ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
بھائی صاحب ایسے تو جواب نہیں ملتے جناب ۔۔۔ اتنا وقت نہیں ہے کہ اتنے لمبے مضمون کو پڑھا جائے ۔۔۔ ہاں البتہ تھوڑاسامیں نے پڑھا ہے جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں وہ یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب نے گالیاں نہیں دیں وہ تو خود ان کے مثیل ہیں اور اگر گالیوں کی بات ہے تو پھر سنی علماء وغیرہ بھی گالیاں دیتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے بھائی کہ علماء کی بات حجت نہیں ہے یعنی ہم پر فرض نہیں ہے کہ ہم ان کی بات کو لازمی ہی مانیں ۔ ہاں البتہ نبی کی بات حجت ہوتی ہے ۔ اس لیے نبی کی بات ماننا فرض ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ انبیاء گالی گلوچ نہیں کرتے ۔ جبکہ قادیانی حضرات مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں اور پھر ایک نبی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ گالی گلوچ کرے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ علماء نبی نہیں ہوتے علماء سے گناہ ہوتے ہیں مگر انبیاء گناہ نہیں کرتے ۔ اور کسی کو گالی دینا انتہائی سخت گناہ ہے ۔
مرزا صاحب کی چند گالیاں مع حوالہ ملاحظہ فرمائیں
مرزا کی یہ گالیاں میرے علم میں ہیں میں نے اس کیلئے نہیں پوچھا تھا نہ جو علماء نے گالیاں دی ہیں ان کا ۔ختم نبوت کا یہ فورم جب بنا ہی رد قادیانیت پر تو ان کے مضامین کا جواب دینا اس فورم کی ترجیحات میں ہونی چاہئے بہرحال میں نے خود بھی سرسری پڑا ہے اس میں جو احادیث دی گئی ہیں میرا سوال ان کے متعلق تھا اگر کسی بھائی نے اس پر کام کیا ہوا تو بتادیں ورنہ اس کے جواب کی کوشش کریں
مرزا کی یہ گالیاں میرے علم میں ہیں میں نے اس کیلئے نہیں پوچھا تھا نہ جو علماء نے گالیاں دی ہیں ان کا ۔ختم نبوت کا یہ فورم جب بنا ہی رد قادیانیت پر تو ان کے مضامین کا جواب دینا اس فورم کی ترجیحات میں ہونی چاہئے بہرحال میں نے خود بھی سرسری پڑا ہے اس میں جو احادیث دی گئی ہیں میرا سوال ان کے متعلق تھا اگر کسی بھائی نے اس پر کام کیا ہوا تو بتادیں ورنہ اس کے جواب کی کوشش کریں
جی بلکل یہ ہمارتی ترجیحات میں شامل ہیں۔ اور ہم یہ کام کر رہے ہیں ۔ بلکہ یہ کام صرف ہماری نہیں بلکہ آپ کی بھی ذمہ داری ہے۔
مگر محترم آپ پوچھنا کیا چاہتے ہیں اس کو مختصر الفاظ میں بیان کر دیں بھائی اتنا لمبا مضمون پڑھنے کا وقت نہیں ہے ۔ مضمونِ خلاصہ کیا ہے وہ یہاں پر مختصر سا لکھ دیں ۔شکریہ
میں لکھ دیتا ہوں ۔۔۔
یہ روایات اس نے پیش کی ہیں ۔۔۔
صحیح بخاری
’’لیکن اگر دوسری بات واقع ہوئی (یعنی ہم آپؐ پر غالب ہوئے) تو میں تو خدا کی قسم تمہارے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں یہ پنج میل لوگ یہی کریں گے، اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپؐ کو تنہا چھوڑدیں گے۔ اس پر ابوبکرؓ بولے امصِص ببَظْر اللَاتِ (ابے جا ! لات بُت کی شرمگاہ چوس لے) کیا ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپؐ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔‘‘ (کتاب الشروط باب الشُروطِ فی الجہاد والمُصالَحَۃِ مَعَ أَھْلِ الْحُرْبِ وَ کِتَابَۃِ الشُّرُوْطِ، ترجمہ و تشریح محمد داؤد راز، ناشر مرکزی جمیعت اہلحدیث ہند۔ سن طباعت ۲۰۰۴)
مشکوٰۃ المصابیح
’’وَ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ یَقُوْلَ ’’مَنْ تَعَزَّی بِعَزَاءِ الْجَاھِلِیَّۃِ فَاَّعِضُوْہُ بِھَنِ أَبِیْہِ وَلَا تَکْنُوْا ‘‘ رَوَاہُ فِی ’’شَرْحِ السُّنَّۃِ‘‘
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپؐ نے فرمایا، جو شخص جاہلی نسب کی طرف نسبت کرتا ہے (اور فخر کرتا ہے) تو تم اسے کہو کہ اپنے باپ کی شرمگاہ اپنے منہ میں لے لے اور اس میں ہرگز کنایہ نہ کرو۔(شرح السنّہ)‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الآداب بابُ الْمُفَاخَرَۃِ وَالْعَصَبِیَّۃِ جلد چہارم ص۔۱۰۳، ترجمہ و تشریح مولانا محمد صادق خلیل تحقیق و نظر ثانی حافظ ناصر محمود انور فاضل اسلامک یونیورسٹی المدینۃ المنورۃ، ناشر مکتبہ محمدیہ ساہیوال۔ طبع اول جنوری ۲۰۰۵)
بندروں اور سؤروں کے بھائیو! (تفسیر مظہری)
