کسر صلیب کی دوسری آیت
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ
(النساء4:157)
”اور ان کے اس قول کے سبب بھی کہ انہوں نے کہا کہ بے شک ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریمؑ کو قتل کر ڈالا ہے اور انہوں نے تو اسے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا“۔
یہ آیت نفیٔ صلیب کے لئے نصِ صریح اور دلیلِ قطعی ہے، اس منکر کافر ہے۔ یہ آیت دو وجہ سے نفئ صلیب پر دلالت کرتی ہے۔
الوجہ الاول
قولہ تعالیٰ بالتصریح وَ
مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوه
یعنی یہود نے عیسیٰ علیہ السلام کو نہ تو قتل کیا اور نہ انہوں آپ کو صلیب پر چڑھایا۔
محررِ سطور نے ایک مطبوع اشتہار مرزا صاحب کو بھیجا تھا، جس کی نقل حسب ذیل ہے:
اَلْحَمْدُللّٰہِ وَ سَلَامّ علَیٰ عِبَادِہِ الّذِیْنَ اصْطَفٰی
۔ جناب مرزا صاحب! بندہ جمیع اہل السنۃ و الجماعۃ سلف و حلف کی طرح اس بات کا قائل ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں چڑھائے گئے اور اب تک فوت بھی نہیں ہوئے۔ آپ اگر قرآن کریم میں سے مسیح علیہ السلام کا صلیب پر چڑھایا جانا ثابت نہ کر سکیں تو بعد از اقرارِ عدمِ مصلوبیت قرآن شریف میں سے بدلائلِ قطعیہ ان کی وفات ثابت کر دیں تو بندہ اس بات کا حلفی اقرار کرتا ہے کہ آپ کی تحقیق کا بہت ہی ممنون و مشکور ہو کر مسیح علیہ السلام کی وفات کو تسلیم کر لے گا۔ اس امر کے فیصلے کے لئے خواہ آپ مجھے قادیان میں حاضر ہونے کے لئے فرما دیں اور کسی عام مجلس میں اس مرحلہ کو طے کریں، خواہ کسی اور جگہ پر تشریف لا کر مجھے اطلاع بخشیں، خواہ آپ سیالکوٹ میں قدم رنجہ فرما کر بندے کو ممنون فرمائیں، بندہ ہر طرح حاضر ہے۔ آپ کے سیالکوٹ آئے کی صورت میں آنے کے ذاتی اخراجات کا متحمل بندہ ہو گا۔ اگر آپ بندے کو قادیانی میں طلب نہ فرمائیں اور کسی اور جگہ بھی بہ سبب کسی خفی وجہ کے خود تشریف نہ لا سکیں تو وہاں قادیان ہی میں بیٹھے بیٹھے اس بار کو برداشت کریں۔ بندہ اس پر سر تسلیم نہیں پھیرے گا۔ اس عریضہ کے جواب میں آپ کا یہ فرما دینا کہ ہم نے یہ مسئلہ ازالۂ اوہام میں بہ بسط لکھا ہوا ہے، بندہ کے لئے جواب نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ دلائل جو آپ نے ازالۂ اوہام میں بیان کئے ہیں، بندہ کے نزدیک قطعیت چھوڑ مفیدِ ظنیت بھی نہیں ہو سکتے۔ اس عریضہ کی قبولیت و عدم قبولیت کو ایک ہفتے کے اندر اندر بدستخط خاص قلمی یا بذریعہ اشتہار طبع شدہ اطلاع بخشیں اور اس کی تعمیل کی میعاد ایک ماہ سے زائد نہیں ہونی چاہئے۔ 8 جون 1902ء
یہ اشتہار رجسٹری کرا کر مرزا صاحب قادیانی کی خدمت میں ارسال کیا گیا جس کی رسید بھی آ گئی تھی۔ مگر جواب ندارد۔ ہاں ان کے ایک مرید بلکہ استاد زادے مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے اس کا جواب لکھ کر اپنی لیاقت کا اظہار کیا۔ سو مناسب معلوم ہوتا ہے ضمناً اس کی بھی تردید ہو جائے۔
