخ ہونے کا اعلان کردیا مگر الحمدﷲ پھر بھی نہ تو وہ انگریزہی یہاں قرار پاسکا اور نہ اس کا خود کاشتہ پودا۔چنانچہ مرزا غلام احمد خود رقمطراز ہے :
(۱) آج سے دین کیلئے لڑنا حرام کیا گیا اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے اور غازی نام رکھ کر کافروں کوقتل کرتاہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔ (اشتہار چندہ منارۃ المسیح ص :ب،ت ضمیمہ خطبہ الہامیہ روحانی خزائن ص۱۷ج۱۶)
(۲) میں نے بیسیوں کتابیں عربی ،فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ (برطانیہ ،ناقل)سے ہرگز جہاد درست نہیں۔(تبلیغ رسالت ج۶ص۶۵ مجموعہ اشتہارات ج۲ص۳۶۶)
(۳) ہر شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے اسی روز سے اسکو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانے میں جہاد قطعاً حرام ہے ۔(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ضمیمہ ص۷ روحانی خزائن ص۲۸ ج۱۷)
(۴) ؂ اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کیلئے حرام ہے ا ب جنگ او ر قتال
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۶،۲۸ وروحانی خزائن ج۱۷ ص۷۷)
۵﴾ انکار معجزات
اﷲ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کو ان کی تصدیق کیلئے خاص نشان عطافرماتے ہیں، اگر انبیا ء کو یہ نشانا ت دیے جائیں تو معجزات کہلاتے ہین اور اگر امت میں سے کسی نیک شخص سے یہ نشانا ت ظاہر ہوں تو کرامات کہلاتے ہیں ۔ مرز اغلام احمد قادیانی انبیاء کرام کے معجزا ت کو بھی تسلیم نہیں کرتا ہے خصوصاً حضرت عیسیٰ کے معجزات کا منکر ہے جن کی بابت ارشاد ربانی ہے کہ ’’ انی قد جئتکم بایۃ من ربکم انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیراً باذن اﷲ وابری الاکمہ والابرص واحی الموتی باذن اﷲ وانبئکم بما تاکلون وما تدخرون فی بیوتکم ان فی ذلک لایۃ لکم ان کنتم مومنین ۔‘‘ ﴿پارہ ۳ آل عمران ۴۹﴾
ترجمہ :میں تمہارے پاس تمہارے ر ب کی نشا نیا ں لایاہوں کہ میں تمہارے لیے مٹی کے پرندے کی صورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اڑتا ہوا جانور ہوجا تا ہے اور میں اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو تندرست کرتا ہوں اور مردوں کو ز ندہ کرتا ہوں ا و رجو کچھ تم کھا تے ہوا ور جو کچھ تم اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو اس کی تمہیں خبر دیتاہوں اگر تم مومن ہو تو یقینا اس میں تمہارے لیے نشانی موجود ہے ۔اب معجزات مسیح اور مرزا غلام احمد قادیانی کی بے ایمانی واضح ہو۔
(۱) عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶روحانی خزائن ص۲۹۰ج۱۱حاشیہ )
(۲) مسیح کے معجزات تو اس تالاب کی وجہ سے بے رونق اور بے قدر تھے جو مسیح کی ولادت سے بھی پہلے مظہرعجائبات تھا جس میں ہر قسم کے بیمار اور تمام مجذوم مفلوج وغیرہ ایک ہی غوطہ مار کر اچھے ہوجاتے تھے ۔(ازالہ اوہام ص۳۲ روحانی خزائن ۲۶۳ ج۳حاشیہ )
(۳) یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بناکر ان میں پھونکے مار کر انہیں سچ مچ جانور بنا دیتا تھا نہیں بلکہ صرف عمل التراب تھا جو روح کی قوت سے ترقی پذیر ہوگیا تھا۔ (ازالہ اوہام ص۳۲۲ حاشیہ روحانی خزائن ،ص۲۶۳ج۳)