’’محمد بن عمر کی روایت ہے کہ حضرت ابوقتادہ نے فرمایا جب ہم بنی قریظہ پر پہنچے تو ہم نے محسوس کیا کہ ان لوگوں کولڑائی کا یقین ہوچکا ہے۔ حضرت علی نے قلعہ کی جڑ میں جھنڈا گاڑ دیا۔ ان لوگوں نے اپنی گڑھیوں کے اندر سے ہی گالیوں سے ہمارا استقبال کیا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی بیویوں کو گالیاں دینے لگے مگر ہم خاموش رہے اور ہم نے کہہ دیا ہمارا تمہارا فیصلہ تلوار سے ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ بھی پہنچ گئے اور ان کے قلعہ کے قریب بنی قریظہ کے پتھریلے میدان کے نشیبی جانب چاہ اناپر نزول فرمایا۔ حضرت علی نے حضو ر ﷺ کودیکھا تو مجھے حکم دیا کہ میں جھنڈا پکڑ لوں۔میں نے جھنڈا پکڑ لیا۔حضرت علی کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے کان میں ان لوگوں کی گالیاں اور گندے الفاظ پہنچیں۔اس لئے عرض کیا یا رسول اللہ اگر آپ ان خبیثوں کے قریب نہ پہنچیں تو کچھ حرج نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا تم مجھے واپس جانے کا مشورہ دے رہے ہو۔میرا خیال ہے کہ تم نے ان سے کچھ گندے الفاظ سن لئے ہیں۔ حضرت علی نے کہ جی ہاں۔فرمایا اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو کچھ بھی اس طرح کی بات نہ کہتے۔ غرض رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے۔آگے آگے اسید بن حضیر تھے۔ اسید نے کہا اے اللہ کے دشمنو جب تک تم بھوکے نہ مرجاؤ گے ہم تمہارے قلعوں سے نہیں ہٹیں گے۔ تم ایسے ہو جیسے بھٹ کے اندر لومڑی۔ بنی قریظہ نے کہا اے ابن حضیر خزرج کے مقابلہ میں ہم نے تم سے معاہدہ کیا تھا۔ حضرت اسید نے کہا اب میرے تمہارے درمیان نہ کوئی معاہدہ باقی ہے اور نہ رشتہ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ یہودیوں کی گڑھی کے قریب پہنچ گئے اور اتنی اونچی آواز سے یہودیوں کے کچھ سرداروں کوپکارا کہ انہوں نے آواز سن لی اور فرمایا اے بندروں اور سؤروں کے بھائیو اور اے بتوں (یا شیطان) کی پرستش کرنے والو جواب دو کیا اللہ نے تم کو رسوا کردیا اور تم پر اپنا عذاب نازل فرمادیا۔ کیا تم مجھے گالیاں دیتے ہو۔ (اندرون حصن سے) ان لوگوں نے قسمیں کھا کر کہا ابوالقاسم ہم نے ایسا نہیں کیا آپ تو جاہل نہیں ہیں۔ دوسری روایت میں جاہل کی جگہ فحش گوکا لفظ آیا ہے۔‘‘(تفسیر مظہری،زیر تفسیر سورۃ الاحزاب آیت۔۲۷)
تفسیر ابن کثیر (زیر آیت 90-93، سورۃ بنی اسرائیل)
’’قریش کے امراء کی آخری کوشش : (آیت ۹۰۔۹۳) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور ابوسفیان بن حرب اور بنی عبدالدار کے قبیلے کے دو شخص اور ابوالبختری بنی اسد کا اور اسود بن مطلب بن اسد اور زمعہ بن اسود اور ولید بن مغیرہ اور ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ اور امیہ بن خلف اور عاص بن وائل اور نبیہ اور منبہ سہمی حجاج کے لڑکے یہ سب یا ان میں کچھ سورج کے غروب ہوجانے کے بعد کعبۃ اللہ کے پیچھے جمع ہوئے اور کہنے لگے’ بھئی کسی کو بھیج کر محمد (ﷺ) کو بلوالو اور اس سے کہہ سن کر آج فیصلہ کرلو تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہے۔چنانچہ قاصد گیا اور خبر دی کہ آپؐ کی قوم کے اشراف لوگ جمع ہوئے ہیں اور آپؐ کو یاد کیا ہے۔چونکہ حضور ﷺ کو ان لوگوں کا ہر وقت خیال رہتا تھا، آپؐ کے جی میں آئی کہ بہت ممکن ہے اللہ نے انہیں صحیح سمجھ دے دی ہو اور یہ راہ راست پر آجائیں۔ اس لئے آپؐ فورًا ہی تشریف لے آئے۔ قریشیوں نے آپؐ کو دیکھتے ہی کہا سنئے آج ہم آپ ؐپر حجت پوری کردیتے ہیں تاکہ پھر ہم پر کسی قسم کا الزام نہ آئے اسی لئے ہم نے آپؐ کو بلوایا ہے۔واللہ کسی نے اپنی قوم کو اس مصیبت میں نہیں ڈالا ہوگا جو مصیبت تو نے ہم پر کھڑی کررکھی ہے، تم ہمارے باپ دادوں کو گالیاں دیتے ہو، ہمارے دین کو برا کہتے ہو، ہمارے بزرگوں کو بیوقوف بناتے ہو، ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہو، تم نے ہم میں تفریق ڈال دی، لڑائیاں کھڑی کردیں۔واللہ آپؐ نے ہمیں کسی برائی کے پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔‘‘(زیر آیت ۹۰ تا ۹۳ سورۃ بنی اسرائیل
سیرت النبی ﷺ ابن ہشام، گالیاں اور حضرت عیسیٰ ؑ کی توہین کا الزام
’’قریش کا وفد: ابن اسحاق کہتے ہیں اور ان کے علاوہ اور بہت لوگ تھے یہ سب ابوطالب کے پاس آئے اور کہا اے ابوطالب یا تو تم اپنے بھتیجے یعنی حضورؐ کو منع کرو کہ وہ ہمارے بُتوں کو بُرا نہ کہے اور ہمارے باپ دادا کو جاہل اور گمراہ نہ بتائے ورنہ ہم کو اجازت دو کہ ہم خود اس سے سمجھ لیں۔‘‘ (جلد اول ص۔۱۷۰، ناشر ادارہ اسلامیات لاہور، کراچی، پاکستان، طباعت سوم مئی ۱۹۹۸)
یہاں تک تو میں نے آپ کو بتایا کہ گالی کی تعریف کیا ہے، کس لفظ کو گالی کہا جاتا ہے کسے نہیں، اور اس کے بعد میں نے بتایا کہ ایسے سخت الفاظ جنہیں سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریروں میں پاکر مخالفین انہیں گالیاں کہتے ہیں، وہ الفاظ خود قرآنِ کریم اور احادیث میں بھی موجود ہیں۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ ہمارے مخالفین کے مستند علماء بھی اپنی تحریرات میں ایسے الفاظ و عبارات استعمال کرتے رہے ہیں۔ بلکہ مسلمانوں کا ایک فرقہ تو خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم پر تبراء و لعنت کو اپنے دین و ایمان کا جزو اور ایسا کرنا عین عبادت سمجھتا ہے۔فروع کافی جلد ۲ ص ۲۱۶ پر لکھا ہے:
’’فمن احبنا کان نطفۃ العبد و من ابغضنا کان نطفۃ الشیطان‘‘پس جو ہم سے محبت کرتا ہے وہ عبد یعنی انسان کا نطفہ ہے اور جو ہم سے بغض رکھتا ہے وہ شیطان کا نطفہ ہے
اسی طرح فروع کافی کتاب الروضۃ میں جو کہ جلد۔۳ کا جزو ثانی ہے، لکھا ہے:
’’یا ابا حمزۃ ان الناس کلھم اولاد بغایا ما خلا شیعتنا‘‘اے ابا حمزہ! تمام انسان اولادِ بغایا ہے سوائے ہمارے شیعوں کے۔
’’اولادِ بغایا ‘‘ کا ذکر آیا تو یہ بتادوں کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر منجملہ دیگر الزامات کے یہ بھی الزام ہے کہ آپ نے اپنے مخالفین کو ’’ذریۃ البغایا‘‘ کہا ہے جس کا ترجمہ مخالفین ، نعوذ باللہ، کنجریوں کی یا رنڈیوں کی اولاد کرتے ہیں حالانکہ نہ تو حضور علیہ السلام نے ایسا مطلب لیا اور نہ ہی جماعت احمدیہ ایسا سمجھتی ہے۔ ایسا محض مخالفت اور تعصب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک حوالہ تو میں نے ابھی فروعِ کافی سے آپ کے سامنے رکھا اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ اس معنی پر مشتمل الفاظ دیگر مسلمانوں کے لئے استعمال کریں۔اس کا صحیح مطلب ہدایت سے دور اور سرکش لوگ ہے جسا کہ عربی لغت سے ظاہر ہے۔ تاج العروس میں ’’البغایا ‘‘ کا مطلب لکھا ہے ’’ہراول دستہ ‘‘ جو فوج سے پہلے سامنے آتا ہے۔جبکہ ’’ابن بغیہ‘‘ کا مطلب لکھا ہے جو رُشد یعنی ہدایت سے دور ہو۔یہی معنی دوسری مشہور لغت ’’لسان العرب ‘‘ میں لکھے ہیں۔
اس لفظ کی قرآنِ کریم میں ایک مثال ''ضال'' کے استعمال کی ہے۔ قرآنِ کریم میں ایک جگہ تو یہ فرمایا ’’مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی‘‘ [53:3] تمہارا ساتھی نہ تو گمراہ ہوا اور نہ ہی نامراد رہا، جبکہ دوسری جگہ فرمایا’’وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی‘‘ [93:8] اور تجھے تلاش میں سرگرداں (نہیں) پایا، پس ہدایت دی۔چنانچہ معلوم ہوا کہ الفاظ کے معانی ان کے سیاق و سباق اور اشخاص کی مناسبت سے کئے جاتے ہیں۔
مرزائی اعتراض:
حضرت مرزا صاحب نے گالیاں دی ہیں تو کیا ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی تو کفار مکہ کو کہا تھا
اُمْصُصْ بظر اللَّاتِ
جاؤ لات بت کی شرمگاہ چومو۔ (۱۳۳) جواب:
مرزائی معترض نے جو حوالہ پیش کیا ہے اور جو ترجمہ کیا ہے اس میں پورا پورا مرزائیت کا ثبوت دیا ہے۔ مرزائیوں کی ذہنیت خدا تعالیٰ نے بالکل مسخ کردی ہے۔ ان سے غور و فکر کی تمام قوتیں سلب کرلی ہیں۔ جب کوئی بات بن نہ آئے تو جھٹ واقعات کو موڑ توڑ کر نہایت برے طریق سے پیش کرکے بزرگانِ دین کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ مرزائیوں کی پیش کردہ عبارت کس حیثیت کی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کا جواب علم کی روشنی میں دیا جائے تاکہ علم دوست اور انصاف پسند حضرات کے لیے چراغِ راہ کا کام دے سکے۔
واقعات اس طرح ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کفارِ مکہ میں سے ایک شخص نامی بُدَیْل بن ورقاء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کے متعلق کہا: ’’
اِنَّ ھٰؤُلَآئِ لَوْ قَدْ مَسَّھُمْ حَزُّ السِّلَاحِ لَاَسْلَمُوْکَ
۔ اگر ان مسلمانوں کو ذرا سی تکلیف پہنچی اور مصائب و آلام سے دوچار ہوئے تو آپ کو چھوڑ دیں گے اور دشمنوں کے حوالے کردیں گے۔
یہ بات ایک جان نثار اور فدا کار مسلمان کیونکر برداشت کرسکتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی غیرت اسلامی جوش میں آگئی۔ آپ سے نہ رہا گیا فوراً بول اُٹھے۔
یعنی جاؤ، لات بت سے کہو کہ ہمیں متزلزل کردے۔ ہمارے پائے استقلال میں لغزش پیدا کردے (اگر وہ کرسکے) ہم حضور علیہ السلام کے فدا کار غلام ہیں۔ جہاں آپ کا پسینہ بہے گا ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ مگر حضور علیہ السلام پر آنچ تک نہ آنے دیں گے۔ تمہاری بکواس اور بے ہودہ گوئی ہم پر کوئی اثر نہیں کرسکتی اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ہماری عقیدت کے متعلق کوئی شک و شبہ پیدا کرسکتی ہے۔(۱۳۴)
بُدَیل نہایت عیار اور چالاک انسان تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں مسلمانوں کے اخلاص و عقیدت کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کردئیے جائیں۔ اور دوسری جانب مسلمانوں کو یہ سبق دیا جائے کہ تکلیف و آزمائش کے وقت علیحدہ ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا چھوڑ دو پھر آپ جانیں اور دشمنانِ اسلام۔
اس کا جواب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ دیا کہ تیری بکواس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہم تیری باتوں میں آنے والے نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینا عین سعادت سمجھتے ہیں۔ تیری باتیں یا وہ گوئی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ ان کو حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔
مرزائیوں کو جو علم و عقل سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ یہ جان لینا چاہیے کہ عربوں کا محاورہ ہے
اُمْصُص بَظْرِ فُلَانَۃٍ اَوْ اُمِّہٖ فلاں
اور اُمَّ (ماں) کی بجائے کسی محبوب ترین چیز کا نام بھی لیتے ہیں اور مراد ہوتی ہے کہ جاؤ جو مرضی ہے بکتے پھرو یا وہ گوئی کرو۔ اس کی وضاحت کے لیے ابن رشیق کی مشہور و معروف کتاب ’’ العمدۃ‘‘ کا ایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے جو ہماری اس دلیل کو مضبوط ترین کردیتا ہے۔ ’’
اِنَّ الشُّعَرَائَ ثَلَاثَۃٌ شاعر، شُوَیعر ومَاصٍ بَظْر اُمّہٖ
۔ (۱۳۵)طبع ۱۹۳۴ء یعنی شاعروں کی تین قسمیں ہیں۔ ایک تو بلند پایہ شاعر، دوسرے معمولی اور گھٹیا درجے کے شاعر، تیسرے محض یا وہ گو اور تک بند۔
اب اس روشنی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے الفاظ پر غور فرمائیے کہ مرزائیوں نے کتنا غلط اور بیہودہ ترجمہ کیا ہے ۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ جناب مرزا صاحب قادیانی نے اردو، فارسی اور عربی میں نہایت گندی اور فحش گالیاں اپنے مخالفوں کے حق میں استعمال کی ہیں جن کا نمونہ گزشتہ صفحات میں درج کیا جاچکا ہے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے انتہائی جوش اور غصے کے عالم میں بھی کوئی نازیبا کلمہ استعمال نہیں فرمایا۔ صرف یہی کہا کہ تمہاری باتیں محض بکواس ہیں ہم ایسے نہیں جیسے تم نے خیال کیا ہے تمہارا خیال بالکل باطل ہے۔ بتائیے اس میں کونسی گالی ہے؟
-----------------
(۱۳۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۹۶۱
(۱۳۴) صحیح بخاری ص ۳۷۸،ج۱کتاب الشروط باب الشروط فی الجھار، نوٹ،مرزائیوں نے، ادارۃ المصنفین ربوہ ضلع جھنگ، کی طرف سے ترجمہ ، صحیح بخاری شائع کیا تھا۔ جس کے مترجم (مرزے محمود کے رشتہ میںسالے) سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تھے،انہوں نے مذکورہ حدیث پر ایک مبسوط حاشیہ لکھا ہے کہ یہ کلمات عرب لوگ گالی کے طور پر استعمال کرتے تھے لیکن یہ فقرہ استعارۃ مزا لینے اور خمیازہ بھگتنے کے معنوں میں بھی ہوسکتا ہے، لات، طائف میںقبیلہ بنو ثقیف کی دیوی تھی اور اسی کے نام پر بت خانہ تھا۔ جو ایک چٹان پر واقع تھا۔ لات دیوی خوب صورت پوشاک میں ملبوس اور زیوروں سے آراستہ و پیراستہ رکھی جاتی تھی نہ صرف بنو ثقیف بلکہ سارا عرب ہی اس کی پوجا کرتا تھا۔ جس طرح ہندوؤں میں لنگ پوجا وغیرہ کا رواج ہے اسی طرح کا ایک پوجا اس بت خانہ میں بھی ہوتی تھی اور لات کے پجاریوں میں زنا کاری اور شراب خوری بکثرت تھی … حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی … مذکورہ بالا فقرے سے ان کے عیوب کی طرف اشارہ کیا جو لات دیوی کے پجاریوں میںعام تھے۔ حاشیہ ترجمہ بخاری ص۸تا ۱۱جزء گیارہواں، طبعہ ربوہ ۱۹۷۰ء ۔ (ابو صہیب)
صدیق اکبررضی اللہ عنہ کا قول ”امْصَصْ بَظْرَاللات“کی تحقیق پر ایک نظر
*صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
”اگر یہ صورت ہوئی کہ قریش کو آپ پر غلبہ حاصل ہوگیا، تو واللہ! میں (آپ کے اردگرد) رلے ملے اور مختلف النوع لوگوں کو دیکھ رہا ہوں، جو اس لائق ہیں کہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں“۔
قبائل جب مخلوط ہوتے ہیں، تو مشکل گھڑی میں بعض کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں؛ لیکن جب مستقل ایک قبیلہ ہو، تو آدمی دوسرے افراد کو چھوڑ کر بھاگنے کو عار خیال کرتا ہے۔ عروہ بن مسعود نے قبائلی طور طریق کے پیش نظر مذکورہ جملہ کہا تھا۔ عروہ کو یہ پتا نہیں تھا کہ قرابت اور رشتہ داریوں سے بڑھا ہوا ایمان کا رشتہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ذریعہ موٴمنین کے دلوں کو باہم ایسا مربوط کیا تھا، جو نسبی رشتہ داریوں کے ربط و جوڑ سے یقینا کہیں زیادہ قوی ومستحکم تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عروہ کی بات سن کر فرمایا: امْصَصْ بَظْرَ اللات، أنحنُ نَفِرُّ عنہ ونَدَعُہ․
(صحیح بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد، ص:۳۷۸، ج:۱، قدیمی: کراچی)
”تولات کی شرم گاہ چوس! کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راہِ فرار اختیار کریں گے اور آپ کو چھوڑ دیں گے؟
’فتاویٰ دارالعلوم زکریا‘ میں اس کے متعلق حسبِ ذیل سوال وجواب درج ہے:
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول امصص بظر اللات کی تحقیق:
سوال: ”صحیح بخاری“ میں ہے کہ جب عروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کہ اگر آپ اپنی قوم کا استیصال کریں گے اور اگر مغلوب ہوئے، تو یہ مختلف النوع لوگ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، تو اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ”امصص بظر اللات“
․
اس کے معنی شارحین لکھتے ہیں:
”چوستے رہو لات کی شرم گاہ“۔ (بخاری شریف ۱/۳۷۸، باب الشروط فی الجہاد)
یہ گالی بظاہر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان صدیقیت کے خلاف ہے۔ نیز قرآن کریم کی آیت ہے: ﴿وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾
یہ اس کے بھی منافی ہے، اس اشکال کا کیا حل ہے؟
قادیانی اس جملہ سے مرزا کی مغلظات کی صحت پر استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً مرزا نے اپنے نہ ماننے والوں کو کَنْجَریوں کی اولاد کہا ہے اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گوہ کاڈھیر اور اپنے دشمنوں کو بیابانوں کے خنزیر کہا ہے۔ یہ سب گالیاں مرزا قادیانی نے اپنی کتابوں میں لکھی ہیں۔ نیز شیعہ اس جملہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بدزبانی پر استدلال کرتے ہیں۔
جواب: بظر کے دو معنی ہیں:
(۱) شرم گاہ کا ابھرا ہوا حصہ۔
(۲) ہونٹ کے درمیان کا ابھرا ہوا حصہ (القاموس الوحید:۱۷۱) چناں چہ بظر کے معنی ”الشفۃ العلیا“ بھی ہے۔ (المعجم الوسیط:۶۲)
اور یہاں دوسرے معنی مراد ہیں، جس کے قرائن یہ ہیں:
(۱) امصص کا لفظ قرینہ ہے؛ کیوں کہ چوسنے کی چیز ہونٹ ہے نہ کہ شرم گاہ۔
(۲) اسی حدیث میں مذکور ہے کہ صحابہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب منہ پر لگاتے یا بدن پر لگاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بقیہ پانی پیتے تھے۔ (بخاری شریف ۱/۳۷۹)
مطلب یہ ہے کہ تم لات کے لعاب کو چوسو، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب کو منہ پر لگاتے اور چوستے رہیں گے۔
(۳) عروہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر سب وشتم کا الزام نہیں لگایا، معلوم ہوا یہ گالی نہیں تھی۔
(۴) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اُسے اچھے معنی پر محمول کیا جائے۔ واللہ اعلم (فتاویٰ دارالعلوم زکریا، کتاب الحدیث والآثار، ص:۳۳۸،۳۳۹، ج:۱، زمزم پبلشرز کراچی، تاریخ اشاعت: نومبر۲۰۰۷/)
بندہ کہتا ہے:
سائل کو امصص بظر اللات کے معنی ”تولات کی شرم گاہ چوس“ چند وجوہ سے ٹھیک معلوم نہیں ہوئے:
(۱) یہ گالی بظاہر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شانِ صدیقیت کے خلاف ہے۔
(۲) اِس آیت کے منافی ہے ﴿وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾ (الانعام:۱۰۸)
ترجمہ:اور دشنام مت دو ان کو، جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں؛ کیوں کہ پھر وہ براہِ جہل حد سے گزرکر اللہ کی شان میں گستاخی کریں گے۔
(۳) قادیانی اس جملہ سے مرزا کی مغلظات کی صحت پر استدلال کرتے ہیں۔
(۴) شیعہ اس جملہ سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بدزبانی پر استدلال کرتے ہیں۔
مذکورہ امور میں سے ہر ایک کا جواب بالترتیب حسبِ ذیل ہے:
(۱) صلح حدیبیہ کے موقع پر ابتداءً حالات سِلْم وصلح کے نہیں تھے؛ بلکہ حالات جنگ کا رُخ اختیار کیے ہوئے تھے؛ چناں چہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے سرپر خود(آہنی ٹوپی) کا ہونا بھی اس کا قرینہ ہے، جس کا ذکر خود اس روایت میں ہے اور ظاہر ہے کہ حالاتِ جنگ کے اَحکام صلح کے اَحکام سے مختلف ہوتے ہیں اور جب میدانِ جنگ میں قتال بالسِّنان شانِ صدیقیت کے خلاف نہیں، تو صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم جیسے معزز حضرات کی طرف فرار کی نسبت کرنے والے اور ان کے جذبہٴ صدق ووفا پر نکتہ چینی کرنے والے سے جنگی حالات میں قتال باللسان بہ طریق اولیٰ شانِ صدیقیت کے خلاف نہیں۔
(۲) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ”امصص بظر اللات“ سے عروہ کو دشنام وگالی دی تھی، لات بُت کو نہیں، ہاں! لات بُت کے لیے ”بظر“ یعنی شرم گاہ کا اثبات ضرور پایاگیا ہے؛ لیکن جب مشرکین لات بُت کو موٴنث قرار دیتے تھے، تو موٴنث کے لیے ”بظر“ یعنی شرمگاہ کا اثبات گالی کیسے ہوا؟
جب یہ گالی لات بُت کو نہیں، تو آیتِ کریمہ
﴿وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾
․ (الأنعام:۱۰۸) کے منافی بھی نہیں۔
(۳) جنگی حالات میں نبیِ صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں قتال باللسان سے نبوت کے جھوٹے مدی مرزا کی مُغلَّظات کی صحت پر استدلال کیسے ہوسکتا ہے؟ چہ نسبت خاک رابعالَمِ پاک؟
کارِ پا کاں را قیاس از خود مگیر
گرچہ ماند در نوشتن شیر و شیر
(۴) مذکورہ بالا امور سے اس کا جواب بھی ہوگیا۔
مجیب محترم نے ”بظر“ کے دو معنی ذکر کرکے ان میں سے بجائے ”شرمگاہ“ کے ”ہونٹ کے درمیان کا ابھرا ہوا حصہ“ یا ”اوپر کا ہونٹ“ والے معنی مراد لیے اور اس کے لیے چار قرائن پیش فرمائے ہیں۔ ”قولہ“ کے عنوان سے وہ قرائن اور ”یقول العبد الضعیف“ کے عنوان سے ان پر بندہ کی ناقص آراء ذیل میں درج ہیں:
(۱) قولہ: امصص کا لفظ قرینہ ہے؛ کیوں کہ چوسنے کی چیز ہونٹ ہے نہ کہ شرمگاہ۔
یقول العبد الضعیف:
اس کو قرینہ ٹھہرانا اس پر مبنی ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے گالی کا ارادہ نہیں فرمایا تھا؛ حالاں کہ اس مبنیٰ ہی میں کلام ہے۔
درحقیقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس جملہ سے گالی ہی کا قصد فرمایا تھا۔ عرب عادتاً اس سے گالی دیتے تھے؛ لیکن اُمّ کے لفظ کے ساتھ، یعنی ”امصص بظر أمک“ کہتے تھے؛ چوں کہ مشرکین لات بُت کی تعظیم کرتے تھے؛ اس لیے عروہ کی گالی میں مبالغہ کے قصد سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ”اُمّ“ کی بجائے اس معبودِ باطل کو ذکر کیا۔ قاضی عیاض، ابن بطال، علامہ کرمانی، ابن الملقن، بدرالدین زرکشی، حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ عینی، علامہ قسطلانی، شیخ الاسلام زکریا الانصاری، علامہ سیوطی، علامہ محمد تاؤدی، شیخ عبداللہ بن حجازی الشرقاوی،نواب صدیق حسن خاں قنوجی، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمہم اللہ، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور حضرت مولانا صوفی محمد سرور صاحب مدظلہما نے مذکورہ جملہ کو گالی ہی کے معنی میں لیا ہے۔ طوالت کے اندیشہ سے کتابوں کی عبارات کی بجائے صرف حوالہ جات پر اکتفاء کیاجاتاہے:
(۱) مشارق الأنوار، ص:۱۳۹، ج:۱، العلمیۃ: بیروت
(۲) شرح صحیح البخاری لابن بطال، ص:۱۲۸،۱۲۹، ج:۸ مکتبۃالرشید: الریاض
(۳) شرح البخاری للکرمانی، ص:۴۳، ج:۱۲، دار احیاء التراث العربی: بیروت
(۴) التوضیح لشرح الجامع الصحیح، ص:۵۹، ج:۱۷، وزارۃ الاوقاف: قطر
(۵) التنقیح لألفاظ الجامع الصحیح، ص:۴۲۹، ج:۲، نزار مصطفی الباز: مکہ المکرمہ
(۶) فتح الباری، ص:۴۰۱، ج:۵، دارالریان: القاہرہ
(۷) عمدۃ القاری، ص:۱۰، ج:۱۴، دار احیاء التراث العربی: بیروت
(۸) ارشاد الساری، ص:۲۰۶، ج:۶، العلمیہ: بیروت
(۹) منحۃالباری بشرح صحیح البخاری المسمی تُحْفَۃُ الباری، ص:۵۲۹، ۵۳۰، ج:۵، الرشید: الریاض
(۱۰) التوضیح علی الجامع الصحیح، ص:۲۰۲، ج:۳، العلمیہ: بیروت
(۱۱) حاشیۃ التاودی بن سودہ علی صحیح البخاری، ص:۹۶، ج:۳، العلمیہ: بیروت
(۱۲) فتح المبدی بشرح مختصر الزبیدی، ص:۴۹۴، ج:۲، العلمیہ: بیروت
(۱۳) عون الباری لحلّ أدلہ صحیح البخاری، ص:۱۹۴، ج:۴، العلمیہ: بیروت
(۱۴) ہامش لامع الدراری، ص: ۱۶۶، ج:۷، المکتبہ الامدادیہ: مکہ المکرمہ
(۱۵) آپ بیتی حضرت شیخ الحدیث صاحب نور اللہ مرقدہ، ص:۳۸، ح:۶، معہد الخلیل الاسلامی: کراچی
(۱۶) انعام الباری دروس بخاری شریف، ص:۹۷۹، ج:۷، مکتبہ الحراء: کراچی
(۱۷) الخیر الجاری فی شرح صحیح البخاری، ص:۱۸۷، ج:۳، ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ: ملتان
(۲) قولہ: اسی حدیث میں مذکور ہے کہ صحابہ آں حضورت صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب منہ پر لگاتے یا بدن پر لگاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بقیہ پانی پیتے تھے:
”قال: فَواللّٰہ ما تنخم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نخامةً الّا وقعت فی کفِّ رجلٍ منہم فَدَلَکَ بہا وجہَہ وجِلْدَہ “․ (بخاری شریف ۱/۳۷۹)
مطلب یہ ہے کہ تم لات کے لعاب کو چوسو، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب کو منہ پر لگاتے اور چوستے رہیں گے۔
یقول العبد الضعیف:
بلاشبہ حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک اور بلغم مبارک اپنے چہرے اور بدن پر مَلتے تھے؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ مبارک سے نہیں چوستے تھے؛ بلکہ اپنی ہتھیلیوں میں لے کر پھر چہرے اور بدن پر ملتے تھے؛ لہٰذا حدیثِ بالا کو بنیاد بناکر امصص بظر اللات کا مطلب ”تم لات کے لعاب کو چوسو“ نکالنا تکلف سے خالی نہیں۔
(۳) قولہ: عروہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر سب وشتم کا الزام نہیں لگایا، معلوم ہوا یہ گالی نہیں تھی۔
یقول العبد الضعیف:
صلح حدیبیہ والی اسی روایت میں معاً وارد ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ”امصص بظر اللات، أنحن نفرّ عنہ و نَدَعُہ“ فرمایا، تو عروہ بن مسعود نے دریافت کیا کہ یہ (کلام کرنے والا) کون ہے؟ حاضرین نے کہا: ابوبکر ہیں۔ عروہ نے کہا: سنیے! اس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر آپ کا احسان مجھ پر نہ ہوتا، جس کا میں اب تک آپ کو بدلہ نہیں دے سکا ہوں، تو ضرور آپ کو جواب دیتا۔ فَقَالَ لَہ أَبُوْبَکْرٍ: اِمْصَصْ بَظْرَ اللَّاتِ، أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْہُ وَنَدَعُہ؟ فَقَالَ: مَنْ ذَا؟ قَالُوْا: أَبُوْبَکْرٍ․ قَالَ: أمَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ، لَوْلاَ یَدٌ کَانَتْ لَکَ عِنْدِیْ لَمْ أجْزکَ بِہَا لَأجَبْتُکَ․
(صحیح بخاری، ص:۳۷۸، ج:۱، قدیمی: کراچی)
اس سے صاف معلوم ہوا کہ عروہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا کلام: امصص بظر اللات سُنا اور اس کو اپنے محمل میں رکھا، یعنی جس قصد وارادہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ کہا تھا، عروہ نے اس کا مقصود، سب وشتم کو پالیا؛ لیکن دیت کی ادائیگی میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مکّی دور میں عروہ کی دس اونٹنیوں سے مدد کی تھی، اب تک وہ احسان اتار نہ سکنے کی وجہ سے عروہ نے اس کا جواب نہ دیا؛ بلکہ اس نے بقولِ خود صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی گالی کا جواب نہ دے کراحسان اتارا۔
اگر امصص بظر اللات سے سب وشتم مقصود نہ تھا اور عروہ نے اس کو سب وشتم کے معنی میں نہیں لیا تھا؛ بلکہ اس کا مطلب وہ تھا، جو مجیب محترم نے ذکر فرمایا ہے، تو احسان اتار نہ سکنا جواب دینے میں مانع کیوں کر ہوا؟
(۴) قولہ: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اُسے اچھے معنی پر محمول کیا جائے۔
یقول العبد الضعیف:
ماقبل میں معلوم ہوچکا کہ جنگی حالات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ قتال باللسان پر مشتمل کلام ہرگز ان کی شانِ صدیقیت کے خلاف نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
واضح رہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ پر یہ الزام لگانا کہ نعوذباللہ آپ نے تمام مسلمانوں خواہ ان کا تعلق کسی بھی زمانے یا مسلک سے ہو کو گالیاں دی ہیں ایک جاہلانہ اعتراض ہے جس کی کچھ بھی حقیقت نہیں ۔ا ول تو حضرت مرزا صاحب کے بعض سخت الفاظ کے متعلق لفظ گالی کا اطلاق کرنا حد درجہ کی بد دیانتی ہے دوسرا یہ کہ حضرت صاحب کے ان سخت الفاظ کے مخاطب بھی گنتی کے چندلو گ تھے نہ کہ معترضین کے گمراہ کن گمان کے مطابق تمام مسلمان۔
حضرت مرزا صاحب نے ہر گز ہر گز شریف اور مہذب مولویوں یا دوسرے عام مسلمانوں کو گالی نہیں دی ۔ یہ محض معترضین کی شر انگیزی ہے کہ وہ عوام الناس اور شریف علماء کو حضرت مرزا صاحب کے خلاف اشتعال دلانے کی غرض سے اصل عبارات کو ان کے سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے اور کانٹ چھانٹ کر پیش کر کے کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے تمام مسلمانوں کو گالیاں دی ہیں ۔حالانکہ حضرت مرزا صاحب کی ان تحریرات میں سخت الفاظ(جنہیں معترضین گالیوں کے نا م سے موسوم کرتے ہیں) کے مخاطب وہ چند گنتی کے مولوی ۔پادری یا پنڈت تھے جو حضرت صاحب کو ایک لمبے عرصے تک نہایت فحش اور ننگی گالیاں دیتے رہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت صاحب اور حضور ؑ کے اہل بیت کے گندے اور توہین آمیز کارٹو ن بنا کر شائع کیے۔
ان لوگوں میں محمد بخش جعفر زٹلی ۔شیخ محمد حسین ۔سعد اللہ لدھیانوی اور عبد الحق امرتسری خاص طور پر گالیاں دینے میں پیش پیش تھے ۔ پس حضرت مسیح موعود ؑکے بعض سخت الفاظ اس قسم کے بد زبان لوگوں کی نسبت بطور جواب کے ہیں۔ لیکن تعجب ہے کہ وہ معدودے چند مخصوص لوگ جو ان تحریرات کے اصل مخاطب تھے ۔عرصہ ہوا فوت بھی ہو چکے اور آج ان کا نام لیوا بھی کوئی باقی نہیں۔لیکن معترضین آج سے قریباً 100برس پہلے کی شائع شدہ تحریریں پیش کر کے موجودہ لوگوں کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ تحریرات تمہارے متعلق ہیں ۔حالانکہ آج کے یہ بے خودمعترضین اور ان کے سامعین وہ لوگ ہیں جو ان تحریروں کی اشاعت کے وقت ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
پھر یہ بات تو ہر شخص تسلیم کرے گا کہ اس قسم کی گندی اور فحش گالیاں جیسی حضرت صاحب کے مخالفین نے آپ کو دیں سن کر کوئی شریف یا نیک فطرت انسان ان گالیاں دینے والوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے کبھی نہیں دیکھ سکتا ۔پس اگر ایسے لوگوں کی نسبت حضرت صاحب نے جوابی طور پر بظاہر سخت الفاظ استعمال فرمائے ہوں تو بموجب ارشاد خداوندی :
”لَایُحِبُ اللہُ الْجَھْرَ بِالْسُّوْءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ” (النساء :149)
(اللہ بری با ت کہنا پسند نہیں کرتا مگر وہ مستثنی ہے جس پر ظلم کیا گیا ہو)
حضرت صاحب کی کسی تحریر کو بھی سخت یا نا مناسب نہیں کہا جاسکتا ۔
پھر حضرت صاحب نے ان گالیاں دینے والے گندے دشمنوں کو بھی کوئی گالی نہیں دی بلکہ حقیقت الامر کو بیا ن کیا۔ آپ نے ان کی نسبت جو کچھ فرمایا ۔دراصل وہ آنحضرت ﷺ کی حدیث کا بڑا نرم ترجمہ کیا ہے ۔
حدیث میں ہے: ۔”عُلَمَاءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَمَاءِ”
( مشکوة کتاب العلم با ب الاعتصام با لکتا ب وا لسنة قدیمی کتب خا نہ آ رام با غ کرا چی)
کہ وہ علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے ۔
گویا اگر آسمان کے نیچے بد ذا ت بھی رہتے ہیں تو فرمایا شرھم یعنی ان سے بھی وہ بد تر ہوں گے ۔پس حضرت نے تو نرم الفاظ استعمال فرمائے ہیں ورنہ آنحضرت ﷺ نے تو تفضیل کل کا صیغہ بولا ہے ۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرما دیا کہ:
”لَیْسَ کَلَامُنَا ھَذَا فِیْ اَخْیَارِھِمْ بَلْ فِیْ اَشْرَارِھِمْ ”
(الھدیٰ حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ314)
کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہے یہ صرف شریر علماء کی نسبت لکھا ہے ورنہ غیر احمدیوں میں سے جو علماء شریر نہیں ہیں ۔ہم نے ان کی نسبت یہ نہیں لکھا۔
پھر معترضین کا حضرت مسیح موعود پر علیہ السلام یہ الزام لگا نا کہ نعوذبا للہ آپ نے امت محمدیہ کے تمام گذشتہ اولیا ء اور صالحین امت کی توہین کی اور ان کو گالیا ں دیں ،بھی سراسر بد دیا نتی پر مبنی الزام ہے اور حضرت مرزا صاحب کے معتقدات اور صریح بیانا ت کے خلا ف ہے