یہ رسالہ نام کا جواب باصواب ہے اور اس میں مولوی صاحب نے حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب پر چڑھائے جانے کے ثبوت پر زور مارا ہے۔ اور آپ کو دلائل مزبورہ پر بڑا ناز ہے۔ چنانچہ لوح کے اندرونی صفحہ میں فخر سے فرماتے ہیں: ”سوال اور اس کے جواب میں غور فرما کر حسن کلام اور خوبئ جواب اور طرزِ استدلال کو داد دیں“ انتہیٰ۔ اور نیز نظم دلچسپ میں یوں راقمطراز ہیں:؎
گو دیکھنے میں چھوٹی سی یہ ایک کتاب ہے
اس کا ہر ایک نکتہ مگر لاجواب ہے
اس کتاب میں مصنف صاحب نے اپنی تحقیقات کی داد ان دو امروں کی صحت پر مانگی ہے۔ امرِ اوّل ”صلب کے معنی صلیب پر مارنا ہیں لہٰذا
مَا صَلَبُوه
کے معنی ’یہود نے حضرت مسیحؑ کو صلیب پر نہیں مارا‘ ہوئے“۔ چنانچہ صفحہ 14 کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: واضح رہے کہ اصل لغت میں مصلوب ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کی موت صلیب پر واقع ہو جائے۔ دیکھو قاموس اور اقرب الموارد وغیرہ اور جس شخص کی موت صلیب پر نہ واقع ہو اس کو لغت کی رو سے مصلوب کہنا ناجائز ہے انتہیٰ۔ اور نیز صفحہ 24 میں یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں: ”کیونکہ عرف لغوی میں مصلوب اسے کہتے ہیں جس کی موت صلیب پر واقع ہو جائے اور جس کی موت واقع نہ ہو اسے مصلوب نہیں کہتے“۔
امر دوم کلمہ لکن اس وہم کے دفعیہ کے لئے آتا ہے جو کلامِ سابق سے پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ نے
وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ
اس لئے فرمایا کہ
مَا صَلَبُوه
کی نفی سے مطلق سولی چڑھانے کی نفی بھی سمجھی جاتی تھی(حق بر زبان جاری)۔ مگر چونکہ فعل سولی پر چڑھانا درست تھا اور سولی پر مر جانا غلط اس لئے
وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ
سے اس وہم کو دور کیا اور ظاہر کر دیا کہ نفی صلب سے مراد نفی نتیجہ صلب(موت)ہے، یعنی سولی ہر مرے نہیں۔ چنانچہ صفحہ16 میں یوں تحریر فرماتے ہیں: ”پس اس قاعدے کی رو سے ثابت ہوا کہ آیہ زیر بحث کے جملہ اولیٰ منفیہ میں ایک وہم ہے جو کہ ثانیہ مثبۃ سے بواسطہ حرف استدراک متضمن معنی استثنا رفع کیا گیا ہے اور وہ وہم یہ ہے کہ نفی قتل بعلت صلب سے نفی وقوع صورت صلب موہوم ہوتی ہے۔ جو مناقض اور مغائر نتیجہ صلب(موت)کی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو حرف استدراک متضمن معنی استثنا سے یوں ظاہر کیا کہ قتل اور صلب کا نتیجہ واقع نہیں ہوا اور صورت صلب پیش آ گئی۔ پس جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں، آیہ
شُبِّهَ لَهُمْ
میں مشتبہ حضرت مسیحؑ ہے اور مشبہ بہ یہود کا زعمی مصلوب یا وہ مقتول و مصلوب جو معلت تصلیب ،معہود فی الذہن ہوتا ہے“۔ انتہیٰ
اقول
یہ دونوں امر بالک غلط اور ناشی از جہالت ہیں اور ان کا قائل جاہلِ مطلق اور لیاقتِ علمیہ سے بے بہرہ اور علومِ رسمیہ سے بالکل نابلد ہے۔
امر اوّل یعنی صلب کے معنی سولی پر چڑھا کر مارنا تین وجوہ سے باطل ہے۔
وجہ اوّل: لغت میں صلب کے معنی صرف سولی پر چڑھانا ہی، اسے موت لازم نہیں۔ غیاث اللغات اور صراح میں ہے:
صلب بردار کردن
۔ بلکہ غیاث اللغات میں لفظ صلیب کے ذیل میں کہا ہے: ”