(۴) موسوا اس کے پھر بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز عمل التراب یعنی مسمریزی طریق سے بطور لہو لعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں کیونکہ عمل التراب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں ایسے ایسے عجائبات ہیں کہ اس میں پوری پوری مشق کرانے والے بھی اپنی روح کی گرمی دوسری چیزوں پر ڈال کر ان چیزوں کو زندہ کے موافق کر دکھاتے ہیں۔ (ازالہ اوہام ص۳۰۵ حاشیہ روحانی خزائن ص۲۵۵،۲۵۶ ج۳)
(۵) مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمل (عمل الترب ) ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اسکو خیال کرتے ہیں اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدائے تعالیٰ کے فضل و توفیق سے امید قوی رکھتا ہے کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔ (ازالہ اوہام ص۳۰۹حاشیہ روحانی خزائن ص۲۵۷ج۳)
(۶) اور چونکہ قرآن شریف اکثر استعارات سے بھرا ہوا ہے اس لیے ان آیات کے روحانی طور پر معنی بھی کرسکتے ہیں کہ مٹی کی چڑیوں سے مراد وہ اُمّی اور نادان لوگ ہیں جن کو حضرت عیسیٰ نے اپنا رفیق بنایا ،،گویا اپنی صحبت میں لے کر پرندوں کی صورت کا خاکہ کھینچا پھر ہدایت کی روح ان میں پھونک دی جس سے وہ پرواز کرنے لگے ۔(ازالہ اوہام ص۳۰۴ حاشیہ روحانی خزائن ص۲۵۵ج۳)
(۷) سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدا تعالی نے حضرت مسیح کو عقلی طور پر سے اپنے طریق پر اطلاع دے دی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کاکام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھئی کاکام درحقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں کلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہوجاتی ہے ۔ (ازالہ اوہام حاشیہ ص۳۰۳ روحانی خزائن ص۲۵۴ج۳)
(۸) یہ بھی ممکن ہے کہ مسیح ایسے کام کیلئے اس تالاب کی مٹی لاتا تھا جس میں روح القدس کی تاثیر رکھی گئی تھی بہرحال یہ معجزہ (پرندے بناکر اڑانے کا ، ناقل) صرف ایک کھیل کی قسم میں سے تھا۔ (ازالہ اوہام حاشیہ ص۳۲۲ روحانی خزائن ص۲۶۳ج۳)
کیا عجیب ہے قادیانی عقل ودانش کہ اگر روح القدس کی تاثیر تالاب میں ہو تو عین توحید ہے اس سے شرک کا واہمہ بھی نہیں ہوسکتا لیکن اگر وہی خارق عادت فعل معجزانہ طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے صادر ہو تو شرک ہوجاتا ہے ، بئس للظالمین بدلا معجزہ کو کھیل سمجھنا صرف اسی کا کام ہو سکتا ہے جس کی عقل ودانش اس سے روٹھ گئی ہواور وہ ارتداد کی تپتی ہوئی صحرا میں بھٹک رہا ہو کیونکہ ان معجزات کا ثبوت قرآن سے ملتا ہے اورمنکر قرآن مرتد ، زندیق اور کافر ہے۔
۶﴾ عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدا ہونے سے انکار
آیات قرآنیہ ، احادیث صحیحہ اور اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے متولد ہوئے چنانچہ جب آپ کی والدہ کو جبرئیل نے حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تو وہ فرمانے لگیں قرآن کے الفاظ میں :
’’ قالت رب انی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر قال کذلک اﷲ یخلق ما یشاء ‘‘ یعنی انہوں نے کہا اے میرے پروردگار ،مجھے بچہ کیسے ہوگا حالانکہ مجھے کسی بھی بشر نے نہیں چھوا ہے ۔ فرمایا کہ اﷲ کا کام ایسا ہی ہوتا ہے وہ جوچاہتا ہے پیدا کرتا ہے ۔
