الصارم المسلول
رکن ختم نبوت فورم
اپنے آپ کو کوئی ایسا لقب یا نام دینا جو خاص انبیاء یا اللہ کی ذات کیلئے مخصوص ہو، نہایت مکروہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ تو پھر بھی لقب ہے، امام بخاری نے اپنی جامع الصحیح کے اندر ایک باب باندھا ہے:
باب تَحْوِيلِ الاِسْمِ إِلَى اسْمٍ أَحْسَنَ مِنْهُ
- باب کسی بہتر نام کیلئے اپنے نام کا بدلنا -
اس باب میں وہ ایک حدیث روایت کرتے ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ زَيْنَبَ، كَانَ اسْمُهَا بَرَّةَ، فَقِيلَ تُزَكِّي نَفْسَهَا. فَسَمَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم زَيْنَبَ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کا نام ” برہ “ تھا ، کہا جانے لگا کہ وہ اپنی پاکی ظاہر کرتی ہیں ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام زینب رکھا ۔ (متفق علیہ)
امام بخاری نے اپنی جامع الصحیح میں ایک اور باب باندھا
باب أَبْغَضِ الأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ
-باب ''وہ نام جس سے اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ نفرت کرتے ہیں-
اس باب میں یہ حدیث پائی جاتی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أَخْنَى الأَسْمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الأَمْلاَكِ "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین نام اس کا ہو گا جو اپنا نام ملک الاملاک ( شہنشاہ ) رکھے ۔ (متفق علیہ)
پس ثابت ہوا کہ اپنے آپ کو کوئی ایسا لقب دینا جس کا کوئی عام انسان حق دار نہیں ایک مکروہ عمل ہے۔
قمبر الانبیاء کے نام کا مطلب ''نبیوں کا چاند'' یہ نام کوئی عام انسان رکھ ہی نہیں سکتا، بلکہ اس نام کے اصل
حق دار کوئی نبی ہی ہو سکتا ہے،
مثلا جیسے سیدنا شعیب علیہ السلام کیلئے خطیب الانبیاء کا لقب مخصوص ہے،
وكان بعض السلف يسمي شعيباً خطيب الأنبياء يعني لفصاحته وعلو عبارته وبلاغته في دعاية قومه إلى الإيمان برسالته.
وقد روى ابن إسحاق بن بشر عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذكر شعيباً قالذاك خطيب الأنبياء)
بعض سلف کے مطابق شعیب علیہ السلام کا لقب خطیب الانبیاء اس لئے ہے کیونکہ ان کی قوم نے ان کے پیغام میں بہت رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی لیکن ان کے خطاب میں بہت فصاحت و بلاغت تھی۔
(سورۃ ہود 93-91)
اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ابو الانبیاء کا لقب دیا جاتا ہے:
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ابو الانبیاء اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ذریعت میں نبوت
کی نعمت کو عام کر دیا۔
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
اور ہم نے انھیں (ابراہیم کو) اسحاق ویعقوب (علیہما السلام) عطا کیے اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اوﻻد میں ہی کر دی اور ہم نے دنیا میں بھی اسے ﺛواب دیا اور آخرت میں تو وه صالح لوگوں میں سے ہیں
(العنکبوت 27)
اسی طرح ہمارے پیارے نبی سیدالمرسلینﷺ کو خاتم الانبیاء کا لقب دیا گیا:
اس لقب کا مفہوم بھی آپﷺ نے خود سمجھا دیا:
أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي
میں خاتم النبیین ہوں یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
پس ثابت ہوا کہ قمر الانبیاء جیسا لقب بھی صرف ایک نبی کے لئے ہی مخصوص ہو سکتا ہے۔
اب اگر کوئی شخص منہ اٹھا کر کہہ دے کہ فلاں شخص قمر الانبیاء ہے اور اس کو خود اس لقب کی شرعی
حیثیت کا علم نہ ہو تو وہ ایک زندیقانہ حرکت کر رہا ہے، اس کو بتانا چائیے کہ مرزا بشیر ایم اے کی ایسی
