ایک قادیانی گروپ میں جہاں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول سے اجرائے نبوت کا دھوکہ دیا ہوا تھا اس پر میری ایک صاحب سے گفتگو ہوئی یہاں پاسٹ کر رہا ہوں:
راقم:
حضرت شاہ ولی اللہ رحمه اللہ کا عقیدہ ختم نبوت اگر یہاں لکھ دیا جائے تو احمدی حضرات نے سب سے پہلے ان کے حجت نہ ماننے کا فیصلہ دینا ہے۔ یہ صرف کٹ پیس لگا کر اور ان میں بھی ذاتی تشریحات ڈال کر منصوب ان کی طرف کرنا یہ دجل ہے۔
مربی صاحب:
یہ لو, یہ حوالہ اصل کتاب سے ہے
راقم:
جی جناب بتلائیں یہاں سے کیسے "قادیانی نبوت" کا راستہ کھلا ہونے کا ثبوت ملتا ہے؟
مربی صاحب:
اگر آپ کو نظر نہیں آتا تو آپ ترجمہ کریں, ابھی پتہ چل جائے گا۔
راقم:
جناب مجھے نظر آتا ہے اسی لئے پوچھا ہے۔ ترجمہ آپ ہی کریں اور ساتھ یہ وضاحت بھی کریں کس طرح شاہ صاحب کی اس سٹیٹمنٹ سے وہ نبوت جس کو قادیانی حضرات مانتے ہیں کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
مربی صاحب:
یہاں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رع فرماتے ہیں کہ
آنحضرت ﷺ پر نبی اس طرح ختم کیے گئے ہیں کہ ایسا شخص نہیں پایا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ لوگوں پر نئی شریعت دے کر معمور کرے۔
راقم:
جناب امت مسلمہ کے نزدیک اور ان کے لٹریچر میں ہر نبی/رسول کی نبوت تشریعی ہوتی ہے۔ چاہے وہ الگ شریعت لائے یہ سابقہ شریعت کے احکام پر عمل کرے یا ان کو منسوخ کرے اگر ثانی الذکر کرے تو سابقہ نبی کی شریعت اس کی شریعت ہو گی۔ یعنی جو نبی بھی ہو گا وہ صاحب شریعت ہو گا اور اس کی نبوت ہمیشہ تشریعی ہی ہو گی۔
اور غیر تشریعی سے مراد ولایت ہوتی ہے جس میں اولیا کے کشوف وغیرہ داخل ہیں۔ جو واجب الاطاعت نہیں ہیں۔
جب کہ قادیانی حضرات کی نزدیک ان اصطلاحات کی معانی دیگر ہیں۔ وہ غیر تشریعی نبوت سے مراد انبیاء کرام میں سے وہ انبیاء جو سابق شریعت کی پیروی کرتے ہیں ان کی نبوت کو لیتے ہیں۔
اس لئے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر
ختم به النبيون ايی لا يوجد بعده من يامره الله سبحانه بالتشريح علی الناس یعنی نبیوں کو ان پر ایسے ختم کر دیا گیا کہ کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس کو اللہ سبحانہ شریعت کا حکم دے کر لوگوں کی طرف بھیجے۔
کا مطلب یہ ہو گا کہ نبوت جو انبیاء سے خاص ہے وہ بند ہو چکی ہے اور یہی امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔ اس لئے یہ تحریر ہمیں مفید ہے نہ کہ آپ کو۔
مربی صاحب:
جناب پہلی بات تو یہ کہ یہ امت مسلمہ کا عقیدہ نہیں بلکہ آپ کا عقیدہ ہے اس لئے ایسی باتیں لکھ کر بلاوجہ وقت ضائع نا کریں
دوسری بات یہ بتائیں کہ اگر کوئی نبی پہلی شریعت پر ہی عمل کرے اور اپنی الگ سے کوئی شریعت نہ لائے اور نہ ہی پہلی شریعت کو منسوخ کرے تو وہ صاحب شریعت کیسے کہلائے گا؟
راقم:
جناب یہ امت مسلمہ کا ہی عقیدہ ہے اور اس پر تصریحات موجود ہیں۔ ہاں قادیانی حضرات کا یہ عقیدہ نہیں جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا۔ چونکہ ہر نبی مطاع ہوتا ہے اور کسی کا مطاع ہونا تب ہے جب اس کی کوئی تعلیم ہو۔ اگر وہ جدید شریعت نہ لائے تو بھی اس کا مطاع ہونا لازم ہے اس لئے سابق شریعت اسی کی شریعت تصور کی جائے گی اور اسی لحاظ سے اس کو صاحب شریعت کہا جائے گا۔
مربی صاحب:
جناب جماعت احمدیہ کے علاوہ بھی بہت سے فرقے ہیں جو پاکستان کے قانون کے مطابق مسلمان ہیں مگر ان کا یہ عقیدہ نہیں ہے, اس لئے آپ اپنی یہ خوش فہمی دور کر دیں
دوسری بات, کیا آپ کے خیال میں تمام نبی صاحب شریعت ہوتے ہیں؟
راقم:
جناب اس بات کو تو ایک وقت تک مرزا صاحب بھی مانتے تھے...."نبی غیر شرعی نبی نہیں ہوتا؟" میں اوپر اس کی وضاحت کر چکا ہوں۔
مربی صاحب:
جناب باقی دلائل تو میں کچھ دیر کے بعد دوں گا, آپ ابھی اپنی یہ خوش فہمی دور کر لیں کہ یہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے
اگر آپ کے خیال میں تمام انبیاء صاحبِ شریعت ہوتے ہیں تو پھر اس اصطلاح "صاحب شریعت" کا کیا مطلب ہے؟ نیز اس حوالہ میں اس "بالتشریع" کی تصریح کی کیا ضرورت تھی
پھر تو صاف یہی کہنا چاہیے تھا کہ "کوئی نبی نہیں ہو گا"
اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ نبی تو ہو گا مگر اس کی نئی شریعت نہیں ہو گی اور ایسے نبی کے وجود کو آپ بھی مانتے ہیں خواہ نام کچھ بھی دیں۔
راقم:
غامدی صاحب سے مجھے بری رکھیں....رہی بات صاحب شریعت ہونے کی تو میں س کی وضاحت اوپر کر چکا ہوں، ابن عربیؒ کی ایک تحریر پیش کرتا ہوں امید ہی آپ کو کافی ہو گی۔
مربی صاحب:
میں نے غامدی صاحب کو آپ پر حجت کے لئے نہیں بلکہ آپ کی غلط فہمی کہ یہ امت مسلمہ کا عقیدہ ہے, دور کرنے کے لئے یہ حوالہ دیا ہے۔
مجھے ابنِ عربی رع کے اس حوالے کا علم ہے بلکہ اس موضوع پر تو حدیث بھی ہے, لیکن ابھی آپ حضرت شاہ ولی اللہ رع کے حوالے کا جواب دیں۔
راقم:
جناب من میں نے اگر ابن عربیؒ کا عقیدہ پیش کیا ہے تو وہ بھی اسی لئے کہ امت مسلمہ کا عقیدہ یہ ہے۔ نہ کہ آپ پر ابن عربیؒ کو حجت کرنے کو۔
مربی صاحب:
میرے لئے حضرت ابنِ عربی رع کا اس مقام سے بہت بہت بڑا ہے جو آپ کے لئے غامدی صاحب کا ہوگا
اس لئے اب بات کو چھوڑ دیں, میری بات کا مطلب تو یہ تھا کہ اس موضوع پر تو آپ بخاری کی حدیث بھی پیش کر سکتے تھے جس کا مقام اس سے بھی بڑا ہے, لیکن پہلے اگر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رع کے پیش کردہ حوالہ پر بات مکمل ہو جاتی تو بہتر تھا
لیکن آپ نے اس پر دوسری بار جواب نہ دے کر اپنا مطلب بتا دیا ہے
بحرحال مجھے ابھی کچھ دیر کے لئے جانا ہے, آکر مزید بات ہو گی
راقم:
جناب میں نے "صاحب شریعت" کی وضاحت اوپر کی ہے ابن عربیؒ کے حوالے سے اور میرا تو یہی ماننا ہے کہ یہی امت کا عقیدہ ہے۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تو اسی چیز کو بیان کر رہے ہہیں، اب کسی کو شریعت کے ساتھ بھیجا نہیں جائے گا۔ شاہ صاحب اس وجہ سے دیگر مقامات پر صرف نبوت کا لفظ استعمال فرما کر فرماتے ہیں یہ ختم ہو چکی، جو میں پیش کرو گا۔ آپ اپنا وقت لیں، شاید کل آپ سے بات ہو۔
مربی صاحب:
آپ کی "صاحب شریعت" کی وضاحت میں دیکھ چکا ہوں, اگر آپ کے مطابق کوئی نبی ایسا ہوتا ہی نہیں جو صاحبِ شریعت نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس اصطلاح سے ہی منکر ہوئے
اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ اگر رات کا وجود نہ ہوتا تو "دن" کی بھی کوئی اہمیت نہ ہوتی اور اس کا بھی کوئی نام نہ ہوتا
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رع نے خاتم النبیین کی وضاحت میں "بالتشريع" کا لفظ استعمال کر کے واضح کر دیا ہے کہ صرف وہ نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لے کر آتا ہے, اگر اُن کے عقیدے کے مطابق نئی شریعت کے بنا آنے والا نبی بھی نہ آنا ہوتا تو وہ ہرگز "بالتشريع" کا لفظ اپنی وضاحت میں نہ لیکھتے
میری اس دلیل کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا, اور دوسرے حوالے آپ جب پیش کریں گے تو اُس پر بھی بات کر لیں گے۔
ایک حوالہ یہ بھی پڑھ لیں, نیچے اصل کتاب کا صفحہ بھی موجود ہے
حضرت امام محی الدین ابن عربی رح فرماتے ہیں کہ جو نبوت اور رسالت شریعت والی ہوتی ہے پس وہ تو آنحضرت ﷺ پر ختم ہو گئی ہے پس آپ کے بعد شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا
پھر آگے فرماتے ہیں
ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مہربانی کر کے ان میں عام نبوت جس میں شریعت نہ ہو باقی رہنے دی ہے
راقم:
آپ میری بات کو یا سمجھے نہیں یا سمجھ کر اس سے پرے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ میں اصطلاح "غیر شریعی" کا منکر نہیں اسلئے یہ بات بے جا میری طرف منصوب کی گئی۔ جناب من میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ تشریحی نبوت سے ہمیشہ انبیاء اور مرسلین کی نبوت مراد لی جاتی تھی اور غیر تشریحی سے اولیاء عزام کے کشوف وغیرہ۔ المختصر "نبی" اور "صاحب شریعت" یک معنی ہوئے۔ جیسا کہ اوپر ابن عربی ؒ نے بھی اس کی وضاحت کی۔ اور یہی بات شاہ صاحب نے لکھی کہ کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس کو اللہ سبحانہ شریعت کا حکم دے کر لوگوں کی طرف بھیجے، جو عین عقیدہ مسلمہ کے مطابق ہے۔
(فصوص الحکم کے حوالہ کے جواب میں)
مجھے علم نہیں کہ آپ نے کیوں یہ حوالہ پیش کیا مگر یہ حوالہ تو میری دلیل ہوا نہ کہ آپ کی، وہی مفہوم جو میں یہاں بیان کر رہا ہوں ابن عربیؒ نے بیان فرمایا ہے۔امام صاحب فرماتے ہیں: ”جہاں تک تشریعی نبوت اور رسالت کا تعلق ہے تو وہ منقطع ہو چکی ہے۔ محمد ﷺ کے بعد یہ منقطع ہو گئی کہ اب آپ کے بعد کوئی صاحب تشریح یا آپ کی شریعت کا تابع( مشرعا أو مشرعا له ) نبی نہیں اور نہ ہی رسول جو صاحب شریعت ہوتا ہے.....ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر لطف کرتے ہوئے ان کے لئے نبوتِ عام(ولایت) باقی رکھی وہ جس میں تشریح نہیں۔
مربی صاحب:
آپ بات ہی ایسی اُلٹی کر رہے ہیں کہ جو ہضم ہونے والی نہیں
آپ "غیر تشریعی نبوت" کے منکر ہیں اور درحقیقت نبوت کی صرف ایک ہی قسم کو مانتے ہیں
"غیر تشریعی" اپنے آپ میں بے معنی لفظ ہے,دراصل نبوت کی دو اقسام میں سے ایک قسم "تشریعی" اور دوسری "غیر تشریعی" ہے ورنہ ان الفاظ کا تو کوئی معنی ہی نہیں بنتا
یہی وجہ ہے کہ آپ حضرت ابنِ عربی رح کے حوالے کو بھی اپنا مطلب چڑھا رہے ہیں کیوں کہ انھوں نہ پہلے (زیرِ بحث) فقرے میں واضح طور پر صرف تشریعی نبوت کے جاری رہنے کی نفی کی ہے جبکہ آخری میں غیر تشریعی کو النبوۃالعامۃ کہا ہے یعنی اسے بھی نبوت کی ہی قسم قرار دیا ہے, ولایت کو آپ نے خود وضاحت میں شامل کی ہے ورنہ اُنھوں نے ایسا نہیں لکھا
مشرعا أو مشرعا له کا مطلب بھی آپ اپنے اس عقیدے کے مطابق کر رہے ہیں حلانکہ اس کا مطلب ہے نئی شریعت لانے والا یا پہلی شریعت میں کمی بیشی کرنے والا ہے کیوں کہ یہ پہلے فقرے کی وضاحت میں لکھا گیا ہے جہاں صرف "تشریعی نبی" کا ذکر ہے, لیکن چونکہ آپ شریعت نا لانے والے کو بھی تشریعی نبی مانتے ہیں اس لئے یہاں بھی اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں
بحرحال وہ نبوت کی اقسام کے قائل ہیں جو اس تحریر سے واضح ہے مگر آپ نبوت کی صرف ایک ہی قسم کو مانتے ہیں
یہ بات ایسے ہی ہے کہ اگر انسان کو جنس کے لحاظ سے دو اقسام مرد اور عورت میں تقسیم کیا جائے اور پھر کوئی کہے کہ مرد تو انسان ہے مگر عورت انسان نہیں ہے
جب "تشریعی" اور "غیر تشریعی" نبوت کی اقسام ہیں تو یہ کہنا کہ غیر تشریعی نبی نہیں ہوتا, بلکل بے وقوفی ہے
(فصوص الحکم کے حوالہ کے جواب میں)
براہ مہربانی مین پوسٹ پر ہی بات کریں تاکہ بات کا تسلسل رہے اور پڑھنے والوں کو بھی آسانی ہو اس کا جواب بھی مین پوسٹ پر دیا
راقم:
مجھے نہیں معلوم تھا کہ جناب کے عقیدہ کے مطابق شریعت کی تنسیح یا کمی و بیشی ہونے پر بھی وہ شریعت سابقہ ہی رہتی ہے؟ اگر میں غلط نہ سمجھا ہوں تو۔ جناب انہوں نے واضح فرمایا ہے کہ یہاں صرف تشریعی نبوت بند ہے بالکل صحیح، کیونکہ تشریعی نبوت جس میں انبیاء و رسل کی نبوت ہوتی ہے وہ بند ہو چکی۔
مشرعا کا معنی اگر صاحب شریعت ہو گا تو مشرعا لہ کا معنی صاحب شریعت کا تابع ہی ہو گا۔
جناب نے مجھے الزام دیا کہ میں غیر تشریعی نبوت کو نہیں مانتا اور میرے نزدیک یہ بے معنی لفظ ہے، تو عرض ہے کہ اگر آپ اس سے مراد انبیاء عزام کی نبوت مراد لیں گے تو میرے نزدیک یہ حقیقتاً بے معنی بن جاتا ہے۔ میرے نزدیک نبوت(اصطلاحی معنوں میں) ایک ہی ہے شریعت والی جس کے مطابق انبیاء مطاع ہوتے ہیں۔ نبوت(لغوی کے اعتبار سے) ولایت کی وحی کو نبوت جانا ہے اور اس کو صوفیاء عزام نے غیر تشریعی نبوت کہا ہے۔ نہ اس کے آپ پر نزول سے آپ مطاع بن جاتے ہیں اور نہ آپ کے کشوف و الہامات کو امت کے لئے ماننا لازم آتا ہے۔
پھر آپ کا یہ کہنا بے جا ہے کہ ولایت کا رنگ اس کو میں دے رہا ہوں، میں اوپر ایک حوالہ دیا تھا جس میں ابن عربیؒ نے واضح الفاظ میں فرما دیا کہ نبوت تشریح یعنی انبیاء کی نبوت بند ہو چکی ہے اور رویا باقی ہیں جس پر آپ نے کہا تھا کہ اب کسی کو بھی نبی کہنا جائز نہیں اس سے بھی ثابت ہوا کہ یہاں تشریحی نبوت سے مراد انبیاء کی نبوت ہے۔ نیز یہ کہ اسی عبارت کی تشریح فرما کر ابن عربی ؒ نے کچھ الفاظ ذکر کیے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ "ولایت نبوت سے افضل ہے تو انہیں معانی میں ہو گی جن میں ذکر کر چکا ہوں"، پس یہ جاری ہونا وحی ولایت کا ہے نہ کہ وحی نبوت جس کو تشریعی کہا جاتا ہے۔
مربی صاحب:
فتوحاتِ مکیہ کا یہ حوالہ بھی دیکھ لیں
یہاں واضح طور پر لکھا ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو آپ ﷺ کی شریعت کے مخالف ہو بلکہ جب بھی ہو گا آپ ﷺ کی شریعت کے ماتحت ہو گا
وپر جو حوالہ آپ نے پیش کیا ہے اس کے جواب میں مَیں جس حدیث کا ذکر کر رہا تھا وہ یہ ہے
صحیح البخاری
«6990» حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري حدثني سعيد بن المسيب أن أبا هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ((لم يبق من النبوة إلا المبشرات)). قالوا وما المبشرات قال: ((الرؤيا الصالحة))
راقم:
جناب اگر تھوڑی زحمت فرما کر میرا وہ حوالہ بھی دیکھ لیتے جو میں نے ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کا دیا تھا تو یہ آپ کو یہ تکلف نہ اٹھانا پڑھتا۔ نیچا ایک حوالہ دہ رہا ہوں اس کا ترجمہ یہ ہے:
"جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر(وحی لے کر)نازل ہوتا تھا وہ بند ہو چکی ہے اور اب کسی کو نبی یا رسول نام دینا ممنوع ہو گیا"۔
اب اس سے واضح تحریر کیا ہو سکتی ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام کا وحی کو لانا ابن عربیؒ نے ممنوع کر دیا، حالانکہ مرزا صاحب نے جابجا دعوی کیا کہ ان پر جبرئیل وحی لائے۔ اور عرض ہے کہ الہام و کشوف اولیاء کا جائز ہونا عین شریعت محمدیہ ﷺ کے ماتحت ہے۔
اس حدیث رسول ﷺ کی تشریح ابن عربیؒ نے یوں فرما دی:
مربی صاحب:
تنے بھی حوالے پیش کیے گئے ہیں ان میں نبوت لغوی معنوں میں مراد نہیں ہے, خاص طور پر جہاں "تشریعی نبوت" کی بات ہو رہی ہے کم از کم وہاں تو آپ بھی مانتے ہیں, اس لئے آپ اگر کہیں کہ ایک جگہ تو نبوت سے مراد لغوی معنوں میں نبوت ہے اور دوسری جگہ اصطلاحی معنوں میں, تو یہ صرف آپ کی توجیحات ہیں, اس تحریر میں ایسا ثابت نہیں
پھر اگر آپ کے خیال میں اصطلاح میں نبوت صرف تشریعی نبوت ہے تو پھر اسے "تشریعی نبوت" کہنے کا کوئی مقصد ہی نہیں بنتا, پھر تو وہاں صرف نبوت کا لفظ ہی استعمال کیا جانا چاہیے تھا اور جہاں آپ کے خیال میں "النبوۃ العامہ" (جسے آپ صرف لغوی معنوں میں نبوت کہہ رہے ہیں) وہاں ولایت کا لفظ ہونا چاہیے تھا مگر جیسا کہ میں نے پہلے کہا, یہ صرف آپ کی اِن تحریرات سے بھاگنے کے لئے توجیحات ہیں
یہ منطق بہت سیدھی سی ہے کہ جو انسان اصطلاح میں تشریعی نبوت کو مانتا ہے وہ غیر تشریعی نبوت کو بھی اصطلاحاً نبوت مانے گا جیسا کہ حضرت ابنِ عربی رح کے حوالے میں لکھا گیا ہے
اب چونکہ آپ کے پاس اس بنیادی دلیل کا ہی کوئی جواب نہیں, اس لئے آپ کو کتنے بھی حوالے پیش کیے جائیں, آپ نے ان سے ایسی ہی توجیحات نکالنی ہیں۔
آپ کا کہنا ہے کہ اب کسی بھی قسم کے فرشتے وحی کے ساتھ نازل نہیں ہو سکتے تو ایسا کہنے سے پہلے ذرا اس آیت کو ہی غور سے پڑھ لیتے جس کے مطابق نہ صرف فرشتے نازل ہوتے ہیں بلکہ وہ کلام بھی کرتے ہیں
( إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ )[Surat Fussilat 30]
فرشتوں کے نزول نہ ہونے کا مطلب صرف وحیِ شریعت لے کر نازل ہونا ہے کہ فرشتہ نئی شریعت یا پہلی شریعت میں ردوبدل کے احکام کے ساتھ نازل نہیں ہو سکتے ورنہ تو ایسی بات قرآن ہی کے خلاف ہے۔
راقم:
سلطان صاحب آپ نے تو میری بقول آپ کے "توجیحات" کا جواب دینا ہی گوارہ نہ کیا چلیں جیسے آپ کی مرضی۔ یہ تشریحی و غیر تشریحی شاید آپ کچھ بھاری ہے اس لئے اتنی تفصیل میں جائے بغیر سادہ الفاظ میں لکھتا ہوں، تشریحی نبوت کے ذیل انبیاء اور رسل، غیر تشریحی عوام الناس صوفیاء عزام و الیاء عزام۔ تو جناب فرمائیں کیسے ثابت ہوا کہ غیر تشریحی نبوت جائز ہونے پر نبی آ سکتے ہیں؟
اوپر جو آپ نے ایک عبارت پیش کی وہ میری تحقیق کے مطابق یہ امام شعرانی کی الیواقیت کی ہے، اگر آپ فتوحات سے لنک کر دیں تو مہربانی۔
آپ بھی فرماتے ہیں منطق بہت سیدھی ہے کہ تشریحی و غیر تشریحی کو مانا جائے تو میں کہتا ہوں جناب میں نے کب انکار کیا؟ ہاں نبوت غیر تشریحی سے آپ اپنے مرضی کا مطلب نکال کر صاحب کتاب کے خلاف جائیں تو اس پر میں تو ملزم نہیں۔
پھر جناب نے ایک دعوی میری جانب منصوب کیا"کہ اب کسی بھی قسم کے فرشتے وحی کے ساتھ نازل نہیں ہو سکتے"، حالانکہ میں نے تو دعوی کوئی بھی نہ کیا۔ جناب نے تو ایک آیتِ قرآن مجید لکھ کر ابن عربیؒ کو خلاف قرآن ہونے بھی بتلا دیا۔ مگر جھٹ سے ایک اور بات بھی کر ڈالی کہ جناب یہاں فرشتوں کے نزول نہ ہونے کا مطلب صرف وحی شریعت(ان کے عقیدہ کے مطابق) لے کر نازل ہے۔ بہت خوب جناب آپ یعنی مطلب تحریر تو سمجھ چکے ہیں مگر اپنا عقیدہ بھی تو ثابت کرنا ہے۔ سنیئے اس عبارت کو مکمل پڑھ تو لیں تاکہ آپ کو علم حاصل ہو کہ یہاں کس فرشتہ کا ذکر ہے جس کے متعلق فرمان ہے کہ اس کا نازل ہونا بند ہے، وہ فرشتہ جو انبیاء علیہم السلام پر وحی لاتا ہے یعنی کہ جبرئیل علیہ السلام۔ میں نے تو کمنٹ میں لکھا بھی تھا کہ جناب مرزا صاحب اپنے اوپر جبرئیل علیہ السلام کے نزول کے دعویدار ہیں تو پتا نہیں سلطان صاحب نے کس بات کو ہر یک فرشتے کے انکار نزول پر ڈال دیا۔
مربی صاحب:
(ابن عربیؒ کے حوالہ کہ انبیاء و رسل والی وحی بند ہو چکی کے جواب میں)
یہاں جبرائیل علیہ السلام کے نہ آنے کا کہاں لکھا ہے؟
جوابِ راقم:جناب انبیاء عزام اور رسل پر وحی کون لاتا ہے؟ ہمارے نزدیک تو جبرئیل لاتے ہیں آپ کا علم نہیں، مرزا صاحب نے اپنے فرشتوں کے متعدد نام بتلائے۔
مربی صاحب: میں نے کہاں انکار کیا ہے یہاں تو خاص وحی کی بات کی گئی ہے جو شریعت والی ہے صرف وہ نہیں آنی جبرائیل علیہ السلام کے نہ آنے کا تو کہیں ذکر نہیں۔
جوابِ راقم:تحریر دوبارہ پڑھ لیں۔ آپ کا معنی شاید آپ کے علاوہ اور کسی نے سمجھ میں آئے۔ جب فرشتہ وحی و نبوت جو نبی اور رسول سے خاص ہے وہ بند ہو چکا ہے تو آپ کی تاویل بے کار ہوئی۔ کیونکہ آپ کے عقیدہ کے مطابق جبرئیل کا غیر تشریحی نبوت کا لانا لازم ہے۔
مربی صاحب:یہ مطلب میرا نہیں بلکہ اوپر میرا والا حوالہ پڑھیں, وہاں شریعت کے تابع نبی کے آنے کا لکھا موجود ہے آپ اس نبی کے لفظ کی تاویلیں کریں تو آپ کی مرضی۔
راقم:جناب تاویل آپ کی غلط ہے۔ شیخ ابن عربیؒ کی اس تحریر کے بعد اب حضور ﷺ کے بعد کسی کا نبی بننا ہی محال ہو چکا ہے۔
مربی صاحب: یہ آپ کا عقیدہ ہے مگر بنا دلیل کے ورنہ اوپر جو حوالہ دیا ہے اس میں تو لکھا ہے کہ
إذ كان يكون تحت حكم شريعتي
یعنی شریعت کے تحت نبی
اور حضرت ہارون علیہ السلام بھی شریعت کے تحت نبی تھے۔
راقم:جناب اس حوالہ کا میں نے آپ سے سکین مانگا تھا۔ ثانیاً ابن عربی ؒ کا قول:
"جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر(وحی لے کر)نازل ہوتا تھا وہ بند ہو چکی ہے اور اب کسی کو نبی یا رسول نام دینا ممنوع ہو گیا" یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں
انہوں نے لفظ نبی لغوی اعتبار سے لیا ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ ولی کا آنا جائز ہوا اور نبی و رسل جن پر وحی شریعت ہوتی ہے وہ نہ رہی۔ ابن عربیؒ کی تو کئی اور تحاریر اسی بات پر شاہد ہیں الحمد اللہ
مربی صاحب:میں نے آپ سے کہا نا کہ آپ کی پہلی منطق ہی غلط ہے تو اگے کیا بات آپ کو سمجھ آئے گی
ایک طرف آپ کہتے ہیں "غیر تشریعی نبی" اور دوسری طرف کہتے ہیں وہ نبی نہیں ہے
خود ہی اسے نبی کہتے ہیں اور پھر خود ہی اسکی نبوت کا انکار کرتے ہیں
پہلے اپنی اس بات کو تو معقول ثابت کر دیں پھر اگلی باتیں خود ہی حل ہو جائیں۔
راقم:
جناب میں نے اوپر واضح الفاظ میں لکھ دیا کہ "غیر تشریعی نبوت" سے کیا مراد ہے۔ آپ کو پتا نہیں سمجھنے میں کیا دشواری ہے۔ انبیاء و رسل کی وحی کو تشریحی کہا جاتا ہے اور جس پر یہ وحی ہو وہ صاحب تشریح اور عرف عام میں اسے نبی کہا جاتا ہے جیسا کہ اوہر میں کہہ چکا۔ دوسری غیر تشریحی جس میں اولیاء و صوفیاء اور مومنین کی وحی(الہام و کشوف وغیرہ) جس پر یہ ہو وہ عرف عام میں مذکورہ طبقات میں سے ہوتا ہے اور اسکو غیر تشریحی وحی/نبوت کو وحی ولایت یا ولایت کہا جاتا ہے۔ امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ ثانی الذکر امت میں عام ہے جبکہ اول الذکر بند ہو چکی ہے۔ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی لکھا کہ"کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس کو(بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) اللہ سبحانہ شریعت کا حکم دے کر لوگوں کی طرف بھیجے"۔ جناب فرمائیں گے کہ یہ کیسے غیر معقول ہے؟ جناب یہی کہنا ہے ابن عربیؒ کا کہ انبیاء کے ساتھ خاص نبوت بند ہو چکی ہے۔ جیسا کہ اوپر حوالہ مذکور ہے۔
مربی صاحب:
جناب آپ کو میں حوالے کے ساتھ ثابت کر چکا ہوں کہ یہ عقیدہ اُمت مسلمہ کا نہیں ہے, بہت سے ایسے لوگ ہیں جو آپ کے قانون کے مطابق مسلمان ہیں مگر اُن کا "غیر تشریعی نبی" کے بارے میں یہ عقیدہ نہیں ہے پھر بھی اگر آپ یہی لیکھیں گے تو یہ بات جھوٹ ثابت ہو چکی ہے اور جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہے
پھر آپ سے میں نے اب یہ نہیں پوچھا کہ "غیر تشریعی نبوت" سے آپ کیا مراد لیتے ہیں, میں اب اچھی طرح آپ کا عقیدہ سمجھ چکا ہوں
میں نے یہ کہا ہے کہ ایک طرف آپ اس کے لئے (غیر تشریعی) نبی کا لفظ استعمال کر رہے ہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ اس کو نبی نہیں کہا جا سکتا؟
یہ بات بلکل خود اپنے آپ کو جھٹلا رہی ہے
مثلاً ایک آدمی ہاتھ میں آم پکڑ کر کہے کہ یہ "لنگڑا آم" ہے اور ساتھ ہی کہے کہ اسے "آم" نہیں کہا جا سکتا
پھر آپ یہ بھی بتا دیں کہ "تشریعی نبی" کی کیا تعریف کرتے ہیں اور وہ تعریف کہاں سے لی ہے۔
راقم:
جناب والا یہی میں نے جتنی تفصیل سے اس کو بیان کیا پھر بھی آپ لنگڑے آم میں پھنسے ہیں میری طرف سے معذرت۔ "دوسری طرف کہتے ہیں کہ اس کو نبی نہیں کہا جا سکتا؟" جناب اوپر میں نے عرف عام بھی لکھا۔ کیونکہ عرف عام نبی سے مراد صاحب تشریح کو ہی لیا جاتا ہے۔ تشریعی نبی کی آپ نے تعریف کہاں سے لی تو جناب اوپر کئی حوالاجات سے میں یہ بات بتلا چکا ہوں کہ یہ بات کدھر سے لی گئی۔
مربی صاحب:
اگر ہر نبی کو تشریعی نبی کہیں گے تو پھر تشریعی نبی کی کوئی تعریف کی ہی نہیں جا سکتی, پھر تو صرف نبی کی تعریف کی جائے گی
اوپر کس حوالے میں تشریعی نبی کی تعریف لکھی ہوئی ہے؟ وہاں تو صرف تشریعی نبی کے نہ آنے کا ذکر ہے اور ایسی نبوت کے جاری ہونے کا جو حضور ﷺ کے تابع ہو (آپ خواہ اسے جو بھی نام دیں) اور پہلے نبیوں میں حضرت ہارون علیہ السلام بھی ایک نبی کے تابع تھے, ان پر بھی کوئی شریعت والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی لیکن وہ نبی تھے۔
راقم:
جناب میرے یہ دو کمنٹ دیکھ لیں۔
مربی صاحب:
پڑھنے کے بعد ہی پوچھا تھا کہ حضرت ہارون علیہ السلام بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے نبی جو تورات سے فیصلے کرتے تھے, حضرت موسیٰ کی شریعت کے تابع تھے اور ان پر کوئی شریعت والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی ان کو کہاں لے جائیں گے؟وہ بھی پھر آپ کی تعریف کے مطابق نبی نہیں ٹھہرتے۔
راقم:
اگر پڑھ کر سمجھ بھی لیتے تو آپ کا سوال کرنا فضول تصور ہوتا۔ پس ان کی شریعت تورات ہی ہے اور وہ اسی کے بعد موسیٰ علیہ السلام کے حکم ہیں۔
مربی صاحب:
بلکل ان کی شریعت تورات تھی مگر صاحب شریعت وہی ہوتا ہے جسے شریعت دی جاتی ہے, اور شریعت صرف اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے, ایک نبی دوسرے کو صاحب شریعت نہیں بنا سکتا ورنہ تو بہت سے لوگ شریعت کا علم حاصل کرتے ہیں, کیا وہ بھی صاحبِ شریعت ہوں گے۔
راقم:
تو جناب کیا وہ علم خدا کی طرف سے حاصل کرتے ہیں؟ ان کا علم قطعی ہوتا ہے؟ وہ مامور من اللہ ہوتے اور مطاع ہوتے ہیں؟ آپ کہ کیا کہنے آپ کے نزدیک پھر ان میں فرق نہ ہوا۔ ایک نبی نے دوسرے کو کب صاحب شریعت بنایا؟ صاحب شریعت تو اللہ ہی بناتا ہے، چاہے نئی شریعت دے یا پرانی۔
مربی صاحب:
چلیں قرآن سے حوالہ دیں کہ کس نبی کو پرانی شریعت دے کر صاحبِ شریعت بنایا گیا ۔
راقم:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّه...الخ (النساء 4:62)
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
آپ کو مسلم ہے ہارون علیہ السلام کو الگ کتاب شریعت نہ ملی، اب اگر ان کی کوئی شریعت ہی نہ ہو تو وہ مطاع کیسے ہوئے؟ الغرض شریعت موسوی کو ان کی شریعت ہی کہا جائے گا اس وقت کے لئے اور یہی تعلیم ان کی ہو گی جس کی اطاعت کرنی ہو گی اور یہی تعلیم ان کی شریعت ہو گی اور امر و نہی بذریعہ جبرئیل ان پر نازل ہو گی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابھی تک یہ گفتگو ہوئی باقی گفتگو اگر ہوئی تو یہاں انشاء اللہ اپڈیٹ کر دی جائے گی۔
راقم:
حضرت شاہ ولی اللہ رحمه اللہ کا عقیدہ ختم نبوت اگر یہاں لکھ دیا جائے تو احمدی حضرات نے سب سے پہلے ان کے حجت نہ ماننے کا فیصلہ دینا ہے۔ یہ صرف کٹ پیس لگا کر اور ان میں بھی ذاتی تشریحات ڈال کر منصوب ان کی طرف کرنا یہ دجل ہے۔
مربی صاحب:
یہ لو, یہ حوالہ اصل کتاب سے ہے
راقم:
جی جناب بتلائیں یہاں سے کیسے "قادیانی نبوت" کا راستہ کھلا ہونے کا ثبوت ملتا ہے؟
مربی صاحب:
اگر آپ کو نظر نہیں آتا تو آپ ترجمہ کریں, ابھی پتہ چل جائے گا۔
راقم:
جناب مجھے نظر آتا ہے اسی لئے پوچھا ہے۔ ترجمہ آپ ہی کریں اور ساتھ یہ وضاحت بھی کریں کس طرح شاہ صاحب کی اس سٹیٹمنٹ سے وہ نبوت جس کو قادیانی حضرات مانتے ہیں کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
مربی صاحب:
یہاں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رع فرماتے ہیں کہ
آنحضرت ﷺ پر نبی اس طرح ختم کیے گئے ہیں کہ ایسا شخص نہیں پایا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ لوگوں پر نئی شریعت دے کر معمور کرے۔
راقم:
جناب امت مسلمہ کے نزدیک اور ان کے لٹریچر میں ہر نبی/رسول کی نبوت تشریعی ہوتی ہے۔ چاہے وہ الگ شریعت لائے یہ سابقہ شریعت کے احکام پر عمل کرے یا ان کو منسوخ کرے اگر ثانی الذکر کرے تو سابقہ نبی کی شریعت اس کی شریعت ہو گی۔ یعنی جو نبی بھی ہو گا وہ صاحب شریعت ہو گا اور اس کی نبوت ہمیشہ تشریعی ہی ہو گی۔
اور غیر تشریعی سے مراد ولایت ہوتی ہے جس میں اولیا کے کشوف وغیرہ داخل ہیں۔ جو واجب الاطاعت نہیں ہیں۔
جب کہ قادیانی حضرات کی نزدیک ان اصطلاحات کی معانی دیگر ہیں۔ وہ غیر تشریعی نبوت سے مراد انبیاء کرام میں سے وہ انبیاء جو سابق شریعت کی پیروی کرتے ہیں ان کی نبوت کو لیتے ہیں۔
اس لئے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر
ختم به النبيون ايی لا يوجد بعده من يامره الله سبحانه بالتشريح علی الناس یعنی نبیوں کو ان پر ایسے ختم کر دیا گیا کہ کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس کو اللہ سبحانہ شریعت کا حکم دے کر لوگوں کی طرف بھیجے۔
کا مطلب یہ ہو گا کہ نبوت جو انبیاء سے خاص ہے وہ بند ہو چکی ہے اور یہی امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔ اس لئے یہ تحریر ہمیں مفید ہے نہ کہ آپ کو۔
مربی صاحب:
جناب پہلی بات تو یہ کہ یہ امت مسلمہ کا عقیدہ نہیں بلکہ آپ کا عقیدہ ہے اس لئے ایسی باتیں لکھ کر بلاوجہ وقت ضائع نا کریں
دوسری بات یہ بتائیں کہ اگر کوئی نبی پہلی شریعت پر ہی عمل کرے اور اپنی الگ سے کوئی شریعت نہ لائے اور نہ ہی پہلی شریعت کو منسوخ کرے تو وہ صاحب شریعت کیسے کہلائے گا؟
راقم:
جناب یہ امت مسلمہ کا ہی عقیدہ ہے اور اس پر تصریحات موجود ہیں۔ ہاں قادیانی حضرات کا یہ عقیدہ نہیں جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا۔ چونکہ ہر نبی مطاع ہوتا ہے اور کسی کا مطاع ہونا تب ہے جب اس کی کوئی تعلیم ہو۔ اگر وہ جدید شریعت نہ لائے تو بھی اس کا مطاع ہونا لازم ہے اس لئے سابق شریعت اسی کی شریعت تصور کی جائے گی اور اسی لحاظ سے اس کو صاحب شریعت کہا جائے گا۔
مربی صاحب:
جناب جماعت احمدیہ کے علاوہ بھی بہت سے فرقے ہیں جو پاکستان کے قانون کے مطابق مسلمان ہیں مگر ان کا یہ عقیدہ نہیں ہے, اس لئے آپ اپنی یہ خوش فہمی دور کر دیں
دوسری بات, کیا آپ کے خیال میں تمام نبی صاحب شریعت ہوتے ہیں؟
راقم:
جناب اس بات کو تو ایک وقت تک مرزا صاحب بھی مانتے تھے...."نبی غیر شرعی نبی نہیں ہوتا؟" میں اوپر اس کی وضاحت کر چکا ہوں۔
مربی صاحب:
جناب باقی دلائل تو میں کچھ دیر کے بعد دوں گا, آپ ابھی اپنی یہ خوش فہمی دور کر لیں کہ یہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے
اگر آپ کے خیال میں تمام انبیاء صاحبِ شریعت ہوتے ہیں تو پھر اس اصطلاح "صاحب شریعت" کا کیا مطلب ہے؟ نیز اس حوالہ میں اس "بالتشریع" کی تصریح کی کیا ضرورت تھی
پھر تو صاف یہی کہنا چاہیے تھا کہ "کوئی نبی نہیں ہو گا"
اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ نبی تو ہو گا مگر اس کی نئی شریعت نہیں ہو گی اور ایسے نبی کے وجود کو آپ بھی مانتے ہیں خواہ نام کچھ بھی دیں۔
راقم:
غامدی صاحب سے مجھے بری رکھیں....رہی بات صاحب شریعت ہونے کی تو میں س کی وضاحت اوپر کر چکا ہوں، ابن عربیؒ کی ایک تحریر پیش کرتا ہوں امید ہی آپ کو کافی ہو گی۔
مربی صاحب:
میں نے غامدی صاحب کو آپ پر حجت کے لئے نہیں بلکہ آپ کی غلط فہمی کہ یہ امت مسلمہ کا عقیدہ ہے, دور کرنے کے لئے یہ حوالہ دیا ہے۔
مجھے ابنِ عربی رع کے اس حوالے کا علم ہے بلکہ اس موضوع پر تو حدیث بھی ہے, لیکن ابھی آپ حضرت شاہ ولی اللہ رع کے حوالے کا جواب دیں۔
راقم:
جناب من میں نے اگر ابن عربیؒ کا عقیدہ پیش کیا ہے تو وہ بھی اسی لئے کہ امت مسلمہ کا عقیدہ یہ ہے۔ نہ کہ آپ پر ابن عربیؒ کو حجت کرنے کو۔
مربی صاحب:
میرے لئے حضرت ابنِ عربی رع کا اس مقام سے بہت بہت بڑا ہے جو آپ کے لئے غامدی صاحب کا ہوگا
اس لئے اب بات کو چھوڑ دیں, میری بات کا مطلب تو یہ تھا کہ اس موضوع پر تو آپ بخاری کی حدیث بھی پیش کر سکتے تھے جس کا مقام اس سے بھی بڑا ہے, لیکن پہلے اگر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رع کے پیش کردہ حوالہ پر بات مکمل ہو جاتی تو بہتر تھا
لیکن آپ نے اس پر دوسری بار جواب نہ دے کر اپنا مطلب بتا دیا ہے
بحرحال مجھے ابھی کچھ دیر کے لئے جانا ہے, آکر مزید بات ہو گی
راقم:
جناب میں نے "صاحب شریعت" کی وضاحت اوپر کی ہے ابن عربیؒ کے حوالے سے اور میرا تو یہی ماننا ہے کہ یہی امت کا عقیدہ ہے۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تو اسی چیز کو بیان کر رہے ہہیں، اب کسی کو شریعت کے ساتھ بھیجا نہیں جائے گا۔ شاہ صاحب اس وجہ سے دیگر مقامات پر صرف نبوت کا لفظ استعمال فرما کر فرماتے ہیں یہ ختم ہو چکی، جو میں پیش کرو گا۔ آپ اپنا وقت لیں، شاید کل آپ سے بات ہو۔
مربی صاحب:
آپ کی "صاحب شریعت" کی وضاحت میں دیکھ چکا ہوں, اگر آپ کے مطابق کوئی نبی ایسا ہوتا ہی نہیں جو صاحبِ شریعت نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس اصطلاح سے ہی منکر ہوئے
اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ اگر رات کا وجود نہ ہوتا تو "دن" کی بھی کوئی اہمیت نہ ہوتی اور اس کا بھی کوئی نام نہ ہوتا
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رع نے خاتم النبیین کی وضاحت میں "بالتشريع" کا لفظ استعمال کر کے واضح کر دیا ہے کہ صرف وہ نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لے کر آتا ہے, اگر اُن کے عقیدے کے مطابق نئی شریعت کے بنا آنے والا نبی بھی نہ آنا ہوتا تو وہ ہرگز "بالتشريع" کا لفظ اپنی وضاحت میں نہ لیکھتے
میری اس دلیل کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا, اور دوسرے حوالے آپ جب پیش کریں گے تو اُس پر بھی بات کر لیں گے۔
ایک حوالہ یہ بھی پڑھ لیں, نیچے اصل کتاب کا صفحہ بھی موجود ہے
حضرت امام محی الدین ابن عربی رح فرماتے ہیں کہ جو نبوت اور رسالت شریعت والی ہوتی ہے پس وہ تو آنحضرت ﷺ پر ختم ہو گئی ہے پس آپ کے بعد شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا
پھر آگے فرماتے ہیں
ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مہربانی کر کے ان میں عام نبوت جس میں شریعت نہ ہو باقی رہنے دی ہے
راقم:
آپ میری بات کو یا سمجھے نہیں یا سمجھ کر اس سے پرے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ میں اصطلاح "غیر شریعی" کا منکر نہیں اسلئے یہ بات بے جا میری طرف منصوب کی گئی۔ جناب من میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ تشریحی نبوت سے ہمیشہ انبیاء اور مرسلین کی نبوت مراد لی جاتی تھی اور غیر تشریحی سے اولیاء عزام کے کشوف وغیرہ۔ المختصر "نبی" اور "صاحب شریعت" یک معنی ہوئے۔ جیسا کہ اوپر ابن عربی ؒ نے بھی اس کی وضاحت کی۔ اور یہی بات شاہ صاحب نے لکھی کہ کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس کو اللہ سبحانہ شریعت کا حکم دے کر لوگوں کی طرف بھیجے، جو عین عقیدہ مسلمہ کے مطابق ہے۔
(فصوص الحکم کے حوالہ کے جواب میں)
مجھے علم نہیں کہ آپ نے کیوں یہ حوالہ پیش کیا مگر یہ حوالہ تو میری دلیل ہوا نہ کہ آپ کی، وہی مفہوم جو میں یہاں بیان کر رہا ہوں ابن عربیؒ نے بیان فرمایا ہے۔امام صاحب فرماتے ہیں: ”جہاں تک تشریعی نبوت اور رسالت کا تعلق ہے تو وہ منقطع ہو چکی ہے۔ محمد ﷺ کے بعد یہ منقطع ہو گئی کہ اب آپ کے بعد کوئی صاحب تشریح یا آپ کی شریعت کا تابع( مشرعا أو مشرعا له ) نبی نہیں اور نہ ہی رسول جو صاحب شریعت ہوتا ہے.....ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر لطف کرتے ہوئے ان کے لئے نبوتِ عام(ولایت) باقی رکھی وہ جس میں تشریح نہیں۔
مربی صاحب:
آپ بات ہی ایسی اُلٹی کر رہے ہیں کہ جو ہضم ہونے والی نہیں
آپ "غیر تشریعی نبوت" کے منکر ہیں اور درحقیقت نبوت کی صرف ایک ہی قسم کو مانتے ہیں
"غیر تشریعی" اپنے آپ میں بے معنی لفظ ہے,دراصل نبوت کی دو اقسام میں سے ایک قسم "تشریعی" اور دوسری "غیر تشریعی" ہے ورنہ ان الفاظ کا تو کوئی معنی ہی نہیں بنتا
یہی وجہ ہے کہ آپ حضرت ابنِ عربی رح کے حوالے کو بھی اپنا مطلب چڑھا رہے ہیں کیوں کہ انھوں نہ پہلے (زیرِ بحث) فقرے میں واضح طور پر صرف تشریعی نبوت کے جاری رہنے کی نفی کی ہے جبکہ آخری میں غیر تشریعی کو النبوۃالعامۃ کہا ہے یعنی اسے بھی نبوت کی ہی قسم قرار دیا ہے, ولایت کو آپ نے خود وضاحت میں شامل کی ہے ورنہ اُنھوں نے ایسا نہیں لکھا
مشرعا أو مشرعا له کا مطلب بھی آپ اپنے اس عقیدے کے مطابق کر رہے ہیں حلانکہ اس کا مطلب ہے نئی شریعت لانے والا یا پہلی شریعت میں کمی بیشی کرنے والا ہے کیوں کہ یہ پہلے فقرے کی وضاحت میں لکھا گیا ہے جہاں صرف "تشریعی نبی" کا ذکر ہے, لیکن چونکہ آپ شریعت نا لانے والے کو بھی تشریعی نبی مانتے ہیں اس لئے یہاں بھی اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں
بحرحال وہ نبوت کی اقسام کے قائل ہیں جو اس تحریر سے واضح ہے مگر آپ نبوت کی صرف ایک ہی قسم کو مانتے ہیں
یہ بات ایسے ہی ہے کہ اگر انسان کو جنس کے لحاظ سے دو اقسام مرد اور عورت میں تقسیم کیا جائے اور پھر کوئی کہے کہ مرد تو انسان ہے مگر عورت انسان نہیں ہے
جب "تشریعی" اور "غیر تشریعی" نبوت کی اقسام ہیں تو یہ کہنا کہ غیر تشریعی نبی نہیں ہوتا, بلکل بے وقوفی ہے
(فصوص الحکم کے حوالہ کے جواب میں)
براہ مہربانی مین پوسٹ پر ہی بات کریں تاکہ بات کا تسلسل رہے اور پڑھنے والوں کو بھی آسانی ہو اس کا جواب بھی مین پوسٹ پر دیا
راقم:
مجھے نہیں معلوم تھا کہ جناب کے عقیدہ کے مطابق شریعت کی تنسیح یا کمی و بیشی ہونے پر بھی وہ شریعت سابقہ ہی رہتی ہے؟ اگر میں غلط نہ سمجھا ہوں تو۔ جناب انہوں نے واضح فرمایا ہے کہ یہاں صرف تشریعی نبوت بند ہے بالکل صحیح، کیونکہ تشریعی نبوت جس میں انبیاء و رسل کی نبوت ہوتی ہے وہ بند ہو چکی۔
مشرعا کا معنی اگر صاحب شریعت ہو گا تو مشرعا لہ کا معنی صاحب شریعت کا تابع ہی ہو گا۔
جناب نے مجھے الزام دیا کہ میں غیر تشریعی نبوت کو نہیں مانتا اور میرے نزدیک یہ بے معنی لفظ ہے، تو عرض ہے کہ اگر آپ اس سے مراد انبیاء عزام کی نبوت مراد لیں گے تو میرے نزدیک یہ حقیقتاً بے معنی بن جاتا ہے۔ میرے نزدیک نبوت(اصطلاحی معنوں میں) ایک ہی ہے شریعت والی جس کے مطابق انبیاء مطاع ہوتے ہیں۔ نبوت(لغوی کے اعتبار سے) ولایت کی وحی کو نبوت جانا ہے اور اس کو صوفیاء عزام نے غیر تشریعی نبوت کہا ہے۔ نہ اس کے آپ پر نزول سے آپ مطاع بن جاتے ہیں اور نہ آپ کے کشوف و الہامات کو امت کے لئے ماننا لازم آتا ہے۔
پھر آپ کا یہ کہنا بے جا ہے کہ ولایت کا رنگ اس کو میں دے رہا ہوں، میں اوپر ایک حوالہ دیا تھا جس میں ابن عربیؒ نے واضح الفاظ میں فرما دیا کہ نبوت تشریح یعنی انبیاء کی نبوت بند ہو چکی ہے اور رویا باقی ہیں جس پر آپ نے کہا تھا کہ اب کسی کو بھی نبی کہنا جائز نہیں اس سے بھی ثابت ہوا کہ یہاں تشریحی نبوت سے مراد انبیاء کی نبوت ہے۔ نیز یہ کہ اسی عبارت کی تشریح فرما کر ابن عربی ؒ نے کچھ الفاظ ذکر کیے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ "ولایت نبوت سے افضل ہے تو انہیں معانی میں ہو گی جن میں ذکر کر چکا ہوں"، پس یہ جاری ہونا وحی ولایت کا ہے نہ کہ وحی نبوت جس کو تشریعی کہا جاتا ہے۔
مربی صاحب:
فتوحاتِ مکیہ کا یہ حوالہ بھی دیکھ لیں
یہاں واضح طور پر لکھا ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو آپ ﷺ کی شریعت کے مخالف ہو بلکہ جب بھی ہو گا آپ ﷺ کی شریعت کے ماتحت ہو گا
وپر جو حوالہ آپ نے پیش کیا ہے اس کے جواب میں مَیں جس حدیث کا ذکر کر رہا تھا وہ یہ ہے
صحیح البخاری
«6990» حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري حدثني سعيد بن المسيب أن أبا هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ((لم يبق من النبوة إلا المبشرات)). قالوا وما المبشرات قال: ((الرؤيا الصالحة))
راقم:
جناب اگر تھوڑی زحمت فرما کر میرا وہ حوالہ بھی دیکھ لیتے جو میں نے ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کا دیا تھا تو یہ آپ کو یہ تکلف نہ اٹھانا پڑھتا۔ نیچا ایک حوالہ دہ رہا ہوں اس کا ترجمہ یہ ہے:
"جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر(وحی لے کر)نازل ہوتا تھا وہ بند ہو چکی ہے اور اب کسی کو نبی یا رسول نام دینا ممنوع ہو گیا"۔
اب اس سے واضح تحریر کیا ہو سکتی ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام کا وحی کو لانا ابن عربیؒ نے ممنوع کر دیا، حالانکہ مرزا صاحب نے جابجا دعوی کیا کہ ان پر جبرئیل وحی لائے۔ اور عرض ہے کہ الہام و کشوف اولیاء کا جائز ہونا عین شریعت محمدیہ ﷺ کے ماتحت ہے۔
اس حدیث رسول ﷺ کی تشریح ابن عربیؒ نے یوں فرما دی:
مربی صاحب:
تنے بھی حوالے پیش کیے گئے ہیں ان میں نبوت لغوی معنوں میں مراد نہیں ہے, خاص طور پر جہاں "تشریعی نبوت" کی بات ہو رہی ہے کم از کم وہاں تو آپ بھی مانتے ہیں, اس لئے آپ اگر کہیں کہ ایک جگہ تو نبوت سے مراد لغوی معنوں میں نبوت ہے اور دوسری جگہ اصطلاحی معنوں میں, تو یہ صرف آپ کی توجیحات ہیں, اس تحریر میں ایسا ثابت نہیں
پھر اگر آپ کے خیال میں اصطلاح میں نبوت صرف تشریعی نبوت ہے تو پھر اسے "تشریعی نبوت" کہنے کا کوئی مقصد ہی نہیں بنتا, پھر تو وہاں صرف نبوت کا لفظ ہی استعمال کیا جانا چاہیے تھا اور جہاں آپ کے خیال میں "النبوۃ العامہ" (جسے آپ صرف لغوی معنوں میں نبوت کہہ رہے ہیں) وہاں ولایت کا لفظ ہونا چاہیے تھا مگر جیسا کہ میں نے پہلے کہا, یہ صرف آپ کی اِن تحریرات سے بھاگنے کے لئے توجیحات ہیں
یہ منطق بہت سیدھی سی ہے کہ جو انسان اصطلاح میں تشریعی نبوت کو مانتا ہے وہ غیر تشریعی نبوت کو بھی اصطلاحاً نبوت مانے گا جیسا کہ حضرت ابنِ عربی رح کے حوالے میں لکھا گیا ہے
اب چونکہ آپ کے پاس اس بنیادی دلیل کا ہی کوئی جواب نہیں, اس لئے آپ کو کتنے بھی حوالے پیش کیے جائیں, آپ نے ان سے ایسی ہی توجیحات نکالنی ہیں۔
آپ کا کہنا ہے کہ اب کسی بھی قسم کے فرشتے وحی کے ساتھ نازل نہیں ہو سکتے تو ایسا کہنے سے پہلے ذرا اس آیت کو ہی غور سے پڑھ لیتے جس کے مطابق نہ صرف فرشتے نازل ہوتے ہیں بلکہ وہ کلام بھی کرتے ہیں
( إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ )[Surat Fussilat 30]
فرشتوں کے نزول نہ ہونے کا مطلب صرف وحیِ شریعت لے کر نازل ہونا ہے کہ فرشتہ نئی شریعت یا پہلی شریعت میں ردوبدل کے احکام کے ساتھ نازل نہیں ہو سکتے ورنہ تو ایسی بات قرآن ہی کے خلاف ہے۔
راقم:
سلطان صاحب آپ نے تو میری بقول آپ کے "توجیحات" کا جواب دینا ہی گوارہ نہ کیا چلیں جیسے آپ کی مرضی۔ یہ تشریحی و غیر تشریحی شاید آپ کچھ بھاری ہے اس لئے اتنی تفصیل میں جائے بغیر سادہ الفاظ میں لکھتا ہوں، تشریحی نبوت کے ذیل انبیاء اور رسل، غیر تشریحی عوام الناس صوفیاء عزام و الیاء عزام۔ تو جناب فرمائیں کیسے ثابت ہوا کہ غیر تشریحی نبوت جائز ہونے پر نبی آ سکتے ہیں؟
اوپر جو آپ نے ایک عبارت پیش کی وہ میری تحقیق کے مطابق یہ امام شعرانی کی الیواقیت کی ہے، اگر آپ فتوحات سے لنک کر دیں تو مہربانی۔
آپ بھی فرماتے ہیں منطق بہت سیدھی ہے کہ تشریحی و غیر تشریحی کو مانا جائے تو میں کہتا ہوں جناب میں نے کب انکار کیا؟ ہاں نبوت غیر تشریحی سے آپ اپنے مرضی کا مطلب نکال کر صاحب کتاب کے خلاف جائیں تو اس پر میں تو ملزم نہیں۔
پھر جناب نے ایک دعوی میری جانب منصوب کیا"کہ اب کسی بھی قسم کے فرشتے وحی کے ساتھ نازل نہیں ہو سکتے"، حالانکہ میں نے تو دعوی کوئی بھی نہ کیا۔ جناب نے تو ایک آیتِ قرآن مجید لکھ کر ابن عربیؒ کو خلاف قرآن ہونے بھی بتلا دیا۔ مگر جھٹ سے ایک اور بات بھی کر ڈالی کہ جناب یہاں فرشتوں کے نزول نہ ہونے کا مطلب صرف وحی شریعت(ان کے عقیدہ کے مطابق) لے کر نازل ہے۔ بہت خوب جناب آپ یعنی مطلب تحریر تو سمجھ چکے ہیں مگر اپنا عقیدہ بھی تو ثابت کرنا ہے۔ سنیئے اس عبارت کو مکمل پڑھ تو لیں تاکہ آپ کو علم حاصل ہو کہ یہاں کس فرشتہ کا ذکر ہے جس کے متعلق فرمان ہے کہ اس کا نازل ہونا بند ہے، وہ فرشتہ جو انبیاء علیہم السلام پر وحی لاتا ہے یعنی کہ جبرئیل علیہ السلام۔ میں نے تو کمنٹ میں لکھا بھی تھا کہ جناب مرزا صاحب اپنے اوپر جبرئیل علیہ السلام کے نزول کے دعویدار ہیں تو پتا نہیں سلطان صاحب نے کس بات کو ہر یک فرشتے کے انکار نزول پر ڈال دیا۔
مربی صاحب:
(ابن عربیؒ کے حوالہ کہ انبیاء و رسل والی وحی بند ہو چکی کے جواب میں)
یہاں جبرائیل علیہ السلام کے نہ آنے کا کہاں لکھا ہے؟
جوابِ راقم:جناب انبیاء عزام اور رسل پر وحی کون لاتا ہے؟ ہمارے نزدیک تو جبرئیل لاتے ہیں آپ کا علم نہیں، مرزا صاحب نے اپنے فرشتوں کے متعدد نام بتلائے۔
مربی صاحب: میں نے کہاں انکار کیا ہے یہاں تو خاص وحی کی بات کی گئی ہے جو شریعت والی ہے صرف وہ نہیں آنی جبرائیل علیہ السلام کے نہ آنے کا تو کہیں ذکر نہیں۔
جوابِ راقم:تحریر دوبارہ پڑھ لیں۔ آپ کا معنی شاید آپ کے علاوہ اور کسی نے سمجھ میں آئے۔ جب فرشتہ وحی و نبوت جو نبی اور رسول سے خاص ہے وہ بند ہو چکا ہے تو آپ کی تاویل بے کار ہوئی۔ کیونکہ آپ کے عقیدہ کے مطابق جبرئیل کا غیر تشریحی نبوت کا لانا لازم ہے۔
مربی صاحب:یہ مطلب میرا نہیں بلکہ اوپر میرا والا حوالہ پڑھیں, وہاں شریعت کے تابع نبی کے آنے کا لکھا موجود ہے آپ اس نبی کے لفظ کی تاویلیں کریں تو آپ کی مرضی۔
راقم:جناب تاویل آپ کی غلط ہے۔ شیخ ابن عربیؒ کی اس تحریر کے بعد اب حضور ﷺ کے بعد کسی کا نبی بننا ہی محال ہو چکا ہے۔
مربی صاحب: یہ آپ کا عقیدہ ہے مگر بنا دلیل کے ورنہ اوپر جو حوالہ دیا ہے اس میں تو لکھا ہے کہ
إذ كان يكون تحت حكم شريعتي
یعنی شریعت کے تحت نبی
اور حضرت ہارون علیہ السلام بھی شریعت کے تحت نبی تھے۔
راقم:جناب اس حوالہ کا میں نے آپ سے سکین مانگا تھا۔ ثانیاً ابن عربی ؒ کا قول:
"جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر(وحی لے کر)نازل ہوتا تھا وہ بند ہو چکی ہے اور اب کسی کو نبی یا رسول نام دینا ممنوع ہو گیا" یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں
انہوں نے لفظ نبی لغوی اعتبار سے لیا ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ ولی کا آنا جائز ہوا اور نبی و رسل جن پر وحی شریعت ہوتی ہے وہ نہ رہی۔ ابن عربیؒ کی تو کئی اور تحاریر اسی بات پر شاہد ہیں الحمد اللہ
مربی صاحب:میں نے آپ سے کہا نا کہ آپ کی پہلی منطق ہی غلط ہے تو اگے کیا بات آپ کو سمجھ آئے گی
ایک طرف آپ کہتے ہیں "غیر تشریعی نبی" اور دوسری طرف کہتے ہیں وہ نبی نہیں ہے
خود ہی اسے نبی کہتے ہیں اور پھر خود ہی اسکی نبوت کا انکار کرتے ہیں
پہلے اپنی اس بات کو تو معقول ثابت کر دیں پھر اگلی باتیں خود ہی حل ہو جائیں۔
راقم:
جناب میں نے اوپر واضح الفاظ میں لکھ دیا کہ "غیر تشریعی نبوت" سے کیا مراد ہے۔ آپ کو پتا نہیں سمجھنے میں کیا دشواری ہے۔ انبیاء و رسل کی وحی کو تشریحی کہا جاتا ہے اور جس پر یہ وحی ہو وہ صاحب تشریح اور عرف عام میں اسے نبی کہا جاتا ہے جیسا کہ اوہر میں کہہ چکا۔ دوسری غیر تشریحی جس میں اولیاء و صوفیاء اور مومنین کی وحی(الہام و کشوف وغیرہ) جس پر یہ ہو وہ عرف عام میں مذکورہ طبقات میں سے ہوتا ہے اور اسکو غیر تشریحی وحی/نبوت کو وحی ولایت یا ولایت کہا جاتا ہے۔ امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ ثانی الذکر امت میں عام ہے جبکہ اول الذکر بند ہو چکی ہے۔ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی لکھا کہ"کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس کو(بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) اللہ سبحانہ شریعت کا حکم دے کر لوگوں کی طرف بھیجے"۔ جناب فرمائیں گے کہ یہ کیسے غیر معقول ہے؟ جناب یہی کہنا ہے ابن عربیؒ کا کہ انبیاء کے ساتھ خاص نبوت بند ہو چکی ہے۔ جیسا کہ اوپر حوالہ مذکور ہے۔
مربی صاحب:
جناب آپ کو میں حوالے کے ساتھ ثابت کر چکا ہوں کہ یہ عقیدہ اُمت مسلمہ کا نہیں ہے, بہت سے ایسے لوگ ہیں جو آپ کے قانون کے مطابق مسلمان ہیں مگر اُن کا "غیر تشریعی نبی" کے بارے میں یہ عقیدہ نہیں ہے پھر بھی اگر آپ یہی لیکھیں گے تو یہ بات جھوٹ ثابت ہو چکی ہے اور جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہے
پھر آپ سے میں نے اب یہ نہیں پوچھا کہ "غیر تشریعی نبوت" سے آپ کیا مراد لیتے ہیں, میں اب اچھی طرح آپ کا عقیدہ سمجھ چکا ہوں
میں نے یہ کہا ہے کہ ایک طرف آپ اس کے لئے (غیر تشریعی) نبی کا لفظ استعمال کر رہے ہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ اس کو نبی نہیں کہا جا سکتا؟
یہ بات بلکل خود اپنے آپ کو جھٹلا رہی ہے
مثلاً ایک آدمی ہاتھ میں آم پکڑ کر کہے کہ یہ "لنگڑا آم" ہے اور ساتھ ہی کہے کہ اسے "آم" نہیں کہا جا سکتا
پھر آپ یہ بھی بتا دیں کہ "تشریعی نبی" کی کیا تعریف کرتے ہیں اور وہ تعریف کہاں سے لی ہے۔
راقم:
جناب والا یہی میں نے جتنی تفصیل سے اس کو بیان کیا پھر بھی آپ لنگڑے آم میں پھنسے ہیں میری طرف سے معذرت۔ "دوسری طرف کہتے ہیں کہ اس کو نبی نہیں کہا جا سکتا؟" جناب اوپر میں نے عرف عام بھی لکھا۔ کیونکہ عرف عام نبی سے مراد صاحب تشریح کو ہی لیا جاتا ہے۔ تشریعی نبی کی آپ نے تعریف کہاں سے لی تو جناب اوپر کئی حوالاجات سے میں یہ بات بتلا چکا ہوں کہ یہ بات کدھر سے لی گئی۔
مربی صاحب:
اگر ہر نبی کو تشریعی نبی کہیں گے تو پھر تشریعی نبی کی کوئی تعریف کی ہی نہیں جا سکتی, پھر تو صرف نبی کی تعریف کی جائے گی
اوپر کس حوالے میں تشریعی نبی کی تعریف لکھی ہوئی ہے؟ وہاں تو صرف تشریعی نبی کے نہ آنے کا ذکر ہے اور ایسی نبوت کے جاری ہونے کا جو حضور ﷺ کے تابع ہو (آپ خواہ اسے جو بھی نام دیں) اور پہلے نبیوں میں حضرت ہارون علیہ السلام بھی ایک نبی کے تابع تھے, ان پر بھی کوئی شریعت والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی لیکن وہ نبی تھے۔
راقم:
جناب میرے یہ دو کمنٹ دیکھ لیں۔
مربی صاحب:
پڑھنے کے بعد ہی پوچھا تھا کہ حضرت ہارون علیہ السلام بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے نبی جو تورات سے فیصلے کرتے تھے, حضرت موسیٰ کی شریعت کے تابع تھے اور ان پر کوئی شریعت والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی ان کو کہاں لے جائیں گے؟وہ بھی پھر آپ کی تعریف کے مطابق نبی نہیں ٹھہرتے۔
راقم:
اگر پڑھ کر سمجھ بھی لیتے تو آپ کا سوال کرنا فضول تصور ہوتا۔ پس ان کی شریعت تورات ہی ہے اور وہ اسی کے بعد موسیٰ علیہ السلام کے حکم ہیں۔
مربی صاحب:
بلکل ان کی شریعت تورات تھی مگر صاحب شریعت وہی ہوتا ہے جسے شریعت دی جاتی ہے, اور شریعت صرف اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے, ایک نبی دوسرے کو صاحب شریعت نہیں بنا سکتا ورنہ تو بہت سے لوگ شریعت کا علم حاصل کرتے ہیں, کیا وہ بھی صاحبِ شریعت ہوں گے۔
راقم:
تو جناب کیا وہ علم خدا کی طرف سے حاصل کرتے ہیں؟ ان کا علم قطعی ہوتا ہے؟ وہ مامور من اللہ ہوتے اور مطاع ہوتے ہیں؟ آپ کہ کیا کہنے آپ کے نزدیک پھر ان میں فرق نہ ہوا۔ ایک نبی نے دوسرے کو کب صاحب شریعت بنایا؟ صاحب شریعت تو اللہ ہی بناتا ہے، چاہے نئی شریعت دے یا پرانی۔
مربی صاحب:
چلیں قرآن سے حوالہ دیں کہ کس نبی کو پرانی شریعت دے کر صاحبِ شریعت بنایا گیا ۔
راقم:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّه...الخ (النساء 4:62)
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
آپ کو مسلم ہے ہارون علیہ السلام کو الگ کتاب شریعت نہ ملی، اب اگر ان کی کوئی شریعت ہی نہ ہو تو وہ مطاع کیسے ہوئے؟ الغرض شریعت موسوی کو ان کی شریعت ہی کہا جائے گا اس وقت کے لئے اور یہی تعلیم ان کی ہو گی جس کی اطاعت کرنی ہو گی اور یہی تعلیم ان کی شریعت ہو گی اور امر و نہی بذریعہ جبرئیل ان پر نازل ہو گی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابھی تک یہ گفتگو ہوئی باقی گفتگو اگر ہوئی تو یہاں انشاء اللہ اپڈیٹ کر دی جائے گی۔