• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

شہادت القرآن

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
علماء و حکمائے اسلام بھی انبیاء علیہم السلام میں ان ہر سہ امور کے قائل ہیں۔ قرآن مجید میں انبیاء کے بیانوں میں جابجا ان امور کا ذکر موجود ہے۔ فرق یہ ہے کہ فلسفیوں کے نزدیک نبوت کا حصول کسبی ہے اور ان امورِ عجیبہ کا ان میں پایا جانا ان کی ریاضت و تقدس کا نتیجہ ہے۔ اور اسلامیوں کے نزدیک نبوت ایک وہبی چیز ہے۔ یعنی خدا کی بخشش سے حاصل ہوتی ہے۔ خدا اپنے علم و حکمت سے جسے چاہتا ہے منصب نبوت کے لئے چن لیتا ہے اور اسے تقدس و پاکبازی کی حالت پر خاص حفاظت سے جسے عصمت کہتے ہیں قائم رکھتا ہے۔ اور امورِ عجیبہ ان کو بطور دلیل کے عطا کرتا ہے۔ جن کا اظہار ان کے بس میں نہیں ہوتا بلکہ جب خدا چاہے اسے ظاہر کرے اور جب مصلحت نہ دیکھے نہ ظاہر کرے۔ ہر دو امر کے لئے آیت ذیل ملاحظہ ہو:

قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ (ابراہیم14:11)
”اور ان(کفار)کو ان کے پیغمبروں نے کہا: ہم تو تمہاری طرح بشر ہونے کے سوا اور کچھ نہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا(اسے رسول بنا کر)احسان کر دیتا ہے اور ہم میں تو یہ طاقت نہیں کہ(باختیارِ خود)خدا کے حکم کے بغیر کوئی(نشان)لا سکیں“۔

اس مضمون کی آیات اور بھی ہیں لیکن ہم بنظر اختصار اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ نام کے معقولیوں کے پاس معجزات و کرامات کے انکار میں کوئی ایسی یقینی دلیل نہیں ہے کہ ہم اس پر اعتماد کر سکیں۔ بلکہ ہم تو یہ بھی سیکھتے ہیں کہ فلسفہ جس حد تک کہ ہر زمانہ میں ترقی ہوتی رہی، خود فلسفیوں کے نزدیک بھی ہمیشہ ظنی رہا ہے۔ چہ جائیکہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے مقابلہ میں ان کی تحقیقات و معلومات و قواعد کو کوئی جگی سے سکیں۔ کیونکہ انبیاء علیہم السلام کا علم خدا کی وحی کے سبب سے یقینی ہے اور ظنی کو یقینی پر ترجیح دینا درست نہیں۔

کیا آپ دیکھتے نہیں؟ کہ قرن کے فلسفی اپنے متقدمین کی تغلیط کرتے اور ان کی تحقیقات پر مضحکہ اڑاتے رہے ہیں۔ جو امور فلاسفۂ متقدمین نے بڑی عرق ریزی اور غور و فکر سے معلوم کئے تھے اور ان کی وجہ سے وہ اپنے زمانہ میں اور کچھ عرصہ بعد بھی استادِ کامل تسلیم کئے گئے تھے۔ وہ متاخرین کے نزدیک جہل و نادانی سے زیادہ قبیح القاب پاتے ہیں۔ مثلاً حکمائے یونان نے آگ، ہوا، پانی اور مٹی کو عنصر(بسیط)قرار دیا تھا اور اسی اصل پر اتنے اصول و فروع متضرع کئے تھے کہ گویا قدرتِ الہٰیہ کا احاطہ کر بیٹھے ہیں۔ حال کے فلسفیوں نے ان کو مرکب ثابت کرکے اس پر پرانی عمارت کو بالکل منہدم کر دیا اور بمصداق؎

ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت

اصول جدیدہ وضع کئے۔ اکثر فلاسفہ پیشین فلک کو متحرک اور تعداد میں نو اور زمین کو ساکن جانتے تھے۔ حال کے نازک خیال سرے سے وجودِ آسمان ہی سے منکر اور حرکتِ ارضی کے قائل ہیں۔ ان کی تحقیق ایسی لغو ہے کہ کوئی ان میں سے قدم علام کا قائل ہے اور کوئی وجودِ واجب الوجود ہی سے منکر، کوئی نبوت کو نہیں مانتا اور کوئی قیامت پر یقین نہیں لاتا۔ اس قدر اختلاف و بد اعتقادی کے ہوتے کس کے مقلد بنو گے اور کس کا جاہل قرار دو گے؟

جب ان کی تحقیق مسلم ہے تو قدم عالم کا اقرار اور نبوت سے انکار کیوں نہیں کرتے؟ پس جب ان امورِ مذکورہ میں ان کو پیشوا نہیں جانتے تو تعلیم الہٰی کی تصدیق کے لئے ان کی آرائے فاسدہ اور اہوائے کاسدہ کی طرف کیوں رجوع کرتے ہو؟۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مرضیات و نامرضیات کی بابت انبیاء علیہم السلام پر وحی نازل کی ہے۔ فلاسفہ کو اس کی اطلاع نہیں کہ۔ بلکہ فلاسفہ پر بھی اتباع اور اطاعتِ انبیاء فرض کی ہے۔ جب انبیاء علیہ السلام پر وحی نازل ہونے کا ایمان ہے تو ان امور کا جو انبیاء علیہم السلام نے بوحیِ الہٰی تعلیم کئے ہیں، فلسفیوں کے اوہام باطلہ اور مغالطاتِ عاطلہ کی بنا پر کیوں انکار کرتے ہو؟۔ کیا انبیاء علیہم السلام کی وحی پر ان کی تحقیق کو جو حقیقت میں ظن ہے، ترجیح ہے؟۔ کہ اندھا دھند ان کے قدموں پر دوڑے جاتے اور آثارِ نبویہ کو چھوڑے جاتے ہو۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس فرقہ کے احوال سے قرآن شریف میں اکثر مقامات پر خبر دی ہے اور ان کے اہوا کو ضلالت اور بے علمی اور ظن اور خرص(اٹکل پچو لگانا)فرمایا ہے اور صرف وحی کو حکم مقرر کیا ہے۔ چنانچہ سورۃ انعام میں فرمایا:

أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا (الأنعام6:114)
”(اے پیغمبر! ان سے کہو)کیا میں خدا کے سوا کسی اور کو منصف قرار دوں حالانکہ وہی تو ہے جس نے تمہاری طرف یہ کتاب(قرآن)مفصل کرکے نازل کی ہے“۔

اس کے بعد یوں فرمایا:

وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (الأنعام6:117)
”(اے پیغمبر!)اگر تو دنیا کے اکثر لوگوں کی اطاعت کی تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں گے۔ وہ تو ظن کے پیچھے لگے ہیں اور ان کے پاس سوائے اٹکل کے کچھ نہیں“۔

حقیقت میں سیل اسلامی کے سامنے ان کے اوہامِ باطلہ ایک تنکے کی بھی حقیقت نہیں رکھتے اور ایسے ہی ان کی تاویلاتِ رکیکہ۔

1)رفع الی السماء کے مقابلہ میں کشش ثقل کے ہزار عذر پیش کرتے ہیں مگر جن انسان ضعیف البنیان اپنے ناتواں بازو سے ایک پتھر اوپر پھینک دے تو ہرگز انکار نہیں کرتے۔ کیا یہ رمی حجر(پتھر پھینکنا)اس امر کا مشعر نہیں کہ جب ضعیف البنیان انسان اس قلیل مقدار خدا داد طاقت سے زمین کی بے حد طاقت کو مغلوب کر لیتا ہے تو کیا وہ عزیز و مقتدر مالک الملک حضرت مسیح روح اللہ و حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہما و سلم کو ان کے مبارک جسموں سمیت نہیں اٹھا سکتا؟۔ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَ اَنَا عَلیٰ ذٰلِکَ مِنَ الشَّاھِدِیْنِ (کیوں نہیں وہ ضرور ہر شے پر قادر ہے اور میں اس بات پر منجملہ گواہوں کے ہوں)۔

2)پرندے باوجود کثیف الجسم27ہونے کے جو سماء میں اڑتے پھرتے، آسمان کی طرف چڑھتے اور پھر اترتے ہیں۔ مگر یہ متعقل اتنا تو بھی نہیں سمجھتے کہ جس قادرِ ذو الجلال نے پرندوں28کو یہ جناح(پر)دیئے ہیں اور یہ طاقتِ طیران(پرواز)بخشی ہے، اس نے فرشتوں کو بھی أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ (دو دو، تین تین اور چار چار پر دیئے ہیں)تو ان کے نزول و صعود کو کون مانع ہے اور جس طرح وہ پرندوں کو اوپر جانے کی طاقت دینے پر قادر ہے، حضرت مسیح علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اوپر لے جانے پر قادر ہے۔29

3)کرۂ ہوائی سے باہر جا کر ہوا کے بغیر زندہ رہنے کو محال سمجھتے ہیں اور إِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ 30(النجم53:32) پر غور کرکے نہیں سمجھتے کہ جنین کا منہ بند ہوتا ہے اور اُسے خوراک بطریق ناف پہنچتی ہے۔

4)ہزارہا حیوان بے مادر و پدر ہوتے ہیں بلکہ یہ متعقل اپنے بطون(پیٹوں)سے خارج ہوتے دیکھتے ہیں، مگر عیسیٰ علیہ السلام کا بے پدر پیدا ہونا ان کی باریک عقل میں نہیں سما سکتا۔ چنانچہ فرمایا:

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (سورۃ حم السجدہ/فصلت 41:53)
”ہم ان کو اپنے نشانات آفاق میں بھی اور ان کے اپنے نفسوں میں بھی ضرور دکھاتے رہیں گے۔ ختیٰ کہ ان کو ظاہر ہو جائے گا کہ وہ برحق ہے“۔

طریق ثبوت معجزات
انسان یا تو اپنے مشاہدہ و تجربہ یا استدلال سے علم حاصل کرتا ہے یا کسی مخبر صادق کی خبر سے۔ پہلی صورت کی نسبت یہ تفصیل بھی بالضرور یاد رکھنی ہو گی کہ بعض مشاہدات و تجربات مختص بمردمان ہوتے ہیں کہ خاص خاص اشخاص ان کو دیکھ کت فائدہ حاصل کرتے ہیں اور بعض مختص بزمان ہوتے ہیں کہ ان کا وقوع ایک زمانِ خاص سے متعلق ہے۔ پس بنی آدم کے مشاہدات و تجربات آپس میں مساوی نہیں ہو سکتے۔

پھر یہ بھی کہ طبائع جو علم حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں، استعداد میں متفاوت ہیں اور یہ امر فلسفیوں میں مسلم ہے۔ اس لئے ہر شخص کے کسی امر کو حاصل کرنے کی کیفیت اور اس کے ادراک کی حقیقت بھی یکساں نہیں۔ پس اگر کسی وقت کسی جگہ کوئی امر عجیب حادث ہو جس پر ہمارا سابق علم حاوی نہ ہو تو ہم اسے خارج از قانونِ قدرت کہہ کر ٹال نہیں دیں گے بلکہ لازماً واقعہ کی تصدیق کریں گے۔ اگرچہ اس کی علت و سبب ہمارے علم میں نہ آئے۔

ہاں جن لوگوں نے اسے اپنے مشاہدے سے نہیں دیکھا، ان کے اعتبار کے لئے سچی خبر کی ضرورت ہے۔ جس طرح کہ ہم دوسری بن دیکھی چیزوں کی محض خبر سے مانتے ہیں اور باطل و بے ثبوت کی پیروی سے بچنے کے لئے اس کی صداقت کو بھی جانچتے ہیں۔ پس اسی طرح معجزات کی خبروں کو بھی ان کے مخبروں کی حیثیت سے پرکھیں گے۔ سو قرآن کی نسبت تو مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ قطعاً و یقیناً کلامِ الہٰی ثابت ہو چکا ہے۔ لہٰذا جو معجزات یا عجائباتِ قدرت اس میں مذکور ہیں وہ بلا تردد و تامل اسی طرح ماننے پڑیں گے جس طرح قرآن نے منوائے۔ ورنہ معاذ اللہ کذب باری لازم آئے گا یا قرآن مجید کی صحت و قطعیت میں فرق آئے گا اور یہ دونوں باتیں داخل کفر ہیں۔

باقی رہا وہ معجزات جو احادیث میں وارد ہیں، ان کی نسبت بھی یہی قاعدہ ہے جاری ہو گا کہ اگر وہ روایات صادق و متقی اور حافظ و ضابطہ راویوں کے متصل سلسلہ سے خدا کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائیں تو ان کے ماننے میں بھی کلام نہیں ہو گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی نسبت خدائے تعالیٰ نے فرمایا:

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (البقرہ2:143)
”اس طرح ہم نے تم کو عادل امت بنایا کہ تم(دیگر)لوگوں پر گواہ بنو“۔

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران4:110)
”(نیز فرمایا)تم بہترین امت ہو جو(دیگر)لوگوں کے لئے(بطور نمونہ)چنے گئے ہو“۔

اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ان کو حجۃ الوداع میں خطبہ منیٰ میں مخاطب کرکے فرمایا تھا:

لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الغَائِبَ “۔(صحیح بخاری جلد اول صفحہ 33 الرقم:105مطبوعہ دار طوق النجاۃ)
”تم جو اس وقت حاضر ہو ان کو جو تم میں سے حاضر نہیں ہیں(یہ دین)پہنچا دینا“۔

اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے تبلیغ دین کے لئے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو بعد کی امت کے لئے وکیل و مبلغ قرار دیا ہے۔ لہٰذا سب اصحاب عادل و صادق ہیں اور واقعات میں بھی ایسا ہی پایا گیا ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف عمداً غلط بات کو منسوب نہیں کرتے تھے بلکہ جس کسی لفظ میں ان کو تردد و شک ہو اس میں بھی پرہیز کرتے تھے اور ظاہر کر دیتے تھے کہ آپ نے یوں فرمایا تھا یا یوں فرمایا تھا۔

تنبیہ
لہٰذا معجزاتِ حدیثیہ بھی مثل قرآن شریف واجب الاعتقاد ہیں۔ خلاصہ یہ کہ معجزاتِ و خوارقِ عادت کے ثبوت کے لئے مخبر صادق کی سخت ضرورت ہے۔ امکانِ معجزات سے یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام ہر ممکن امر کو محض اس کے امکان کی بنا پر واقعہ کی صور میں بھی منواتا ہے۔ نہیں! بلکہ اس کے امکان کے بعد اس کے وقوع کے لئے اس خبر کا پرکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ سچی ہے یا کیسی؟ سچی ثابت ہو جانے پر اس کی تسلیم و تصدیق سے اپنے خیالات و قیاسات سے جن کی بنا قصورِ فہم یا عدمِ علم یا نقصِ علم پر ہے۔ ان کا انکار نہ تو عقلاً صحیح ہے اور نہ شرعاً درست ہے۔ و اللہ الھادی


۞۞۞

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
27:مرزا صاحب نے ازالہ اوہام میں معراج جسمانی کے انکار میں لکھا ہے کہ: ”سیر معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا“۔(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 126) اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ سُوْءِ الْاَدَب ۔
28:اکمل صاحب قادیانی نے یہاں پر عجب گل افشانی کی ہے۔ کہتے ہیں: ”کیا کوئی پرندہ آسمان پر موجود ہے؟“۔(صفحہ6)سُبْحَان اللہ! سخن فہمی عالم قادیانی معلوم شد۔
29:اکمل صاحب اس پر سوال کرتے ہیں: ”پرندوں کے اوپر جانے کو مسیحؑ کے صعود سے کیا نسبت ہے؟“۔(صفحہ6)
جواب: قرآن شریف میں سورہ نحل میں یہ امر خدائے تعالیٰ کی وسعتِ قدرت کی مثالوں کے سلسلہ میں مذکور ہے۔ چنانچہ پہلے أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ کہا ہے۔ پھر ماں کے پیٹ سے بچے کا دل، آنکھ، کان والا کر کے نکالنے کا ذکر کیا۔ اس کے بعد پرندوں کا بحکم خدا جو آسمان میں اڑنا ذکر کیا، ہم نے بھی اسی مناسبت سے خدا کی قدرت کی وسعت کا ذکر کر کے اس سے حضرت مسیح علیہ السلام کی رفع آسمانی کا ممکن ہونا ثابت کیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مناظرۂ نمرود میں رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ کے بعد فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ (البقرہ2:258) کے لانے میں جو ربط ہے اسے سمجھو تو شہادت القرآن کا یہ مقام بھی سمجھ لو گے۔ فافہم
30:ترجمہ: ”جبکہ تم اپنی اپنی ماں کے پیٹ میں جنین تھے“۔ اس آیت کے ذکر سے مقصود یہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ جنین کی پرورش کیلئے منہ کے سوائے ایک خاص صُورت بنا دیتا ہے، اسی طرح اُس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر اُٹھانے کیلئے کرۂ ہوائی سے آگے جانے کی کوئی خاص صورت بنا دی۔ اکمل صاحب اسے سمجھ نہیں سکے تو کہتے ہیں: ”(اس آیت)کو کرۂ ہوائی سے باہر جا کر زندہ رہنے کی تائید میں پیش کرنا فضول ہے“۔(صفحہ6)
جواب: کرۂ ہوائی کے اندر یا باہر ہونا ملحوظ نہیں، بلکہ خدا تعالیٰ کا اپنے ارادہ کے پورا کرنے میں قادرِ مطلق و حکیم مطلق ہونا ملحوظ ہے، جو آپ سمجھ نہیں سکے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مقدمہ ثانیہ

در تشریحِ سُنت اللہ

بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم اس کارخانۂ قدرت میں ایک خاص نظام دیکھتے ہیں جس کا نام سنت اللہ بھی ہے اور خدائے تعالیٰ فرماتا ہے: فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (فاطر35:43)یعنی ”خدا کی سنت(روش)بدلا نہیں کرتی“۔ پس معجزہ و کرامت جن کی صورت سنت اللہ کے خلاف ہے، ممکن نہیں۔

اس کے جواب کی دو صورتیں ہیں: اوّل نظام قدرت کو ملحوظ رکھ کر عقلی جواب، دوم یہ کہ آیت پیش کردہ کا مطلب وہ نہیں جو منکرینِ معجزہ و کرامت نے سمجھا۔ پہلی صورت کے لحاظ سے کچھ جواب تو پہلے مقدمہ میں گزر چکا اور کچھ اس جگہ بھی بحسبِ ضرورتِ مقام لکھا جاتا ہے۔ سو معلوم ہو کہ کسی قاعدہ کو سنت اللہ یا خدا کا قاعدہ قرار دینے کے دو طریقے ہیں: ایک نقلی ، دوسرا عقلی۔ نقلی یہ کہ قرآن شریف یا حدیث صحیح میں اسے سنت اللہ کہا ہو اور عقلی یہ کہ ہم اس کارخانۂ قدرت کے انتظام کے سلسلہ پر نظر کرکے کسی امر کو سنت اللہ قرار دے لیں۔ اسے علم منطق میں استقرار کہتے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں: تام اور ناقص۔ تام اسے کہتے ہیں کہ تمام ہم قسم جزئیات پر نظر کریں اور ان میں ایک مشترک نظام پائیں اور اسے قاعدہ قرار دیں۔

ناقص یہ ہے کہ چند جزئیات پر نظر کرکے ایک امر کو قاعدہ قرار دیں۔ استقرائے تام جو عقلاً سب جزئیات کا حصر کرے مفید ظن ہوتا ہے31۔ کیونکہ تمام جزئیات کا حصر ہوا نہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض دیگر جزئیات جو ہمارے علم میں نہیں آئیں اس نظام و قاعدہ کے ماتحت نہ ہوں جو ہم نے سمجھ رکھا ہے۔ پس اس قرارداد کو قاعدہ کہنا درست نہیں، کیونکہ قاعدہ وہ ہے جو جمیع جزئیات پر منطبق ہو۔ لہٰذا وہ ہمارا سمجھا ہوا قاعدہ سنت اللہ رہا۔32

اب سوال یہ ہے کہ جس امر کو ہم نے سنت اللہ قرار دیا ہے آیا اس کے متعلق خدا نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ امر خدا کی سنت ہے؟ یا جو قاعدہ ہم نے اپنے استقراء سے بنایا ہے وہ سب جزئیات کو دیکھ بھال کر بنایا ہے؟ اور ہم اس کی مخلوقات کا احاطہ کر چکے ہیں؟ اور اس کی قدرت کے اسرار کو اور اس نظام کو کامل طور پر سمجھ چکے ہیں؟۔33