بمعنی بردار کردہ شدہ۔ وجهش آنکه چون عیسی علیه السلام را بر آسمان بردند، طرطوس نام شخصی را که همشکل عیسی علیه السلام بود، بر دار کشیدند و بعد این واقعه ترسایان آن را عیسی پنداشته ، شکل دار با عیسی از چوب تراشیده در گلو آویختند و تعظیمش کردند
“۔ اور سب تراجم اردو، فارسی میں صلب کے معنیٰ سولی پر چڑھانا ہی لکھے ہیں۔
ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب مرحوم محدث دہلوی جو مسلّم بین العلماء و الفضلآ ہیں: ”
ونہ کشتند اور اوبردار نکر دند اورا
“۔
ترجمہ رفیع الدین صاحب بن شاہ ولی اللہ صاحب: ”اور نہیں مارا اس کو اور نہ سولی دی اس کو“۔
ترجمہ شاہ عبد القادر صاحب بن شاہ ولی اللہ صاحب: ”اور نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا“۔
ترجمہ حافظ نذیر احمد صاحب ”نہ تو انہوں نے ان کو سولی چڑھایا“۔
ان عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ صلب کے معنی لغت و تراجیم میں سولی پر چڑھانا لکھے ہیں اور موت اس کے لئے لازم نہیں۔ اگر صلب کے معنی کسی لغت کی کتاب میں یا کسی محاورے میں یا کسی شعر میں سولی پر چڑھا کر مارنا آئے ہیں تو مصنف صاحب پر واجب تھا کہ اس کتاب کی عبارت نقل کر دیتے۔ صرف آپ کا اتنا کہہ دینا کہ عرف لغوی میں فلاں لفظ کے معنی یہ ہیں، سند نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ کہیں کہ صفحہ14 کے حاشیہ میں قاموس اور اقرب الموارد کا نام لکھ دیا ہے، بلکہ اس پر ”وغیرہ“ کا بھی پشتہ چڑھا دیا ہے تو اس عذر سے شرم چاہئے۔ مولوی صاحب! جہاں قاموس وغیرہ میں آپ کی تائید کی تصریح کی گئی ہے، مہربانی کرکے وہ عبارت ہی نقل کر دی ہوتی تاکہ آپ پر دھوکے کا الزام عائد نہ ہوتا۔ مولوی صاحب! یاد رکھیے لغت کی کسی کتاب میں آپ کی تائید نہیں اور ہرگز نہیں ہے اور ہرگز نہیں ہے۔ یہ صرف آپ ہی کا اختراع ہے اور مصنفین گزشتہ پر افتراء۔52
اچھا اگر عربی زبان میں صلب کے معنے سولی پر چڑھا کر مارنا اور مصلوب کے معنی سولی پر چڑھایا جا کر مارا ہوا ہیں، تو صرف سولی پر چڑھانے اور سولی پر چڑھائے ہوئے کے لئے کیا لفظ ہیں؟ جب آپ نے یہ لکھا تھا کہ ”جس شخص کی موت صلیب پر واقع نہ ہو اس کو لغت کی رو سے مصلوب کہنا ناجائز ہے“ تو کیا اس وقت ایسے شخص کے لئے جو لفظ اس پاک زبان میں موضوع ہے لکھنا ہی یاد نہ رہا یا خود بدولت کو یاد ہی نہ تھا؟ یا زبان ہی میں کوئی لفظ نہیں؟ مہربانی کر کے وہ لفظ تو لکھ دیا ہوتا تاکہ آپ کی تحریر کچھ تو مفید پڑتی۔ پہلی دو صورتوں میں آپ کا قصور ہے اور تیسری صورت میں زبان کا نقص۔ مجھے امید ہے کہ آپ اپنے پر الزام سہ جائیں گے اور زبان عرب میں نقص کے قائل نہ بنیں گے۔
وجہ دوم: جو الفاظ افعال کے لئے موضوع ہیں وہ صرف ان کی ابتدائی صورت کے لئے ہیں۔ نتیجہ ان میں داخل نہیں ہوتا۔ نتیجہ پر دلالت ترکیب سے ہوتی ہے یا زیادت سے۔ آپ قواعد فقہ یا علم بیان کی کوئی کتاب پڑھیں، پھر معلوم ہو جائے گا اور اس سے پہلے ایسی تحقیق کو چھوڑ دیں اور استاد کے اس شعر کو وردِ زبان بنائے رکھیں۔؎
بجائے بزرگاں دلیری مکن
چو سر پنجہ ات نیست شری مکن
