قادیانی اعتراض حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور وحی پر
قادیانی: یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو آیا ان کو وحی ہوگی یا نہ۔ اگر وحی ہوگی تو ثابت ہوا کہ حضور ﷺ کے بعد وحی ہوسکتی ہے۔ پس مسلمانوں کا انقطاع وحی کا عقیدہ غلط ہوا۔
جواب۱ : انقطاع وحی سے مراد انقطاع وحی نبوت ہے۔ باقی رہا کشف والہام رویاء تو وہ امت میں جاری ہیں۔ اور خود قرآن گواہ ہے کہ وحی نبوت کے علاوہ اور بھی ہدایت کا راستہ دکھانے یا کسی مخفی امر پر مطلع کرنے کے لئے اور راستے ہیں۔ جیسے فرمایا گیا :’’ واوحینا الیٰ ام موسیٰ یا واو حیٰ ربک الی النحل۰‘‘شہد کی مکھی یا ام موسیٰ علیہ السلام کو جو رہنمائی ہوئی قرآن نے اسے وحی سے تعبیر کیا۔ حالانکہ یہ وحی ہونے کے باوجودوحی نبوت نہیں ہے۔ پس عیسیٰ علیہ السلام کو جو وحی ہوگی وہ وحی نبوت نہ ہوگی ۔ لہذا ان کی طرف وحی کا ہونا امت کے عقیدہ انقطاع وحی نبوت کے منافی نہ ہوگا۔
جواب ۲: وحی شریعت گو لازم نبوت ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر وقت اور ہر آن اس پر وحی شریعت نازل ہوتی ہے۔ اگر نازل نہ ہوتو وہ نبوت سے بھی علیحدہ ہوجائیں۔ ورنہ نبی پر جب وحی نازل ہو تو وہ نبی ہو اور جب وحی نہ ہو تو نبوت سے معزول ۔ گویا بحالی اور معزولی کا سلسلہ برابر قائم رہے گا۔ ایجاد بندہ سے تو حضور ﷺ بھی (معاذاﷲ) کبھی عہدہ نبوت پر بحال اور کبھی اس سے معزول ہوتے ہوں گے؟۔ کیونکہ کتنی مدت تک جیسے واقعہ افک میں ایک ماہ برابر اور ابتداء میں تین سال وحی کا آنا موقوف رہا۔ تو کیا حضور ﷺ بھی نبوت کے عہدہ سے معزول ہوجاتے ہوں گے؟۔(معاذ اﷲ) بے شک عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے تو وحی نبوت نہ لائیں گے۔ کیونکہ بحکم خدا وندی :’’الیوم اکملت لکم دینکم۰‘‘ دین کامل ہے اور وحی نبوت کی حاجت نہیں۔بلا ضرورت کام کرنا شان خدا وندی کے خلاف ہے۔ اس لئے نبی ہونے کے باوجود ان کو وحی نبوت نہ ہوگی۔