مگر قادیانی ہیں کہ نہ تو قرآن کو دیکھا اور نہ احادیث نبویہ کو اور نہ اجماع امت کی پرواہ کی ۔ کافر بننے کے شوق میں ان سب باتوں کو بھلا کر حضرت عیسیٰ کو یوسف نجار کا بیٹا (اور وہ بھی ناجائز حمل سے )نعوذباﷲ قرار دیا ۔ مختصراً ملاحظہ ہو:
(۱) وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا بلکہ مسیح تو مسیح میں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں کیونکہ پانچوں ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں نہ صرف اسی قدر بلکہ میں حضرت مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں کو بھی مقدس سمجھتا ہوں کہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں اور مریم وہ نشان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کرلیا ۔ (کشتی نوح ص۱۶ روحانی خزائن ص۱۸ج۱۹)
(۲) حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کاکا م بھی کرتے رہے ۔ (ازالہ اوہام ص۳۰۳روحانی خزائن ص۲۵۴حاشیہ ج۳)
(۳) یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں یعنی سب یوسف اور مریم کی اولاد تھیں ۔(کشتی نوح ص۱۶ روحانی خزائن ۱۸ج۱۹حاشیہ )
(۴) آپ کی انہی حرکات سے آپ کے حقیقی بھائی آپ سے سخت ناراض رہتے تھے ۔(ضمیمہ انجام آتھم ص۶روحانی خزائن ص۲۹۰ج۱۱)
۷﴾ مسلمانان عالم قادیانیوں کی چشم کور میں
دجال قادیان نے جہاں پر سکھوں اور ہنددؤں کو گالیا ں دی ہیں وہاں علمائے اسلا م ،صوفیائے کرام ،صحابہ کرام اور انبیائے کرام کوبھی فحش گالیاں دی ہیں او ر طرفہ یہ کہ مرزا کی ان فحش گالیوں سے پورے عالم میں کوئی مسلمان بھی نہ بچ سکاہے ۔
مزید بر آں یہ کہ اس نے اور اسکے پیروکاروں نے مسلمانوں کو کافرکہہ کہ آنحضرت ﷺ کے فرمان عالی شان کے مطابق اپنے کفر کی تاکید ی مہر ثبت کردی ہے ۔ملاحظہ ہو
۱) ’’تلک کتب ینظر الیھا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ ویتنفع عن معارفھا و یقلبنی ویصدق دعوتی الاذریۃ البغایا الذین ختم اﷲ علی قلوبھم فھم لایقبلون ‘‘ ترجمہ : یہ میری کتابیں ہیں جن کو ہر مسلمان محبت اور دوستی کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کتابوں میں ، مَیں نے جو معرفت کی باتیں لکھی ہیں ان سے نفع اٹھاتا ہے مجھے قبول کرتا ہے او رمیری دعوت کی تصدیق کرتا ہے مگر کنجریوں کی اولاد کہ جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگادی ہے او ررہ نہیں مانتے ۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ص۵۴۷ ج۵)
۲) اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت بار بار بیان کیا گیاہے کہ یہ خدا کا فرستادہ ،خدا کا مامور ،خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے ۔ (انجام آتھم ص۶۲روحانی خزائن ص۶۳ج۱۱)
(۳) (مجھے خدا کا الہام ہے کہ ) جو شخص تیری پیروی نہ کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہ ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا ورسول کی نافرمانی کرنے والاجہنمی ہے ۔(اشتہار معیار الاخیار از مرزا قادیانی ص۸ مجموعہ اشتہارات ص۲۷۵ ج۳)
(۴) خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور ا س نے مجھے قبول نہیں کیا مسلمان نہیں ۔(مرزا قادیانی کا خط بنام ڈاکٹر عبدالحکیم خان تذکرہ طبع دوم ص۶۰۰)
(۵) ہمارا یہ فرض ہے کہ غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اوران کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ وہ ہمارے نزدیک خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں یہ دین کا معاملہ ہے اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں کہ کچھ کرسکے ۔ (انوار خلافت ص۹۰ اَزمرزا محمود احمد قادیانی )
(۶) کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلا م سے خارج ہیں میں تسلیم کرتا ہوں کہ میرے یہ عقائد ہیں ۔ (آئینہ صداقت ص۳۵ اَزمرزا محمود احمد خلیفہ قادیان)
(۷) ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ علیہ السلام کو مانتا ہے مگر عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتا یا عیسیٰ علیہ السلام کو مانتا ہے مگر محمد ﷺ کو نہیں مانتا یا محمد ﷺ کو مانتا ہے مگر مسیح موعود (دجال قادیان) کو نہیں مانتا وہ نہ صر ف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ (کلمۃ فصل ص۱۱۰،مرزا بشیر احمد ایم اے پسر مرزا قادیانی )
مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروؤں کے کفر کی صرف چند وجوہات اور وہ بھی مختصراً تحریر کی ہیں اﷲ تعالیٰ قفس ارتداد کے ان اسیروں کو راہ ہدایت نصیب فرمائے اور اس مختصر سی محنت کو ان کیلئے ذریعہ ہدایت اور راقم کیلئے ذریعہ نجات بنائے۔ واﷲ المستعان و علیہ التکلان
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴿مرزا قادیانی کے جھوٹا ہونے پر چند عقلی دلائل﴾

یوں تو بے شمار دلائل عقلیہ مرزا کے جھوٹا ہونے پر شاہد ہیں مگرصرف چند عقلی دلائل کذب مرز اپر پیش کئے جاتے ہیں :
مرزا قادیانی کے شیطانی الہامات
مرزا قادیانی لکھتا ہے :”ایک خدا کا قول ہے اور ایک خدا کا فعل ہے اور جب تک خدا کے قول پر خدا کا فعل شہادت نہ دے ایسا الہام شیطانی کہلائے گا اور شہادت سے مُراد ایسے آسمانی نشان ہیں کہ جو انسانوں کی معمولی حالتوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔“( روحانی خزائن جلد ۲۲ حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 578)
مرزا قادیانی کی مندرجہ بالا تحریر کو مدنظر رکھتے ہوئے مرزا قادیانی کے صرف کچھ الہامات کا تجزیہ کیا جاے مثلاً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پٹی پٹی گئی (تذکرہ صفحہ681)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
جے توں میرا ہورہیں سب جگ تیرا ہو(تذکرہ صفحہ390)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
واللہ واللہ سدھا ہویا اولا(تذکرہ صفحہ631)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
ہن اسدالیکھا خدا نال جا پیا اے(تذکرہ صفحہ599)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
ایلی ایلی لما سبقتانی(تذکرہ صفحہ71،79،199،509،518)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
عنموائیل(تذکرہ صفحہ110،120)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
ھو شعنا نعسا (تذکرہ صفحہ80،91)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
