• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی اعتراض ''حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے'' کا منہ توڑ جواب

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مرزا قادیانی علیہ ما علیہ کے صریح جھوٹوں کو جب قادیانی، مرزائی حضرات کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو ان سے جب مرزا قادیانی کے جھوٹوں کا کوئی جواب نہیں بن پاتا تو وہ انبیاء کرامؑ پر اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔ اعتراضات میں ایک اعتراض حدیث ابراہیمی پر کیا جاتا ہے اور حضرت ابراہیم کے تین ''کذب'' بیان کئے جاتے ہیں اور ان پر اپنی کم فہمی کی بنا پر شور مچایا جاتا ہے۔ گو کے اس ضمن میں انٹرنیٹ پر بحمد اللہ ایک وسیع مواد مل جاتا ہے اور جہاں تفصیلاً اس موضوع پر بحث کی گئی ہے مثلاً
1) ''ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا''
2) ''کیا حضرت ابراہیم نے تین جھوٹ بولے؟ ایک دھوکے کا پوسٹ مارٹم'' (ختم نبوت فورم)
3) ''حدیث ابراہیم پر تشریحات''
4) ''ابراہیم علیہ السلام سے منسوب تین جھوٹ پر تحقیق''
5) ''تفسیر ابن کثیر متعلقہ سورۃ الصافات آیت 88''
6) ''حدیث ابراہیمی پر اعتراض اور اس کا جواب''
7) '' کیا ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے؟''

لیکن جب قادیانیوں سے لنکڈ طریق سے بات کی جاتی ہے تو وہ کچھ ٹائم کے لیے نہ صرف منکرین حدیث بلکہ ملحد تک بن کر اس حدیث پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں اور لاکھ کوشش کے باوجود وہ اپنی نہ مانو کی رٹ لگائے ہوئے اپنی آخرت کو مزید مشکل کرتے رہتے ہیں۔ ان کو جواب دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کو ان کی ہی کتب سے جواب دے کر ان کے منہ کو بند کر دیا جائے۔ اسی سلسلے میں کچھ حوالاجات پیش ہیں۔

سب سے پہلے مرزا قادیانی کی زبانی جو مندرجہ بالا لنک میں بھی موجود ہے۔ مرزا قادیانی لکھتا ہے۔

یاد رہے کہ اکثر ایسے اسرار دقیقہ بصورت افعال یا اقوال انبیاء سے ظہور میں آتے رہے ہیں کہ جو نادانوں کی نظر میں سخت بیہودہ اور شرمناک کام تھے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصریوں کے برتن اور پارچات مانگ کر لے جانا اور پھر اپنے مصرف میں لانا اور حضرت مسیح علیہ السلام کا کسی فاحشہ کے گھر چلے جانا اور اس کا عطر پیش کردہ جو کسی حلال وجہ سے نہیں تھا استعمال کرنا اور اس کے لگانے سے روک نہ دینا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تین مرتبہ ایسے طور پر کلام کرنا جو بظاہر دروغ گوئی میں داخل تھا پھر اگر کوئی تکبر اور خود ستائی کی راہ سے اس بنا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ کہے کہ نعوذ باللہ وہ مال حرام کھانے والے تھے یا حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت یہ زبان پر لاوے کہ وہ طوائف کے گندہ مال کو اپنے کام میں لایا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت یہ تحریر شائع کرے کہ مجھے جس قدر بدگمانی ہے اس کی وجہ ان کی دروغ گوئی ہے تو ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس پلید کا مادہ اور خمیر ہے۔“ (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۵- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 597-598)

مرزا قادیانی نے ابراہیم علیہ السلام کی متعلق منسوب واقعات کو ''بظاہر'' کے لفظ سے واضح کر دیا ہے کہ یہ حقیقتا جھوٹ نہیں ہیں اور پھر مرزا قادیانی نے ان لوگوں کی نسبت جو اس بنا پر یہ شور مچاتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے نعوذ باللہ صریح جھوٹ بولے ان پر اپنا فتوی اپنی سنت کے لحاظ سے ان الفاظ میں دیا ''ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس پلید کا مادہ اور خمیر ہے۔'' قادیانیوں کو یہ روایت پیش کرنے سے پہلے مرزا قادیانی کے یہ الفاظ زہن میں رکھ لینے چاہیئے۔

اس کے علاوہ اس مکمل روایت کی تشریح ہم مرزائی شارح کی ہی زبانی بیان کر دیتے ہیں تاکہ ان کے لیے انکار کی کوئی گنجائش نہ بچے۔

مرزائی شارح زین العابدین نے اس حدیث کی شرح یوں کی ہے
لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاھِیْمُ اِلَّا ثَلَاثًا : دسویں روایت (نمبر 3357) اور گیارہویں روایت (نمبر 3358) بلخاظ سند مُعَنْعَن اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں۔ پہلی میں ہے: قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ عَلِیْہِ وَ سَلم لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاھِیْمُ اِلَّا ثَلَاثًا ۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین باتوں کے سوا خلاف واقعہ بات نہیں کی۔ ثَلَاثًا کی تمیز مَرَّاتٍ بھی ہو سکتی ہے اور کَذَبَاتٍ بھی۔ ترجمہ میں جھوٹ لے لفظ سے کِذْب کا صحیح مفہوم ادا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس سے زہن فوراً دروغ گوئی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ در حقیقت عربی میں کذب ایک ایسا لفظ ہے جو اپنے معانی میں بہت وسعت رکھتا ہے۔ ایسا اَمر بھی جو حقیقت میں ہو تو صحیح مگر بظاہر خلافِ واقعہ معلوم ہوتا ہو کذب ہی کہلائے گا۔ مغالطہ، اخفاء، کنایہ، خطا، سہو و نسیان اور فریب نظر بات پر بھی یہ الفاظ اطلاق پاتا ہے۔(یہاں-ناقل) جھوٹ کذب کا مترادف نہیں۔ اگر کذب کا ترجمہ جھوٹ اختیار کیا جائے تو کذب کا مفہوم جو فقرہ سے لَمْ یَکْذِبْ اِلَّا ثَلَاثًا سے مقصود ہے، ادا نہیں ہو گا اور جو اِلَّاکے بعد وضاحت کی گئی ہے اس کے خلاف بھی ہے۔۔۔۔۔۔حضرت ابراہیم کے جن کذبات کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں سے پہلا یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سورج، چاند اور ستاروں کو دیکھ کر ھٰذا رَبِّی کہا۔ یہ فقرہ بظاہر خلاف واقع نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقتاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسلوب بیان از قبیل تہکم و توبیح ہے اور علم معانی میں یہ طریقِ گفتگو تعریض کہلاتا ہے۔ یعنی کسی امر کو ایسے پیرایہ میں بیان کرنا جس کا بطلان خود واضح ہو جائے۔ ہر زبان میں یہ اسلوب مستعمل ہے اور جھوٹ نہیں کہلاتا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ کہنا کہ بَلْ فَعَلَہُ کَبِیرُہُمْ ہَذَا فَاسْاٴَلُوہُمْ إِنْ کَانُوا یَنطِقُونَ (الأنبیاء:64) خلاف واقعہ نہیں۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں: کسی کرنے والے نے یہ فعل کیا ہے۔ یعنی بتوں کو توڑا ہے۔ پھر بڑے بت کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ ان کا بڑا (بت) ہے، ان سے پوچھو اگر یہ بولتے ہیں۔(حاشیہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دلیل یہ ہے کہ بڑا موقعہ کا گواہ صحیح سالم موجود ہے اور جن سے واقعہ ہوا ہے وہ بھی موجود ہیں۔ نہ تمہیں یہ بڑا بتا سکتا ہے اور نہ وہ جن سے یہ ہوا ہے۔ تو پھر تم ان کو کیوں اپنا کار ساز بناتے ہو) حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد ان کے اس جواب سے واضح ہے کہ یہ بت کسی بات کا جواب نہیں دیتے نہ بات کو سنتے اور سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کو معبود بنانا غلطی ہے۔ آپ علیہ السلام کے اس انداز گفتگو سے بتوں کو پوجنے والے سمجھ گئے اور شرمندہ ہو کر وہاں سے چلے گئے۔ جیسا کے اگلی آیت فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنْفُسِهِمْ سے ظاہر ہے۔
پس وہ اسلوب کلام جس سے والے سمجھ جائیں اس کو خلاف واقعہ(جھوٹ-ناقل) کہنا از حد ظلم ہے۔ چنانچہ امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات پورے زور سے لکھی ہے کہ لَمْ یَکُنْ کِذْبًا لِأَنَّهُ مِنْ بَابِ الْمَعارِیْضِ ۔ پھر لکھا ہے: وَھَذَا قَوْلُ الْأَکْثَرِ أَنَّهُ قَالَ تَوْبِیْخًا لِّقَوْمِهِ أَوْ تَھَکُّمًا ۔ یعنی اکثر علماء کا یہی قول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مذکورہ بالا اسلوب بطور تنبیہ و تعریض اختیار کیا ہے علامہ قرطبی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس اسلوب بیان کو ایسا استدلال بلیغ قرار دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرکین لاجواب اور شرمندہ ہو گئے۔ پس جو لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف اپنی کم فہمی کی وجہ سے کذب منسوب کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاھِیْمُ فرما کر ان سے کذب کا الزام دور فرمایا۔ کیونکہ اِلَّا ثَلَاثًا کی جو وضاحت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مفصل غیر مرفوع روایت میں مذکور ہے اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی برأت ہی مقصود ہے۔ (فتح الباری جزء 6 صفحہ 473)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف جو خلافِ واقعہ کہی گئی تین باتیں منسوب کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے بحالت صحت اِنِّی سَقِیْمٌ کہا جو سورۃ الصافات آیت 90 میں مذکور ہے۔ اس آیت سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس خطاب کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا اور جو ان الفاظ میں ہے: أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَo فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَo فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِo فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌo فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَo فَرَاغَ إِلَىٰ آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَo مَا لَكُمْ لَا تَنطِقُونَo فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِo (الصافات:87تا94)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو، کیا جھوٹ کی؟ یعنی اللہ کے سوا اور معبودوں کو چاہتے ہو۔ پس بتاؤ تو سہی تمہارا ربّ العالمین کی نسبت کیا خیال ہے؟ پھر اس نے ستاروں کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں بیمار ہونے والا ہوں۔ پس وہ لوگ اسے چھوڑ کر چلے گئے اور وہ بھی ان کے معبودوں کی طرف چپکے سے چلا گیا اور انہیں دیکھ کر کہا: کیا تم کچھ کھاتے نہیں۔ تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے بھی نہیں۔ پھر چپکے سے اپنے دائیں ہاتھ سے ایک کاری ضرب لگائی۔
اسلوب بیان وہی ہے جو سورۃ الانبیاء میں اختیار فرمایا گیا ہے۔ مشرک تاثیراتِ کواکب پر یقین رکھتے تھے اور اسی وجہ سے ان میں ستارہ پرستی رائج تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے باطل ثابت کیا اور ستاروں کو دیکھ کر فرمایا: تمہارے زائچوں اور علم نجوم کے مطابق تو میں اس وقت بیمار ہونے والا ہوں اور آپ علیہ السلام کا یہ فرمانہ کاہنوں کے طریق پر تو ٹھیک تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ علیہ السلام بیمار نہیں ہوئے۔ گویا اس طرح مشرکین کو انہی کے مایہ ناز علم جوتش کے ذریعہ جھوٹا ثابت کیا اور توحید باری تعالیٰ کی تلقین ایسے طریق سے فرمائی جو ایک حجت بالغہ ہے۔ جھوٹ سے اس کا ہرگز تعلق نہیں۔ امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے إِنِّي سَقِيمٌ کے معنی سَأَسْقِمُ ہی کئے ہیں۔ یعنی عنقریب میں بیمار ہوں گا اور لکھا ہے کہ فَاعِلٌ کبھی مستقبل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔(فتح الباری جزء 6صفحہ 473) کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قول إِنِّي سَقِيمٌ کا تعلق آیت فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ سے تب ہی با معنی ہو سکتا ہے جب ستارہ پرستوں کا عقیدہ مدنظر رکھا جائے کہ وہ ستاروں کی تاثیرات و تصرفات کے قائل تھے اور اب تک ہیں۔ جس کا بطلان سارے سیاقِ کلام سے واضح ہے۔ غرض اکابر علماءِ سلف کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لَمْ یَکْذِبْ کہہ کر در حقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جھوٹ کی نفی فرمائی ہے۔
ایک اور واقعہ جو روایت کی بعض سندوں میں آنحضرت کا قول بیان کی جاتا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنی بیوی کو بہن کہہ دینا ہے۔ اس تعلق میں امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قول نقل کیا ہے کہ حضرت سارہ رشتے میں ان کی چچا زاد بہن تھیں۔ بعض مورخین کی تحقیق میں ان کے اس چچا کا نام ھاران ہے(فتح الباری جزء 6 صفحہ 474) لہٰذا ان کا مذکورہ قول توریہ(ذومعنی بات-ناقل) تو کہلا سکتا ہے، جھوٹ نہیں۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ انکی بیوی سے حضرت ابراہیم کا صلہ رحمی کا رشتہ نہ بھی ہو تو بھی اس سے اخوتِ اسلامی کا رشتہ تو موجود ہے۔ اس تعلق کی رو سے سارہ ان کی بہن تھیں۔ ایک تعلق کا اظہار اور دوسرے تعلق کے اخفاء سے جھوٹ کا الزام عائد نہیں ہوتا۔ (صحیح بخاری جلد ششم صفحہ: 259تا 261 مطبوعہ قادیان ناشر نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمدیہ قادیان ترجمہ و شارح سید زین العابدین ولی اللہ شاہ)

توریہ کیا ہے؟ مرزا غلام قادیانی کی وضاحت
بعض احادیث میں توریہ کے جواز کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور اسی کو نفرت دلانے کی غرض سے کذب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اور ایک جاہل اور احمق جب ایسا لفظ کسی حدیث میں بطور تسامح کے لکھا ہوا پاوے تو شاید اس کو حقیقی کذب ہی سمجھ لے۔۔۔مگر توریہ جو در حقیقت کذب نہیں ۔۔اور توریہ اسلامی اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں کہ فتنہ کے خوف سے ایک بات کو چھپانے کیلئے یا کسی اور مصلحت پر ایک راز کی بات مخفی رکھنے کی غرض سے ایسی مثالوں اور پیرایوں میں اس کو بیان کیا جائے کہ عقلمند تو اس بات کو سمجھ جائے اور نادان کی سمجھ میں نہ آئے اور اس کا خیال دوسری طرف چلا جائے جو متکلم کا مقصود نہیں۔ اور غور کرنے کے بعد معلوم ہو کہ جو کچھ متکلم نے کہا وہ جھوٹ نہیں بلکہ حق محض ہے اور کچھ بھی کذب کی اس میں آمیزش نہ ہو اور نہ دل نے ایک زرہ بھی کذب کی طرف میل کیا ہو۔۔۔اگر کسی حدیث میں توریہ کو بطور تسامح کذب کے لفظ سے بیان بھی کیا گیا ہو تو یہ سخت جہالت ہے کہ کوئی شخص اس کو حقیقی کذب پر محمول کرے“(مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 196 تا 197 مکتوب نمبر 10 بنام پادری صاحبان،نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 404تا405، آنحضرتﷺ پر اعتراضات اور انکے جوابات صفحہ 452)
کذب کیوں کہا گیا؟
”اگر فرض بھی کر لیں کہ کسی حدیث میں بجائے توریہ کے کذب کا لفظ آ گیا ہو تو نعوذ باللہ اس سے مراد حقیقی کذب کیوں کر ہو سکتا ہے۔ بلکہ اس کے قائل کے نہایت باریک تقویٰ کا یہ نشان ہو گا کہ جس نے توریہ کو کذب کی صورت سمجھ کر بطور تسامح کذب کا لفظ استعمال کیا ہو۔“(مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 198 مکتوب نمبر 10 بنام پادری صاحبان)

اس قدر وضاحت ہو جانے کے بعد بھی اگر کوئی قادیانی کہے کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام نے نعوذ باللہ جھوٹ بولے تو یقینا مرزا قادیانی کے الفاظ کے اس پر فٹ آتے ہیں۔
''ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس پلید کا مادہ اور خمیر ہے۔'' فاعتبروا ياأولي الأبصار
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سکین پیجز
fwnmzd.jpg

4hqlw9.jpg

2zoafmf.jpg

2lcy36h.jpg

122yhk8.jpg

wmfou1.jpg

315c0at.jpg

1zdx5pg.jpg

2rhv0yc.jpg

scuvkk.jpg
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اسی حوالے سے قادیانیوں کے خلیفہ دوم مرزا محمود احمد کہتے ہیں ۔
بخاری کی حدیث کو ایک نبی کی عصمت کو محفوظ رکھنے کے لئے رد تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس بارہ میں میرے لئے ایک مشکل ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ مجھے اللہ ہی نے رویا، کے ذریعے بتایا ہے کہ بخاری میں جس قدر حدیثیں ہیں وہ سب سچی ہیں اور چونکہ حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق بخاری میں ہی ثلاث کذبات کے الفاظ آئے ہیں اس لئے سوال پیدا ہوتا ہےکہ پھر اس کا مفہوم کیا ہے ۔
جہاں تک کذبات کے لفظ کا سوال ہے اس حد تک یہ بات بالکل صاف ہے کہ کذب کے معنی عربی زبان کے محاورہ کے مطابق ایسی بات کہنے کے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کی نگاہ میں جھوٹ نظر آئے لیکن ہو سچی ۔۔۔۔۔ جس حد تک یہ واقعہ بخاری میں آتا ہے ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ
حضرت ابراہیم ؑ نے جھوٹ بولا
بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تین دفعہ ایسا موقع پیش آیا کہ حضرت ابراہیمؑ نےایک بات کہی جس کے لوگوں نے ایسےمعنی لئے جن کی بنا پر بعد میں انہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو جھوٹا کہا اور وہ غلطی پر تھے ۔
حضرت ابراہیمؑ نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا اور لوگوں نے خود غلطی کی تھی اور یہ ان کا اپنا خیال تھا ۔
(الفضل ج 32 شمارہ 150 ۔۔ 29 جون 1944 ص 1،2)
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اسی حوالے سے قادیانیوں کے خلیفہ دوم مرزا محمود احمد کہتے ہیں ۔
بخاری کی حدیث کو ایک نبی کی عصمت کو محفوظ رکھنے کے لئے رد تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس بارہ میں میرے لئے ایک مشکل ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ مجھے اللہ ہی نے رویا، کے ذریعے بتایا ہے کہ بخاری میں جس قدر حدیثیں ہیں وہ سب سچی ہیں اور چونکہ حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق بخاری میں ہی ثلاث کذبات کے الفاظ آئے ہیں اس لئے سوال پیدا ہوتا ہےکہ پھر اس کا مفہوم کیا ہے ۔
جہاں تک کذبات کے لفظ کا سوال ہے اس حد تک یہ بات بالکل صاف ہے کہ کذب کے معنی عربی زبان کے محاورہ کے مطابق ایسی بات کہنے کے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کی نگاہ میں جھوٹ نظر آئے لیکن ہو سچی ۔۔۔۔۔ جس حد تک یہ واقعہ بخاری میں آتا ہے ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ
حضرت ابراہیم ؑ نے جھوٹ بولا
بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تین دفعہ ایسا موقع پیش آیا کہ حضرت ابراہیمؑ نےایک بات کہی جس کے لوگوں نے ایسےمعنی لئے جن کی بنا پر بعد میں انہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو جھوٹا کہا اور وہ غلطی پر تھے ۔
حضرت ابراہیمؑ نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا اور لوگوں نے خود غلطی کی تھی اور یہ ان کا اپنا خیال تھا ۔
(الفضل ج 32 شمارہ 150 ۔۔ 29 جون 1944 ص 1،2)
بہت زبردست حوالہ ہے سلمان بھائی۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مکتوبات احمدیہ کے حوالہ سے کچھ باتیں مرزا کی نوٹ کی ہیں، انشاء اللہ مرزائیوں کا منہ بند کرنے میں کافی معاون ہوں گی۔
 
Top