• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری کے معرکہ آراء خطوط

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
شیخ عبدالرخمٰن مصری 25 ٹی گلبرگ لاہور میں مقیم ہیں۔ 1905 میں انہوں نے بانی قادیانیت کے ہاتھ پر ہندو مت ترک کرکے اسلام قبول کیا ۔ مولانا حکیم نورالدین کے سربراہ جماعت ہونے کے بعد وہ عربی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مصر چلے گئے واپس آکر مدرسہ احمدیہ قادیان کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے 1924 میں جب مرزا محمود انگلستان یاترا کے لیے روانہ ہوئے تو شیخ صاحب بھی ان کے ساتھ تھے۔ یوں سمجھیے کہ مرزا محمود رجیم میں آپ صف اول کے لوگوں میں شمار تھے نقائص سے مبرا تو کوئی انسان نہیں ہوتا نہ شیخ صاحب کو اس کا دعوی ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ مرزا محمود اپنی تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ان پر جنسی یا مالی بدعنوانی کا کوئی الزام نہ لگا سکا ۔ ابتدا میں جب انہیں اپنے بیٹے کے ذریعے مرزا محمود کی بدکرداری کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو عاق کرنے کا فیصلہ کرلیا مگر حقائق اپنا آپ منوا لیتے ہیں جب انہوں نے تحقیقات شروع کی تو اعتقاد کی دھند چھٹنی شروع ہوئی اور وہ حیران رہ گئے کہ یہاں انہی کی اولاد ہر ہاتھ صاف نہیں ہورہا ہر گھر میں ڈاکہ پڑ رہا ہے اس پر انہوں نے مرزا محمود کو تین پرائیویٹ خط لکھے یہ مکاتیب پڑھنے سے بیشتر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ایک ایسے شخص نے لکھے ہیں جو ایک معاشرہ سے تعلقات منقطع کرکے ایک نئے قادیانی ماحول میں آیا تھا اور ایک لمبے عرصے کے بعد جب اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی عزت معاش اولاد کوئی چیز اس قبائلی نظام میں محفوظ نہیں تو وہ اضطراب اور کرب کی جس کیفیت سے گزرتا ہے اس کا اندازہ اس امر سے ہوسکتا ہے کہ وہ خلیفہ کو بدکار اور زانی سمجھتے ہوئے بھی اسے ''سیدنا'' کے لفظ سے خطاب کرتا ہے وہ بعض تحفظات کے وعدہ پر اس ''ریاست'' میں اپنی بقیہ زندگی یہ سمجھ کر بھی گزار لینے پر آمادہ ہے کہ میں ایک ایسی ریاست میں رہ رہا ہوں جس کا والی بد چلن ہے ۔
یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ ایک مخصوص ماحول میں رہتے ہوئے سماجی و معاشی رشتے انسانی ذہن کی ساخت ایسی بنا دیتے ہیں کہ وہ ان علائق کے ٹوٹنے کے خوف سے غیر شعوری طور پر اپنے آپ کو ایسے ''دلائل'' سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے جن کی حیثیت تار عنکبوت ایسی بھی نہیں ہوتی ۔ مرزا محمود سے توبہ کا مطالبہ یا بدکاری کے جواز پر کسی سند کا مانگنا اسی قبیل کی چیزیں ہیں ۔ قبائلی سامج کے معروف طریقوں کے مطابق مرزا محمود نے ان کے خلاف اپنے تنخواہ دار ملاؤں سے پروپیگنڈا شروع کروادیا انہیں قتل کرنے کی دھمکیاں دیں اور مریدوں کی توجہ اپنی زناکاری سے ہٹانے کے لیے اس امر کی تشہیر کی گئی کہ شیخ صاحب موصوف اپنی صاحبزادی کا رشتہ انہیں دینا چاہتے تھے مگر جب اس میں ناکامی ہوئی تو الزامات لگانے شروع کردیے۔ شیخ صاحب کو جب اصلاح کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو انہیں سمجھ آگئی کہ معیشت ۔ ماحول اور لایعنی عقائد کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مجبور مریدوں سے سچ بولنے اور صداقت کی حمایت کرنے کی توقع کرنا حماقت ہے ۔ اس پر انہوں نے چوبیس گھنٹے کا نوٹس دے کر ''خلیفہ'' سے علیحدگی اختیار کرلی ۔ اب آپ وہ وہ خطوط ملاحظہ فرمائیں ۔