پریشن(تذکرہ صفحہ91)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
توپہ یا طوپہ (تذکرہ صفحہ658)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو صاف پتا چلتا ہے کہ یہ الہاماتِ خداوندی نہیں ہو سکتے بلکہ یہ مرزا صاحب کے خدا یعنی یلاش کے ہیں۔

۲) نبی کا دینی علوم میں کوئی بشر استاد نہیں ہوتا ہے جبکہ مرز اکے کئی استاد ہیں جن میں سے فضل الٰہی ،فضل احمد اور گل علی شاہ خاص طور پر قابل ذکر ہین جن سے قرآن مجید و دیگر علوم پڑھے ۔ (کتاب البریہ ص۱۶۱ قدیم حاشیہ ،ص۱۷۷ جدید روحانی خزائن ص۱۷۹ج۱۳)
۳) جس ملک او رشہر میں نبی ہوتا ہے اس میں عذاب الٰہی نہیں نازل ہوتا’’ ماکان لیعذبہم وانت فیھم ‘‘ جبکہ مرز اکی زندگی میں قادیان مین سخت زلزلہ آیا اور طاعون جیسی موذی مرض نے قادیان والوں کو آپکڑا ۔(حقیقت الوحی ص۲۴۴ ج۲۲ روحانی خزائن ص۸۷ )
۴) نبی کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ جبکہ مرزانے وعدہ خلافی کی وہ مثالیں قائم کیں کہ اذا وعدا خلف کا عظیم مصداق ٹہرا ہے مثلاً براہین احمدیہ کی پچاس جلدوں کی قیمت وصول کرکے صرف پانچ جلدیں لکھیں او ریہ کہنے لگا کہ اول پچاس جلدیں لکھنے کا ارادہ تھا مگر اب صرف پانچ پر اکتفا کیا ہے کیونکہ پچاس اور پانچ میں صرف صفر کا فرق ہے۔
۵) نبی کسی پر لعنت نہیں کرتا ۔ آنحضرت ‘ کا فرمان ہے ’’ انی لم ابعث لعانا ولکن بعثت داعیا ورحمۃ اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون ‘‘ جبکہ مرزا لعنتوں کی مشین گن تھا اور کئی شخصیات پر اس نے اپنی لعنتی مشین گن سے لعنتوں کی بوچھاڑ کی ہے مثلاً اس نے اپنی کتاب نورالحق ص۱۵۸ روحانی خزائن ۱۵۸ ج۸ میں ایک ہزار مرتبہ گن کر لعنت کا لفظ لکھا ہے (ممکن ہے یہ مرزائیوں کا درود ہزاروی ہو)
۶)مرزا کہتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ۱۲۰ برس تھی اور آنحضر ت کی عمر آپ کی عمر کے تقریباً نصف یعنی ۶۳ سال ہوئی اب اس قانون کے تحت مرزا قادیانی کی عمر آنحضرت ﷺ کی عمر کے نصف یعنی ۳۲ سال ہونی چاہیے مگر اسکی عمر ۶۹ برس ہوئی۔
۷) ہجرت بھی انبیاء کرام کی سنت ہے۔(سیرۃ المہدی ص۱۳۹ حصہ اول روایت ۱۳۵)
مگر مرزا نے کبھی ہجرت نہیں کی بلکہ اپنے وقت کے کافر ظالم انگریز حکمران کے قصیدے لکھتا رہا ہے ۔
۸) نبی امی ہوتا ہے ،لکھنا پڑھنا نہیں جانتا ۔ کتابیں تصنیف نہیں کرتا بلکہ اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کتابیں نازل ہوتی ہیں مرزا قادیانی پڑھتا لکھتا رہا ہے اس کی چوراسی تصنیفات ہیں جن پر قادیانی اپنی جہالت سے فخر کرتے ہیں،الٹی مت ماری گئی۔
۹) نبی شاعر نہیں ہوتا ۔ جبکہ مرزا قادیانی نے سینکڑوں شعر لکھے اور کہے ہیں بطور نمونہ اس کا ایک شعر ملاحظہ ہو :
؂ کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بش رکی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
(در ثمین ص۹۴ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن ص۱۲۷ج۲۱)
۱۰) نبی اپنے ارادہ اور وعدہ میں کبھی ناکام نہیں ہوتا کیونکہ نصرت ایزدی اس کے ساتھ ہوتی ہے مگر مرزا اپنے سینکڑوں ارادوں اور وعدوں میں ناکام ونامراد ہوا۔بطور مثال محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کا ارادہ بزعم مرزا خدائی وعدہ آسمانوں پر نکاح یا د رکھنے کے قابل ہے ۔