وجہ سوم: مثل مشہور ہے: دروغگوار حافظہ نباشد۔ رسالہ باصواب کے مصنف صاحب نے صلب کے معنی سولی پر چڑھا کر مارنا کرنے میں اپنی مطلب بر آری کے لئے بہت زور مارکر تصرف فی اللغۃ کیا ہے اور بموجب مثل مندرجہ عنوان ان کی اپنی بہت سی عبارات اسی رسالے میں موجود ہیں جن میں صلب بمعنی مطلق صلیب پر چڑھانا استعمال کیا گیا ہے۔ وہ مواضع حسب ذیل ہیں:
1)حاشیہ صفحہ 14 ”
ما قتلوہ یقیناً اے مَا وَقَعَ مُوْتُهٗ بِقَتِلِهٖ صَلْبًا
نفی قتل بعلت صلب سے نفی وقوع صورتِ صلب موہوم ہوتی ہے“۔
2) صفحہ16 ”جو مناقض اور مغائر نتیجہ صلب(موت)کی ہے“۔
3)صفحہ17 ”اب اس صورت میں یہ معنی ہوئے کہ مسیحؑ کے صلب کا نتیجہ تو واقع نہیں ہوا“۔
4) صفحہ 17 ”اور دونوں جملوں کے ملانے سے عدم وقوع نتیجہ صلیب کا اثبات“۔
5)صفحہ 18”پس دونوں آیتوں سے ثابت ہو گیا کہ آیت
وَ مَا قَتَلُوْهٗ وَمَا صَلَبُوْهٗ وَ لٰکِنْ شُبِّهَ لَھُمْ
میں مطلق نفی مقصود ہے اور وقوعِ صورتِ صلب کا اثبات مطلوب ہے“۔
ہم ان عبارتوں پر کچھ زیادہ توضیح نہیں کرتے۔ صرف ناظرین کے فہم رسا اور انصاف پر چھوڑتے ہیں اور ان کی توجہ اس طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں کہ ان عبارات میں صلب بمعنی سولی پر چڑھنا مستعمل ہوا ہے یا نہیں۔
وَ الْاِنْصَافُ اَوْلَی الْاوصَافِ
(انصاف کرنا سب سے بہتر وصف ہے)۔ اگر منصف صاحب اس اشارے سے اپنی بے علمی کا اعتراف نہ کریں تو نتیجہ اور سبب کی مغائرت سے سمجھ لیں۔ افسوس اب تو وہ فوت ہو چکے ہیں۔
الفقيه تکفيه الاشارة والسفيه لا تفيده العبارة
.
”دانا کو بس ایک اشارہ ہی کافی ہے اور نادان کو(لمبی)عبارت بھی مفید نہیں“۔
امر دوم: یعنی بحث کلمہ لکن کی نسبت یہ عرض ہے کہ مولوی صاحب خود اس سے وہم میں پڑے ہیں اور عوام کو اوہام میں ڈالتے ہیں۔
فَضَلًّ و اَضَلًّ
مولوی صاحب
لکِنَّ
(
مثقلة النون
)کے قاعدہ میں دو عبارتیں نقل کی ہیں اور ان عبارات سے مولوی صاحب کو کچھ فائدہ نہیں۔ ہاں اتنا فائدہ ضرور ہے کہ مرزائی پارٹی یہ جانے گی کہ مولوی صاحب علم نحو سے واقف ہیں مگر علم نحو کے ماہرین کے نزدیک یہ امر شاہد ناطق ہے کہ مولوی صاحب علم نحو سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ آپ نے کتب نحو کی عبارات تو نقل کر دیں کہ
لٰکن
ازالہ وہم کے لئے آتا ہے، مگر تعیین وہم کی سند میں کسی تفسیر کی عبارت کیوں نقل نہ کی؟۔ مخالف پر کسی کتاب کا حوالہ دے کر وہ امر آشکارا کیا جاتا جس میں اس کو خلاف ہو۔ کلمہ
لٰکن
کے ازالۂ اوہام کے لئے موضوع ہونا تو فریقین کے نزدیک مسلم ہے۔ اختلاف تو تعیین وہم میں ہے۔ جو وہم آپ کو ہوا ہے اس کی صحت کے لئے کسی کتاب کی عبارت لکھنی چاہئے تھی یا اسے مدلل طور پر زور عبارت میں ثابت کرنا تھا، مگر افسوس مولوی صاحب نے غیر ضروری امر ہی پر اپنا سارا زور بل لگا دیا اور جس امر کو دلیل سے ثابت کرنا تھا وہاں پہنچ کر بے دم ہو گئے۔ مولوی صاحب! معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا آپ کو وہم ہوا ہے۔ سنیے
وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ
کے معنی تین طریق سے ہو سکتے ہیں۔ اوّل اگر نفی قتل کو مفعول پر متصور رکھیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے: ”اور یہود نے مسیح علیہ السلام کو قتل نہیں کیا اور نہ ان کو صلیب پر چڑھایا“
