آٹھویں شہادت اقبالی بیان مرزا صاحب
جناب مرزا صاحب نے اپنا مسیح موعود ہونا ایک اور طریق سے بھی ثابت کیا ہے. آپ کا دعویٰ ہے کہ ساری دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے . چنانچہ لکھتے ہیں .
’’ بالاتفاق تمام احادیث کی رو سے عمر دنیا کل سات ہزار بر س قرار پایا تھا ‘‘ . (تحفہ گولڑویہ ص 93)
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پانچویں ہزار میں پیدا ہوئے ہیں . اور مسیح موعود کا چھٹے ہزار میں پیدا ہونا مقدر تھا . اس دعوے کو اس آیت سے ثابت کرتے ہیں جو سورۃ جمعہ میں ہے .
وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ
پھر فرماتے ہیں کہ بس میں چونکہ چھٹے ہزار سال میں پیدا ہوا ہوں لہٰذا میں مسیح موعود ہوں . اب سنیے آپ کے اپنے الفاظ . جناب موصوف فرماتے ہیں .
’’ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں اور اس پر نص قطعی آیت کریمہ وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ ہے . تمام اکابر مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس امت کا آخری گروہ یعنی مسیح موعود کی جماعت صحابہ کے رنگ میں ہوں گے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح بغیر کسی فرق کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض اور ہدایت پائیں گے . پس جب کہ یہ امر نص صریح قرآن شریف سے ثابت ہوا کہ جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض صحابہ پر جاری ہوا ایسا ہی بغیر کسی امتیاز اور تفریق کے مسیح موعود کی جماعت پر فیض ہو گا تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یک اور بعث ماننا پڑا جو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے وقت میں ہزار ششم میں ہو گا .
اور اس تقریر سے یہ بات بپایہ ثبوت پہنچ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوبارہ دنیا میں آنا وعدہ دیا گیا تھا جو مسیح موعود اور مہدی موعود کے ظہور سے پورا ہوا . غرض جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہوئے تو جو بعض حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہزار ششم کے اخیر میں مبعوث ہوئے تھے اس سے بعث دوم مراد ہے جو نص قطعی آیت کریمہ وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ سے سمجھا جاتا ہے . یہ عجیب بات ہے کہ نادان مولوی جن کے ہاتھ میں صرف پوست ہی پوست ہے . حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی انتظار کر رہے ہیں . مگر قرآن شریف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ آنے کی بشارت دیتا ہے کیونکہ افاضہ بغیر بعث غیر ممکن ہے اور بعث بغیر زندگی کے غیر ممکن ہے اور حاصل اس آیت کریمہ یعنی وَاٰخَرِینَ مِنھُم کا یہی ہے کہ دنیا میں زندہ رسول ایک ہی ہے یعنی محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہزار ششم میں بھی مبعوث ہو کر ایسا ہی افاضہ کرے گا جیسا کہ وہ ہزار پنجم میں افاضہ کرتا تھا اور مبعوث ہونے کے اس جگہ یہی معنی ہیں کہ جب ہزار ششم آئے گا اور مہدی موعود اس کے آخر میں ظاہر ہو گا تو گو بظاہر مہدی معہود کے توسط سے دنیا کو ہدایت ہوگی لیکن در اصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نئے سرے اصلاح عالم کی طرف ایسی سرگرمی سے توجہ کرے گی کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے ہیں . یہی معنی اس آیت کے ہیں کہ وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِم . پس یہ خبر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث دوم کے متعلق ہے جس کے ساتھ یہ شرط ہے کہ وہ بعث ہزار ششم کے اخیر پر ہو گا . اسی حدیث سے اس بات کا قطعی فیصلہ ہوتا ہے کہ ضرور ہے کہ مہدی معہود اور مسیح موعود جو مظہر تجلیات محمدیہ ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بعث دوم موقوف ہے وہ چودہویں صدی کے سر پر ظاہر ہو کیونکہ یہی صدی ہزار ششم کے آخری حصہ میں پڑتی ہے ‘‘ . (تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص 95، 94)
اس عبارت کا مطلب ناظرین کے فہم عالی سے قریب کرنے کو اتنی تشریح کی ضرورت ہے کہ بقول مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دو دفعہ نبی ہو کر ظاہر ہونا مقدر تھا . ایک تو اُس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بصورت محمد مکہ معظمہ میں ظہور پذیر ہوئے . دوم اُس وقت جب بشکل مرزا صاحب بہ عہدہ عیسیٰ موعود قادیان میں رونق افروز ہوئے . پہلی صورت میں آپ کا نام محمد تھا . دوسری میں احمد ہیں . محمدی صورت جلالی تھی یعنی جنگی . اور احمدی صورت جمالی یعنی صلح جو ہے . چنانچہ اس کتاب کے دوسرے مقام پر مرزا صاحب نے اس مضمون کو منجمانہ تقریر میں یوں لکھا ہے . فرماتے ہیں :