۱۱) نبی جس جگہ فوت ہوتا ہے اسے اسی مقام میں دفن کیاجاتا ہے
’’ فاذا توفیٰ اﷲ عزو وجل نبیا قط حیث یقبض روحہ الا دفن حیث یقبض روحہ ‘‘ (کنزالعمال ص۱۱۹ ج۶)
’’ ما قبض اﷲ تعالیٰ نبیا الا فی موضع الذی یجب ان یدفن فیہ ‘‘ (ترمذی )
مگر مرزا کے ساتھ اسکے الٹ ہوا کہ لاہور میں ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل بمرض ہیضہ فوت ہوا اور پھر مال گاڑی میں (جس میں گدھے،کتے اور خنزیر ،پتھر ،اور کوئلہ وغیرہ لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں ) لاد کر قادیان میں دفن کیا گیا ۔بالآخر
’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ‘‘
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
چند کتب جن کا حاصل کرنا ضروری ہے

۱) شہادۃ القرآن از مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی
۲) توضیح الکلام فی حیات عیسیٰ علیہ السلام از مولانا نظام الدین کوہاٹی
۳)کلمۃ اﷲ فی حیات روح اﷲ از مولا نا محمد ادریس کاندھلوی
۴)سیف چشتیائی از پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی
۵) عقیدۃ الاسلام فی حیات عیسیٰ علیہ السلام از مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیری
۶) العبرۃ الناظر فی نزول عیسیٰ علیہ السلام قبل الآخرہ از علامہ زاہد کوثری(حنفی مصری)
۷) نزول عیسیٰ علیہ السلام از مولانا محمد بدر عالم صاحب میرٹھی
۸) التصریح بماتواتر فی نزول المسیح از حضرت علامہ انور شاہ کاشمیری
۹) ختم نبوت کامل از مولانا مفتی محمد شفیع صاحب
۱۰) النبی الخاتم از مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی
۱۱) ختم نبوت از مولانا محمد اسحاق سندھیلوی
۱۲) عقیدت الامت فی معنی ختم نبوت از علامہ خالد محمود صاحب
۱۳) تاریخ محاسبہ قادیانیت از پروفیسر خالد شبیر احمد
۱۴) عقید ہ ختم نبوت اور سلف صالحین از مولانا محمد نافع صاحب
۱۵) قادیانی مذہب از پروفیسر محمد الیاس برنی
۱۶) قادیانی قول وفعل از پروفیسر محمد الیاس برنی
۱۷) رئیس قادیان از مولانا محمد رفیق صاحب دلاوری
۱۸) الکاویۃ علی الغاویۃ از مولانا محمد عالم صاحب عاصی
۱۹) حرف مجرمانہ از پروفیسر غلام جیلانی برق
۲۰) قادیانیت از مولانا سید ابوالحسن علی الندوی
۲۱) اسلام اور مرزائیت از علامہ احسان الہی ظہیر
۲۲) محمدی پاکٹ بک بجواب احمدیہ پاکٹ بک از مولانا محمد عبداﷲ معمار
۲۳) ختم نبوت ، اسلام اور قادیانیت از مولانا عبدالغنی صاحب پٹیالوی
۲۴) فاتح قادیان از مولانا ثنا ء اﷲ امرتسری
۲۵) چراغ ہدایت از مولانا محمد چراغ صاحب
۲۴) حرف اقبال
۲۷) روئیداد مقدمہ بہاولپور (تین جلد)
۲۸) قادیانی نبوت از مولانا عتیق الرحمن تائب
۲۹) قادیانی فتنہ از مولاناعتیق الرحمن تائب
۳۰) اسلام اور قادیانیت از مولانا مشتاق احمد
۳۱) آئینہ قادیانیت از مولانا مشتاق احمد
۳۲) تحفہ قادیانیت (چار جلدیں) از مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید
۳۳) رد قادیانیت کے زریں اصول از مولانا منظور احمد چنیوٹی
۳۴) تحریک احمدیت ازپروفیسر بشیراحمد
۳۵) قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں ازعرفان محمود برق
۳۶)قادیانیت اپنے آئینے میں ازمولانا صفی الرحمن
۳۷) ثبوت حاضر ہیں از محمد متین خالد
