• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانیوں سے فیصلہ کن مناظرہ

غلام نبی قادری نوری سنی

رکن ختم نبوت فورم
قادیانیوں سے فیصلہ کن مناظرہ
نام کتاب : قادیانیوں سے فیصلہ کن مناظرے
ترتیب وتحقیق: مولانا غلام رسول دین پوری/جناب محمد متین خالد
صفحات : ۲۹۶
مطبع : ناصر زین پریس لاہور
ناشر : عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان
Ph: 061-4783486


فہرست
٭…
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
جناب محمد متین خالد
۳
ض…
مناظرہ منصور آباد (فیصل آباد)

۹
ض…
مناظرہ چنگا بنگیال (گوجرخاں)

۳۹
ض…
مناظرہ چھوکر خورد (گجرات)

۵۵
ض…
مناظرہ ایبٹ آباد

۷۹
ض…
مناظرہ چک ۹۸ شمالی (سرگودھا)

۱۳۵
ض…
مناظرہ چک عبداﷲ (بہاول نگر)

۱۴۱
ض…
مناظرہ چناب نگر (ربوہ)

۱۵۷
ض…
مناظرہ جناح کالونی (فیصل آباد)
۱۶۵
ض…
مباہلہ کا چیلنج منظور ہے

۱۷۵
ض…
ایک قادیانی کے چند سوالات اور ان کے مفصل جوابات

۱۹۷
ض…
مولانا اﷲ وسایا کی ایک قیصرانی سردار سے گفتگو

۲۵۷
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں … وہ طوفان
انسان کو جس نے بھی حیوان ناطق قرار دیا تھا، یقینا درست قرار دیا تھا۔ یوں تو بہت سے اوصاف انسان کو دیگر معاصر مخلوقات سے متمیز کرتے ہیں، لیکن وہ وصف جو امتیاز خصوصی کی حیثیت اسے شرف ومجد عطا کرتا ہے وہ ہے اس کی شخصیت کا نطق وبیاں کے زیور سے مرصع ہونا۔ مخلوقات عالم میں انسان وہ واحد مخلوق ہے جس کی زباں، ابلاغ اور اظہار کی فطری اہلیت اور جبلی استعداد رکھتی ہے۔ اس اہلیت اور استعداد کے رنگ کو شوخ وشنگ بنانے میں ’’لفظ‘‘ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ میں تو یہ کہنے کی بھی جسارت کروں گا کہ خالق کائنات کی اوّلین تخلیق ’’لفظ‘‘ ہے۔ انسانی معاشروں میں ایسے انسان ہی منفرد مقام کے حامل ہوتے ہیں جو اس فطری اہلیت اور جبلی استعداد کو بروئے کار لاکر مثبت نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ یوں تو تمام خصائص واوصاف اﷲ ہی نے انسان کو عطاء کئے ہیں، ان میں سے چند چیدہ اور چنیدہ اوصاف جنہیں انسان کو ودیعت کرنے کے عمل کو اس نے اپنی شان رحیمی کا مظہر قرار دیا ہے، ان میں سے ایک قوت بیان ہے۔ ایمانی کیفیات اور روحانی محسوسات رکھنے والی باخبر شخصیات کے نزدیک سورۂ رحمن قرآن پاک کی دلہن ہے، اس سورۃ میں باربار مختلف نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد خدائے رحمن ورحیم انسانوں سے استفسار کرتا ہے، ’’تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘ اس سورۃ کی ابتدائی چار آیات
انتہائی اہم ہیں، جن کا ترجمہ یہ ہے: ’’(۱)وہ رحمن ہے۔ (۲)اس نے قرآن سکھایا۔ (۳)اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ (۴)اس نے اس کو بات کرنا سکھایا۔‘‘
بات کرنا اور سلیقے سے بات کرنا بلاشبہ ایک فن ہے، مجھے کہنے دیجئے کہ یہ عطیات خداوندی میں سے ہے، یونانی تو اسے باقاعدہ Gift of the Gab سے تعبیر کیا کرتے تھے، بات برائے بات تو کوئی بات نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ادھر کوئی لفظ اور جملہ آپ کے ہونٹوں کا الوداعی بوسہ لے، اور ادھر وہ مخاطب اور سامع کے دل میں یوں اتر جائے جیسے صدف کی آغوش میں ابرنیساں کا قطرہ اترتا ہے۔ بات کرنے کا سلیقہ یونہی نہیں آجاتا، یہ سلیقہ سیکھنے کے لئے شائق کو ریاضت اور مشق کی کئی جانکاہ وادیوں کا پرمصائب اور جانگسل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ اوّلین دور میں صرف اور صرف الفاظ ہی سب سے بڑی میڈیائی قوت ہوا کرتے تھے۔ اس دور میں جب انسان قبائلی زندگی بسر کر رہا تھا، قبائل کی تنظیم وتشکیل اور نظام قبائل کا قیام واستحکام ایسے ہی افراد کی مرہون منت ہوا کرتا تھا، جو اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا ڈھنگ جانتے تھے۔ قبائل بات کرنے کے فن سے آشنا فرد ہی کے سر پر سرداری کی دستار رکھا کرتے تھے۔ قبل از اسلام یونانیوں میں ڈیماستھنز، رومیوں میں سسرو اور عرب دنیا میں امراؤ القیس ایسے خطباء کو اہم مقام حاصل تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی خطابت کے پرستار ان کی شخصیت اور فن کی پوجا کیا کرتے تھے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ انسانی ہدایت کے لئے خدا نے ہر بستی میں کوئی نہ کوئی ہادی اور رہبر بھیجا۔ انہیں اسلامی اصطلاح میں رسول، نبی یا پیغمبر کہا جاتا ہے۔ ہر رسول، نبی اور پیغمبر انفرادی واجتماعی خوبیوں کے لحاظ سے اکمل شخصیت ہوتا۔ ہر لحاظ، ہر جہت اور ہر پہلو سے ایک مکمل ترین شخصیت۔ اکملیت ہی ان مکمل ترین شخصیات کو ریاست اور معاشرے کے دوسرے شہریوں پر فوقیت اور برتری عطا کرتی۔ ہر نبی زبردست قوت اظہار کا مالک ہوتا۔ اس کی فصاحت وبلاغت مسلم الثبوت ہوتی۔ عرب فصاحت وبلاغت اور اظہار وابلاغ کے باب میں خود کو باقی اہل عالم سے افضل واعلیٰ گردانتے۔ خاتم الانبیاء حضور سرور عالم محمد عربیa نے زعم زبان آوری اور خبط طلاقت لسانی میں مبتلا ان فصحائے عالم کے روبرو اعلائے کلمتہ الحق کیا… اور … اس ناقابل تسخیر فصاحت وبلاغت میں کیا کہ وہ انگشت بدنداں دکھائی دیے۔ فصحائے عرب کی فصاحت وبلاغت کا نقطہ اختتام حضور ختمی مرتبت(a) کی گفتگو کا نقطہ آغاز ٹھہرا۔ آپa جب بھی لب کشا ہوتے، مجمع ساکت وصامت ہو جاتا۔ آپa کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے ’’جوامع الکلم‘‘ عطا کئے گئے ہیں۔ جہاں تک قرآن کی فصاحت وبلاغت کا تعلق ہے تو اس کا یہ چیلنج چودہ سو چالیس برس سے بدستور برقرار ہے کہ ’’آپ (بطور چیلنج) ان س کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور جن اس پر جمع ہوں کہ اس قرآن جیسا بنالائیں تو وہ اس جیسا ہرگز نہ لاسکیں گے، اگرچہ وہ ایک دوسرے سے مدد لیں۔‘‘ (بنی اسرائیل:۸۸)
ایک دوسرے مقام پر یہ چیلنج ان الفاظ میں دہرایا گیا۔ ’’اور اگر تم اس کلام کی نسبت جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے، شک میں ہو تو اس جیسی ایک سورۃ تم بھی بنالاؤ اور اﷲ کے سوا جو تمہارے مددگار ہیں، ان کو بھی بلالو، اگر تم سچے ہو، پھر اگر ایسا نہ کر سکو اور تم ہرگز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور وہ کافروں کے واسطے تیار کی گئی ہے۔‘‘ (البقرہ:۲۳)
داعی ٔ قرآن کا یہ فرمان بھی اسلام کے ہر داعی کے پیش نظر رہا ہے کہ: ’’بلاشبہ بعض دفعہ بیان میں بھی سحر ہوتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ ص۴۰۹)

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حضور ختمی مرتبتa کی ختم نبوت کسی بھی دلیل کی محتاج نہیں۔ اس کے باوجود تاریخ کے مختلف ادوار میں ختم نبوت کے ناقابل تسخیر قلعہ میں بعض ’’مہم جو‘‘ سارقوں نے نقب زنی کی کوشش کی۔ ان میں سے ہر ایک کو منہ کی کھانا پڑی۔ ختم نبوت ایک واضح اور شفاف عقیدہ ہے۔ ایک حقیقی مؤمن اس عقیدے کے تحفظ کو اپنی حیات مستعار کا اوّلین فریضہ تصور کرتا ہے۔ قرن اوّل میں صحابہؓ نے منکرین ختم نبوت کے استیصال کے لئے جہاد بالسیف کیا۔ یہ جہاد بعد کے ادوار میں بھی جاری رہا۔ انیسویں صدی کے آخری عشرہ میں برطانوی استعمار نے برصغیر میں مرزاغلام احمد قادیانی نامی ایک طالع آزما شخص کو اپنے مخصوص اہداف وعزائم کے حصول کے لئے اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ اعلان نبوت کرے۔ تب سے جنوب مشرقی ایشیاء کے اس خطے کے پرستار ان شمع ختم نبوت نے تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام شروع کیا۔ بیسویں صدی کے پہلے عشرہ سے ردقادیانیت کا مسئلہ ایک نئے موضوع کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ اس دور کے جید، اکابر اور مستند اعاظم رجال نے اس جھوٹے مدعی ٔ نبوت کے وکیلان صفائی سے مباحثوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان مباحثوں کو ہماری مخصوص مسلم معاشرت میں مناظرے کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔ مناظروں کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ اس تاریخ کی ایک اہمیت بھی ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد جب اس خطے میں برطانوی ملوکیت کا غلبہ قائم ہوگیا تو عیسائی پادریوں نے بلاجواز مسلمانوں کو دعوت مناظرہ دینا شروع کی۔ اس ضمن میں کئی شہرہ آفاق مناظرے ہوئے۔ اسی تسلسل میں قادیانیوں نے بھی اپنے مربی عیسائی حکمرانوں کی روش پر چلتے ہوئے مسلمان اکابرین کو مباہلوں، مجادلوں اور مناظروں کے لئے چیلنج کرنا شروع کیا۔ بسااوقات مسیلمۂ پنجاب مرزاغلام احمد قادیانی کو بھی انگیخت ہوتی اور وہ مسلمانوں کے ایسے دینی، علمی اور روحانی رہنماؤں اور پیشواؤں کو مباہلے اور مناظرے کی دعوت دے بیٹھتے۔ جنہیں اسلامیان برصغیر اپنی ارادتوں اور عقیدتوں کا مرجع جانتے۔ حضرت پیر مہر علی شاہؒ گولڑہ شریف، حضرت پیر جماعت علی شاہؒ، حضرت مولانا احمد حسن امروہویؒ، حضرت مولانا رحمت اﷲ کیرانویؒ اور مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ نے سینہ تان کر اس کی دعوت کو قبول کیا۔ خم ٹھونک کر شیرانہ اور مردانہ وار میدان میں آئے۔ لیکن شغال صفت اور روباہ مزاج مرزاقادیان ہر بار میدان سے روپوش رہا۔ وہ ذہنی طور پر ان بڑی شخصیات کے علمی شکوہ اور فکری طنطنے سے مرعوب اور ہراساں تھا۔ ردقادیانیت اور تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے جو چراغ اکابرین امت نے روشن کیا تھا، ان کے متبعین نے اس کی لوؤں کے طرے کو سربلند رکھنے کے لئے ہر دور میں اپنے خون جگر کا روغن زرتاب فراہم کیا۔ اس موضوع پر انہوں نے کسی بھی قادیانی سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ سنجیدگی، ثقاہت اور علمی متانت کو اپنا ہتھیار بنایا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ اس وضع کے مناظرے نہیں تھے، جس کی ابتداء ایتھنز کے سوفسطائیوں نے رکھی تھی۔ مسلم مناظرین نے لفظی ہیرپھیر سے ہمیشہ اجتناب برتا۔ جب کہ قادیانی مناظر سوفسطائیوں کی پیروی کرتے ہوئے لفظی ہیرپھیر ہی کو اپنا کارگر ہتھیار تصور کرتے رہے۔ قادیانی مناظر لفظی ہیرپھیر کو نامناسب نہیں سمجھتے۔ اس کے برعکس اس دور میں مناظر بے بدل حضرت مولانا اﷲ وسایا صاحب مدظلہ نے ’’ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ‘‘ کو اپنا شعار بنایا۔ قادیانی سوقیانہ پن اور ابتذال کا مظاہرہ کرتے اور مولانا گھر سے یہ طے کر کے آتے کہ کووں کی کائیں کائیں سن کر عندلیب ہزارداستاں نے اپنی روش زمزمہ پیرائی کو ترک نہیں کرنا۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیانی مناظرہ کو مناظرہ نہیں ’’مناقرہ‘‘ (چونچ بازی) سمجھتے ہیں۔ سو! حضرت مولانا اﷲ وسایا صاحب، باطل کے ان وکیلان صفائی کے روبرو حق کے وکیل استغاثہ کے روپ میںپیش ہوتے رہے اور فاتح عیسائیت جناب احمددیدات کی طرح مناظرے کو مقدمہ جان کر ایک ماہر وکیل کی طرح ہر پہلو سے اس کی تیاری کر کے میدان میں اترتے اور انہیں نوک دم بھاگنے پر مجبور کر دیتے۔ میں نے ان کے ایسے کئی مناظرے خود دیکھے اور سنے ہیں۔ بڑے بڑے قادیانی مبلغین ان سے گفتگو کرتے وقت ہچکچاتے، گھبراتے بلکہ سٹپٹاتے دیکھے گئے ہیں۔ جب میں قادیانی مناظرین کو مولانا کے دلائل کی تاب نہ لاکر
میدان سے فرار ہوتے دیکھتا تو بے ساختہ قرآن کی ایک آیت کا یہ ٹکڑا میرے ذہن میں تازہ ہو جاتا۔ ’’جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا‘‘ سچ تو یہ ہے کہ حضرت مولانا اﷲ وسایا صاحب مدظلہ عصر حاضر میں وکیل صداقت ہیں۔ وکیلان صداقت ہی کو اکثر قتیلان صداقت ہونے کا اعزاز وافتخار حاصل ہوا کرتا ہے۔ حضرت مولانا اﷲ وسایا، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کے خون شہادت سے روشن شاہراہ پر جرأت مندانہ اور دلاورانہ انداز میں گامزن ہیں۔ ان کا لسانی، قلمی اور عملی جہاد جاری وساری ہے۔
’’قادیانیوں سے فیصلہ کن مناظرے‘‘ ایسے ہی حقائق آفریں اور چشم کشا مناظروں کی فکر انگیز روداد ہے، میں تو اسے اردو میں دینی ادب کی ایک منفرد رپورتاژ سے تعبیر کرنے پر مجبور ہوں۔ حضرت مولانا اﷲ وسایا کی سادہ لیکن علمی گفتگو، سلیس مگر دلوں میں اتر جانے والے طرز استدلال کا کمال یہ ہے کہ یہودیت کے چربہ مذہب، قادیانیت کا بوداپن، بتدریج راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔ بلاشبہ حضرت مولانا اﷲ وسایا، علامہ اقبالؒ کے ان اشعار کی چلتی پھرتی تفسیر ہیں:
ہر لحظہ ہے مؤمن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں، کردار میں، اﷲ کی برہان
ہمسایہ جبریل امین بندہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں
فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا صفت سورۃ رحمن
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان
محمد متین خالد

ض … ض … ض

مناظرہ منصور آباد … فیصل آباد
زیرنظر رپورٹ فیصل آباد شہر کے ایک علاقے منصور آباد میں محترم ڈاکٹر محمد جمیل صاحب کی قیام گاہ پر ہونے والے مناظرے پر مشتمل ہے۔ یہ مناظرہ ۳؍جنوری ۱۹۸۲ء کو مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے مبلغ، برادر محترم مولانا اﷲ وسایا صاحب مرکز ختم نبوت مسلم کالونی (ربوہ) اور مرزائیوں کے ساٹھ سالہ تجربہ کار اور گھاگ مربی (جو مغربی جرمنی میں مبلغ رہ چکے تھے اور فیصل آباد میں ایک سکول چلارہے تھے) تاج محمد بی۔اے علیگ کے درمیان ہوا۔

 

غلام نبی قادری نوری سنی

رکن ختم نبوت فورم
مناظرہ کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ مذکورہ قادیانی مبلغ صاحب کے محترم ڈاکٹر محمد جمیل صاحب سے تعلقات تھے۔ جن کی وجہ سے وہ ڈاکٹر صاحب کے پاس جاکر مرزائیت کی تبلیغ کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے سوچا کہ یہ صرف تصویر کا ایک ہی رخ پیش کر رہے ہیں۔ کیوں نہ مناظرہ ومباحثہ کی صورت پیدا کی جائے۔ چنانچہ باہمی رضامندی سے یہ طے پاگیا کہ کسی دن مجلس مباحثہ مقرر کر لی جائے۔
ڈاکٹر صاحب نے مباحثہ طے ہو جانے کے بعد جامعہ رضویہ جھنگ بازار اور دوسرے مدارس سے رابطہ قائم کیا تاآنکہ کسی نے انہیں جامعہ قاسمیہ غلام محمد آباد کے صدر مدرس حضرت مولانا فضل امین صاحب سے رابطہ قائم کرنے کے لئے کہا۔
انہوں نے مولانا فضل امین صاحب سے ملاقات کی اور سارا ماجرا گوش گزار کیا۔ مولانا نے دو دن کا وعدہ فرمایا اور یہ یقین دہانی کرادی کہ انشاء اﷲ ضرور بالضرور بات چیت کریں گے۔
۲؍جنوری کو محلہ مصطفیٰ آباد میں ختم نبوت کانفرنس تھی۔ جس میں مولانا اﷲ وسایا صاحب نے شرکت کرنا تھی۔ مولانا جب شام کو ربوہ سے وہاں پہنچے تو حضرت مولانا فضل امین صاحب بھی وہاں پہنچ گئے اور مولانا اﷲ وسایا کو بتایا کہ منصور آباد میں مجلس مباحثہ طے ہوچکی ہے۔ لیکن وقت کا تعین نہیں کیا۔ آپ وقت دیجئے تاکہ ڈاکٹر جمیل صاحب کو اس کی اطلاع کر دی جائے۔ مولانا اﷲ وسایا صاحب نے مولانا کو بتایا کہ اور کسی وقت کے تعین کی ضرورت نہیں۔ ’’صبح وہاں چلیں گے۔‘‘
مولانا نے ڈاکٹر صاحب کو اطلاع کر دی۔ اگلے روز مولانا اﷲ وسایا، حضرت مولانا فضل امین صاحب کے ہمراہ ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ پر پہنچ گئے، اور وہاں ایک گھنٹہ تک مرزائی مبلغ سے گفتگو ہوئی۔ اس گفتگو کو ریکارڈ کر لیا گیا تھا۔ جسے راقم نے ٹیپ ریکارڈ سے قلمبند کر کے ذیل میں پیش کیا ہے۔ اسے میں نے ان دنوں قلمبند کر لیا تھا لیکن بوجوہ (سنسر کی وجہ سے) چھپ نہیں سکتا تھا۔ تقریباً سوا سال بعد اسے شائع کیا جارہا ہے۔ اس مباحثہ میں مولانا اﷲ وسایا صاحب نے جہاں علمی گرفت کی، وہاں نزدیک ترین راستہ اپناتے ہوئے زیادہ زور مرزاغلام احمد قادیانی کے حوالوں پر دیا۔
چنانچہ آئندہ صفحات میں آپ دیکھیں گے کہ ان حوالوں کی وجہ سے مرزائی مبلغ پر بری طرح بوکھلاہٹ طاری ہوئی۔ یہاں تک کے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ:
’’مرزاقادیانی نے غلط کہا۔‘‘
’’میں ان کی اس بات کو نہیں مانتا۔‘‘
اور یہ کہ:
’’اس بحث کو چھوڑیں کوئی اور بات کریں۔‘‘
تمہیدی خطاب مولانا محمد فضل امین صاحب
حضرت مولانا محمد فضل امین صاحب نے مرزائی مبلغ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی عیسائی مسلمان ہوتا ہے تو پہلے اسلام کی خوبیاں دیکھتا ہے اور بعد ازاں وہ دونوں (یعنی

اسلام اور عیسائیت) کا تقابلی جائزہ لیتا ہے۔ اسے اسلام میں خوبیاں نظر آتی ہیں تو وہ عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوجاتا ہے۔ آپ یہ کہتے ہیں کہ ’’احمدیت‘‘ ایک سچا مذہب ہے اور آپ ختم نبوت کا انکار کر کے ’’احمدیت‘‘ کے بانی مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں۔ کم ازکم آپ کا یہ فرض تو ہے کہ آپ یہ بتائیں اور ثابت کریں کہ ’’احمدیت‘‘ میں کیا خوبیاں ہیں؟
ہمیشہ کسی مذہب کی خوبیاں ہی انسان کو دوسری طرف لے جاتی ہیں۔ ’’احمدیت‘‘ میں کیا خوبیاں ہیں، وہ کون سا مقناطیسی مادہ اور دلائل موجود ہیں کہ آپ اسلام کو چھوڑ کر اور ختم نبوت جیسے مسلمہ اور اجتماعی مسئلے کا انکار کر کے اس کی طرف چلے گئے؟
مولانا اﷲ وسایا صاحب نے بھی آپ کی ’’احمدیت‘‘ کا مطالعہ کیا ہے۔ اس کے لٹریچر کی روشنی میں انہیں اس مذہب میں عیوب ونقائص نظر آئے اور اس کے بانی مرزاغلام احمد قادیانی کا جو کردار سامنے آیا، اس کی وجہ سے ادھر آنا تو درکنار مولانا اس کی مخالفت پر کمربستہ ہیں اور اسے پوری ملت اسلامیہ کے لئے خطرناک ترین اور گمراہ کن تصور کرتے ہیں۔ تو لہٰذا آپ اپنے مذہب کی خوبیاں پیش کیجئے، مولانا نقائص۔
آپ مجھ سے پوچھیں کہ مولانا! آپ کیوں ختم نبوت کے قائل ہیں؟ اپنے علم اور سمجھ کے مطابق میرا فرض ہے کہ میں دلائل سے ثابت کروں۔ کیونکہ میں حضورa کا ایک متوالا ہوںا ور یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں بتاؤں کہ آقائے نامدار، تاجدار مدینہ، حضرت محمد رسول اﷲa میں کیا خوبیاں اور کیا کمالات تھے۔
آپ اپنے بانی سلسلہ (مرزاقادیانی) کے وہ کمالات اور خوبیاں پیش کیجئے جن کی وجہ سے آپ اپنے رشتہ داروں،قرابت داروں غرض پورے کنبے سے الگ ہوئے اور ان کی دشمنی مول لی اور کئی لاکھ روپے کی جائیداد کا نقصان اٹھایا۔ آخر کچھ خوبیاں دیکھ کر ہی آپ نے ایسا کیا ہوگا۔ جو بات بھی ذہن میں موجود ہے، اسے دلائل سے پیش کریں۔ مولانا اﷲ وسایا، ان کو سنیں گے پھر وہ عیوب اور نقائص آپ کے سامنے پیش کریں گے۔
مرزائی مبلغ تاج محمد بی۔اے علیگ: مجھے صرف یہ دیکھنا ہے کہ میں نے کیوں تسلیم کیا۔ مجھے آپ کے شکوک یا کسی دوسرے سے واسطہ نہیں۔ وہ چاہے غلط ہے یا صحیح میں وہ پیش کروں گا۔
مولانا فضل امین: جو شخص کسی مذہب کو قبول کرتا ہے اس کی نگاہ کمالات پر ہوتی ہے۔ اگرکمالات اور خوبیوں پہ نگاہ ہوگی۔ تبھی تو وہ دوسرے مذہب کو قبول کرے گا۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ دونوں پہلو سامنے آجائیں۔
تاج محمد: میں یہ پیش کرتا ہوں کہ میں نے مرزاقادیانی کو کیوں قبول کیا۔
ڈاکٹر محمد جمیل: دیکھو جی! انہیں اپنے جذبات کا اظہار کرنے دیں۔ جس طریقے سے بھی کریں اور آپ ان کے پوائنٹس نوٹ کر لیں۔ سب نے کہا۔ ’’اچھا تو شروع فرمائیں۔‘‘
مولانا اﷲ وسایا: جی آپ ارشاد فرمائیں۔
تاج محمد: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ نبوت بند ہے۔ قرآن کریم اور مرزاقادیانی نے پیش کیا وہ یہی ہے کہ نبوت جاری ہے۔ شریعت والی نہیں بلکہ بغیر شریعت والی چنانچہ سورۃ حج لے لیجئے، اس میں ہے۔