و ھذا الوجه ھو الحق
(اور یہی وجہ درست ہے)۔ دوم اگر نفی قتل کو فاعل پر متصور رکھیں تو معنی یہ ہوں کہ: مسیح علیہ السلام کو یہود نے قتل نہیں کیا اور اس کو سولی پر چڑھایا اس کے خلاف یہ ہو گا کہ یہود کے سوا کسی اور نے مارا اور یہ وجہ باطل ہے۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔ سوم اگر نفی کو افعال مذکورہ پر متصور کریں تو معنی یہ ہوں گے: مسیحؑ کو یہود نے قتل نہیں کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا ہے۔ اس کے خلاف یہ ہو گا کہ کسی اور طرح سے مر گیا اور یہ وجہ بھی باطل ہے۔
ناظرین انصاف سے دیکھیں کہ ان ہر سہ وجوہ میں سے
وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ
کو کس وجہ سے تعلق ہے۔ اگر انصاف سے غور کیا جائے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ
وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ
کو ان وجوہ میں صرف پہلی ہی صورت سے مناسبت ہے اور جمیع مفسرین رحمہم اللہ نے بالاتفاق یہی معنی کئے ہیں۔ صورتِ دوم اس لئے درست نہیں کہ اس صورت میں فعل کی اسناد اس کے فاعل کی طرف نہیں کی گئی اور نیز اس لئے کہ اس صورت میں یہود کا ذکر باسم ظاہر چاہئے تھا یا ضمیر مرفوع منفصل لانی چاہئے تھی۔ صورت سوم اس لئے باطل ہے کہ جس اس صورت کے خلاف یہ تھا کہ وہ کسی اور طرح مر گیا تو پھر فعل کی نفی یہود کی طرف اشارہ کرکے نہ کی جاتی بلکہ عام طور پر کہا جاتا کہ اس کو کسی نے نہیں مارا وہ تو اپنی موت سے بستر پر مرے ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں لفظ
احد
(بمعنے کوئی)بہ سبب معین نہ ہونے کے نکرہ اور عام ہے اور یہود اس کی نسبت خاص اور خاص کی نفی سے عام کی نفی نہیں ہو سکتی۔ باقی رہی صورتِ اوّل سو اس کو جملہ
وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ
سے پورا پورا تعلق ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہود نے مسیحؑ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں صلیب پر چڑھایا لیکن کسی ایسے شخص کو صلیب پر چڑھایا جو ان کے لئے از روئے مکر کے مسیح علیہ السلام کا ہم شکل بنا دیا گیا تھا۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے
وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ
سے مسیح علیہ السلام سے مصلوبیت و مقتولیت کی نفی کر دی تو وہم ہو سکتا تھا اور وہ معقول تھا کہ قتل اور صلب حسی امر ہیں وہمی اور خیالی نہیں اس لئے کوئی نہ کوئی ضرور مصلوب و مقتول ہوا تھا۔ اگر وہ مقتول مسیح علیہ السلام نہیں تھے تو کون تھا؟ سو ضرور تھا کہ اس کا جواب دے کر ازالۂ وہم کیا جاتا۔ پس
وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ
سے اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دفع کیا اور حقیقتِ امر کھول دی کہ وہ کوئی اور شخص تھا جو کہ یہود کے لئے
مَکُرًا بِھِمْ
مسیح علیہ السلام کا ہم شکل بنایا گیا تھا۔
اس میں شاید کوئی کوتاہ نظری سے یہ سوال کرے کہ فعل شبه کی اسناد کس کی طرف ہے۔ کیونکہ اسے مسیح علیہ السلام کی طرف مسند کیا جائے تو مسلمانوں کے اعتقاد میں مسیح علیہ السلام مشبہ بہ ہیں اور یہاں ذکر مشبہ کا ہے اور اگر کسی اور مقتول و مصلوب کی طرف اسناد کی جائے تو اس کا اوپر ذکر نہیں۔
ھٰذا تقریر السوال
۔
اس کا ایک جواب باتفاق جمہور مفسرینؒ یہ ہے جو امام رازی علیہ الرحمۃ نے دیا ہے:
”
أَنْ يُسْنَدَ إِلَى ضَمِيرِ الْمَقْتُولِ لِأَنَّ قَوْلَهُ وَما قَتَلُوهُ يَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ وَقَعَ الْقَتْلُ عَلَى غَيْرِهِ فَصَارَ ذَلِكَ الْغَيْرُ مَذْكُورًا بِهَذَا الطَّرِيقِ، فَحَسُنَ إِسْنَادُ شُبِّهَ إِلَيْهِ
“۔(تفسیر کبیر جلد 11 صفحہ 260 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”کہ یہ فعل مسند ہے طرف ضمیر کی جو مقتول کی طرف پھرتی ہے کیونکہ قول
وَما قَتَلُوهُ
اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کسی اور شخص پر قتل واقع ہوا۔ پس اس طریق سے وہ مقتول مذکور ہوا اور
شُبِّهَ
کی اسناد اس کی طرف ٹھیک ہوئی“۔
اور نیز
إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ
سے بھی اس مقتول کا ذکر سمجھ میں آ سکتا ہے جیسا کہ قاضی بیضاوی نے فرمایا:
”
أو إلى ضمير المقتول لدلالة إنا قتلنا على أن ثم قَتيلاً
“۔(تفسیر بیضاوی جلد 2 صفحہ108 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”یا اس فعل کی اسناد ضمیر مقتول کی طرف ہے کیونکہ
إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ
اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہاں کوئی تو ضرور مقتول تھا“۔
مولوی صاحب نے
شُبِّهَ
کی توجیہ میں تفسیر بیضاوی کی عبارت نقل کرکے عوام کو یہ دھوکہ دینا چاہا کہ گویا اس توجیہ میں پہلے مفسر بھی ان سے متفق ہیں۔
اچھا مولوی صاحب! اگر قاضی بیضاوی علیہ الرحمۃ کی عبارت آپ کے مفید ہے تو قاضی بیضاوی ہی سے پوچھ لیجئے کہ مسیح علیہ السلام کے رفع کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتے ہیں۔ مولوی صاحب! تفسیر بیضاوی درسی کتاب ہے اور آپ نے نہیں پڑھی53۔ تفسیر بیضاوی آپ جیسے ماہروں سے حل نہیں ہو سکتی۔ بندہ آپ کو پھر وہی نصیحت کرتا ہے۔؎
بجائے بزرگاں دلیری مکن
چو سر پنجہ ات نیست شیری مکن
تفسیر بیضاوی کا حل انہی لوگوں کے سپرد کریں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے حل کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔؏
ہر کسے رابہر کارے ساختند
خَلَقَ اللّٰهُ لِلْحُرُوْبِ رِجَالاً
وَرِجَالاً لِقَصْعَةٍ وَّثَرِيْدِ
”یعنی خدا تعالیٰ نے بعض آدمیوں کو تو جنگ کے لئے پید ا کیا اور بعض کو صرف پیالے اور ثرید یعنی پیٹ پالنے کے لئے پالا ہے“۔
مولوی صاحب! آپ مفسرین کے مختلف اقوال سمجھنے کی لیاقت نہیں رکھتے۔ مفسرین کے آیت کے ذیل میں کئی اقوال کرنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ اقوال آپس میں متضاد ہیں اور ان سے نتیجہ ایک نہیں نکلتا۔ بلکہ یہ معنی ہیں کہ ہر صورت میں نتیجہ ایک ہی ہے۔ اس کے اثبات کی کئی صورتیں ہیں اور جس قول سے نتیجہ الٹ نکلتا ہے اسکی تضعیف کر دیتے ہیں۔ آپ ذرا غور کریں کہ اگر
شُبِّهَ
کی اسناد جار مجرور کی طرف کرنے یا ضمیر مقتول کی طرف کرنے سے نتیجہ ایک نہیں نکلتا تو معاذ اللہ مفسرینؒ پر یہ الزام عائد ہو گا کہ وہ قول راجح اور مرجوح اور ضعیف اور قوی میں تمیز نہیں کر سکتے تھے، صرف مختلف قوال کا نقل کر دینا جانتے تھے اور ان میں قوتِ فیصلہ نہ تھی۔ یا یہ نتیجہ نکلے گا معاذ اللہ قرآن شریف ایسی کتاب ہے کہ اس کے مضامین کے بیان میں اتفاق رائے نہیں۔ اگر ان اختلافات کو اس طریق پر جیسا کہ ہم نے بیان کیا، سمجھا جائے تو مفسرین کی بھی علو شان ثابت ہوتی ہے اور قرآن کی بھی۔ مفسرین کی اس طرح کہ گویا وہ ایسے وسیع النظر اور ماہر ہیں کہ ایک امر کو کئی وجوہ سے ثابت کر سکتے ہیں اور قرآن کریم کی اس طرح کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے مضامین کے اثبات کے لئے اپنے اندر ہی کئی دلائل رکھتی ہے۔
فَافْھَمْ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
52: اکمل صاحب نے بہت محنت سے لسان العرب میں سے عبارت تلاش کرکے نکالی: ”
والصَّلْبُ، هَذِهِ الْقِتْلَةُ الْمَعْرُوفَةُ...الخ
“۔(لسان العرب جلد 1 صفحہ 529 مطبوعہ دار صادر بیروت) اور کہا ہے: لسان العرب میں صلب کے معنی قتل کے لکھے ہیں۔(صفحہ11)
جواب: ہم قادیانی علمیت پر ہنسیں یا کیا کریں۔ دعویٰ اکملیت کا اور ”
قتلة
“ کے معنی کرتے ہیں ”قتل“۔ جنابِ من! علم صرف کے قواعد جانے آپ کی بلا! ”
فِعلة
“ بالکسر کا وزن عربی زبان میں نوعیت ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے۔ چنانچہ شافیہ میں ہے: ”
وَبِكَسْرِ الْفَاءِ لِلنَّوْعِ، نَحْوُ ضِرْبَةٍ وَقِتْلَةٍ
“۔(شرح شافیہ ابن الحاجب جلد 1 صفحہ178مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)پس صلب کے ضمن میں لسان العرب میں جو ”
الْقِتْلَةُ الْمَعْرُوفَةُ
“ کے لکھا ہے۔ سو اس کے معنی یہ ہیں کہ صلیب بھی قتل کا ایک ذریعہ ہے۔ کیونکہ قتل عام ہے چاہے کس طرح مارا جائے اس کی صورتیں ہیں، ایک ان میں سے صلیب بھی ہے۔ اسی لئے قرآن میں
مَا قَتَلُوهُ
کے بعد
مَا صَلَبُوهُ
کی تصریح کی ضرورت پڑی کہ یہود قتل مسیح علیہ السلام کی صورت صلیب پر چڑھا کر مارنا کہتے تھے۔ پس خدا تعالیٰ نے
مَا قَتَلُوهُ
سے تو قتل کی نفی کر دی اور
مَا صَلَبُوهُ
سے صلیب پر چڑھانے کو رد کر دیا۔ پس
مَا صَلَبُوهُ
میں فعل
صَلَبَ
جو منفی ہے، وہ صلیب پر چڑھانے کے معنوں میں ہوا نہ کہ صلیب پر مارنے کے معنی میں۔ کیونکہ مارنے کی نفی تو
مَا قَتَلُوهُ
میں ہو چکی ہے۔ باقی رہا صلیب پر چڑھانا سو
مَا صَلَبُوهُ
سے مردود ہو گیا۔ سعادت الاقران
53:مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی جناب مرزا صاحب قادیانی کے استاد مولوی فضل احمد صاحب مرحوم کے بیٹے تھے۔ فقہ وغیرہ کی چند ابتدائی کتابیں حافظ محمد سلطان صاحب سیالکوٹیؒ سے پڑھیں۔ حدیث کی کتابیں استادِ پنجاب حافظ عبد المنان صاحب محدث وزیر آبادیؒ سے پڑھیں۔ کسی ناگفتہ بہ شرارت پر جناب حافظ صاحب نے سخت سزا دی۔ وہاں سے بھاگ آئے۔ پھر قادیانی ہو گئے۔ مولوی نور الدین صاحب کے بعد لاہور جماعت میں شامل ہوئے۔ آخر گوجرانوالہ میں طاعون سے فوت ہوئے۔