عالمی، غذائی، توانائی، ماحولیاتی بحران کا مجرم اکبر- امریکہ
عالمی انسانی برادری گذشتہ ڈیڑھ سالوں سے اناج، خوردنی تیل اور پٹرول و گیس کی بڑھتی قیمتوں کے بحران سے دوچار ہے اس پر سے دھیرے دھیرے پردہ اٹھ رہا ہے۔ جب جارج بش نے یہ کہا کہ ”ہندوستانیوں کے زیادہ کھانے کی وجہ سے موجودہ عالمی غذائی بحران پیدا ہواہے اور ان کے وزیر نے کہا کہ بھارت اور چین کی بڑھتی توانائی کی ضرورتوں نے دراصل دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں آگ لگائی ہے۔ امریکی حکومت اوران کے بھاڑے کے میڈیا نے دنیا بھر میں یہ تاثر پیدا کیا۔ اور خصوصاً تیل کے معاملہ میں انھوں نے اپنے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم Opecکے حوالہ سے سعودی عرب، ایران وغیرہ پر بھی نشانہ سادھ کر انہیں مجرم بنانے کی کوشش کی۔ مگر جھوٹ کبھی بھی چھپایا نہیں جاسکتا ہے اور جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے کی مصداق یکے بعد دیگرے گذشتہ ایک ماہ میں خود حکومت امریکہ کی سرکاری تحقیقات اور انکشافات میں مانا گیا ہے کہ غذائی بحران، تیل کا بحران اور ماحولیات کا بحران آپس میں مربوط بھی ہے اور اِن تمام بحرانوں کے لئے سب سے بڑی ذمہ داری خود جارج بش کی انتظامیہ کی ہے۔ کہا یہ جاتا رہا ہے کہ بھارت اور چین کی صنعتی ترقی کے نتیجہ میں تیل کے دام بڑھ رہے ہیں جبکہ سپلائی بڑھ نہیں رہی ہے۔ اس کے جواب میں سعودی وزیر برائے پٹرولیم مسٹر نعیمی نے اور خود شاہ عبداللہ نے کہا کہ عالمی بازار میں ضرورت کے مطابق تیل موجود ہے مگر اس مارکیٹ میں سٹہ بازی ہورہی ہے جس کی وجہ سے داموں میں بڑھوتری ہے۔ امریکی انتظامیہ اس بات کو مانتی نہیں تھی وہ کہتی تھی کہ نہیں اِس سٹہ بازی کا داموں کی بڑھوتری پر اثر زیادہ سے زیادہ 3% ہے بقیہ کے لئے بھارت اور چین اور رسد کی کمی کے لئے Opecذمہ دار ہے۔