قرآن و حدیث کا واقف اور نظامِ قدرت پر صحیح نظر رکھنے والا بیشک گردن جھکا دے گا اور اس امر کو تسلیم کرے گا کہ ان قواعد کو جو ہم نے بنائے ہیں خدا و رسول نے ہرگز سنت اللہ نہیں کہا اور ہمارا استقراء بالکل ناقص ہے34۔ کیونکہ مخلوقاتِ الہٰی اور اس کے عجائبات قدرت انسان کے احاطۂ علم سے باہر ہیں۔ ہم کو وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ (المدثر74:31)یعنی ”تم کو تو صرف تھوڑا سا علم عطا کیا ہے“ کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ آیت وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (الفتح 48:23) اور اس کی دیگر نظائر کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ ان آیات میں سنت اللہ سے انبیاء کی نصرت اور ان کے دشمنوں کی تعذیب اور خذلان و ناکامی مراد ہے35۔ سو اس امر کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری یہ قدیم روش ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہو گی۔36

اس بات کو سمجھنے کا آسان طریق یہ ہے کہ یہ آیات جہاں جہاں قرآن مجید میں وارد ہوئی ہیں، طالب مشتاق ان مواقع کو نکال کر ما قبل و ما بعد پر نظر کرے تو ساتھ ہی انبیاء علیہم السلام کی نصرت اور ان(منکرین) پر خدا کی مار اور پھٹکار کا ذکر موجود ہو گا۔ پس قاعدہ نظم و ارتباطِ قرآن مجید اسے مجبور کر دے گا کہ وہ تسلیم کر لے کہ اس جگہ سنت اللہ سے مراد پیغمبروں کی نصرت اور ان کے دشمنوں کی تعذیب و خذلان ہے۔ چنانچہ ہم وہ سب مواقع علی الترتیب مع ان کے ما قبل کے نقل کر کے فیصلہ ناظرین کے فہمِ رسا پر چھوڑ تے ہیں۔

موقعہ اوّل سورۃ بنی اسرائیل آیات 76تا77

وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذًا لَّا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًاoسُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا (الاسراء17:76،77)

”اور تحقیق یہ لوگ نزدیک ہیں کہ تجھ کو دل برداشتہ کرکے اس سرزمین(مکہ)سے نکال دیں۔ پھر یہ بھی اس میں تیرے پیچھے تھوڑی ہی مدت بسیں گے۔ (یہ)سنت ہے ان پیغمبروں کی جن کو ہم نے تجھ سے پہلے بھیجا اور تو ہماری سنت کے لئے تحویل(ٹال دینا)نہ پاوے گے“۔

اس موقع پر صاف مذکور ہے کہ کفارِ مکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ شریف سے خارج کرنا چاہتے تھے، حق تعالیٰ نے آپ کی تسلی فرمائی کہ اگر آپ کو نکال دیں گے تو خود بھی نہ رہیں گے کیونکہ انتقامِ انبیاء از اعدا ہماری سنت قدیمہ ہے اور یہ کبھی محول نہ ہوگی۔

اس آیت کی ذیل میں تفسیر کبیر میں کہا ہے: أَنَّ كُلَّ قَوْمٍ أَخْرَجُوا نَبِيَّهُمْ مِنْ ظَهْرَانَيْهِمْ فَسُنَّةُ اللَّهِ أَنْ يُهْلِكَهُمْ (تفسیر کبیر جلد 21 صفحہ381 مطبوعہ دار إحیاء التراث بیروت)یعنی خدائے تعالیٰ کی اس سے یہ مراد ہے کہ ”جس کسی قوم نے اپنے نبی کو نکالا اس کے متعلق خدا کی سنت یہی ہے کہ ان کو بس ہلاک کر دے“۔ اور آیت لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا پر کہا ہے: وَالْمَعْنَى أَنَّ مَا أَجْرَى اللَّهُ تَعَالَى بِهِ الْعَادَةَ لَمْ يَتَهَيَّأْ لِأَحَدٍ أَنْ يَقْلِبَ تِلْكَ الْعَادَةَ (ایضاً) یعنی ان کے معانی یہ ہیں کہ جس امر کو خدا اپنی عادت ٹھہرا لے تو کسی سے بھی نہیں ہو سکتا ہے کہ اس عادت کو بدل ڈالے۔ اسی طرح تفسیر ابوالسعود میں بھی لکھا ہے کہ خدا کی یہی سنت ہے جو امت اپنے رسول کو اپنے علاقہ سے نکال ڈالے، خدا تعالیٰ اس کو ہلاک کر دیتا ہے۔ اسی سورۂ بنی اسرائیل میں فرعون کی نسبت فرمایا:

فَأَرَادَ أَن يَسْتَفِزَّهُم مِّنَ الْأَرْضِ فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ جَمِيعًاoوَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ (بنی اسرائیل17:103،104)
یعنی ”پس ارادہ کیا(فرعون نے)کہ دل برداشتہ کرے ان کو اس سر زمین(مصر)سے تو ہم نے اس کو اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو ڈبو دیا اور اس کے بعد بنی اسرائیل کو کہا کہ اب تم زمینِ(مصر)میں(با اختیار ہو کر)سکونت اختیار کرو“۔
گو سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا کی ایک مثال بھی ذکر فرما دی۔

موقعہ ثانی سورہ الاحزاب آیت 60تا63

لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًاo مَّلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًاo سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (الأحزاب33:60،61،62)
”اگر منافق اور وہ جن کے دل میں مرض(شک)ہے اور وہ شہر میں بری خبریں اڑاتے پھرتے ہیں، باز نہ آئیں گے تو ہم تجھ کو ان پر مسلط کر دیں گے۔ پھر وہ شہر مدینہ میں تیرے نزدیک تھوڑے ہی دن رہیں گے۔ لعنت مارے ہوئے ہو کر جہاں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں گے۔ جو لوگ پہلے گذرے ہیں ان میں(بھی)خدا کا(یہی)دستور رہا ہے اور اے پیغمبر! تم خدا کے دستور میں ہرگز(کسی طرح کا)رد و بدل نہ پاؤ گے“۔

اس میں بھی عذاب الہٰی کا صاف ذکر ہے۔ چنانچہ تفسیر ابوالسعود میں لکھا ہے: ” سَنَّ اللّٰه ذلكَ في الأممِ الماضيةِ سُنَّةً وهي ان يقتل الذين نافقُوا الأنبياءَ عليهم الصَّلاةُ والسَّلامُ وسعَوا في توهينِ أمرِهم بالإرجافِ ونحوهِ أَينما ثُقفوا “۔(تفسیر ابی السعود جلد7 صفحہ116 مطبوعہ دار إحیاء التراث بیروت)یعنی ”گزشتہ امتوں میں خدا کی سنت یہی رہی ہے کہ ان لوگوں کو جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام سے منافقت کریں۔ اور ان کے امر(دین)کے ضعیف کرنے میں ارجاف(غلط پروپیگنڈہ)کرنے یا اس کی مثل(اور شرارتوں)سے سعی کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو ٹکڑے ٹکڑے ہی کر دیتا رہا ہے“۔

اسی طرح تفسیر کبیر میں بھی یہی مضمون ہے۔ اسی طرح لسان العرب میں ہے: ” أَي سَنَّ اللَّهُ ذَلِكَ فِي الَّذِينَ نَافَقُوا الأَنبياءَ وأَرْجَفُوا بِهِمْ أَن يُقْتَلُوا أَين ثُقِفُوا أَي وُجِدُوا “۔(لسان العرب جلد 13 صفحہ 225 مطبوعہ دار صادر بیروت)اس کے بعد سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ (سورہ کہف18:55)کی نسبت کہا ہے: قَالَ الزَّجَّاجُ سُنَّةُ الأَوَّلين أَنهم عَايَنُوا الْعَذَابَ (ایضاً)37


موقعہ ثالث سورہ فاطر آیت 43

وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا (فاطر35:43)
”اور بری تدبیر(کا وبال)صرف اس کے اہل ہی پر پڑا ہے۔ تو یہ لوگ سوائے پہلوں کی سنت کے اور کچھ نہیں انتظار کرتے۔ پس تو ہرگز خدا کی سنت میں تحویل(ٹالنا)پائے گا“۔

چنانچہ تفسیر ابوالسعود میں کہا ہے:” أَي سُنَّة اللّٰهِ فِيْهِمْ بِتَعْذِيْبِِ مُكَذِّبِيْهِمْ “۔(تفسیر ابی السعود جلد 7 صفحہ156مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)یعنی ”ایسے لوگوں کے بارے میں خدا کی سنت یہ ہے کہ مکذبین کو عذاب دے“۔

اسی طرح تفسیر کبیر میں ہے:” لَيْسَ لَهُمْ بَعْدَ هَذَا إِلَّا انْتِظَارُ الْإِهْلَاكِ وَهُوَ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ “۔(تفسیر کبیر جلد26صفحہ247 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)یعنی”بد اندیشوں کے لئے اس کے بعد سوائے ان کی ہلاکت کے کسی چیز کا انتظار نہیں ہے اور یہی پہلے لوگوں میں خدا کی سنت ہے“۔

موقعہ رابع سورہ فتح آیت 22تا23

وَلَوْ قَاتَلَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوَلَّوُا الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًاo سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (الفتح48:22،23)
”اور اگر کفار تم سے لڑیں گے تو پیٹھ پھیر جائیں گے۔ پھر ان کو کوئی بھی حامی و مدد گار نہ ملے گا(یہ)خدا کی سنت(ہے)جو پہلے گزر چکی اور تو ہرگز خدا کی سنت میں تبدیلی نہ پائے گا“۔

چنانچہ تفسیر کبیر میں ہے:” سُنَّةُ اللَّهِ نُصْرَةُ رَسُولِهِ، وَإِهْلَاكُ عَدُوِّهِ “۔(تفسیر کبیر جلد28صفحہ81مطبوعہ دار إحیاء التراث بیروت)یعنی ”خدا کی سنت یہ ہے کہ اپنے رسول کو مدد کرے اور اس کے دشمن کو ہلاک کرے“۔ اسی مضمون عدمِ تبدیلِ عذابِ الہٰی کو مواقع کثیرہ میں بالفاظ دیگر بیان کیا گیا ہے۔ گویا وہ آیات تفسیر ہیں سنت اللہ کی۔
چنانچہ فرمایا سورۂ انعام میں:

وَلَا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ (الانعام6:147)
”اور اس کا عذاب مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا“۔

نیز سورۂ یوسف میں فرمایا:

وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ (یوسف12:110)
”اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا“۔

اور سورۂ مومن کے اخیر میں فرمایا:

فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ (غافر40:85)38
”پس جب انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھ لیا تو ان کو ان کے ایمان نے کچھ فائدہ نہ دیا(یہ)خدا کی سنت(ہے)جو اس بندوں میں گزر چکی اور اس وقت خسارے میں ہوئے“۔

اس بیان و تفصیل سے طالب ذکی پر واضح ہو گیا کہ متعلقین کا انکارِ خرقِ عادت کے لئے آیت سے وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا تمسک کرنا مرادِ الہٰی کے بالکل خلاف ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
31:مستفاد از ملابین بحث استقراء صفحہ 249 جلد دوم۔ نیز شرح مطابع مطبوعہ استنبول صفحہ 348 بحث استقرار۔
32:اکمل صاحب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کارخانۂ قدرت پر نظر کرکے کسی امر کو سنت اللہ نہ کہنا چاہئے۔(صفحہ6)پس جب یہ مسلّم ہے تو پھر جھگڑا کیا رہا۔
33:اکمل صاحب کہتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ کسی امر کو اپنی سنت کہے کے ساتھ یہ ایزاد کر لیجئے کسی امر کو بطور کلیہ فرمانا بھی سنت ہے“۔ اچھا جناب! تو پھر کیا آپ کے مدعا کے مطابق قرآن میں تو کوئی کلیہ نہیں ہے تو یہی ہے کہ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرہ2:20)جو آپ کے مدعا کے خلاف ہے۔
34:حاصل یہ کہ ہم اپنے ناقص تجربہ و مشاہدہ کی بنا پر کسی امر کو سنت اللہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ مخلوقات و ضائع خالق کا استقرائے کلی ناممکن ہے اور استقرائے ناقص مفید ظن ہوتا ہے، نہ مفید یقین۔ فافہم
35:اکمل صاحب فرماتے ہیں: ”سنت اللہ کے معنی عذابِ الہٰی کسی لغت سے دکھائے ہوتے“۔(صفحہ6) خدا جانے اکمل صاحب نے کس کمال کی بنا پر اپنا نام اکمل تجویز کیا۔ جناب والا! سنت کے معنی ہیں عادت و سیرت۔ چنانچہ صراح میں ” سنة بالضم روش “ اور قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہمیشہ گزشتہ امتوں میں یہ کرتا آیا ہوں کہ منکرینِ انبیاء کو عذاب کروں تو اب بھی ایسا ہی کروں گا اور یہ میری سنت ہے۔ مصنفین کتب لغت پر یہ واجب نہیں کہ لفظ سنت کی ذیل میں سب قسم کی عادتوں کو لکھ دیں۔ یہ تو متکلم کے کلام سے معلوم ہو گا۔ گو آپ کا سوال بالکل جاہلانہ ہے لیکن خدا کی قدرت کہ اس نے اپنے بندے سے آپ کا مطالبہ بھی پورا کرا دیا۔ دیکھئے قاموس میں سنت الاولین کی نسبت لکھا ہے:” أي مُعَايَنَةُ العَذابِ “۔ (قاموس المحیط صفحہ 1207 مطبوعہ مؤسسة الرسالۃ بیروت لبنان)اسی طرح لسان العرب میں بھی ہے جو انشاء اللہ آگے مذکور ہو گا۔
36:اکمل صاحب لکھتے ہیں: ” لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ میں لا نفی جنس کو دیکھو، ہر بدلنے والے کی نفی ہے“۔(صفحہ6)

جواب: کیا آپ کا یہ مدعا ہے کہ پھر خدا بھی نہیں بدل سکتا۔ جناب یہ بات آپ نے بے علمی کی وجہ سے لکھی۔ کلمت کی اضافت جب خدا کی طرف کی گئی تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ خدا کے سوا خدا کے کلمات کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ دیکھئے تفسیر ابوالسعود میں اسی آیت کے ضمن میں لکھا ہے: ” لَا قَادِرَ عَلىٰ تَبْدِيْلِهٖ وَتَغْيِيْرِهٖ غيرُه “۔(تفسیر أبی السعود جلد5 صفحہ218 مطبوعہ دار إحیاء التراث العربی بیروت) یعنی ”خدا کے سوا کوئی دوسرا اس کی تبدیلی و تغییر پر قدرت نہیں رکھتا“۔
37:لیجئے اکمل صاحب لغت کی کتاب سے بھی سنت اللہ سے مراد عذاب اللہ ثابت ہو گیا۔ اب تو قادیانی مسیح کو چھوڑیئے۔
38:اکمل صاحب نے آیتوں میں سنت اللہ سے عذابِ الہٰی مراد نہ ہونے میں بہت بے سود کوشش کی ہے۔ اس کا صحیح و درست جواب یہ ہو سکتا ہے تھا کہ آپ قرآن شریف میں سے کوئی پانچویں جگہ نکال دیتے جہاں سنت اللہ کا غیر مبدل کہا ہو اور سابقاً یا لاحقاً عذاب و نکال کا ذکر و قرینہ نہ ہو۔ کیونکہ موجبہ کلیہ کی نقیض سالبہ جزئیہ ہوتی ہے۔ مگر آپ کو یہ باتیں بتائے کون؟ مسیح قادیانی تو خود ان علوم سے ناواقف تھا مرید کیا جانیں؟ اور کَلِمٰتُ اللہ کے متعلق ایک بات آپ کو بتاؤں کہ یہاں پر مراد خدا کے وعدے ہیں جو قادیانی سے کبھی بھی پورے نہیں ہوئے۔ سمجھ نہ آئے تو محمدی بیگم کا نکاح، ڈاکٹر عبد الحکیم اور عبداللہ آتھم کی موت، مولوی ثناء اللہ صاحب سے آخری فیصلہ کو مواعید سمجھ لیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
Tags:
اللہ تعالیٰ اپنی سنت تبدیل نہیں کرتا سے کیا مراد ہے؟ کیا اللہ اپنی سنت تبدیل کرتا ہے؟ سنت اللہ سے کیا مراد ہے؟ سنت اللہ اور مرزائی، قادیانی۔ و لن تجد لسنت اللہ تحویلا سے کیا مراد ہے؟
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مقدمہ ثالثہ

دربیانِ خصائص حضرت عیسیٰ علیہ السلام
قادرِ قیوم کا طریقِ تعلیم اسی نہج پر چلا آیا ہے کہ جب لوگ مسببِ بحقیقی سے غافل ہو کر اسباب کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں تو وہ عزیز حکیم ان کے مزعومات کو باطل کرنے کے لئے اپنی قدرت کے کرشمے ظاہر کا کرتا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادتِ باسعادت کے وقت طب اور فلسفہ کا بڑا چرچا تھا(اور ظاہر ہے کہ ان علوم کا مدار اسباب پر ہی ہے)شب و روز کے توغّل نے ان کے اذہانِ قاصرہ میں یہی کچھ مزین کر دیا تھا کہ کوئی چیز بغیر سبب 39و علاج اور بدونِ ترکیب و مزاج کے پیدا نہیں ہو سکتی۔؎

اے گرفتارِ سبب از مسبب غافلی
سوئے ایں روتاب زاں سو مائلی

سو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے اس واہی خیال کے ابطال کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام کو خلافِ عادت بے باپ پیدا کیا۔ اور آپ کو طفلی میں خلافِ عادت نطقِ فصیح کی طاقت دی40۔ اور ایسے مریضوں کو جن کے علاج سے اطباء عاجز ہوں بغیر اسبابِ معتاد کے ان کے ہاتھ پر شفا دی۔ اور معجزۂ احیائے موتی جو طاقت بشری سے باہر ہے ان کے ہاتھ پر ظاہر کیا۔ اور مٹی کی مورت میں آپ کی پھونک سے زندگی کی روح پھونک دی جو اس سے بھی عجب تر ہے۔ اور صعود الی السمآء جسے فلاسفر محالات میں شمار کرتے ہیں، حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر چڑھا کر واقعتاً محقق کر دیا اور فلاسفہ کے اس خیال کو کہ گردشِ زمانہ کے اثر سے ہر چیز متغیر و مستحیل ہو جاتی ہے، حضرت مسیح علیہ السلام کے مسئلہ نزول سے باطل کر دیا۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے:

قَالَ كَثِيرٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ بعث اللّٰه كل نبي من الأنبياء بما يناسب أَهْلَ زَمَانِهِ، فَكَانَ الْغَالِبُ عَلَى زَمَانِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ السِّحْرُ وَتَعْظِيمُ السَّحَرَةِ، فَبَعَثَهُ اللَّهُ بِمُعْجِزَةٍ بَهَرَتِ الْأَبْصَارَ وَحَيَّرَتْ كُلَّ سَحَّارٍ، فَلَمَّا اسْتَيْقَنُوا أَنَّهَا مِنْ عِنْدِ الْعَظِيمِ الْجَبَّارِ انْقَادُوا للإسلام، وصاروا من عباد الله الْأَبْرَارِ. وَأَمَّا عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَبُعِثَ فِي زَمَنِ الْأَطِبَّاءِ وَأَصْحَابِ عِلْمِ الطَّبِيعَةِ فَجَاءَهُمْ مِنَ الْآيَاتِ بِمَا لَا سَبِيلَ لِأَحَدٍ إِلَيْهِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مُؤَيَّدًا مِنَ الَّذِي شَرَعَ الشَّرِيعَةَ، فَمِنْ أَيْنَ لِلطَّبِيبِ قُدْرَةٌ عَلَى إِحْيَاءِ الْجَمَادِ، أَوْ عَلَى مُدَاوَاةِ الْأَكْمَهِ وَالْأَبْرَصِ، وَبَعْثِ مَنْ هُوَ فِي قَبْرِهِ رَهِينٌ إِلَى يَوْمِ التَّنَادِ. وكذلك محمد صلّى الله عليه وسلّم، بعث في زمان الفصحاء والبلغاء وتجاريد الشُّعَرَاءِ، فَأَتَاهُمْ بِكِتَابٍ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، لَوِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِهِ، أَوْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِنْ مِثْلِهِ، أَوْ بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ، لَمْ يَسْتَطِيعُوا أَبَدًا وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا، وَمَا ذَاكَ إِلَّا لأن كلام الرب عز وجل لا يشبه كَلَامَ الْخَلْقِ أَبَدًا “۔(تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ37 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
”بہت سے علماء امت نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس(نشان)کے ساتھ مبعوث کیا جو اس کے زمانہ کے لوگوں کے مناسب تھا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جادو اور جادوگروں کی تعظیم کا بہت چرچا تھا۔ پس خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسے معجزے(اعصا)سے مبعوث کیا جس کا آنکھوں کو حیران اور جادوگر کو مبہوت کر دیا۔ پس جب انہوں نے یقین کر لیا کہ وہ معجزہ خدائے بزرگ و جبار کی طرف سے ہے تو اسلام کے مطیع ہو گئے اور خدا کے نیک بندے بن گئے۔ (اسی طرح)حضرت عیسیٰ علیہ السلام اطباء اور علم طبیعیات والے لوگوں کے زمانہ میں مبعوث کئے گئے۔ پس وہ ان کے پاس ایسے نشانات لائے جن کی نسبت سوائے اس کے کوئی اور گمان نہیں ہو سکتا کہ یہ سب اس ہستی کی طرف سے ہیں جس نے یہ شریعت مقرر کی ہے۔ پس کسی طبیب کو مردوں اور جمادات کے زندہ کرنے پر جو اپنی قبر میں قیامت کے دن تک کے لئے مرہون ہو، کہاں سے قدرت؟ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ و سلم بڑے بڑے نامی فصحا اور بلغا و شعرا کے زمانہ میں مبعوث کئے گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم خدا کی طرف سے ایسی کتاب لائے کہ اگر تمام انسان اور جن اس امر پر مجتمع ہو جائیں کہ اس کی مثل یا اس کی دس سورتوں کی مثل یا ایک سورت کی مثل لائیں تو کبھی بھی نہ لا سکیں گے۔ اگرچہ بعض بعض کے مددگار بھی بن جائیں اور یہ اسی لئے ہے کہ خدا کا کلام مخلوق کے کلام سے ہرگز نہیں ملتا“۔