کیا خوبی ہے کہ اس کو ''قمر الانبیاء'' کا لقب دیا گیا ہے؟
یہ تو پھر بھی لقب ہے، امام بخاری نے اپنی جامع الصحیح کے اندر ایک باب باندھا ہے:
باب تَحْوِيلِ الاِسْمِ إِلَى اسْمٍ أَحْسَنَ مِنْهُ
- باب کسی بہتر نام کیلئے اپنے نام کا بدلنا -
اس باب میں وہ ایک حدیث روایت کرتے ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ زَيْنَبَ، كَانَ اسْمُهَا بَرَّةَ، فَقِيلَ تُزَكِّي نَفْسَهَا. فَسَمَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم زَيْنَبَ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کا نام ” برہ “ تھا ، کہا جانے لگا کہ وہ اپنی پاکی ظاہر کرتی ہیں ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام زینب رکھا ۔ (متفق علیہ)
امام بخاری نے اپنی جامع الصحیح میں ایک اور باب باندھا
باب أَبْغَضِ الأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ
-باب ''وہ نام جس سے اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ نفرت کرتے ہیں-
اس باب میں یہ حدیث پائی جاتی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أَخْنَى الأَسْمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الأَمْلاَكِ "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین نام اس کا ہو گا جو اپنا نام ملک الاملاک ( شہنشاہ ) رکھے ۔ (متفق علیہ)
پس ثابت ہوا کہ اپنے آپ کو کوئی ایسا لقب دینا جس کا کوئی عام انسان حق دار نہیں ایک مکروہ عمل ہے۔
قمبر الانبیاء کے نام کا مطلب ''نبیوں کا چاند'' یہ نام کوئی عام انسان رکھ ہی نہیں سکتا، بلکہ اس نام کے اصل
حق دار کوئی نبی ہی ہو سکتا ہے،
مثلا جیسے سیدنا شعیب علیہ السلام کیلئے خطیب الانبیاء کا لقب مخصوص ہے،
وكان بعض السلف يسمي شعيباً خطيب الأنبياء يعني لفصاحته وعلو عبارته وبلاغته في دعاية قومه إلى الإيمان برسالته.
وقد روى ابن إسحاق بن بشر عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذكر شعيباً قالذاك خطيب الأنبياء)
بعض سلف کے مطابق شعیب علیہ السلام کا لقب خطیب الانبیاء اس لئے ہے کیونکہ ان کی قوم نے ان کے پیغام میں بہت رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی لیکن ان کے خطاب میں بہت فصاحت و بلاغت تھی۔
(سورۃ ہود 93-91)
اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ابو الانبیاء کا لقب دیا جاتا ہے:
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ابو الانبیاء اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ذریعت میں نبوت
کی نعمت کو عام کر دیا۔
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
اور ہم نے انھیں (ابراہیم کو) اسحاق ویعقوب (علیہما السلام) عطا کیے اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اوﻻد میں ہی کر دی اور ہم نے دنیا میں بھی اسے ﺛواب دیا اور آخرت میں تو وه صالح لوگوں میں سے ہیں
(العنکبوت 27)
اسی طرح ہمارے پیارے نبی سیدالمرسلینﷺ کو خاتم الانبیاء کا لقب دیا گیا:
اس لقب کا مفہوم بھی آپﷺ نے خود سمجھا دیا:
أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي
میں خاتم النبیین ہوں یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
پس ثابت ہوا کہ قمر الانبیاء جیسا لقب بھی صرف ایک نبی کے لئے ہی مخصوص ہو سکتا ہے۔
اب اگر کوئی شخص منہ اٹھا کر کہہ دے کہ فلاں شخص قمر الانبیاء ہے اور اس کو خود اس لقب کی شرعی
حیثیت کا علم نہ ہو تو وہ ایک زندیقانہ حرکت کر رہا ہے، اس کو بتانا چائیے کہ مرزا بشیر ایم اے کی ایسی
کیا خوبی ہے کہ اس کو ''قمر الانبیاء'' کا لقب دیا گیا ہے؟
آخری تدوین
: