س… “امت محمدیہ کے آخری دور میں ․․․․․․․․․ دجال اکبر کا خروج مقدر و مقرر تھا۔” (ص:۵ سطر: پہلی و دوسری) اگر یہ دجال اکبر تھا تو لازماً کوئی ایک یا بہت سارے دجال اصغر بھی ہوں گے۔ ان کے بارے میں ذرا وضاحت فرمائی جائے، کب اور کہاں ظاہر ہوں گے، شناخت کیا ہوگی اور ان کے ذمہ کیا کام ہوں گے اور ان کی شناخت کے بغیر کسی دوسرے کو یک دم “دجال اکبر” کیسے تسلیم کرلیا جائے گا۔
ج… جی ہاں! “دجالِ اکبر” سے پہلے چھوٹے چھوٹے دجال کئی ہوئے اور ہوں گے۔ مسیلمہ کذاب سے لے کر غلام احمد قادیانی تک جن لوگوں نے دجل و فریب سے نبوت یا خدائی کے جھوٹے دعوے کئے، ان سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے “دجالون کذابون” فرمایا ہے، ان کی علامت یہی دجل و فریب، غلط تاویلیں کرنا، چودہ سو سال کے قطعی عقائد کا انکار کرنا، ارشاداتِ نبویہ کا مذاق اڑانا، سلف صالحین کی تحقیر کرنا اور غلام احمد قادیانی کی طرح صاف اور سفید جھوٹ بولنا، مثلاً:
a:…انا انزلناہ قریباً من القادیان۔
a:…قرآن میں قادیانی کا ذکر ہے۔
a:…مسیح موعود چودہویں صدی کے سر پر آئے گا، اور پنجاب میں آئے گا، وغیرہ وغیرہ۔
س… اس رسالہ کے مطالعہ سے ابتداء ہی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بن باپ کی پیدائش سے لے کر واقعہ صلیب کے انجام تک جس قدر بھی علامات یا دوسری متعلقہ ظاہری نشانیاں اور باتیں بیان کی گئی ہیں وہ اس وجود کے متعلق ہیں جسے مسیح علیہ السلام، عیسیٰ بن مریم اور مسیح ناصری کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے، اور اب بھی جبکہ رسالہ مذکورہ کے مصنف کے خیال کے مطابق مسیح موعود یا مہدی موعود وغیرہ کا نزول نہیں ہوا (بلکہ انتظار ہی ہے) تب بھی پوری دنیا اس مسیح کے نام اور کام اور واقعات سے بخوبی واقف ہے۔ یہ نشانیاں تو اس قوم نے آج کے لوگوں سے زیادہ دیکھی تھیں، (محض سنی اور پڑھی ہی نہیں تھیں) جن کی طرف وہ نازل ہوا تھا، تب بھی اس قوم نے جو سلوک اس کے ساتھ کیا، کیا وہ دنیا سے چھپا ہوا ہے، اس وقت بھی اس قوم نے اسے اللہ تعالیٰ کا نبی ماننے سے انکار کردیا تھا اب اگر وہ (یا کوئی) آکر کہنے لگے کہ میں وہی ہوں جو بن باپ پیدا ہوا تھا، میری ماں مریم تھی اور میں پنگوڑے میں باتیں کیا کرتا تھا اور مردے زندہ کیا کرتا تھا، چڑیاں بناکر ان میں روح پھونکا کرتا تھا، اندھوں کو بینائی بخشتا تھا اور جذام کے مریض تندرست کردیا کرتا تھا وغیرہ وغیرہ تو اب بھی موجودہ تمام اقوام کو کیونکر یقین آسکے گا کہ واقعی پہلے بھی یہ ایسا کرتا رہا ہوگا اور یہ یقینا وہی شخص ہے اور جب پہلی بار نازل ہوا تو محض بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے آیا تھا اور جب مقامی لوگوں نے دل و جان سے قبول نہ کیا تو گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں اتنے سفر اختیار کئے کہ “مسیح” کے لقب سے پکارا جانے لگا لیکن اب جبکہ وہ دوسری بار نازل ہوگا تو ایک سراپا قیامت بن کر آئے گا جیسا کہ رسالہ ہذا سے ظاہر ہے، مثلاً ملاحظہ فرمائیں:
“جس کسی کافر پر آپ کے سانس کی ہوا پہنچ جائے گی وہ مرجائے گا۔” (ص:۱۸، علامت:۶۴)۔
“سانس کی ہوا اتنی دور تک پہنچے گی جہاں تک آپ کی نظر جائے گی۔” (ص:۱۸، علامت:۶۵)۔
ج…اس سوال کا جواب کئی طرح دیا جاسکتا ہے۔
۱:…مرزا قادیانی پر مسیح موعود کی ایک علامت بھی صادق نہیں آئی، مگر قادیانیوں کو دعویٰ ہے کہ انہوں نے مسیح موعود کو پہچان لیا، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن پر قرآن و حدیث کی دو صد علامات صادق آئیں گی ان کی پہچان اہل حق کو کیوں نہ ہوسکے گی؟
۲:…یہود نے پہچاننے کے باوجود نہیں مانا تھا اور یہود اور ان کے بھائی (مرزائی) آئندہ بھی نہیں مانیں گے، نہ ماننے کے لئے آمادہ ہیں، اہل حق نے اس وقت بھی ان کو پہچان اور مان لیا تھا اور آئندہ بھی ان کو پہچاننے اور ماننے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔
۳:…سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا جو خاکہ ارشاداتِ نبویہ میں بیان کیا گیا ہے اگر وہ معترض کے پیش نظر ہوتا تو اسے یہ سوال کرنے کی جرأت ہی نہ ہوتی۔ فرمایا گیا ہے کہ مسلمان دجال کی فوج کے محاصرے میں ہوں گے، نماز فجر کے وقت یکایک عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، اس وقت آپ کا پورا حلیہ اور نقشہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہے، ایسے وقت میں جب ٹھیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ نقشہ کے مطابق وہ نازل ہوں گے تو ان کو بالبداہت اسی طرح پہچان لیا جائے گا جس طرح اپنا جانا پہچانا آدمی سفر سے واپس آئے تو اس کے پہچاننے میں دقت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی حدیث میں یہ نہیں آتا کہ وہ نازل ہونے کے بعد اپنی مسیحیت کے اشتہار چھپوائیں گے، یا لوگوں سے اس موضوع پر مباحثے اور مباہلے کرتے پھریں گے۔
س… لگے ہاتھوں مولوی صاحب اس رسالہ میں یہ بھی بتادیتے تو مسلمانوں پر احسان ہوتا ہے کہ ان کی (یعنی مسیح موعود کی) سانس مومن اور کافر میں کیونکر امتیاز کرے گی۔ کیونکہ بقول مولوی صاحب ان کی سانس نے صرف کافروں کو ڈھیر کرنا ہے، نظر ہر انسان کی بشرطیکہ کسی خاص بیماری کا شکار نہ ہو تو لامحدود اور ناقابل پیمائش فاصلوں تک جاسکتی ہے اور جاتی ہے تو کیا مسیح موعود اپنی نظروں سے ہی اتنی تباہی مچادے گا؟
ج… جس طرح مقناطیس لوہے اور سونے میں امتیاز کرتا ہے، اسی طرح اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی نظر بھی موٴمن و کافر میں امتیاز کرے تو اس میں تعجب ہی کیا ہے؟ اور حضرت مسیح علیہ السلام کی نظر (کافر کش) کا ذکر مرزا قادیانی نے بھی کیا ہے۔
س… اور اگر یہ سب ممکن ہوگا تو پھر دجال سے لڑنے کے لئے آٹھ سو مرد اور چار سو عورتیں کیوں جمع ہوں گی (ملاحظہ ہو ص:۱۹، علامت نمبر:۷۱)۔
ج…دجال کا لشکر پہلے سے جمع ہوگا اور دم عیسوی سے ہلاک ہوگا، جو کافر کسی چیز کی اوٹ میں پناہ لیں گے وہ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوں گے۔
س… اور یاجوج ماجوج کو ہلاک کرنے کے لئے بددعا کی ضرورت کیوں پیش آئے گی (ملاحظہ ہو ص:۳۱، علامت نمبر:۱۶۲)، کیا مسیح موعود کی ہلاکت خیز نظر یاجوج ماجوج کو کافر نہ جان کر چھوڑ دے گی کیونکہ جیسا پہلے بتایا جاچکا ہے کہ کافر تو نہیں بچ سکے گا، شاید اسی لئے آخری حربہ کے طور پر بددعا کی جائے گی۔
ج… یہ کہیں نہیں فرمایا گیا کہ دم عیسوی کی یہ تاثیر ہمیشہ رہے گی، بوقت نزول یہ تاثیر ہوگی اور یاجوج ماجوج کا قصہ بعد کا ہے، اس لئے دم عیسوی سے ان کا ہلاک ہونا ضروری نہیں۔
س… اگر مسیح ابن مریم اور مسیح موعود ایک ہی وجود کا نام ہے (اور محض دوبارہ نزول کے بعد مسیح بن مریم نے ہی مسیح موعود کہلانا ہے) اور اس نے نازل ہوکر خود بھی قرآن و حدیث پر عمل کرنا ہے اور دوسروں کو بھی اسی راہ پر چلانا ہے (ملاحظہ ہو ص:۲۲، علامت نمبر:۹۹) تو بقول مولوی صاحب جب عیسیٰ کا آسمان پر زندہ اٹھایا جانا وہ اس آیت سے ثابت کرتے ہیں: “انی متوفیک ورافعک الیّ” (آل عمران:۵۵) (ص:۱۶، علامت نمبر:۴۹) تو کیا مولوی صاحب بتائیں گے کہ کیا یہ قرآن مجید میں قیامت تک نہیں رہے گی اور اس کا مطلب و مفہوم عربی زبان اور الٰہی منشا کے مطابق وہی نہیں رہے گا جو اب تک مولوی صاحب کی سمجھ میں آیا ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو نزول کے وقت بھی تو یہ آیت یہی اعلان کر رہی ہوگی کہ عیسیٰ بن مریم کو آسمان پر اٹھالیا، اٹھالیا تو پھر واپسی کے لئے کیا یہ آیت منسوخ ہوجائے گی، یا عیسیٰ اسے خود ہی منسوخ قرار دے کر اپنے لئے راستہ صاف کرلیں گے، کیونکہ قرآن مجید میں تو کہیں ذکر نہیں کہ کوئی بھی آیت کبھی بھی منسوخ ہوگی۔ لہٰذا یہ آیت عیسیٰ کی واپسی کا راستہ قیامت تک روکے رکھے گی اور یہ وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے خود کیا ہے اور مولوی صاحب خود بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ذکر ہم نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے لہٰذا کسے حق حاصل ہے کہ اس میں یعنی اس کے متن میں ردّ و بدل کرسکے۔
ج… یہ آیت تو ایک واقعہ کی حکایت ہے اور اسی حکایت کی حیثیت سے اب بھی غیرمنسوخ ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے بعد بھی غیرمنسوخ رہے گی، جیسا کہ: “انی جاعل فی الارض خلیفة۔ واذ قلنا للملٰئکة اسجدوا لاٰدم۔” وغیرہ بے شمار آیات ہیں۔ سائل بے چارا یہ بھی نہیں جانتا کہ نسخ امر و نہی میں ہوتا ہے اور یہ آیت امر و نہی کے باب سے نہیں بلکہ خبر ہے اور خبر منسوخ نہیں ہوا کرتی۔
س… مولوی صاحب نے کہیں بھی یہ بات وضاحت سے نہیں بیان فرمائی کہ قرآن مجید میں اگر عیسیٰ کے آسمان پر جانے کا جیسے ذکر موجود ہے تو کہیں اسی وجود کے واپس آنے کا ذکر بھی واضح اور غیرمبہم طور پر موجود ہے۔
ج… وضاحت کی ہے، مگر اس کے سمجھنے کے لئے علم و عقل اور بصیرت و ایمان درکار ہے۔ دیکھئے علامت نمبر:۵۷ جس میں حدیث نمبر:۱ کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس میں قرآن مجید کی آیت موجود ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے اصل کتاب میں حدیث نمبر: ۷۶ تا ۸۵۔
س… سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی طور پر یہ منوا بھی لیا جائے کہ مسیح موعود کا نام عیسیٰ بن مریم بھی ہوگا تو بھی یہ کیسے منوایا جائے کہ اس وقت یہ نام صفاتی نہیں ہوگا بلکہ عیسیٰ بن مریم ہونے کی وجہ سے یقینی طور پر یہ وجود وہی ہوگا جو کبھی مریم کے گھر بغیر باپ کے پیدا ہوا تھا ․․․․․ وغیرہ وغیرہ، بلکہ مولوی صاحب اپنے رسالہ میں خود ہی تسلیم کرتے ہیں کہ کبھی کبھی معروف نام استعمال تو ہوجاتا ہے لیکن ذات وہ مراد نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ نام مشہور ہوا ہو، مثلاً ملاحظہ فرمائیں ص:۱۱، علامت نمبر:۱۰ جہاں مولوی صاحب مسیح موعود کے خاندان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: “آپ کے ماموں ہارون ہیں” (یا اخت ہارون) لیکن مولوی صاحب فوراً چونک اٹھتے ہیں اور “ہارون” پر حاشیہ جماتے ہیں (ملاحظہ ہو حاشیہ زیر ص:۱۱) “ہارون سے اس جگہ ہارون نبیمراد نہیں کیونکہ وہ تو مریم سے بہت پہلے گزر چکے تھے بلکہ ان کے نام پر حضرت مریم کے بھائی کا نام ہارون رکھا گیا تھا ․․․․․” تو جیسے یہاں مولوی صاحب کو “ہارون” کی فوراً تاویل کرنا پڑی تاکہ الجھن دور ہو تو کیوں نہ جب مسیح موعود کو عیسیٰ بن مریم بھی کہا جائے تو اسے بھی صفاتی نام سمجھ کر تاویل کرلی جائے اور جسمانی طور پر پہلے والا عیسیٰ بن مریم مراد نہ لیا جائے کیونکہ ابھی ابھی بتایا جاچکا ہے کہ مولوی صاحب کے اپنے حوالہ کے مطابق بھی مسیح بن مریم کے اٹھائے جانے کے بعد اس کا واپس آنا ممکن نہیں کیونکہ کوئی آیت منسوخ نہیں ہوگی اور “ورافعک الیّ” والی آیت اوپر ہی اٹھائے رکھے گی، لوٹ آنے کی اجازت نہیں دے گی۔
ج…عیسیٰ بن مریم ذاتی نام ہے، اس کو دنیا کے کسی عقلمند نے کبھی “صفاتی نام” نہیں کہا، یہ بات وہی مراقی شخص کہہ سکتا ہے جو باریش و بروت اس بات کا مدعی ہو کہ “وہ عورت بن گیا، خدا نے اس پر قوتِ رجولیت کا مظاہرہ کیا”، “وہ مریمی صفت میں نشوونما پاتا رہا، پھر وہ یکایک حاملہ ہوگیا، اسے درد زہ ہوا، وضع حمل کے آثار نمودار ہوئے، اس نے عیسیٰ کو جنا، اس طرح وہ عیسیٰ بن مریم بن گیا۔” انبیاء علیہم السلام کے علوم میں اس “مراق” اور “ذیابیطس کے اثر” کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہارون، حضرت مریم کے بھائی کا ذاتی نام تھا، یہ کس احمق نے کہا کہ وہ صفاتی نام تھا؟ اور خاندان کے بڑے بزرگ کے نام پر کسی بچے کا نام رکھ دیا جائے تو کیا دنیا کے عقلاء اس کو “صفاتی نام” کہا کرتے ہیں؟ غالباً سائل کو یہی علم نہیں کہ ذاتی نام کیا ہوتا ہے اور صفاتی نام کسے کہتے ہیں؟ ورنہ وہ حضرت مریم کے بھائی کے نام کو “صفاتی نام” کہہ کر اپنی فہم و ذکاوت کا نمونہ پیش نہ کرتا، ہارون اگر “صفاتی نام” ہے تو کیا معترض یہ بتاسکے گا کہ ان کا ذاتی نام کیا تھا؟
ج… جی ہاں! “دجالِ اکبر” سے پہلے چھوٹے چھوٹے دجال کئی ہوئے اور ہوں گے۔ مسیلمہ کذاب سے لے کر غلام احمد قادیانی تک جن لوگوں نے دجل و فریب سے نبوت یا خدائی کے جھوٹے دعوے کئے، ان سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے “دجالون کذابون” فرمایا ہے، ان کی علامت یہی دجل و فریب، غلط تاویلیں کرنا، چودہ سو سال کے قطعی عقائد کا انکار کرنا، ارشاداتِ نبویہ کا مذاق اڑانا، سلف صالحین کی تحقیر کرنا اور غلام احمد قادیانی کی طرح صاف اور سفید جھوٹ بولنا، مثلاً:
a:…انا انزلناہ قریباً من القادیان۔
a:…قرآن میں قادیانی کا ذکر ہے۔
a:…مسیح موعود چودہویں صدی کے سر پر آئے گا، اور پنجاب میں آئے گا، وغیرہ وغیرہ۔
س… اس رسالہ کے مطالعہ سے ابتداء ہی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بن باپ کی پیدائش سے لے کر واقعہ صلیب کے انجام تک جس قدر بھی علامات یا دوسری متعلقہ ظاہری نشانیاں اور باتیں بیان کی گئی ہیں وہ اس وجود کے متعلق ہیں جسے مسیح علیہ السلام، عیسیٰ بن مریم اور مسیح ناصری کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے، اور اب بھی جبکہ رسالہ مذکورہ کے مصنف کے خیال کے مطابق مسیح موعود یا مہدی موعود وغیرہ کا نزول نہیں ہوا (بلکہ انتظار ہی ہے) تب بھی پوری دنیا اس مسیح کے نام اور کام اور واقعات سے بخوبی واقف ہے۔ یہ نشانیاں تو اس قوم نے آج کے لوگوں سے زیادہ دیکھی تھیں، (محض سنی اور پڑھی ہی نہیں تھیں) جن کی طرف وہ نازل ہوا تھا، تب بھی اس قوم نے جو سلوک اس کے ساتھ کیا، کیا وہ دنیا سے چھپا ہوا ہے، اس وقت بھی اس قوم نے اسے اللہ تعالیٰ کا نبی ماننے سے انکار کردیا تھا اب اگر وہ (یا کوئی) آکر کہنے لگے کہ میں وہی ہوں جو بن باپ پیدا ہوا تھا، میری ماں مریم تھی اور میں پنگوڑے میں باتیں کیا کرتا تھا اور مردے زندہ کیا کرتا تھا، چڑیاں بناکر ان میں روح پھونکا کرتا تھا، اندھوں کو بینائی بخشتا تھا اور جذام کے مریض تندرست کردیا کرتا تھا وغیرہ وغیرہ تو اب بھی موجودہ تمام اقوام کو کیونکر یقین آسکے گا کہ واقعی پہلے بھی یہ ایسا کرتا رہا ہوگا اور یہ یقینا وہی شخص ہے اور جب پہلی بار نازل ہوا تو محض بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے آیا تھا اور جب مقامی لوگوں نے دل و جان سے قبول نہ کیا تو گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں اتنے سفر اختیار کئے کہ “مسیح” کے لقب سے پکارا جانے لگا لیکن اب جبکہ وہ دوسری بار نازل ہوگا تو ایک سراپا قیامت بن کر آئے گا جیسا کہ رسالہ ہذا سے ظاہر ہے، مثلاً ملاحظہ فرمائیں:
“جس کسی کافر پر آپ کے سانس کی ہوا پہنچ جائے گی وہ مرجائے گا۔” (ص:۱۸، علامت:۶۴)۔
“سانس کی ہوا اتنی دور تک پہنچے گی جہاں تک آپ کی نظر جائے گی۔” (ص:۱۸، علامت:۶۵)۔
ج…اس سوال کا جواب کئی طرح دیا جاسکتا ہے۔
۱:…مرزا قادیانی پر مسیح موعود کی ایک علامت بھی صادق نہیں آئی، مگر قادیانیوں کو دعویٰ ہے کہ انہوں نے مسیح موعود کو پہچان لیا، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن پر قرآن و حدیث کی دو صد علامات صادق آئیں گی ان کی پہچان اہل حق کو کیوں نہ ہوسکے گی؟
۲:…یہود نے پہچاننے کے باوجود نہیں مانا تھا اور یہود اور ان کے بھائی (مرزائی) آئندہ بھی نہیں مانیں گے، نہ ماننے کے لئے آمادہ ہیں، اہل حق نے اس وقت بھی ان کو پہچان اور مان لیا تھا اور آئندہ بھی ان کو پہچاننے اور ماننے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔
۳:…سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا جو خاکہ ارشاداتِ نبویہ میں بیان کیا گیا ہے اگر وہ معترض کے پیش نظر ہوتا تو اسے یہ سوال کرنے کی جرأت ہی نہ ہوتی۔ فرمایا گیا ہے کہ مسلمان دجال کی فوج کے محاصرے میں ہوں گے، نماز فجر کے وقت یکایک عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، اس وقت آپ کا پورا حلیہ اور نقشہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہے، ایسے وقت میں جب ٹھیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ نقشہ کے مطابق وہ نازل ہوں گے تو ان کو بالبداہت اسی طرح پہچان لیا جائے گا جس طرح اپنا جانا پہچانا آدمی سفر سے واپس آئے تو اس کے پہچاننے میں دقت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی حدیث میں یہ نہیں آتا کہ وہ نازل ہونے کے بعد اپنی مسیحیت کے اشتہار چھپوائیں گے، یا لوگوں سے اس موضوع پر مباحثے اور مباہلے کرتے پھریں گے۔
س… لگے ہاتھوں مولوی صاحب اس رسالہ میں یہ بھی بتادیتے تو مسلمانوں پر احسان ہوتا ہے کہ ان کی (یعنی مسیح موعود کی) سانس مومن اور کافر میں کیونکر امتیاز کرے گی۔ کیونکہ بقول مولوی صاحب ان کی سانس نے صرف کافروں کو ڈھیر کرنا ہے، نظر ہر انسان کی بشرطیکہ کسی خاص بیماری کا شکار نہ ہو تو لامحدود اور ناقابل پیمائش فاصلوں تک جاسکتی ہے اور جاتی ہے تو کیا مسیح موعود اپنی نظروں سے ہی اتنی تباہی مچادے گا؟
ج… جس طرح مقناطیس لوہے اور سونے میں امتیاز کرتا ہے، اسی طرح اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی نظر بھی موٴمن و کافر میں امتیاز کرے تو اس میں تعجب ہی کیا ہے؟ اور حضرت مسیح علیہ السلام کی نظر (کافر کش) کا ذکر مرزا قادیانی نے بھی کیا ہے۔
س… اور اگر یہ سب ممکن ہوگا تو پھر دجال سے لڑنے کے لئے آٹھ سو مرد اور چار سو عورتیں کیوں جمع ہوں گی (ملاحظہ ہو ص:۱۹، علامت نمبر:۷۱)۔
ج…دجال کا لشکر پہلے سے جمع ہوگا اور دم عیسوی سے ہلاک ہوگا، جو کافر کسی چیز کی اوٹ میں پناہ لیں گے وہ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوں گے۔
س… اور یاجوج ماجوج کو ہلاک کرنے کے لئے بددعا کی ضرورت کیوں پیش آئے گی (ملاحظہ ہو ص:۳۱، علامت نمبر:۱۶۲)، کیا مسیح موعود کی ہلاکت خیز نظر یاجوج ماجوج کو کافر نہ جان کر چھوڑ دے گی کیونکہ جیسا پہلے بتایا جاچکا ہے کہ کافر تو نہیں بچ سکے گا، شاید اسی لئے آخری حربہ کے طور پر بددعا کی جائے گی۔
ج… یہ کہیں نہیں فرمایا گیا کہ دم عیسوی کی یہ تاثیر ہمیشہ رہے گی، بوقت نزول یہ تاثیر ہوگی اور یاجوج ماجوج کا قصہ بعد کا ہے، اس لئے دم عیسوی سے ان کا ہلاک ہونا ضروری نہیں۔
س… اگر مسیح ابن مریم اور مسیح موعود ایک ہی وجود کا نام ہے (اور محض دوبارہ نزول کے بعد مسیح بن مریم نے ہی مسیح موعود کہلانا ہے) اور اس نے نازل ہوکر خود بھی قرآن و حدیث پر عمل کرنا ہے اور دوسروں کو بھی اسی راہ پر چلانا ہے (ملاحظہ ہو ص:۲۲، علامت نمبر:۹۹) تو بقول مولوی صاحب جب عیسیٰ کا آسمان پر زندہ اٹھایا جانا وہ اس آیت سے ثابت کرتے ہیں: “انی متوفیک ورافعک الیّ” (آل عمران:۵۵) (ص:۱۶، علامت نمبر:۴۹) تو کیا مولوی صاحب بتائیں گے کہ کیا یہ قرآن مجید میں قیامت تک نہیں رہے گی اور اس کا مطلب و مفہوم عربی زبان اور الٰہی منشا کے مطابق وہی نہیں رہے گا جو اب تک مولوی صاحب کی سمجھ میں آیا ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو نزول کے وقت بھی تو یہ آیت یہی اعلان کر رہی ہوگی کہ عیسیٰ بن مریم کو آسمان پر اٹھالیا، اٹھالیا تو پھر واپسی کے لئے کیا یہ آیت منسوخ ہوجائے گی، یا عیسیٰ اسے خود ہی منسوخ قرار دے کر اپنے لئے راستہ صاف کرلیں گے، کیونکہ قرآن مجید میں تو کہیں ذکر نہیں کہ کوئی بھی آیت کبھی بھی منسوخ ہوگی۔ لہٰذا یہ آیت عیسیٰ کی واپسی کا راستہ قیامت تک روکے رکھے گی اور یہ وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے خود کیا ہے اور مولوی صاحب خود بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ذکر ہم نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے لہٰذا کسے حق حاصل ہے کہ اس میں یعنی اس کے متن میں ردّ و بدل کرسکے۔
ج… یہ آیت تو ایک واقعہ کی حکایت ہے اور اسی حکایت کی حیثیت سے اب بھی غیرمنسوخ ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے بعد بھی غیرمنسوخ رہے گی، جیسا کہ: “انی جاعل فی الارض خلیفة۔ واذ قلنا للملٰئکة اسجدوا لاٰدم۔” وغیرہ بے شمار آیات ہیں۔ سائل بے چارا یہ بھی نہیں جانتا کہ نسخ امر و نہی میں ہوتا ہے اور یہ آیت امر و نہی کے باب سے نہیں بلکہ خبر ہے اور خبر منسوخ نہیں ہوا کرتی۔
س… مولوی صاحب نے کہیں بھی یہ بات وضاحت سے نہیں بیان فرمائی کہ قرآن مجید میں اگر عیسیٰ کے آسمان پر جانے کا جیسے ذکر موجود ہے تو کہیں اسی وجود کے واپس آنے کا ذکر بھی واضح اور غیرمبہم طور پر موجود ہے۔
ج… وضاحت کی ہے، مگر اس کے سمجھنے کے لئے علم و عقل اور بصیرت و ایمان درکار ہے۔ دیکھئے علامت نمبر:۵۷ جس میں حدیث نمبر:۱ کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس میں قرآن مجید کی آیت موجود ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے اصل کتاب میں حدیث نمبر: ۷۶ تا ۸۵۔
س… سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی طور پر یہ منوا بھی لیا جائے کہ مسیح موعود کا نام عیسیٰ بن مریم بھی ہوگا تو بھی یہ کیسے منوایا جائے کہ اس وقت یہ نام صفاتی نہیں ہوگا بلکہ عیسیٰ بن مریم ہونے کی وجہ سے یقینی طور پر یہ وجود وہی ہوگا جو کبھی مریم کے گھر بغیر باپ کے پیدا ہوا تھا ․․․․․ وغیرہ وغیرہ، بلکہ مولوی صاحب اپنے رسالہ میں خود ہی تسلیم کرتے ہیں کہ کبھی کبھی معروف نام استعمال تو ہوجاتا ہے لیکن ذات وہ مراد نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ نام مشہور ہوا ہو، مثلاً ملاحظہ فرمائیں ص:۱۱، علامت نمبر:۱۰ جہاں مولوی صاحب مسیح موعود کے خاندان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: “آپ کے ماموں ہارون ہیں” (یا اخت ہارون) لیکن مولوی صاحب فوراً چونک اٹھتے ہیں اور “ہارون” پر حاشیہ جماتے ہیں (ملاحظہ ہو حاشیہ زیر ص:۱۱) “ہارون سے اس جگہ ہارون نبیمراد نہیں کیونکہ وہ تو مریم سے بہت پہلے گزر چکے تھے بلکہ ان کے نام پر حضرت مریم کے بھائی کا نام ہارون رکھا گیا تھا ․․․․․” تو جیسے یہاں مولوی صاحب کو “ہارون” کی فوراً تاویل کرنا پڑی تاکہ الجھن دور ہو تو کیوں نہ جب مسیح موعود کو عیسیٰ بن مریم بھی کہا جائے تو اسے بھی صفاتی نام سمجھ کر تاویل کرلی جائے اور جسمانی طور پر پہلے والا عیسیٰ بن مریم مراد نہ لیا جائے کیونکہ ابھی ابھی بتایا جاچکا ہے کہ مولوی صاحب کے اپنے حوالہ کے مطابق بھی مسیح بن مریم کے اٹھائے جانے کے بعد اس کا واپس آنا ممکن نہیں کیونکہ کوئی آیت منسوخ نہیں ہوگی اور “ورافعک الیّ” والی آیت اوپر ہی اٹھائے رکھے گی، لوٹ آنے کی اجازت نہیں دے گی۔
ج…عیسیٰ بن مریم ذاتی نام ہے، اس کو دنیا کے کسی عقلمند نے کبھی “صفاتی نام” نہیں کہا، یہ بات وہی مراقی شخص کہہ سکتا ہے جو باریش و بروت اس بات کا مدعی ہو کہ “وہ عورت بن گیا، خدا نے اس پر قوتِ رجولیت کا مظاہرہ کیا”، “وہ مریمی صفت میں نشوونما پاتا رہا، پھر وہ یکایک حاملہ ہوگیا، اسے درد زہ ہوا، وضع حمل کے آثار نمودار ہوئے، اس نے عیسیٰ کو جنا، اس طرح وہ عیسیٰ بن مریم بن گیا۔” انبیاء علیہم السلام کے علوم میں اس “مراق” اور “ذیابیطس کے اثر” کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہارون، حضرت مریم کے بھائی کا ذاتی نام تھا، یہ کس احمق نے کہا کہ وہ صفاتی نام تھا؟ اور خاندان کے بڑے بزرگ کے نام پر کسی بچے کا نام رکھ دیا جائے تو کیا دنیا کے عقلاء اس کو “صفاتی نام” کہا کرتے ہیں؟ غالباً سائل کو یہی علم نہیں کہ ذاتی نام کیا ہوتا ہے اور صفاتی نام کسے کہتے ہیں؟ ورنہ وہ حضرت مریم کے بھائی کے نام کو “صفاتی نام” کہہ کر اپنی فہم و ذکاوت کا نمونہ پیش نہ کرتا، ہارون اگر “صفاتی نام” ہے تو کیا معترض یہ بتاسکے گا کہ ان کا ذاتی نام کیا تھا؟