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعث اول کا زمانہ ہزار پنجم تھا جو اسم محمد کا مظہر تجلی تھا یعنی یہ بعث اول جلالی نشان ظاہر کرنے کے لیے تھا مگر بعث دوم جس کی طرف آیت کریمہ وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِم میں اشارہ ہے وہ مظہر تجلی اسم احمد ہے جو اسم جمالی ہے جیسا کہ آیت وَمُبَشِّرابِرَسُول یاتیِ منْ بَعدِیْ اِسْمُہ اَحْمَد اسی کی طرف اشارہ کر ر ہی ہے. اور اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ مہدی معہود جس کا نام آسمان پر مجازی طور پر احمد ہے جب مبعوث ہو گا تو اس وقت وہ نبی کریم جو حقیقی طور پر اس نام کا مصداق ہے اس مجازی احمد کے پیرایہ میں ہو کر اپنی جمالی تجلی ظاہر فرمائے گا . یہی وہ بات ہے جو اس سے پہلے میں نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں لکھی تھی . یعنی یہ کہ میں اس احمد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک ہوں اور اس پر نادان مولویوں نے جیسا کہ ان کی ہمیشہ سے عادت ہے شور مچایا تھا . حالانکہ اگر اس سے انکار کیا جائے تو تمام سلسلہ اس پیش گوئی کا زیر و زبر ہو جاتا ہے بلکہ قرآن شریف کی تکذیب لازم آتی ہے جو نعوذ باللہ کفر تک نوبت پہنچاتی ہے . لہٰذا جیسا کہ مومن پر دوسرے احکام الٰہی پر ایمان لانا فرض ہے ایسا ہی اس بات پر بھی ایمان لانا فرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسل٬ کے دو بعث ہیں۔ ایک بعث محمدی جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالۂ توریت قرآن شریف میں یہ آیت ہے مُحَمَّدُرَّسُوْلُ اللہِ وَالَّذِینَ مَعَہ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَینَھُم دوسری بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالۂ انجیل قرآن شریف میں یہ آیت ہےَ ومُبَشِّرابِرَسُول یَاتیِ منْ بَعدِیْ اِسْمُہ اَحْمَد ‘‘. (تحفہ گولڑویہ ص 92)
گو اس عبارت کا مطلب صاف ہے تاہم اس کی مزید تشریح کے لئے مرزا صاحب اس عبارت پر حاشیہ لکھتے ہیں جو یوں ہے .
’’ یہ باریک بھید یاد رکھنے کے لائق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث دوم میں تجلی اعظم جو اکمل اور اتم ہے وہ صرف اسم احمد کی تجلی ہے . کیونکہ بعث دوم آخر ہزار ششم میں ہے اور ہزار ششم کا تعلق مشتری کے ساتھ ہے جو کوکب ششم منجملہ خنّس کنّس ہے اور اس ستارہ کی یہ تاثیر ہے کہ مامورین کو خونریزی سے منع کرتا اور عقل و دانش اور مواد استدلال کو بڑھاتا ہے . اس لیے اگر چہ یہ بات حق ہے کہ اس بعث دوم میں بھی اسم محمد کی تجلی سے جو جلالی تجلی ہے اور جمالی تجلی کے ساتھ شامل ہے مگر وہ جلالی تجلی بھی روحانی طور پر ہو کر جمالی رنگ کے مشابہ ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت جلالی تجلی کی تاثیر قہر سیفی نہیں بلکہ قہر استدلالی ہے وجہ یہ کہ اس وقت کے مبعوث پرپر تو وہ ستارہ مشتری ہے نہ پرتوہ مریخ . اسی وجہ سے بار بار اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ ہزار ششم فقط اسم احمد کا مظہر اتم ہے جو جمالی تجلی کو چاہتا ہے ‘‘ .( تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص96)
اب تو یہ مضمون صاف ہو گیا کہ مرزا صاحب کا اقرار ہے کہ عیسیٰ موعود دنیا کی عمر سے چھٹے ہزار سال میں آئیں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ چھٹا ہزار کہاں تک ہے . ہم مرزا صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس عقدہ کا حل بھی خود فرما دیا ہے . آپ فرماتے ہیں .
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے قمری حساب کی رو سے چار ہزار سات سو انتالیس سال برس بعد پیدا ہوئے . اور شمسی حساب کی رو سے چار ہزار پانچ سو اٹھانوے برس بعد ‘‘ . (تحفہ گولڑویہ ص 92)
اب مطلع صاف ہے . پس ہجرت سے پہلے تیرہ سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں رہے . اس حساب سے پورے تیرہ سو ہجری ہونے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سنہ نبوت 1313ہوتا ہے .یہ عدد قمری حساب سے 4739میں ملائیں تو تیرھویں صدی کے اخیر پر دنیا کی عمر چھ ہزار باون سال ہوتی ہے .
اب یہ دیکھنا ہے کہ جناب مرزا صاحب کس سنہ میں مسیح موعود کے عہدہ پر مبعوث ( فائز ) ہوئے . اس کے متعلق بھی ہمیں کسی بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں . بلکہ خود مدعا علیہ کا بیان ہمارے پاس ہے . آپ لکھتے ہیں :
’’ یہ عجیب اتفاق ہوا کہ میری عمر کے چالیس برس پورے ہونے پر صدی کا سر بھی آ پہنچا . تب خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ میرے پر ظاہر کیا کہ تو اس صدی کا اور صلیبی فتنوں کا چارہ گر ہے . اور یہ اس طرف اشارہ تھا کہ تو ہی مسیح موعود ہے ‘‘. (تریا ق القلوب ص 68 )
یہ عبارت صاف بتا رہی ہے کہ مرزا صاحب چودھویں صدی کے شروع میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر مسیحیت پر مامور ہوئے تھے . اسی مضمون کو دوسری کتاب میں مزید وضاحت سے لکھتے ہیں .
’’ مجھے کشفی طور پر اس مندرجہ ذیل نام پر توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا . پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی ہے اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی . اس نام کے عدد پورے تیرہ سو ہیں اور اس قصبہ قادیان میں بجز اس عاجز کے اور کسی شخص کا غلام احمد نام نہیں(10) بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا نام نہیں ‘‘ . ( ازالہ اوہام طبع اول ص 186، 185)
اس عبارت میں پہلی عبارت کی مزید تشریح ہے کہ کسی غبی سے غبی کو بھی شک نہیں رہتا کہ جناب مرزا صاحب کی بعثت چھٹا ہزار ختم ہو کر ساتویں ہزار میں سے باون سال گزر کر ہوئی . لہٰذا بقول آپ کے آپ مسیح موعود نہیں .
ایک اور طرح سے :ہمارے گزشتہ بیان سے ( جو در حقیقت جناب مرزا صاحب کا ذاتی بیان ہے ) ساتویں ہزار کے باون سال گزرنے پر مرزا صاحب مبعوث ہوئے ہیں جو اُن کے ’’ لیٹ ‘‘ پہنچنے کی وجہ سے موجب ’’ فیل ‘‘ کے ہے . اب ایک اور حساب سے بھی مرزا صاحب کا لیٹ ہونا ثابت کرتے ہیں . صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ :
’’ میری پیدائش اس وقت ہوئی جب چھ ہزار میں سے گیارہ برس رہتے تھے ‘‘ . (تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص 95)
بہت خوب . اس عبارت سے صاف ثابت ہے کہ چھٹا ہزار مرزا صاحب کی گیارہ سال کی عمر پوری ہونے تک ختم ہو گیا . مگر گیارہ سال کی عمر میں تو مبعوث نہ ہوئے ہوں گے بلکہ بالغ ہو کر . بلکہ بحکم بَلَغَ اَربَعِینَ سَنَۃ چالیس سال کو پہنچ کر مسیحیت کے درجہ پر مبعوث (مامور) ہوئے تو بھی ساتویں ہزار میں چلے گئے جو خلاف وقت مقرر کے ہے .
نوٹ : مرزا صاحب اپنی تحریرات میں خود قمری حساب پر بنا کر رہے ہیں . یہاں تک فرما چکے ہیں کہ
’’میں چھٹے ہزار میں سے گیارہ سال رہتے میں پیدا ہوا تھا ‘‘ .
اس لئے کسی اُن کے حالی موالی کو یہ حق نہیں کہ وہ شمسی حساب سے چھے ہزار کا شمار کرے . کیوں کہ ان کا ایسا کرنا ہم کو نہیں بلکہ اُن کو مضر ہو گا . اس لیے کہ شمسی حساب سے چھے ہزار سال2012ء میں پورے ہوں گے .اس حساب سے مرزا صاحب کی پیدائش 2010ء میں ہونی چاہیے . حالانکہ وہ 1908ء میں انتقال بھی کر گئے .
شاید بروزی طور پر دوبارہ آویں
ناظرین ! یہ ہیں وہ دلائل جن کی بابت مرزا صاحب فرماتے ہیں :
’’ یہ وہ ثبوت ہیں جو میرے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے پر کھلے کھلے دلالت کرتے ہیں . اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک شخص بشرطیکہ متقی ہو جو ان تمام دلائل میں غور کرے گا تو اس پر روز روشن کی طرح کھل جائے گا. کہ میں (مرزا ) خدا کی طرف سے ہوں ‘‘ . ( تحفہ گولڑویہ ص 102)
کچھ شک نہیں کہ ہم بھی انہی دلائل کی شہادت سے اس مرحلہ پر پہنچے ہیں کہ :
ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوق !