قرآن میں اللہ تعالیٰ سورہ ال عمران میں فرماتا ہے کہ
" یا عیسیٰ انی متوفیک و رافعک الی "
اے عیسیٰ میں تجھے لعنتی موت سے بچاؤں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا ، کیونکہ یہود کی تدبیر یہ تھی کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکا کر لعنتی موت دیں گے لیکن اللہ نے ان کی تدبیر کے مقابلے میں اپنی تدبیر کی کہ میں تجھے اس لعنتی موت سے بچاؤں اور اپنی طرف اٹھاؤں گا اس کے بعد اس واقعہ کا ذکر ہمیں سورہ النساء میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ یہود کا قول نقل کرتا ہے کہ
" وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ "
کہ انہوں (یہود) نے کہا کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کر دیا ، اس قول کو نقل کرنے کے بعد اللہ ان کا رد کرتا ہے کہ
" وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ "
کہ وہ نہ انہیں قتل کرسکے اور نہ صلیب پر چڑھا سکے ،اور اس کا ذکر اللہ نے سورہ المائدہ میں بھی کیا جہاں اپنی نعمتیں گنواتے ہوئے اللہ روز قیامت عیسیٰ علیہ اسلام کو کہیں گے
" وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنْكَ "
اور جب ہم نے روک دیا بنی اسرائیل کو آپ سے (آپ تک پہنچنے سے )۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے قول کے بارے کہتا ہے کہ
" وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا "
کہ انہوں نے یقیناََ انہیں قتل نہیں کیا ، اور ہوا کیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
" بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا "
بلکہ اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ زبردست حکمت والا ہے ۔ اب یہاں المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کا ذکر ہے جو روح اور جسم کا مرکب تھے یہود صرف روح کے قتل کے مدعی نہ تھے تو اگلی ضمیریں بھی اسی جسم اور روح کے مرکب کی طرف ہیں اور بل رفعہ اللہ الیہ میں بھی انہی جسم اور روح کے مرکب کی طرف ہے جس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جسم اور روح کے مرکب عیسیٰ ابن مریم کو اپنی طرف اٹھا لیا اور رفع کا یہ معنی خود مرزائیوں کے خلیفہ سے ثابت شدہ ہے " رفع کا لفظ جب اجسام کے لئے استعمال ہو تو کبھی اس کے معنی ان کو ان کی اصل جگہ سے بلند کرنے کےہوتے ہیں " ( تفسیر کبیر از مرزا محمود ، جلد 3 صفحہ 361 ) اس کے بعد روزقیامت جب اللہ تعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام سے سوال کریں گے کہ
" أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ "
کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟ تو اس کے جواب میں عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کہیں گے کہ
" مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ "
میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا ہے وہ یہ کہ تم خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے ۔ اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام وضاحتی طور پر کہتے ہیں
"وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنْتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ"
جب تک میں ان موجود تھا تو ان پر نگران تھا اور جب تم نے مجھے لعنتی موت سے بچا لیا تھا تو تو ان کا نگران تھا اور تو ہر چیز سے خبردار ہے ۔ اب اس آیت میں جو ہے کہ جب تم نے مجھے لعنتی موت سے بچا لیا تھا اس کی وضاحت پہلے اوپر کی آیت میں ہوچکی کہ
" انی موفیک و رافعک الی "
اور
" رفعہ اللہ الیہ "
جس سے ثابت ہوا کہ اس آیت میں عیسیٰ اللہ کے نبی کا بتانا یہ مقصود تھا کہ جب تم نے مجھے لعنتی موت سے بچا کر اپنی طرف اٹھا لیا تھا تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا ۔
امام حافظ ابوبکر احمد بن عمروالبزار رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 292ھ ) نے اپنی مسند " البحر الذخار " جو کہ " مسند البزار " کے نام سے معروف ہے اپنی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے :۔
" حَدَّثَنا علي بن المنذر , حَدَّثَنا مُحَمَّد بن فضيل , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , قال: سمعت من أبي القاسم الصادق المصدوق يقول يخرج الأعور الدجال مسيح الضلالة قبل المشرق في زمن اختلاف من الناس وفرقة فيبلغ ما شاء الله أن يبلغ من الأرض في أربعين يوما الله أعلم ما مقدارها؟ فيلقى المؤمنون شدة شديدة، ثم ينزل عيسى بن مريم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ من السماء۔۔ الخ "
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کانا دجال یعنی گمراہ مسیح مشرق کی طرف سے نکلے گا اس وقت لوگوں میں افتراق و اختلاف ہوگا تو وہ چالیس دونوں میں جہاں اللہ چاہے گا پہنچے گا ، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کہاں پہنچے گا ، اس وقت مؤمن سخت حالات کا سامنا کریں گے ، پھر مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے ۔ ( مسند البزار ، جلد 17 صفحہ 96 ، حدیث نمبر 9642 )
یہ روایت صحیح مرفوع متصل ہے اور اس میں صاف طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے ۔
امام حافظ ابوبکر احمد بن عمروالبزار رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 292ھ ) نے اپنی مسند " البحر الذخار " جو کہ " مسند البزار " کے نام سے معروف ہے اپنی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے :۔
" حَدَّثَنا علي بن المنذر , حَدَّثَنا مُحَمَّد بن فضيل , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , قال: سمعت من أبي القاسم الصادق المصدوق يقول يخرج الأعور الدجال مسيح الضلالة قبل المشرق في زمن اختلاف من الناس وفرقة فيبلغ ما شاء الله أن يبلغ من الأرض في أربعين يوما الله أعلم ما مقدارها؟ فيلقى المؤمنون شدة شديدة، ثم ينزل عيسى بن مريم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ من السماء۔۔ الخ "
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کانا دجال یعنی گمراہ مسیح مشرق کی طرف سے نکلے گا اس وقت لوگوں میں افتراق و اختلاف ہوگا تو وہ چالیس دونوں میں جہاں اللہ چاہے گا پہنچے گا ، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کہاں پہنچے گا ، اس وقت مؤمن سخت حالات کا سامنا کریں گے ، پھر مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے ۔ ( مسند البزار ، جلد 17 صفحہ 96 ، حدیث نمبر 9642 )
یہ روایت صحیح مرفوع متصل ہے اور اس میں صاف طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے ۔