۳۸) اقبال اور قادیانیت از پروفیسر خالد شبیر احمد
۳۹) شہر سدوم از شفیق مرزا
۴۰) قادیانت سے اسلام تک از محمد متین خالد
۴۱) چودہ میزائل از مولانا منظو راحمد چنیوٹی
۴۲) فتویٰ حیات مسیح
۴۳) معرکہ حق وباطل(قادیانیت کے خلاف ہائیکورٹ؍سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے۔)
۴۴) القادیانی ومعتقداتہ(عربی) از مولانامنظور احمد چنیوٹی
۴۵) قادیانی اور ان کے عقائد
۴۶) انگریزی نبی
۴۷) تصویر کے دو رخ
۴۸) دورہ یورپ وافریقہ
۴۹) حرف ناقدانہ بجواب اک حرف ناصحانہ
۵۰) ابن مریم زندہ ہیں حق کی قسم از مولانا محمدابراہیم
۵۱) الحق الصریح فی حیاۃ المسیح ایضاً
۵۲) مناظرہ ناروے از مولانامنظور احمد چنیوٹی
۵۳) لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
۵۴) ملت اسلامیہ کے خلاف قادیانی سازشیں
۵۵) رد قادیانیت کے زریں اصول
۵۶) قادیانی اینڈ ہز فیتھ (انگلش)
۵۷) ڈبل ڈیلر (انگلش)
۵۸) مرزا طاہر کی لاکھوں ،کروڑوں بیعتیں
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی کی کتب کا اجمالی تعارف


نام کتاب سن اشاعت نام کتاب سن اشاعت
براہین احمدیہ جلد اول و دوم ۱۸۸۰ کرامات الصادقین ۱۸۹۳
براہین احمدیہ جلد سوم ۱۸۸۲
حمامۃ البشریٰ ۱۸۹۳
براہین احمدیہ جلد چہارم ۱۸۸۴
نورالحق جلد اول ۱۸۹۳
پرانی تحریریں ۱۸۷۹،۱۸۸۹ نورالحق جلد ثانی ۱۸۹۴
سرمہ چشم آریہ ۱۸۸۶ اتمام الحجہ ۱۸۹۴
شحنہ حق ۱۹۲۳ سرالخلافہ ۱۸۹۴
سبز اشتہار ۱۸۸۸ انوار الاسلام ۱۸۹۴
فتح الاسلام ۱۸۹۱ منن الرحمن ۱۸۹۵
توضیح مرام ۱۸۹۰،۱۸۹۱ ضیاء الحق ۱۸۹۵
ازالہ اوہام جلد اول ودوم ۱۸۹۱ نورالقرآن نمبر۱ ۱۸۹۵
الحق مباحثہ لدھیانہ ۱۸۹۱ نورالقرآن نمبر۲ ۱۸۹۵
الحق مباحثہ دہلی ۱۸۹۱ معیار المذاہب ۱۸۹۵
آسمانی فیصلہ ۱۸۹۱ آریہ دھرم ۱۸۹۵
نشان آسمانی ۱۸۹۱،۱۸۹۲ ست بچن ۱۸۹۵
آئینہ کمالات اسلام ۱۸۹۳ اسلامی اصول کی فلاسفی ۱۸۹۶
برکات الدعا ۱۸۹۳ انجام آتھم ۱۸۹۶
حجۃ الاسلام ۱۸۹۳ سراج منیر ۱۸۹۷
جنگ مقدس ۱۸۹۳ حجۃ اﷲ ۱۸۹۷
شہادۃ القرآن ۱۸۹۳ تحفہ قیصریہ ۱۸۹۷
تحفہ بغداد ۱۸۹۳ محمود کی آمین ۱۸۹۷
نزول مسیح ۱۹۰۲ کتاب البریہ ۱۸۹۸
تحفۃ الندویٰ ۱۹۰۲ البلاغ ؍فریاد درود ۱۸۹۸
اعجاز احمدی ۱۹۰۲ ضرورت الامام ۱۸۹۸
حکم ربانی کا ریویو ۱۹۰۲ نجم الہدیٰ ۱۸۹۸
مواہب الرحمن ۱۹۰۳ راز حقیقت ۱۸۹۸
نسیم دعوت ۱۹۰۳ کشف الغطا ۱۸۹۸
سناتن دھرم ۱۹۰۳ ایام الصلح ۱۸۹۸
تذکرۃ الشہادتین ۱۹۰۳ حقیقت الوحی ۱۸۹۹
سیرت الابدال ۱۹۰۳ مسیح ہندوستان میں ۱۸۹۹
لیکچر لاہور ۱۹۰۴ ستارہ قیصرہ ۱۸۹۹
لیکچر سیالکوٹ ۱۹۰۳؍۱۹۰۴ تریاق القلوب ۱۸۹۹؍۱۹۰۲
لیکچر لدھیانہ ۱۹۰۵ تحفہ غزنویہ ۱۹۰۰
براہین احمدیہ جلد پنجم ۱۹۰۵ روئیداد جلسہ ودعا ۱۹۰۰
الوصیت ۱۹۰۵ خطبہ الہامیہ ۱۹۰۰؍۱۹۰۱
احمدی اور غیر احمدی میں فرق ۱۹۰۵ لجۃ النور ۱۹۰۰
ضمیمہ الوصیت ۱۹۰۶ رسالہ جہاد ۱۹۰۰
چشمہ مسیحی ۱۹۰۶ تحفہ گولڑویہ ۱۹۰۰؍۱۹۰۲
تجلیات الہیہ ۱۹۰۶ اربعین ۱۹۰۰
قادیان کے آریہ اورہم ۱۹۰۷ اعجاز المسیح ۱۹۰۱
حقیقت الوحی ۱۹۰۷ ایک غلطی کا ازالہ ۱۹۰۱
چشمہ معرفت ۱۹۰۸ دافع البلاء ۱۹۰۲
پیغام صلح ۱۹۰۸ الہدیٰ والتبصرۃ لمن یریٰ ۱۹۰۲
سراج دین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب ۱۸۹۷

منقول از مطبوعہ اشتہار اجمالی تعارف ۴ دارالفضل چناب نگر(ربوہ)
 
Top