سوال نمبر:۲:…مکرم مولانا! اگر آپ کے اس اصول کو درست تسلیم کرلیا جائے کہ کسی انسان کا اپنے عقیدہ کا اقرار تسلیم نہ کیا جائے تو مذہبی دنیا سے ایمان اٹھ جائے گا۔ اس حالت میں ہر فرقہ دوسرے فرقہ پر کافر اور منافق ہونے کا فتویٰ صادر کردے گا اور کوئی شخص بھی دنیا میں اپنے عقیدہ اور اپنے ایمان کی طرف منسوب نہ ہوسکے گا، اور ہر ایک شخص کے بیان کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں وہ شخص اپنے بیان میں جھوٹا اور منافق قرار دیا جائے گا اور یہ سلوک آپ کے مخالفین آپ کے ساتھ بھی روا رکھیں گے اور آپ کو بھی اپنے عقیدہ اور ایمان میں مخلص قرار نہ دیں گے کیا آپ اس اصول کو تسلیم کریں گے۔
کیا خدا تعالیٰ اور اس کے مقدس رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایسا کہنے کی اجازت دی ہے؟ دنیا کا مسلّمہ اخلاقی اصول جو آج تک دنیا میں رائج ہے اور مانا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص اپنا جو عقیدہ اور مذہب بیان کرتا ہے اس کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ آپ ایک مسلمان کو مسلمان اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، ایک ہندو کو ہندو اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہندو کہتا ہے، اسی طرح ہر سکھ کہلانے والے، عیسائی کہلانے والے اور دیگر مذہب کی طرف منسوب ہونے والوں سے معاملہ کیا جاتا ہے، اور اس اخلاقی اصول کو دنیا میں تسلیم کیا گیا ہے اور ساری دنیا اس پر کاربند ہے، پس جب تک احمدی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ:
(۱) ۱:…اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں۔
۲:…اس کے سب رسولوں کو مانتے ہیں۔
۳:…اللہ تعالیٰ کی سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
۴:…اللہ تعالیٰ کے سب فرشتوں کو مانتے ہیں۔
۵:…اور بعث بعد الموت پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔
اور اسی طرح پانچ ارکانِ دین پر عمل کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں اور اسلام کو آخری دین مانتے ہیں اور قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب تسلیم کرتے ہیں، اس وقت تک دنیا کی کوئی عدالت، دنیا کا کوئی قانون، دنیا کی کوئی اسمبلی اور دنیا کا کوئی حاکم اور کوئی مولوی، ملاں اور مفتی، جماعت کو اسلام کے دائرہ سے نہیں نکال سکتی اور نہ ہی ان کو کافر یا منافق کہہ سکتے ہیں، اس لئے کہ ہمارے پیارے نبی دل و جان سے پیارے آقا حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔
کہ ایک دفعہ حضرت جبرائیل نے حضور سے پوچھا “ایمان” کیا ہے؟ حضور نے فرمایا:
(۲) اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور بعث بعد الموت پر۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا درست ہے۔
پھر حضرت جبرائیل نے پوچھا یا رسول اللہ اسلام کیا ہے؟ آنحضرت نے فرمایا:
’‘’شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، قائم کرنا نماز کا، زکوٰة ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور اگر استطاعت ہو تو ایک بار حج کرنا۔ حضرت جبرائیل بولے درست ہے۔ آنحضرت نے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ یہ جبرائیل تھے جو انسان کی شکل میں ہوکر تمہیں تمہارا دین سکھلانے آئے تھے۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری کتاب الایمان)۔
(۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:
۱:…یہ ماننا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔
۲:…نماز قائم کرنا۔
۳:…رمضان کے روزے رکھنا۔
۴:…زکوٰة ادا کرنا۔
۵:…زندگی میں ایک بار حج کرنا۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان)
(۴)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص ہماری طرح کی نماز پڑھتا ہے، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے اور ہمارے ذبیحہ کو کھاتا ہے وہ مسلمان ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کی حفاظت اس کو حاصل ہے پس اے مسلمانو! اس کو کسی قسم کی تکلیف دے کر خدا تعالیٰ کو اس کے عہد میں جھوٹا نہ بناوٴ۔ (بخاری جلد اول باب فضل استقبال القبلة)۔
(۵) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حضور نے ایک موقع پر فرمایا:
“ایمان کی تین جڑیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہہ دے تو اس کے ساتھ کسی قسم کی لڑائی نہ کر اور اس کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ بنا اور اسلام سے خارج مت قرار دے۔
پس مسلمان کی یہ وہ تعریف ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اور جس کی تصدیق حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کی۔
اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ اسلام کے دائرہ میں داخل ہے اور مسلمان اور موٴمن ہے۔ اب انصاف آپ کریں کہ آپ کا بیان کہاں تک درست اور حق پر مبنی ہے۔
دوبارہ جماعت احمدیہ کے عقیدہ پر غور کرلیجئے۔
جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے، ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔
ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائکہ حق اور حشر حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا زیادہ کرے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے اور ہم ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہیں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کا اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض جانتے ہیں۔
اور ہم آسمان اور زمین کو گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افتراء کرتا ہے اور قیامت کے دن ہمارا اس پر دعویٰ ہے کہ کب اس نے ہمارا سینہ چاک کرکے دیکھا کہ ہم باوجود ہمارے اس قول کے دل سے ان اقوال کے مخالف ہیں۔
ان حالات میں اب کس طرح ہم کو منکر اسلام کہہ سکتے ہیں، اگر تحکم سے ایسا کریں گے تو آپ ضدی اور متعصب تو کہلاسکیں گے مگر ایک خداترس اور متقی انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ امید ہے کہ آپ انصاف کی نظر سے اس مکتوب کا مطالعہ فرماکر اس کے جواب سے سرفراز فرمائیں گے۔ محمد شریف
الجواب
بسم الله الرحمن الرحیم
مکرم و محترم ہدانا الله وایاکم الیٰ صراط مستقیم!
جناب کا طویل گرامی نامہ، طویل سفر سے واپسی پر خطوط کے انبار میں ملا۔ میں عدیم الفرصتی کی بنا پر خطوط کا جواب ان کے حاشیہ میں لکھ دیا کرتا ہوں، جناب کی تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ جب آپ دین کی ساری باتوں کو مانتے ہیں تو آپ کو خارج از اسلام کیوں کہا جاتا ہے؟
میرے محترم! یہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ آپ کے اور مسلمانوں کے درمیان بہت سی باتوں میں اختلاف ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کو نبی مانتے ہیں اور مسلمان اس کے منکر ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ مرزا صاحب اگر واقعتا نبی ہیں تو ان کا انکار کرنے والے کافر ہوئے، اور اگر نبی نہیں تو ان کو ماننے والے کافر۔ اس لئے آپ کا یہ اصرار تو صحیح نہیں کہ آپ کے عقائد ٹھیک وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں، جبکہ دونوں کے درمیان کفر و اسلام کا فرق موجود ہے، آپ ہمارے عقائد کو غلط سمجھتے ہیں اس لئے ہمیں کافر قرار دیتے ہیں، جیسا کہ مرزا غلام احمد صاحب، حکیم نور دین صاحب، مرزا محمود صاحب اور مرزا بشیر احمد صاحب، نیز دیگر قادیانی اکابر کی تحریروں سے واضح ہے اور اس پر بہت سی کتابیں اور مقالے لکھے جاچکے ہیں۔
اس کے برعکس ہم لوگ آپ کی جماعت کے عقائد کو غلط اور موجب کفر سمجھتے ہیں، اس لئے آپ کی یہ بحث تو بالکل ہی بے جا ہے کہ مسلمان، آپ کی جماعت کو دائرہٴ اسلام سے خارج کیوں کہتے ہیں؟ البتہ یہ نکتہ ضرور قابل لحاظ ہے کہ آدمی کن باتوں سے کافر ہوجاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ تمام باتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ منقول چلی آتی ہیں اور جن کو گزشتہ صدیوں کے اکابر مجددین بلااختلاف و نزاع، ہمیشہ مانتے چلے آئے ہیں (ان کو ضروریاتِ دین کہا جاتا ہے) ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے اور منکر کافر ہے۔ کیونکہ “ضروریاتِ دین” میں سے کسی ایک کا انکار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور پورے دین کے انکار کو مستلزم ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کی ایک آیت کا انکار پورے قرآن مجید کا انکار ہے، اور یہ اصول کسی آج کے مُلَّا، مولوی کا نہیں بلکہ خدا اور رسول کا ارشاد فرمودہ ہے اور بزرگانِ سلف ہمیشہ اس کو لکھتے آئے ہیں۔ چونکہ مرزا صاحب کے عقائد میں بہت سی “ضروریاتِ دین” کا انکار پایا جاتا ہے، اس لئے خدا اور رسول کے حکم کے تحت مسلمان ان کو کافر سمجھنے پر مجبور ہیں۔ پس اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ آپ کا حشر اسلامی برادری میں ہو تو مرزا صاحب اور ان کی جماعت نے جو نئے عقائد ایجاد کئے ہیں ان سے توبہ کرلیجئے، ورنہ “لکم دینکم ولی دین” والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ!
کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنگن پہننے والی پیش گوئی
غلط ثابت ہوئی
س… یہاں قادیانی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نبی (علیہ السلام) نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے دونوں ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہیں، لیکن وہ کنگن حضور (علیہ السلام) نہ پہن سکے، اس کا مطلب ہے کہ ان کی پیش گوئی جھوٹی نکلی (نعوذ باللہ)۔
یہ حدیث کیا ہے؟ کس کتاب کی ہے؟ وضاحت سے لکھیں۔
ج…دو کنگنوں کی حدیث دوسری کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری (کتاب المغازی) باب قصہ الاسود العنسی صفحہ:۶۲۸، اور کتاب التعبیر باب النفخ فی المنام ص:۱۰۴۲ میں بھی ہے، حدیث کا متن یہ ہے:
“میں سو رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اور میرے ہاتھوں پر دو کنگن سونے کے رکھے گئے، میں ان سے گھبرایا اور ان کو ناگوار سمجھا، مجھے حکم ہوا کہ ان پر پھونک دو، میں نے پھونکا تو دونوں اڑگئے۔ میں نے اس کی تعبیر ان دو جھوٹوں سے کی جو دعویٴ نبوت کریں گے، ایک اسود عنسی اور دوسرا مسیلمہ کذاب۔”
اس خواب کی جو تعبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی وہ سوفیصد سچی نکلی، اس کو “جھوٹی پیش گوئی” کہنا قادیانی کافروں ہی کا کام ہے۔
کیا خدا تعالیٰ اور اس کے مقدس رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایسا کہنے کی اجازت دی ہے؟ دنیا کا مسلّمہ اخلاقی اصول جو آج تک دنیا میں رائج ہے اور مانا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص اپنا جو عقیدہ اور مذہب بیان کرتا ہے اس کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ آپ ایک مسلمان کو مسلمان اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، ایک ہندو کو ہندو اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہندو کہتا ہے، اسی طرح ہر سکھ کہلانے والے، عیسائی کہلانے والے اور دیگر مذہب کی طرف منسوب ہونے والوں سے معاملہ کیا جاتا ہے، اور اس اخلاقی اصول کو دنیا میں تسلیم کیا گیا ہے اور ساری دنیا اس پر کاربند ہے، پس جب تک احمدی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ:
(۱) ۱:…اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں۔
۲:…اس کے سب رسولوں کو مانتے ہیں۔
۳:…اللہ تعالیٰ کی سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
۴:…اللہ تعالیٰ کے سب فرشتوں کو مانتے ہیں۔
۵:…اور بعث بعد الموت پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔
اور اسی طرح پانچ ارکانِ دین پر عمل کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں اور اسلام کو آخری دین مانتے ہیں اور قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب تسلیم کرتے ہیں، اس وقت تک دنیا کی کوئی عدالت، دنیا کا کوئی قانون، دنیا کی کوئی اسمبلی اور دنیا کا کوئی حاکم اور کوئی مولوی، ملاں اور مفتی، جماعت کو اسلام کے دائرہ سے نہیں نکال سکتی اور نہ ہی ان کو کافر یا منافق کہہ سکتے ہیں، اس لئے کہ ہمارے پیارے نبی دل و جان سے پیارے آقا حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔
کہ ایک دفعہ حضرت جبرائیل نے حضور سے پوچھا “ایمان” کیا ہے؟ حضور نے فرمایا:
(۲) اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور بعث بعد الموت پر۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا درست ہے۔
پھر حضرت جبرائیل نے پوچھا یا رسول اللہ اسلام کیا ہے؟ آنحضرت نے فرمایا:
’‘’شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، قائم کرنا نماز کا، زکوٰة ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور اگر استطاعت ہو تو ایک بار حج کرنا۔ حضرت جبرائیل بولے درست ہے۔ آنحضرت نے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ یہ جبرائیل تھے جو انسان کی شکل میں ہوکر تمہیں تمہارا دین سکھلانے آئے تھے۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری کتاب الایمان)۔
(۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:
۱:…یہ ماننا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔
۲:…نماز قائم کرنا۔
۳:…رمضان کے روزے رکھنا۔
۴:…زکوٰة ادا کرنا۔
۵:…زندگی میں ایک بار حج کرنا۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان)
(۴)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص ہماری طرح کی نماز پڑھتا ہے، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے اور ہمارے ذبیحہ کو کھاتا ہے وہ مسلمان ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کی حفاظت اس کو حاصل ہے پس اے مسلمانو! اس کو کسی قسم کی تکلیف دے کر خدا تعالیٰ کو اس کے عہد میں جھوٹا نہ بناوٴ۔ (بخاری جلد اول باب فضل استقبال القبلة)۔
(۵) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حضور نے ایک موقع پر فرمایا:
“ایمان کی تین جڑیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہہ دے تو اس کے ساتھ کسی قسم کی لڑائی نہ کر اور اس کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ بنا اور اسلام سے خارج مت قرار دے۔
پس مسلمان کی یہ وہ تعریف ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اور جس کی تصدیق حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کی۔
اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ اسلام کے دائرہ میں داخل ہے اور مسلمان اور موٴمن ہے۔ اب انصاف آپ کریں کہ آپ کا بیان کہاں تک درست اور حق پر مبنی ہے۔
دوبارہ جماعت احمدیہ کے عقیدہ پر غور کرلیجئے۔
جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے، ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔
ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائکہ حق اور حشر حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا زیادہ کرے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے اور ہم ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہیں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کا اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض جانتے ہیں۔
اور ہم آسمان اور زمین کو گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افتراء کرتا ہے اور قیامت کے دن ہمارا اس پر دعویٰ ہے کہ کب اس نے ہمارا سینہ چاک کرکے دیکھا کہ ہم باوجود ہمارے اس قول کے دل سے ان اقوال کے مخالف ہیں۔
ان حالات میں اب کس طرح ہم کو منکر اسلام کہہ سکتے ہیں، اگر تحکم سے ایسا کریں گے تو آپ ضدی اور متعصب تو کہلاسکیں گے مگر ایک خداترس اور متقی انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ امید ہے کہ آپ انصاف کی نظر سے اس مکتوب کا مطالعہ فرماکر اس کے جواب سے سرفراز فرمائیں گے۔ محمد شریف
الجواب
بسم الله الرحمن الرحیم
مکرم و محترم ہدانا الله وایاکم الیٰ صراط مستقیم!
جناب کا طویل گرامی نامہ، طویل سفر سے واپسی پر خطوط کے انبار میں ملا۔ میں عدیم الفرصتی کی بنا پر خطوط کا جواب ان کے حاشیہ میں لکھ دیا کرتا ہوں، جناب کی تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ جب آپ دین کی ساری باتوں کو مانتے ہیں تو آپ کو خارج از اسلام کیوں کہا جاتا ہے؟
میرے محترم! یہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ آپ کے اور مسلمانوں کے درمیان بہت سی باتوں میں اختلاف ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کو نبی مانتے ہیں اور مسلمان اس کے منکر ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ مرزا صاحب اگر واقعتا نبی ہیں تو ان کا انکار کرنے والے کافر ہوئے، اور اگر نبی نہیں تو ان کو ماننے والے کافر۔ اس لئے آپ کا یہ اصرار تو صحیح نہیں کہ آپ کے عقائد ٹھیک وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں، جبکہ دونوں کے درمیان کفر و اسلام کا فرق موجود ہے، آپ ہمارے عقائد کو غلط سمجھتے ہیں اس لئے ہمیں کافر قرار دیتے ہیں، جیسا کہ مرزا غلام احمد صاحب، حکیم نور دین صاحب، مرزا محمود صاحب اور مرزا بشیر احمد صاحب، نیز دیگر قادیانی اکابر کی تحریروں سے واضح ہے اور اس پر بہت سی کتابیں اور مقالے لکھے جاچکے ہیں۔
اس کے برعکس ہم لوگ آپ کی جماعت کے عقائد کو غلط اور موجب کفر سمجھتے ہیں، اس لئے آپ کی یہ بحث تو بالکل ہی بے جا ہے کہ مسلمان، آپ کی جماعت کو دائرہٴ اسلام سے خارج کیوں کہتے ہیں؟ البتہ یہ نکتہ ضرور قابل لحاظ ہے کہ آدمی کن باتوں سے کافر ہوجاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ تمام باتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ منقول چلی آتی ہیں اور جن کو گزشتہ صدیوں کے اکابر مجددین بلااختلاف و نزاع، ہمیشہ مانتے چلے آئے ہیں (ان کو ضروریاتِ دین کہا جاتا ہے) ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے اور منکر کافر ہے۔ کیونکہ “ضروریاتِ دین” میں سے کسی ایک کا انکار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور پورے دین کے انکار کو مستلزم ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کی ایک آیت کا انکار پورے قرآن مجید کا انکار ہے، اور یہ اصول کسی آج کے مُلَّا، مولوی کا نہیں بلکہ خدا اور رسول کا ارشاد فرمودہ ہے اور بزرگانِ سلف ہمیشہ اس کو لکھتے آئے ہیں۔ چونکہ مرزا صاحب کے عقائد میں بہت سی “ضروریاتِ دین” کا انکار پایا جاتا ہے، اس لئے خدا اور رسول کے حکم کے تحت مسلمان ان کو کافر سمجھنے پر مجبور ہیں۔ پس اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ آپ کا حشر اسلامی برادری میں ہو تو مرزا صاحب اور ان کی جماعت نے جو نئے عقائد ایجاد کئے ہیں ان سے توبہ کرلیجئے، ورنہ “لکم دینکم ولی دین” والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ!
کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنگن پہننے والی پیش گوئی
غلط ثابت ہوئی
س… یہاں قادیانی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نبی (علیہ السلام) نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے دونوں ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہیں، لیکن وہ کنگن حضور (علیہ السلام) نہ پہن سکے، اس کا مطلب ہے کہ ان کی پیش گوئی جھوٹی نکلی (نعوذ باللہ)۔
یہ حدیث کیا ہے؟ کس کتاب کی ہے؟ وضاحت سے لکھیں۔
ج…دو کنگنوں کی حدیث دوسری کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری (کتاب المغازی) باب قصہ الاسود العنسی صفحہ:۶۲۸، اور کتاب التعبیر باب النفخ فی المنام ص:۱۰۴۲ میں بھی ہے، حدیث کا متن یہ ہے:
“میں سو رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اور میرے ہاتھوں پر دو کنگن سونے کے رکھے گئے، میں ان سے گھبرایا اور ان کو ناگوار سمجھا، مجھے حکم ہوا کہ ان پر پھونک دو، میں نے پھونکا تو دونوں اڑگئے۔ میں نے اس کی تعبیر ان دو جھوٹوں سے کی جو دعویٴ نبوت کریں گے، ایک اسود عنسی اور دوسرا مسیلمہ کذاب۔”
اس خواب کی جو تعبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی وہ سوفیصد سچی نکلی، اس کو “جھوٹی پیش گوئی” کہنا قادیانی کافروں ہی کا کام ہے۔