• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی امت اور جنسی انارکی

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
کسی شخص یا گروہ کی جنسی انارکی کے واقعات کا تذکرہ ان کی اشاعت عام طور پر ناپسندیدہ خیال کی جاتی ہے ہمیں بھی اصولاََ اس سے اتفاق ہے لیکن اس امر کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مذہب کا لبادہ اوڑھ کر خلق خدا کو گمراہ کرے اور تقدس کی آڑ میں مجبور مریدوں کی عصمتوں کے خون سے ہولی کھیلے سینکڑوں گھروں کو ویران کردے ، انبیاء کرام علیھم السلام اور دیگر مقدس افراد کے بارے زاز خائی کرے تو اسے محض اس بنا پر نظر انداز کردینا کہ وہ ایک مذہبی دوکان کا بااثر مالک ہے قانوناََ شرعاََ اخلاقاََ ہر لحاظ سے نادرست اور ناواجب ہے قرآن مجید نے مظلوم کو نہایت واضع الفاظ میں ظالم کے خلاف آواز حق بلند کرنے کی اجازت دی ہے بقولہ تعالٰی لایحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم ۔ مرزا غلام احمد نے جس زبان میں گل افشانی کی ہے کوئی بھی مہذب انسان اسے پسند نہیں کرسکتا حضرت عیسیٰ علیہ السلام بطور خاص ان کا نشانہ بنے گو دیگر انبیاء کرام اور صلحا امت میں سے بھی شاید ہی کوئی ایسا فرد ہوگا جو ان کی سلطان القلمی کی زد میں نہ آیا ہو۔ مسلمانوں کو کنجریوں کی اولاد قرار دینا مولانا سعداللہ لدھیانوی کو نحس اور نطفۃ السفہاء کے نام خطاب کرنا مناظرہ میں مسلمانون کے شہرہ آفاق مناظر کو بھونکنے والا کتا کے الفاظ سے یاد کرنا اور اس نوع کی دیگر بے شمار دشنام طرازیاں ہر سعید فطرت کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ وہ کونسی نفسیاتی الجھن ہے جو نبوت کا دعوی کرنے والے اس شخص کو ایسے الفاظ استعمال کرنے پر مجبور کر رہی ہے مرزا غلام احمد کے بعد ان کے بیٹے مرزا محمود نے بلند بانگ دعاوی کی آڑ لے کر جن قبیح حرکات کا ارتکاب کیا ان کی طرف سب سے پہلی انگلی پیر سراج الحق نعمانی نے اٹھائی اور اس ''ابن صالح'' کے کرتوتوں کے بارے میں ایک رقعہ لکھ کر مرزا غلام احمد کی پگڑی میں رکھ دیا گو ''پیر کا بیٹا'' ''مریدوں کی عدالت'' سے شبہہ کا فائدہ حاصل کرکے بچ گیا لیکن اس کے دل میں یہ بات پوری طرح جاگزین ہوگئی کہ مریدوں کی تطہیر ذہنی ہی کافی نہیں معاشی جبر کے ساتھ ساتھ ان پر ریاستی جبر کے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے جائیں تاکہ وہ کبھی سچ بات کہنے کی جراءت نہ کرسکیں پیر سراجالحق نعمانی نے اظہار حق کا جو جرم کیا تھا اس کی پاداش میں مرزا محمود نے ساری عمر اسے چین نہ لینے دیا اور ہر ممکن طریقہ سے اس پر تشدد کیا اطمینان کامل کے بعد مرزا محمود پھر اپنے دھندے میں مصروف ہوگیا اور اسکی ہر امنی احتیاطوں کے باوجود ہر چند سال کے بعد اس پر بدکاری کے الزامات لگتے رہے مباہلے کی دعوتیں دی جاتی رہیں مگر وہاں ایک خامشی تھی سب کے جواب میں۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا بڑے بڑے مخلص مرید واقف راز ہوکر ایک ہی نوعیت کے الزامات لگا کر علیحدہ ہوتے گئے اور انسانیت سوز بائیکاٹ کا شکار ہوتےرہے حیران کن امر یہ ہے کہ تین تین یا پانچ پانچ سال بعد الزامات لگانے والے ایک دوسرے سے قطعاََ نا آشنا ہیں مگر الزامات کی نوعیت ایک ہی ہے اور واقع یہ ہے کہ مرزا محمود یا اس کے خاندان کے افراد نے کبھی بھی حلف موکد بعذاب اٹھا کر اپنے مصلح موعود کی پاکیزگی کی قسم نہیں کھائی مرزا محمود کی سیرت کے تذکرہ میں ان کی ازواج اور بعض دیگر رشتہ داروں کا نام بھی آیا ہے ہم ان کے نام حذف کردیتے کیونکہ وہ ہمارے مخالف نہیں لیکن اس خیال سے کہ ریکارڈ درست رہے ، نیز اس بنا پر کہ وہ بھی اس بدکار اعظم کی شریک جرم ہیں ہم نے ان کے نام بھی اسی طرح رہنے دیئے ہیں حال ہی میں ہفت روزہ نصرت ، کراچی 14 مارچ 1979 سے متعلق ایک صحافی خاتون نے خلیفہ جی کی ایک سراپا مہر بیوی سے پوچھا کہ اتنی کمسنی میں آپکی شادی مرزا محمود جیسے بوڑھے سے کیسے ہوگئی تو انہوں نے جواباََ کہا جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی شادی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگئی تھی ۔۔ اس جواب سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس ظلمت کدے کا ہر فرد مقدسین پر کیچڑ اچھالنے کی مذموم سعی کس دیدہ دلیری سے کرتا ہے اور پھر ہمارے بعض اخبار نویس حضرات کس بے خبری سے اسے اچھالتے اور اجالتے ہیں ۔ یاد رہے کہ یہ سراپا مہر بیوی وہ ہیں جن کے بارے میں ان کی خلوتوں کے ایک رازدار کا بیان عرصہ ہوا طبع ہوچکا ہے کہ ان کے موئے زہار موجود نہیں اور ان کی ''بے رحمی'' ایک ایسا امر ہے جس سے ہر باخبر قادیانی واقف ہے ایک قادیانی مبلغ (1) نے اپنی اہلیہ کے حوالے سے مؤلف کو حلفاََ بتایا کہ ان صاحبہ نے خود اس پالتو مولوی کی بیوی کو بتایا کہ میں '' بے رحم ہوں'' میں ان کا نام بھی لکھ سکتا ہوں مگر اس خیال سے کہیں اس کی گزارہ الاؤنس والی ملازمت ختم نہ ہوجائے اس سے احتراز کرتا ہوں یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں کسی بھی کلینک میں چیک کیا جاسکتا ہے یہ ضیاع کس کُشتی کی وجہ سے ہوا تھا اس کا تحریر میں لانا مناسب نہیں صرف ان سے اتنی گزرش ہے کہ وہ آئندہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور مقدس ہستی پر الزام تراشی سے باز رہیں ورنہ ساری داستان کھول دی جائے گی اور پھوپھا جی کی کارکردگی الم نشرہ ہوجائے گی۔
مرزا محمود کے جنسی عدوان پر جن لوگوں نے موکد بعذاب قسمیں کھائی ہیں یا ان کی زندگی کے اس پہلو سے نقاب سرکائی ہے ان کا تعلق مخالفین سے نہیں ایسے مریدوں سے ہے جو قادیانیت کی خاطر سب کچھ تج کرگئے تھے۔ ان میں خود مرزا محمود کے نہایت قریبی عزیز ، ہم زلف اور برادران نسبتی تک شامل ہیں اور بالواسطہ شہادتوں میں ان کے پسران اور دختران تک کے بیانات موجود ہیں جن کی آج تک تردید نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کی گئی اس کا سبب اشاعت فحش سے اجتناب و گریز نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ واقعات کی تصدیق کے لیے اس قدر ثبوت ، شہادتیں اور قرائن موجود ہیں جن کا انکار نا ممکن ہے
ان الزامات کی صحت اور صداقت کا ایک ثبوت یہ بھی کہ ان مریدین میں سے جو کہ انتہائی اخلاص کے ساتھ قادیانیت کو سچا سمجھتے تھے اور مرزا محمود کو خلیفہ برحق مانتے تھے ان کی رنگین راتوں سے واقف ہو کر نہ صرف قادیانیت سے علیحدہ ہوئے بلکہ خدا کے وجود سے بھی منکر ہوگئے ایک شخص کو پاکبازی کا مجسمہ مان کر اس کو کار دگر میں مشغول دیکھ کر جس قسم کا رد عمل ہوسکتا ہے یہ اس کا لازمی نتیجہ ہے ان میں سماعی یقین رکھنے والے لوگ ہی نہیں عملی تجربہ سے گزرے ہوئے افراد بھی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ آغا سیف اللہ حال پبلشر روزنامہ الفضل ربوہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا طبقہ مرزا محمود احمد کو تو جولیس سیزر کا ہم مشرب سمجھتا ہے مگر کسی نہ کسی رنگ میں قادیانی عقائد سے چمٹا ہوا ہے آپ اسے ہر دو طبقہ کی عدم واقفیت یا جاہلیت کہیں میرے نزدیک دونوں قسم کا رد عمل الزامات کی صحت پر برہان قاطع ہے ماہرین جرمیات کا کہنا ہے کہ Perfect Crime وہ ہوتا ہے جو کبھی Trace نہ ہوسکے مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں آدم سے لے کر آج تک ایک بھی ایسا جرم سرزد نہیں ہوا جو اصطلاحاََ پرفیکٹ کرائم کہلا سکے کیونکہ جرم ذہن کی Abnormal حالت میں ہوتا ہے اس لیے کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور ہوجاتی ہے کوئی ایسا Flaw ضرور رہ جاتا ہے جس سے مجرم کی نشاندہی ہوجاتی ہے مثلاََ ایک قاتل نعش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے انہیں چار پانچ مقامات پر پھینک کے یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے قتل کے نشانات تک کو مٹا دیا ہے مگر عملاََ وہ اتنے ہی مقامات پر اپنے جرم کے نشانات چھوڑ رہا ہوتا ہے پس اس منظر میں اگر مرزا محمود کی تقاریر اور بیانات کا جائزہ لیں تو کئی شواہد ان کے جرم کی چغلی کھاتے ہیں پیرس میں عریاں رقص دیکھنے کا تذکرہ خود انہوں نے اپنی زبان سے کیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
'' جب میں ولایت گیا تو مجھے خصوصیت سے خیال تھا کہ یورپین سوسائٹی کا عیب والا حصہ بھی دیکھوں گا قیام انگلستان کے دوران میں مجھے اس کا موقع نہ ملا، واپسی پر جب ہم فرانس آئے تو میں نے چوہدری ظفراللہ خان صاحب سے جو میرے ساتھ تھے کہا کہ مجھے کوئی ایسی جگہ دکھائیں جہاں یورپین سوسائٹی عریاں نظر آسکے۔وہ بھی فرانس سے واقف تو نہ تھے مگر مجھے ایک اوپیرا لے گئے جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا ، چوہدری صاحب نے بتایا یہ وہی جگہ ہے اسے دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ میری نظر چونکہ کمزور ہے (یہ نظر کی کمزوری مرزا قادیانی سے انکو وراثت میں ملی ہے اسکی بھی ساری زندگی نہ آنکھیں کھلیں نہ نظر ٹھیک ہوئی جبکہ اس کے خدا نے اسے الہام کیا تھا کہ تمہاری تین چیزوں پہ اس کی رحمت ہے جن میں سے ایک آنکھ بھی ہے تذکرہ ایڈیشن 3 صفحہ 651۔ سیرت المھدی صفحہ 624۔ راقم) اس لیے دور کی چیز اچھی طرح سے نہیں دیکھ سکتا تھوڑی دیر کے بعد میں نے جو دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ سینکڑوں عورتیں بیٹھی ہیں میں نے چوہدری صاحب سے کہا کیا یہ ننگی ہیں۔ انہوں نے یہ بتایا کہ ننگی نہیں کپڑے پہنے ہوئے ہیں مگر باوجود اس کے ننگی معلوم ہوتی ہیں۔(الفضل 28 جنوری 1924)
مکر و فریب ایک ایسی چیز ہے کہ انسان زیادہ دیر تک اس پر پردہ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا دانستہ یا نادانستہ ایسی باتیں زبان پر آجاتی ہیں جن سے اصلیت سامنے آجاتی ہے۔ خلیفہ جی نے اپنی ایک شادی کے موقع پر کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں ایک خچر پر سوار ہوں اور اسکی تعبیر میں نے یہ کی ہے کہ اس بیوی سے اولاد نہیں ہوگی۔( الٹے سیدھے خواب گھڑنے اور خوابوں کی الٹی سیدھی تعبیریں کرنے میں تو پورے خاندان نے پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔ راقم) اب واقعہ یہ ہے کہ اس بیوی سے کوئی اولاد نہیں اور خلیفہ جی کا یہ '' خواب'' اس پس منظر میں تھا کہ وہ خاتون جوہر نسائیت ہی سے محروم ہوچکی تھی۔(اس کا ذکر پہلی قسط میں ہوچکا ہے۔راقم) اب مرید اسے بھی اپنے پیر کا کمال سمجھتے ہیں کہ اس کی پیش گوئی کس طرح پوری ہوئی حالانکہ یہ معاملہ پیش خبری کا نہیں پیش بینی بلکہ دروں بینی کا ہے۔
خلیفہ جی کے ایک صاحبزادے کی رنگت اور شکل و شباہت سے کچھ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی صورت ایک ڈرائیور سے ملتی ہے لوگوں میں چہ مئگوئیاں شروع ہوئیں تو ''کار خاص'' کے نمائندوں نے خلیفہ جی کو اطلاع دی اور انہوں نے انگریز عورتوں کے گھروں میں سیاہ فام بچے پیدا ہونے پر ایک خطبہ دے مارا حالانکہ یہ کوئی ایسی بات نہ تھی کہ اس پر ایک طویل مثالوں سے مزین لیکچر دیا جاتا مگر کہتے ہیں '' چور کی داڑھی میں تنکا''
ایسے ہی وہ اپنی بیوی کی وفات پر پرانی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں
''شادی سے بیشتر جب کہ مجھے گمان بھی نہ تھا کہ یہ لڑکی میری زوجیت میں آئے گی ایک دن میں گھر میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک لڑکی سفید لباس پہنے سمٹی سمٹائی ، شرمائی لجائی دیوار کے ساتھ لگی کھڑی ہے'' (سیرت ام طاہر ، شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ)
اب سفید لباس پر نظر پڑ سکتی ہے لیکن سمٹنے سمٹانے ، شرمانے لجانے اور دیوار کے ساتھ کھڑے ہونے اور چہرے کی کیفیات کا تفصیلی معائنہ کسی نیک چلن انسان کا کام نہیں ، ہمیں ''رائل فیملی'' کے کسی فرد کے بارے میں نیک چلنی کا حسن ظن نہیں کیونکہ اس ماحول میں معجزۃََ بچ جانا بھی ممکن نظر نہیں آتا مگر ہم ان کے بارے کف لسان ہی کو پسند کرتے ہیں۔ چونکہ سربراہان قادیانیت عموماََ اور مرزا محمود خصوصاََ اس ڈرامے کے خصوصی کردار ہیں اس لیے ان کے بہروپ کو نوچ پھینکنا اور لوگوں کو گمراہی کی دلدل سے نکالنا انتہائی ضروری ہے ۔ ضمناََ قادیان اور ربوہ کی اخلاقی حالت کا بھی ذکر آگیا ہے اگر درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو قادیانیت یقیناََ شجرۃ خبیثہ ہے۔
لاہور کی سڑکوں پر گھومنے والی سلمیٰ حبشن اور لنک میکلورڈ روڈ پر مقیم حنیفاں اس کی شاہد ہیں ۔ قادیانی امت اپنے نبی کی اتباع میں اپنے ہر مخالف کی بے روزگاری، مصیبت اور موت پر جشن مناتی ہے اور اسے مطلقاََ اس امر کا احساس نہیں ہوتا کہ یہ انتہائی درجہ کی قساوت قلبی ، شقاوت ذہنی اور انسانیت سے گری ہوئی بات ہے۔۔ اللہ تعالیٰ نے قادیانی امت پر ایسا عذاب نازل کیا ہے کہ اب ان کا ہر قابل ذکر فرد ایسی رسوا کن بیماری سے مرتا ہے کہ اس میں ہر صاحب بصیرت کے لیے سامان عبرت موجود ہے ، فالج کی بیماری کو خود مرزا قادیانی نے دکھ کی مار اور سخت بلا ایسے الفاظ سے یاد کیا ہے اور اب قادیانی امت کی گندی ذہنیت کی وجہ سے یہ بیماری اللہ تبارک وتعالیٰ نے سزا کے طور پر قادیانیوں کے لیے کچھ اس طرح مخصوص کردی ہے کہ ایک واقف حال قادیانی کا کہنا ہے کہ اب تو حال یہ ہے کہ جو شخص فالج سے نہ مرے وہ قادیانی ہی نہیں۔مرزا محمود احمد نے اپنے باوا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے امت مسلمہ کے اکابر اور جید علماء دین کے وصال پر جشن مسرت منایا اور ان کا یہ دھندہ اب تک چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قادیانیت کے گوسالہ سامری مرزا محمود کو فالج کا شکار بنا کر دس سال تک رہن بستر و بالش کردیا اور اس عبرت ناک رنگ میں اس کو اعضاء و جوارح اور حافظہ سے محروم کردیا کہ وہ مجنونوں کی طرح سر ہلاتا رہتا اور اس کی ٹانگیں بید لرزاں کا نظارہ پیش کرتیں گویا وہ لا یموت فیھا ولا یحیٰ کی تصویر تھا مگر قادیانی مذہبی انڈسٹری کے مالکان اس حالت میں بھی الٹا '' اخبار'' اس کے ہاتھ میں پکڑا کر زیارت کے نام پر مریدوں سے پیسہ بٹورتے اور پھر سات بجے شام مر جانے والے اس مصلح موعود کی دو بجے شب تک صفائی ہوتی رہی اور سرکاری اعلان میں اس کی موت کا وقت دو بج کر دس منٹ بتایا گیا اور اس عرصہ میں اس کی الجھی ہوئی داڑھی کو ہائڈروجن یا کسی اور چیز سے رنگ کر اسے طلائی کلر دیا گیا اور خط بنایا گیا اور غازہ لگا کر اس کے چہرے پر ''نور'' وارد کیا گیا تاکہ مریدوں پر اس کی اولیائی ثابت کی جاسکے ، حیرت ہے کہ جب کوئی مسلمان دنیاوی زندگی کے دن پورے کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوتا ہے تو قادیانی اسکی بیماری کو عذاب الٰہی قرار دیتے ہیں لیکن ان کے اپنے اکابر ذلیل موت کا شکار بنتے ہیں تو یہ ابتلاء بن جاتا ہے اور اس کے لیے دلائل دیتے ہوئے قادیانی تمام وہ روایات پیش کرتے ہیں جن کو وہ خود بھی تسلیم نہیں کرتے ۔ شاہ فیصل کی شہادت پر قادیانی امت کا خوشی منانا ایک ایسا المناک واقعہ ہے جس پر جس قدر بھی نفرین کی جائے کم ہے اور سابق وزیر اعظم پاکستان کے پھانسی پانے پر ہفت روزہ لاہور کا یہ لکھنا کہ اس سے مرزا غلام احمد کی ایک پیشین گوئی پوری ہوئی ہے(مرزا کی پیش گوئی اور پوری ہو؟ عمدہ لطیفہ ہے بلی کو چھیچھڑوں کے خواب۔ راقم) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے عہد میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا مسخ شدہ قادیانی ذہنیت کی شہادت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو جماعت یا فرقہ کسی شخص کو نبی تسلیم کرتا ہے وہ قرآں و حدیث کی رو سے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اسے کوئی شخص بھی مسلمان قرار نہیں دے سکتا اور خدا کے فضل سے تمام امت مسلمہ اب بھی بالاتفاق قادیانیوں کو کافر ہی سمجھتی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔
آخر میں ان تمام بزرگوں اور دوستوں کے لیے قارئین سے دعا کی درخواست ہے جنہوں نے اس کتاب کی تیاری کے سلسلے میں کسی نوع کا تعاون فرمایا اس سلسلے میں بطور خاص مکرمی میاں محمد رفیق صاحب کا تذکرہ ضروری ہے جن کے اصرار لگن اور تعاون سے یہ کام پائہ تکمیل تک پہنچا ۔ میاں صاحب موصوف ، فخر کائنات سید ولد آدم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت و وارفتگی کا تعلق رکھتے ہیں اور اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر منکرین ختم نبوت سے محض خدا کی رضا کے لیے کدورت رکھتے ہیں ، گویا ان کا عمل الحب للہ والبغض للہ کا مصداق ہے قارئین سے درخواست ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ خدا وند کریم انہیں دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر رحمت کا مورد اور آخرت میں ان کی شفاعت کا مستحق بنائے۔
شفیق مرزا لاہور

 
آخری تدوین :
Top