عبیداللہ لطیف
رکن ختم نبوت فورم
تحریر عبیداللہ لطیف
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قادیانی عقیدہ تثلیث ۔ ۔ ۔ ۔
مرزا قادیانی اپنے عقیدہ تثلیث کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ:
’’اگر یہ استفسار ہو کہ جس خاصیت اور قوت روحانی میں یہ عاجز اور مسیح ابن مریم مشابہت رکھتے ہیں وہ کیا شے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک مجموعی خاصیت ہے جو ہم دونوں کے روحانی قویٰ میں ایک خاص طور پر رکھی گئی ہے جس کے سلسلہ کی ایک طرف نیچے کو اور ایک طرف اوپر کو جاتی ہے ۔ نیچے کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی دلسوزی اور غم خوار خلق اﷲ ہے جو داعی الی اﷲ کے نفس پاک میں موجود ہے۔ ان تمام سرسبزشاخوں میں پھیلاتی ہے۔ اوپر کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی محبت قوی ایمان سے ملی ہوئی ہے جو اول بندہ کے دل میں باارادہ الٰہی پیدا ہو کر رب قدیر کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور پھر ان دونوں محبتوں کے ملنے سے جو درحقیقت ندا اور مادہ کا حکم رکھتی ہیں، اور ایک شدید مواصلت خالق اور مخلوق میں پیدا ہو کر الٰہی محبت کے چمکنے والی آگ سے جو مخلوق کی ہیزم مثال محبت کو پکڑ لیتی ہے ،ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جس کا نام روح القدس ہے ۔ سو اس درجہ کے انسان کی روحانی پیدائش اس وقت سمجھی جاتی ہے جب کہ خدا تعالیٰ اپنے ارادہ خاص سے اس میں اس طور کی محبت پیدا کر دیتا ہے اور اس مقام اور اس مرتبہ کی محبت میں بطور استعارہ یہ کہنا بجا نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے بھری ہوئی روح اس انسانی روح کو جو بارادہ الٰہی اب محبت سے بھرگئی ہے ، ایک نیا تولد بخشتی ہے۔ اسی وجہ سے اس محبت کی بھری ہوئی روح کو خدا تعالیٰ کی روح سے جو نافخ المحبت سے استعارہ کے طور پر ابنیت کا علاقہ ہوتا ہے اور چوں کہ روح القدس ان دونوں کے ملنے سے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان دونوں کے لیے بطور ابن ہے اور یہی پاک تثلیث ہے جو اس درجہ محبت کے لیے ضروری ہے جس کو ناپاک طبیعتوں نے مشرکانہ طو رپر سمجھ لیا ہے۔‘‘
(توضیح مرام صفحہ 14-13 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 61‘62از مرزا قادیانی)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قادیانی عقیدہ تثلیث ۔ ۔ ۔ ۔
مرزا قادیانی اپنے عقیدہ تثلیث کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ:
’’اگر یہ استفسار ہو کہ جس خاصیت اور قوت روحانی میں یہ عاجز اور مسیح ابن مریم مشابہت رکھتے ہیں وہ کیا شے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک مجموعی خاصیت ہے جو ہم دونوں کے روحانی قویٰ میں ایک خاص طور پر رکھی گئی ہے جس کے سلسلہ کی ایک طرف نیچے کو اور ایک طرف اوپر کو جاتی ہے ۔ نیچے کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی دلسوزی اور غم خوار خلق اﷲ ہے جو داعی الی اﷲ کے نفس پاک میں موجود ہے۔ ان تمام سرسبزشاخوں میں پھیلاتی ہے۔ اوپر کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی محبت قوی ایمان سے ملی ہوئی ہے جو اول بندہ کے دل میں باارادہ الٰہی پیدا ہو کر رب قدیر کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور پھر ان دونوں محبتوں کے ملنے سے جو درحقیقت ندا اور مادہ کا حکم رکھتی ہیں، اور ایک شدید مواصلت خالق اور مخلوق میں پیدا ہو کر الٰہی محبت کے چمکنے والی آگ سے جو مخلوق کی ہیزم مثال محبت کو پکڑ لیتی ہے ،ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جس کا نام روح القدس ہے ۔ سو اس درجہ کے انسان کی روحانی پیدائش اس وقت سمجھی جاتی ہے جب کہ خدا تعالیٰ اپنے ارادہ خاص سے اس میں اس طور کی محبت پیدا کر دیتا ہے اور اس مقام اور اس مرتبہ کی محبت میں بطور استعارہ یہ کہنا بجا نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے بھری ہوئی روح اس انسانی روح کو جو بارادہ الٰہی اب محبت سے بھرگئی ہے ، ایک نیا تولد بخشتی ہے۔ اسی وجہ سے اس محبت کی بھری ہوئی روح کو خدا تعالیٰ کی روح سے جو نافخ المحبت سے استعارہ کے طور پر ابنیت کا علاقہ ہوتا ہے اور چوں کہ روح القدس ان دونوں کے ملنے سے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان دونوں کے لیے بطور ابن ہے اور یہی پاک تثلیث ہے جو اس درجہ محبت کے لیے ضروری ہے جس کو ناپاک طبیعتوں نے مشرکانہ طو رپر سمجھ لیا ہے۔‘‘
(توضیح مرام صفحہ 14-13 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 61‘62از مرزا قادیانی)