نقل خط نمبر 1

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
الفتنۃ نائمۃ لعن اللہ من ایقظہا
سیدنا، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میں ذیل کے چند الفاظ محض آپکی خیر خواہی اور سلسلہ کی خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھ رہا ہوں ۔ مدت سے میں چاہتا تھا کہ آپ سے دو ٹوک بات کروں مگر جن باتوں کا درمیان میں ذکر آنا لازمی تھا وہ جیسا کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں ایسی تھیں کہ ان کے ذکر سے آپ کو سخت شرمندگی لاحق ہونی لازمی تھی اور جن کے نتیجہ میں آپ میرے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ سکتے تھے اور ادھر چونکہ سلسلہ کے کاموں کی وجہ سے اکثر ہمیں آپس میں ملنے کی ضرورت پیش آتی تھی ، میری فطری شرافت اس بات کو گوارہ نہیں کر سکتی تھی کہ آپ ہمیشہ کے لیے میرے سامنے شرمندگی کی حالت میں آئیں اس لیے میں اس وقت تک آپ سے فیصلہ کن بات کرنے سے رکا رہا ہوں لیکن اب حالات نے مجبور کردیا ہے کہ میں آپ کے سامنے آپ کی اصل (situation) رکھ دوں اور آپ کو بتادوں کہ جس طرف آپ جا رہے ہیں وہ راہ آپ کے لیے اور سلسلہ کے لیے کیسی پراز خطرات ہے ۔ یہ سچ ہے کہ سلسلہ خدا کا ہے اور خدا خود اسکی حفاظت کرے گا اور خدا تعالیٰ کے فرشتے لوگوں کے دلوں کو خود اس طرف کھینچ کر لائیں گے لیکن آپ اپنی غلط پالیسی کے نتیجہ میں ہر طرح سے لوگوں کو اس سے دور پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ میں نے تو مظلوم ہوکر بھی (جس کو شریعت نے بھی ظالم کے ظلم کے علی الاعلان اظہار کی اجازت دی ہے) اس بات میں شرم محسوس کرتا رہا کہ آپ کے سامنے بالمشافہ یا تحریر کے ذریعے آپکی بعض خاص راز کی باتوں کا ذکر لاؤں لیکن آپ جو ظالم تھے اور ایسے افعال شنیعہ کے مرتکب تھے جن کے سننے سے بھی ایک مومن چھوڑ ، معمولی شریف آدمی کی روح کانپتی ہے اس آدمی کو جس کا قصور اور جرم صرف اس قدر تھا کہ بدقسمتی سے اس کو آپ کے افعال شنیع کا علم ہوگیا تھا اور آپ کو یہ علم ہوگیا کہ اسے علم ہوگیا ہے ، دکھ دینے اور قسم قسم کے مصائب کا اسے نشانہ بنانے اور اس کو جماعت کی نظر میں گرانے کے لیے طرح طرح کے بہتان اس پر باندھنے اور ان بہتانوں کو ہاتھ میں لے کر اس کے خلاف جماعت میں جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے کی لگاتار انتھک کوشش کرنے میں ذرا شرم محسوس نہیں کی اور یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ آپ کا (guilty conscious) (مجرم ضمیر) ہر وقت آپ کو بے شر اور بے ضرر انسان کے متعلق اندر سے یہی آواز دیتا رہا کہ اگر اس شخص نے میری ان کاروائیوں کا ، جو میں اندر خانہ کررہا ہوں ، جماعت کو علم دے دیا تو میرا سارا کاروبار بگڑ جائے گا۔ اور میں شہرت سے گر قعرمذلت میں جا پڑوں گا کیونکہ آپ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ اس شخص کو جماعت میں عزت حاصل ہے ، مستریوں کے متعلق تو اس قسم کے عزر گھڑ کیے گئے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ کیا تھا یا ان کی لڑکی پر سوتن لانے کا مشورہ دیا تھا مگر یہاں اس قسم کا کوئی بھی عزر نہیں چل سکتا ۔ اس کی بات کو جماعت مستریوں کی طرح رد نہیں کرے گی بلکہ اس پر اسے کان دھرنا پڑے گا اور وہ ضرور دھرے گی اس لیے آپ نے اسی میں اپنی خیر سمجھی کہ آہستہ آہستہ اندر ہی اندر اس شخص کو جھوٹے پروپیگنڈا کے ذریعہ جماعت کی نظر سے گرا دیا جائے اور اس کو اس مقام پر لے آیا جائے کہ اگر یہ میرے اس گندے راز کو فاش کرے تو جماعت توجہ نہ کرے۔
گزشتہ سے پیوستہ
اور اس کی بات کو بھی اس طرف منسوب کرنے لگ پڑے کہ اس شخص کو بھی کچھ ذاتی اغراض و خواہشات تھیں ،جن کو چونکہ پورا نہیں کیا گیا اس لیے یہ بھی ایسا کہنے لگ پڑے ہیں اور ادھر سے آپ شور مچانا شروع کردیں کہ دیکھا میں نہیں کہتا تھا کہ یہ اندر سے مستریوں یا پیغامیوں یا احراریوں سے ملے ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے جن کو آپ کے ان گندے رازوں کا علم ہوجاتا ہے ،آپ کے پاس زیادہ تر یہی ایک حربہ ہے یہ آپ مت خیال کریں کہ جو کچھ آپ میرے خلاف کر رہے ہیں اس کا مجھے علم نہیں ہوتا ، آپ کی ہر کاروائی کا علم ہوتا رہا ہے ، میں بھی آپ کے اس اشتعال انگیز طریق سے متاثر ہو کر جلد بازی سے کام لیتا اور ابتداء میں ہی اپنا مبنی بر حقیقت بیان شائع کردیتا اور جو تقدس کا بناوٹی پردہ اپنے اوپر ڈالا ہوا ہے اس کو اٹھا کر آپ کی اصل شکل دنیا کے سامنے ظاہر کردیتا تو آج نہ معلوم آپ کا کیا حشر ہوتا یعنی محض اللہ تعالیٰ کے لیے صبر سے کام لیا ۔آپ کے ظلم پر ظلم دیکھے اور اف تک نہ کی میں نے سمجھا تھا کہ میری خاموشی سے آخر آپ سبق حاصل کریں گے اور سمجھ لیں گے کہ یہ شخص اس راز کو فاش کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور کچھ عرصہ تک میرے رویہ کو دیکھ کر خود بخود اپنی غلطی محسوس کرکے ،نادم ہوکر اپنی ان ناجائز اور ظالمانہ کاروائیوں اور جھوٹے پروپیگنڈا سے باز آجائیں گے لیکن آپ کا Guilty Conscious (مجرم ضمیر) آپ کو کب آرام سے بیٹھنے دے سکتا تھا اور آپ کا اضطراب اور گھبراہٹ سے بھرا دل اس وقت تک کب آپ کو چین کی نیند لینے دے سکتا تھا جب تک آپ اس شخص کو اپنی راہ سے دور نہ کر لیں جس سے آپ کو ذرا سا بھی خطرہ، خواہ وہم ہی کیوں نہ ہو، محسوس ہورہا ہو ۔ آپ غالباََ اس وقت تک اس غلط فہمی کا شکار ہورہے ہیں ۔کیا اس وقت تک جو خاموش رہا ہے اپنی ملازمت کے چلے جانے کے ڈرسے رہا ہے ۔اس غلط فہمی کو جتنی جلدی بھی ہوسکے اپنے ذہن سے نکال دیں اور آپ کو دلیری بھی زیادہ تر اسی وجہ سے ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کی روزی میرے قبضے میں ہے مگر میں خدا کے فضل سے مشرک نہیں ہوں کہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اس بات کا خیال کرنا تو کجا اس کو وہم میں بھی لاسکوں ۔پس یہ آپ کو یاد رہے کہ میں جو اس وقت تک باوجود آپ کی غلط کاریوں کا علم ہوجانے اور اپنے خلاف غلط کاروائیوں کو دیکھنے کے خاموش چلا آرہا ہوں اس کی وجہ کسی قسم کے مالی،جانی نقصان کا ڈر نہ تھا کیونکہ علماء ربانی، حق گوئی کے مقابلے میں کسی کسی نقصان سے، خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو نہیں ڈرا کرتے لیکن وہ جہاں لا یخافون لومۃ لائم کا مصداق ہوتے ہیں وہاں وہ حق گوئی کا محل اور موقع بھی دیکھتے ہیں اور اس کے اظہار اور عدم اظہار میں موازنہ بھی کرتے ہیں اپنے ذاتی نفع و نقصان کو مدنظر رکھ کر نہیں بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام اور سلسلہ حقہ کے حق میں ضرہ اکبر من نفعہ یا نفعہ اکبر من ضرہ ، اس لیے میں اگر خاموش تھا اور ہوں تو محض اس لیے کہ میں اس کے اظہار کو سلسہ کے لیے مضر یقین کرتا تھا، نہ صرف کرتا تھا بلکہ اب بھی کرتا ہوں اور دوسری بات جو اس گندے اظہار کے لیے میرے لیے مانع تھی اور ہے وہ ۔۔۔ مسیح موعود ۔۔۔۔۔۔۔(راقم) کے بے انتہا احسانات تھے جن کے نیچے سے ہماری گردنیں کبھی نکل ہی نہیں سکتیں۔ پس ان احسانات کو دیکھتے ہوئے طبیعت اس بات کو قطعاََ گوارہ نہیں کرسکتی کہ حضور۔۔۔۔۔۔(راقم) کی اولاد کا مقابلہ کیا جائے یا انہیں بدنام کیا جائے تیسری بات جو میرے لیے مانع تھی وہ آپ سے دیرینہ تعلقات اور ایک حد تک آپ کے احسانات تھے ۔گو جو ظلم آپ نے میری اولاد کو اپنے گندہ نمونہ کے ذریعہ سے اور سلسلہ حقہ سے منحرف کرنے اور ان کو دہریہ بنانے کی کوشش میں کیا وہ اتنا بڑا ہے کہ وہ احسانات اس کے مقابلہ میں بہت ہیچ ہیں اور قطعاََ قابل ذکر نہیں رہے ۔ تعجب ہے مجھے تو ان دیرینہ تعلقات کا اس قدر پاس ہو کہ آپ کے گندے افعال کا ذکر آپ کے سامنے کرنے سے بھی شرم محسوس کروں اور محض اس خیال سے کہ میرے سامنے آنے سے آپ کو شرم محسوس ہوگی ،آپ کے سامنے آنے سے حتی الوسع اجتناب کرتا رہا ہوں لیکن ان تعلقات کا آپ کو اتنا بھی پاس نہ ہوا جتنا کہ ایک معمولی قماش کے بدچلن انسان کو ہوتا ہے میں نے سنا ہے کہ بد چلن سے بد چلن آدمی بھی اپنے دوستوں کی اولاد پر ہاتھ ڈالنے سے احتراز کرتے ہیں لیکن افسوس آپ نے اتنا بھی نہ کیا اور اپنے ان مخلص دوستوں کی اولاد پر ہی ہاتھ صاف کرنا چاہا جو آپ کے لیے اور آپ کے خاندان کے لیے جانیں تک قربان کردینا بھی معمولی قربانی سمجھتے تھے۔ میرے اخلاص کا تو یہ عالم تھا کہ جس وقت فضل داد سے اجمالی علم ہوا اور پھر بشیر احمد نے اس کی تفصیلی تصدیق کی تو میرا یہی فیصلہ تھا کہ بشیر احمد کو گھر سے نکال دوں اور ہمیشہ کے لیے ان سے تعلقات منقطع کردوں مگر میں نے اس سے نرمی اس لیے کی کہ اس کے ذریعے سے اب میں اس سازش کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوجاؤں گا ،جس کے متعلق میں پہلے یقین کیے بیٹھا تھا کہ آپ کے چال چلن کو بدنام کرنے کے لیے اپنا کام کر رہی ہے ۔مجھے اس وقت یہی خیال تھا کہ بشیر احمد بدقسمتی سے ان لوگوں کے ہاتھ پڑ گیا ہے جو اس سازش کے بانی مبانی ہیں کیونکہ یہ مجھے اچھی طرح علم تھا کہ اس کو آپ کے اور آپ کے خاندان کے ساتھ بڑا اخلاص تھا اور اس اخلاص کی موجودگی میں وہ کبھی بھی جھوٹے الزام آپ پہ نہیں لگا سکتا تھا ۔پس ایسی حالت میں میرے نزدیک دو ہی صورتیں ہوسکتی تھیں یا یہ الزامات سچے ہیں یا یہ کہ بشیر احمد بعض ایسے آدمیوں کے ہاتھ پڑ گیا ہے اور انہوں نے اس کو قتل وغیرہ کی دھمکیاں دے کر اس سے یہ کہلوایا ہے ۔مجھے یقین تھا کہ میں بشیر احمد سے اس سازش کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوجاوں گا ، چنانچہ اس بناء پر اول میں نے بشیر احمد کے ساتھ مختلف رنگوں میں انتہائی کوشش کی کہ وہ ان باتوں کے غلط ہونے کا اقرار کرے مگر قطعاََ کامیابی نہ ہوئی اور کامیابی ہوتی کس طرح اور کسی سازش کا پتہ لگتا کس طرح؟ جبکہ کسی سازش کا نام و نشان ہی نہ تھا بلکہ برخلاف اس کے اس نے بعض ایسے دلائل پیش کیے جو ایک حد تک قائل کردینے والے تھے ان میں قطعاََ بناوٹ نہ معلوم ہوتی تھی۔
دوسری طرف میں حیران تھا کہ وہ سب باتیں ان باتوں سے پوری پوری مطابقت کھاتی ہیں جو سکینہ اور زاہد کہہ چکے تھے پس جب میں ادھر سے اپنے مقصد میں ناکام رہا تو میں نے اپنی تحقیق کا رخ دوسری طرف پھیرا اور میں نے لوگوں میں زیادہ ملنا جلنا شروع کیا اور اس وقت تک میری یہی نیت تھی کہ میں سازش کا سراغ لگاوں ۔اس نے گہری سازش کا سراغ تو کیا بتانا تھا الٹا چاروں طرف سے واقعات اور حقائق کا طومار میرے سامنے لا کھڑا کیا ،جو بشیر احمد کے بیان کے لفظ لفظ کی تصدیق کرنے والے تھے ۔پس اس وقت میں نے بشیر احمد کو معذور سمجھ کر اس کی سزا دہی کا خیال چھوڑ دیا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بے گناہ بچے کو اتنے بڑے ظلم سے جو میں اس پر آپ کے ساتھ اپنے فرط محبت اور فرط اخلاص کی وجہ سے کرنے لگا تھا یعنی ساری عمر کے لیے اس کو تباہ و برباد کرنے کا جو تہیہ کرلیا تھا اس سے بچانے کے لیے یہ سامان پیدا کردیئے کہ کئی جگہوں سے اس کے بیان کی تصدیق ہوتی چلی گئی اور ایسی ایسی جگہوں سے ہوئی جن کے متعلق وہم بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کوئی شرارت کریں یا کسی شریر کی سازش کا شکار ہوں یا خود سازش کے بانی ہوں جو ان کا پتہ بتا دیوے کیونکہ آپ تو اچھی طرح سے واقف ہیں کہ اشارہ فوراََ آپ کو مشار الیہ کا پتہ دے گا اور میں کسی مصلحت سے اپنی تحریر کو دلائل سے خالی رکھنا چاہتا ہوں ،غرضیکہ میرے پاس ان باتوں کے اثبات کے لیے دلائل کا ذخیرہ جمع ہوگیا ہےجو اگر ضرورت پڑی تو پبلک میں ظاہر کیا جائے گا ۔خدا کرے کہ ان کے پیش کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ، تب مجھے یقین ہوگیا کہ بشیر احمد سچا ہے اور یہ سب افعال جو اس نے بیان کیے ہیں آپ سے سرزد ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر باوجود ان تمام باتوں کا علم ہوجانے کے جو میرے اور میری بیوی کے لیے سخت تکلیف کا موجب تھیں اور جنہوں نے ہم دونوں کی صحت پر اتنا گہرا اثر کیا کہ آج تک بھی ہم اپنی صحت recover نہیں کرسکے۔کافی عرصہ تک ہم دونوں کمرہ میں اکیلے دروازہ بند کرکے روتے رہتے تھے بچے بھی ہماری حالت دیکھ کر سخت پریشان تھے مگر ان کو کوئی علم نہیں کہ کیا معاملہ ہے وہ ہماری آنکھیں سرخ دیکھتے اور سہم جاتے مگر ادب کی وجہ سے دریافت نہ کرتے ، باوجود اس قدر شدید صدمہ کے پھر بھی میں نے اس قدر شرافت سے کام لیا اور اپنے نفس پر اس قدر قابو رکھا کہ کسی کے سامنے ان باتوں کا اظہار نہیں کیا یہاں تک کہ جن لوگوں سے مجھے مختلف واقعات کا علم ہوتا رہا ان سے بھی صرف واقعات سنتا رہا اور یہاں تک احتیاط سے کام لیا کہ کسی ایک کو بھی کسی دوسرے کے واقعات کا علم نہ ہونے دیا ، اس کا علم صرف اس کے بتائے ہوئے واقعات تک ہی رہنے دیا اور ادھر بشیر احمد کو یہ سمجھایا کہ ان الحسنت یذھبن السیئات کے ماتحت ممکن ہے اللہ تعالیٰ معاف کردے اور اسے تاکید کی کہ کسی کے سامنے ان باتوں کو دوہرانہ نہیں حتیٰ کہ کوئی پوچھے تو بھی صاف انکار کردینا کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ۔۔۔۔ مسیح موعود (راقم) کی اولاد کی پردہ پوشی کریں ۔