’’اﷲ یصطفی من الملئکۃ رسلا ومن الناس (الحج:۷۵)‘‘ {اﷲتعالیٰ چنتا ہے رسول فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے۔} اس کو میں نے اپنے پروفیسر کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے بھی یہی کہا ’’چن چکا‘‘ اب نہیں، وہ چونکہ عربی کے پروفیسر تھے۔ میں نے کہا اچھا تو پھر ’’ایاک نعبدو ایاک نستعین (الفاتحہ:۴)‘‘ {ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تیری ہی مدد چاہتے ہیں۔} جس طرح سے یہ ہمیشہ کے لئے ہے، وہ بھی ہمیشہ کے لئے ہے۔ اس طرح سے ایک تو یہ کہ نبوت جاری ہے۔ دوسرے یہ کہ ہم نے خاتم النّبیین کو چھوڑ کر مرزاقادیانی کی نبوت کو کیوں قبول کیا؟ یہ نہیں ہم نے خاتم النّبیین کو نہیں چھوڑا۔ بلکہ ہم نبی اکرمa کو خاتم النّبیین مانتے ہیں۔ لیکن خاتم ’’بمعنی بند کرنا‘‘ عربی میں آج تک استعمال نہیں ہوا اور خاتم کا لفظ جہاں کہیں بھی استعمال ہوا، وہ نفی کمال کے معنی میں ہے۔ چنانچہ اس وقت عربی زبان میں کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جاسکتی جس میں خاتم بمعنی خاتمہ مراد ہو۔ کم ازکم میرے سامنے آج تک باوجود پوچھنے کے نہیں آئی، ہاں خاتم کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
مولانا اﷲ وسایا: آپ نے دو تین چیزیں بیان فرمائیں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا، ابھی مولانا اﷲ وسایا اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ تاج صاحب پھر بولے۔ ’’دوسری بات یہ ہے۔‘‘ جس پر مولانا اﷲ وسایا صاحب نے کہامیاں صاحب دوسری نہیں فی الحال پہلی سے نپٹ لیں۔ تاج محمد صاحب پھر بولے۔ ایک منٹ،… اور کہا کہ… میرا مطلب جو ہے وہ غلط یا صحیح میں نے جو کچھ سمجھا اپنی سمجھ کے مطابق وہ یہ سمجھا، اب ایک شخص آتا ہے وہ کہتا ہے۔ ’’آپ نے غلط سمجھا۔‘‘ میرے سامنے تو یہی ہے کوئی اور ہو تو میں اس پر غور کروں گا۔
مولانا اﷲ وسایا: آپ نے جو بیان کیا میں نے اس میں سے تین چیزیں نوٹ کی ہیں۔
۱…
آپ نے قران مجید کی ایک آیت پڑھ ڈالی جس سے ثابت کرنا چاہا کہ نبوت جاری ہے۔
۲…
دوسرے آپ نے ارشاد فرمایا کہ خاتم النّبیین کا جو ترجمہ ہے آخری، یہ کسی جگہ نہیں۔
۳…
تیسرے آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضور اکرمa کو چھوڑ کر مرزاغلام احمد کو نہیں مانا، حضورa کی اتباع میں تسلیم کیا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنی معلومات کی حد تک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یا تو آپ نے مرزاصاحب کے لٹریچر کا مطالعہ نہیں کیا، اگر کیا ہے تو اس پر غور وفکر کی زحمت گوارا نہیں کی۔
آپ کی جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور اکرمa آخری نبی ہیں، ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اختلاف مرزاغلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت سے ہوا۔
یہ آپ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضورa سے لے کر مرزاقادیانی تک کسی کو نبوت نہیں ملی۔ میں یہ کہتا ہوں جیسا کہ آپ کہتے ہیں کہ اگر نبوت جاری ہے تو اس عرصہ چودہ سوسال میں کسی اور کو ضرور نبوت ملتی اور آپ یہ بھی بیان کرتے ہیں۔ بلکہ آپ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ


مرزاغلام احمد قادیانی کے بعد بھی قیامت تک کسی اور کو نبوت نہیں ملے گی۔ ایسے میں اختلاف یہ نہ ہوا کہ نبوت بند ہے یا جاری ہے؟
ڈاکٹر جمیل صاحب: مولانا! ان کا عقیدہ ہے کہ نبوت جاری ہے۔
مولانا اﷲ وسایا: نہیں ڈاکٹر صاحب! آپ ان سے کہلوائیں کہ غلام احمد کے بعد کوئی اور نبی آسکتا ہے؟
مبلغ تاج محمد صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر مولانا اﷲ وسایا صاحب بولے گویا تمہاری کتابوں کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ:
حضورa آخری نبی ہیں یا مرزاغلام احمد قادیانی؟ نبوت ہمارے نزدیک حضورa پر بند ہے اور آپ کے نزدیک مرزاقادیانی پر بند ہے، اس صورت میں اختلاف یہ سامنے آیا کہ ’’ہم حضورa کو آخری نبی مانتے ہیں اور آپ مرزاقادیانی کو۔‘‘
میرا خیال ہے اور اپنے لٹریچر کی بنیاد پر آپ بھی انکار نہیں کریں گے کہ چودہ سو سال کے اندر آپ سوائے مرزاغلام احمد قادیانی کے اور کسی کو نبی نہیں مانتے… اور یہ بھی آپ کا عقیدہ ہے کہ مرزاغلام احمد کے بعد قیامت تک اور کوئی نبی نہیں۔
باقی یہ کہنا کہ خاتم النّبیین کا معنی آخری! ختم کرنے والا کسی جگہ نہیں، صحیح نہیں ہے۔ جناب! ایک لفظ میں بولتا ہوں۔ ایک آپ بولتے ہیں۔ آپ کے اور میرے الفاظ کا، مولانا فضل امین صاحب ترجمہ کرتے ہیں۔ ممکن ہے ہمارے الفاظ کے معانی میں مولانا غلطی کر جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی دوسرے صاحب ترجمہ کریں اور وہ بھی غلط کریں۔ لیکن جو لفظ میں نے یا آپ نے بولا ہے۔ اس کا عمدہ ترجمہ میں خود بتا سکتا ہوں۔ کوئی دوسرا نہیں۔ آپ جو لفظ بولیں گے اس کا ترجمہ بھی خود ہی بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔
خاتم النّبیین کا لفظ قرآن پاک میں حضور اکرمa کے بارے میں آیا اور خداوند قدوس نے انہیں پر نازل فرمایا۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ کو میں حضورa کے دروازے پر لے چلتا ہوں جو حضورa ترجمہ فرمادیں، آپ اسے بلا چون وچرا تسلیم فرمالیں۔ پھر جناب مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی ماننے کی وجہ سے شک میں پڑے۔ کیونکہ بقول آپ کے مرزاقادیانی یہ کہتے ہیں کہ خاتم النّبیین کا معنی وہ نہیں۔ بلکہ یہ ہے۔ پھر میں آپ کو آپ کے مرزاقادیانی کے دروازے پر لے چلتا ہوں۔
آئیے! انہیں سے پوچھ لیں کہ وہ خاتم کا معنی کیا کرتے ہیں؟ مرزاقادیانی کہتے ہیں: ’’میں اپنے والدین کے ہاں خاتم الاولاد ہوں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵۷، خزائن ج۱۵ ص۴۷۹)
وہاں خاتم النّبیین کا لفظ ہے۔ یہاں خاتم الاولاد کا لفظ۔ وہ کہتے ہیں کہ فلاں پیدا ہوا پھر فلاں، پھر فلاں اور پھر وہ کہتے ہیں کہ ’’میری ہمشیرہ جنت بی بی نکلی۔‘‘
یہ اس کے اپنے لفظ ہیں۔ میں اس کی خواہ مخواہ کردار کشی نہیں کر رہا۔ بلکہ خود ان کے الفاظ نقل کر رہا ہوں۔ وہ خود یہ کہتے ہیں: ’’پہلے میری ماں کے پیٹ سے وہ نکلی، پھر میں نکلا۔‘‘

آپ تو پڑھے لکھے اور علی گڑھ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ آپ ’’سلطان القلم‘‘ کی اردو کا بھی اندازہ لگالیں۔
ماں…جس کے بارے میں حضور سرور کائناتa نے ارشاد فرمایا کہ اگر انسان جنت تلاش کرے تو یا میدان جہاد میں تلوار کے سائے میں کرے یا ماں کے قدموں میں، اس کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اس میں سے پہلے وہ نکلی پھرمیں نکلا… خیر! مجھے اس سے بحث نہیں مجھے اگلی درخواست کرنی ہے۔ پہلے وہ کہتے ہیں کہ میری ماں کے پیٹ سے جنت بی بی نکلی پھر میں نکلا اور پھر کہا کہ: ’’میں اپنے والدین کے ہاں خاتم الاولاد تھا۔‘‘
یعنی میرے بعد کوئی لڑکا یا لڑکی پیدا نہیں ہوئے۔ یہاں انہوں نے خاتم الاولاد کا معنی آخری کیا ہے۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو یہاں خاتم الاولاد کا معنی لیتے ہو، وہی خاتم النّبیین میں خاتم کا معنی بھی کیا جائے۔
یا تو آپ حضورa سے پوچھ کر خاتم النّبیین کی تشریح قبول کر لیں۔ اگر وہ قبول نہیں کرتے تو اپنے مرزاقادیانی کی تشریح کو قبول کر لیں۔
مرزاقادیانی کہتے ہیں: ’’الا تعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمی نبیناa خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرہ نبیناa فی قولہ لا نبی بعدی‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۳۴، خزائن ج۷ ص۲۰۰)
یہ حمامتہ البشریٰ کی عبارت ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کہتے ہیں کہ خاتم النّبیین کی توضیح وتشریح حضورa نے یہ فرمائی ہے۔ ’’لا نبی بعدی‘‘ غلام احمد قادیانی کی اس عبارت کا یہ مطلب ہے کہ خاتم النّبیین کا وہ ترجمہ صحیح ہے۔ جو حضورa نے کیا ہے اور جو حضورa کے اس ترجمے کو نہیں مانتا وہ بقول ان کے کافر ہے۔ خاتم النّبیین کے معنی والی بات بھی آگئی۔
تاج محمد: نہ، بالکل نہیں۔
مولانا اﷲ وسایا: میں نے ابھی ’’یصطفی‘‘ والی بات کرنی تھی کہ آپ درمیان میں بول اٹھے۔
تاج محمد: نہ… نہ… بہرحال میں اس سے بالکل مطمئن نہیں۔ کیونکہ میں نے یہ کہا تھا کہ عربی زبان میں سے کوئی ایک مثال دیجئے کہ خاتم بمعنی خاتم ہو۔ اس معنی میں کہ خاتم النّبیین لیتے ہیں اور یہ کہ مرزاقادیانی نے اپنے آپ کو خاتم الاولاد کہا۔ یہاں اردو یا فارسی بالکل نہیں، عربی زبان میں پیش کرو۔
مولانا اﷲ وسایا: ’’اولاد‘‘ بھی عربی ہے۔ ’’خاتم‘‘ بھی عربی ہے۔ کیا ’’خاتم الاولاد‘‘ عربی نہیں؟ آپ اتنی بات کہہ دیں کہ مرزاقادیانی نے جو لکھا ہے ’’خاتم الاولاد‘‘ وہ عربی نہیں۔ ہاں کرو، یا نہ کرو۔
تاج محمد: ہاں تو اولاد کی نفی نہیں ہے۔ اولاد کی نفی دنیا میں نہیں ہے۔
مولانا اﷲ وسایا: اچھا تو میاں تاج صاحب! کیا خاتم النّبیین کا یہ معنی ہے کہ حضور(a) مہر لگاتے جائیں گے اور نبی بنتے جائیں گے۔ اگر یہ معنی ہے تو پھر خاتم الاولاد کا بھی یہ ترجمہ کر لو کہ: ’’مرزاقادیانی مہر لگاتے جائیں گے اس کی والدہ بچے جنتی جائے گی۔‘‘
کرو ترجمہ۔ منٹ لگاؤ۔ میں نے ابھی اگلی بات بھی کرنی ہے۔
تاج محمد: میں نے عرض کی ہے۔
مولانا اﷲ وسایا: آپ عرض کر رہے ہیں، میں نے بھی درخواست کی ہے۔ پہلے اس بات کا فیصلہ تو کر لیں۔
تاج محمد: یہ سن لیں یہ عجیب چیز ہے۔
مولانا اﷲ وسایا: کیا ’’خاتم الاولاد‘‘ کا لفظ عربی نہیں؟
تاج محمد: دیکھو! ڈاکٹر صاحب۔
مولانا اﷲ وسایا: افسوس میاں صاحب! آپ میرے جذبات کی قدر نہیں کر رہے۔ میں آپ کے بچوں جیسا ہوں۔ میری آپ سے مخلصانہ درخواست ہے کہ ’’خاتم الاولاد‘‘ کا لفظ عربی ہے یا نہیں؟ بتائیے!
تاج محمد: جی! کیا؟
مولانا اﷲ وسایا: ’’خاتم الاولاد۔‘‘
تاج محمد: ’’خاتم الاولاد‘‘ اردو عبارت میں ہے۔
مولانا اﷲ وسایا: مجھے اردو عبارت سے بحث نہیں۔ ’’خاتم الاولاد‘‘ کا لفظ عربی ہے یا نہیں؟
تاج محمد: دیکھو ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر محمد جمیل صاحب) چونکہ آپ نے مجھے بلایا ہے۔ اس واسطے میں میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ محاورات عرب میں خاتم کے لفظ کا معنی خاتم کبھی استعمال نہیں ہوا۔
مولانا اﷲ وسایا: میاں (تاج) صاحب۔
تاج محمد: نہ نہ نا، نہ نہ نا، میں ڈاکٹر صاحب میں، میں ڈاکٹر صاحب ذرا ٹھہریں میں ڈاکٹر صاحب۔
مولانا اﷲ وسایا: جناب! اگر آپ کو حضور اکرمa کی زبان مبارک پر اعتبار نہیں تو میں آپ کو محاوروں کی طرف لے جاؤں گا۔ اگر آپ مرزاقادیانی کی بات نہیں مانتے تو میں آپ کو لغات والوں کی طرف لے جاؤں گا۔ آپ انکار کر دیں کہ میں حضورa کا ترجمہ نہیں مانتا۔
تاج محمد: میں ڈاکٹر صاحب سے مخاطب ہوں۔
مولانا اﷲ وسایا: ڈاکٹر صاحب! آپ ان سے اتنی بات پوچھیں کہ کیا ان کو حضورa کا ترجمہ پسند نہیں؟ خاتم النّبیین کا لفظ قرآن پاک میں استعمال ہوا۔ حضورa کا ترجمہ غلام احمد کی زبانی ان کی خدمت میں پیش کیا انہوں نے نہیں مانا۔
غلام احمد قادیانی کی عبارت ان کی خدمت میں پیش کی، انہوں نے اسے بھی تسلیم نہیں کیا۔ جس میں مرزاصاحب نے خود کہا کہ خاتم النّبیین کا ترجمہ حضورa نے لا نبی بعدی کیا ہے۔ اس کو مان لو جو اس ترجمہ کو نہیں مانتا وہ کافر ہے۔
 

غلام نبی قادری نوری سنی

رکن ختم نبوت فورم
مولانا فضل امین صاحب: خاتم الاولاد کا لفظ عربی ہے، کوئی کالج کا پروفیسر اس سے انکار نہیں کر سکتا۔
مولانا اﷲ وسایا: ڈاکٹر صاحب! بس تاج صاحب اتنی بات کہہ دیں کہ مجھے حضورa کا ترجمہ اور بعد ازاں مرزاغلام احمد قادیانی کا ترجمہ پسند نہیں۔ میں ان کو لغت کے دروازے پر لے چلتا ہوں۔ تاج صاحب! آپ مجھے جہاں فرمائیں، میں جانے کے لئے تیار ہوں، میں آپ کا خادم ہوں بابا جی!
ڈاکٹر محمد جمیل صاحب: تاج صاحب دیکھئے! دو چیزیں ہیں۔ ایک دلیل سے بات کرنا اور دوسرے بغیر دلیل کے ہٹ دھرمی کرنا۔
تاج محمد: ٹھیک جی… آہو… اچھا۔
ڈاکٹر صاحب: تاج صاحب! مولانا صاحب آئے ہیں۔ ان کو اپنی دلیل، کتابوں کے حوالے، قرآن وحدیث کے حوالے پیش کرکے کہیں کہ میں مطمئن نہیں۔ قرآن اور حدیث کی رو سے، دو ہی ہمارے پاس ’’اہم ترین‘‘ چیزیں ہیں۔ تیسری کوئی چیز نہیں۔ مولانا اﷲ وسایا قرآن وحدیث کی رو سے آپ کو سمجھائیں گے۔ لیکن پھر بھی کوئی مسئلہ رہ جائے تو پھر اس کا حل پیش کریں گے، لیکن آپ گھبرائیں نہ۔ ہر بات بردباری اور تحمل مرزاجی سے کریں۔ بچے گھبرایا کرتے ہیں آپ تو اس سٹیج سے نکل چکے ہیں۔ ماشاء اﷲ! تعلیم یافتہ ہیں۔
مولانا فضل امین صاحب: ہاں تو کیا خاتم الاولاد عربی نہیں، پنجابی لفظ ہے؟
تاج محمد: آپ عرب کے محاورات میں سے مثال دیں کہ اس میں خاتم بند کرنے کے معنی میں استعمال کیا ہے۔
مولانا اﷲ وسایا: بس آپ اتنی بات کہہ دیں کہ مرزاقادیانی نے خاتم الاولاد کا ترجمہ غلط کیا ہے۔
تاج محمد: بائی مینوں گل کرن دیو، کی کردے او پئے سس، سس، سس سب نے کہا اچھا جی! ’’تسیں گل کرو۔‘‘
تاج محمد: دیکھو نہ! یہ کہتے ہیں ’’لا نبی بعدی‘‘ یا جو کچھ بھی یہ کہتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ یہ تو قرآن کی تعلیم کے خلاف ہے۔
مولانا اﷲ وسایا: یہ قرآن کی تعلیم کی خلاف ورزی بھی، مرزاغلام احمد قادیانی نے کی ہے۔
تاج محمد: میں کہتا ہوں جس نے بھی کی۔
مولانا اﷲ وسایا: یہ کہہ دو کہ انہوں نے غلط کہا۔
تاج محمد: دیکھو جی! مجھے یہ بات نہیں کرنے دیتے؟
ڈاکٹر صاحب: اچھا جی! ان کو بات کرنے دیجئے۔
تاج محمد: میں کہتا ہوں کہ جس طرح سے آپ کہتے ہیں اور آپ نے یہ خاتم الاولاد کا لفظ پیش کیا ہے۔ جیسے ’’ضریب‘‘ کا لفظ ہے اردو میں کچھ اور معنی میں، فارسی میں کچھ اور معنی میں اسی

طرح سے خاتم الاولاد۔ میں کہتا ہوں کہ عربی زبان میں کسی عرب نے اس لفظ کو بند کرنے کے معنی میں استعمال کیا ہو۔
ڈاکٹر صاحب: قطع کلامی معاف تاج صاحب! مولانا کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک سب سے اعلیٰ ترین، افضل ترین اور افصح العرب حضور اکرمa ہیں۔ ان کی زبان میں بات کریں۔
تاج محمد: ٹھیک ہے۔ حضور(a) نے جو کچھ فرمایا وہ بالکل بجا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حضور(a) کیا فرماتے ہیں۔
نبی اکرمa نے فرمایا۔ ’’یا علی انا خاتم الانبیاء وانت خاتم الاولیائ‘‘ اے علی میں تو خاتم الانبیاء ہوں اور تو خاتم الاولیاء ہے۔ اپنے چچا حضرت عباسؓ کو فرمایا: اے چچا! میں خاتم النّبیین ہوں نبوت میں اور تو خاتم المہاجرین ہے ہجرت میں۔
ڈاکٹر صاحب: تاج صاحب کیا یہ احادیث ہیں؟ اگر یہ احادیث ہیں تو پھر آپ نے خود ہی مان لیا۔
تاج محمد: جی ہاں! ’’اسیں تے من لیا۔‘‘
میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خاتم کے معنی بند کرنے کے تو نہ ہوئے نہ۔
مولانا اﷲ وسایا: تاج صاحب! آپ نے بحث کو لمبا کر دیا۔
ڈاکٹر صاحب: ایک منٹ مولانا! انہیں اپنا جوش ٹھنڈا کر لینے دیں۔
تاج محمد: میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خاتم، دیکھو ناں… عرض کی کہ خاتم المہاجرین، ہجرت جاری ہے اور آج بھی جاری ہے۔ خاتم الاولیائ… آج بھی ولی ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ جس طرح حضور(a) نے فرمایا کہ میں خاتم الانبیاء ہوں تو خاتم الاولیاء ہے، جس طرح ولایت جاری ہے اس طرح نبوت بھی جاری ہے۔ جس طرح سے ہجرت جاری ہے اسی طرح سے نبوت بھی جاری ہے۔
اچھا… دوسری بات یہ ہے کہ جب قرآن یہ کہتا ہے کہ: ’’خداتعالیٰ چنتا ہے۔ فرشتوں اور انسانوں میں سے۔‘‘ اس کے ہوتے ہوئے اس کے معنی کر دینا ’’لا نبی بعدی‘‘ یہ بند کرنے کے معنوں میں قرآن کی تعلیم کے خلاف ہے۔ بلکہ اس کو ہم مطابقت میں لائیں گے کہ: ’’ایسا نبی جو کہ حضور(a) کی شریعت کو خارج کر دیوے وہ نہیں آسکتا۔ دوسرا آ سکتا ہے۔‘‘
مولانا اﷲ وسایا: افسوس میاں صاحب! میں جس جذبہ وخلوص کے ساتھ حاصر ہوا تھا آپ نے میرے خلوص اور جذبے کی قدر نہیں کی اور بلاوجہ بحث کو طول دے رہے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ آپ مجھے سمجھانے کی کوشش کریں۔
آپ نے خاتم النّبیین کا لفظ بول کر ساتھ ہی یہ ارشاد فرمادیا کہ خاتم النّبیین کا یہ ترجمہ نہیں جو ہم کرتے ہیں۔ میں نے مرزاغلام احمد کی دو کتابوں سے حوالہ پیش کیا۔ ایک کتاب میں وہ وہی ترجمہ کرتے ہیں جو حضورa نے فرمایا یعنی یہ کہ خاتم النّبیین کا ترجمہ یہ ہے کہ حضور(a) کے بعد نبی کوئی نہیں۔ ایک خاتم الاولاد کا محاورہ مرزاقادیانی کی اپنی کتاب سے پیش کیا جو تریاق القلوب میں ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ اردو کا لفظ ہے۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ گو میں غریب آدمی ہوں۔ مولانا فضل امین صاحب، یا ڈاکٹر صاحب میری ذمہ داری دیں گے۔ میں اس شخص کو ہزارروپے





دوں گا۔ جو یہ ثابت کردے کہ خاتم الاولاد کا لفظ عربی نہیں۔ کوئی ماں کا لال جو عربی جانتا ہو یہ کہہ دے کہ خاتم الاولاد جو مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ وہ بند کرنے کے معنی میں نہیں ہے۔
میں یہ کہتا ہوں کہ جو خاتم الاولاد کا معنی ہے، وہی ترجمہ خاتم النّبیین کا کر لو۔ یعنی آخری، لیکن افسوس کہ آپ کو نہ حضورa کا ترجمہ پسند آیا نہ مرزاغلام احمد کا۔ رہی عرب کے محاورے کی بات، میں ایک نہیں، سینکڑوں محاورے پیش کر سکتا ہوں۔ لیکن کم ازکم اتنی بات تو فرمادیں کہ مجھے غلام احمد قادیانی کا ترجمہ پسند نہیں اور حضورa کا ترجمہ بھی پسند نہیں۔ پھر بحث کر کے طے کر لیتے کہ یہ ہے ہمارا تمہارا مشترکہ ترجمہ اور پھر آگے چلتے ہیں۔
اس کے بعد جو حدیث یا کوئی آیت اس ترجمے سے ٹکڑائے گی یا تو ہم اس ترجمے کو بدل لیتے یا پھر اس حدیث کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ افسوس کہ آپ نے کوئی بات نہ مانی۔ کتنے صدمے کی بات ہے کہ حضورa کا ترجمہ بھی قبول نہیں کیا، مرزاغلام احمد قادیانی جس کو نبی مانتے ہیں جس کو مسیح موعود اور مجدد مانتے ہیں، اس کا ترجمہ بھی پسند نہیں آیا… میں ان باتوں کو چھوڑتا ہوں… آپ نے کہا کہ حضور(a) نے خاتم المہاجرین کہا ہے۔ میاں صاحب! خدا سے ڈرو۔ اس وقت آپ کی کافی عمر بیت چکی ہے۔ گور کنارے پہنچ چکے ہیں، یہ لاکھوں یا کروڑوں روپیہ جو آپ نے دنیا میں کمایا، یہ کچھ کام نہیں آئے گا۔ خدا کے لئے احادیث میں تحریف نہ کیا کرو۔ یہ خاتم المہاجرین والی جو حدیث ہے، اس کے بارے میں بخاری شریف میں (امام بخاریؒ ج۲ ص۷۱۵) نے باب فتح مکہ باندھا ہے کہ ’’لا ہجرۃ بعد الفتح‘‘ یہ حضرت عبداﷲ بن عمر سے روایت ہے۔ اب دیکھیں کہ حضرت عباسؓ مکہ مکرمہ سے سب سے آخر میں ہجرت کر کے مدینہ طیبہ جا رہے تھے۔ مدینہ طیبہ سے حضورa فتح مکہ کے لئے تشریف لا رہے تھے۔ حضرت عباسؓ مکہ مکرمہ سے کئی میل دور نکل چکے تو سامنے حضورa تشریف لے آئے، حضرت عباسؓ دیکھ کر غمزدہ ہوگئے کہ افسوس مجھے ہجرت کا ثواب نہیں ملا۔ حضورa نے فرمایا۔
اے عباسؓ تو خاتم المہاجرین ہے اور تیرے بعد مکہ مکرمہ سے کسی نے ہجرت نہیں کرنی۔ مکہ سے ہجرت کرنے والوں میں سے تو سب آخری مہاجر ہے، اس لئے کہ مکہ مکرمہ نے قیامت تک دارالاسلام رہنا ہے۔ ہجرت دارالکفر سے ہتی ہے۔ دارالاسلام سے نہیں۔ یہ ہے مسئلہ۔
تاج صاحب! بحث برائے بحث اور ضد براے ضد نہ کرو، آدھی آیت پڑھنی یعنی ’’لا تقربوا الصلوٰۃ‘‘ (نماز کے قریب نہ جاؤ) کچھ حصہ آیت کا پڑھ لینا اور کچھ نہ پڑھنا، یہ درست نہیں۔ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والوں میں حضرت عباسؓ سب سے آخری مہاجر ہیں، اس واسطے حضرت عباسؓ نے قیامت تک مکہ سے ہجرت کرنے والوں کے لئے خاتم المہاجرین رہنا ہے۔
باقی آپ نے فرمایا کہ حضرت علیؓ کو کہاگیا کہ وہ خاتم الاولیاء ہیں، اس کی کوئی روایت پیش کرتے، کوئی حوالہ دیتے۔ میں حضورa کی روایت پیش کرتا ہوں کہ حضورa جنگ کے لئے تشریف لے جارہے تھے۔ آپa نے فرمایا اے علیؓ! میرے بعد تمام تر نظام کو سنبھالنا اور لوگوں کے فیصلے تونے کرنے ہیں۔ میں جہاد پر جارہا ہوں۔ حضرت علیؓ کے دل میں خیال آیا کہ اپاہج، معذور، بچے، بوڑھے اور عورتیں سب یہاں ہیں، حضورa جہاد پر روانہ ہورہے ہیں۔ میں ان کمزور لوگوں میں ہوں۔ میں جہاد کے ثواب سے محروم رہ جاؤں گا؟ غمزدہ ہوکر حضورa کی خدمت میں پیش ہوئے، حضورa نے فرمایا اے علیؓ ’’انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ‘‘ کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ میں تجھے معذوروں اور اپاہج لوگوں میں چھوڑے جارہا ہوں، یہ بات نہیں بلکہ تیری میرے ہاں حیثیت وہی ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تھی، دونوں خدا کے نبی ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام تشریف لے جاتے تو اپنے بھائی کو اپنا قائم مقام بنا کر جاتے تھے۔ اس سے یہ بات پیدا ہوسکتی تھی کہ موسیٰ علیہ السلام بھی نبی، ہارون علیہ السلام بھی نبی، جس طرح وہاں ایک نبی اپنے جس جانشین کو چھوڑے جارہا ہے وہ نبی ہے تو کیا یہاں بھی یہی صورت ہے؟ فوراً حضورa نے اس کا ازالہ فرمادیا کہ ’’لا نبی بعدی‘‘ اے علیؓ تو میرا انچارج بھی ضرور ہے اور بھائی بھی، لیکن میرے بعد نبی کوئی نہیں۔ یہ حضورa کی حدیث ہے، اب آپ بحث نہ کریں۔ میری آپ کی خدمت میں مخلصانہ درخواست ہے کہ خاتم الاولاد اور خاتم النّبیین کا معنی جب تک کلیئر نہ ہوگا صاف نہ ہوگا آپ اعتراضات کرتے چلے جائیں۔

تاج محمد: اچھا۔
مولانا اﷲ وسایا: آپ نے فرمایا ’’اﷲ یصطفی‘‘ کہ یہ مضارع ہے اﷲتعالیٰ ہمیشہ چنتا ہے اور چنتا رہے گا ہرمضارع استمرار کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ اگر آپ نے یہی ترجمہ کر لیا کہ چن لیا اور چنتا رہے گا تو پھنس جائیں گے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کا ایک الہام ہے وہ کہتے ہیں کہ: ’’یریدون ان یروا طمثک‘‘
’’بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۴۳، خزائن ج۲۲ ص۵۸۱)
یعنی خون دیکھے، کیا اس کا یہ معنی ہے کہ مرزاقادیانی کو خون آتا رہے گا اور بابو الٰہی بخش دیکھتا رہے گا۔ یہ گفتگو شروع ہوئی تو ممکن ہے آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ کیونکہ اس قسم کی باتین اور مرزاقادیانی کی حضورa کی کمال اتباع۔ یہ باتیں میں بعد میں کروں گا۔ میں اس جذبے سے بیٹھا ہوں کہ میری گفتگو کو سمجھنے کی کوشش کرو۔
تاج محمد: اچھا… دیکھو… میں سمجھا۔
مولانا اﷲ وسایا: میں نے کچھ باتیں کرنی تھیں۔ لیکن چلئے آپ ارشاد فرمائیے۔
تاج محمد: جو کچھ میں نے دیکھا۔ ایک تو یہ بات ہے۔ ’’لا نبی بعدی‘‘ یہ صرف جنگ تبوک کے واسطے ہی تھی۔ پھر دیکھو! یعنی جو کہ جو، جو، جو۔
ڈاکٹر صاحب: تاج صاحب! تسیں گل کرو کھل کے کرو۔
تاج محمد: یعنی… وہ نہیں… وقتی طور پر کہ دیکھ بھائی جس طرح ڈاکٹر صاحب کسی کو بٹھا کے جائیں اور کہیں کہ میرے بعد تو ڈاکٹر تو نہیں۔ لیکن میراجانشین ہے میرا سب کچھ انتظام تیرا ہے ۔گویا اسی طرح لا نبی بعدی ہے۔
دوسری بات کہ ہر مضارع… نہیں۔ یہ تو ہر، ہر، ہر۔ یہ کہہ رہا ہے دوسرے خاتم الاولاد آپ نے کہا۔
مولانا اﷲ وسایا: کی کی۔ ایہہ مضارع دی گل نوں کیویں پی گئے او، ہر ہر کر کے وچے چھڈ گئے اونوں مکاؤ۔




 

غلام نبی قادری نوری سنی

رکن ختم نبوت فورم
’’بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ میں تیرا خون دیکھوں۔‘‘
تاج محمد: میں یہ کہتا ہوں کہ اگر انہوں نے کہا جو کچھ انہوں نے (یعنی مرزاقادیانی نے) کہا غلط کہا۔
مولانا اﷲ وسایا: بس بس میاں صاحب اتنی بات نہ کرو اﷲ واسطے۔
تاج محمد: بھیڑیو! گل تے کرن دیو۔ ڈاکٹر صاحب! ایہہ گل نئیں کرن دیندے…
(جب اس نے کہا کہ مرزاقادیانی نے غلط کہا تو مولانا اﷲ وسایا نے فوراً گرفت کر لی جس پر وہ پریشان ہوا)
مولانا اﷲ وسایا: ڈاکٹر صاب! آپ ان سے کہیں کہ بس اتنی بات لکھ دیں کہ غلام احمد نے غلط کہا ہے۔
تاج محمد: ٹھہر جاؤ! گل کرن دیو مینوں۔
ڈاکٹر صاحب: اچھا جی فرماؤ۔
تاج محمد: یہ کہتے ہیں کہ ہر مضارع… گویا اس کا یہ مطلب ہے کہ چنتا ہے۔ اب نہیں چنتا۔ لیکن میں کہتا ہوں باربار قرآن میں آتا ہے۔
’’ماکان اﷲ لیذر المؤمنین علیٰ ما انتم علیہ (آل عمران:۱۷۹)‘‘ مدینہ میں بھی اﷲتعالیٰ آ کے حضورa کو یہ فرماتا ہے کہ: ’’اے مسلمانو! یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اﷲتعالیٰ تمہیں جس حالت میں چھوڑ دے، اس حالت میں کہ تم ہو یہاں تک کہ وہ خبیث اور طیب میں تمیز کرے گا اور تمیز بھی کیسے کرے گا۔ ’’رسول بھیج کر‘‘ پھر مسلمانوں کو مدینے میں آکر یہ کہتا ہے کہ رسول بھیجے گا…‘‘
اسی طرح ’’یصطفی‘‘ مضارع کا صیغہ ہے جس کا معنی یہ ہوگا کہ اﷲ رسول چنے گا… رہا ’’خاتم النّبیین‘‘ تواس میں نفیٔ جنس نہیں نفیٔ کمال ہے۔
دنیا میں اب کوئی نبی نہیں آسکتا۔ بجز آپ کے… خاتم النّبیین میں بھی ایک خاص نفی ہوئی۔ مطلق نبوت کی نفی نہیں، اس طرح سے خاتم الاولاد ہے۔ جس طرح دنیا میں اولاد کی نفی نہیں ہے۔ اسی طرح سے خاتم النّبیین میں نبوت کی نفی نہیں ہے۔ آپ کوئی ایسی بات پیش کرو۔
مولانا اﷲ وسایا: آپ نے حوالہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ میں اپنے والدین کے ہاں خاتم الاولاد تھا۔ ساری دنیا کی نفی نہیں کرتے۔ بلکہ گھر کی بات کرتے ہیں کہ: ’’اپنے والدین کے ہاں میں خاتم الاولاد ہوں۔‘‘
تاج محمد: تو پھر خاص ہی ہوئی نہ نفی جنس تو نہ ہوئی۔
مولانا اﷲ وسایا: تو پھر آپ یہ معنی کر لیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی جیسا تو کوئی نہیں پیدا ہوگا۔ لیکن اس کی ’’ماں اور ضرور جنے گی۔‘‘ یہ ترجمہ کریا یہ ترجمہ کر لو کہ خاتم الاولاد میں خاتم کا معنی مہر ہے۔ مرزاقادیانی مہر لگاتے جائیں گے، ان کی ماں بچے جنتی جائے گی… کیا کر رہے ہیں




آپ، کم ازکم ’’ختم‘‘ کا معنی تو کریں… اور یہ جو آپ کہتے ہیں کہ ’’لا نبی بعدی‘‘ (جنگ تبوک کے) خاص واقعے سے متعلق ہے۔ میری درخواست سنو… (درمیان میں مرزائی مبلغ نے شور مچا دیا) مولانا اﷲ وسایا صاحب نے کہا کہ آپ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ جنگ تبوک کے متعلق ہے، وہاں حضورa نے یہ ارشاد فرمایا کہ: ’’میرے بعد نبی کوئی نہیں، آپ نے قاعدہ کلیہ کے طور پر ارشاد فرمایا ہے۔‘‘
’’اناخاتم النّبیین لا نبی بعدی‘‘ یہاں یہ شبہ پڑ سکتا تھا کہ کوئی بے دین اس سے نبوت کے جاری ہونے کی دلیل نہ پکڑے۔ آپa اس کی تردید فرماتے گئے۔ جس طرح وہاں یہ تھا ’’انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ‘‘ ہارون علیہ السلام بھی نبی تھے۔ یہاں حضرت علیؓ بھی نبی ہوسکتے ہیں۔ فوراً حضورa نے ’’لا نبی بعدی‘‘ اس اشکال کو رفع فرمادیا۔ باقی آپ کایہ کہنا کہ ہر مضارع استرار کے لئے ہے، آپ کو مطمئن رہنا چاہئے کہ میں آپ کو مطمئن کروں گا اور سمجھانے کی کوشش کروں گا۔ آپ سے سمجھوں گا۔
تاج محمد: نہیں، نہیں! آپ میرے پاس تشریف لائیں۔ میں آپ کو سمجھاؤں گا۔
مولانا اﷲ وسایا: میں کروڑ مرتبہ آپ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن پہلے یہاں کا تو تصفیہ کریں۔ آیت میں تو ’’اﷲ یصطفی‘‘ کے بارے میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ مضارع کا صیغہ ہے۔ لیکن یہاں مرزا کی عبارت میں بھی مضارع کا صیغہ ہے۔ آپ ترجمہ کر دیں کہ ’’غلام احمد کو حیض آتا رہے گا اور بابو الٰہی بخش دیکھتا رہے گا۔‘‘
یہاں بھی تو مضارع ہے… میں ابھی اس بحث میں نہیں پڑتا کہ ’’اﷲ یصطفی‘‘ کامعنی کیا ہے۔
تاج محمد: آپ مجھے سمجھائیں۔
ڈاکٹر صاحب: آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔
تاج محمد: جس طرح سے ’’اﷲ یصطفی من الملئکۃ رسلا من الناس (الحج:۷۵)‘‘ میں اس کو انہی معنی میں استعمال کرتا ہوں جن معنی میں الحمد شریف میں استعمال ہوا کہ ’’ایاک نعبد‘‘
ڈاکٹر صاحب: آپ اپنے ذہن سے یہ معنی لیتے ہیں۔ مولانا صاحب آپ سے دلیل سے بات کرتے ہیں۔ آپ مولانا صاحب سے حوالے پوچھو۔ حدیث کے پوچھو، قرآن کے پوچھو، آپ کا اپنا ذہن اپنی جگہ پر بالکل درست ہے۔ لیکن آپ کا ذہن کوئی حرف آخر نہیں، آپ دلیل سے ہٹ کر بات کرتے ہیں۔
مولانا اﷲ وسایا: ڈاکٹر صاحب! میں میاں تاج محمد صاحب سے افہام وتفہیم کی غرض سے بات کر رہا ہوں۔ میں باوضو بیٹھا ہوں اور اس جذبے کے تحت آیا ہوں کہ کوئی آدمی مجھے سمجھائے۔ اگر میرا آپ سے گفتگو کرنے کا موڈ نہ ہوتا تو میں آپ کو ایک منٹ میں بند کر دیتا۔ آپ کا یہ ترجمہ منٹ میں تسلیم کر لیتا کہ اﷲ چنے گا فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے اور بتاتا کہ غلام احمد تو انسان ہی نہیں ہے۔ اس نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ ؎
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار




(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۷، خزائن ج۲۱ ص۱۲۷)
کہتا ہے کہ: ’’میں بندے دا پتر ای نئیں جہیڑی انسان دی سب توں شرم والی جگہ اے میں اوہ ہاں۔‘‘
غلام احمد کو تو آپ ’’بندے دا پتر‘‘ ہی نہیں ثابت کر سکتے۔ چہ جائیکہ اسے نبی ثابت کیا جائے۔
تاج محمد: ہیں، میں، میں ہیں۔ (ہنس کر ٹالنے کی کوشش کی)
مولانا اﷲ وسایا: ہنستے کیوں ہیں، حوالہ موجود ہے۔ حوالہ چاہو۔ بولو، حوالہ پیش کروں۔ اگر یہ حوالہ نہ ہو تو دس ہزار روپے انعام دوں گا۔ کہتا ہے: کرم خاکی…
آپ کی بچیاں ہیں؟ بچیاں میری بھی ہیں، بچیاں سب کی ہوتی ہیں۔ کوئی اپنی نوجوان بچی کے سامنے کتاب کھول کر اس سے کہہ سکتا ہے کہ اس کا ترجمہ کرو۔
ڈاکٹر صاحب: آپ کی کتاب کا حوالہ دے رہے ہیں، اس کا جواب دیں۔
مولانا اﷲ وسایا: آپ مجھ سے کتاب کا حوالہ پوچھیں، مجھے کہیں مولوی صاحب سر کیوں مارتے ہو کتاب کا حوالہ دو۔ اگر حوالہ نہ دوں تو ڈاکٹر صاحب فیصلہ کر کے مجرم بنائیں اور یا پھر تاج صاحب آپ اس کا ترجمہ کریں۔
کہتا ہے… ہوں بشر کی جائے نفرت… میں نے تو ابھی اس کا ترجمہ کیا ہی نہیں۔ میں تو کہتا ہوں تاج صاحب خود ترجمہ کریں۔
تاج محمد: میں آپ کے سامنے قرآن پیش کر رہا ہوں اور آپ مرزاقادیانی… میں مرزاقادیانی… میں کسی کو بھی نہیں مانتا، میںیہ کہتا ہوں کہ قرآن یہ ہے… شور… شور… شور… (سب نے کہا کہ دیکھو مرزاقادیانی سے ہی انکار کر بیٹھے)
مولانا اﷲ وسایا: ڈاکٹر صاحب! میں نے ابھی مرزاقادیانی کا ایک ہی حوالہ پیش کیا اور یہ پکار اٹھے ہیں کہ میں مرزاقادیانی کو نہیں مانتا… انہوں نے تو کروڑ دفعہ مرزاغلام احمد قادیانی سے جان چھڑانے کی کوشش کرنی ہے، وہ تو ان کے گلے کا ہار بن جائے گا۔ آپ اب کیوں مرزاقادیانی کا انکار کرتے ہیں۔ سنو! سرور کائناتa کے تمام تر فرمان میرے سرآنکھوں پر، وہ تم میرے سامنے پیش کرو، میرے ماں باپ میری روح میرا جسم قربان حضورa کے فرمان پر میں اس سے قطعاً انحراف نہ کروں گا؟ اور آپ فوراً بول اٹھے کہ میں غلام احمد کو نہیں مانتا۔ کیوں نہیں مانتے۔ اسے مانو ضرور مانو، میں نے ایک حوالہ دیا اور انکار کر بیٹھے۔ ابھی تو میں پندرہ مرتبہ آپ سے انکار کراؤں گا۔ مزا تو یہ ہے کہ ہمیشہ کے لئے اس مجلس میں اس سے انکار کر کے اٹھو… تو جناب بس اس کا ترجمہ کریں۔ ’’ہوں بسر کی جائے نفرت۔‘‘
تاج محمد: میں صرف… بس بس۔ ایں!
مولانا اﷲ وسایا: ذرا ہمت کرو۔ ایں آں میں وقت ضائع نہ کرو۔




تاج محمد: بات یہ ہے کہ جو کچھ بھی انہوں نے کہا ہے خاتم الاولاد… میں نے کہا کہ وہ نفی جنس نہیں یعنی ہمیشہ کے لئے نہیں… اچھا… جی… آپ نے کہا۔میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں نے آپ کو گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ کیا اور دوسرے ’’لا ہجرۃ‘‘… آپ کہتے ہیں مکہ سے، میں کہتا ہوں ہجرت تو جاری ہے۔
مولانا اﷲ وسایا: ’’لا ہجرۃ بعد الفتح من المکۃ‘‘ یعنی مکہ مکرمہ سے کوئی ہجرت نہیں ہوسکتی۔ میاں صاحب! میری گذارشات کو سمجھنے کی کوشش کرو کہ مکہ مکرمہ نے دارالاسلام رہنا ہے۔ ہجرت دارالاسلام سے نہیں ہوتی، دارالکفر سے ہوتی ہے۔ کافروں کے شہر سے نکل کر مسلمانوں کے شہر کی طرف جانا ہوتا ہے۔ مسلمان تو اپنے شہر میں رہتا ہے۔ اگر کوئی سفر کرے تو وہ اس کا پرائیویٹ سفر ہوسکتا ہے۔ لیکن ہجرت میں شمار نہ ہوگا۔ حضورa کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ: ’’مکہ مکرمہ نے قیامت تک دارالاسلام رہنا ہے۔‘‘
مکہ سے کوئی ہجرت نہیں ہوگی۔ مکہ سے ہجرت کرنے والے واقعی حضرت عباسؓ آخری مہاجر ہیں۔ ان کے بعد مکہ سے نہ کسی نے ہجرت کی اور نہ کسی کو ہجرت کا ثواب ملے گا۔
لیکن میں نے جو یہ گذارش کی ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی جس کے متعلق یہ بحث چل رہی ہے اسے انسان تو ثابت کریں۔ ایک ہی حوالے میں پھنس گئے۔ رہی لغت۔ میں ان کی خدمت میں درخواست کرتا ہوں کہ ’’تاج العروس‘‘ والا یا یہ کوئی لغت کی کتاب لے آئیں۔ خاتم کا معنی ان سے پوچھ لیں۔ وہ اگر اس کا معنی آخری کر دیں تو پھر آپ کی سزا کیا ہوگی؟
چلئے! ’’خاتم القوم ای آخرہم‘‘ لغت کا حوالہ ہے بولو۔
تاج محمد: کیا کیا… تسیں… آں، آں۔ جی، آں۔
ڈاکٹر صاحب: تاج یار گل سن!
جب مولانا گرائمر کے حساب سے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو پھر بھی کیوں نہیں سمجھتے؟
تاج محمد: خاتم کے یہ جو معنی کر رہے ہیں، میں اس سے نفیٔ جنس مراد نہیں لے رہا بلکہ نفیٔ کمال مراد لے رہا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب: تسیں حرف آخر نئیں۔
تاج محمد: میری سنو بھی تو سہی… بھائی۔ ایک شخص کلام سن رہا ہے۔ وہ لیکچر کے معنی کچھ سمجھے گا یا نہیں۔ یعنی تقریر… کچھ تو سمجھے گا۔
ڈاکٹر صاحب: بالکل سمجھے گا۔
تاج محمد: فرض کرو۔ آپ نے خاتم الاولاد پیش کیا ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اولاد کی نفی نہیں ہوئی۔
مولانا اﷲ وسایا: میاں صاحب! آپ نے مرنا نہیں۔ ڈاکٹر صاحب! آپ حوالہ سمجھنے کی کوشش کریں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کہتے ہیں کہ: ’’میرے والدین کے ہاں فلانی فلانی اولاد پیدا ہوئی۔ وہ کہتے ہیں،




پھر پیدا ہوئی، جنت بی بی… اور مرزاقادیانی نے جنت بی بی کا تذکرہ بھی لکھا ہے کہ جس وقت وہ نکلنے لگی تو اس کے پاؤں تھے اور میرا سر تھا… یہ بھی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ ذرا نبی کا کلام ملاحظہ فرمائیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب: ان کی کتاب میں ہے؟
مولانا اﷲ وسایا: ہاں، ہاں! ان کی کتاب میں… ذرا مجھ سے حوالہ تو پوچھیں۔
ڈاکٹر صاحب: کیہڑی کتاب وچ لکھیا ہویا اے۔
مولانا اﷲ وسایا: مسکراتے ہوئے… نہ زورے ورآ پیسے لگن گے۔ یہاں تاج صاحب مداخلت کرتے ہیں… مولانا اﷲ وسایا انہیں کہتے ہیں۔ ’’ذرا ٹھہرتے سہی۔‘‘
تاج محمد: نہیں۔
مولانا اﷲ وسایا: مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ میںنے اس کے پاؤں سے سرملایا ہوا تھا۔ یہ نبی صاحب ہیں… ’’نکلن لگیاں رنگ لائی آندا اے۔‘‘بہرحال وہ کہتا ہے کہ میں اپنے والدین کے ہاں خاتم الاولاد تھا… یہ ساری دنیا کی نفی نہیں کرتا اپنے والدین کے ہاں سے نفی کرتا ہے… میاں صاحب! میں کہتا ہوں مجھ سے حوالہ تو پوچھیں… میں کتاب اس واسطے نہیں لایا کہ یہ انکارکریں اور یہ سمجھیں کہ مولوی کے پاس کچھ نہیں اور اس طرح یہ مجھ پر سوار ہونے کی کوشش کریں، پھر میں ان کو جواب دوں… مجھ سے پوچھیں تو سہی۔ ڈاکٹر صاحب! ان سے پوچھیں کہ کیا انہیں اس حوالے کا علم نہیں؟
ڈاکٹر صاحب: تاج صاحب! اس حوالے کا پتہ ہے؟… تسلیم کرتے ہیں؟
تاج محمد: جی اس کا پتہ ہے تسلیم کرتے ہیں۔
مولانا اﷲ وسایا: وہ کہتا ہے کہ میں خاتم الاولاد تھا یعنی میرے بعد کوئی لڑکی یا لڑکا میرے والدین کے ہاں پیدا نہیں ہوا… یہاں لانفیٔ کمال نہیں۔ اس نے لا نفیٔ جنس ترجمہ کیا ہے… یعنی میں آخری آیا ہوں…
اب یہاں کر ترجمہ… یہاں لا نفیٔ کمال کیسے ہے؟ کہہ دے۔ منٹ لگا… رپھڑ مکا۔
تاج محمد: مولوی صاحب ذراٹھہرو۔ اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے۔
ایک اور صاحب: یہاں ایک اور صاحب بولے جو قادیانی تھے کہ یہ آپ سے خاتم کے معنی ای آخر۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح قومیں ختم نہیں ہوگئیں۔
ڈاکٹر صاحب: تاج! میری بات سن۔ اتنی لمبی بات نہیں، ایک لفظ ہے۔ خاتم… انہوں نے آپ کے سامنے لغات کے حوالے پیش کئے یا تو آپ ان لغات کو تسلیم نہیں کرتے۔
تاج محمد: کس کو؟
ڈاکٹر صاحب: لغات والوں کو۔




تاج محمد: لغات والا ویسے جو کچھ بھی ہے لیکن محاورے میں وہ کبھی غلطی نہیں کر سکتا… ایک چیز ہے جس میں کسی کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا وہ ہے کسی لفظ کا استعمال… یعنی میں کچھ کروں… اسی طرح کوئی معنی آخری کرے… وہ ہوتا ہے لفظ کا استعمال… چنانچہ اسی طرح ان میں ایک خاتم کا ہے جس طرح خاتم القوم سے قومیں ختم نہیں ہوگئیں۔ اسی طرح خاتم النّبیین سے نبوت ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ جاری ہے۔ ایک شخص کہتا ہے۔ ’’ای آخرہم‘‘ وہ اپنی طرف سے کر رہے ہیں۔ جہاں تک استعمال کا تعلق ہے وہ خاتم القوم، خاتم المہاجرین، خاتم الاولاد یہ بالکل نفی نہیں کرتے بلکہ ایک خاص قسم کی نفی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب: یہ آپ کے ذہن سے نفی کرتی ہیں… آپ کا ذہن یہ کہتا ہے میرے ذہن کے مطابق نفی نہیں۔
تاج محمد: جی ہاں۔
ڈاکٹر صاحب: مولانا صاحب آپ کو حوالے دے کر بتا رہے ہیں لغت کے، قرآن کے، حدیث کے، دنیاوی، آپ کے دین کے اور آپ کے مرزاقادیانی کے، لیکن یہ آپ کا ذہن ہے۔ اگر آپ ساری زندگی یہ کہتے رہیں کہ ڈاکٹر میں یہ نہیں مانتا جو مولانا کہتے ہیں… یہ بات نہیں۔ یا تو آپ مولانا صاحب کی بات کی نفی کرو کہ یہ غلط کہتے ہیں، اسے ہم نوٹ کر لیتے ہیں۔ کوئی اور مولانا صاحب سہی، پھر اگلی بات یہ کہ آپ حوالہ دیں قرآن اور حدیث کا ہم اسے نوٹ کر لیتے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لئے کوئی اور مولانا سہی۔ لیکن یہ بات ٹھیک نہیں۔
تاج محمد: مولانا صاحب آپ ساری باتیں غلط کرتے ہیں میں ہی ٹھیک کرتا ہوں۔
کوئی عربی زبان سے محاورہ پیش کرو، آپ خواہ مخواہ بات کو بڑھائے جارہے ہیں۔
مولانا اﷲ وسایا: میں نے انہیں لغت تاج العروس کا حوالہ دیا اور خاتم القوم کا محاورہ پیش کیا۔ لیکن انہوں نے نہیں مانا۔ لغت والے اس کا ترجمہ کرتے ہیں۔ ’’ای آخرہم‘‘ یہ ترجمہ تمام لغت والوں نے کیا ہے۔ لغت والے نہ تیرے رشتہ دار نہ میرے، وہ غیرجانبدار ہیں۔ انہوں نے ادب کی خدمت کرنی ہے۔ میاں تاج صاحب نے اس سے بھی انکار کر دیا؟
چلئے! میں کہتا ہوں ’’خاتم القوم ای آخرہم‘‘ کر ترجمہ اس کا نفیٔ جنس ہے یا نفیٔ کمال ہے… خاموشی…
مولانا اﷲ وسایا: کر نہ کوئی ترجمہ… مکا رپھڑ۔
تاج محمد: ذرا بات کرنے دیں… آرام سے… ڈاکٹر صاحب! ’’خاتم القوم‘‘… کیا قومیں ختم ہوگئیں؟
مولانا اﷲ وسایا: استغفراﷲ!
تاج محمد: عجیب بات ہے… کیا کر رہے ہیں آپ… ایک شخص کے پاس… خاتم القوم۔
مولانا فضل امین: آگے تو کہیں وہاں ہے ’’ای آخرہم‘‘
 

غلام نبی قادری نوری سنی

رکن ختم نبوت فورم
تاج محمد: آپ ذرا میری بات سنیں… میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کیا دنیا سے قومیں ختم ہوگئیں… کیا لغت سے بھاگا جاسکتا ہے۔ میں عربی ٹیچر ہوں۔ میں بھی استاد ہوں… اچھا! اس طرح سے جس طرح سے ’’خاتم القوم‘‘ ہے۔
مولانا اﷲ وسایا: ازراہ مزاح! استاد جی واسطہ رب دا غلط سبق نہ پڑھائیو! ’’خاتم القوم‘‘ کا ترجمہ لغت والوں نے کیا ہے آخری۔ یہ معنی کسی لغت والے نے نہیں کیا کہ ’’قومیں ختم ہوگئیں۔‘‘ اس لئے کہ قوموں کے ختم ہونے کا سوال نہیں۔ ورنہ لفظ ختم الاقوام ہوتا تب تو قومیں ختم ہوگئیں ترجمہ ہوتا، یہاں خاتم کا لفظ مفرد کی طرف مضاف کیا ہے۔ یعنی قوم کی طرف مضاف کیا کہ یہ شخص قوم کا آخری ہے۔ اقوام جمع کی طرف ہیں۔ بلکہ یہ لفظ ’’خاتم‘‘ لکھ کر اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ… آخری۔ اسی طرح خاتم النّبیین کا معنی ہے آخری کہ حضورa آخری نبی ہیں… آگے چل… یہ لغت ہے کر ترجمہ حضور کو نہیں مانا اب لغت پیش کر رہا ہوں کر ترجمہ ’’خاتم القوم ای آخرہم‘‘
ڈاکٹر صاحب: تاج صاحب! آپ میرے بچے کو پڑھاتے ہیں، اسے کسر کا پتہ نہیں یاد ہے آپ کو۔ تو آپ نے کہا، پتہ کیسے نہیں میں ابھی سمجھا کے جاتا ہوں۔
چنانچہ آپ نے وہ سمجھائی اور اسے پتہ چلا کہ کسر کسی چیز کا حصہ ہے۔ اسی طرح مولانا صاحب آپ کو لغت کا، ان کے لفظی معنی اور بامحاورہ معنی کو سمجھا رہے ہیں۔ پھر آپ کیوں نہیں سمجھتے؟
تاج محمد: ٹھہرو ذرا بات سنو! ایک ہوتی ہے بحث برائے بحث۔
ڈاکٹر صاحب: یہ آپ کی تو بحث برائے بحث ہے۔
تاج محمد: ٹھہرو سنو! خدا کی قسم یہ میرے ہاتھ میں قرآن ہے۔ میں بحث برائے بحث نہیں کرتا جو میری سمجھ میں آرہا ہے میں وہ کہہ رہا ہوں۔
مولانا اﷲ وسایا: اچھا تو آپ وہی بات کہہ رہے ہیں جو آپ کی سمجھ میں آرہا ہے۔
تاج محمد: جی۔
مولانا اﷲ وسایا: اﷲ واسطے مجھے اتنی بات سمجھا دو کہ مرزاقادیانی جو کہتے ہیں کہ…
’’میں بندے دا پتر نہیں۔‘‘
اس کا ترجمہ کیا ہے جو آپ کی سمجھ میں آئے، وہی ترجمہ کر دیں۔ چلئے میں آپ کی سمجھ کو مانتا ہوں۔ کیجئے اس کا ترجمہ کیا کہتا ہے؟
کرم خاکی ہوںمرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
تاج محمد: یہ ایک عاجزی کا انتہائی درجہ ہے۔

مولانا اﷲ وسایا: آپ بھی ذرا اس عاجزی کا اظہار فرمائیں اور کہہ دیں کہ: ’’میں بندے دا پتر نئیں۔‘‘ کریں عاجزی، میرے نبیa نے جو انکساری فرمائی، میں ڈاکٹر صاحب اور ہم جتنے مسلمان بیٹھے ہیں ایک دفعہ نہیں وہ ہم کروڑ مرتبہ انکساری یا عاجزی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جو حضورa نے لفظ ارشاد فرمائے ہیں وہ کروڑ مرتبہ دہرانے کے لئے تیار ہوں… جو غلام احمد قادیانی نے کہا آپ بھی کہیں۔ اس نے کہا ہے… کرم خاکی… اور… نہ آدم زاد… آپ بھی عاجزی کر کے یہ کہہ دیں کہ بندے دا پتر نئیں… کر عاجزی… چاچا آپ تو ٹیچر ہیں میں تو تیرے شاگردوں جیسا ہوں۔
تاج محمد: انہوں نے کہا ہے ’’خاتم القوم‘‘ کے معنی ’’ای آخرہم‘‘ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح قومیں ختم نہیں ہوگئیں۔
ڈاکٹر صاحب: تاج! میری بات سن۔ اتنی لمبی بات نہیں، ایک لفظ ہے۔ خاتم… انہوں نے آپ کے سامنے لغات کے حوالے پیش کئے یا تو آپ ان لغات کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس میں قوموں کے ختم کی بات نہیں۔ بلکہ جس شخص کو قوم کا خاتم کہا اس کا معنی لغت والوں نے کیا کہ قوم کا آخری۔ قوم کا آخری فرد۔ آنحضرتa انبیاء (علیہم السلام) کے آخری فرد ہیں۔
تاج محمد: کس کو؟
ڈاکٹر صاحب: لغات والوں کو۔
تاج محمد: لغات والا ویسے جو کچھ بھی ہے لیکن محاورے میں وہ کبھی غلطی نہیں کر سکتا… ایک چیز ہے جس میں کسی کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ وہ ہے کسی لفظ کا استعمال… یعنی میں کچھ کروں… اسی طرح کوئی معنی آخری کرے… وہ ہوتا ہے لفظ کا استعمال… چنانچہ اسی طرح ان میں ایک خاتم کا لفظ ہے جس طرح خاتم القوم سے قومیں ختم نہیں ہوگئیں۔ اسی طرح خاتم النّبیین سے نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے۔ ایک شخص کہتا ہے ’’ای آخرہم‘‘ وہ اپنی طرف سے کر رہے ہیں۔ جہاں تک استعمال کا تعلق ہے وہ خاتم القوم، خاتم المہاجرین، خاتم الاولاد یہ بالکل نفی نہیں کرتے۔ بلکہ ایک خاص قسم کی نفی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب: یہ آپ کے ذہن سے نفی کرتے ہیں… آپ کا ذہن یہ کہتا ہے میرے ذہن کے مطابق نفی نہیں۔ بلکہ قوموں، اولادوں اور مہاجرین کے ختم کی بحث نہیں بلکہ جس شخص کو خاتم کہا وہ آخری ہے۔ یہ لغت کا فیصلہ ہے۔
تاج محمد: جی ہاں۔
ڈاکٹر صاحب: مولانا آپ کو حوالے دے کر بتا رہے ہیں لغت کے، قرآن کے، حدیث کے، دنیاوی۔ آپ کے دین کے اور آپ کے مرزاقادیانی کے۔ لیکن یہ آپ کا ذہن ہے اگر آپ ساری زندگی یہ کہتے رہیں کہ ڈاکٹر میں یہ نہیں مانتا جو مولانا کہتے ہیں… یہ بات نہیں یا تو آپ مولانا کی بات کی نفی کرو کہ یہ غلط کہتے ہیں، اسے ہم نوٹ کر لیتے ہیں۔ کوئی اور مولانا صاحب سہی، پھر اگلی بات یہ کہ آپ حوالہ دیں قرآن اور حدیث کا ہم اسے نوٹ کر لیتے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لئے کوئی اور مولانا سہی، لیکن یہ بات ٹھیک نہیں۔ آپ بلاوجہ کہتے رہیں میں نہیں مانتا۔ نہیں مانتا تو اس کا کیا علاج ہے کہ مولانا صاحب آپ ساری باتیں غلط کرتے ہیں۔ صرف میں ہی ٹھیک کہتا ہوں۔
تاج محمد: نہیں، نہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں نے ایک دلیل پیش کی ہے…




ڈاکٹر صاحب: یہ ایک ایسی علت ہے جسے ڈاکٹری زبان میں بڑا عجیب سا لفظ سمجھتے ہیں اور یہ اس عمر میں پیدا ہو جاتی ہے… میں آپ کی اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں… میں آپ کی ہر بات مانوں گا۔ لیکن علم کسی کا حرف آخر نہیں… آپ اگر یہ کہیں کہ میں جو کہتا ہوں وہ حرف آخر ہے۔ مولانا جو کہتے ہیں وہ حرف آخر نہیں، انہوں نے پچاس حوالے دئیے آپ نے کوئی حوالہ نہیں دیا… سوال یہ ہے کہ آپ اپنے ذہن کو مطمئن کرنے کے لئے کوئی حوالے پیش کریں… وہ بھی پیش کریں۔ پھر بھی اگر کسی پوائنٹ پر آپ کا ذہن مطمئن نہیں ہوتا تو دوسرے مولانا موجود ہیں۔ لیکن یہ بات غلط ہے کہ آپ ہر بات پر یہ کہیں کہ ’’میں نہیں مانتا۔‘‘
تاج محمد: ذرا ٹھہرو… ایک بات اور سنیں۔
ڈاکٹر صاحب: ایک نہیں ہزار سناؤ۔ لیکن اس کو دلیل کے ساتھ قرآن تیرے پاس ہے۔ اس کی رو سے بات کر، حدیث تیرے پاس ہے اس کی رو سے کر، اس سے پیش کر… اگر آپ کے پاس نہیں تو ہمارے پاس موجود ہے اس سے حل کر۔ پھر اسے سمجھ اور مولانا کو سمجھا۔ میں اسے نوٹ کر لیتا ہوں۔ کسی اور مولانا کو بلالیتے ہیں۔ اگر یہ غلط کہتے ہیں تو دوسرا صحیح کہے گا۔ اگر وہ بھی غلط کہیں گے تو تیسرا سہی۔ کوئی بات حرف آخر نہیں۔
تاج محمد: ٹھیک ہے…
ڈاکٹر صاحب: آپ جو مولانا کی دلیل کو رد کرتے ہیں وہ صرف دلیل سے کر سکتے ہیں، قرآن سے کر سکتے ہیں، حدیث سے کر سکتے ہیں، اپنے مرزاقادیانی کی کتابوں سے کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’’میں نہیں مانتا۔‘‘
تاج محمد: پھر سنو! دیکھو… میں نے… میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے ’’خاتم القوم‘‘ کے معنی یہ کئے ہیں۔ جس طرح قوموں کا خاتمہ نہیں ہوتا، قومیں جاری رہتی ہیں۔ اسی طرح یہ خاتم کا معنی جو ہے نفیٔ جنس نہیں… اچھا۔
ڈاکٹر صاحب: یہ گرائمر… روز پڑھاتے ہو… کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لئے اس کی گرائمر انتہائی ضروری ہے۔ انگریزی، اردو، فارسی، سنسکرت، کوئی زبان بھی لیں۔ گرائمر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔
تاج محمد: ٹھیک ہے۔ ہاں! ٹھیک ہے۔
ڈاکٹر صاحب: اگر آپ یہ کہتے رہیں کہ ’’میں نہیں مانتا۔‘‘ مولانا اﷲ وسایا کہیں کہ میں تجھ سے منواؤں گا… یہ بات نہیں۔ یہ گرائمر موجود ہے۔ ہم عربی کی گرائمریں منگوا لیتے ہیں۔ اس کے لحاظ سے اس کا ترجمہ کریں۔ آخر کسی صورت تو ماننا پڑے گا۔ میں آپ کو نہیں جانے دوں گا چاہے دو دن بھوکے رہو۔
مولانا صاحب جو بات منواتے ہیں وہ نہ مان اور جو کوئی کہتا ہے وہ نہ مان۔ لیکن اس گرائمر کی رو سے جو ترجمہ ہے، وہ ماننا پڑے گا۔ نئیں تو میں نے تینوں نئیں چھڈنا۔
تاج محمد: ٹھیک ہے۔

ڈاکٹر صاحب: میں اپنی زبان سے کوئی مہمل کلمہ بول دیتا ہوں، دوسرا صحیح کلمہ بولتا ہے اس کو کیا کہیں گے؟ یہ آپ کو گرائمر کی رو سے ماننا پڑے گا۔ آپ اپنے شاگردوں کو نمبر دیتے ہیں۔ ہم شاگردہیں۔ کیا ان کے نمبر نہیں دیتے کہ اس بچے نے مہمل کلمہ لکھا ہے، اس بچے نے صحیح کلمہ لکھا ہے۔ یہ حرف کی تعریف ٹھیک لکھی ہے۔ یہ غلط لکھی ہے وغیرہ وغیرہ!
لیکن اس سے انکار نہیں کر سکتے، اگر مولانا صاحب گرائمر نہیں جانتے یا گرائمر کے لحاظ سے نہیں سمجھاتے تو میں دوسرے مولانا کو ابھی منگوا لیتا ہوں، لیکن یہ بات آپ نہیں کہہ سکتے کہ جو میں کہتا ہوں وہ حرف آخر ہے اور جو مولانا اﷲ وسایا کہتے ہیں حرف آخر نہیں۔ وہ آپ کو دلیل سے سمجھاتے ہیں اور آپ کہتے ہیں… ’’میں نہیں مانتا‘‘ یہ غلط ہے۔ دلیل سے اپنے دماغ کے خانے میں ان کی بات کو بٹھانے کی کوشش کرو۔
مولانا اﷲ وسایا: آپ نے حضور اکرمa کی خاتم النّبیین والی آیت کے متعلق یہ ارشاد فرمایا کہ خاتم النّبیین کا معنی آخری نہیں میں نے ابتداء میں آپ سے درخواست کی کہ حضورa سے اس کا ترجمہ پوچھ لیں۔ مدینے والے رحمت عالمa جو اس کا ترجمہ فرمادیں آپ بھی مان لیں، میں بھی مان لیتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب: عکرمہؓ ابوجہل کے بیٹے تھے؟
تاج محمد: ہاں۔
ڈاکٹر صاحب: وہ کہتا تھا کہ حضورa خاتم النّبیین ہیں، میں ان کو مانتا ہوں۔ اس کا ابا الّو کا پٹھا کہتا تھا میں نہیں مانتا… وہ کہے جارہا ہے میں نہیں مانتا۔ اس کا بیٹا مانتا ہے۔ کتنے ہی دلائل اس کے ابے کو دئیے گئے وہ نہ مانا۔ اگر آپ نے نہیں ماننا تو اس کا تو کوئی حل نہ مولانا صاحب کے پاس ہے نہ میرے پاس۔ آپ دلائل سے بات کریں اپنی کتابوں کا حوالہ دیں۔ اپنی احادیث کا حوالہ دیں۔ اپنے پیغمبر کا حوالہ دیں۔ اپنے (ہمارے نہ) اپنے آخری رسول کا حوالہ دیں یا ہمارے آخری رسولa کا دیں بات تو ہے سمجھنے کی، اپنے ذہن میں لانے کی، اپنی عقل میں بٹھانے کی، اپنے آپ کو ہوش میں لانے کی اگر وہ دلیل سے بات کرتے ہیں تو اس کا جواب دلیل سے دیں۔ چلیں!
مولانا اﷲ وسایا: اگر میں خاتم کا معنی وہی تسلیم کر لوں تو یہ بتائیں کہ کیا چودہ سو سال میں کوئی اور حضور(a) کے بعد نبی بنا؟ اس کا جواب دیں۔
تاج محمد: یار ایہدا جواب میرے پاس نئیں۔
ڈاکٹر صاحب: تاج! خاتم النّبیین کا جو ترجمہ آپ کرتے ہیں اس کا یہاں اردو میں ترجمہ لکھیں… ڈاکٹر صاحب کے کہنے سے وہ قران پاک پر ترجمہ لکھنے لگا تو مولانا اﷲ وسایا صاحب نے اسے روکا کہ ’’قرآن پاک کو بطور تختی کے استعمال نہ کریں۔‘‘ چنانچہ انہوں نے لکھا۔
آواز آئی… کی لکھیا؟
مولانا اﷲ وسایا: انہوں نے لکھا ہے۔ خاتم النّبیین کا معنی نبیوں میں سب سے بڑا۔ چلئے اس کے ثبوت کے لئے کوئی آیت پیش کریں۔ کوئی حدیث پیش کریں۔ کوئی لغت کی کتاب پیش کریں۔
تاج محمد: خاتم المہاجرین جو میں نے پیش کیا۔



ڈاکٹر صاحب: یہ آپ نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ قرآن پاک آپ کے پاس ہے، نکال لیں اس میں سے کہ ہے کہیں یہ ترجمہ؟
جتنے بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے، سب نے تاج صاحب پر زور دیا کہ کڈھ کڈھ ایہہ ترجمہ… جلدی کر۔ لیکن خاموشی جواب ندارد۔
مولانا اﷲ وسایا: حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اکرمa تک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے، وہ سب کے سب نسل انسانی میں سے تھے۔ یہ مرزاقادیانی کو نبی مانتے ہیں اور مرزاقادیانی وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ: ’’میں بندے دا پتر ای نئیں۔‘‘
اگر میں نے یہ عبارت غلط پڑھی ہے، ان کی کتاب میں نہیں، ان کی خدمت میں درخواست کرتا ہوں کہ کتاب سے انکار کر دیں… میں مجرم۔
اگر حوالہ نہ دکھاؤں جو چور کی سزا وہ میری سزا۔ یا جو ڈاکٹر صاحب تجویز فرما دیں… میرے واسطے حضورa کی حدیث حجت، تمہارے لئے غلام احمد کا کلام حجت، تم حضورa کی حدیث پڑھو۔ ’’میں تہاڈا منہ چماں۔‘‘ میں غلام احمد قادیانی کی ’’حدیث‘‘ پڑھتا ہوں، آپ مجھے شاباش نہیں دیتے۔ اس کا ترجمہ تو کر دیں۔ اب کیجئے ترجمہ۔
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
اردو ہے، آپ علی گڑھ کے پڑھے ہوئے ہیں۔ کریں ترجمہ یا پھر علی گڑھ کی سندات پھاڑ ڈالیں۔
تاج محمد: بھائی ٹھیک ہے۔ یہ جو چیزیں ہیں، یہ آپ نے کچھ ریفرنس پیش کئے ہیں۔ ان پر غور کروں گا۔
ڈاکٹر صاحب: کر دیں ترجمہ۔
تاج محمد: نہیں… ٹائم دیکھو۔
ڈاکٹر صاحب: ایہہ گل غلط اے! آپ کا کیا مطلب ہے کہ مولانا فارغ ہیں۔
تاج محمد: نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے علم ہوتا تو میں ایک دن فارغ کر لیتا… دیکھو نہ۔
مولانا فضل امین: مولانا اﷲ وسایا صاحب دوسرا حوالہ پیش کریں۔
تاج محمد: نہیں یار نہیں… اس کے لئے مولانا کچھ وقت چاہئے۔
مولانا اﷲ وسایا: میں آپ سے کوئی وقت کی پابندی نہیں لگاتا۔ جو آپ ریفرنس پیش کریں میں سنوں گا۔ آپ پر کوئی پابندی نہیں۔ لیکن مجھ سے ریفرنس سننے کی آپ آمادگی پیدا کریں۔
تاج محمد: میں آپ کا پابند نہیں۔
مولانا اﷲ وسایا: میاں صاحب! آپ ساری دنیا سے یہ کہتے ہیں کہ مولوی ہم سے لڑتے ہیں، کون سا مولوی لڑتا ہے؟ میں نے تو ٹھنڈی ٹھنڈی باتیں کی ہیں۔ کہتے ہیں جی مولوی تو گالیاں نکالتے ہیں… وہ



کون سا مولوی ہے جو گالیاں نکالتا ہے۔ میں نے تو پیار سے گذارشات پیش کی ہیں۔ مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ… ’’میں بندے دا پتر ای نئیں۔‘‘
تاج محمد: ’’یار اس توں علاوہ کوئی ہور گل کر۔‘‘
مولانا اﷲ وسایا: مرزاقادیانی کی اس بات کا مرزائی قیامت تک جواب نہیں دے سکتے۔ پوری دنیا کے قادیانی اکٹھے ہو جائیں، اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ وہ اپنے ہاتھ سے لکھ کے گیا ہے۔
دوسری بات سنئے! عام مسلمان چھوٹے سے چھوٹے مسلمان کسی سے پوچھ لیں اور تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی دھوکے باز نہیں ہوتا، نبی جھوٹ نہیں بولتا۔ فراڈ نہیں کرتا… میری درخواست یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے بیک وقت ایک کام میں دھوکہ اور فراڈ کیا اور فراڈیا نبی نہیں ہو سکتا۔
مرزاقادیانی نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’براہین احمدیہ‘‘ ہے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ مجھے پیسے دیں اور پیسے دے کر مطمئن رہیں میں حقائق اسلام پر ایک کتاب لکھنے لگا ہوں، اس کتاب کی پچاس جلدیں ہوں گی اور ۵۰جلدوں کی یہ قیمت ہے۔ مجھے پیشگی بھیج دو۔ کیونکہ میرے پاس اس کی طباعت کے لئے رقم نہیں ہے… لوگوں نے پیسے دئیے۔ مرزاقادیانی نے ہمت کر کے صرف ایک بڑی موٹی اور ضخیم کتاب چار جلدوں میں لکھ دی اور اسے چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔
حصہ اوّل، دوم، سوم، چہارم، چار حصوں میں چھاپ کر کہنے لگے کہ چار جلدیں آگئیں۔ باقی چھیالیس جلدیں بچ گئیں۔ پیسے پچاس کے لئے اور کتاب چار حصے بنا کر ایک ہی دی۔
کافی عرصہ گزر گیا لوگوں نے خط لکھنے شروع کر دئیے کہ حضرت صاحب کتاب نہیں آئی… مرزاقادیانی خود بھی کہتے ہیں کہ نور الدین نے بھی مجھے خط لکھا کہ یا تو کتابیں پوری کرو یا پیسے واپس کرو۔ لوگ ہم سے بدظن ہیں۔ پھر بھی مرزاقادیانی نے نہ کتابیں پوری لکھیں اور نہ پیسے واپس کئے۔ کافی عرصہ کے بعد پانچویں جلد لکھ دی اور اس میں اعلان کر دیا کہ پچاس اور پانچ میں ایک نقطہ کا فرق ہے۔ لہٰذا پانچ سے وہ وعدہ پورا ہو گیا… حوالہ موجود ہے۔
بات یہیں تک پہنچی تھی کہ مرزائی مبلغ وقت کی قلت کا بہانہ کر کے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجلس برخواست ہوگئی۔ پھر کبھی گفتگو کے لئے تیار نہیں ہوئے۔
(نوٹ: یہ گفتگو ٹیپ ریکارڈ میں محفوظ اور من وعن نقل کی گئی۔ از قلم مولانا محمد حنیف ندیم سہارنپوریؒ)

ض … ض … ض

 

غلام نبی قادری نوری سنی

رکن ختم نبوت فورم
مناظرہ چنگا بنگیال
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغین حضرات کی سہ ماہی میٹنگ میں ۲۶؍شوال سے ۲۶؍ذیقعد ۱۴۲۴ھ تک فقیر (مولانا اﷲ وسایا) کے پروگرام شیخوپورہ، لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، اسلام آباد، چکوال، میانوالی، لیہ اور بھکر کے اضلاع کے لئے طے ہوئے۔ گجرات سے فراغت کے بعد مجھے راولپنڈی جانا تھا۔ درمیان میں جمعرات کا دن ۱۵؍ذیقعدہ ۱۴۲۴ھ مطابق ۸؍جنوری ۲۰۰۴ء سفر کے لئے فارغ رکھا تھا۔ چنگا بنگیال کے محترم جناب پروفیسر محمد آصف کو خط لکھ دیا کہ اس دن آپ کی لائبریری دیکھنے کے لئے حاضر ہونا ہے۔
چنانچہ چنگا بنگیال جانے کے لئے گوجر خان صبح دس گیارہ بجے جمعرات کو حاضر ہوگیا۔ محترم پروفیسر صاحب نے بتایا کہ چنگا بنگیال کے قادیانیوں سے میری رشتہ داری ہے۔ ان سے گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ آپ کا خط ملا تو آج ان سے قادیانیت پر گفتگو رکھی ہے۔ قادیانی اور مسلمان چند رشتہ دار بیٹھک میں جمع ہوں گے۔ قادیانی مربی آئے گا۔ آپ گفتگو کریں گے۔ لیکن ہم نے آپ کانام نہیں بتانا۔ صرف یہ کہہ کر تعارف کرائیں گے کہ ہمارے دوست ہیں اور گفتگو شروع ہو جائے گی۔ فقیر نے عرض کیا کہ میرا آنا اختیاری تھا۔ آپ سے وعدہ نہ تھا۔ کوئی ضروری کام ہو جاتا تو سفر کینسل بھی ہوسکتا تھا۔ آپ نے گفتگو رکھی تو مجھے اطلاع ہونی چاہئے تھی۔ تاکہ سفر یقینی ہو جاتا۔ ورنہ حاضر نہ ہونے کی صورت میں آپ کو پریشانی ہوتی۔ خیرگفتگو کس عنوان پر ہوگی؟ انہوں نے بتایا کہ ہم مرزاقادیانی کے حوالہ سے گفتگو کریں گے۔ پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ میری گفتگو چل رہی ہے۔ میں ہی گفتگو کا آغاز کروں گا۔ جہاں ضروری ہوا آپ شامل گفتگو ہو جائیں گے۔ طے ہوا کہ ظہر کے بعد گوجر خان سے چلیں گے۔ چنانچہ پروفیسر صاحب قادیانیوں کو گفتگو کا پابند کرنے کے لئے چنگا بنگیال چلے گئے۔ ہم حسب وعدہ ظہر کے بعد روزانہ ہوئے۔ لیکن آگے سڑک پر گیس والے کھدائی کر رہے تھے۔ سڑک بند تھی۔ ٹریفک بلاک تھی۔ کچھ پیدل چلنا پڑا۔ ہمیں وہاں پہنچتے پہنچتے عصر ہوگئی۔ عصر پڑھ کر قادیانیوں کے مکان پر حاضر ہوئے اور گفتگو ہوئی۔
فضل احمد: چنگابنگیال کے ایک قادیانی فضل احمد تھے۔ اچھے ذی استعداد عالم تھے۔ طبیعت آزاد پائی تھی۔ ایک کتاب ’’اسرار شریعت‘‘ کئی حصوں میں لکھی۔ مرزاقادیانی کا تعارف سنا، قادیان گئے اور قادیانیت کا طوق پہن لیا۔ الفضل قادیان کے کچھ عرصہ ایڈیٹر بھی رہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ الفضل قادیان کا نام بھی ان کی مناسبت سے الفضل رکھاگیا۔ اسرار شریعت میں انہوں نے اسرار وحکمتیں بیان کی ہیں کہ نمازیں پانچ کیوں ہیں؟ دن کو اتنی، رات کو اتنی، فرض اتنے، سنتیں اتنی، یہ کیوں؟ وغیرہ وغیرہ۔ مرزاقادیانی نے اس اسرار شریعت سے صفحات کے صفحات اپنی کتابوں، اسلامی اصول کی فلاسفی، برکات الدعا، کشتی نوح، نسیم دعوت اور آریہ دھرم میں ان کا نام ذکر کئے بغیر نقل کر کے اسے اپنی تصنیف ظاہر کیا۔
ایک بار قادیانیوں نے ’’کمالات اشرفیہ‘‘ نامی کتابچہ شائع کیا۔ مرزاقادیانی کی کتاب اور حضرت تھانویؒ کی کتاب ’’المصالح العقلیہ! یعنی احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ کے صفحات مقابلہ پر شائع کر کے اعلان کیا کہ مرزاقادیانی کی کتاب پہلے کی شائع شدہ ہے۔ جب کہ حضرت تھانویؒ کی کتاب بعد کی ہے۔ ثابت ہوا کہ حضرت تھانویؒ نے مرزاقادیانی کی کتابوں کے صفحات کے صفحات لے کر اپنی کتاب میں شائع کئے ہیں۔ اس انکشاف پر کہرام قائم ہوگیا۔ یہ قادیانی دجل کا شاہکار تھا کہ حضرت تھانویؒ کو مرزاقادیانی کی کتابوں سے سرقہ کرنے والا ظاہر کیاگیا۔ اﷲتعالیٰ نے کرم کیا کہ ہمارے مخدوم حضرت مولانا علامہ خالد محمود صاحب نے اسرار شریعت پڑھی ہوئی تھی۔ انہیں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی دفتر سے کتاب اسرار شریعت مل گئی۔ جب انہوں نے اس کتاب اور حضرت تھانویؒ کی کتاب کا تقابل کیا کہ فضل احمد چنگا بنگیال کے جب مسلمان تھے، یہ کتاب اسرار شریعت لکھی تھی۔ حضرت تھانویؒ نے اپنی کتاب میں اس سے عبارات نقل کیں اور
مرزاقادیانی نے بھی اسرار شریعت سے نقل کی۔ اسرار شریعت حضرت تھانویؒ کی کتاب اور مرزاقادیانی ملعون کی کتاب سے پہلے کی تصنیف کردہ ہے۔ دونوں نے اس کتاب سے اقتباس لئے۔ لیکن:
۱…مرزاقادیانی نے اس کتاب اسرار شریعت سے اقتباس لئے، لیکن ان کا حوالہ نہ دیا۔
۲…مرزاقادیانی نے ان اقتباس کو اپنی کتاب میں سمو کر اپنی تصنیف بتایا۔ یہ اس کی بددیانتی کا کھلا شاہکار تھا۔ لیکن اس کے مقابل پر حضرت تھانویؒ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں واضح طور پر لکھ دیا کہ مجھے ایک کتاب (اسرار شریعت) ملی ہے۔ اس میں رطب ویابس سب کچھ ہے۔ اس سے بعض چیزیں میں اپنی کتاب میں نقل کر رہا ہوں۔ حضرت تھانویؒ کی کمال دیانت اور مرزاقادیانی کے کمال دجل کا پول حضرت علامہ خالد محمودصاحب نے کھولا تو قادیانی امت بوکھلا گئی۔ قادیانیوں کی کمال عیاری اور کمال کذب کو دیکھ کر دنیا حیران رہ گئی کہ قادیانی کس طرح ناواقف لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ؎
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا
یہ مولوی فضل احمد بعد میں ترقی کر کے خود مدعیٔ الہام ومدعیٔ نبوت ہوگئے۔ چنانچہ خود کئی رسالے لکھے۔ جن میں اپنے الہام شائع کئے۔ قرآن مجید میں جہاں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہے کہ آپ (موسیٰ علیہ السلام) جاکر فرعون کو ڈرائیں۔ فضل احمد نے ان آیات کو اپنے اوپر نازل شدہ بتا کر اپنے آپ کو موسیٰ اور چنگا بنگیال کے رہائشیوں کو فرعون قرار دیا۔ ’’وغیرہ ذالک من الہفوات‘‘ مرزاقادیانی کی دیکھا دیکھی اور بھی قادیانیوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ ان میں ایک فضل احمد بھی تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ فضل احمد نے مرنے سے پہلے قادیانیت کو ترک کر دیا تھا۔ واﷲ اعلم!
اس فضل احمد کے ذریعہ مرزاقادیانی کے زمانہ میں چنگا بنگیال میں قادیانیت پھیل گئی تھی۔ اب اسی فضل احمد کے خاندان کے بہت سارے گھرانے مسلمان ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ایک پروفیسر محمد آصف بھی ہیں۔ پروفیسر صاحب کے پاس فضل احمد کی کتابیں ہیں۔ فقیر نے ان سے درخواست کی کہ عربی وفارسی، قادیانیت اور ردقادیانیت کی کتب مرکزی دفتر کی لائبریری کے لئے عنایت کر دیں۔ چنانچہ مناظرہ سے فراغت کے بعد لائبریری سے کتابیں لے کر مولانا مفتی محمود الحسن اسلام آباد لے گئے۔ وہاں سے دفتر ملتان انہوں نے بھجوانی تھیں۔ یہ ایک ضمنی بات تھی جو درمیان میں آگئی۔
روئیداد مناظرہ چنگا بنگیال
عصر کی نماز پڑھ کر پروفیسر محمد آصف صاحب نے فقیر کو ساتھ لیا اور قادیانی راجہ سعید کے مکان پر گئے۔ آٹھ یا نو کل افراد تھے۔ جن میں مرزائی، مسلم موجود تھے۔ اکثریت پروفیسر صاحب کے رشتہ داروں کی تھی یا واقف کاروں کی۔ قادیانیوں نے گفتگو کے لئے سعید الحسن قادیانی مربی کو تیار کیا ہوا تھا۔ بہرحال پہنچتے ہی مختصر تعارف کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔
پروفیسر محمد آصف صاحب: ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آنحضرتa نے سیدنا مہدی علیہ السلام یا سیدنا مسیح علیہ السلام کے متعلق کیا فرمایا ہے اور مرزاقادیانی ان علامات ومعیار پر پورا اترتا ہے؟ یا نہیں؟
قادیانی مربی سعید الحسن: ہمیں وفات وحیات مسیح علیہ السلام پر گفتگو کرنی چاہئے۔ اگر مسیح علیہ السلام کی حیات ثابت ہو جائے تو مرزاقادیانی کے تمام دعاوی جھوٹے۔
پروفیسر صاحب: انحضرتa نے سیدنا مہدی علیہ السلام ومسیح علیہ السلام کی جو علامات بتائی ہیں، وہ مرزاقادیانی میں دکھادیں۔ حیات مسیح علیہ السلام سمیت ساری بحث مکمل ہو جائے گی۔ مرزاقادیانی کو ان نشانیوں کی رو سے سچا بتادیں۔
قادیانی مربی: آپ مرزاقادیانی کو کس حیثیت سے جانچنا چاہتے ہیں؟
پروفیسر صاحب: نام، ذات، شخصیت اور دعاوی۔ ان چاروں حیثیتوں سے۔ پہلے امام مہدی علیہ السلام کی علامات کو لیں۔
قادیانی مربی: پہلے حیات مسیح علیہ السلام پر بحث کریں۔
پروفیسر صاحب: مرزاقادیانی کے دعاوی مہدی اور مسیح کے ہیں۔ منصب کے اعتبار سے پہلی سٹیج مہدی علیہ الرضوان کی ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام توان سے بلند وبالاتر ہیں۔ اس لئے مہدی علیہ الرضوان کی علامات جو رحمت دوعالمa نے بیان فرمائی ہیں، ان کو احادیث کی روشنی میں دیکھ لیتے ہیں۔ پھر مرزاقادیانی میں وہ علامات دیکھیں گے۔ اگر ان میں پائی گئیں تو پھر مسیح علیہ السلام کی علامات کو دیکھیں گے کہ وہ مرزاقادیانی میں پائی جاتی ہیں؟ یا نہیں؟ اس وقت حیات عیسیٰ علیہ السلام پر بھی بحث ہو جائے گی۔
قادیانی مربی: آپ حیات مسیح علیہ السلام پر بحث کا آغاز کریں۔
فقیر: آپ لکھ کر دے دیں کہ رحمت دو عالمa نے سیدنا مہدی علیہ الرضوان کی جو نشانیاں بیان فرمائی ہیں وہ مرزاقادیانی میں نہیں پائی جاتیں تو پھر ابھی حیات مسیح علیہ السلام پر گفتگو کا آغاز ہو جائے گا۔
قادیانی مربی: مرزاقادیانی مہدی ہیں۔ ان میں علامات پائی جاتی ہیں۔ میں کیوں انکار کروں؟
پروفیسر صاحب: بہت اچھا! میں مولانا (اشارہ فقیر کی طرف) سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ احادیث شریف کی روشنی میں ہمیں سیدنا مہدی علیہ الرضوان کی علامات بیان کریں۔
فقیر: ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم! اللہم صلی علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین۰ اما بعد! یہ میرے ہاتھ میں صحاح ستہ میں شامل کتاب ابوداؤد شریف ہے۔ صحاح ستہ میں ابوداؤد شریف کا شامل ہونا مرزاقادیانی کو مسلم ہے۔ ابوداؤد شریف (ج۲ ص۱۳۰،۱۳۱) پر سیدنا مہدی علیہ الرضوان پر مشتمل باب ہے۔ اس باب میں کل روایات گیارہ ہیں۔ جو حضرت جابر بن سمرہؓ، حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ، حضرت سیدنا علی المرتضیٰؓ، حضرت ام سلمہؓ اور حضرت ابی سعید خدریؓ جیسے جید صحابہ کرامؓ سے منقول ہیں۔ ان میں سے سب سے پہلے میں اس روایت کی تلاوت کرتا ہوں۔ جس میں آپa نے سیدنا مہدی علیہ الرضوان کا نام، والد کا نام، قومیت اور جائے پیدائش کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ:۱…حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے: ’’عن ابن عبداﷲ عن النبیa قال لو لم یبق من الدنیا الایوم، لطول اﷲ ذالک الیوم حتیٰ یبعث اﷲ فیہ رجل منی او من اہل بیتی، یواطیٔ اسمہ اسمی، واسم ابیہ اسم ابی، یملاء الارض قسطاً وعدلاً کما ملئت ظلما وجورا… الخ (ابوداؤد ج۲ ص۱۳۱، باب ذکر المہدی)‘‘ اسی روایت کو امام ترمذیؒ نے ترمذی شریف (ج۲ ص۴۷، باب ماجاء فی المہدی) میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ یہی روایت متعدد کتب احادیث میں مذکور ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ آپa نے فرمایا کہ اگر دنیا کا ایک دن بھی باقی رہ جائے۔ تب بھی اﷲتعالیٰ اس دن کو لمبا فرمائیں گے۔ (یعنی یقینی ہے کہ قیامت سے پہلے ایسے ضرور ہوگا) حتیٰ کہ اﷲتعالیٰ اس میں ایک شخص کو بھیجیں گے۔ (یقنی طور پر ایسے ہو کر رہے گا) جو مجھ سے یعنی میرے اہل بیت سے ہوگا۔ اس کا نام میرے نام پر ہوگا۔ (یعنی محمد) اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر (عبداﷲ) ہوگا۔ وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھردے گا۔ جیسا (ان سے قبل) وہ ظلم وجور سے بھری ہوئی ہوگی۔
۲…ابوداؤد کے اسی صفحہ پر ہے: ’’عن ام سلمۃؓ: قالت سمعت رسول اﷲa یقول المہدی من عترتی من ولد فاطمۃ… الخ!‘‘ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ آپa سے میں نے سنا، آپa نے فرمایا کہ مہدی علیہ الرضوان میری عترت یعنی فاطمہؓ کی اولاد سے ہوں گے۔
۳…ابوداؤد کے اسی صفحہ پر حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ: ’’مدینہ طیبہ میں ایک خلیفہ کی وفات پر جانشینی کے مسئلہ پر اختلاف ہوگا تو مہدی علیہ الرضوان مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ آجائیں گے۔ اہل مکہ ان کی بیعت کریں گے۔ رکن یمانی وحجر اسود کے مقام پر ان سے بیعت ہوگی۔ ان کے پاس شام وعراق کے ابدال مقام ابراہیم پر آکر بیعت ہوں گے۔‘‘
متعدد کتب حدیث سے میں نے صرف ابوداؤد کی یہ روایتیں آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں۔ یہ کتاب ابوداود شریف مرزاقادیانی کی پیدائش سے صدیوں پہلے لکھی گئی۔ ظاہر ہے کہ آنحضرتa نے اگر حضرت مہدی علیہ الرضوان کی آمد کا تذکرہ فرمایا تو اس کی علامات بھی بیان فرمائیں۔ چنانچہ ان روایات سے جو ابھی ابوداؤد شریف سے میں نے بمع ترجمہ کے آپ کے سامنے تلاوت کیں۔ ترجمہ غلط ہو تو قادیانی مربی مجھے ٹوک دیں اور اگر روایات نہ ہوں تومجھے بولنے سے روک دیں۔ (قادیانی سامعین آپ بات مکمل فرمائیں)
فقیر: بہت اچھا! ان روایات سے ثابت ہوا کہ:
۱…سیدنا مہدی علیہ الرضوان کا نام محمد ہوگا۔
۲…سیدنا مہدی علیہ الرضوان کے والد کا نام عبداﷲ ہوگا۔
۳…سیدنا مہدی علیہ الرضوان آنحضرتa کی عترت سے ہوں گے۔ فاطمتہ الزہرائؓ
کی نسل سے ہوں گے۔
۴…مدینہ طیبہ میں پیدا ہوں گے۔
۵…مکہ مکرمہ تشریف لائیں گے۔
یہ پانچ بنیادی علامات آپ مرزاقادیانی میں دکھا دیں۔ تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر گفتگو کا آغاز ہو سکے۔
قادیانی مربی: دیکھیں! مولانا صاحب نے ابوداؤد کھول کر روایات پڑھیں، ان کا ترجمہ کیا۔ لیکن کیا صرف یہی حضرت مہدی علیہ الرضوان کی علامات ہیں؟ حضرت مہدی علیہ الرضوان کی بہت ساری علامات ہیں۔ پھر ان میں اختلاف ہے۔ ان کو لیں تو وقت بہت لگے گا۔ اس لئے حیات مسیح علیہ السلام پر بحث کریں۔
فقیر: میں ان تمام علامات مہدی علیہ الرضوان کو جو احادیث صحیحہ میں بیان کر دی گئی ہیں۔ ان کو مانتا ہوں۔ اگر ان میں آپ کے نزدیک اختلاف ہے تو محدثین نے اس کی تطبیق دی ہے۔ آپ میری باتوں کا جواب دیں۔ پھر اختلاف روایات بیان کریں۔ میں تطبیق بیان کروں گا۔ ابھی فیصلہ ہو جائے گا۔
قادیانی مربی: آپ لکھ کر دیں کہ مہدی کی علامات میں کوئی اختلاف نہیں۔ میں ابھی اختلاف بتاتا ہوں۔
فقیر: الحمدﷲ! ہم نتیجہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے سامنے تشریف فرما میرے دوست، قادیانی مربی صاحب نتیجہ خیز مجھ سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ لائیں کاغذ میں لکھ کر دیتا ہوں کہ:
۱…تمام احادیث میں حضرت مہدی علیہ الرضوان کے نام پر کوئی اختلاف نہیں۔ تمام احادیث متفق ہیں کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان کا نام محمد ہوگا۔ کوئی ایک روایت اس کے خلاف ہے تو میرے دوست قادیانی کرم فرمابتائیں۔ میں بڑے ادب سے درخواست کرتا ہوں کہ قیامت تک ایک روایت ایسی نہیں بتاسکتے نہ صحیح، نہ غلط، جس میں مہدی علیہ الرضوان کا نام محمد کے علاوہ کوئی ذکر ہو۔
۲…تمام احادیث میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ سیدنا حضرت مہدی علیہ الرضوان کے والد کا نام عبداﷲ ہوگا۔ اس پر تمام احادیث متفق ہیں۔ اس پر کوئی اختلاف ہو تو میرے قادیانی دوست روایت بیان کریں۔ قیامت تک نہیں دکھا پائیں گے۔
۳…تمام احادیث کا اتفاق ہے کہ مہدی علیہ الرضوان آنحضرتa کے خاندان، فاطمی چشم وچراغ ، سیدہ فاطمہؓ کی اولاد سے ہوں گے۔ اس کے خلاف کوئی روایت ہے تو میرے قادیانی دوست مناظر پیش کریں۔ میرا دعویٰ ہے کہ اس کے خلاف قیامت تک روایت پیش نہیں کر سکتے۔
۴…سیدنا مہدی علیہ الرضوان مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ آئیں گے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس کے خلاف کوئی روایت ہے تو میرے قادیانی دوست پیش کریں۔ جب کہ میرا دعویٰ ہے کہ قیامت تک پیش نہیں کر سکیں گے۔
۵…سیدنا مہدی علیہ الرضوان مکہ مکرمہ آئیں گے۔ یہ بھی متفقہ روایت ہے۔ اس کے خلاف بھی میرے قادیانی دوست کوئی روایت ہے تو بیان کریں۔ میرا دعویٰ ہے کہ قیامت تک بیان نہ کر سکیں گے۔
اب میں تمام حضرات کے سامنے اعتراف کرتا ہوں، لکھ کر دیتا ہوں اور دسیوں انگلیوں کے نشان لگا کر دیتا ہوں کہ میں نے جو علامات مہدی علیہ الرضوان حدیث سے پیش کی ہیں۔ یہ متفقہ ہیں، ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ اب میں بھی اپنے قادیانی مربی ومناظر سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان

علامات کے خلاف کوئی روایت ہے تو بیان کریں۔ میرا دعویٰ ہے کہ وہ قیامت تک ان علامات کے خلاف کوئی روایت نہ دکھا سکیں گے۔ اب تمام سامعین محترم بالخصوص قادیانی دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے مربی سے فرمائیں۔ وہ بتائیں کہ:
۱…
مہدی کا نام آنحضرتa کے فرمان کے مطابق محمد ہوگا۔ کیا مرزاقادیانی کا یہ نام تھا؟
۲…
مہدی کے والد کا نام، عبداﷲ ہوگا۔ کیا مرزاقادیانی کے والد کا نام عبداﷲ تھا؟
۳…
مہدی کی قوم سادات ہوگی۔ کیا مرزاقادیانی کی نسل مغل نہیں؟
۴…
مہدی مدینہ طیبہ سے، مکہ مکرمہ آئیں گے۔ کیا مرزامدینہ طیبہ میں پیدا ہوا؟
۵…
مہدی مکہ مکرمہ، آئیں گے کیا مرزاقادیانی مکہ مکرمہ گیا تھا؟
محترم سامعین! احادیث کی روشنی میں میرے پانچ سوال ہیں۔ ان کو حل کر دیں، تاکہ ہم حیات مسیح علیہ السلام پر گفتگو کریں۔ ہمت کریں کہ جیسے دو اور دو چار کی طرح میں نے ثابت کیا ہے یا تو آپ ان کا خلاف دکھائیں یامرزاغلام احمد قادیانی میں یہ علامات دکھائیں یا فرمادیں کہ مرزاقادیانی میں مہدی علیہ الرضوان کی متفقہ بنیادی علامتوں میں سے ایک علامت بھی نہ پائی جاتی تھی۔ بات ختم کریں۔ میں دوسری بحث کے لئے ابھی تیار ہوں۔ ان سوالات کے جوابات ٹھوس، واضح اور دو اور دو چار کی طرح بیان کر کے ممنون فرمائیں۔ میں اپنا قلب وجگر آپ کے قدموں پر رکھنے کے لئے تیار ہوں۔
قادیانی مربی: دیکھیں صاحب! میں نے ابتداء میں بتادیا تھا کہ حیات مسیح پر گفتگو شروع کریں۔ آپ مہدی کو لے کر آگئے۔ آپ حیات مسیح پر گفتگو کریں، ورنہ میں چلتا ہوں۔ یہ کیا کہ ہمارے گھر آکر دوسری بحث شروع کر دیں۔ بنیادی بحث کیوں نہیں کرتے؟ بس میں چلتا ہوں۔
پروفیسر صاحب: دیکھئے! اس وقت تک کی بحث تک ہم معاملہ کی تہہ تک پہنچ گئے۔ نتیجہ کیا ہے؟ موجود حضرات اور تمام رشتہ دار بعد میں بیٹھ کر قادیانی ومسلمان نتیجہ نکال لیں گے۔ میں قادیانی مربی سے درخواست کرتاہوں کہ حیات مسیح علیہ السلام پر ابھی اپنی گفتگو کا آغاز کریں اور دلائل دیں۔ ہمارے مولانا (فقیر) جواب دیں گے۔
فقیر: جی بسم اﷲ! مجھے منظور ہے۔
 

غلام نبی قادری نوری سنی

رکن ختم نبوت فورم
قادیانی مربی: خطبہ… تعوذ اور تسمیہ کے بعد آیت تلاوت کی ’’ما المسیح ابن مریم الارسول قد خلت من قبلہ الرسل (المائدہ:۷۵)‘‘ کہ مسیح علیہ السلام سے پہلے کے تمام رسول فوت ہوگئے۔ یہی آیت آنحضرتa پر اتری کہ ’’وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران:۱۴۴)‘‘ کہ آنحضرتa سے پہلے کے رسول فوت ہوگئے۔ میں پوچھتا ہوں بلکہ دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میرے سامنے کے صاحبان انکار نہیں کر سکیں گے۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام آنحضرتa سے پہلے کے رسول نہ تھے؟ کریں انکار۔ قیامت تک نہیں کر سکیں گے۔ لہٰذا جب یہ ثابت ہوگیا کہ مسیح علیہ السلام پہلے کے رسول ہیں تو وہ بھی فوت ہوگئے۔ جناب میں دیکھتا ہوں کہ مولوی صاحب اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟
فقیر: محترم میرے کچھ کہنے سے قبل آپ فرمادیں کہ ازروئے لغت، خلت کا معنی وفات ہے؟ کسی لغت سے؟ یا کسی مجدد کے قول سے؟ میرا دعویٰ ہے کہ آج تک کسی مستند متفقہ مفسر نے یا تمہارے کسی مسلمہ مجدد نے اس آیت کا یہ معنی نہیں کیا جو آپ نے کیا ہے۔
قادیانی مربی: لغت اور مجددین ومفسرین کی بات نہ کریں۔ میری بات کا جواب دیں۔
فقیر: یہی تو آپ کی بات کا جواب ہے کہ اگر ’’قد خلت‘‘ کا معنی وفات ہے تو کسی مفسر یا مجدد نے جو مرزاقادیانی سے پہلے کے تھے۔ کسی نے اس آیت سے وفات مسیح پر استدلال کیا ہے تو آپ نام پیش کریں۔ اس کی عبارت پڑھیں۔ ورنہ میں ترجمہ کر کے اپنے ترجمہ کی صداقت پر مفسرین ومجددین نہیں۔ بلکہ قادیانیوں کی شہادت پیش کروں گا۔ کسی ایک مفسر ومجدد کا قول پیش کریں کہ انہوں نے اس کا یہی ترجمہ کیا جو آپ نے کیا۔ نہیں پیش کر سکتے تو میں صحیح ترجمہ پیش کرتاہوں اور اس پر شہادتیں بھی پیش کروں گا۔
قادیانی مربی: مولوی صاحب! مجدد، مفسر، لغت کی بات کرتے ہیں۔ میں قرآن پیش کرتا ہوں۔ میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟
فقیر: بھائی! آپ جذباتی ہو رہے ہیں۔ میرا سوال ہے کہ جو آپ نے ترجمہ کیا ہے؟ آج تک کسی متفقہ مفسر ومجدد نے کیا؟ ورنہ تسلیم کریں کہ اس ترجمہ پر پوری امت میں سے آپ کے ساتھ ایک قابل ذکر آدمی بھی نہیں۔ آخر قرآن آج نہیں اترا۔ بلکہ چودہ سو سال قبل اترا ہے۔ جو چودہ سو سال سے امت نے اس کا ترجمہ سمجھا، وہ بتادیں۔ میں مان جاؤں گا۔ میں سامعین سے کہتا ہوں کہ میری بات معقول ہے تو قادیانی مناظر سے میرا مطالبہ منوائیں کہ وہ اپنے استدلال میں کوئی شہادت پیش کریں۔ ورنہ میں صحیح ترجمہ کر کے بیسیوں شہادتیں پیش کرتا ہوں۔
سامعین: پروفیسر صاحب اور قادیانی! بات تو صحیح ہے۔ ہم معاملہ کو سمجھ گئے۔ آپ صحیح ترجمہ کریں۔
فقیر: یہی میں چاہتا تھا کہ آپ دوست معاملہ کی تہہ تک پہنچ جائیں۔ بسم اﷲ! میں ترجمہ کرتا ہوں۔
قادیانی مربی: مولوی صاحب چکر نہ دیں۔ آپ یہ نہ کہیں کہ میرا ترجمہ غلط ہے۔ کسی مفسر یا مجدد کا ترجمہ ہم پیش تو تب کریں کہ ہم ترجمہ نہ جانتے ہوں یا ہمیں لغت نہ آتی ہو۔
فقیر: بھائی! غصہ نہ ہوں۔ ہم سے پہلے چودہ سو سال کے وہ بزرگ ومجدد لغت جانتے تھے۔ انہوں نے جو ترجمہ کیا۔ اگر وہ آپ والا ہے تو جی بسم اﷲ! آپ پیش کریں میں مانتا ہوں۔ نہیں تو میری درخواست یہ ہے کہ آپ نے جو ترجمہ کیا ہے۔ اس سے پوری امت میں سے کوئی ایک متفقہ مفسر ومجدد آپ لوگوں کے ساتھ نہیں۔ یہ آپ کے گھر کا ترجمہ ہے۔ خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ:

’’چودہ سو سال سے جس طرح قرآن مجید مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ اسی طرح چودہ سو سال سے امت کے پاس فہم قرآن بھی رہا۔‘‘
(ایام الصلح ص۵۵، مندرجہ خزائن ج۱۴ ص۲۸۸، از مرزاقادیانی)
اب میری درخواست ہے کہ امت نے آج تک اس آیت سے کیا سمجھا؟ اگر آپ کا ترجمہ صحیح ہے۔ یہی امت نے سمجھا کہ اس آیت میں انہوں نے وفات مسیح لکھی ہے تو آپ وہ پیش کریں، میں مان جاؤں گا۔ آپ پیش نہیں کر سکتے تو آپ کا ترجمہ غلط۔ میں صحیح ترجمہ پیش کرتا ہوں۔ اس پر لغت، مفسرین ومجددین پیش کرتا ہوں۔
قادیانی مربی: مرزاغلام احمد قادیانی نے یہ کہاں لکھا ہے؟
فقیر: آپ میری تردید کریں کہ یہ نہیں لکھا۔ میں مرزاقادیانی کا حوالہ پیش کرتا ہوں۔ آپ انکار کریں۔ اگر انکار نہیں کرتے تو میں پھر بھی مرزاقادیانی کا حوالہ پیش کرتا ہوں۔ لیکن مرزاقادیانی کے حوالہ کے بعد جناب پابند ہوں گے کہ چودہ سو سال سے امت کے فہم قرآن سے کوئی ایک شہادت اپنے ترجمہ کے صحیح ہونے پر پیش کریں۔
قادیانی مربی: مولوی صاحب! آپ ترجمہ کریں۔
فقیر: بھائی میں مسافر ہوں۔ آپ یہاں کے مکیں، آپ تنگ کیوں پڑ گئے؟ لیجئے! خلا… خلوا… خلت! اس کا تمام لغت والوں نے ترجمہ کیا مضا… مضوا! گزر گیا۔ ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانا، گزر جانا، مضت، خلت کا معنی ہے۔ اب ترجمہ کریں کہ سیدنا مسیح علیہ السلام یا آنحضرتa سے پہلے کے رسول گزر گئے۔ اس جگہ کو چھوڑ گئے۔ یہ جہاں چھوڑ گئے کوئی موت سے ، کوئی رفع سے، اس جہان سے گزر گئے۔ اگر موت ترجمہ ہو تو قرآن کی آیت ’’واذا خلوا الیٰ شیاطینہم (البقرہ:۱۴)‘‘ کیا ترجمہ کرو گے؟ ’’وقد خلت سنۃ الاولین (الحجر:۱۳)‘‘ کیا تمام پہلی شریعتیں مر گئیں؟ یا منسوخ ہو گئیں؟ وہ گزر گئیں یا فوت ہوگئیں؟ گزر گئیں یا منسوخ ہو گئیں۔ وہ شریعتیں آج موجود ہیں۔ لیکن منسوخ ہوگئیں۔ اگر فوت ہوگئیں ترجمہ ہوتا تو آج دنیا میں وہ موجود نہ ہوتیں۔ ان کا موجود ہونا دلیل ہے کہ خلت کا معنی موت نہیں۔ بلکہ مضت ہے گزر گئیں منسوخ شدہ ہوگئیں۔ فرمائیے چودہ سو سال سے لغت اور مفسرین ومجددین نے اس کا یہی ترجمہ کیا ہے۔ جس مفسر ومحدث کا فرمائیں میں اس کا یہی ترجمہ پیش کرتا ہوں۔ کوئی ایک نام لیں۔ میں اس کی تفسیر سے یہی ترجمہ پیش کرتا ہوں۔ میرا دعویٰ ہے کہ پوری امت نے جو ترجمہ کیا ہے وہ میرے والا ترجمہ ہے۔ آپ کے ساتھ کوئی ایک مفسر یا مجدد نہیں، جب کہ میرے ساتھ پوری امت ہے۔
قادیانی مربی: کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ گزر گئے کا معنی مر گئے نہیں؟
فقیر: ابھی گلی سے دو آدمی گزرے ہیں۔ کیا وہ مرگئے ہیں؟
قادیانی مربی: ٹھیک ہے۔ گزر گئے۔ لیکن پوری آیت کو دیکھیں۔ ’’افائن مات او قتل‘‘ یہ آیت بتارہی ہے کہ خلت دو صورتوں میں بند ہے۔ یا موت؟ یا قتل؟
پروفیسر صاحب: مولوی صاحب نے جو آیت پڑھی ’’واذا خلوا الیٰ شیاطینہم (البقرہ:۱۴)‘‘ اگر خلت دو معنوں میں بند ہے تو پھر آپ بتائیں کہ موت وقتل کی کون سی صورت ’’اذا خلوا الیٰ شیاطینہم‘‘ میں ہے؟
قادیانی مربی: چلیں! اس آیت کو چھوڑیں۔ میں ایک آیت اور وفات مسیح کی پیش کرتا ہوں۔
فقیر: پہلے آپ تسلیم کریں کہ اس آیت ’’قد خلت‘‘ سے وفات مسیح ثابت نہیں ہوتی۔ پھر دوسری پیش کریں۔
قادیانی مربی: میں کیوں تسلیم کروں۔ پہلے دوسری آیت پڑھتا ہوں۔
پروفیسر صاحب: دیکھئے مربی صاحب! آپ نے جو پہلی آیت پڑھی ہے۔ اس سے آپ کا مقصد واضح نہیں ہوا۔ آپ کا اس سے دعویٰ ثابت نہیں ہوا۔ تب ہی تو آپ دوسری آیت کی طرف جاتے ہیں۔ اب ہم مولانا سے کہیں گے کہ حیات مسیح پر دلیل دیں۔ پھر آپ اس کا جواب دیں۔
قادیانی مربی: بالکل ٹھیک ہے۔ مولوی صاحب! دیں حیات مسیح علیہ السلام کے دلائل
فقیر: جی! پہلی آیت: ’’اعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم۰ بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰ فبما نقضہم میثاقہم وکفرہم باٰیٰت اﷲ وقتلہم الانبیاء بغیر حق وقولہم قلوبنا غلف۰ بل طبع اﷲ علیہا بکفرہم فلا یؤمنون الا قلیلا۰ وبکفرہم وقولہم علیٰ مریم بہتانا عظیما۰ وقولہم انا قتلنا المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اﷲ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ما لہم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا۰ بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما (نسائ:۱۵۵تا۱۵۸)‘‘ {ان کو جو سزا ملی سو ان کی عہد شکنی پر اور منکر ہونے پر اﷲ کی آیتوں سے اور خون کرنے پر پیغمبروں کا ناحق اور اس کہنے پر کہ ہمارے دل پر غلاف ہے۔ سو یہ نہیں بلکہ اﷲ نے مہر کر دی ان کے دل پر کفر کے سبب۔ سو ایمان نہیں لاتے۔ مگر کم اور ان کے کفر پر اور مریم پر بڑا طوفان باندھنے پر اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اﷲکا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا۔ لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لو اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں اور اس کو قتل نہیں کیا بے شک بلکہ اس کو اٹھا لیا اﷲ نے اپنی طرف اور اﷲ ہے زبردست حکمت والا۔}
۱…ان آیات کریمہ میں چار بار سیدنا مسیح علیہ السلام کے لئے ’’ہ‘‘ ضمیر لائی گئی ہے۔ ’’ما قتلوہ… ماصلبوہ… ما قتلوہ یقیناً‘‘ اور ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں سیدنا مسیح نہ وہ قتل ہوئے نہ پھانسی دئیے گئے۔ نہ وہ یقینا قتل ہوئے۔ ظاہر ہے کہ قتل اور پھانسی کا محل جسم ہے کہ روح پر وارد نہیں ہوتا۔ آج تک نہ کوئی روح قتل ہوئی نہ پھانسی دی گئی۔ یہ فعل زندہ جسم پر وارد ہوتا ہے۔ تین بار ’’ہ‘‘ ضمیر جسم کی طرف ہے تو چوتھی بار ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں بھی جسم کی طرف ’’ہ‘‘ ضمیر راجع ہے۔ جو مسیح (جسم) نہ قتل ہوا، نہ پھانسی، نہ یقینا قتل ہوا۔ بلکہ وہی جسم مسیح کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا۔
۲…یہی لفظ بل کا تقاضا ہے۔
۳…آج تک امت نے اس کا یہی ترجمہ کیاہے۔ اس آیت میں آج تک مسلمہ مجددین امت ومفسرین قرآن نے اس جگہ رفع سے مراد رفع درجات نہیں لیا۔
۴…رفع کا استعمال درجات کے لئے ہوا۔ لیکن جہاں قرینہ تھا۔ قرینہ کا ہونا بذات خود دلیل ہے کہ رفع کے لفظ کا درجات کی بلندی کے معنوں میں استعمال مجازی معنی ہے۔

۵…اس جگہ سیاق وسباق نفس واقعہ ہے۔ حالات بھی متقاضی ہیں کہ حقیقی معنی لیا جائے۔ یہود، مسیح کی روح کو قتل یا پھانسی دینے کے درپے تھے۔ نہ مدعی، بلکہ وہ جسم مسیح کو قتل یا صلیب پر لٹکانا چاہتے تھے۔ اﷲتعالیٰ نے قران مجید میں ان کے دعوؤں کی تردید فرمائی کہ جس جسم مسیح کو وہ قتل کرنا چاہتے تھے اس کو میں نے اپنی طرف اٹھا لیا۔
۶…اﷲتعالیٰ مکان وجہت کی قید سے پاک ہیں۔ لیکن قرآن مجید میں صراحت سے ثابت ہے کہ جب کبھی اﷲتعالیٰ کی طرف نسبت جہت ہوگی تو مراد آسمان ہوگا۔ ’’أامنتم من فی السماء (الملک:۱۶)‘‘ {کیا بے خوف ہو تم اس ذات (اﷲتعالیٰ) سے جو آسمانوں میں ہے۔} اﷲتعالیٰ کی طرف سے قرآن اترا۔ مراد من جانب اﷲ آسمان سے اترا۔ خود رحمت دوعالمa جب اﷲتعالیٰ سے تحویل قبلہ کے لئے دعا کرتے تو آسمانوں کی طرف چہرۂ اقدس فرماتے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کی قوم کے لئے اﷲتعالیٰ کی طرف سے مائدہ، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لئے من وسلویٰ آسمانوں سے نازل ہوا تھا۔ سیدنا آدم علیہ السلام کا زمین پر آنا آسمانوں پر سے ہوا۔ اس پر تمام سماوی مذاہب کا اتفاق ہے۔
۷…رفع کا لفظ لغت عربی میں وضع کے مقابل پر استعمال ہوا۔ وضع نیچے رکھنے کو۔ رفع اوپراٹھانے کے معنی کومشتمل ہے۔
۸…اس آیت سے امت مسلمہ نے سیدنامسیح علیہ السلام کے رفع جسمانی کو مراد لیا ہے۔ جو یہاں اس کے علاوہ دوسرے معنی کو لیتا ہے۔ وہ الحاد پر قدم مارتا ہے۔
دوسری آیت اسی صفحہ قرآنی پر ہے: ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰ ان مثل عیسیٰ عند اﷲ کمثل آدم (آل عمران:۵۹)‘‘ {حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اﷲتعالیٰ کے ہاں آدم علیہ السلام جیسی ہے۔}
۱…سیدنا حضرت آدم علیہ السلام بغیر ماں باپ کے پیداہوئے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام بھی بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔
۲…سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کی کوکھ سے سیدہ حوا علیہا السلام پیدا ہوئیں۔ فقط مرد سے فقط عورت۔ ادھر فقط عورت سیدہ مریم علیہا السلام سے فقط مسیح علیہ السلام پیداہوئے۔
۳…سیدنا آدم علیہ السلام آسمانوں سے زمین پر آئے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام زمین سے آسمانوںپر گئے اور پھر آسمانوں سے زمین پر آئیں گے۔
اب میں آتا ہوں احادیث شریف کی طرف۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ اسی روایت کو امام بیہقیؒ نے کتاب الاسماء والصفات میں نقل کیا ہے تو صراحت فرمائی کہ: ’’ینزل اخی عیسیٰ بن مریم من السمائ‘‘ کہ میرے بھائی سیدنا مسیح علیہ السلام آسمانوں سے نازل ہوں گے۔
(یہاں تک بات پہنچی تو قادیانی مربی مارے ندامت کے غصہ سے لال پیلاہو کر کرسی سے اٹھا)
قادیانی مربی: چھوڑیں جی اس بحث کو۔ نماز مغرب قضا ہورہی ہے۔ گفتگو پھر سہی۔
فقیر: جی بسم اﷲ! بہت اچھا۔ نماز میں واقعی بہت تاخیر ہورہی ہے۔ ہم اپنی مسجد میں نماز پڑھ کر زیادہ سے زیادہ دس منٹ میں واپس آتے ہیں۔ پھر بیٹھتے ہیں۔

قادیانی مربی: آج نہیں۔ پھر کبھی بیٹھیں گے۔
فقیر: ابھی نماز کے بعد بیٹھیں گے۔ ساری رات بیٹھنا پڑا تو فریقین بیٹھیں گے۔ ابھی تو ابتداء ہے۔ دلائل شروع کئے ہیں۔ حیات مسیح علیہ السلام پر آپ زور دے رہے تھے۔ میں نے آغاز کیا تو، پھر، اور، کبھی کا چکر نہیں آنے دیں گے۔ ابھی ساری رات، کل کا دن، پھر رات دن چلیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک بات پوری نہ ہو، میری ایک ایک بات کا جواب دیں۔ آپ کی ایک ایک بات کا میں جواب دوں گا۔ ابھی دس منٹ میں ہم واپس آتے ہیں۔ ہمارا انتظار کریں۔
قادیانی مربی: میں پابند نہیں۔ پہلے بہت وقت لگ چکا ہے۔ پھر کبھی سہی۔
پروفیسر صاحب: قادیانی مربی سے اور اپنے رشتہ داروں سے کہ چلو پھر سہی۔ لیکن وقت اور دن کا تعین تو کر دیں۔ آپ کو اختیار ہے۔
قادیانی حضرات: کر لیں گے۔ آپ جائیں نماز پڑھیں۔ ہماری طرف سے آپ کو اجازت ہے۔
فقیر: اتنی جلدی گھبرا گئے۔ آپ اور آپ کے مربی گھر سے یوں ترشی سے نکال رہے ہیں۔ ابھی گفتگو کریں۔ جب تک مجلس چلتی ہے چلنے دیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔ آپ اپنے مربی کو تیار کریں کہ وہ میرے دلائل کو توڑے، جواب دے، اعتراض کرے اور مجھ سے جواب لے۔ ابھی تو حیات عیسیٰ علیہ السلام ہے۔ اس کے بعد ختم نبوت پر گفتگو ہوگی۔ مرزاقادیانی آپ کے سامنے پیش ہوں گے۔ ان کے لٹریچر سے بتاؤں گا کہ مہدی مسیح ہیں یا…!
قادیانی مربی: بس ہم مناظرہ نہیں کرتے۔ کرتے ہی نہیں۔ آپ کیس کرادیں گے۔
پروفیسر صاحب: اب تک کی بات چیت پر اگر کیس نہیں ہوا تو بقیہ بات چیت پر بھی کیس نہیں ہوگا۔ میں ذمہ داری لیتا ہوں اور اپنے مولانا (فقیر) سے لکھوا کر دیتا ہوں۔
فقیر: قران مجید میرے سامنے ہے۔ کیس تو درکنار آپ فرمائیں تومیں اپنی پگڑی سے تمہارے گھر میں جھاڑو دینے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن گفتگو کریں، تاکہ قیامت کے دن آپ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں مسئلہ کسی نے سمجھایا ہی نہیں تھا۔ بات کو چلائیں۔ میں گاؤں نہیں چھوڑتا۔ اس وقت تک حاضر ہوں جب تک فیصلہ نہیںہو جاتا۔
قادیانی مربی: ہمارا گھر ہے۔ آپ قبضہ کرتے ہیں۔ ہم نہیں کرتے آپ سے مناظرہ نہ تاریخ مقرر کرتے ہیں۔ آپ کیا کر لیں گے؟
فقیر: جادو وہ جو سرپر چڑھ کر بولے۔ اگر آپ اپنی شکست مانتے ہیں تو پھر آپ کی معذوری پر میں ترس کرتا ہوں۔
بزرگ بابا قادیانی: ہم نے شکست کھائی۔ (ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ) آپ جائیں۔
پروفیسر صاحب: بہت اچھا۔ (یہ کہہ کر ہم وہاں سے مسجد چلے آئے۔ قادیانی مربی دوسرے راستہ سے مکان کے صحن میں چلا گیا تو مسلمان سامعین نے قادیانی سامعین سے کہا کہ تمہارا مربی ندامت سے پتلا کیوں ہوگیا۔ اتنی جلدی گھبرا گیا کہ بالکل ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ گیا۔ قادیانی سامعین نے ندامت سے کہا کہ چلو چھوڑیں آپ بھی جائیں)

نماز سے فارغ ہوکر مسلمان حاضرین وسامعین نے فقیر کوایک پرتکلف دعوت سے سرفراز فرمایا۔ ہر مسلمان خوش تھا۔ چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ مولانا! ہمارا مقصد پورا ہوا۔ انشاء اﷲ! اب یہ نظر اٹھا کر نہیں چل سکیں گے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ دروازہ کے دوسری طرف صحن میں ہماری بیسیوں قادیانی رشتہ دار مستورات بیٹھی ہوئی تھیں۔ اب انشاء اﷲ! محنت سے میدان لگے گا۔ فقیر نے اﷲ رب العزت کا شکر ادا کیا۔ اس کے بعد پروفیسر صاحب کی لائبریری دیکھی۔ ضروری کتب جن پرہاتھ رکھا۔ پروفیسر صاحب نے دل وجان سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مرکزی لائبریری کے لئے عنایت فرمادیں۔ رات گئے گوجر خان بخیروعافیت واپسی ہوئی۔ فالحمد ﷲاولاً وآخراً!
ض … ض … ض
 

غلام نبی قادری نوری سنی

رکن ختم نبوت فورم
مناظرہ چھوکر خورد
چھوکر خورد ضلع گجرات میں تقریباً ایک برادری کے لوگ آباد ہیں، ان میں کچھ خاندان قادیانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تبلیغی جماعت اور کچھ دوسرے اہل دل مسلمانوں نے قادیانی نمبردار کو دعوت دی کہ وہ قادیانی عقائد پر نظر ثانی کرے۔ قادیانی نمبردار نے کہا کہ آپ کسی عالم دین کو بلائیں۔ جو مجھے سمجھا دے، تو میں اس کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ ان حضرات کے حکم پر فقیر ۴؍فروری ۱۹۹۸ء کو چھو کر خورد حاضر ہوا۔ حضرت مولانا محمد عارف صاحب استاذ الحدیث جامعہ عربیہ گوجرانوالہ (جو اس قصبہ کے رہائشی ہیں) حضرت قاری حافظ محمد یوسف عثمانی، حضرت مولانا فقیر اﷲ اختر، مدرسہ تعلیم القرآن وجامع مسجد چھوکر خورد کے خطیب اور دوسرے مسلمان نمازی موجود تھے۔ ان کی موجودگی میں قادیانی نمبردار سے اڑھائی تین گھنٹے تک گفتگو ہوئی۔ آج کچھ فراغت پاکر محض اپنی یادداشت سے قارئین کے لئے قلمبند کرتا ہوں۔ ابتدائی تعارف اور سابقہ گفتگو کا خلاصہ پیش کرنے کے بعد ذیل کی گفتگو ہوئی۔
فقیر: محترم آپ نے قادیانیت کو حق سمجھ کر قبول کیا ہے اور میں اسے باطل سمجھ کر اس کی تردید کرتا ہوں اور اس کی تردید ومخالفت کو دین کی خدمت سمجھتا ہوں۔ اﷲ رب العزت نے مجھے تھوڑے بہت دنیاوی وسائل اتنے نصیب فرمائے ہیں جن سے میری گزر اوقات بحمدہ تعالیٰ کروڑوں انسانوں سے اچھی ہو رہی ہے۔ قادیانیت کی تردید میرا دنیاوی پیشہ نہیں، نہ اس سے میرا رزق وابستہ ہے۔ بلکہ قادیانیت کی تردید اور ختم نبوت کی حفاظت میں دین سمجھ کر کرتا ہوں۔ آپ قادیانیت کو دین سمجھتے ہیں اور میں قادیانیت کی تردید کو دین سمجھتا ہوں تو پھر دین کے معاملہ میں ہم دونوں کیوں نہ عہد کریں کہ آج کی مجلس میں ہم قادیانیت کو غور وفکر سے جانچیں، ناپیں، تولیں اور پرکھیں کہ قادیانیت کیا ہے؟ یہ اسلام کی تحریک ہے یا غیرمسلموں کی سازش۔ تاکہ کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔
قادیانی نمبردار: واقعی آپ نے صحیح فرمایا میں نے بھی قادیانیت کو حق سمجھ کر قبول کیا ہے۔ اگر آپ مجھے سمجھا دیں کہ یہ حق نہیں تو میں اس پر غور کروں گا۔ جونکات آپ اٹھائیں گے میں ان سے متعلق اپنے قادیانی راہنماؤں سے ہدایات لوں گا اور پھر اس پر سوچ وبچار کر کے فیصلہ کروں گا۔
فقیر: مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ واقعتا نظریہ وعقیدہ تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے لئے غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر مرزاقادیانی کی اردو کتب سے آپ پڑھ لیں کہ وہ شخص توہین رسولa کا مرتکب تھا۔ اﷲ رب العزت کی ذات گرامی پر بہتان باندھتا تھا۔ حضرت سیدنا عیسیٰعلیہ السلام کی ذات گرامی کی توہین کرتا تھا۔ مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ لگاتا تھا۔ جھوٹ بولتا تھا، حرام کھاتا تھا، وعدہ خلاف تھا، شراب کے حصول کے لئے کوشش کرتا تھا، نبوت تو درکنار اس میں ایک اچھے انسان کے بھی اوصاف نہ تھے، تو پھر اس پر غور کرنے یا قادیانی مربیوں سے پوچھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ قادیانی مربی جن کا وظیفۂ حیات ہی جھوٹ کو اپنانا اور پھیلانا ہے، وہ آپ کو کیوںکر صحیح رہنمائی دیں گے۔ اس لئے آپ وعدہ کریں اور ایک سچے طالب حق ہونے کے ناطے مجھ سے مطالبہ کریں کہ آپ مجھے یہ حوالے دکھائیں۔ اگر ایسے ہے تو میں قادیانیت ترک کر دوں گا۔ اگر آپ ایسا عہد نہیں کرتے تو میں سمجھوں گا کہ آپ گفتگو ضرور کریں گے۔ مگر طالب حق ہونے کے رشتہ سے نہیں بلکہ محض اپنا بھرم رکھنے کے لئے۔ ایک طالب حق کو سمجھانا اور ایک بزعم خود بھرم رکھنے والے سے گفتگو کرنے کے لئے علیحدہ علیحدہ اسلوب ہیں۔ اب مجھ سے کیا اسلوب اختیار کرنے کے طالب ہیں؟ یہ آپ پر منحصر ہے۔
قادیانی نمبردار: مولانا مجھے تو آپ صرف حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ قرآن سے سمجھا دیں۔ باقی جو حوالہ جات آپ نے فرمائے ہیں، ان سے مجھے دلچسپی نہیں ہے۔
فقیر: محترم اب میں آپ پر اور سامعین پر انصاف چھوڑتا ہوں کہ وہ فیصلہ کریں کہ آپ طالب حق ہیں یا محض گفتگو کے خواہش مند۔ اس لئے کہ اگر آپ طالب حق ہوتے تو میری ان (متذکرہ) باتوں کے سنتے ہی چیخ اٹھتے اور آپ کے ضمیر کی صدا آپ کی زبان پر نوحہ کناں ہوتی کہ اگر مرزا ایسا ہے تو پھر مجھے مرزااور قادیانیت سے کوئی سروکار نہیں۔ میں حیات عیسیٰ علیہ السلام پر گفتگو کروں گا، ضرور کروں گا۔ مگر ان حوالہ جات کی تفصیلات آپ مجھ سے طلب کریں کہ کیا واقعی مرزا ایسا تھا؟ اگر ثابت ہو جائے کہ ایسے تھا تو پھر مرزائیت پر چار حرف۔ اس کے بعد میں آپ کو پھر ایک مسلمان ہونے کے حوالہ سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ سمجھاؤں گا۔
قادیانی نمبردار: مولانا میرے نزدیک اصل مسئلہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ہے، اگر یہ صحیح ثابت ہو جائے تو پھر مرزا کو چھوڑ دوں گا۔ باقی جن حوالہ جات کا آپ نے فرمایا ہے مجھے ان سے سروکار نہیں۔
سامعین میں سے ایک بزرگ نے کہا کہ مولانا خدا آپ کا بھلا کرے، ہم اس شخص کے متعلق رائے رکھتے تھے کہ یہ مسئلہ سمجھنا چاہتا ہے۔ مگر آپ نے اس سے اگلوا لیا کہ یہ بجائے مسئلہ سمجھنے کے محض دفع الوقتی کر رہا ہے۔
قادیانی نمبردار: ایسے نہیں آپ میرے ذمہ الزام نہ لگائیں۔ آپ لوگ مولوی صاحب کو پابند کریں کہ وہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ سمجھائیں۔ عیسیٰ علیہ السلام زندہ، تو مرزا جھوٹا۔
فقیر: محترم آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے آپ نے سنجیدگی سے قادیانیت کے کیس پر غور نہیں کیا۔ ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات یا حیات سے مرزاقادیانی کے سچے یا جھوٹے ہونے کا کیا تعلق؟ یہ ایسے ہے کہ ایک مراثی کے بیٹے نے ماں سے پوچھا کہ اگر نمبردار مر جائے تو پھر کون نمبردار ہوگا۔ ماں نے کہا اس کا بیٹا۔ لڑکے نے کہا کہ اگر وہ بھی مرجائے تو پھر کون ہوگا؟ ماں نے تنگ آکر کہا کہ بیٹا میں سمجھ گئی کہ سارا گاؤں بھی مر جائے تو پھر بھی مراثی کے لڑکے کو کوئی نمبردار نہیں بنائے گا۔ آپ غور فرمائیں کہ مرزاقادیانی حقیقت میں عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا منکر نہ تھا۔ بلکہ وہ اس کا قائل تھا۔ بعد میں جب اسے خود مسیح بننے کا شوق ہوا تو کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیٹ پر قبضہ کے لئے اپنی تقرری کے لئے سیٹ خالی کرانا چاہتا ہے۔ سیٹ کے جھگڑا سے قبل اس کی ’’اسناد لیاقت‘‘ چیک کر لیں کہ اس کی حیثیت کیا ہے؟ اس
لئے کہ خدا نہ کرے عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت نہ بھی ہو تو تب بھی مرزا میں سچے ہونے کی، اس سیٹ پر براجمان ہونے کی صلاحیت نہیں ہے۔ حیات ووفات مسیح علیہ السلام کے بعد پھر بھی سوال پیداہوگا۔ مرزااس منصب کا مستحق ہے یا نہیں؟ تو پہلے سے ہی مرزا کو کیوں نہ پرکھ لیں؟
قادیانی نمبردار: آپ میرے مرنے کی مثالیں نہ دیں۔ پہلے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ثابت کریں۔ فرض کریں کہ مرزا جھوٹا تو کیا عیسیٰ علیہ السلام کی اس سے حیات ثابت ہو جائے گی۔
فقیر: خوب کہا آنجناب نے، نمبردار کی مثال دینے سے آپ مر نہیں گئے۔ اس طرح جب ہم کہتے ہیں فرض کریں عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو جائیں تو تب بھی مرزا جھوٹا، اس سے عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہو جاتے۔ اس بات سے آپ بھی زندہ ہیں تو عیسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہیں۔ اب آپ نے کہا کہ فرض کریں کہ مرزا جھوٹا۔ فرض کریں نہیں یقین کریں اور اقرار کریں کہ مرزا جھوٹا ہے تو میں حیات عیسیٰ علیہ السلام پر گفتگو کا آغاز کرتا ہوں۔
قادیانی نمبردار: چھوڑیں تمام بحث کو آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ سمجھائیں۔
فقیر: محترم چھوڑیں سے کام چلتا تو کب سے آپ نے چھوڑ دیا ہوتا۔ بات یہ نہیں اس لئے کہ یہودی بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے منکر ہیں، پرویزی بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے منکر ہیں۔ بعض ملحد وفلاسفر بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے منکر ہیں۔ نیچری (سرسید) بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے منکر ہیں۔ پانچویں سوار قادیانی بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے منکر ہیں۔ اگر آپ کو حیات عیسیٰ علیہ السلام کا انکار ہوتا تو آپ یہودی ہوتے، پرویزی یا ملحد ہوتے، نیچری ہوتے، مگر آپ قادیانی ہوئے تو اس کا باعث حیات عیسیٰ علیہ السلام نہ ہوا بلکہ مرزا ہوا تو پہلے مرزا کو کیوں نہ دیکھیں۔
قادیانی نمبردار: آپ نے ایک اور بحث شروع کر دی۔ نئی شق نکال لی۔ مجھے صرف حیات عیسیٰ علیہ السلام سمجھائیں۔
فقیر: محترم! بندہ گنہگار آپ کو باور کرانا چاہتا ہے کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ آپ لوگوں کو محض آڑ بنانے کے لئے قادیانی گروہ نے بتایا اور سکھایا ہوا ہے تاکہ اس میں الجھ کر آپ مرزا کو نہ سمجھ سکیں۔ اس لئے کہ آپ مرزا کی طرف آئیں گے تو مرزا کا پول کھلے گا۔ اس کی شامت آئے گی۔ قادیانیت الم نشرح ہو جائے گی۔ ورنہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ آپ لوگوں کے نزدیک بھی اہم نہیں۔ لیجئے! یہ میرے ہاتھ میں مرزاقادیانی کی کتاب ازالہ اوہام ہے۔ اس کے (ص۱۴۰، خزائن ج۳ ص۱۷۱) پر مرزاقادیانی نے لکھا ہے:
’’اوّل تو جاننا چاہئے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو، بلکہ صدہا پیش گوئیوں میں سے یہ ایک پیش گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ جس زمانہ تک یہ پیش گوئی بیان نہیں کی گئی تھی۔ اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا۔‘‘
لیجئے نمبردار صاحب! مرزاقادیانی کی یہ عبارت پکار پکار کر آپ کو بلکہ تمام قادیانیوں کو متوجہ کر رہی ہے کہ رفع ونزول مسیح علیہ السلام پر بحث کی ضرورت نہیں۔ یہ کوئی ایمانیات کا
مسئلہ نہیں۔ اس کا حقیقت اسلام سے کچھ تعلق نہیں۔ جب مرزا کے نزدیک ایسے ہے تو اس پر پھر بحث کے لئے آپ کیوں اصرار کرتے ہیں۔
قادیانی نمبردار: نہیں، یہ مسئلہ ایمانیات کا ہے۔ مرزاقادیانی نے تو لکھا ہے کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ شرک ہے۔
فقیر: میرے بھائی! آپ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ایمانیات کا ہے۔ مرزاکہتا ہے کہ ایمانیات کا نہیں۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ آپ جھوٹے ہیں یا مرزاقادیانی جھوٹا ہے؟ آنجناب نے مرزاقادیانی کا قول نقل کیا ہے کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ شرک ہے۔ یہ مرزاکی کتاب الاستفتاء کے (ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۶۶۰) پر ہے۔ اصل عبارت یہ ہے:
’’فمن سوء الادب ان یقال ان عیسیٰ مامات وان ہو الا شرک عظیم‘‘
اب آپ غور کریں کہ مرزا نے اس عبارت میں کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سمجھنا اور مردہ نہ سمجھنا شرک ہے اور براہین احمدیہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ قرار دیا۔ مرزا اپنی عمر کے باون سال تک حیات عیسیٰ علیہ السلام کا قائل رہا۔ آخری سترہ سال حیات عیسیٰ علیہ السلام کا منکر رہا۔ اس پر توجہ فرمائیں کہ آپ کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کا عقیدہ باون سال تک غلط تھا۔ سترہ سال صحیح تھا۔ ہمارا مؤقف ہے کہ باون سال تک مرزا کا عقیدہ صحیح رہا۔ سترہ سال کا آخری عقیدہ غلط تھا۔ آپ کے اور مرزاصاحب کے نزدیک اگر حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ شرک ہے تو کیا مرزاقادیانی باون سال تک مشرک رہا؟
پہلی استدعائ: لیجئے! میں آپ سے پہلی استدعاء کرتا ہوں کہ قادیانی مربیوں سے جاکر پوچھیں کہ نبی ماں کی گود سے قبر کی گود تک کبھی شرک میں مبتلا ہوتا ہے؟ کیا وہ شخص جو باون سال تک مشرک رہا، وہ نبی بن سکتا ہے؟
قادیانی نمبردار: مرزاصاحب کو چھوڑیں، آپ حیات عیسیٰ علیہ السلام سمجھائیں۔
فقیر …دوسری استدعا: جناب! میں نے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر ابتدائی نکات بتانے کے لئے گفتگو کا آغاز کیا ہے۔ آپ ابھی سے کہتے ہیں کہ مرزا کو چھوڑیں۔ ہم نے تو اس کو قبول نہیں کیا۔ اس لئے چھوڑنے کا ہم سے کیا تقاضا کرتے ہیں؟ آپ نے اسے پکڑا ہے، جس نے پکڑا ہے وہی اسے چھوڑے۔ اس لئے آپ چھوڑ دیں، پھر ابھی تو مرزا کی پہلی کتاب میرے ہاتھ آئی ہے۔ اسی ازالہ اوہام کے (ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲) پر مرزا نے لکھا ہے:
’’اس عاجز نے جو مسیح موعود کا دعویٰ کیا ہے جس کو کم فہم مسیح موعود خیال کر بیٹھے۔‘‘
اسی کتاب کے (ص۳۹، خزائن ج۳ ص۱۲۲) پر لکھا ہے کہ:
’’خداتعالیٰ نے میرے پر منکشف کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہی ہوں۔‘‘
پھر اس کتاب کے (ص۱۸۵، خزائن ج۳ ص۱۸۹) پر لکھا ہے:

’’سواگر یہ عاجز مسیح موعود نہیں تو پھر آپ لوگ مسیح موعود کو آسمان سے اتار کر دکھائیں۔‘‘
محترم! آپ انصاف فرمائیں کہ میں نے ایک ہی کتاب کے تین مقامات سے حوالہ جات پیش کئے جو آپ کے سامنے ہیں۔ پہلے حوالہ میں کہا کہ جو مجھے مسیح موعود سمجھے وہ کم فہم ہے۔ اس لئے کہ میں مثیل مسیح موعود ہوں اور دوسرے حوالہ میں کہا کہ میں مسیح موعود ہوں۔ فرمائیں کہ ان دو متضاد باتوں سے ایک صحیح ہے۔ اگر مثیل ہے تو عین نہیں، اگر عین ہے تو مثیل نہیں۔ دونوں باتیں صحیح نہیں ہوسکتیں۔ آپ فرمائیں کہ ان دو باتوں سے مرزا نے کون سی بات غلط کہی؟ آخر ایک ہی صحیح ہوگی؟ اور پھر مرزا نے چشمہ معرفت (ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱) پر لکھا ہے:
’’جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘
لیجئے! اب دونوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ (حقیقت الوحی ص۱۸۴، خزائن ج۲ ص۱۹۱) پر ہے کہ:
’’مخبوط الحواس کے کلام میں تناقض ہوتا ہے۔‘‘
اب میری آپ سے دوسری استدعاء ہے کہ قادیانی مربیوں سے پوچھیں کہ مرزا کی ان دو باتوں میں سے کون سی بات سچی ہے؟ اور کون سی جھوٹی؟
قادیانی نمبردار: آپ تو مرزاقادیانی کا ایسا نقشہ پیش کر رہے ہیں کہ وہ گویا ایک جاہل تھا۔ حالانکہ اس کی کتابیں ملفوظات، اشتہارات، کیا یہ سب فرضی ہیں؟
فقیر: جناب! میں نے مرزاقادیانی کو جاہل نہیں کہا۔ بلکہ اس کی کتابوں کی عبارتیں پیش کی ہیں۔ آپ نے خود نتیجہ نکالا ہے کہ وہ جاہل تھا۔ میرے نزدیک بھی کتابیں ملفوظات، اشتہارات سب ردی کی طرح ہیں۔ ان میں مجال ہے کہ کوئی علمی بات ہو اور سرسید نے مرزاقادیانی کی کتب کا صحیح تجزیہ کیا کہ:
’’مرزاقادیانی کے الہام اس کی کتابوں کی طرح ہیں نہ دین کے نہ دنیا کے۔‘‘
اگر ناراض نہ ہوں تو میرا بھی یہ مؤقف ہے۔ لیجئے! مرزاقادیانی کی یہ کتاب تریاق القلوب ہے۔ جس کے (ص۸۹، خزائن ج۱۵ ص۲۱۷) پر مرزاقادیانی نے لکھا ہے:
’’اور اسی لڑکے (مبارک) نے اسی طرح پیدائش سے پہلے یکم؍جنوری ۱۸۹۷ء میں بطور الہام یہ کلام مجھ سے کیا اور مخاطب بھائی تھے کہ مجھ میں اور تم میں ایک دن کی میعاد ہے۔ یعنی اے میرے بھائیو! میں پورے ایک دن کے بعد تمہیں ملوں گا۔ اس جگہ ایک دن سے مراد دو برس تھے اور تیسرا برس وہ ہے جس میں پیدائش ہوئی اور عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح نے تو صرف مہد میں باتیں کیں۔ مگر اس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں اور پھر بعد اس کے ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء کو وہ پیدا ہوا اور جیسا کہ وہ چوتھا لڑکا تھا اس مناسبت کے لحاظ سے اس نے اسلامی مہینوں میں سے چوتھا مہینہ لیا۔ یعنی ماہ صفر اور ہفتہ کے دنوں میں سے چوتھا دن لیا یعنی چہار شنبہ۔‘‘

لیجئے! اب مرزاقادیانی کی اس عبارت کو جو آپ کے سامنے ہے، اسے پڑھیں اور باربار پڑھیں اور پھر ان معروضات پر غور کریں۔
۱…مرزانے لکھا کہ اس لڑکے نے مجھے بطور الہام کے کلام کرتے ہوئے کہا: ’’اے میرے بھائیو! میں پورے ایک دن کے بعد تمہیں ملوں گا۔ اس جگہ ایک دن سے مراد دو برس تھے۔ تیسرا برس وہ ہے جس میں پیدائش ہوئی۔‘‘
نمبردار صاحب! اس عبارت میں مرزاقادیانی کے دجل وکذب کا آپ اندازہ فرمائیں کہ ایک دن سے مراد دو برس تیسرا برس وہ جس میں پیدائش ہوئی۔ ایک ہی سانس میں مرزا نے ایک دن کو تین سال پر پھیلا دیا۔ کیا اس سے بڑا کذاب ودجال کوئی ہوسکتا ہے؟ اس جگہ یکم؍جنوری ۱۸۹۷ء کی بات کو ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء تک پھیلانا مقصود تھا تو ایک دن کو تین سال کر دیا اور جہاں پچاس دینے تھے وہاں پچاس کو پانچ کر دیا۔ اس دجالیت کی دنیا میں کوئی اور مثال پیش کی جاسکتی ہے؟
۲…پھر اسی عبارت میں مرزا نے اپنے بیٹے مبارک کے متعلق کہا کہ: ’’اس نے ماںکے پیٹ میں باتیں کیں۔‘‘
میں یہ بحث نہیں کرتا کہ اگر اس نے ماں کے پیٹ میں باتیں کیں تو آواز کہاں سے آئی تھی؟ اس لئے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں جب بولے گا، اگر ماں کے منہ سے آواز آئے، تو یہ بچے کی آواز یقین نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے کہ ممکن ہے کہ اس کی ماں منہ بگاڑ کر اپنی بات کو بیٹے کی بات کہہ رہی ہو۔ لہٰذا ماں کے منہ سے نہیں تو پھر آواز کہاں سے آئی تھی؟ یہ تو بحث نہیں، بحث یہ ہے کہ مرزا کے لڑکے نے بات کی یکم؍جنوری ۱۸۹۷ء کو، اور پیدا ہوا ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء کو، جو لڑکا جون ۱۸۹۹ئ، کو پیدا ہوا وہ یکم؍جنوری ۱۸۹۷ء کو تو ابھی ماں کے پیٹ میں ہی نہیں آیا تو اس نے ماں کے پیٹ سے کیسے بات کی تھی؟ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ مرزاجھوٹ بولتا تھا، من گھڑت الہام بناتا تھا۔
۳…مرزا نے اس عبارت میں کہا کہ: ’’اسلامی مہینوں سے چوتھا مہینہ لیا یعنی ماہ صفر۔‘‘
اب آپ فرمائیںکہ معمولی شدھ بدھ والے عام آدمی کو بھی پتہ ہے کہ صفر اسلامی مہینہ چوتھا نہیں بلکہ دوسرا ہے۔ جو ’’الّو کا چرخا‘‘ صفر کو چوتھا مہینہ کہے اس سے بڑھ کر کوئی جاہل ہوسکتا ہے؟
۴…مرزا نے اس عبارت میں لکھا کہ: ’’ہفتہ کے دنوں سے چوتھا دن لیا یعنی چہار شنبہ۔‘‘
مرزاقادیانی کی جہالت مآبی کو ملاحظہ فرمائیں۔ چہار شنبہ ہفتہ کا چوتھا دن نہیں ہوتا بلکہ پانچواں دن ہوتا ہے۔ اس اجہل نے جہل مرکب کا شکار ہوکر چہار شنبہ سے چوتھا دن باور کر لیا۔ حالانکہ (۱)ہفتہ۔ (۲)اتوار۔ (۳)پیر۔ (۴)منگل۔ (۵)بدھ۔
(۱)شنبہ۔ (۲)یک شنبہ۔ (۳)دوشنبہ۔ (۴)سہ شنبہ۔ (۵)چہار شنبہ۔
چہار شنبہ پانچواں دن ہوتا ہے نہ کہ چوتھا۔
تیسری استدعائ: لیجئے! میری آپ سے تیسری استدعاء ہے کہ آپ قادیانی مربیوں سے پوچھیں کہ (اتنا بڑا دجال وکذاب جو ایک عبارت میں چار بار دجل وکذب کا مرتکب ہو) کیا دجال وکذاب نبی
ہوسکتا ہے؟ جناب نمبردار صاحب! آپ نے مرزا کی جہالت کی بات کی، تو جو ماہ صفر کو چوتھا مہینہ اور چہار شنبہ کو چوتھا دن کہے، اس سے بڑا اور کوئی جاہل ہوسکتا ہے؟
قادیانی نمبردار: مولانا صاحب! میں معافی چاہتا ہوں، آپ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ بیان کریں اور وہ بھی قرآن سے، ورنہ مجھے اجازت۔
فقیر: اب مجھے یقین ہورہا ہے کہ آنجناب مرزاقادیانی کے دجل وکذب سے تنگ آ گئے ہیں اور فرار کا سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لیجئے! میں قرآن مجید سے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے دلائل کا آغاز کرتا ہوں۔ پہلی دلیل قرآن مجید سے اور استدلال مرزاقادیانی کی کتب سے لیجئے۔ یہ میرے ہاتھ میں مرزاقادیانی کی کتاب براہین احمدیہ چہار حصص ہے۔ اس کے ص۳۱۳ (یہ لاہوری ایڈیشن کا صفحہ ہے۔ قادیان کے ایڈیشن کا ص۴۹۸، خزائن ج۱ ص۵۹۳ ہے) اس پر مرزانے لکھا ہے:
’’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘
لیجئے! یہ قرآن مجید کی آیت کریمہ ہے جس سے مرزا استدلال کر رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ دوبارہ کے معنی، وہی پہلے والے آئیں گے، زندہ ہیں تب ہی آئیں گے۔ قرآن مجید کی آیت ہے اور مرزا کا معنی، اب آپ فرمائیں۔ قرآن سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔
 

ali321mona

رکن ختم نبوت فورم
مناظرہ چھوکر خورد
چھوکر خورد ضلع گجرات میں تقریباً ایک برادری کے لوگ آباد ہیں، ان میں کچھ خاندان قادیانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تبلیغی جماعت اور کچھ دوسرے اہل دل مسلمانوں نے قادیانی نمبردار کو دعوت دی کہ وہ قادیانی عقائد پر نظر ثانی کرے۔ قادیانی نمبردار نے کہا کہ آپ کسی عالم دین کو بلائیں۔ جو مجھے سمجھا دے، تو میں اس کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ ان حضرات کے حکم پر فقیر ۴؍فروری ۱۹۹۸ء کو چھو کر خورد حاضر ہوا۔ حضرت مولانا محمد عارف صاحب استاذ الحدیث جامعہ عربیہ گوجرانوالہ (جو اس قصبہ کے رہائشی ہیں) حضرت قاری حافظ محمد یوسف عثمانی، حضرت مولانا فقیر اﷲ اختر، مدرسہ تعلیم القرآن وجامع مسجد چھوکر خورد کے خطیب اور دوسرے مسلمان نمازی موجود تھے۔ ان کی موجودگی میں قادیانی نمبردار سے اڑھائی تین گھنٹے تک گفتگو ہوئی۔ آج کچھ فراغت پاکر محض اپنی یادداشت سے قارئین کے لئے قلمبند کرتا ہوں۔ ابتدائی تعارف اور سابقہ گفتگو کا خلاصہ پیش کرنے کے بعد ذیل کی گفتگو ہوئی۔
فقیر: محترم آپ نے قادیانیت کو حق سمجھ کر قبول کیا ہے اور میں اسے باطل سمجھ کر اس کی تردید کرتا ہوں اور اس کی تردید ومخالفت کو دین کی خدمت سمجھتا ہوں۔ اﷲ رب العزت نے مجھے تھوڑے بہت دنیاوی وسائل اتنے نصیب فرمائے ہیں جن سے میری گزر اوقات بحمدہ تعالیٰ کروڑوں انسانوں سے اچھی ہو رہی ہے۔ قادیانیت کی تردید میرا دنیاوی پیشہ نہیں، نہ اس سے میرا رزق وابستہ ہے۔ بلکہ قادیانیت کی تردید اور ختم نبوت کی حفاظت میں دین سمجھ کر کرتا ہوں۔ آپ قادیانیت کو دین سمجھتے ہیں اور میں قادیانیت کی تردید کو دین سمجھتا ہوں تو پھر دین کے معاملہ میں ہم دونوں کیوں نہ عہد کریں کہ آج کی مجلس میں ہم قادیانیت کو غور وفکر سے جانچیں، ناپیں، تولیں اور پرکھیں کہ قادیانیت کیا ہے؟ یہ اسلام کی تحریک ہے یا غیرمسلموں کی سازش۔ تاکہ کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔
قادیانی نمبردار: واقعی آپ نے صحیح فرمایا میں نے بھی قادیانیت کو حق سمجھ کر قبول کیا ہے۔ اگر آپ مجھے سمجھا دیں کہ یہ حق نہیں تو میں اس پر غور کروں گا۔ جونکات آپ اٹھائیں گے میں ان سے متعلق اپنے قادیانی راہنماؤں سے ہدایات لوں گا اور پھر اس پر سوچ وبچار کر کے فیصلہ کروں گا۔
فقیر: مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ واقعتا نظریہ وعقیدہ تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے لئے غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر مرزاقادیانی کی اردو کتب سے آپ پڑھ لیں کہ وہ شخص توہین رسولa کا مرتکب تھا۔ اﷲ رب العزت کی ذات گرامی پر بہتان باندھتا تھا۔ حضرت سیدنا عیسیٰعلیہ السلام کی ذات گرامی کی توہین کرتا تھا۔ مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ لگاتا تھا۔ جھوٹ بولتا تھا، حرام کھاتا تھا، وعدہ خلاف تھا، شراب کے حصول کے لئے کوشش کرتا تھا، نبوت تو درکنار اس میں ایک اچھے انسان کے بھی اوصاف نہ تھے، تو پھر اس پر غور کرنے یا قادیانی مربیوں سے پوچھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ قادیانی مربی جن کا وظیفۂ حیات ہی جھوٹ کو اپنانا اور پھیلانا ہے، وہ آپ کو کیوںکر صحیح رہنمائی دیں گے۔ اس لئے آپ وعدہ کریں اور ایک سچے طالب حق ہونے کے ناطے مجھ سے مطالبہ کریں کہ آپ مجھے یہ حوالے دکھائیں۔ اگر ایسے ہے تو میں قادیانیت ترک کر دوں گا۔ اگر آپ ایسا عہد نہیں کرتے تو میں سمجھوں گا کہ آپ گفتگو ضرور کریں گے۔ مگر طالب حق ہونے کے رشتہ سے نہیں بلکہ محض اپنا بھرم رکھنے کے لئے۔ ایک طالب حق کو سمجھانا اور ایک بزعم خود بھرم رکھنے والے سے گفتگو کرنے کے لئے علیحدہ علیحدہ اسلوب ہیں۔ اب مجھ سے کیا اسلوب اختیار کرنے کے طالب ہیں؟ یہ آپ پر منحصر ہے۔
قادیانی نمبردار: مولانا مجھے تو آپ صرف حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ قرآن سے سمجھا دیں۔ باقی جو حوالہ جات آپ نے فرمائے ہیں، ان سے مجھے دلچسپی نہیں ہے۔
فقیر: محترم اب میں آپ پر اور سامعین پر انصاف چھوڑتا ہوں کہ وہ فیصلہ کریں کہ آپ طالب حق ہیں یا محض گفتگو کے خواہش مند۔ اس لئے کہ اگر آپ طالب حق ہوتے تو میری ان (متذکرہ) باتوں کے سنتے ہی چیخ اٹھتے اور آپ کے ضمیر کی صدا آپ کی زبان پر نوحہ کناں ہوتی کہ اگر مرزا ایسا ہے تو پھر مجھے مرزااور قادیانیت سے کوئی سروکار نہیں۔ میں حیات عیسیٰ علیہ السلام پر گفتگو کروں گا، ضرور کروں گا۔ مگر ان حوالہ جات کی تفصیلات آپ مجھ سے طلب کریں کہ کیا واقعی مرزا ایسا تھا؟ اگر ثابت ہو جائے کہ ایسے تھا تو پھر مرزائیت پر چار حرف۔ اس کے بعد میں آپ کو پھر ایک مسلمان ہونے کے حوالہ سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ سمجھاؤں گا۔
قادیانی نمبردار: مولانا میرے نزدیک اصل مسئلہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ہے، اگر یہ صحیح ثابت ہو جائے تو پھر مرزا کو چھوڑ دوں گا۔ باقی جن حوالہ جات کا آپ نے فرمایا ہے مجھے ان سے سروکار نہیں۔
سامعین میں سے ایک بزرگ نے کہا کہ مولانا خدا آپ کا بھلا کرے، ہم اس شخص کے متعلق رائے رکھتے تھے کہ یہ مسئلہ سمجھنا چاہتا ہے۔ مگر آپ نے اس سے اگلوا لیا کہ یہ بجائے مسئلہ سمجھنے کے محض دفع الوقتی کر رہا ہے۔
قادیانی نمبردار: ایسے نہیں آپ میرے ذمہ الزام نہ لگائیں۔ آپ لوگ مولوی صاحب کو پابند کریں کہ وہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ سمجھائیں۔ عیسیٰ علیہ السلام زندہ، تو مرزا جھوٹا۔
فقیر: محترم آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے آپ نے سنجیدگی سے قادیانیت کے کیس پر غور نہیں کیا۔ ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات یا حیات سے مرزاقادیانی کے سچے یا جھوٹے ہونے کا کیا تعلق؟ یہ ایسے ہے کہ ایک مراثی کے بیٹے نے ماں سے پوچھا کہ اگر نمبردار مر جائے تو پھر کون نمبردار ہوگا۔ ماں نے کہا اس کا بیٹا۔ لڑکے نے کہا کہ اگر وہ بھی مرجائے تو پھر کون ہوگا؟ ماں نے تنگ آکر کہا کہ بیٹا میں سمجھ گئی کہ سارا گاؤں بھی مر جائے تو پھر بھی مراثی کے لڑکے کو کوئی نمبردار نہیں بنائے گا۔ آپ غور فرمائیں کہ مرزاقادیانی حقیقت میں عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا منکر نہ تھا۔ بلکہ وہ اس کا قائل تھا۔ بعد میں جب اسے خود مسیح بننے کا شوق ہوا تو کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیٹ پر قبضہ کے لئے اپنی تقرری کے لئے سیٹ خالی کرانا چاہتا ہے۔ سیٹ کے جھگڑا سے قبل اس کی ’’اسناد لیاقت‘‘ چیک کر لیں کہ اس کی حیثیت کیا ہے؟ اس
لئے کہ خدا نہ کرے عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت نہ بھی ہو تو تب بھی مرزا میں سچے ہونے کی، اس سیٹ پر براجمان ہونے کی صلاحیت نہیں ہے۔ حیات ووفات مسیح علیہ السلام کے بعد پھر بھی سوال پیداہوگا۔ مرزااس منصب کا مستحق ہے یا نہیں؟ تو پہلے سے ہی مرزا کو کیوں نہ پرکھ لیں؟
قادیانی نمبردار: آپ میرے مرنے کی مثالیں نہ دیں۔ پہلے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ثابت کریں۔ فرض کریں کہ مرزا جھوٹا تو کیا عیسیٰ علیہ السلام کی اس سے حیات ثابت ہو جائے گی۔
فقیر: خوب کہا آنجناب نے، نمبردار کی مثال دینے سے آپ مر نہیں گئے۔ اس طرح جب ہم کہتے ہیں فرض کریں عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو جائیں تو تب بھی مرزا جھوٹا، اس سے عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہو جاتے۔ اس بات سے آپ بھی زندہ ہیں تو عیسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہیں۔ اب آپ نے کہا کہ فرض کریں کہ مرزا جھوٹا۔ فرض کریں نہیں یقین کریں اور اقرار کریں کہ مرزا جھوٹا ہے تو میں حیات عیسیٰ علیہ السلام پر گفتگو کا آغاز کرتا ہوں۔
قادیانی نمبردار: چھوڑیں تمام بحث کو آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ سمجھائیں۔
فقیر: محترم چھوڑیں سے کام چلتا تو کب سے آپ نے چھوڑ دیا ہوتا۔ بات یہ نہیں اس لئے کہ یہودی بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے منکر ہیں، پرویزی بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے منکر ہیں۔ بعض ملحد وفلاسفر بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے منکر ہیں۔ نیچری (سرسید) بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے منکر ہیں۔ پانچویں سوار قادیانی بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے منکر ہیں۔ اگر آپ کو حیات عیسیٰ علیہ السلام کا انکار ہوتا تو آپ یہودی ہوتے، پرویزی یا ملحد ہوتے، نیچری ہوتے، مگر آپ قادیانی ہوئے تو اس کا باعث حیات عیسیٰ علیہ السلام نہ ہوا بلکہ مرزا ہوا تو پہلے مرزا کو کیوں نہ دیکھیں۔
قادیانی نمبردار: آپ نے ایک اور بحث شروع کر دی۔ نئی شق نکال لی۔ مجھے صرف حیات عیسیٰ علیہ السلام سمجھائیں۔
فقیر: محترم! بندہ گنہگار آپ کو باور کرانا چاہتا ہے کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ آپ لوگوں کو محض آڑ بنانے کے لئے قادیانی گروہ نے بتایا اور سکھایا ہوا ہے تاکہ اس میں الجھ کر آپ مرزا کو نہ سمجھ سکیں۔ اس لئے کہ آپ مرزا کی طرف آئیں گے تو مرزا کا پول کھلے گا۔ اس کی شامت آئے گی۔ قادیانیت الم نشرح ہو جائے گی۔ ورنہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ آپ لوگوں کے نزدیک بھی اہم نہیں۔ لیجئے! یہ میرے ہاتھ میں مرزاقادیانی کی کتاب ازالہ اوہام ہے۔ اس کے (ص۱۴۰، خزائن ج۳ ص۱۷۱) پر مرزاقادیانی نے لکھا ہے:
’’اوّل تو جاننا چاہئے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو، بلکہ صدہا پیش گوئیوں میں سے یہ ایک پیش گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ جس زمانہ تک یہ پیش گوئی بیان نہیں کی گئی تھی۔ اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا۔‘‘
لیجئے نمبردار صاحب! مرزاقادیانی کی یہ عبارت پکار پکار کر آپ کو بلکہ تمام قادیانیوں کو متوجہ کر رہی ہے کہ رفع ونزول مسیح علیہ السلام پر بحث کی ضرورت نہیں۔ یہ کوئی ایمانیات کا
مسئلہ نہیں۔ اس کا حقیقت اسلام سے کچھ تعلق نہیں۔ جب مرزا کے نزدیک ایسے ہے تو اس پر پھر بحث کے لئے آپ کیوں اصرار کرتے ہیں۔
قادیانی نمبردار: نہیں، یہ مسئلہ ایمانیات کا ہے۔ مرزاقادیانی نے تو لکھا ہے کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ شرک ہے۔
فقیر: میرے بھائی! آپ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ایمانیات کا ہے۔ مرزاکہتا ہے کہ ایمانیات کا نہیں۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ آپ جھوٹے ہیں یا مرزاقادیانی جھوٹا ہے؟ آنجناب نے مرزاقادیانی کا قول نقل کیا ہے کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ شرک ہے۔ یہ مرزاکی کتاب الاستفتاء کے (ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۶۶۰) پر ہے۔ اصل عبارت یہ ہے:
’’فمن سوء الادب ان یقال ان عیسیٰ مامات وان ہو الا شرک عظیم‘‘
اب آپ غور کریں کہ مرزا نے اس عبارت میں کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سمجھنا اور مردہ نہ سمجھنا شرک ہے اور براہین احمدیہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ قرار دیا۔ مرزا اپنی عمر کے باون سال تک حیات عیسیٰ علیہ السلام کا قائل رہا۔ آخری سترہ سال حیات عیسیٰ علیہ السلام کا منکر رہا۔ اس پر توجہ فرمائیں کہ آپ کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کا عقیدہ باون سال تک غلط تھا۔ سترہ سال صحیح تھا۔ ہمارا مؤقف ہے کہ باون سال تک مرزا کا عقیدہ صحیح رہا۔ سترہ سال کا آخری عقیدہ غلط تھا۔ آپ کے اور مرزاصاحب کے نزدیک اگر حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ شرک ہے تو کیا مرزاقادیانی باون سال تک مشرک رہا؟
پہلی استدعائ: لیجئے! میں آپ سے پہلی استدعاء کرتا ہوں کہ قادیانی مربیوں سے جاکر پوچھیں کہ نبی ماں کی گود سے قبر کی گود تک کبھی شرک میں مبتلا ہوتا ہے؟ کیا وہ شخص جو باون سال تک مشرک رہا، وہ نبی بن سکتا ہے؟
قادیانی نمبردار: مرزاصاحب کو چھوڑیں، آپ حیات عیسیٰ علیہ السلام سمجھائیں۔
فقیر …دوسری استدعا: جناب! میں نے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر ابتدائی نکات بتانے کے لئے گفتگو کا آغاز کیا ہے۔ آپ ابھی سے کہتے ہیں کہ مرزا کو چھوڑیں۔ ہم نے تو اس کو قبول نہیں کیا۔ اس لئے چھوڑنے کا ہم سے کیا تقاضا کرتے ہیں؟ آپ نے اسے پکڑا ہے، جس نے پکڑا ہے وہی اسے چھوڑے۔ اس لئے آپ چھوڑ دیں، پھر ابھی تو مرزا کی پہلی کتاب میرے ہاتھ آئی ہے۔ اسی ازالہ اوہام کے (ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲) پر مرزا نے لکھا ہے:
’’اس عاجز نے جو مسیح موعود کا دعویٰ کیا ہے جس کو کم فہم مسیح موعود خیال کر بیٹھے۔‘‘
اسی کتاب کے (ص۳۹، خزائن ج۳ ص۱۲۲) پر لکھا ہے کہ:
’’خداتعالیٰ نے میرے پر منکشف کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہی ہوں۔‘‘
پھر اس کتاب کے (ص۱۸۵، خزائن ج۳ ص۱۸۹) پر لکھا ہے:

’’سواگر یہ عاجز مسیح موعود نہیں تو پھر آپ لوگ مسیح موعود کو آسمان سے اتار کر دکھائیں۔‘‘
محترم! آپ انصاف فرمائیں کہ میں نے ایک ہی کتاب کے تین مقامات سے حوالہ جات پیش کئے جو آپ کے سامنے ہیں۔ پہلے حوالہ میں کہا کہ جو مجھے مسیح موعود سمجھے وہ کم فہم ہے۔ اس لئے کہ میں مثیل مسیح موعود ہوں اور دوسرے حوالہ میں کہا کہ میں مسیح موعود ہوں۔ فرمائیں کہ ان دو متضاد باتوں سے ایک صحیح ہے۔ اگر مثیل ہے تو عین نہیں، اگر عین ہے تو مثیل نہیں۔ دونوں باتیں صحیح نہیں ہوسکتیں۔ آپ فرمائیں کہ ان دو باتوں سے مرزا نے کون سی بات غلط کہی؟ آخر ایک ہی صحیح ہوگی؟ اور پھر مرزا نے چشمہ معرفت (ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱) پر لکھا ہے:
’’جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘
لیجئے! اب دونوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ (حقیقت الوحی ص۱۸۴، خزائن ج۲ ص۱۹۱) پر ہے کہ:
’’مخبوط الحواس کے کلام میں تناقض ہوتا ہے۔‘‘
اب میری آپ سے دوسری استدعاء ہے کہ قادیانی مربیوں سے پوچھیں کہ مرزا کی ان دو باتوں میں سے کون سی بات سچی ہے؟ اور کون سی جھوٹی؟
قادیانی نمبردار: آپ تو مرزاقادیانی کا ایسا نقشہ پیش کر رہے ہیں کہ وہ گویا ایک جاہل تھا۔ حالانکہ اس کی کتابیں ملفوظات، اشتہارات، کیا یہ سب فرضی ہیں؟
فقیر: جناب! میں نے مرزاقادیانی کو جاہل نہیں کہا۔ بلکہ اس کی کتابوں کی عبارتیں پیش کی ہیں۔ آپ نے خود نتیجہ نکالا ہے کہ وہ جاہل تھا۔ میرے نزدیک بھی کتابیں ملفوظات، اشتہارات سب ردی کی طرح ہیں۔ ان میں مجال ہے کہ کوئی علمی بات ہو اور سرسید نے مرزاقادیانی کی کتب کا صحیح تجزیہ کیا کہ:
’’مرزاقادیانی کے الہام اس کی کتابوں کی طرح ہیں نہ دین کے نہ دنیا کے۔‘‘
اگر ناراض نہ ہوں تو میرا بھی یہ مؤقف ہے۔ لیجئے! مرزاقادیانی کی یہ کتاب تریاق القلوب ہے۔ جس کے (ص۸۹، خزائن ج۱۵ ص۲۱۷) پر مرزاقادیانی نے لکھا ہے:
’’اور اسی لڑکے (مبارک) نے اسی طرح پیدائش سے پہلے یکم؍جنوری ۱۸۹۷ء میں بطور الہام یہ کلام مجھ سے کیا اور مخاطب بھائی تھے کہ مجھ میں اور تم میں ایک دن کی میعاد ہے۔ یعنی اے میرے بھائیو! میں پورے ایک دن کے بعد تمہیں ملوں گا۔ اس جگہ ایک دن سے مراد دو برس تھے اور تیسرا برس وہ ہے جس میں پیدائش ہوئی اور عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح نے تو صرف مہد میں باتیں کیں۔ مگر اس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں اور پھر بعد اس کے ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء کو وہ پیدا ہوا اور جیسا کہ وہ چوتھا لڑکا تھا اس مناسبت کے لحاظ سے اس نے اسلامی مہینوں میں سے چوتھا مہینہ لیا۔ یعنی ماہ صفر اور ہفتہ کے دنوں میں سے چوتھا دن لیا یعنی چہار شنبہ۔‘‘

لیجئے! اب مرزاقادیانی کی اس عبارت کو جو آپ کے سامنے ہے، اسے پڑھیں اور باربار پڑھیں اور پھر ان معروضات پر غور کریں۔
۱…مرزانے لکھا کہ اس لڑکے نے مجھے بطور الہام کے کلام کرتے ہوئے کہا: ’’اے میرے بھائیو! میں پورے ایک دن کے بعد تمہیں ملوں گا۔ اس جگہ ایک دن سے مراد دو برس تھے۔ تیسرا برس وہ ہے جس میں پیدائش ہوئی۔‘‘
نمبردار صاحب! اس عبارت میں مرزاقادیانی کے دجل وکذب کا آپ اندازہ فرمائیں کہ ایک دن سے مراد دو برس تیسرا برس وہ جس میں پیدائش ہوئی۔ ایک ہی سانس میں مرزا نے ایک دن کو تین سال پر پھیلا دیا۔ کیا اس سے بڑا کذاب ودجال کوئی ہوسکتا ہے؟ اس جگہ یکم؍جنوری ۱۸۹۷ء کی بات کو ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء تک پھیلانا مقصود تھا تو ایک دن کو تین سال کر دیا اور جہاں پچاس دینے تھے وہاں پچاس کو پانچ کر دیا۔ اس دجالیت کی دنیا میں کوئی اور مثال پیش کی جاسکتی ہے؟
۲…پھر اسی عبارت میں مرزا نے اپنے بیٹے مبارک کے متعلق کہا کہ: ’’اس نے ماںکے پیٹ میں باتیں کیں۔‘‘
میں یہ بحث نہیں کرتا کہ اگر اس نے ماں کے پیٹ میں باتیں کیں تو آواز کہاں سے آئی تھی؟ اس لئے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں جب بولے گا، اگر ماں کے منہ سے آواز آئے، تو یہ بچے کی آواز یقین نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے کہ ممکن ہے کہ اس کی ماں منہ بگاڑ کر اپنی بات کو بیٹے کی بات کہہ رہی ہو۔ لہٰذا ماں کے منہ سے نہیں تو پھر آواز کہاں سے آئی تھی؟ یہ تو بحث نہیں، بحث یہ ہے کہ مرزا کے لڑکے نے بات کی یکم؍جنوری ۱۸۹۷ء کو، اور پیدا ہوا ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء کو، جو لڑکا جون ۱۸۹۹ئ، کو پیدا ہوا وہ یکم؍جنوری ۱۸۹۷ء کو تو ابھی ماں کے پیٹ میں ہی نہیں آیا تو اس نے ماں کے پیٹ سے کیسے بات کی تھی؟ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ مرزاجھوٹ بولتا تھا، من گھڑت الہام بناتا تھا۔
۳…مرزا نے اس عبارت میں کہا کہ: ’’اسلامی مہینوں سے چوتھا مہینہ لیا یعنی ماہ صفر۔‘‘
اب آپ فرمائیںکہ معمولی شدھ بدھ والے عام آدمی کو بھی پتہ ہے کہ صفر اسلامی مہینہ چوتھا نہیں بلکہ دوسرا ہے۔ جو ’’الّو کا چرخا‘‘ صفر کو چوتھا مہینہ کہے اس سے بڑھ کر کوئی جاہل ہوسکتا ہے؟
۴…مرزا نے اس عبارت میں لکھا کہ: ’’ہفتہ کے دنوں سے چوتھا دن لیا یعنی چہار شنبہ۔‘‘
مرزاقادیانی کی جہالت مآبی کو ملاحظہ فرمائیں۔ چہار شنبہ ہفتہ کا چوتھا دن نہیں ہوتا بلکہ پانچواں دن ہوتا ہے۔ اس اجہل نے جہل مرکب کا شکار ہوکر چہار شنبہ سے چوتھا دن باور کر لیا۔ حالانکہ (۱)ہفتہ۔ (۲)اتوار۔ (۳)پیر۔ (۴)منگل۔ (۵)بدھ۔
(۱)شنبہ۔ (۲)یک شنبہ۔ (۳)دوشنبہ۔ (۴)سہ شنبہ۔ (۵)چہار شنبہ۔
چہار شنبہ پانچواں دن ہوتا ہے نہ کہ چوتھا۔
تیسری استدعائ: لیجئے! میری آپ سے تیسری استدعاء ہے کہ آپ قادیانی مربیوں سے پوچھیں کہ (اتنا بڑا دجال وکذاب جو ایک عبارت میں چار بار دجل وکذب کا مرتکب ہو) کیا دجال وکذاب نبی
ہوسکتا ہے؟ جناب نمبردار صاحب! آپ نے مرزا کی جہالت کی بات کی، تو جو ماہ صفر کو چوتھا مہینہ اور چہار شنبہ کو چوتھا دن کہے، اس سے بڑا اور کوئی جاہل ہوسکتا ہے؟
قادیانی نمبردار: مولانا صاحب! میں معافی چاہتا ہوں، آپ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ بیان کریں اور وہ بھی قرآن سے، ورنہ مجھے اجازت۔
فقیر: اب مجھے یقین ہورہا ہے کہ آنجناب مرزاقادیانی کے دجل وکذب سے تنگ آ گئے ہیں اور فرار کا سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لیجئے! میں قرآن مجید سے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے دلائل کا آغاز کرتا ہوں۔ پہلی دلیل قرآن مجید سے اور استدلال مرزاقادیانی کی کتب سے لیجئے۔ یہ میرے ہاتھ میں مرزاقادیانی کی کتاب براہین احمدیہ چہار حصص ہے۔ اس کے ص۳۱۳ (یہ لاہوری ایڈیشن کا صفحہ ہے۔ قادیان کے ایڈیشن کا ص۴۹۸، خزائن ج۱ ص۵۹۳ ہے) اس پر مرزانے لکھا ہے:
’’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘
لیجئے! یہ قرآن مجید کی آیت کریمہ ہے جس سے مرزا استدلال کر رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ دوبارہ کے معنی، وہی پہلے والے آئیں گے، زندہ ہیں تب ہی آئیں گے۔ قرآن مجید کی آیت ہے اور مرزا کا معنی، اب آپ فرمائیں۔ قرآن سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔
 
Top