تشریح لفظ آیت

آیت کے معنی ہیں علامت۔ چنانچہ لسان العرب میں ہے: والآيةُ العَلامَةُ ۔ قرآن شریف میں اس کا اطلاق کئی امروں پر آیا ہے کہ ایک ان میں سے عجائبات قدرت ہیں۔ چنانچہ فرمایا:

أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا (الکہف18:9)
”کیا تو نے گمان کیا کہ غار والے اور تختی والے ہمارے نشانات میں سے کوئی انوکھی چیز تھے“۔

اسی کے موافق لسان العرب میں کہا ہے: آياتِ اللّٰهِ عَجَائِبُهُ اسی معنی کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے قرآن شریف میں متعدد مقامات میں آیت کا لفظ وارد ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ (مریم19:21)
یعنی ”تاکہ ہم اسے(ابن مریم)لوگوں کے لئے(اپنی قدرت کا)ایک نشان بنائیں“۔

وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ (انبیاء21:91)
”اور ہم نے اسے(مریم علیہ السلام کو)اور اس کے بیٹے(مسیح)کو جہان والوں کے لئے(اپنی قدرت کا)ایک نشان بنا دیا“۔

وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً (المؤمنون23:50)
”اور ہم نے ابن مریم(علیہ السلام)کو اور اس کی ماں کو(اپنی قدرت کا)ایک نشان بنایا“۔

وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ (زخرف43:59)
”ہم نے اسے(ابن مریم علیہ السلام)بنی اسرائیل کے لئے(اپنی قدرت کا)ایک نمونہ بنایا“۔

ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آیت اور مثل یعنی نشان و نمونۂ قدرت فرمایا ہے۔ پس اگر ان کے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی ایسی بات وارد ہو جو عام عادت کے خلاف نظر آئے اور لوگوں کو اس تعجب پیدا ہو تو قرآن و حدیث پر ایمان رکھنے والوں کو اس سے کچھ تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ جسے خدائے تعالیٰ نے عام عادت کے خلاف بلا باپ پیدا کیا ہو اور اسے اپنی قدرت کا ایک نشان قرار دیا ہو اس کے حالات عام نظام کے ماتحت نہ ہوں تو کوئی تعجب نہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت، ان کا طفلی میں حکیمانہ کلام فی المہد، ان کے معجزات41، ان کے رفع سماعی اور پھر آسمان سے ان کا نزول سب باتیں اس نظام سے الگ ہیں جو انسان کے علم میں آیا ہے اور جس پر اس کی معلومات کی چکی گردش کر رہی ہے۔

پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق رفع نزاع و اختلاف کے لئے یہ طریق نہایت سادہ اور سلامت روی کا ہے اور ایک مومن کے لئے اس میں کوئی بھی ایچ بیچ نہیں ہے۔

سوال: آیاتِ مذکورہ بالا میں حضرت مریم علیہا السلام کی شان میں بھی لفظ آیت وارد ہے تو حضرت مریم علیہا السلام میں یہ امر کہاں پائے جاتے ہیں؟
جواب: کسی امر کے ثبوت کے لئے قرآن و حدیث میں اس کے اصل کا وجود ضروری ہے۔ پس جس امر میں حضرت مریم علیہا السلام کو آیت کہا گیا، بیشک وہ آیت(نشانِ قدرت)ہیں اور جو ام ان کے حق میں مذکور ہی نہیں وہ زیر بحث و نزاع آ ہی نہیں سکتے۔ ان میں ان کو آیت قرار دینے کے کیا معنی؟ اس لئے ہم نے اوپر عبارت میں نزاع و اختلاف کی قید لگائی ہے۔

نکتہ: سورۂ انبیاء اور سورۂ مومنون کی آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا دونوں کی نسبت آیت بصیغہ وحدت وارد ہے۔ حالانکہ سو کے لئے صیغہ تثنیہ کا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس امر میں یعنی ولادت بلا پدر میں دونوں کا حال بمجموع ایک آیت(نشان)ہے۔ چنانچہ لسان العرب میں آیت وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً (المؤمنون23:50)کو ذکر کرکے کہا ہے:

وَقَالَ أَبو مَنْصُورٍ لأَن الآيَة فِيهِمَا مَعًا آيةٌ وَاحِدَةٌ، وَهِيَ الْوِلَادَةُ دُونَ الْفَحْلِ “۔(لسان العرب جلد 14 صفحہ 62 مطبوعہ دار صادر بیروت)
”ابو منصور نے کہا یہ اس لئے کہ دونوں میں معاً ایک ہی نشان ہے اور وہ ولادت ہے بغیر مرد کے“۔

خاکسار کہتا ہے کہ اس کی نظیر آیت هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ (ال عمران3:7)ہے۔ هُنَّ جمع کی خبر، أُمُّ واحد ہے۔ کیونکہ مجموع آیاتِ محکمات ایک شے ہے اور مجموع آیات متشابہات ایک شئی۔(مستفاد از تفسیر کبیر) پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا میں ایک امر مشترک ہے اور دیگر امَر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ثابت ہیں اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی نسبت نہیں۔

اما الاشتراک ففی انھا و لدته من ٖیر بعل بمحض قدرة اللہ و اما الافتراق ففی التکلم فی المھد و المعجزات الدالة علی صدق النبوة و الرفع الی السمآء حیا و النزول منھا فی اٰخر الزمان ۔(میر سیالکوٹی)
”اشتراک اس امر میں ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو صرف خدا کی قدرت سے بغیر خاوند کے جنا اور ان میں فرق ان امور میں ہے۔ ماں کی گود میں خلافِ عادت باتیں کرنا اور معجزات جو صدق نبوت پر دلالت کرتے ہیں اور آسمان پر زندہ اٹھایا جانا اور آخری زمانہ میں وہاں سے نازل ہونا“۔

حاصل کلام یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن میں آیتہً کہا گیا اور امورِ خمسہ مذکورہ بالا ان کی نسبت قرآن و حدیث میں بطورِ خرقِ عادت ذکر کئے گئے۔ پس آپ ان سب میں آیت اللہ ہیں۔ ایسا نہیں کہ چونکہ آپ کو آیتہً کہا گیا ہے اس لئے پانچوں امور مذکورہ بالا ان میں بغیر قرآن اور حدیث میں وارد ہونے کے بطورِ خرق عادت مانے جائیں42۔ کیونکہ یہ نتیجہ بحسبِ واقعہ و ذکر ہے، نہ بحسبِ علاقہ و لزوم۔ اسی لئے ہم اسے بطورِ قضیۂ اتفاق43یہ کے قرار دیتے ہیں نہ بطورِ قضیۂ لزومیہ کے۔

تذلیل

اسی طرح فرعون کی نسبت وارد ہے: لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَةً (یونس10:92)اور وہ صرف اس کے دریا میں ہلاک ہونے اور پھر ذلت کے ساتھ ساحل پر پڑے رہنے میں ہے۔ جیسا کہ سباقِ آیت اس پر شاہد ہے۔ نیز اسی کے حق میں فرمایا:

فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَىٰoإِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَن يَخْشَىٰ (نازعات79:25،26)
”اس(خدا)نے اس(فرعون)کو دنیا اور آخرت(ہر دو جہان)کے عبرتناک عذاب میں پکڑا۔ بیشک اس امر میں(خدا سے)ڈرنے والے کے لئے(بڑی بھاری)عبرت ہے“۔

اسی طرح حضرت عزیز سلام اللہ علیہ کی شان میں فرمایا: 44

وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ (سورۃالبقرہ2:259)یعنی ”تاکہ ہم تجھ کو لوگوں کے لئے ایک نشانِ(قدرت)بنائیں“۔ سو یہ بھی صرف اس امر میں ہے کہ مردوں کو پھر زندگی بخش دینا خدا کی قدرت میں داخل ہے۔ جیسا کہ اس پہلے أَنَّىٰ يُحْيِي هَٰذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ (البقرہ2:259)یعنی ”خدا اس بستی کے مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا۔ پس خدا نے اسے سو سال تک مارے رکھا، پھر زندہ کیا“ اور اس کے بعد فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرہ2:259) یعنی ”پس جب سب کچھ اس کے سامنے ظاہر ہو گیا تو کہنے لگے میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا ہر شے پر قادر ہے“ سے ظاہر ہے۔

خلاصہ مطلب یہ کہ چونکہ خصوصیات مسیحیہ حضرت مریم سلام اللہ علیہا اور حضرت عزیز علیہما السلام45 میں اور فرعون کے حق میں وارد نہیں ہوئیں۔ اس لئے ہم نہ تو ان کو ان امور میں آیت اللہ کہہ سکتے ہیں اور نہ ان کے متعلق یہ سوال اٹھ سکتا ہے۔ فَافْھَمْ وَ تَدَبَّرُ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْقَاصِرِیْن ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
39:یعنی کوئی وہ سبب جو انسانی علم میں آ چکا ہے۔
40: یہ کلام سورۂ مریم پارہ 16 کے دوسرے رکوع میں صاف مذکور ہے۔(مریم19:30،31،32،33)
41:قاضی اکمل صاحب معجزاتِ مسیحیہ پر اعتراض لکھتے ہیں: ”اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے معجزے کے پرند اڑائے یا بقول آپ کے خلق حیات کیا تو کیا حضرت موسی علیہ السلام کا عصا سانپ نہیں بن گیا تھا؟“۔(صفحہ4)جواب: ہاں جناب! بن گیا تھا، لیکن اس سے آپ کو فائدہ کیا؟ اور نقصان کیا؟ اس میں بھی تو ہماری ہی تائید ہے اور جو آپ نے کہا ”بقول آپ کے خلق حیات کیا“، جناب! یہ مجھ پر افتراء ہے۔ آپ تو لکھتے ہیں: ”شہادت القرآن حصہ اوّل اس وقت میرے سامنے ہے“۔(صفحہ6)بھلا اس میں کہیں دکھائیے تو کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خلق حیات کیا؟ جناب اس میں تو صاف لکھا ہے: ”اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خلقِ حیات حضرت مسیح علیہ السلام کے ہاتھ پر اپنی قدرتِ کاملہ سے کر دکھایا“۔ اسی طرح اعادۂ حیات کو بھی خدا ہی کی طرف منسوب کیا ہے۔(دیکھو صفحہ12 طبع ثانی)
42:قاضی اکمل صاحب اس لفظ آیت پر لکھتے ہیں: ”دوسرے امور کے لئے آیت ٹھہرانا ضروری ہو تو کیا وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اس لفظ کا اطلاق نہیں ہوا؟“۔
جواب:جناب یہ تو اللہ تعالیٰ سے پوچھئے کہ اس نے کیوں کہا؟ ہم تو صاف لکھ دیا ہے تھا کہ قرآن میں مذکور ہونے کے سبب نشان کی صورت مقرر کی ہے اور ولادتِ بلا پدر اس کی موید ہے۔ لیکن آپ اسے سمجھے نہیں۔
43:ملامبین نے شرح سلم میں بحث شرطیات میں لفظ اتفاقاً پر لکھا ہے: بحيث يكون كلا النسبتين واقعتين فی نفس الامر من غير علاقة بينھما ۔ یعنی دونوں نسبتیں واقع ہوں اور ان میں علاقہ لزوم و تصانیف نہ ہو۔

44:قرآن مجید میں اس موقع پر حضرت عزیز علیہ السلام کا نام مذکور نہیں۔ مفسرین کی بھاری جماعت اس طرف گئی ہے کہ یہ قصہ حضرت عزیز علیہ السلام کا ہے۔ سو بنا بر مشہور لکھا گیا ہے۔ و اللہ اعلم بحقیقة الحال

45:قاضی اکمل صاحب اس پر لکھتے ہیں: ”یہی لفظ( آیة )حضرت مریم علیہا السلام کے حق میں بھی وارد ہوا ہے اور حضرت عزیز علیہ السلام کے حق میں بھی اور فرعون کے بارے میں بھی آیا ہے“۔ جواب: ہاں جناب آیا ہے۔ لیکن اس اعتراض میں آپ کا کیا کمال ہے۔ یہ سوال تو میں نے ذکر کرکے اس کا جواب کافی و وافی دے دیا ہے۔ جسے آپ سمجھ نہیں سکے۔ اگر اعتراض کرنا تھا تو اس جواب پر کرتے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تنبیہ

دربارۂ طریقِ بیان

اثباتِ مدعا کے لئے صرف قرآن شریف سے تمسک کیا گیا ہے اور رفعِ تنازع کے لئے کوئی امر ایسا نہیں لکھا جس کی تائید کتاب اللہ یا حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یا زبانِ عرب سے نہ ہوتی ہو۔ خواہ اسے کسی تفسیر سے لکھا ہے، خواہ استعدادِ خداداد سے سمجھا ہے۔ غرض جو کچھ لکھا ہے مراد کتاب اللہ کے موافق لکھا ہے، خلاف نہیں لکھا۔ مفسرینؒ کے اقوال46 صرف اس لئے ذکر کئے ہیں کہ اس زمانۂ جہالت میں کفرانِ نعمت کی صنعتِ مذموم بڑھتی جاتی ہے۔ بنا برآں بعض مصنف تو تحقیقات کو اپنی طرف منسوب کرنا چاہتے ہیں اور اپنے ماخذ کا پتا نہیں بتاتے اور بعض آئمہ مفسرینؒ کے اقوال کو نظرِ عزت سے نہیں دیکھتے۔ لیکن خاکسار ان دونوں امروں میں ان لوگوں کے ساتھ نہیں۔ جس امر کو کسی کتاب سے لیا ہے اس کا نام لکھ دیا ہے اور مفسرین کے جس قول کو اختیار کیا ہے اس کی تائید قرآن و حدیث یا لغتِ عرب یا قواعدِ علمیہ سے کر دی ہے۔ پس جب قدر ناآشناس لوگ سلف صالحین کے اقوال کو قرآن و حدیث اور لغتِ عرب اور قواعدِ علمیہ کے مؤید پائیں گے تو انشاء اللہ بدظنی دور ہو جائے گی۔

دوسرے اس غرض کے لئے کہ اپنے موافقین کو زیادتِ اطمینان حاصل ہو اور اپنے پر سے ظنِ تفسیر بالرائے دور ہو جائے۔ تیسرے اس لئے کہ نازک خیالی کے مدعی جو حقیقت میں تفسیر بالرائے کرتے ہیں جان لیں کہ وہ سلف صالحین اور متقدمین اسلام کے فہم و ادراک کو نہیں پہنچ سکتے۔

اللھم انت عضدی و نصیری بک اعتصم عما یصم و انا عبدک الناسوتی محمد ابراہیم میر السیالکوتی .

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
46:قاضی ظہور الدین صاحب اکمل قادیانی اپنی کتاب ”شہادت الفرقان“ کے زروع میں خاکسار کی اس کتاب شہادت القرآن کے نام کے متعلق لکھا ہے: ”نام تو شہادت القرآن ہے مگر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شہادۃ تفاسیر ہے“۔(صفحہ3)
جواب: خدا جانے قادیانیوں کی سمجھ کو کیا ہو گیا ہے؟ تفاسیر کے حوالہ جات جس غرض کے لئے دیئے گئے ہیں وہ صاف صاف بیان کر دی گئی ہے پھر بھی کہتے ہیں شہادۃ تفاسیر ہے۔ فافہم
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴿فصل اوّل﴾

در بیانِ عدم مصلوبیتِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام

چونکہ مرزا صاحب قادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قبل النزول کا افتتاح مسئلہ صلیب سے کیا ہے اور یہ مسئلہ ان کے نزدیک بمنزلہ بنا کے ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم بھی پہلے اس کی تحقیق کریں کہ آیا یہ واقعہ صلیب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت درست ہے یا نہیں؟ سو اس کے لئے بیان ذیل ملاحظہ فرمائیں۔

اس بات کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے اب سے قریباً دو ہزار سال قبل کے واقعہ کے صحت و صداقت کے لئے کسی زبردست قابل اعتبار شہادت و سند کی ضرورت ہے۔ اسلامی نقطۂ خیال سے اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اوّل یہ کہ قرآن مجید یا حدیث صحیح مرفوع میں اس کی تصریح ہو۔ دوم یہ کہ نزولِ قرآن سے قبل کی کتابوں یا روایتوں میں اس کا ذکر ہو۔ بشرطیکہ وہ قرآن و نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تصریح کے خلاف نہ ہوں اور زمانہ کے دست برد لوگوں کے جعل و تصرف اور ان کے رد و بدل اور تحریف و تبدیل سے محفوظ چلی آئی ہوں اور ان کے مصنفین تک ان کا سلسلۂ روایت صحتِ سند سے پہنچتا ہو اور پھر ان مصنفین نے اسے معتبر ذرائع و قابلِ وثوق و سائل سے معلوم کرکے درج کیا ہو۔

سو قرآن شریف میں تو صاف طور پر مَا صَلَبُوهُ (النساء4:157)مذکور ہے۔ جس کے خلاف ایک مسلمان کسی بھی دیگر شہادت کو ہرگز نہیں مان سکتا اور نہ اس کے بعد تحقیقات کی کوئی ضرورت باقی رہتی ہے۔ ہاں بے شک مسیحی اسفار میں صلیب کا واقعہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت اثبات میں مذکور ہے اور ان ہی بنا پر سر سید احمد صاحب علی گڑھی نے صلیب و وفاتِ مسیح کا واقعہ لکھا۔ دیکھو(تفسیر القرآن و ھو الہدی والفرقان جلد دوم صفحہ40 تا 51 مطبوعہ علیھگڈہ پریس 1880ء مصنفہ سر سید احمد علی خاں مرحوم)جن کی پیروی میں مرزا صاحب بھی باضافۂ دعوائے مسیحیت صلیب و وفاتِ مسیحؑ کے قائل ہوئے۔ ان دونوں صاحبوں کے ہاتھ مسیحی کتابوں کے سوا اسلامی کتب میں سے کچھ بھی نہیں اور یہ محقق ہو چکا ہے کہ یہ کتابیں محض جعلی ہیں اور ان کے بیانات ہرگز قابل وثوق نہیں ہیں۔47


چونکہ ہم نے اس کتاب میں التزام کیا ہے کہ اپنے دعویٰ اور دلیل کی بنا قرآن کریم پر رکھیں۔ اس لئے ہم قرآن شریف کی چند آیات سے ثابت کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت واقعہ صلیب محض دروغ ہے۔

پہلی آیت

قال اللہ تعالیٰ:

وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (آل عمران 3:54)
یعنی ”یہود نے(حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے اور صلیب پر چڑھانے کی)تدبیر کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی ایک تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر کرنے والا ہے“۔

تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت مندرجہ عنوان کے ذیل میں لفظ مکر کی تحقیق میں فرمایا:

لِأَنَّهُ عِبَارَةٌ عَنِ التَّدْبِيرِ الْمُحْكَمِ الْكَامِلِ ثُمَّ اخْتَصَّ فِي الْعُرْفِ بِالتَّدْبِيرِ فِي إِيصَالِ/ الشَّرِّ إِلَى الْغَيْرِ “۔(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ236 مطبوعہ دار إحیاء التراث بیروت)
”مکر سے تدبیر محکم اور کامل مراد ہے۔ پھر عرف عام میں یہ لفظ ایسی تدبیر میں خاص ہو گیا جو کسی دوسرے کو ضرر پہنچانے کے لئے کی جائے“۔

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بالکل صحیح ہے اور کتاب اللہ اس کی تصدیق کرتی ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ (فاطر35:10)
وقال
فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَّا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًاoاسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ (فاطر35:42،43)
”اور جو لوگ بد اندیشیاں کرتے رہتے ہیں ان کو سخت عذاب ہو گا اور ان کا مکر ہی تباہ ہو گا“۔
نیز فرمایا
”پس جب ان کے پاس ڈرانے والا(نبی صلی اللہ علیہ وسلم)آ گیا تو ان کو سوائے نفرت و بھاگنے کے اور کچھ حاصل نہ ہوا، بوجہ زمین میں بٹائی چاہنے کے اور بد اندیشی کرنے کے اور بد اندیشی کا وبال اس کے اہل ہی پر پڑا کرتا ہے“۔

پہلی آیت میں سَّيِّئَاتِ تو کو فعل کا مفعول يَمْكُرُونَ گردانا اور دوسری میں دو دفعہ مکر کو سَيّی سے موصوف کیا، جس سے صاف ثابت ہے کہ اصل لغت میں مکر کے معنی صرف تدبیر کرنے کے ہیں۔ نیز اس آیت زیر بحث یعنی وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (آل عمران 3:54)پر ختم کرنا بھی اس امر کی تائید کرتا ہے۔ چنانچہ تدبیرِ الہٰی عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں خیر ثابت ہوئی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے شرِ اعداء سے محفوظ رکھا اور آسمان پر اٹھا لیا اور یہود کے حق میں شر ہوئی کہ ان کو مکر میں ناکام رکھا اور ان میں سے ایک شخص پر عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت ڈال دی جس کو انہوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھایا اور قتل کیا۔ جیسا کہ مفصل مذکور ہو گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جملہ مَكَرَ اللہُ میں مکر کو خدا تعالیٰ کی نسبت کرنے میں کوئی قباحت و اعتراض نہیں۔

سوال: مَكَرُوا میں ضمیر فاعلی کس کی طرف راجع ہے؟
جواب: کفارِ بنی اسرائیل کی طرف جن سے عیسیٰ علیہ السلام نے احساسِ کفر کیا تھا۔ چنانچہ تفسیر کشاف میں ہے: ” الواو لكُفَّار بَنِي إِسْرَائِيل الَّذِينَ أَحَسَّ مِنْهُمْ الْكُفْر “(تفسیر کشاف جلد 1 صفحہ 366 مطبوعہ دار الکتاب بیروت)ایسا ہی دیگر تفاسیر مثل سراج منیر، بیضاوی، خازن، مدارک، جلالین، معالم، جامع البیان، ابن کثیر، ابی السعود، عباسی اور تفسیر فیضی میں ہے۔
مفسرینؒ کا یہ قول بالکل راست اور مطابق قرآن مجید ہے جیسا کہ سورۂ مائدہ میں ہے:
وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ (المائدہ5:110)
”(اے عیسی!)جب ہٹائے رکھا میں تجھ سے بنی اسرائیل کو“۔اس آیت کی تفسیر آگے آئے گی۔ انشاء اللہ العزیز

سوال: یہود کا یہ مکر کس امر کے لئے تھا؟
جواب: اس امر کے لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر ڈالیں48۔ چنانچہ تفسیر کشاف میں ہے: ” وَمَكْرُهُمْ أَنَّهُمْ وَكَّلُوْا بِهٖ مَنْ يَّقْتُلْهٗ غِيْلَةً “(تفسیر کشاف جلد 1 صفحہ 366 مطبوعہ دار الکتاب بیروت)یعنی ”یہود بہبود کا مکر یہ تھا کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام پر ایک ایسا شخص مقرر کیا جو ان کو فریب سے قتل کر ڈالے“۔ اور غیله بالکسر کی تعریف سراج منیر میں یہ لکھی ہے کہ کوئی کسی کو دھوکے سے کہیں لے جائے، جب وہاں پہنچے تو اسے قتل کر ڈالے: ” و ھی بالکسر أن یخدع غیره فیذھب بہ الی موجع فازا صارا الیہ قتله “۔(تفسیر سراج منیر جلد 1صفحہ219مطبوعہ بولاق الأمیریۃ)
اسی طرح دیگر تفاسیر مثل رحمانی، سواطع، جلالین، جامع، البیان، معالم، تفسیر حافظ ابن کثیر، سراج منیر، تفسیر علامہ ابی السعود، لبابالتّاویل، مدارک، کبیر ، انوار التنزیل، عباسی ان سب میں بالاتفاق یہی لکھا ہے کہ یہود کا مکر یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر ڈالیں۔ بلکہ ابن کثیر اور مدارک میں قتل کے ساتھ صلب کو بھی ضم کیا ہے۔ چنانچہ تفسیر مدارک میں ہے:

حِيْنَ أَرَادُوْا قَتْلَهٗ وَصَلْبَهٗ “۔(تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 258 مطبوعہ دار الکلم الطیب بیروت)
یعنی ”جب انہوں نے آپ کو قتل کرنے اور سولی دینے کا ارادہ کیا“۔

سوال: یہ مکر اور تدبیر قتل و صلب کس کے حق میں کی گئی؟
جواب: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں۔ چنانچہ تفسیر جلالین میں ہے: ” أَيْ كُفَّار بَنِي إسْرَائِيل بِعِيسَى عليہ السلام “۔(تفسیر جلالین جلد1 صفحہ73 مطبوعہ دار الحدیث قاہرہ مصر) اسی طرح دیگر تفاسیر مثل ابن کثیر، مفاتیح الغیب، ارشاد العقل السلیم، لباب التّاویل، مدارک، کشاف الحقائق، عباسی، تبصیر الرحمٰن، سواطع الالھام، جامع البیان، معالم، فتح البیان، السراج المنیر، انوار التنزیل ان سب تفاسیر میں بالاتفاق یہی لکھا ہے۔ کسی میں اسم ظاہر ہے کسی میں صرف ضمیر پر اکتفا کیا گیا ہے۔

مفسرینؒ کا یہ قول بالکل حق اور مطابق کتاب اللہ ہے۔ جیسے سورۂ مائدہ میں وارد ہے کہ قیامت کو اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے خطاب کرکے فرمائے گا:

وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ (المائدہ5:110)
”(اے عیسیٰ! وہ وقت یاد کرو)جب میں تجھ سے بنی اسرائیل کو دور ہٹائے رکھا۔ جب تو ان کے پاس روشن دلائل لایا تو ان میں سے منکروں نے کہا کہ یہ تو(سراسر)صریح جادو کے سوا کچھ بھی نہیں“۔

سوال: یہود نے یہ مکر اور تدبیرِ قتل آپ علیہ السلام کے حق میں کیوں کی؟
جواب: یہود نے آپ کے معجزات کو جادو قرار دے کر آپ کو جادوگر ٹھہرایا اور پھر قتل کا حکم لگایا اور اس کی صورت صلیب پر کھینچنا تجویز کی۔ چنانچہ اوپر کی آیت(المائدہ5:110)میں معجزات کو جادو قرار دینا صاف مذکور ہے اور آیت مندرجہ عنوان(ال عمران3:54)کے قبل بھی ذکر معجزات اس امر پر دلالت کر رہا ہے اور فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْر (ال عمران3:52) کے یہی معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کفارِ یہود سے مکر قتل کا احساس کیا۔ اس جگہ کفر بمعنی قتل من باب تَسْمِيَةِ الشَّيْءِ بِاسْمِ سَبَبِهِ ہے۔ یعنی ”کسی شے کے لئے وہ نام بولنا جو اس کے سبب کا نام ہے“۔ چنانچہ مطول میں لکھا ہے:

رَعَیْنَا الْغَیْثَ اَي النَّبَاتَ الّذي سَبَبْهٗ الْغَيْثَ۔(مطول شرح تلخیص مفتاح العلوم صفحہ 576 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت)
”چرائی ہم نے بارش یعنی نباتات جس کے اگنے کا سبب بارش ہے“۔

اسی طرح آیت وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن رِّزْقٍ (الجاثیہ45:5)میں رزق بمعنی مطر یعنی بارش سبب ہے رزق کے پیدا ہونے کا ، پس رزق مسبب ہے۔ اسی طرح اس کے نظائر قرآن شریف میں بکثرت ہیں اور کتب بلاغت میں اس قاعدے کی تصریح موجود ہے۔ دیگر یہ کہ کفر کا احساس کے ساتھ ذکر کرنا بھی اس امر کی مؤید ہے کہ اس جگہ کفر سے مراد قتل ہے۔ کیونکہ احساس ایسے مواقع میں اس جگہ مستعمل ہوتا ہے جہاں کوئی خوفناک امر ہو جیسے آیت: فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا (الانبیاء21:12)اور نیز آیت: إِذْ تَحُسُّونَهُم (ال عمران3:152) ای تَقْتُلُوْنَھّمْ ذَرِیْعًا مِنْ اَحَسَّهٗ اِزَا عَدَمَ حِسَّهٗ اِھْلَا کًا ۔

اس بیان سے واضح ہو گیا کہ فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْر (ال عمران3:52) میں کفر بمعنی قتل ہے۔ پس مکر یہود کی صورت ارادۂ قتل و صلب عیسیٰ علیہ السلام متعین ہو گئی۔

سوال: کیا مفسرین کے اس قول کی تائید قرآن شریف سے ہو سکتی ہے کہ مکر سے مراد قتل ہے؟
جواب: کیوں نہیں؟! بے شک مفسرینؒ کے بیان کی تائید میں کئی آیات ہیں۔ منھا قول تعالیٰ حاکیا عَنْ اِخْوَۃَ یُوْسُفَ:
اُقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا (یوسف12:9)
”یوسف کو قتل کر ڈالو یا اسے کسی زمین میں پھینک دو“۔

اور اس تدبیر قتل کا نام مکر رکھا۔ چنانچہ اسی سورہ یوسف ہی میں وَهُمْ يَمْكُرُونَ (یوسف12:102)فرمایا اور نیز سورہ نمل میں صالح علیہ السلام کے بیان میں فرمایا:

وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَo قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ (یوسف27:48،49)
”اور اس شہر میں نو شخص تھے جو زمین میں فساد کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے آپس میں کیا کہ خدا کی قسم کھاؤ کہ اس(صالح علیہ السلام)کو اور اس کے اہل کو راتوں رات قتل کر ڈالیں گے۔ پھر اس کے ولی کو کہیں گے کہ ہم تو اس کے قتل کے موقع و وقت پر حاضر نہ تھے اور ہم ضرور سچے ہیں“۔

یعنی نو مفسدوں نے آپس میں یہ منصوبہ باندھا اور اس پر قسمیں کھانے کو کہا کہ صالح علیہ السلام کو اور آپ کے اہل کو راتوں رات قتل کر ڈالیں۔ ان کی تدبیرِ شر کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اس سے آگے فرمایا: وَمَكَرُوا مَكْرًا (یوسف27:50) یعنی ”انہوں نے بھاری مکر کیا“۔ یعنی پوشیدہ طور پر نبی صالح علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی۔ اسی طرح حضرت سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت کفار نے جو مشاورت کی اس کی نسبت فرمایا:

وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (الانفال8:30)
”اور جب کفار تدبیر کرتے تھے کہ تجھے قید کر لیں یا جلاوطن کر دیں یا قتل کر ڈالیں، وہ بھی تدبیر کرتے تھے اور خدا بھی تدبیر کرتا تھا اور خدا بہتر تدبیر کرنے والا ہے“۔

اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسبت کفار نے جو مشورہ کیا اس کی نسبت فرمایا:

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ (عنکبوت29:24)
”اور اس کی قوم سے کوئی جواب نہ آیا سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا اسے قتل کر ڈالو یا آگ میں جلا ڈالو“۔

اور ان کے منصوبہ کا نام کید رکھا۔ چنانچہ سورۂ انبیاء میں فرمایا:

وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ (انبیاء 21:70)
”انہوں نے اس کی نسبت خفیہ تدبیر کی پس ہم نے انہی کو نہایت زیاں کار کر دیا“۔

اور مکر اور کید مترادف ہیں۔ چنانچہ مصباح میں ہے: ”كَادَهُ”مَكَرَ بِهِ“۔(مصباح المنیر جلد 2 صفحہ545 مطبوعہ مکتبہ العلمیہ بیروت)

سوال: کفار ماکرین کے ساتھ سنتِ الٰہیہ کیا ہے؟ اور ان کے مکر کا انجام کیا ہوا کرتا ہے؟
جواب: ماکرین کو ہلاک کرنا اور ان کے مکر کا وبال انہی پر نازل کرنا اور اپنے عباد مرسلین کو ان کے مکر سے بچا لینا۔

دلیل

اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاطر وغیرہ می فرمایا:

وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ (فاطر35:10) و قال: وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ (فاطر35:43) و قال: وَهَمَّتْ كُلُّأُمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ فَأَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ (المومن40:5) و قال: وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ (سورہ الانبیاء21:70) و قال: فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ (الصافات37:98) و قال: قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ (النحل16:26) و قال: وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِندَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُoفَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ (ابراہیم14:46،47) و قال فِیْ ھٰذَا الْوَعْدِ بِرُسْلِهٖ: وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ (الصافات37:171) و قال ایضاً: كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (المجادلہ58:21) و قال: وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَo قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَo وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَo فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَo فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَo وَأَنجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (النمل27:48-53)

یعنی جو لوگ بری تدبیریں اور منصوبے باندھتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہو گا اور ان کا مکر ہی ہلاک ہو گا اور نیز فرمایا اسی صورت میں کہ بری تدبیر کا وبال اس کے اہل ہی پڑا کرتا ہے اور نیز سورۂ مومن میں فرمایا کہ ہر امت نے اپنے رسول کو ماخوذ کرنے پر کمر باندھی۔ پس میں نے انہی کو عذاب میں گرفتار کیا۔ پس میرا عذاب ان پر کیسا سخت ہوا اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حق میں جو مکر اور کید ان کی قوم نے کیا تھا۔ اس کی بابت فرمایا کہ انہوں نے اس کے ساتھ ایک بھاری مکر کرنا چاہا۔ پس ہم نے انہیں کو سخت زیاں کار اور سخت پست اور ذلیل کر دیا اور نیز سورۂ نحل میں فرمایا کہ کفارِ مکہ کے پیشتر بہت لوگوں نے مکر اور تدابیر کیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی عمارات کو بنیادوں سے گرا دیا اور ان پر چھت ان کے اوپر سے گر پڑے اور ان کو ایسی جگہ سے عذاب آیا جہاں ست ان کو شعور بھی نہ تھا۔ اور نیز سورۂ ابراہیم میں بڑے زور اور تاکید سے فرمایا کہ کفارِ مکہ نے جہاں تک ہو سکا بہت سی تدبیریں کیں اور اللہ تعالیٰ کو ان کی سب تدبیریں معلوم ہیں اگرچہ ان کی تدابیر اور مکر ایسے زبردست اور محکم ہوں کہ ان سے زوالِ جبال یعنی پہاڑوں کا گر جانا ممکن ہو سکے تو بھی ہرگز یہ خیال نہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی اس وعدے کے خلاف کرے گا جو اس نے اپنے رسولوں سے کیا ہوا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور اعداء سے بدلہ لینے والا ہے۔ اور اس وعدے کی نسبت سورۂ الصافات میں فرمایا کہ بیشک ہمارا اپنے عباد مرسلین سے پہلے ہی وعدہ ہو چکا ہوا ہے کہ وہ ضرور ضرور منصور ہوں گے اور نیز سورۂ مجادلہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ امر مقرر کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور ضرور غالب رہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا اور بڑا غالب ہے۔ اور سورۂ نمل میں حضرت صالح علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا کہ اس شہر میں نو شخص مفسد اور غیر مصلح تھے۔ انھوں نے آپس میں کیا کہ صالح علیہ السلام اور آپ کے اہل بیت کو راتوں رات قتل کرکے قسمیں کھاؤ اور اس پر بھی کہ پھر اس کے ولی یعنی حامی و وارث کو کہیں گے کہ ہم تو اس کے اہلِ بیت کے مرنے کے موقع اور وقت پر حاضر ہی نہ تھے اور ہم ضرور سچے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ انہوں نے بڑا بھاری مکر کیا تھا اور ہم نے بھی مکر(تدبیر محکم)کیا اور وہ ہماری تدبیر کا شعور نہ رکھتے تھے۔ پس دیکھ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا کہ ہم نے ان نو مفسدوں اور ان کے باقی حامی کاروں سب کو ہلاک کر دیا۔ پس یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب اجڑے پڑے ہیں۔ بیشک اس معاملہ میں علم والے یعنی سمجھ والے لوگوں کے لیے(رسولوں کی نصرت اور ان کے دشمنوں کی ذلت کا)بڑا بھاری نشان ہے اور ہم نے مؤمنین اور متقین یعنی اَتباعِ صالح علیہ السلام کو بچا لیا۔ انتہیٰ

خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں رسل اللہ کے برخلاف کفار کے مکر کا ذکر ہے اس جگہ یہی مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ پیغمبروں کو ان کے مکر اور شر سے محفوظ رکھتا ہے اور الٹا ماکرین ہی پر وبال و عذاب نازل کیا کرتا ہے۔ سو اسی طرح مسیح علیہ السلام کے حق میں بھی اسی طرح کی آیت آئی ہے جیسے حضرت صالح علیہ السلام اور حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں وارد ہے۔ یہ کس قدر غلط اور لغو بات ہے کہ جو الفاظ دیگر رسولوں کے محفوظ رہنے پر دلالت کریں انہی الفاظ کے ہوتے حضرت کلمۃ اللہ و روح اللہ علیہ السلام اس قدر ذلت اور خواری سے صلیب پر کھینچے جائیں کہ آپ کے مبارک رانوں پر میخیں لگائی جائیں اور آپ کے پاس ہاتھوں میں کیلیں ٹھونکی جائیں اور آپ کے مقدس سر پر کانٹوں کی ٹوپی پہنائی جائے اور آپ کے خزانۂ حکمت کی پسلی میں تیر مارا جائے۔ معاذ اللہ! ثم معاذ اللہ! کس قدر تعجب کا مقام ہے کہ جس امر کی تاکید کے لئے اللہ تعالیٰ اس قدر تاکید فرمائے اور بانظام بیان کرے اسی امر کو برخلاف مرادِ الہٰی اپنا عقیدہ بنایا جائے۔

سوال: وَ مَکَرَ اللّٰه یعنی اللہ تعالیٰ نے بھی تدبیر کی، یہ تدبیرِ الہٰی کیا تھی؟
جواب: یہود کے خلاف اللہ تعالیٰ کا یہ مکر تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور انہی میں سے کسی کو آپ کا ہم شکل بنا دیا جس کو یہود نے صلیب پر چڑھا کر قتل کیا۔ چنانچہ تفسیر کشاف میں ہے:

وَمَكَرَ اللَّهُ أن رَفع عيسىٰ إلى السماء وألفٰى شِبْهَهٗ علٰى من أراد اغتياله حتٰى قُتِل “۔(تفسیر کشاف جلد 1 صفحہ 366 مطبوعہ دار الکتاب بیروت)
یعنی ”اللہ کا مر اور اس کی تدبیر یہ تھی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور آپ کی شکل اور شباہت اس شخص پر ڈال دی جس نے آپ کو دھوکے سے قتل کرانا چاہا تھا۔ حتیٰ کہ وہ قتل کیا گیا“۔

اسی طرح جلالین میں بھی ہے:
وَمَكَرَ اللَّه بِهِمْ بِأَنْ أَلْقَى شَبَه عِيسَى عَلَى مَنْ قَصَدَ قَتْله فَقَتَلُوهُ وَرَفَعَ عِيسَى إلَى السَّمَاء... انتھیٰ “۔(تفسیر جلالین صفحہ73 مطبوعہ دار الحدیث قاہرہ مصر)
”اور خدا کا مکر ان سے یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت اس پر ڈال دی جس نے آپ کے قتل کا قصد کیا تھا۔ سو انہوں نے اسے قتل کیا اور خدا نے عیسیٰ علیہ السلام کو اوپر اٹھا لیا“۔

اور اسی طرح تفسیر علامہ ابی السعود میں بھی ہے:
بأن رفع عيسى عليه الصلاة والسلام وألقى شَبَهَه على من قصد اغتيالَه حتى قُتل “۔(تفسیر ابی السعود جلد 2 صفحہ42 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”کہ خدا نے عیسیٰ علیہ السلام کو اوپر اٹھا لیا اور ان کی شباہت اس پر ڈال دی جس نے آپ سے فریب کا قصد کیا تھا۔ چنانچہ وہ قتل کیا گیا“۔

اسی طرح تفسیر مدارک میں ہے:
بأن رفع عيسى إلى السماء وألقى شبهه على من أراد اغتياله حتى قتل “۔(
تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 258 مطبوعہ دار الکلم الطیب بیروت)
”کہ خدا نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور آپ کی شباہت اس پر ڈال دی جس نے آپ سے فریب کا ارادہ کیا تھا۔ چنانچہ وہ قتل کیا گیا“۔49

اور اسی طرح تفسیر ابن کثیر میں بھی ہے:
فَلَمَّا أَحَاطُوا بَمَنْزِلِهِ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ ظَفِرُوا بِهِ، نَجَّاهُ الله تعالى مِنْ بَيْنِهِمْ وَرَفَعَهُ مِنْ رَوْزَنَةِ ذَلِكَ الْبَيْتِ إِلَى السَّمَاءِ، وَأَلْقَى اللَّهُ شَبَهَهُ عَلَى رَجُلٍ مِمَّنْ كَانَ عِنْدَهُ فِي الْمَنْزِلِ، فَلَمَّا دَخَلَ أولئك اعتقدوه في ظلمة الليل عيسى، فَأَخَذُوهُ وَأَهَانُوهُ وَصَلَبُوهُ، وَوَضَعُوا عَلَى رَأْسِهِ الشَّوْكَ، وَكَانَ هَذَا مِنْ مَكْرِ اللَّهِ بِهِمْ، فَإِنَّهُ نَجَّى نَبِيَّهُ وَرَفَعَهُ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ضَلَالِهِمْ يَعْمَهُونَ “۔(تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 39 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
”جب یہود نے آپ کے مکان کو گھیر لیا اور گمان کیا کہ آپ پر غالب ہو گئے ہیں تو خدا نے ان کے درمیان سے آپ کو نکال لیا اور اس مکان کی کھڑکی سے آسمان پر اٹھا لیا اور آپ کی شباہت اس پر ڈال دی جو مکان میں آپ کے پاس تھا۔ سو جب وہ اندر گئے تو اس کو رات کے اندھیرے میں عیسیٰ علیہ السلام خیال کیا۔ پس اسے پکڑا اور سولی دیا اور سر پر کانٹے رکھے اور ان کے ساتھ خدا کا مکر یہی تھا کہ اپنے نبی کو بچا لیا اور اسے ان کے درمیان سے اوپر اٹھا لیا اور کی گمراہی میں حیران چھوڑ دیا“۔

اور اسی طرح تفسیر بیضاوی میں بھی ہے:
حين رفع عيسى عليه الصلاة والسلام وألقى شبهه على من قصد اغتياله حتى قتل “۔(تفسیر بیضاوی جلد 2 صفحہ19 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”جب عیسیٰ علیہ السلام کو اوپر اٹھا لیا اور آپ کی شباہت اس پر ڈال دی جس نے آپ کو فریب سے قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا حتیٰ کہ وہی قتل کیا گیا“۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
47:مسیحی کتب کی رو سے اس واقعہ کی تحقیق الگ رسالہ میں کی جائے گی۔ انشاء اللہ
48:اکمل صاحب اس پر لکھتے ہیں: ”آپ نے خود ہی تسلیم کر لیا کہ یہ مکر عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لئے تھا، بس جناب اس پر صلیب کا حاشیہ نہ چڑھائیے“۔(صفحہ6)
جواب: قتل ایک ایسا فعل ہے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں، ایک ان میں سے صلب بھی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے مُکے سے جو قبطی مرا تھا اس پر بھی قتل کا لفظ آیا ہے۔ حضر علیہ السلام نے جس لڑکے کو مارا تھا اس پر بھی اور میدانِ جنگ میں جو مارے جاتے ہیں ان پر بھی قتل کا لفظ آیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی صورت صلب تھی اور اسے مرزا صاحب نے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ پھر خدا جانے اکمل صاحب کیوں انکار کرتے ہیں۔ لطف یہ کہ آگے چل کر خود بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ دیکھو ان کی کتاب کا(صفحہ12،13) کہ کتنی جگہ صلب کو قتل کے ساتھ ضم کیا ہے۔ جناب والا! جب آپ کے نزدیک صلب کے معنی صلیب پر قتل کرنے کے ہیں تو ساتھ قتل کیوں لکھتے ہیں؟۔ سعادت
49:اکمل صاحب اس پر اعتراض کرتے ہیں: ”ان میں سے کسی کا قتل ہونا بھی ضروری تھا تو ثابت کرتے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جگہ بھی کوئی آگ میں ڈالا گیا اور ہماری سرکار صلی اللہ علیہ و سلم کے غار میں رہنے کے عوض کوئی اور غار میں رہا“۔(صفحہ8)جبکہ ایک رسول کی شکل ایک کافر پر ڈالی گئی اور حکم ہمیشہ ظاہر پر کیا جاتا ہے۔(صفحہ 9 مخلصاً)
ان دونوں کا جواب بصراحت سوال کرکے دے دیا گیا تھا لیکن اکمل صاحب نے عشوہ نمائی کی۔ جناب! عالم امکان میں ممکنات کی صورتیں بہت ہوتی ہیں۔ ہر ممکن درجۂ وجوب میں آنے سے پہلے ہر صورت کا احتمال رکھتا ہے لیکن جب واقع ہو جائے تو بس اسی میں ماننا پڑھتا ہے پھر اس میں اتباع دلیل و خبر کی ہوتی ہے۔ جب واجب ہو گیا تو باقی سب احتمالات اور امکانی صورتیں جاتی رہیں اور ظاہر پر حکم تب ہوتا ہے جب حقیقت معلوم نہ ہو۔ جب حقیقت مَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ (النساء4:157)سے معلوم ہو چکی ہے تو ظاہر باطل ہو گیا۔ فافھم

 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اسی طرح دیگر تفاسیر مثل رحمانی، فتح البیان، معالم، سراج منیر، فیضی، عباسی، کبیر، جامع البیان میں اس امر کی تصریح موجود ہے۔ تفسیر کبیر میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے پانچ وجہیں ذکر کی ہیں۔ پہلی تین میں بالتصریح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے اور کسی پر آپ کی شباہت ڈالے جانے کا ذکر کیا اور چوتھی میں کسی ظالم بادشاہ کا بنی اسرائیل پر مسلط کر دینا مکر الہٰی ٹھہرایا۔ ناقدِ بصیر پر ظاہر ہے کہ یہ وجہ منافی وجوہِ سابقہ نہیں بلکہ ان کے ساتھ ضم کی جا سکتی ہے، پانچویں وجہ علیٰ سبیل الاحتمال یہ فرمائی:

يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ أَنَّهُمْ مَكَرُوا فِي إِخْفَاءِ أَمْرِهِ، وَإِبْطَالِ دِينِهِ وَمَكَرَ اللَّهُ بِهِمْ حَيْثُ أَعْلَى دِينَهُ وَأَظْهَرَ شَرِيعَتَهُ وَقَهَرَ بِالذُّلِّ وَالدَّنَاءَةِ أَعْدَاءَهُ وَهُمُ الْيَهُودُ “۔(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ236 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”احتمال ہے کہ اس سے یہ مراد ہو کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے امر مخفی رکھنے اور آپ کے دین کے ابطال میں تدبیر کی اور خدا نے ان سے یہ تدبیر کی کہ آپ کے دین کو بلند کیا اور شریعت کو غالب کیا اور نہایت ذلت اور پستی سے آپ کے دشمنوں کو مغلوب کیا اور وہ یہودی ہیں“۔

اوّل تو اس وجہ کی تضعیف خود امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کلمۂ احتمال سے کر دی ہے۔ دیگر یہ کہ اس وجہ اور قول جمہور مفسرین میں منافات نہیں، کیونکہ ان میں نسبت سبب اور نتیجہ کی ہے۔ کیونکہ نبیٔ برحق کا آسمان پر اٹھایا جانا اس نبی کی فضیلت کا مستلزم ہے اور دشمنوں کی ذلت و ناکامی کا موجب ہے۔ فلا منافاۃ بینھما اصلاً یعنی ”پس ان دونوں میں ہرگز کوئی منافات نہیں“۔

سوال: مفسرین علیہم الرحمۃ نے یہ جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر یہ تھی کہ ایک اور شخص کو جس نے عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑوانا چاہا تھا، صلیب پر چڑھوا کر قتل کرایا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا، کیا ان ہر دو امر کی تائید قرآن شریف سے ہو سکتی ہے؟
جواب: بیشک مفسرینؒ نے یہ سب کچھ قرآن شریف ہی سے لکھا ہے۔ امر اوّل کا بیان وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ (النساء4:157)میں مصرح ہے اور فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ (توبہ9:12)اس کا مؤید ہے۔ اور امر ثانی کی تصریح میں إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ (ال عمران 3:55)اور بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ (النساء4:158)موجود ہیں۔ ان کی تفصیل موقع پر کی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ

سوال: وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ میں بجائے اسم مضر کے اسم ظاہر کیوں اختیار کیا گیا ہے؟ وَ ھُوَ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ کیوں نہیں کہا گیا؟
جواب: قرآن شریف میں اللہ جل جلالہ کے اسمائے حسنیٰ بکثرت ہیں اور وجہ کثرت کی یہ ہے کہ چونکہ قرآن شریف میں آیات مثل دعاوی مع بینات کے ہیں اس لئے ذکر ہر اسم کا حسبِ اقتضائے مقام ہوتا ہے۔ اور وہ اسم بمنزلۂ دلیل و علت کے ہوتا ہے۔ چونکہ آیت ما نحن فیھا موقع نصرتِ حضرت روح اللہ رسولِ برحق اور ذلت اعداء میں وارد ہے، اس لئے اسم جلالۃ(اے اللہ)کو بوجہ مہابت و اثباتِ رسالت و حفاظتِ رسول کمال مناسبت ہے۔ جیسا کہ سورۂ مجادلہ میں ہے:

كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (مجادلہ58:21)
”اللہ تعالیٰ نے یہ امر مقرر کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور ضرور غالب رہیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا قوی اور غالب ہے“۔

چونکہ یہ آیتِ سورۂ مجادلہ بھی کفار پر رسول کو غالب کرنے کی بابت وارد ہے، اس لئے ذکر اسم جلالۃ(ان اللہ)کا کیا۔ اور آخر میں اسم جلالۃ کے ساتھ قوت اور غلبہ کا بھی ذکر کیا ہے جو بمنزلہ علت کے ہے۔

ولا یخفیٰ امثال ذالک علی المتامل و من لم یعط حظا من ذالک فلا یلومن الا نفسه و ھمته ۔
”اور ایسے باتیں اس پر مخفی نہیں جو تامل کرنے والا ہو اور جس کو اس ملکہ میں سے حصہ نہ ملا ہو وہ سوائے اپنے نفس کے کسی کو ملامت نہ کرے“۔

چنانچہ تفسیر ارشاد العقلِ السلیم الی مزایا الکتاب الکریم میں علامہ ابو السعود اسعدہ اللہ بالفوز بجنّٰت النعیم اسی آیت میں فرماتے ہیں:

وإظهارُ الجلالةِ في موقعِ الإضمار لتربية المهابة والجملةُ تذييلٌ مقرِّرٌ لمضمونِ ما قبله “۔(تفسیر ابی السعود جلد 2 صفحہ43 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”موضع اضمار میں اسم جلالۃ کو ظاہر لانا تربیت مہابت کے لئے ہے اور یہ جملہ تذییل ہے جو مضمون ما قبل کی تقریر اور اثبات کرتا ہے“۔

سوال: وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ کی تفسیر کس طرح پر ہے؟
جواب: اس آیت سے مقصود اس امر کا اظہار ہے کہ اللہ قدیر کی تدبیر کے مقابلہ میں مخلوق عاجز کی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی اور اس کی تدبیر اپنے رسولوں کے حق میں خیر ہوتی ہے۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں بھی تدبیر خیر کی کہ ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔50

سوال: بے شک ان آیات ے صاف ظاہر ہے کہ ماکرین مکر میں ناکام رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ الٹا ان ہی پر عذاب نازل کرتا ہے مگر قرآن شریف میں یہود کے بعض انبیاء کے قتل کرنے کا جو ذکر آیا ہے، اس کا کیا جواب ہے؟
جواب: قرآن کریم میں تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں شرک پھیلنے کے بعد رسل اللہ تین طرح پر بھیجے گئے ہیں۔ اوّل جو اصحاب شرائع ہیں اور وہ پانچ ہیں: نوح نبی اللہ، ابراہیم خلیل اللہ، موسیٰ کلیم اللہ، عیسیٰ روح اللہ، محمد رسول اللہ صلوٰۃ اللہ علیہم و سلامہ۔ جیسا کہ فرمایا:

شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ (الشوری42:13)

وَ قَالَ
وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ

(الاحزاب7:33)
”خدا نے تمہارے لئے وہ دین مقرر کیا ہے جس کی تاکید نوحؑ کو کی تھی اور جو(اے پیغمبر)ہم نے تیری طرف وحی کیا اور جس کی تاکید ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو کی تھی“۔
نیز فرمایا
”اور جب ہم نے سب نبیوں سے اور(اے پیغمبر)تجھ سے بھی اور نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ بن مریم سے بھی اقرار لیا“۔

آیت احزاب میں تخصیص بعد تعمیم کا فائدہ مزید کرامت اور زیادتِ شرافت ہے اور وہ ان کا اصحابِ شرائع ہونا ہے جیسا کہ آیت شوریٰ میں مصرح ہے۔

دوسرا وہ گروہ ہے جو اپنی اپنی قوم کی طرف بالاستقلال رسول کئے گئے اگرچہ صاحب شریعت نہ تھے۔ ہاں ان کے ہاتھ پر معجزات ظاہر ہوئے اور ان کی قوم بہ سبب تکذیب کے معذب ہوئی۔ مثل صالح اور ہود اور لوط اور شعیب علیہم السلام۔

تیسری وہ جماعت جو حکمت اور نبوت دئے گئے لیکن اتباعِ تورات مامور تھے اور یہ وہ ہیں جو بنی اسرائیل میں سے موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھیجے گئے۔ چنانچہ فرمایا:

إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا (مائدہ5:44)
”ہم نے ہی توریت کو نازل کیا تھا اس میں ہدایت اور نور تھا۔ اس کے مطابق خدا کے فرمانبردار انبیاء قومِ یہود کے لئے فیصلہ کرتے تھے“۔

مثل یحییٰ اور زکریا علیہما السلام کی۔ پس محاورۂ قرآنی میں نبی اور رسول(مصداق میں)مترادف اور متبادل ہیں۔ ہر نبی رسول ہے اور ہر رسول نبی ہے۔ صاحب شریعت ہو یا نہ ہو۔ جیسے موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کی شان میں رَسُولًا نَّبِيًّا (مریم19:51)فرمایا اور حضرت اسمٰعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کی شان میں بھی رَسُولًا نَّبِيًّا (مریم19:54) فرمایا۔ معلوم ہے کہ حضرت کلیم اللہ صاحبِ شریعت تھے اور حضرت ذبیح اللہ صاحب شریعت نہ تھے۔ پس بعض علماءؒ کا یہ قول کہ رسول وہ ہے جس پر کتاب اترے، ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ حسبِ التزام قرآن کریم ہے بلکہ یہ انکی اصطلاح ہے۔51

وَلَا مُشَاحَةَ فِي الِاصْطِلَاحِ
”اور اصطلاح میں کوئی جھگڑا نہیں“۔

چنانچہ بعض علماء نے ہماری طرح تحقیق کیا ہے۔(حاشیہ شرح ملاصفحہ12 نمبر 5 مطبوعہ مکتبہ علوم اسلامیہ لاہور)

نتیجہ اس تمہید کا یہ ہے کہ قسم اوّل و دوم کے رسولوں کے مقابلہ میں ماکرین مکر میں ناکام رہتے ہیں۔ کیونکہ ان کا قتل شریعت اور رسالت میں شبہ ڈالتا ہے۔ بخلاف جماعۃ ثالثہ کے کہ ان کا قتل کتاب اور شریعت میں خلل انداز نہیں ہوتا۔

اسی لئے جرمِ قتل انبیاء سوائے قومِ یہود کے کسی امت سے سر زد نہیں ہوا، اگرچہ ہر امت نے اپنے رسول کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ مفسرین علیہم الرحمۃ آیت ” يَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ “(2:61 و3:21) و امثالھا میں حضرت یحییٰ اور زکریا علیہما السلام کو بالاتفاق مثال میں لکھتے ہیں۔ چنانچہ تفسیر جلالین میں کئی مواضع پر اور نیز تفسیر کبیر میں زکریا و یحییٰ علیہما السلام لکھا ہے۔ اور تفسیر کشاف، معالم، مدارک، جامع البیان، خازن، سراج منیر، بیضاوی، فتح البیان، رحمانی، ابی السعود ان سب تفاسیر میں شیعا اور زکریا اور یحییٰ علیہم السلام لکھے ہیں، پس چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صاحب شرع و معجزات رسول ہیں اس لئے یہود آپ کو صلیب پر نہیں کھینچ سکتے تھے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
50:اکمل صاحب اس پر لکھتے ہیں: ”رسولوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کی تدبیر بیشک خیر ہی ہوتی ہے مگر تدبیر سے خواہ مخواہ آسمان پر اٹھا لینا مراد لینا ہٹ دھرمی ہے“۔(صفحہ79حاشیہ نمبر1)
جواب: خواہ مخواہ مراد نہیں لی بلکہ بیانِ قرآنی سے لی ہے۔ اسے آپ ہٹ دھرمی کہتے ہیں تو پڑے کہیں اور یاد رکھیے: لزوم واقعہ اور وقوعِ واقعہ میں فرق ہوتا ہے۔ فافہم
51:اکمل صاحب اس پر اعتراض کرتے ہیں: ” کیا آپ کے علماء قرآن شریف کے بر خلاف اصطلاحات کے گھڑ لینے کے مجاز ہیں“؟(صفحہ19)
جواب: جناب قرآن شریف کے خلاف تو کوئی مجاز نہیں لیکن آہ کو سمجھ نہ ہو تو کوئی کیا کرے۔ قرآن نے جس امر کا التزام نہیں کیا، کیا اسے کوئی گروہ اپنی اصطلاح میں کسی خاص معنی میں مقید کر لے تو اسے خلافِ قرآن نہیں کہتے۔ دیگر یہ کہ میں نے تو اس اصطلاح کی پابندی بھی توڑ دی اور حاشیہ شرح ملا کا حوالہ بھی دے دیا، آپ نے نظر انداز کیوں کر دیا؟ دیکھئے وہاں لکھا ہے: ” والرّسول اِمّا مرادف للنبي....وإليه ذهب جماعة “۔(حاشیہ شرح ملاصفحہ12 نمبر 5 مطبوعہ مکتبہ علوم اسلامیہ لاہور)اسی طرح مرزا صاحب بھی اپنے آپ کو رسول بھی کہتے ہیں اور نبی بھی اور پھر غیر تشریعی بھی کہتے ہیں۔ فافہم

 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
کسر صلیب کی دوسری آیت

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ (النساء4:157)
”اور ان کے اس قول کے سبب بھی کہ انہوں نے کہا کہ بے شک ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریمؑ کو قتل کر ڈالا ہے اور انہوں نے تو اسے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا“۔

یہ آیت نفیٔ صلیب کے لئے نصِ صریح اور دلیلِ قطعی ہے، اس منکر کافر ہے۔ یہ آیت دو وجہ سے نفئ صلیب پر دلالت کرتی ہے۔

الوجہ الاول

قولہ تعالیٰ بالتصریح وَ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوه یعنی یہود نے عیسیٰ علیہ السلام کو نہ تو قتل کیا اور نہ انہوں آپ کو صلیب پر چڑھایا۔

محررِ سطور نے ایک مطبوع اشتہار مرزا صاحب کو بھیجا تھا، جس کی نقل حسب ذیل ہے:

اَلْحَمْدُللّٰہِ وَ سَلَامّ علَیٰ عِبَادِہِ الّذِیْنَ اصْطَفٰی ۔ جناب مرزا صاحب! بندہ جمیع اہل السنۃ و الجماعۃ سلف و حلف کی طرح اس بات کا قائل ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں چڑھائے گئے اور اب تک فوت بھی نہیں ہوئے۔ آپ اگر قرآن کریم میں سے مسیح علیہ السلام کا صلیب پر چڑھایا جانا ثابت نہ کر سکیں تو بعد از اقرارِ عدمِ مصلوبیت قرآن شریف میں سے بدلائلِ قطعیہ ان کی وفات ثابت کر دیں تو بندہ اس بات کا حلفی اقرار کرتا ہے کہ آپ کی تحقیق کا بہت ہی ممنون و مشکور ہو کر مسیح علیہ السلام کی وفات کو تسلیم کر لے گا۔ اس امر کے فیصلے کے لئے خواہ آپ مجھے قادیان میں حاضر ہونے کے لئے فرما دیں اور کسی عام مجلس میں اس مرحلہ کو طے کریں، خواہ کسی اور جگہ پر تشریف لا کر مجھے اطلاع بخشیں، خواہ آپ سیالکوٹ میں قدم رنجہ فرما کر بندے کو ممنون فرمائیں، بندہ ہر طرح حاضر ہے۔ آپ کے سیالکوٹ آئے کی صورت میں آنے کے ذاتی اخراجات کا متحمل بندہ ہو گا۔ اگر آپ بندے کو قادیانی میں طلب نہ فرمائیں اور کسی اور جگہ بھی بہ سبب کسی خفی وجہ کے خود تشریف نہ لا سکیں تو وہاں قادیان ہی میں بیٹھے بیٹھے اس بار کو برداشت کریں۔ بندہ اس پر سر تسلیم نہیں پھیرے گا۔ اس عریضہ کے جواب میں آپ کا یہ فرما دینا کہ ہم نے یہ مسئلہ ازالۂ اوہام میں بہ بسط لکھا ہوا ہے، بندہ کے لئے جواب نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ دلائل جو آپ نے ازالۂ اوہام میں بیان کئے ہیں، بندہ کے نزدیک قطعیت چھوڑ مفیدِ ظنیت بھی نہیں ہو سکتے۔ اس عریضہ کی قبولیت و عدم قبولیت کو ایک ہفتے کے اندر اندر بدستخط خاص قلمی یا بذریعہ اشتہار طبع شدہ اطلاع بخشیں اور اس کی تعمیل کی میعاد ایک ماہ سے زائد نہیں ہونی چاہئے۔ 8 جون 1902ء

یہ اشتہار رجسٹری کرا کر مرزا صاحب قادیانی کی خدمت میں ارسال کیا گیا جس کی رسید بھی آ گئی تھی۔ مگر جواب ندارد۔ ہاں ان کے ایک مرید بلکہ استاد زادے مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے اس کا جواب لکھ کر اپنی لیاقت کا اظہار کیا۔ سو مناسب معلوم ہوتا ہے ضمناً اس کی بھی تردید ہو جائے۔

یہ رسالہ نام کا جواب باصواب ہے اور اس میں مولوی صاحب نے حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب پر چڑھائے جانے کے ثبوت پر زور مارا ہے۔ اور آپ کو دلائل مزبورہ پر بڑا ناز ہے۔ چنانچہ لوح کے اندرونی صفحہ میں فخر سے فرماتے ہیں: ”سوال اور اس کے جواب میں غور فرما کر حسن کلام اور خوبئ جواب اور طرزِ استدلال کو داد دیں“ انتہیٰ۔ اور نیز نظم دلچسپ میں یوں راقمطراز ہیں:؎

گو دیکھنے میں چھوٹی سی یہ ایک کتاب ہے
اس کا ہر ایک نکتہ مگر لاجواب ہے

اس کتاب میں مصنف صاحب نے اپنی تحقیقات کی داد ان دو امروں کی صحت پر مانگی ہے۔ امرِ اوّل ”صلب کے معنی صلیب پر مارنا ہیں لہٰذا مَا صَلَبُوه کے معنی ’یہود نے حضرت مسیحؑ کو صلیب پر نہیں مارا‘ ہوئے“۔ چنانچہ صفحہ 14 کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: واضح رہے کہ اصل لغت میں مصلوب ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کی موت صلیب پر واقع ہو جائے۔ دیکھو قاموس اور اقرب الموارد وغیرہ اور جس شخص کی موت صلیب پر نہ واقع ہو اس کو لغت کی رو سے مصلوب کہنا ناجائز ہے انتہیٰ۔ اور نیز صفحہ 24 میں یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں: ”کیونکہ عرف لغوی میں مصلوب اسے کہتے ہیں جس کی موت صلیب پر واقع ہو جائے اور جس کی موت واقع نہ ہو اسے مصلوب نہیں کہتے“۔

امر دوم کلمہ لکن اس وہم کے دفعیہ کے لئے آتا ہے جو کلامِ سابق سے پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ نے وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ اس لئے فرمایا کہ مَا صَلَبُوه کی نفی سے مطلق سولی چڑھانے کی نفی بھی سمجھی جاتی تھی(حق بر زبان جاری)۔ مگر چونکہ فعل سولی پر چڑھانا درست تھا اور سولی پر مر جانا غلط اس لئے وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ سے اس وہم کو دور کیا اور ظاہر کر دیا کہ نفی صلب سے مراد نفی نتیجہ صلب(موت)ہے، یعنی سولی ہر مرے نہیں۔ چنانچہ صفحہ16 میں یوں تحریر فرماتے ہیں: ”پس اس قاعدے کی رو سے ثابت ہوا کہ آیہ زیر بحث کے جملہ اولیٰ منفیہ میں ایک وہم ہے جو کہ ثانیہ مثبۃ سے بواسطہ حرف استدراک متضمن معنی استثنا رفع کیا گیا ہے اور وہ وہم یہ ہے کہ نفی قتل بعلت صلب سے نفی وقوع صورت صلب موہوم ہوتی ہے۔ جو مناقض اور مغائر نتیجہ صلب(موت)کی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو حرف استدراک متضمن معنی استثنا سے یوں ظاہر کیا کہ قتل اور صلب کا نتیجہ واقع نہیں ہوا اور صورت صلب پیش آ گئی۔ پس جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں، آیہ شُبِّهَ لَهُمْ میں مشتبہ حضرت مسیحؑ ہے اور مشبہ بہ یہود کا زعمی مصلوب یا وہ مقتول و مصلوب جو معلت تصلیب ،معہود فی الذہن ہوتا ہے“۔ انتہیٰ

اقول

یہ دونوں امر بالک غلط اور ناشی از جہالت ہیں اور ان کا قائل جاہلِ مطلق اور لیاقتِ علمیہ سے بے بہرہ اور علومِ رسمیہ سے بالکل نابلد ہے۔


امر اوّل یعنی صلب کے معنی سولی پر چڑھا کر مارنا تین وجوہ سے باطل ہے۔

وجہ اوّل: لغت میں صلب کے معنی صرف سولی پر چڑھانا ہی، اسے موت لازم نہیں۔ غیاث اللغات اور صراح میں ہے: صلب بردار کردن ۔ بلکہ غیاث اللغات میں لفظ صلیب کے ذیل میں کہا ہے: ” بمعنی بردار کردہ شدہ۔ وجهش آنکه چون عیسی علیه السلام را بر آسمان بردند، طرطوس نام شخصی را که همشکل عیسی علیه السلام بود، بر دار کشیدند و بعد این واقعه ترسایان آن را عیسی پنداشته ، شکل دار با عیسی از چوب تراشیده در گلو آویختند و تعظیمش کردند “۔ اور سب تراجم اردو، فارسی میں صلب کے معنیٰ سولی پر چڑھانا ہی لکھے ہیں۔

ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب مرحوم محدث دہلوی جو مسلّم بین العلماء و الفضلآ ہیں: ” ونہ کشتند اور اوبردار نکر دند اورا “۔
ترجمہ رفیع الدین صاحب بن شاہ ولی اللہ صاحب: ”اور نہیں مارا اس کو اور نہ سولی دی اس کو“۔
ترجمہ شاہ عبد القادر صاحب بن شاہ ولی اللہ صاحب: ”اور نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا“۔
ترجمہ حافظ نذیر احمد صاحب ”نہ تو انہوں نے ان کو سولی چڑھایا“۔

ان عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ صلب کے معنی لغت و تراجیم میں سولی پر چڑھانا لکھے ہیں اور موت اس کے لئے لازم نہیں۔ اگر صلب کے معنی کسی لغت کی کتاب میں یا کسی محاورے میں یا کسی شعر میں سولی پر چڑھا کر مارنا آئے ہیں تو مصنف صاحب پر واجب تھا کہ اس کتاب کی عبارت نقل کر دیتے۔ صرف آپ کا اتنا کہہ دینا کہ عرف لغوی میں فلاں لفظ کے معنی یہ ہیں، سند نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ کہیں کہ صفحہ14 کے حاشیہ میں قاموس اور اقرب الموارد کا نام لکھ دیا ہے، بلکہ اس پر ”وغیرہ“ کا بھی پشتہ چڑھا دیا ہے تو اس عذر سے شرم چاہئے۔ مولوی صاحب! جہاں قاموس وغیرہ میں آپ کی تائید کی تصریح کی گئی ہے، مہربانی کرکے وہ عبارت ہی نقل کر دی ہوتی تاکہ آپ پر دھوکے کا الزام عائد نہ ہوتا۔ مولوی صاحب! یاد رکھیے لغت کی کسی کتاب میں آپ کی تائید نہیں اور ہرگز نہیں ہے اور ہرگز نہیں ہے۔ یہ صرف آپ ہی کا اختراع ہے اور مصنفین گزشتہ پر افتراء۔52

اچھا اگر عربی زبان میں صلب کے معنے سولی پر چڑھا کر مارنا اور مصلوب کے معنی سولی پر چڑھایا جا کر مارا ہوا ہیں، تو صرف سولی پر چڑھانے اور سولی پر چڑھائے ہوئے کے لئے کیا لفظ ہیں؟ جب آپ نے یہ لکھا تھا کہ ”جس شخص کی موت صلیب پر واقع نہ ہو اس کو لغت کی رو سے مصلوب کہنا ناجائز ہے“ تو کیا اس وقت ایسے شخص کے لئے جو لفظ اس پاک زبان میں موضوع ہے لکھنا ہی یاد نہ رہا یا خود بدولت کو یاد ہی نہ تھا؟ یا زبان ہی میں کوئی لفظ نہیں؟ مہربانی کر کے وہ لفظ تو لکھ دیا ہوتا تاکہ آپ کی تحریر کچھ تو مفید پڑتی۔ پہلی دو صورتوں میں آپ کا قصور ہے اور تیسری صورت میں زبان کا نقص۔ مجھے امید ہے کہ آپ اپنے پر الزام سہ جائیں گے اور زبان عرب میں نقص کے قائل نہ بنیں گے۔

وجہ دوم: جو الفاظ افعال کے لئے موضوع ہیں وہ صرف ان کی ابتدائی صورت کے لئے ہیں۔ نتیجہ ان میں داخل نہیں ہوتا۔ نتیجہ پر دلالت ترکیب سے ہوتی ہے یا زیادت سے۔ آپ قواعد فقہ یا علم بیان کی کوئی کتاب پڑھیں، پھر معلوم ہو جائے گا اور اس سے پہلے ایسی تحقیق کو چھوڑ دیں اور استاد کے اس شعر کو وردِ زبان بنائے رکھیں۔؎

بجائے بزرگاں دلیری مکن
چو سر پنجہ ات نیست شری مکن

وجہ سوم: مثل مشہور ہے: دروغگوار حافظہ نباشد۔ رسالہ باصواب کے مصنف صاحب نے صلب کے معنی سولی پر چڑھا کر مارنا کرنے میں اپنی مطلب بر آری کے لئے بہت زور مارکر تصرف فی اللغۃ کیا ہے اور بموجب مثل مندرجہ عنوان ان کی اپنی بہت سی عبارات اسی رسالے میں موجود ہیں جن میں صلب بمعنی مطلق صلیب پر چڑھانا استعمال کیا گیا ہے۔ وہ مواضع حسب ذیل ہیں:
1)حاشیہ صفحہ 14 ” ما قتلوہ یقیناً اے مَا وَقَعَ مُوْتُهٗ بِقَتِلِهٖ صَلْبًا نفی قتل بعلت صلب سے نفی وقوع صورتِ صلب موہوم ہوتی ہے“۔
2) صفحہ16 ”جو مناقض اور مغائر نتیجہ صلب(موت)کی ہے“۔
3)صفحہ17 ”اب اس صورت میں یہ معنی ہوئے کہ مسیحؑ کے صلب کا نتیجہ تو واقع نہیں ہوا“۔
4) صفحہ 17 ”اور دونوں جملوں کے ملانے سے عدم وقوع نتیجہ صلیب کا اثبات“۔
5)صفحہ 18”پس دونوں آیتوں سے ثابت ہو گیا کہ آیت وَ مَا قَتَلُوْهٗ وَمَا صَلَبُوْهٗ وَ لٰکِنْ شُبِّهَ لَھُمْ میں مطلق نفی مقصود ہے اور وقوعِ صورتِ صلب کا اثبات مطلوب ہے“۔

ہم ان عبارتوں پر کچھ زیادہ توضیح نہیں کرتے۔ صرف ناظرین کے فہم رسا اور انصاف پر چھوڑتے ہیں اور ان کی توجہ اس طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں کہ ان عبارات میں صلب بمعنی سولی پر چڑھنا مستعمل ہوا ہے یا نہیں۔ وَ الْاِنْصَافُ اَوْلَی الْاوصَافِ (انصاف کرنا سب سے بہتر وصف ہے)۔ اگر منصف صاحب اس اشارے سے اپنی بے علمی کا اعتراف نہ کریں تو نتیجہ اور سبب کی مغائرت سے سمجھ لیں۔ افسوس اب تو وہ فوت ہو چکے ہیں۔

الفقيه تکفيه الاشارة والسفيه لا تفيده العبارة .
”دانا کو بس ایک اشارہ ہی کافی ہے اور نادان کو(لمبی)عبارت بھی مفید نہیں“۔

امر دوم: یعنی بحث کلمہ لکن کی نسبت یہ عرض ہے کہ مولوی صاحب خود اس سے وہم میں پڑے ہیں اور عوام کو اوہام میں ڈالتے ہیں۔ فَضَلًّ و اَضَلًّ مولوی صاحب لکِنَّ ( مثقلة النون )کے قاعدہ میں دو عبارتیں نقل کی ہیں اور ان عبارات سے مولوی صاحب کو کچھ فائدہ نہیں۔ ہاں اتنا فائدہ ضرور ہے کہ مرزائی پارٹی یہ جانے گی کہ مولوی صاحب علم نحو سے واقف ہیں مگر علم نحو کے ماہرین کے نزدیک یہ امر شاہد ناطق ہے کہ مولوی صاحب علم نحو سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ آپ نے کتب نحو کی عبارات تو نقل کر دیں کہ لٰکن ازالہ وہم کے لئے آتا ہے، مگر تعیین وہم کی سند میں کسی تفسیر کی عبارت کیوں نقل نہ کی؟۔ مخالف پر کسی کتاب کا حوالہ دے کر وہ امر آشکارا کیا جاتا جس میں اس کو خلاف ہو۔ کلمہ لٰکن کے ازالۂ اوہام کے لئے موضوع ہونا تو فریقین کے نزدیک مسلم ہے۔ اختلاف تو تعیین وہم میں ہے۔ جو وہم آپ کو ہوا ہے اس کی صحت کے لئے کسی کتاب کی عبارت لکھنی چاہئے تھی یا اسے مدلل طور پر زور عبارت میں ثابت کرنا تھا، مگر افسوس مولوی صاحب نے غیر ضروری امر ہی پر اپنا سارا زور بل لگا دیا اور جس امر کو دلیل سے ثابت کرنا تھا وہاں پہنچ کر بے دم ہو گئے۔ مولوی صاحب! معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا آپ کو وہم ہوا ہے۔ سنیے وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ کے معنی تین طریق سے ہو سکتے ہیں۔ اوّل اگر نفی قتل کو مفعول پر متصور رکھیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے: ”اور یہود نے مسیح علیہ السلام کو قتل نہیں کیا اور نہ ان کو صلیب پر چڑھایا“ و ھذا الوجه ھو الحق (اور یہی وجہ درست ہے)۔ دوم اگر نفی قتل کو فاعل پر متصور رکھیں تو معنی یہ ہوں کہ: مسیح علیہ السلام کو یہود نے قتل نہیں کیا اور اس کو سولی پر چڑھایا اس کے خلاف یہ ہو گا کہ یہود کے سوا کسی اور نے مارا اور یہ وجہ باطل ہے۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔ سوم اگر نفی کو افعال مذکورہ پر متصور کریں تو معنی یہ ہوں گے: مسیحؑ کو یہود نے قتل نہیں کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا ہے۔ اس کے خلاف یہ ہو گا کہ کسی اور طرح سے مر گیا اور یہ وجہ بھی باطل ہے۔

ناظرین انصاف سے دیکھیں کہ ان ہر سہ وجوہ میں سے وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ کو کس وجہ سے تعلق ہے۔ اگر انصاف سے غور کیا جائے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ کو ان وجوہ میں صرف پہلی ہی صورت سے مناسبت ہے اور جمیع مفسرین رحمہم اللہ نے بالاتفاق یہی معنی کئے ہیں۔ صورتِ دوم اس لئے درست نہیں کہ اس صورت میں فعل کی اسناد اس کے فاعل کی طرف نہیں کی گئی اور نیز اس لئے کہ اس صورت میں یہود کا ذکر باسم ظاہر چاہئے تھا یا ضمیر مرفوع منفصل لانی چاہئے تھی۔ صورت سوم اس لئے باطل ہے کہ جس اس صورت کے خلاف یہ تھا کہ وہ کسی اور طرح مر گیا تو پھر فعل کی نفی یہود کی طرف اشارہ کرکے نہ کی جاتی بلکہ عام طور پر کہا جاتا کہ اس کو کسی نے نہیں مارا وہ تو اپنی موت سے بستر پر مرے ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں لفظ احد (بمعنے کوئی)بہ سبب معین نہ ہونے کے نکرہ اور عام ہے اور یہود اس کی نسبت خاص اور خاص کی نفی سے عام کی نفی نہیں ہو سکتی۔ باقی رہی صورتِ اوّل سو اس کو جملہ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ سے پورا پورا تعلق ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہود نے مسیحؑ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں صلیب پر چڑھایا لیکن کسی ایسے شخص کو صلیب پر چڑھایا جو ان کے لئے از روئے مکر کے مسیح علیہ السلام کا ہم شکل بنا دیا گیا تھا۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ سے مسیح علیہ السلام سے مصلوبیت و مقتولیت کی نفی کر دی تو وہم ہو سکتا تھا اور وہ معقول تھا کہ قتل اور صلب حسی امر ہیں وہمی اور خیالی نہیں اس لئے کوئی نہ کوئی ضرور مصلوب و مقتول ہوا تھا۔ اگر وہ مقتول مسیح علیہ السلام نہیں تھے تو کون تھا؟ سو ضرور تھا کہ اس کا جواب دے کر ازالۂ وہم کیا جاتا۔ پس وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ سے اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دفع کیا اور حقیقتِ امر کھول دی کہ وہ کوئی اور شخص تھا جو کہ یہود کے لئے مَکُرًا بِھِمْ مسیح علیہ السلام کا ہم شکل بنایا گیا تھا۔

اس میں شاید کوئی کوتاہ نظری سے یہ سوال کرے کہ فعل شبه کی اسناد کس کی طرف ہے۔ کیونکہ اسے مسیح علیہ السلام کی طرف مسند کیا جائے تو مسلمانوں کے اعتقاد میں مسیح علیہ السلام مشبہ بہ ہیں اور یہاں ذکر مشبہ کا ہے اور اگر کسی اور مقتول و مصلوب کی طرف اسناد کی جائے تو اس کا اوپر ذکر نہیں۔ ھٰذا تقریر السوال ۔

اس کا ایک جواب باتفاق جمہور مفسرینؒ یہ ہے جو امام رازی علیہ الرحمۃ نے دیا ہے:

أَنْ يُسْنَدَ إِلَى ضَمِيرِ الْمَقْتُولِ لِأَنَّ قَوْلَهُ وَما قَتَلُوهُ يَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ وَقَعَ الْقَتْلُ عَلَى غَيْرِهِ فَصَارَ ذَلِكَ الْغَيْرُ مَذْكُورًا بِهَذَا الطَّرِيقِ، فَحَسُنَ إِسْنَادُ شُبِّهَ إِلَيْهِ “۔(تفسیر کبیر جلد 11 صفحہ 260 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”کہ یہ فعل مسند ہے طرف ضمیر کی جو مقتول کی طرف پھرتی ہے کیونکہ قول وَما قَتَلُوهُ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کسی اور شخص پر قتل واقع ہوا۔ پس اس طریق سے وہ مقتول مذکور ہوا اور شُبِّهَ کی اسناد اس کی طرف ٹھیک ہوئی“۔

اور نیز إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ سے بھی اس مقتول کا ذکر سمجھ میں آ سکتا ہے جیسا کہ قاضی بیضاوی نے فرمایا:

أو إلى ضمير المقتول لدلالة إنا قتلنا على أن ثم قَتيلاً “۔(تفسیر بیضاوی جلد 2 صفحہ108 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”یا اس فعل کی اسناد ضمیر مقتول کی طرف ہے کیونکہ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہاں کوئی تو ضرور مقتول تھا“۔

مولوی صاحب نے شُبِّهَ کی توجیہ میں تفسیر بیضاوی کی عبارت نقل کرکے عوام کو یہ دھوکہ دینا چاہا کہ گویا اس توجیہ میں پہلے مفسر بھی ان سے متفق ہیں۔

اچھا مولوی صاحب! اگر قاضی بیضاوی علیہ الرحمۃ کی عبارت آپ کے مفید ہے تو قاضی بیضاوی ہی سے پوچھ لیجئے کہ مسیح علیہ السلام کے رفع کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتے ہیں۔ مولوی صاحب! تفسیر بیضاوی درسی کتاب ہے اور آپ نے نہیں پڑھی53۔ تفسیر بیضاوی آپ جیسے ماہروں سے حل نہیں ہو سکتی۔ بندہ آپ کو پھر وہی نصیحت کرتا ہے۔؎

بجائے بزرگاں دلیری مکن
چو سر پنجہ ات نیست شیری مکن
تفسیر بیضاوی کا حل انہی لوگوں کے سپرد کریں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے حل کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔؏

ہر کسے رابہر کارے ساختند
خَلَقَ اللّٰهُ لِلْحُرُوْبِ رِجَالاً

وَرِجَالاً لِقَصْعَةٍ وَّثَرِيْدِ


”یعنی خدا تعالیٰ نے بعض آدمیوں کو تو جنگ کے لئے پید ا کیا اور بعض کو صرف پیالے اور ثرید یعنی پیٹ پالنے کے لئے پالا ہے“۔

مولوی صاحب! آپ مفسرین کے مختلف اقوال سمجھنے کی لیاقت نہیں رکھتے۔ مفسرین کے آیت کے ذیل میں کئی اقوال کرنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ اقوال آپس میں متضاد ہیں اور ان سے نتیجہ ایک نہیں نکلتا۔ بلکہ یہ معنی ہیں کہ ہر صورت میں نتیجہ ایک ہی ہے۔ اس کے اثبات کی کئی صورتیں ہیں اور جس قول سے نتیجہ الٹ نکلتا ہے اسکی تضعیف کر دیتے ہیں۔ آپ ذرا غور کریں کہ اگر شُبِّهَ کی اسناد جار مجرور کی طرف کرنے یا ضمیر مقتول کی طرف کرنے سے نتیجہ ایک نہیں نکلتا تو معاذ اللہ مفسرینؒ پر یہ الزام عائد ہو گا کہ وہ قول راجح اور مرجوح اور ضعیف اور قوی میں تمیز نہیں کر سکتے تھے، صرف مختلف قوال کا نقل کر دینا جانتے تھے اور ان میں قوتِ فیصلہ نہ تھی۔ یا یہ نتیجہ نکلے گا معاذ اللہ قرآن شریف ایسی کتاب ہے کہ اس کے مضامین کے بیان میں اتفاق رائے نہیں۔ اگر ان اختلافات کو اس طریق پر جیسا کہ ہم نے بیان کیا، سمجھا جائے تو مفسرین کی بھی علو شان ثابت ہوتی ہے اور قرآن کی بھی۔ مفسرین کی اس طرح کہ گویا وہ ایسے وسیع النظر اور ماہر ہیں کہ ایک امر کو کئی وجوہ سے ثابت کر سکتے ہیں اور قرآن کریم کی اس طرح کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے مضامین کے اثبات کے لئے اپنے اندر ہی کئی دلائل رکھتی ہے۔ فَافْھَمْ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
52: اکمل صاحب نے بہت محنت سے لسان العرب میں سے عبارت تلاش کرکے نکالی: ” والصَّلْبُ، هَذِهِ الْقِتْلَةُ الْمَعْرُوفَةُ...الخ “۔(لسان العرب جلد 1 صفحہ 529 مطبوعہ دار صادر بیروت) اور کہا ہے: لسان العرب میں صلب کے معنی قتل کے لکھے ہیں۔(صفحہ11)
جواب: ہم قادیانی علمیت پر ہنسیں یا کیا کریں۔ دعویٰ اکملیت کا اور ” قتلة “ کے معنی کرتے ہیں ”قتل“۔ جنابِ من! علم صرف کے قواعد جانے آپ کی بلا! ” فِعلة “ بالکسر کا وزن عربی زبان میں نوعیت ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے۔ چنانچہ شافیہ میں ہے: ” وَبِكَسْرِ الْفَاءِ لِلنَّوْعِ، نَحْوُ ضِرْبَةٍ وَقِتْلَةٍ “۔(شرح شافیہ ابن الحاجب جلد 1 صفحہ178مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)پس صلب کے ضمن میں لسان العرب میں جو ” الْقِتْلَةُ الْمَعْرُوفَةُ “ کے لکھا ہے۔ سو اس کے معنی یہ ہیں کہ صلیب بھی قتل کا ایک ذریعہ ہے۔ کیونکہ قتل عام ہے چاہے کس طرح مارا جائے اس کی صورتیں ہیں، ایک ان میں سے صلیب بھی ہے۔ اسی لئے قرآن میں مَا قَتَلُوهُ کے بعد مَا صَلَبُوهُ کی تصریح کی ضرورت پڑی کہ یہود قتل مسیح علیہ السلام کی صورت صلیب پر چڑھا کر مارنا کہتے تھے۔ پس خدا تعالیٰ نے مَا قَتَلُوهُ سے تو قتل کی نفی کر دی اور مَا صَلَبُوهُ سے صلیب پر چڑھانے کو رد کر دیا۔ پس مَا صَلَبُوهُ میں فعل صَلَبَ جو منفی ہے، وہ صلیب پر چڑھانے کے معنوں میں ہوا نہ کہ صلیب پر مارنے کے معنی میں۔ کیونکہ مارنے کی نفی تو مَا قَتَلُوهُ میں ہو چکی ہے۔ باقی رہا صلیب پر چڑھانا سو مَا صَلَبُوهُ سے مردود ہو گیا۔ سعادت الاقران
53:مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی جناب مرزا صاحب قادیانی کے استاد مولوی فضل احمد صاحب مرحوم کے بیٹے تھے۔ فقہ وغیرہ کی چند ابتدائی کتابیں حافظ محمد سلطان صاحب سیالکوٹیؒ سے پڑھیں۔ حدیث کی کتابیں استادِ پنجاب حافظ عبد المنان صاحب محدث وزیر آبادیؒ سے پڑھیں۔ کسی ناگفتہ بہ شرارت پر جناب حافظ صاحب نے سخت سزا دی۔ وہاں سے بھاگ آئے۔ پھر قادیانی ہو گئے۔ مولوی نور الدین صاحب کے بعد لاہور جماعت میں شامل ہوئے۔ آخر گوجرانوالہ میں طاعون سے فوت ہوئے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اب ہم بفضلہٖ تعالیٰ شُبِّهَ کی اسناد کی نسبت مفسرین کے اقوال نقل کرکے مولوی صاحب کے فہم سے وہم کو دور کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ہر صورت میں نتیجہ یہی ہے کہ کوئی اور شخص مسیح علیہ السلام کا ہم شکل بنایا گیا تھا اور وہی صلیب پر کھینچا جا کر مارا گیا تھا۔ چنانچہ تفسیر بیضاوی میں ہے:

وشُبِّهَ مسند إلى الجار والمجرور كأنه قيل ولكن وقع لهم التشبيه بين عيسى عليه السلام والمقتول “۔(تفسیر بیضاوی جلد 2 صفحہ108 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
شُبِّهَ جار مجرور میں لَھُمْ کی طرف مسند ہے گویا یہ کہا گیا لیکن ان کو عیسیٰ علیہ السلام اور اس مقتول میں مشابہت نظر آئی“۔

مولوی صاحب نے اس توجیہ کی طرف صفحہ 15 کے حاشیہ میں یوں اشارہ کرتے ہیں: ”بعض مفسرین نے شبہ کا اسناد جار مجرور کی طرف بھی مانا ہے، جس کے یہ معنی ہوئے: و لکن وقع لھم التشبیه ای شبه علیھم الامر او جعل الامر مشتبھالھم “۔ مولوی صاحب نے اس ایک سطر عبارت کے نقل کرنے میں جو خیانت کی ہے وہ ناظرین پر واضح ہو گئی ہو گی۔ اگر جار مجرور کی طرف اسناد کرنے سے معنی آپ کے مطلب کے موافق تھے تو آپ نے اگلی عبارت پوری نقل کیوں نہ کی۔ اور ” بين عيسى والمقتول “(تفسیر بیضاوی جلد 2 صفحہ108 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت) کی خیانت کیوں کی۔ اور اپنی طرف سے اس کے معنے ” شبه علیھم الامر او جعل الامر مشتبھالھم “ عربی عبارت و عربی خط میں لکھ کر کیوں لوگوں کو دھوکہ دیا گیا؟ ایمانداری تو یہ تھی کہ آپ کتاب کی عبارت پوری نقل کر دیتے ۔ پھر سمجھنے والے خود سمجھ لیتے کہ یہ عبارت آپ کے موافق ہے یا مخالف۔ مولوی صاحب نے ” وقع لھم التشبیه “ کے معنی ” شبه علیھم الامر او جعل الامر مشتبھالھم “ کرکے اپنی لیاقت علمی کا ایک اور نمونہ دکھایا ہے۔ سبحان اللہ! کہاں کی کہاں لگا دی۔ آپ پر تشبیہ اور اشتباہ مشتبہ ہو گئے اور صلہ علی سے نظر ہی عالی پرواز ہو گئی۔ اور صرف اسی پر بس نہیں کہ بلکہ پھر یہ فرمایا: ”پس بجائے صلی علی کے صلہ لام عربی میں انتفاع کے لئے آتا ہے“۔ مولوی صاحب! آپ کیوں ایسے امور میں دخل انداز ہوتے ہیں جن کے آپ اہل نہیں ہیں۔ آپ ناحق لغت اور نحو کا مسئلہ چھیڑتے ہیں۔ آپ لغت اور نحو نہیں جانتے۔ آپ کو کسی استاد کے اس مصرعہ سے نصیحت کی جاتی ہے۔؏

نکتہ داں نشود کرم گر کتاب خورد

اس عبارت کو بغور پڑھیں54: اشتباہ اور تشابُه وغیرہ کا صلہ جب علی آئے تب ان کے معنی التباس کے ہوتے ہیں۔ جیسے سورہ بقرہ پارہ اول میں ہے:

إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا (البقرہ 2:70)
”بیشک موصوفہ گائے مشتبہ ہو گئی ہم پر“۔

اور سورہ رعد پارہ 13 میں ہے:

فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ (الرعد13:16)
”پیدائش مشتبہ ہو گئی اوپر ان کے“۔

سورہ انعام پارہ7 میں ہے:

وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِم (الانعام6:9)
”اور البتہ مشتبہ کرتے ہم اوپر ان کے“۔

اور قاموس میں ہے: شُبِّهَ عَلَيْهِ الأَمْرُ تَشْبيهاً لُبِّسَ عَلَيْهِ (قاموس المحیط جلد 1 صفحہ1247 مطبوعہ مؤسسة الرسالۃ بیروت لبنان)معاملہ اس پر مشتبہ ہو گیا۔
آپ نے ناحق شُبِّهَ عَلَیْھِمُ الْأَمْرُ اور وَقَعَ لَھُمْ التَّشْبِیْهُ کو ایک بنا کر اپنی بے بضاعتی پر ہنسایا۔

پھر مولوی صاحب نے مطولات کا مطالعہ نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو ضرور جانتے کہ عربی میں لام کئی معنوں کے لئے آتا ہے۔ ایک میں ضرار ہے۔ جیسے اس آیت میں ہے:

فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا (یوسف12:5)
یعنی ”پس وہ تیری ضرر کی تدبیر کریں گے“۔

ایسے ہی وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ میں بھی ضرار کے لئے ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ پس یہود کا مکر یہ تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو مصلوب کرکے قتل کر ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ کا مکر ان کے مقابلے میں یہ ہوا کہ انہی میں سے ایک شخص کو مسیح علیہ السلام کا ہمشکل بنا کر ان کے اپنے ہاتھوں سے مصلوب کرا کے مقتول کرایا، جن کا ضرر انہی پر پڑا بحکم آیت سورۂ فاطر:

وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ (فاطر35:43)
”بد اندیشی کا وبال اس کے اہل ہی پر پڑا کرتا ہے“۔

دیکھو دونوں آیتوں میں مکر اور کید کے لفظ ہیں جو آپس میں مترادف ہیں۔ دیگر یہ کہ جار مجرور کی طرف اسناد کرنے سے الْأَمْرُ کہاں سے نکال لیا۔

اصل بات یہ ہے کہ مولوی صاحب بے چارے مفسرینؒ کے اقوال سمجھنے کی لیاقت نہیں رکھتے۔ تفسیر بیضاوی میں عبارت مذکورۃ الصدر کے آگے لکھا ہے:

أو في الأمر على قول من قال لم يقتل أحد ولكن أرجف بقتله فشاع بين الناس “۔(تفسیر بیضاوی جلد 2 صفحہ108 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”یا اس معاملہ میں ان کے لئے تشبیہ واقع ہوئی۔ اس قائل کے قول پر کہ مقتول کوئی بھی نہیں تھا۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی جھوٹی افواہ اڑ گئی اور لوگوں میں شائع ہو گئی“۔

اس عبارت میں فِی الأَمْر کو دیکھ کر پہلی توجیہ سے ملا لیا اور ایک الگ عبارت بنا کر مفسرین علیہم الرحمۃ کے ذمے لگانے چاہی۔ واضح ہو کہ مولوی صاحب نے یہ عبارت بھی صفحہ 17 میں نقل کی ہے اور اس میں یہ خیانت کی ہے کہ فِی الأَمْر کی جگہ اِلَی الْاَمْر لکھ کر اپنے موافق معنی گھڑ لئے ہیں۔ زیادہ اطمینان کے لئے (تفسیر ارشاد العقل السلیم جلد 2صفحہ 251 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت) کا مطالعہ کریں تاکہ آپ کو سمجھ آئے صحیح عبارت فِی الأَمْر ہے، نہ اِلَی الْاَمْر ۔ فَافْھَمْ

مطلب اس عبارت کا پہلی عبارت کو ملا کر یہ ہے کہ یہود کے لئے مسیح علیہ السلام اور مقتول میں تشبیہ واقع ہو گئی۔ یعنی ان کی نظر میں وہ مقتول مسیح علیہ السلام نظر آیا55 یا اس معاملے میں ان کے لئے تشبیہ واقع ہوئی۔ أو في الأمر کا عطف عبارت متقدمہ بين عيسى والمقتول پر ہے۔ گویا عبارت یوں ہے: اَوْ وَقَعَ لَھُمُ التَّشْبِیْهُ فِی الْأَمْرِ...الخ ۔ اور یہ عبارت بعطف تردیدی کوئی نئی ترکیب نہیں جیسا کہ مولوی صاحب نے خوش فہمی سے سمجھا ہے۔ بلکہ شُبِّهَ کی جار مجرور کی طرف اسناد کرنے میں جو دوسرے معنی ہو سکتے تھے وہ ذکر کئے ہیں اور ان معنوں کے ضعف کی طرف بھی على قول من قال سے اشارہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو تفاسیر کے مطالعہ اور تدریس کی توفیق بخشی ہے وہ خوب پہچانتے ہیں کہ یہ قول شاذ ہے اور پھر بھی اس میں مسیح علیہ السلام کی عدم مصلوبیت کی تصریح ہے اور رفعِ جسمی کی نفی نہیں۔

مفسرین کا دوسرا قول شُبِّهَ کی اسناد کی نسبت وہ ہے جو امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اور قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ کی تفاسیر سے گزر چکا ہے۔

ناظرین ان دونوں قولوں کو سامنے رکھ کر انصاف سے نظر کریں کہ دونوں کی ترکیبوں سے نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے یا الگ الگ؟ اور وہ نتیجہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کے سوا کوئی اور شخص مصلوب ہو کر مقتول ہوا۔ یہ سارا بیان مولوی صاحب کی وجہ پر رد ہے جو ضمناً کیا گیا۔ مفسرین کی یہ ترکیب کہ شُبِّهَ کی اسنادِ ضمیر مقتول کی طرف ہے، نہایت ٹھیک اور قواعد لسان کے بالکل مطابق ہے۔

لِمَا قَالَ ابْنَ ھِشَامٍ مُعْزِیًا اِلَیلابْنِ مَالِكٍ إِنَّهٗ لٰكِنْ غَيْرُ عَاطِفَةٍ وَّالْوَاوُ عَاطِفَةٌ لِجُمْلَةٍ حُذِفَ بَعْضُهَا عَلٰى جُمْلَةٍ صُرِحَّ بِجَمِيْعِهَا قَالَ فَالتَّقْدِيْرُ فِيْ نَحْوِ مَا قَامَ زَيْدٌ وَّلٰكِنْ عَمْرٌو،وَّلٰكِنْ قَامَ عَمْرٌو، وَّفِىْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَلٰكِنْ كَانَ رَسُوْلَ اللّٰهِ “۔(مغنی اللبیب جلد 1 صفحہ 322 مطبوعہ مکتبہ العصریہ بیروت)
چنانچہ امام ابن ہشام نحوی نے ابن مالک نحوی کی طرف نسبت کر کہ کہا کہ: ” وَ لٰکِن میں لٰکِن غیر عاطفہ ہوتا ہے اور واؤ ایسے جملہ کو جس میں سے کچھ محذوف ہو اسے جملہ پر جو پورا مصرح ہے عطف کرتی ہے۔ پس مثال قام زید... الخ میں تقدیر یہ ہے: وَّلٰكِنْ قَامَ عَمْرٌو ۔ اور آیت وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ میں تقدیر عبارت یوں ہے: وَلٰكِنْ كَانَ رَسُوْلَ اللّٰهِ “۔

مولوی صاحب بے چارے علم نحو میں ایسے کم فہم ہیں کہ کسی کتاب کی عبارت نقل کرتے وقت امر مقصود اور غیر مقصود میں بھی تمیز نہیں کر سکتے۔ لٰکِنَّ مشددۃ النون کا قاعدہ لکھا اور چونکہ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ میں لٰکِنْ مخففۃ النون مع الواؤ تھا اس لئے اعتراض سے بچنے کے لئے ایک عبارت کے پیچھے اتنا دنبالہ اور لگا دیا۔ يجوز معھا ای لكن مشددة او مخففة الواو وھی امّا لعطف جملة علیٰ جملة وامّا اعتراضية (شرح جامی)۔ اور اس دنبالہ نے آپ کی سخت تفضیح کی۔ کیونکہ لٰکن پر واؤ کے داخل ہونے تو کوئی خلاف و نزاع نہیں۔ نزاع تو اس میں کہ جس لکن مخففۃ النون پر واؤ داخل ہو اس کا حکم کیا ہے؟ آپ اتنا تو سوچ لیتے کہ جب آیت میں لکن مخففۃ النون مع واؤ کے ہے تو اس کا بھی کسی کتاب سے قاعدہ دیکھ لیں۔ مبادا اس میں خصم کے مذہب کی کوئی تائید ہو اور پھر ندامت اٹھانی پڑے۔ اور مزید برآں نہایت جرأت سے مولوی صاحب نے آیت سورۂ احزاب وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ کی ترکیب لکھ دی اور خیال نہ فرمایا کہ آئمہ نحو نے اس کی ترکیب کس طرح کی ہے؟ شاید وہ ترکیب خصم کے مذہب کی مؤید ہو۔ مولوی صاحب! اب تو خوب دیکھ لیا ہے یا نہیں؟ کہ جس طرح مَا قَامَ زَيْدٌ وَّلٰكِنْ عَمْرٌو میں قَامَ محذوف ہے اور آیت وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ میں کَانَ محذوف ہے۔ اور کَانَ اور قَامَ وہی افعال ہیں جو پہلے جملوں میں نفیًّا مذکور ہیں۔ اسی طرح وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ میں تقدیر عبارت کو یوں ہے: ” وَ لٰکِنْ قَتَلُوْا وَ صَلَبُوْا مَنْ شُبِّهُ لَھُمْ ۔ لیکن اس شخص کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا جو ان کے لئے مسیح علیہ السلام کے مشابہ بنایا گیا تھا“۔

تفسیر کشاف جو قرآن شریف کی عربیت اور فصاحت و بلاغت کے ذکر کرنے میں سب تفسیروں کی استاد ہے، اس میں یوں لکھا ہے:
وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ مَنْ قَتَلُوْهُ “۔(تفسیر کشاف جلد 1 صفحہ 587 مطبوعہ دار الکتاب بیروت)
”لیکن شبیہ بنایا گیا واسطے ان کے جس کو قتل کیا انہوں نے“۔

اور یہی الفاظ بعینھا تفسیر مدارک میں بھی ہیں اور تفسیر رحمانی جو نکات و معارف قرآن میں لا ثانی ہے، اس میں لکھا ہے:

وَلٰكِنْ قَتَلُوْا وَ صَلَبُوْا مَنْ اُلْقِيَ عَلَيْهِ شِبْھُهٗ“۔(تفسیر تبصیر الرحمن و تیسیر المنان جلد 1 صفحہ 173 مطبوعہ بولاق علم الکتاب مصر)
”لیکن انہوں نے اس کو قتل کیا اور صلیب دی جس پر مسیح علیہ السلام کی شباہت ڈالی گئی تھی“۔

اس قاعدہ کی دوسری مثال:

مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ (ال عمران3:79)
”کسی بشر کو جسے خدا کتاب اور فہم شریعت اور نبوت عطا کرے لائق نہیں کہ وہ لوگوں سے یہ کہے کہ سوائے میرے بندے بن جاؤ لیکن(یہ کہتا ہے)کہ رب کے بندے بنو“۔

اس میں تقدیر عبارت یوں ہے: وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ ۔ اسی طرح اس قاعدہ کی مثالی قرآن و حدیث و کتب ادب میں بکثرت ہیں۔ دیکھو تفسیر جلالین و جامع البیان، بیضاوی، مدارک، خازن، سراج منیر، کبیر، ابو السعود، رحمانی، کشاف، فتح البیان، ابن کثیر۔ مولوی محمد علی صاحب ایم اے لاہوری نے اس قاعدے کا انکار کیا ہے، چونکہ وہ عربی زبان سے ناواقف ہیں اس لئے ان کا انکار غیر جائز ہے۔

اب آپ برائے خدا اپنی ہی پیش کردہ آیت سورۂ احزاب کی مثال سے اس آیت کو سمجھیں اور امام ابن مالک اور ابن ہشام اور علامہ نسفی اور علامہ علی مہائمی اور فارس میدانِ فصاحت علامہ جار اللہ زمخشری کی ترکیب کو تسلیم کرکے حزب اللہ میں داخل ہو جائیں اور قادیانی عقائد سے جلد توبہ کرکے حزب اللہ میں داخل ہو جائیں اور قادیانی عقائد سے جلد توبہ کرکے اس کے مکائد سے بچ جائیں۔ کیونکہ آیت سورۂ احزاب ختم نبوت و رسالت پر نص قطعی ہے اور کادیانی مدعی رسالت ہے اور آپ اس کی رسالت کا اقرار کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ کی نظم دلچسپ میں سے ایک شعر پیش کیا جاتا ہے۔؎

ہے مقتداء امام و رسول خدا ہے وہ!
صادق ہے اور امین ہے عالی خطاب ہے56

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ رسالہ ”جواب باصواب“ کے باقی بعض قابل اعتراض مقامات پر بھی بنظر تحقیق نقض کیا جائے اور مجیب صاحب کو جتلا دی جائے کہ ان کا فخریہ مصرعہ ”اس کا ہر ایک نکتہ مگر لاجواب ہے“ کہاں تک درست اور بجا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
54:اب تو وہ فوت ہو چکے ہیں، اب کیا پڑھیں گے۔
55: حاصل مطلب یہ ہے کہ یہود نے جس شخص کو صلیب پر چڑھا کر قتل کیا انہوں نے اس کی نسبت یہ گمان کیا کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام ہے حالانکہ وہ کوئی اور تھا۔ سعادت الاقران
56:حیرانی ہے کہ مولوی مبارک علی صاحب نے یہ شعر مرزا صاحب کی زندگی میں لکھا اور ان کی زندگی بھر اس پر قائم رہے۔ پھر مولوی نور الدین صاحب کی خلافت کے زمانہ میں بھی اس پر قائم رہے۔ لیکن لاہوری پارٹی قادیان دارالامان سے بدر کی گئی اور انہوں نے لاہور میں اپنا الگ شاخسانہ بنا لیا اور مولوی مبارک علی صاحب ان کے ہاں مدرسہ میں ملازم ہو گئے تو محمد علی صاحب ایم اے کی موافقت میں جو عربی زبان سے ناواقف ہیں قادیانی رسالت سے تائب ہو گئے اور اپنا شعر بھی بھول گئے اور اسی حالت میں طاعون سے مر گئے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قولہ صفحہ 19
ان کے اپنے اقرار سے ثابت ہو گیا کہ صلیب پر ضرور کوئی ایسا شخص چڑھایا گیا جس کے ناک، کان، آنکھ وغیرہ تمام اعضا مسیح علیہ السلام کے اعضاء کے مشابہ تھے۔ گویا ہو بہو وہی تھا۔ انتہیٰ
اقوال
اس نامعقول سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا کہ مجیب صاحب کا دماغ سمجھ سے خالی ہے۔ کیونکہ مشابہت صوری سے اتحادِ ذوات لازم نہیں آتا۔ جیسے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس جبرائیل علیہ السلام کے بصورت بشری آنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا (مریم 19:17) یعنی پس وہ(جبرئیل علیہ السلام)اس(مریم علیہا السلام)کے پاس پورے(توانا)بشر کی شکل میں آیا۔ پھر حضرت جبرئیل علیہا السلام کا جواب ذکر کیا: إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ (مریم19:19)یعنی ”میں تو تیرے رب کا فرشتہ ہوں“۔ اس سے ظاہر ہو گیا کہ باوجود بشری صورت میں ہونے کے حقیقتِ ملکیت ن سے منتزع نہیں ہوئی تھی بلکہ فرشتے کے فرشتے ہی تھے۔ اسی طرح جو شخص حضرت مسیح علیہ السلام کا ہم شکل بنایا گیا تھا اس کی ذات اور حقیقت وہی رہی تھی جو شباہت پڑنے سے پیشتر تھی۔ گو حضرت مسیح علیہ السلام کی صورت اس پر ڈال دی گئی تھی۔ اس کے نظائر و امثال کتب حدیث و واقعاتِ اولیائے عظام میں بکثرت ہیں اور اصطلاح صوفیائے کرام میں اسے خلع کہتے ہیں۔ مثلاً حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بارہا بصورتِ بشری57 آنا صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن نسائی وغیرہ کتب حدیث میں مصرح ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کے پاس جو فرشتے بصورتِ بشری آئے تھے ان کا ذکر بھی قرآن شریف میں متعدد مقامات میں مذکور ہے۔ چنانچہ سورۂ ہود میں ان سے حکایت کیا کہ انہوں نے کہا: يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ (ہود11:81)”اے لوط! ہم تیرے رب کے فرشتے ہیں“۔ اس بیان و تفصیل سے صاف معلوم ہو گیا کہ القائے شبہ سے ذات مُلْقٰی علیہ متغیر نہیں ہو جاتی بلکہ حقیقت بر حال قائم رہتی ہے کیونکہ حلیہ اور شکل مثل لباس کے عوارض میں سے ہے داخلِ حقیقت نہیں۔ فَافْھَمْ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْقَاصِرِیْن ۔

قولہ
دنیا کی دو کثیر التعداد قومیں یہود و نصاریٰ تواترِ قومی کے طور پر اس بات پر اتفاق رکھتی ہیں کہ مسیح علیہ السلام کو صلیب پر ضرور لٹکایا گیا۔
اقوال
جناب! یہود کے قول کو تو اللہ عزیز ذو انتقام نے وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ سے باطل کر دیا اور انہیں اس قولِ زور کے سبب ملعون قرار دیا اور آپ ابھی تک ان کے تواتر پر اترا رہے ہیں اور نصاریٰ کے مذہبی اختلافات کی بابت آپ کو کیا معلوم ہے۔ یہ کس جاہل سے سیکھا تھا کہ نصاریٰ مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے پر اتفاق رکھتے ہیں۔ آپ ان کی کتبِ خلاقیات کا مطالعہ کریں پھر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ نصاریٰ کے قدیم فرقے یہی اعتقاد رکھتے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے بلکہ ایک اور شخص صلیب پر لٹکایا گیا تھا جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل ڈالی گئی تھی58۔ چنانچہ جارج سیل صاحب قرآن شریف کے ترجمہ انگریزی میں بذیل آیت: وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (آل عمران 3:54)جو لکھتے ہیں وہ ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے۔ ناظرین انصاف سے غور کریں اور رائے دیں کہ کیا حضرت روح اللہ علیہ السلام کا مصلوب ہونا عیسائیوں کا اتفاقی اعتقاد ہے؟

خلاصہ مطلب عبارت انگریزی جارج سیل صاحب

یہود کے خلاف اللہ تعالیٰ کا یہ مکر تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور آپ کی شباہت ایک اور شخص پر ڈال دی جو آپ کی بجائے گرفتار کرکے صلیب دیا گیا۔ یہ مسلمانوں کا متواتر مسئلہ ہے۔ بعض(عیسائی)لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ قصہ القائے شباہت کا(معاذ اللہ)محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنی اختراع ہے، مگر وہ لوگ یقیناً غلطی پر ہیں۔ کیونکہ پیغمبر صاحب کے زمانے سے بہت مدت پہلے عیسائیوں کے بہت سے فرقوں کا یہی اعتقاد تھا، چنانچہ فرقہ بے سی لی ڈین جو عیسائیت کے نہایت شروع میں تھا، مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے سے انکار کرتا تھا اور ان کا اعتقاد یہ تھا کہ سائمن آپ کی جگہ صلیب پر لٹکایا گیا تھا۔ ایسے ہی فرقہ سیرنتھین جو ان سے بھی بیشتر تھا اور کارپاکریشن جو مسیح علیہ السلام کو صرف انسان ہی مانتے تھے ان کا یہی اعتقاد تھا کہ مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے بلکہ آپ کے حواریوں میں سے ایک شخص کو جو آپ کا ہم شکل تھا صلیب دیا گیا۔ مصند فوٹین کہتا ہے کہ میں نے ایک کتاب بنام رسولوں کے سفرنامے پڑھی جس میں پطرس، یوحنا، اندریاس، طامس اور پولوس کے اعمال مندرج تھے اور منجلہ دیگر امور کے ایک امر یہ بھی تھا کہ ”مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے بلکہ آپ کے بجائے کوئی اور شخص صلیب دیا گیا تھا اور اس لئے حضرت مسیح علیہ السلام ان لوگوں پر ہنسے جنہوں نے اپنے زعم میں آپ کو صلیب پر چڑھایا تھا“۔

اس کے بعد سیل صاحب نے انجیل برنباس کی عبارت نقل کی ہے جس مطلب یہ کہ جب یہود بے بہبود حضرت مسیح علیہ السلام کو پکڑنے کے لئے جا رہے تھے آپ بوساطت چار فرشتگان حضرت جبرئیل، میکائیل، اسرافیل اور یوریل تیسرے آسمان پر اٹھا لئے گئے کہ آپ آخر دنیا تک نہ مریں گے اور آپ کی بجائے یہودہ اسکریوطی صلیب دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مکار کو یہود کی نظروں میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ایسا ہم شکل کر دیا کہ یہود اس کو پکڑ کر پلاطوس کے پاس لے گئے۔ یہ مشابہت صوری ایسی عجیب تھی کہ اس سے حضرت مریم علیہا السلام اور حواری بھی بھول گئے۔ مگر حضرت مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر ان کو تسلی دینے کے لئے پھر نازل ہوئے۔ اس پر برنباس جو عیسیٰ علیہ السلام کا ایک حواری تھا اس نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے ہم کو اور اپنی والدہ ماجدہ کو کیوں غم اور تکلیف میں رکھا کہ آپ ایسی بری موت سے مرے، گو یہ تھوڑی دیر کے لئے تھی۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس پر یہ جواب دیا کہ ”اے برنباس! سچ جانیو! کہ گناہ خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سخت سزا کے لائق ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ گناہ سے ناراض ہے۔ میری والدہ ماجدہ اور مومن حواریوں نے مجھے نفسانی پیار کی آمیزش سے محبت کی اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس موجودہ غم سے سزا دی تاکہ ان کو پھر دوزخ کی سزا نہ ہو۔ اور میری تو یہ بات ہے کہ اگرچہ میں دنیا میں بے عیب رہا ہوں مگر چونکہ اور لوگوں نے مجھے خدا اور خدا کا بیٹا کہا اس لئے اللہ تعالیٰ نے کہ میں قیامت کے دن شیطانوں سے مضحکہ نہ کیا جاؤں یہودہ اسکریوطی کی موت سے مجھ پر مضحکہ کر دیا کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر مارا گیا اور دیکھ یہ مضحکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے تک رہے گا۔ وہ دنیا میں آ کر ہر اس شخص کو اس غلطی سے نکالیں گے جو اللہ تعالیٰ کی شریعت کا متبع ہو گا“۔ انتہیٰ

اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السلام کی عدم مصلوبیت کا اعتقاد نصاریٰ کے قدیم فرقوں میں مسلم تھا اور ان کی قدیم تصانیف بھی اس امر کی شہادت دیتی ہیں، اگرچہ وہ کسی غرض سے ان کو مخفی رکھیں مگر بحکم شعر؎

عدو شود سببِ خیر گر خدا خواہد
خمیر مایۂ دکانِ شیشہ گر سنگینت

اور بفحوائے حدیث مسلم
أَنَّ اللهَ يُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ “۔(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 105 الرقم:111 مطبوعہ دار إحیاء التراث العربی بیروت)
”خدا اس دینِ اسلام کی مدد فاجر آدمی سے بھی کر لیتا ہے“۔
اللہ تعالیٰ نے اعدائے اسلام سے بھی اسلام کی تائید کرائی جس طرح کہ موسیٰ علیہ السلام کی تربیت فرعون کے گھر کرائی۔

انجیل برنباس کے متعلق ایک اور نکتہ ہے کہ مرزا صاحب قادیانی دعوائے مسیحیت سے پیشتر عیسائیوں کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثابت کرنے میں اسی انجیل برنباس سے انہیں ملزم کیا کرتے تھے۔ اب ان کے اپنے ہی الزام سے ہم ان کو ملزم کرتے ہیں کہ وہ یہ عبارت جو وہ عیسائیوں کو سناتے تھے خود پڑھیں۔ وَلَنِعْمَ مَا قَالَ الشیرازیُّ عَلَیْهِ الرَّحْمَةُ ؏

بہ بند وطع دیدۂ ہوشمند

مرزا صاحب قادیانی نے اپنی مسیحیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اثباتِ نبوت کو بھی جھٹلا دیا۔ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ (توبہ9:30)یعنی ”خدا ان کو غارت کر ے کدھر بھٹکتے پھرتے ہیں“۔

قولہ

بحکم اِحَالَةُ العادة تواطئھم عَلی الکذب ۔ ”عادةً ان کا جھوٹ پر اتفاق محال ہو“۔

اقول

جناب مولوی صاحب! آپ کتبِ درسیہ کے سمجھنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ لہٰذا نقل عبارات سے اپنی تفضیح نہ کرایا کریں۔ شرح نخبہ میں سے یہ عبارت تو دیکھ لی مگر تواتر کے افادہ یقین کی شروط کے لئے اگلے صفحہ کو الٹ کر نہ دیکھا۔ اگر تواتر کا مدار صرف کثرت پر ہے تو افواہ اور اخبار بے سروپا کس کا نام ہے؟ پھر تو آپ کے نزدیک عوام ہندوؤں کا یہ قول کہ راون کے دس سر تھے اور ہنومان نے پہاڑ اٹھا لیا اور ایسے ایسے خنر عبیلات جو ان میں ‏ذائع اور شائع ہیں سب متواترات میں سے ہوں گے۔ کیونکہ ان امور کو ہزاروں لوگ روایت کرتے چلے آئے ہیں۔ جنابِ من! تواتر کے افادۂ یقین کے لئے ایک یہ شرط ہے کہ منتہیٰ اس کا حس ہو۔ دیکھئے شرح نخبہ کے اگلے صفحہ پر ہے:
فإِذَا جَمَعَ هٰذِهِ الشُّروطَ الْأَرْبَعَةَ وَهِیَ:عَدَدٌ كَثِيْرٌ أَحَالَتِ الْعَادةُ تَوَاطُؤهُمْ وَ تَوَافُقَهُم عَلَى الْكَذِبِ. وَ رَوَوْا ذَالِكَ عَنْ مِثْلِهِمْ مِّنَ الْاِبْتِدَاءِ إِلَى الْاِنْتِهَاءِ. وَكَانَ مُسْتَنَدُ انْتِهائِهِمُ الْحِسَّ. وانْضَافَ إِلٰى ذٰلِكَ أَنْ يَصْحَبَ خَبَرَهُمْ إِفَادَةُ العِلْمِ لِسامِعِهِ.فَهٰذِا هُوَ الْمُتَوَاتِرُ “۔(نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر صفحہ43 مطبوعہ مطبعۃ الصباح دمشق)
”پس یہ چاروں شرطیں پوری ہو جائیں: 1) یہ کہ اتنی بڑی جماعت روایت کرے کہ عادت کی رو سے ان کا جھوٹ پر اتفاق کر لینا محال سمجھا جائے۔ 2) یہ کہ ابتدا سے انتہا تک سارا سلسلہ عادل ضابطہ راویوں کا ہو۔ 3) یہ کہ ان کے انتہا کی استناء امر حسی پر ہو۔4) یہ کہ ان کا خبر دینا سامع کو یقین کا فائدہ دیوے تو اسے متواتر کہتے ہیں“۔

اور اسی طرح علامہ سخاوی نے فتح المغیث میں بعد ذکر شروط کے فرمایا:

هَذَا كُلُّهُ مَعَ كَوْنِ مُسْتَنَدِ انْتِهَائِهِ الْحِسَّ مِنْ مُشَاهَدَةٍ أَوْ سَمَاعٍ لِأَنَّ مَا لَا يَكُونُ كَذَلِكَ يُحْتَمَلُ دُخُولُ الْغَلَطِ فِيهِ “۔(فتح المغیث بشرح الفیۃ الحدیث جلد 4 صفحہ 15 مطبوعہ مکتبہ السنۃ مصر)
”یہ سب باتیں تب معتبر ہیں کہ اس خبر کا انتہاء حس ہو یعنی مشاہدہ کے متعلق ہے تو مشاہدہ ہو اور اگر سماع کے متعلق ہے تو سماع ہو۔ کیونکہ جو اس طرح پر نہ ہو اس میں غلطی کے داخل ہو جانے کا احتمال ہو سکتا ہے“۔

پس اگر آپ عقیدہ مردودہ صلیبیہ کے زعمی تواتر کو حسبِ ہدایاتِ عباراتِ مذکورہ تحقیق کریں تو آپ کو صاف معلوم ہو جائے گا کہ حضرت روح اللہ کی نسبت یہود و نصاریٰ کا قولِ صلیب بالکل غلط اور مردود ہے۔

پس اس وقت آپ پر یہ آیت پڑھنی ٹھیک پھبے گی:
فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ (ق50:22)
”پس ہم نے تیرا پردہ کھول دیا ہے۔ پس آج تیری نظر تیز ہو گئی ہے“۔

شرح عقائد نسفی میں اس امر کی تصریح ہے کہ مصلوبیتِ حضرت مسیح علیہ السلام کا تواتر ممنوع ہے۔59

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
57:آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب میں سے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں آنا۔
58:حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مصلوب ہونا تو پولوس نے گھڑا جس نے منافقت سے آپ کا دین بگاڑا۔ دیکھو اس کے خطوط رومیوں، قرنتیوں وغیرہ کے نام۔ پھر اس پر کفارہ کی بنیاد ڈالی۔ سعادت
59:کیونکہ صدر اوّل میں اس کی بابت چشم دید شہادت دینے والا ایک شخص بھی نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری کے وقت آپ کے سب حواری بھاگ گئے تھے۔ ملاحظہ ہو: انجیل متی 26:56 اور انجیل مرقس 14:50۔ پس عہد واقعہ میں واقعہ کا گواہ ہی کوئی نہیں تو زمانہ ما بعد کی کثرت کسی کام کی نہ رہی۔ سعادت
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top