بشیر احمد نے جب دیکھا کہ آپ میرے خلاف پروپیگنڈا کرکے مجھے جماعت میں گرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ادھر اس کو بھی گرانے کے درپے ہیں تو اس نے کئی دفعہ مجھ پر زور دیا کہ میں اعلان کردوں لیکن میں نے اس کو ہمیشہ صبر کی تلقین کی ۔آخر تنگ آ کر اس نے خود اعلان کا فیصلہ کرلیا اور ایک اعلان لکھ کر میری طرف بھیج دیا چنانچہ اسے بجنسہ اس خط کے ساتھ ارسال کر رہا ہوں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اجازت کے بغیر شائع نہیں کر دیا ورنہ سبق الصیت القول والی مثال صادق آجاتی اور پھر چھٹا ہوا تیر واپس لانا مشکل ہوجاتا لیکن میں اسے ہمیشہ روکتا رہا اور اس اعلان کو بھی روک لیا اور ہمیشہ اسے یہی تلقین کی کہ خواہ وہ کتنا ہی ہم کو بدنام کرلیں اور کتنی ہی کوشش ہمیں جماعت میں گرانے کی کر لیں ہم نے ابتداء نہیں کرنی اور ہماری طرف سے یہی کوشش رہے گی کہ ہم صبر سے برداشت کرتے چلے جائیں حتیٰ کہ وقت آجائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک جوابی طور پر اپنا بیان شائع کرنے پر مجبور سمجھے جاویں ، تو جب کسی سے مقابلہ آ پڑے تو مقابلہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جو نقطعہ نگاہ ہوتا ہے اس کے لحاظ سے defence بہت بعد از وقت ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اس میں ہے ، چنانچہ اس وقت تک میں کاربند رہا ہوں اور اب جو میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں وہ بھی اس لیے کہ آپ پر آخری دفعہ حجت پوری کردوں اور آپ کو متنبہ کردوں کہ کہیں آپ مجھے اپنا defence پیش کرنے پر مجبور نہ کردیں چنانچہ اگر آپ نے اس قسم کا قدم اٹھانے کی غلطی کی تو میں مجبور ہوں گا کہ اصل واقعات کو روشنی میں لاوں اور جو اخفاء کا پردہ آج تک ان واقعات پر پڑا آرہا ہے اسے اٹھا دوں کیونکہ یہ میں قطعاََ برداشت نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ کی مقدس جماعت میں دائمی طور ہر بدنامی کے ساتھ یاد کیا جاوں ۔ پس میں اگر آپ کے افعال مذمومہ کے اظہار پر مجبور ہوا تو پھر اس کی ساری ذمہ داری آپ پر ہوگی اور سمجھ لیں کہ الفتنۃ نائمۃ لعن اللہ من ایقظھا کا کون مصداق بنے گا۔ میں نے آپ کے ظلم پر ظلم دیکھے اور صبر سے کام لیا لیکن آپ باز آنے میں ہی نہیں آتے اور اپنے مظالم میں حد سے بڑھے چلے جاتے ہیں پس اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اس لیے انجام کو آپ اچھی طرح سوچ لیں اگر آپ اس تحریر کے بعد رک گئے تو میں بھی جس طرح خاموشی سے وقت گزار رہا ہوں گزارتا چلا جاوں گا کیونکہ ہر حق کا اظہار ضروری نہیں ہوتا میں جانتا ہوں کہ اس حق کے اظہار کی وجہ سے چند عورتوں وغیرہ کی عصمتیں تو محفوظ ہوجائیں گی اور چند نوجوان دہریہ بننے سے بچ جائیں گے لیکن ہزاروں روحیں جو جو اس کے عدم علم کی وجہ سے ہدایت کے قریب آرہی ہیں اور بہت سی ان میں بھی جو پاچکی ہیں ہدایت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیں گی اور یہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کے خیال سے بھی میری روح کانپتی ہے اور یہ اتنا بھاری بوجھ ہے جس کے اٹھانے کے لیے میری پیٹھ بہت کمزور ہے پس اگر یہ وقوع میں آگیا تو اس کی ذمہ داری آپ پر آئے گی ۔ میں تو ، آپ یاد رکھیں اب تک تنگ آچکا ہوں اور اگر آپ نے مجبور ہی کیا تو میں نے مقابلہ کے لیے مصم ارادہ کرلیا ہے اور جب تک میری جان میں جان ہے ، انشاء اللہ آپ کا مقابلہ کروں گا اور آپ کے تمام دجل و فریب کو انشاء اللہ آشکارا کرکے چھوڑوں گا وما توفیقی الا باللہ مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ اس مقابلہ میں میری جان جائے یا مجھے مالی نقصان ہو ، میں خاموش ہوں تو خدا تعالیٰ کے لیے اور اگر اٹھوں گا تو محض خدا تعالیٰ کے لیے ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ''ایک طرف تو آپ نے عیاشی کو انتہاء تک پہنچایا ہوا ہے جس لڑکی کو چاہا اپنی عجیب و غریب عیاری سے بلایا اور اس کی عصمت دری کردی اور پھر ایک طرف اس کی طبعی شرم و حیا سے ناجائز فائدہ اٹھالیا اور دوسری طرف دھمکی دے دی کہ اگر تو نے کسی کو بتایا تو تیری بات کون مانے گا ،تجھے ہی لوگ پاگل اور منافق کہیں گے میرے متعلق تو کوئی یقین نہیں کرے گا''
اور اگر کسی نے جرات کا اظہار کردیا تو مختلف بہانوں سے اس کے خاوندوں یا والدین کو ٹال دیا مگر آپ یہ یاد رکھیں کہ آپ کا یہ طلسم صرف اس لیے ان پر چل جاتا ہے کہ وہ اپنے معاملہ کو انفرادی معاملہ سمجھتے ہیں لیکن جس وقت ان کے سامنے تمام واقعات مجموعی حیثیت سے آئے تو پھر ان کو بھی پتہ لگ جائے گا کہ یہ سب دھوکہ ہی تھا جو ہمیں دیا جا رہا تھا ۔لڑکوں اور لڑکیوں کو پھنسانے کے لیے جو جال آپ نے ایجنٹ مردوں اور ایجنٹ عورتوں کا بچھایا ہوا ہے اس کا راز جب فاش کیا جائے گا تو لوگوں کو پتہ چلے گا کہ کس طرح ان کے گھروں پہ ڈاکہ پڑتا ہے ۔مخلص جو آپ کے ساتھ اور آپ کے خاندان کے ساتھ تعلق پیدا کرنا فخر سمجھتے تھے ان کے گھروں میں سب سے زیادہ ماتم پڑے گا۔اور دوسری طرف جن لوگ کو آپ کی غلط کاریوں کا علم ہوجاتا ہے یا وہ کسی کے سامنے اظہار کر بیٹھتے ہیں اور آپکو اس کا علم ہوجائے تو پھر آپ اسے کچلنے کے درپے ہوجاتے ہیں اور اس کچلنے میں رحم آپ کے نزدیک تک نہیں بھٹکتا اور پتھر سے بھی زیادہ سخت دل کے ساتھ اس پر گرتے ہیں اور آپ کی سزا دہی میں اصلاحی پہلو بالکل مفقود اور انتقامی پہلو نمایا ہوتا ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر سکینہ بیگم زوجہ مرزا عبدالحق صاحب کو ہی لے لو، کس قدر ظلم اس پر آپ کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے ،جو کچھ اس نے کہا تھا اس کی سچائی تو اب بالکل ثابت ہوچکی ہے لیکن وہ بے چاری باوجود سچی ہونے کے قیدیوں سے بدتر زندگی بسر کر رہی ہے اسکی صحت تباہ ہوچکی ہے ۔ اب تازہ مثال فخرالدین صاحب کی ہے اس کو بھی آپ نے اس وجہ سے سزا دی ہے کہ اس کو آپ کی غلط کاریوں کا علم ہوچکا تھا اور آپ پر یہ خوف غالب تھا کہ یہ مجھے بدنام کرے گا حالانکہ یہ آپ کا وہم ہی تھا وہ بھی سلسلہ کی بدنامی کے خوف سے ہمیشہ آپ کی پردہ پوشی ہی کرتا رہا چنانچہ اس وہم کی بناء پر آپ مدت سے اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے کہ کبھی کوئی موقع ہاتھ آئے تو اسے جماعت سے نکال دیا جائے تاکہ یہ روٹی سے تنگ آکر ذلیل ہوکر معافی مانگے تاکہ پھر ساری عمر آپ کی سیاہ کاریوں کے متعلق ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکے اور آپ اطمینان سے اپنی عیاشیوں میں مشغول رہیں جیسا کہ آپ پہلے اس طریق سے بعض ایسے آدمیوں کو چپ کراچکے ہیں ۔قاضی اکمل صاحب پر جو ظلم کیا گیا اس کی تہہ میں بھی یہی مقصد آپکا کام کر رہا تھا اس طرح اور بہت سی مثالیں ہیں جن کو وقت آںے پر پیش کیا جائے گا اور ان تمام مظالم کی داستانیں جو تقدس کے پردہ میں آپ کر رہے ہیں وقت آنے پر کھول کھول کر لوگوں کو بتائی جائیں گی ۔ ان تمام مظالم کو ڈھانے میں آپ کو جرات ایک تو اس وجہ سے ہورہی ہے کہ آپ نے لمبے عرصے تک مختلف رنگوں میں کوشش کرکے لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کردی ہے کہ آپ ایک مقدس انسان ہیں کہیں اپنے آپ کو مصلح موعود کی پیش گوئی کا مصداق بنایا ہے ،کہیں موعود خلیفہ لیکن یاد رکھیں کہ یہ طلسم آپ کا بہت جلد ٹوٹ جائے گا لوگ آپ کے اس طلسم کے نیچے صرف اس وقت تک ہی ہیں جب تک ان کو آپ کے چال چلن کا صحیح علم نہیں ہوتا اور ان کو پتہ نہیں لگتا کہ جس قدر دلائل آپ کو مصلح موعود بنانے کے لیے دیئے گئے ہیں وہ سب غلط ہیں اور یہ کہ مصلح موعود کی پیشگوئی کے مصداق آپ ہو ہی نہیں سکتے ۔حجرت مسیح موعود کا ایک اور خواب ہے جس میں آپ کی گندی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اس کے آپ مصداق ہیں ۔مصلح موعود کی پیش گوئی کا مصداق کوئی اور آنے والا ہے میں نے خدا کے فضل سے اس پیشگوئی کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور یقینی دلائل سے یہ ثابت کرسکتا ہوں کہ آپ مصلح موعود نہیں ہوسکتے، ایک طرف تو آپ کو اس وجہ سے جرات ہے کہ لوگوں کے دلوں میں غلط طور پر آپ کا تقدس بٹھلا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ آپ کی بات کو خدائی بات سمجھ بیٹھے ہیں دوسری طرف آپ کو اپنی طاقت اور اقتدار کا گھمنڈ ہے جو اول الذکر وجہ سے آپ نے حاصل کیا ہوا ہے ۔تیسرے اس وجہ سے آپ نے یہ چال چلی ہوئی ہےے کہ لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے نہ دیا جائے اور منافقوں سے بچو منافقوں سے بچو کے شور سے لوگوں کو خوفزدہ کیا ہوا ہے اور ہر ایک دوسرے پر بدظن کردیا ہوا ہے ،اب ہر شخص ڈرتا ہے کہ میرا مخاطب کہیں میری رپورٹ ہی نہ کردے اور پھر فوراََ مجھ پر منافق کا فتویٰ لگ کر جماعت سے اخراج کا اعلان کردیا جائے اور یہ سب کچھ آپ نے اس لیے کیا ہوا ہے کہ آپ کی سیاہ کاریوں کا لوگوں کو علم نہ ہو سکے لیکن یہ آپ کا غلط خیال ہے۔ قادیان میں بھی اور باہر بھی ایک بڑی تعداد ہے جو آپ کی سیاہ کاریوں سے واقف ہے اور دن بدن یہ تعداد بڑھتی جاتی ہے ،انشاء اللہ عنقریب یہ پھوٹے گا۔ بہت سے لوگ کسی جرات کرنے والے کا انتظار کر رہے ہیں اور یہ انسانی فطرت ہے کہ اکثر لوگ خود جرات نہیں کرسکتے لیکن جرات کے ساتھ کسی کو اٹھتا دیکھ کر خود اٹھ کھڑے ہوتے ہیں آخری بات جو آپ کو ان تمام مظالم پر جرات دلا رہی ہے وہ بائیکاٹ کا حربہ ہے ۔ آپ نے قادیان کے نظام کو ایسے رنگ میں چلا دیا ہوا ہے کہ تمام کی روزی کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس سے انسان بے بس ہوجاتا ہے۔
آگے پڑھیں۔۔۔
 
آخری تدوین :
Top