محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
قادیانی اپنے باطل عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے سنن ابن ماجہ کی ایک روایت پیش کرتے ہیں۔
روایت
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ ابن ماجہ رقم الحدیث 4057)
ترجمہ:- رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا "قیامت کی نشانیاں دو سو سال کے بعد ظاہر ہوگی"
یہ روایت موضوع ہے(حکم شیخ البانی)۔ امام بخاری رحمتہ اللہ تعالی اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں
"دو سال گزر چکے ہیں اور کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا" (میزان الاعتدال جلد 5 صفحہ 361)
اس میں ایک راوی ہے عون بن عمارہ امام ابو داود کہتے ہیں یہ ضعیف ہے،امام ابو حاتم کہتے ہیں یہ ضعیف اور منکر حدیث ہے۔میں نے اس کا زمانہ پایا ہے لیکن اس سے کوئی حدیث نہیں لی۔(میزان الاعتدال جلد 5 صفحہ 361)
امام بیہقی اور ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔
مختصر یہ کہ قادیانیوں نے جس روایت کی بنیاد پر ایک عمارت کھڑی کی تھی وہ بنیادی ہی موضوع اور من گھڑت ہے۔
ویسے بھی اگر روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے اور ایک لمحے کے لیے یہ بھی مان لیا جائے کہ اس میں امام مہدی کا ذکر ہو رہا ہے،تو بھی دلیل آپ کے دعوے کے مطابق نہیں دعوی تیرہویں یا چودھویں صدی ہجری کا ہے دلیل میں دوسری صدی ہجری کا ذکر ہے تیرویں یا چودھویں صدی ہجری کا ذکر تک موجود نہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے اس کو بھی نظر انداز کر دیا جائے اور یہ بات مان لی جائے کہ چودہویں صدی ہجری میں ہی مہدی کا ظہور ہونا تھا تب بھی مرزا قادیانی کو مہدی کس بنا پر مانا جائے۔
مرزا قادیانی تو خود مہدی ہونے سے انکار کرتا ہے
"میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں وہ مہدی ہو جو مصداق من ولد فاطمة لامن عترتي وغیرہ ہے" (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356)
خلاصہ یہ ہے کہ قادیانی جو روایت پیش کرتے ہیں یہ موضوع ہے۔اس روایت میں نہ مہدی کا لفظ موجود ہے نہ تیرویں یا چودھویں صدی ہجری کا ذکر موجود ہے اور نہ ہی ظہور کا لفظ موجود ہے۔اس وجہ سے قادیانیوں کا دعویٰ اس روایت کی وجہ سے بالکل ثابت نہیں ہوتا۔
قادیانی اور روایت بھی پیش کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیے
روایت
عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا "
ترجمہ:-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا ۔
روایت کو ملاحظہ فرمائیں اس میں قادیانی کے مطلب کی کوئی چیز بھی نہیں لیکن یہ دجال اسے بھی اپنے باطل دعویٰ کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔
روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبریں دی ہے کہ ہر صدی کے ابتدا میں ایک مجدد پیدا ہوگا جو دین کی تجدید کرے گا۔قادیانیوں سے سوال ہے کہ مرزا قادیانی نے اپنی ساری زندگی میں دین کی کونسی تجدید کی ہے۔مرزا قادیانی کا کوئی علمی کام بتائیں۔
مرزا قادیانی تو قرآن مجید اور احادیث کی توہین کرنے والا دجال تھا۔لکھتا ہے
"قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں" (تذکرہ صفحہ 77)
اور لکھتا ہے
"میں تو قرآن ہی کی طرح ہوں اور عنقریب میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا جو کچھ فرقان سے ظاہر ہوا" ( تذکرہ صفحہ 570)
اسے طرح مرزا قادیانی احادیث مبارکہ کی توہین کرتا ہے۔لکھتا ہے
"میرے اس دعوے کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ہاں تائیدی طور پر ہم وہ احادیث بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں"(معاذ اللہ) ﴿روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 140﴾
ایسا بے ادب اور گستاخ دین اسلام کا مجدد نہیں ہو سکتا ویسے بھی مرزا قادیانی کی علمی حالت کے تو کیا ہی کہنے ملاحظہ فرمائیے۔
لکھتے ہیں
"تاریخ کو دیکھو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہوگیا۔اور ماں صرف چند ماہ کا بچہ چھوڑ کر مر گئی تھی۔ (خزائن جلد 22 صفحہ 465)
سیرت النبی کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ نبی علیہ السلام کے والد محترم حضرت عبداللہ آپ علیہ السلام کی ولادت باسعادت سے چند ماہ پہلے ایک تجارتی سفر میں انتقال فرما گئے تھے۔اور آپ کی والدہ حضرت آمنہ کا انتقال ولادت با سعادت کے چھ سال بعد ہوا تھا۔
ایک جگہ لکھتا ہے
"تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ وسلم کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے ساتھ فوت ہوگئے" (روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 299)
یہ مرزا قادیانی کی جہالت پر بین دلیل ہے، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تین شہزادے پیدا ہوئے تھے۔حضرت قاسم حضرت عبداللہ (جن کا لقب طیب و طاہر ہے) اور حضرت ابراہیم ﴿رضوان اللہ علیہم اجمعین﴾
اسی طرح ایک جگہ لکھتا ہے
"یہ وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم صاحب نے لکھی ہے جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدثین امام محمد اسماعیل بخاری نے چھوڑ دیا ہے" (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 210)
ہر طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا نام امام ابو عبد اللہ محمد ہے۔آپ کے والد گرامی کا نام محمد اسماعیل تھا۔ لیکن مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ امام بخاری کا نام محمد اسماعیل بخاری تھا۔یہ مرزا قادیانی کی جہالت کا ایک اور ثبوت ہے۔
ایک اور جگہ لکھتا ہے
"قادیان جو ضلع گورداسپور پنجاب میں ہے جو لاہور سے گوشہ مغرب اور جنوب میں واقع ہے" (روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 22،23)
قادیان ضلع گرداسپور میں واقع ہے اور گرداسپور لاہور سے شمال مشرق کو ہے مگر مرزا قادیانی اس کو مغرب میں لکھتا ہے۔قادیانیوں کا عجیب مجدد ہے جس کو مشرق اور مغرب تک کی خبر نہ تھے۔
اگر قادیانی اس قدر جاھل آدمی کو اپنا مجدد، مسیح موعود و مہدی ماننا چاہیں تو ان کو مبارک ہو۔
قادیانیوں نے اپنے اس کتابچے بنام "مہدی ومسیح کب آئیں گے؟" میں ایک اور روایت بھی پیش کی ہے۔اور اس روایت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امام المہدی اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دونوں ایک ہی شخصیت کے نام ہیں۔
روایت
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الْجَنَدِيُّ ، عَنْ أَبَانِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ..... وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ
یعنی عیسیٰ ابن مریم ہی مہدی ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس روایت کو محدثین نے ضعیف کہا ہے،اور ایک ضعیف روایت کی بنا پر احادیث صحیحہ متواترہ کے خلاف عقیدہ بنانا درست نہیں۔محدثین نے اس روایت کے بارے میں کیا فرمایا ہے ملاحظہ فرمائیے۔
اس روایت کے بارے میں
(1) ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ حَدِيثَ: لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ ضَعِيفٌ بِاتِّفَاقِ الْمُحَدِّثِينَ
جان لو کہ لا المهدي إلا عيسى ابن مريم والی حدیث کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اجماع ہے.
﴿مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد 8 صفحہ 3448
کتاب الفتن باب أشراط الساعة﴾
(2) امام شمس الدین ذہبی کہتے ہیں۔
لا مهدي إلا عيسى ابن مريم، وهو خبر منكر أخرجه ابن ماجة۔
لا المهدي إلا عيسى ابن مريم والی روایت منکر ہے جسے ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے۔
﴿میزان اعتدال جلد 3 صفحہ 535﴾
(3) شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں
وَالْحَدِيثُ الَّذِي فِيهِ: " «لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ» " رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَهُوَ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ
وہ حدیث جس میں ہے لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ جو ابن ماجہ نے روایت کی ہے وہ ضعیف ہے
﴿منہاج السنہ النبویہ جلد 4 صفحہ 101﴾
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ یہ روایت ضعیف ہے لیکن قادیانیوں کو ان کے گھر تک پہنچانے کے لیے ان کے "مسیح موعود" کی تحقیق ان کے سامنے پیش کر دیتا ہوں
مرزا قادیانی لکھتا ہیں۔
(1) میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں کس قدر احادیث ہیں تمام مجروح و مخدوش ہیں ایک بھی ان میں سے صحیح نہیں۔اور جس قدر افتراء ان حدیثوں میں ہوا ہے کسی اور میں ایسا نہیں ہوا۔
﴿ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم :: روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356﴾
(2) مہدی کی حدیثوں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جرح سے خالی نہیں اور کسی کو صحیح حدیث نہیں کہہ سکتے
﴿حقیقۃ الوحی : روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 217 ﴾
(3)اور جہاں تک مہدی کی آمد سے متعلق احادیث کا تعلق ہے تو جانتا ہے کہ وہ سب کی سب ضعیف، مجروح ہیں اور ایک دوسرے کی مخالف ہیں یہاں تک کہ ابن ماجہ اور اس کے علاوہ دوسری کتب میں ایک حدیث آئی ہے لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ یعنی عیسیٰ ابن مریم ہی مہدی ہوگا۔پس کس طرح ان جیسی احادیث پر اعتبار کیا جا سکتا ہے جن میں شدت سے باہم اختلاف تناقض اور ضعف پایا جاتا ہے اور ان کے راویوں پر بہت جرح ہوئی ہے جیساکہ محدثین پر یہ بات مخفی نہیں
﴿حمامۃ البشری مع اردو ترجمہ صفحہ 331 : روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 314 ، 315﴾
اب اگر قادیانی اپنے سلطان القلم کی بات بھی نہ مانے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔
دوسرا اگر آپ اس روایت کی سند کو بھی دیکھیں تو اس میں بھی علت ہے۔
اس سند میں یونس بن عبد الاعلی روایت کر رہے ہیں امام الشافعی سے جبکہ امام شافی سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے۔
عَن يُونُس قَالَ حَدثنَا الشَّافِعِي وَالصَّحِيح انه لم يسمعهُ مِنْهُ۔
﴿شرح سنن ابن ماجہ للسیوطی وغیرہ جلد 1 صفحہ 293، میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 535 ﴾
قادیانی حضرات پہلے یونس کا امام شافی سے سماع ثابت کریں ۔
اس کے بعد سند میں ایک راوی ہے جس کا نام ہے محمد بن خالد الجندی
(1) ابو الفتح الازدی کہتے ہیں یہ "منکر الحدیث" ہے ﴿تاریخ الاسلام ذہبی جلد 4 صفحہ 1193﴾
(2) امام حاکم کہتے ہیں یہ "مجهول" ہے ﴿تاریخ الاسلام ذہبی جلد 4 صفحہ 1193﴾
(3)ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں یہ "ضعیف" ہے ﴿لسان المیزان جلد 9 صفحہ 405﴾
(4) امام بیہقی کہتے ہیں یہ "مجهول" ہے ﴿تہذیب الکمال جلد 25 صفحہ 150﴾
یہ روایت حدیث صحیحہ متواترہ کے خلاف ہے اس وجہ سے بھی قابل قبول نہیں۔
بے شمار روایات سے ثابت ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہ المہدی اور شخصیت ہیں اور حضرت عیسیٰ بن مریم اور شخصیت ہیں۔
امام مہدی اور مسیح ابن مریم علیہ السلام دونوں الگ الگ ہیں۔
حضرت امام مہدی کے بارے میں (1)رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا
مہدی میری نسل سے یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اولاد میں سے ہوں گے ﴿ابوداؤد رقم الحدیث 4284﴾
اور ہم جانتے ہیں کہ حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اولاد سے نہیں بلکہ حضرت مریم رضی اللہ تعالی عنہا کے بیٹے ہیں۔
(2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے.
مہدی میرا ہم نام ہو گا یعنی ان کا نام محمد ہوگا.﴿ترمذی رقم الحدیث 2230﴾
اور ہم جانتے ہیں کہ حضرت مسیح کا نام عیسیٰ ابن مریم ہے نہ کہ محمد.
(3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مہدی میری اہل بیت میں سے ہو گا۔ ﴿ابوداؤد رقم الحدیث 4283﴾
اور ہم جانتے ہیں کہ حضرت مسیح بن مریم رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے اہل بیت میں سے نہیں ہے.
(4)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
مہدی کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا یعنی عبداللہ.
﴿مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث 37647﴾
اور ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت ابن مریم کے والد تھے ہی نہیں اللہ نے ان کو باپ کے بغیر پیدا فرمایا۔
ان روایات سے بھی واضح ہے کہ مہدی اور مسیح دونوں الگ الگ شخصیات ہیں۔
ایک اور صحیح روایت جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم حضرت امام مہدی دونوں الگ الگ شخصیات ہیں درج ذیل ہے.
حدیث
عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «۔۔۔۔ كَيْفَ تَهْلِكُ أُمَّةٌ أَنَا أَوَّلُهَا وَالْمَهْدِيُّ وَسَطُهَا وَالْمَسِيحُ آخِرُهَا ۔۔۔۔۔ ». ﴿مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح [باب ثواب هذه الأمة] الجزء ٩ الصفحة ٤٠٤٩ الرقم ٦٢٨٧﴾
حضرت امام جعفر صادق اپنے والد حضرت امام باقر سے اور انہوں نے اپنے دادا حضرت امام حسن سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «کیوں کر ہلاک ہو سکتی ہے امت۔اس کے اول میں ہوں اور درمیان میں مہدی اور آخر میں مسیح علیہ السلام»
اس حدیث کی سند کو سلسلہ الذہب کہا جاتا ہے۔ یعنی سونے کی لڑی۔
حدیث مبارکہ سے بالکل واضح ہے کہ مہدی اور مسیح ایک ہی شخصیت کے دو نام نہیں بلکہ دو الگ الگ شخصیات ہیں اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کا ذکر الگ الگ ارشاد فرمایا۔
اس کے بعد قادیانیوں نے سنن دارقطنی سے ایک روایت پیش کی اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مہدی کے دور میں سورج اور چاند گرہن ہوگا۔یہ قادیانیوں نے بالکل سفید جھوٹ بولا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح کا کوئی فرمان دنیا جہان کی کسی بھی کتاب میں مذکور نہیں۔سنن دار قطنی میں بھی محمد بن علی نامی ایک بزرگ کی طرف منسوب قول ہے حدیث رسول نہیں ہے۔
خیر دارقطنی کی روایت کی طرف چلتے ہیں۔
روایت
عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ , عَنْ جَابِرٍ ,عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ , قَالَ: «إِنَّ لَمَهْدِيِّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ , يَنْخَسِفُ الْقَمَرُ لَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ , وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ , وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ» ﴿سنن دارقطنی رقم 1795﴾
محمد بن علی فرماتے ہیں کہ ہمارے مہدی کی دو نشانیاں ہیں (اور) جب سے آسمان و زمین کو اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے تب سے یہ دو نشانیاں ظہور پذیر نہیں ہوئی۔(پہلی نشانی یہ ہے کہ) ماہ رمضان کی پہلی رات میں چاند کو گرہن لگے گا،اور (دوسری یہ ہے کہ) نصف رمضان میں سورج کو گرہن لگے گا۔جب سے اللہ تعالی نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا ہے تب سے یہ دو نشانیاں نمودار نہیں ہوئیں۔
مرزا قادیانی نے بھی یہ روایت پیش کی ہے اپنی کتب میں اور کیا کہا ہے ملاحظہ فرمائیے
"یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے" ( نورالحق: روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 209،253)
قادیانی کہتے ہیں کے سورج گرہن کے لئے 27،28،29 تاریخیں مقرر ہیں اور چاند گرہن کے لئے 13،14،15 تاریخ مقرر ہے۔ اس لیے چاند گرہن لگنے کی تاریخ 13 اور سورج گرہن لگنے کی تاریخ 28 ہے۔ اور ان تاریخوں میں مرزا قادیانی کے دور میں سورج اور چاند گرہن لگا اس وجہ سے مرزا قادیانی کو مہدی مان لیا جائے۔
جواب یہ ہے کہ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے بلکہ محمد بن علی کا کشف ہے۔محمد بن علی ایک غیر معلوم آدمی ہیں۔بعض قادیانی کہتے ہیں کہ محمد بن علی سے امام باقر مراد ہے۔اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ یہ امام باقر کا کشف ہے تب بھی قابل قبول نہیں کیونکہ روایت از روئے سند غیر معتبر ہے۔اس روایت کی سند میں عمرو بن شمر جعفی کوفی موجود ہے
(1) امام یحیی بن معین فرماتے ہیں یہ ليس بشئ، اس سے حدیث کو نہیں لیا جائے گا (2) جوزجانی کہتے ہیں یہ بھٹکا ہوا کذاب ہے (3) امام ابن حبان کہتے ہیں یہ رافضی ہے جو صحابہ کو گالی دیتا تھا،اس نے ثقہ راویوں کے حوالے سے موضوع روایات نقل کی ہیں (4) امام بخاری کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے
﴿میزان الاعتدال جلد 5 صفحہ 322﴾
سند کا راوی ہے جابر بن یزید جفعی
(1) امام یحییٰ القطان اسے متروک کہتے ہیں (2) یحییٰ بن معین کہتے ہیں اس کی نقل کردہ روایات تحریر نہیں کی جائیں گی (3) امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے جابر جعفی سے جھوٹا کوئی شخص نہیں دیکھا (4) لیث بن ابو سلیم کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے (5) امام نسائی کہتے ہیں یہ متروک ہے. وغیرہ
﴿میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 143﴾
خیر پہلی بات تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں دوسری بات یہ ہے کہ یہ از روئے سند غیر معتبر ہے۔ لیکن اگر یہ بات نظر انداز کردی جائے اور قادیانیوں کا قول مان لیا جائے تب بھی اس روایت کے مطابق یہ پیشگوئی مرزا قادیانی کے دور میں پوری نہیں ہوئی۔کیوں کہ روایت میں الفاظ ہے "ماہ رمضان کی پہلی رات میں چاند گرہن لگے گا" جبکہ بقول قادیانی حضرات مرزا کے دور میں 13 تاریخ کو چاند گرہن لگا ہے. دوسری بات یہ ہے کہ روایت میں الفاظ ہیں " نصف رمضان میں سورج گرہن لگے" یعنی 15 تاریخ لیکن بقول قادیانی حضرات مرزا کے دور میں 28 تاریخ کو سورج گرہن لگا تھا۔اس جھوٹی اور بے بنیاد روایت کے مطابق بھی مرزا قادیانی سچا ثابت ہوتا نظر نہیں آتا۔قادیانی کہتے ہیں یکم رمضان المبارک کو چاند گرہن اور 15 رمضان المبارک کو سورج گرہن لگنا ممکن ہی نہیں کیوں کہ جب سے دنیا بنی ہے ایسا نہیں ہوا۔ہم کہتے ہیں روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ یہ نشانی جب سے دنیا بنی ہے تب سے اب تک ظاہر نہیں ہوئی۔اور جب تک مہدی کا ظہور نہیں ہوتا ظاہر نہیں ہوگی۔
اس روایت کی طرح قادیانی حضرات نے اور بھی کچھ بزرگوں کے اقوال نقل کیے ہیں اور ان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مہدی تیرہویں صدی ہجری یا چودھویں صدی ہجری میں ظاہر ہوگا۔ان سب کے بارے میں مختصر جواب یہ ہے۔کہ بزرگوں کے اقوال حجت نہیں،یہ بات ہم نہیں کہتے بلکہ آپ کے مرزا صاحب نے ہی کہی ہے۔ اقوال خلف و سلف کوئی مستقل حجت نہیں (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 172)
دوسری بات یہ ہے کہ پیشگوئیاں سمجھنے کے مسئلے میں بزرگوں پر اعتبار کرنا ایسا ہی ہے جیسے یہودیوں پر اعتبار کرنا۔یہ بات بھی ہم نہیں کہتے بلکہ مرزاقادیانی نے کہی ہے اور مرزا کا ہر قول آپ کے لئے حجت ہے
"بزرگ معصوم نہ تھے بلکہ جس طرح یہودیوں کے بزرگوں نے پیشگوئیاں سمجھنے میں ٹھوکر کھائی اسی طرح ان بزرگوں نے بھی ٹھوکر کھائی" ﴿روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 290﴾
مختصر یہ کہ قادیانی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں مگر مرزا قادیانی بن غلام مرتضی کو کبھی بھی محمد بن عبداللہ یعنی امام المہدی ثابت نہیں کر سکتے۔
امام مہدی کی احادیث میں نشانیاں بیان کی گئی ہیں ملاحظہ فرمائیے
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امام مہدی حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے (ابوداؤد رقم الحدیث 4284)
جب کہ مرزا قادیانی مغل تھا اور خود لکھتا ہے کہ میں اس حدیث کا مصداق نہیں اور نہ ہی میرا دعویٰ ہے کہ میں وہ مہدی ہوں۔
"میرا یہ دعوی نہیں کہ میں وہ مہدی ہوں جو مصداق مِنْ وَلَدِ فَاطِمَةَ و مِنْ عِتْرَتِي وغیرہ ہے" (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356)
جب مرزا قادیانی خود یہ بات مانتا ہے کہ وہ مہدی نہیں جس کا حدیث میں ذکر ہے تو ثابت ہوا کہ مرزا جھوٹا اور کذاب ہے۔
(2) امام ترمذی نے باب ما جاء فی المہدی میں روایت نقل کی ہے کہ حضرت صلی اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا مہدی میرے گھرانے سے ہوگا اور میرا ہم نام ہوگا (یعنی مہدی سید ہو گا اور مہدی کا نام محمد ہو گا) اور وہ عرب کا بادشاہ بن جائے گا۔ (ترمذی رقم الحدیث 2230)
مرزا قادیانی مغل تھا،اس کا نام غلام احمد تھا اور وہ اغیار کا غلام تھا نہ کہ عرب کا بادشاہ۔
(3) امام ابو داؤد نے باب فی ذکر المہدی میں روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مہدی کا نام میرے نام پر ہو گا اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا (یعنی مہدی کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبداللہ ہو گا){ابوداؤد رقم الحدیث 4282}
مرزا قادیانی کا نام غلام احمد تھا اور اس کے والد کا نام غلام مرتضیٰ تھا (خزائن جلد 12 صفحہ 270، 271)
(4)امام ابو داؤد نے باب فی ذکر المہدی میں روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہدی میری اولاد سے ہوگا اس کی حکومت 7 سال تک رہے۔ (ابو داؤد رقم الحدیث 4285)
جب کہ مرزا قادیانی کی حکومت ایک لمحہ کے لئے بھی کسی جگہ پر نہیں بنی۔
اور بھی بہت سی نشانیاں بیان فرمائیں گئ ہیں۔
مختصر یہ کہ احادیث میں مہدی کی جو نشانیاں بیان کی گئی ہیں مرزا قادیانی ان پر پورا نہیں اترتا اس وجہ سے مرزا اپنے دعویٰ میں جھوٹا و کذاب ہے۔
روایت
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ ابن ماجہ رقم الحدیث 4057)
ترجمہ:- رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا "قیامت کی نشانیاں دو سو سال کے بعد ظاہر ہوگی"
یہ روایت موضوع ہے(حکم شیخ البانی)۔ امام بخاری رحمتہ اللہ تعالی اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں
"دو سال گزر چکے ہیں اور کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا" (میزان الاعتدال جلد 5 صفحہ 361)
اس میں ایک راوی ہے عون بن عمارہ امام ابو داود کہتے ہیں یہ ضعیف ہے،امام ابو حاتم کہتے ہیں یہ ضعیف اور منکر حدیث ہے۔میں نے اس کا زمانہ پایا ہے لیکن اس سے کوئی حدیث نہیں لی۔(میزان الاعتدال جلد 5 صفحہ 361)
امام بیہقی اور ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔
مختصر یہ کہ قادیانیوں نے جس روایت کی بنیاد پر ایک عمارت کھڑی کی تھی وہ بنیادی ہی موضوع اور من گھڑت ہے۔
ویسے بھی اگر روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے اور ایک لمحے کے لیے یہ بھی مان لیا جائے کہ اس میں امام مہدی کا ذکر ہو رہا ہے،تو بھی دلیل آپ کے دعوے کے مطابق نہیں دعوی تیرہویں یا چودھویں صدی ہجری کا ہے دلیل میں دوسری صدی ہجری کا ذکر ہے تیرویں یا چودھویں صدی ہجری کا ذکر تک موجود نہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے اس کو بھی نظر انداز کر دیا جائے اور یہ بات مان لی جائے کہ چودہویں صدی ہجری میں ہی مہدی کا ظہور ہونا تھا تب بھی مرزا قادیانی کو مہدی کس بنا پر مانا جائے۔
مرزا قادیانی تو خود مہدی ہونے سے انکار کرتا ہے
"میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں وہ مہدی ہو جو مصداق من ولد فاطمة لامن عترتي وغیرہ ہے" (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356)
خلاصہ یہ ہے کہ قادیانی جو روایت پیش کرتے ہیں یہ موضوع ہے۔اس روایت میں نہ مہدی کا لفظ موجود ہے نہ تیرویں یا چودھویں صدی ہجری کا ذکر موجود ہے اور نہ ہی ظہور کا لفظ موجود ہے۔اس وجہ سے قادیانیوں کا دعویٰ اس روایت کی وجہ سے بالکل ثابت نہیں ہوتا۔
قادیانی اور روایت بھی پیش کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیے
روایت
عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا "
ترجمہ:-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا ۔
روایت کو ملاحظہ فرمائیں اس میں قادیانی کے مطلب کی کوئی چیز بھی نہیں لیکن یہ دجال اسے بھی اپنے باطل دعویٰ کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔
روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبریں دی ہے کہ ہر صدی کے ابتدا میں ایک مجدد پیدا ہوگا جو دین کی تجدید کرے گا۔قادیانیوں سے سوال ہے کہ مرزا قادیانی نے اپنی ساری زندگی میں دین کی کونسی تجدید کی ہے۔مرزا قادیانی کا کوئی علمی کام بتائیں۔
مرزا قادیانی تو قرآن مجید اور احادیث کی توہین کرنے والا دجال تھا۔لکھتا ہے
"قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں" (تذکرہ صفحہ 77)
اور لکھتا ہے
"میں تو قرآن ہی کی طرح ہوں اور عنقریب میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا جو کچھ فرقان سے ظاہر ہوا" ( تذکرہ صفحہ 570)
اسے طرح مرزا قادیانی احادیث مبارکہ کی توہین کرتا ہے۔لکھتا ہے
"میرے اس دعوے کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ہاں تائیدی طور پر ہم وہ احادیث بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں"(معاذ اللہ) ﴿روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 140﴾
ایسا بے ادب اور گستاخ دین اسلام کا مجدد نہیں ہو سکتا ویسے بھی مرزا قادیانی کی علمی حالت کے تو کیا ہی کہنے ملاحظہ فرمائیے۔
لکھتے ہیں
"تاریخ کو دیکھو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہوگیا۔اور ماں صرف چند ماہ کا بچہ چھوڑ کر مر گئی تھی۔ (خزائن جلد 22 صفحہ 465)
سیرت النبی کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ نبی علیہ السلام کے والد محترم حضرت عبداللہ آپ علیہ السلام کی ولادت باسعادت سے چند ماہ پہلے ایک تجارتی سفر میں انتقال فرما گئے تھے۔اور آپ کی والدہ حضرت آمنہ کا انتقال ولادت با سعادت کے چھ سال بعد ہوا تھا۔
ایک جگہ لکھتا ہے
"تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ وسلم کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے ساتھ فوت ہوگئے" (روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 299)
یہ مرزا قادیانی کی جہالت پر بین دلیل ہے، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تین شہزادے پیدا ہوئے تھے۔حضرت قاسم حضرت عبداللہ (جن کا لقب طیب و طاہر ہے) اور حضرت ابراہیم ﴿رضوان اللہ علیہم اجمعین﴾
اسی طرح ایک جگہ لکھتا ہے
"یہ وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم صاحب نے لکھی ہے جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدثین امام محمد اسماعیل بخاری نے چھوڑ دیا ہے" (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 210)
ہر طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا نام امام ابو عبد اللہ محمد ہے۔آپ کے والد گرامی کا نام محمد اسماعیل تھا۔ لیکن مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ امام بخاری کا نام محمد اسماعیل بخاری تھا۔یہ مرزا قادیانی کی جہالت کا ایک اور ثبوت ہے۔
ایک اور جگہ لکھتا ہے
"قادیان جو ضلع گورداسپور پنجاب میں ہے جو لاہور سے گوشہ مغرب اور جنوب میں واقع ہے" (روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 22،23)
قادیان ضلع گرداسپور میں واقع ہے اور گرداسپور لاہور سے شمال مشرق کو ہے مگر مرزا قادیانی اس کو مغرب میں لکھتا ہے۔قادیانیوں کا عجیب مجدد ہے جس کو مشرق اور مغرب تک کی خبر نہ تھے۔
اگر قادیانی اس قدر جاھل آدمی کو اپنا مجدد، مسیح موعود و مہدی ماننا چاہیں تو ان کو مبارک ہو۔
قادیانیوں نے اپنے اس کتابچے بنام "مہدی ومسیح کب آئیں گے؟" میں ایک اور روایت بھی پیش کی ہے۔اور اس روایت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امام المہدی اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دونوں ایک ہی شخصیت کے نام ہیں۔
روایت
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الْجَنَدِيُّ ، عَنْ أَبَانِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ..... وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ
یعنی عیسیٰ ابن مریم ہی مہدی ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس روایت کو محدثین نے ضعیف کہا ہے،اور ایک ضعیف روایت کی بنا پر احادیث صحیحہ متواترہ کے خلاف عقیدہ بنانا درست نہیں۔محدثین نے اس روایت کے بارے میں کیا فرمایا ہے ملاحظہ فرمائیے۔
اس روایت کے بارے میں
(1) ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ حَدِيثَ: لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ ضَعِيفٌ بِاتِّفَاقِ الْمُحَدِّثِينَ
جان لو کہ لا المهدي إلا عيسى ابن مريم والی حدیث کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اجماع ہے.
﴿مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد 8 صفحہ 3448
کتاب الفتن باب أشراط الساعة﴾
(2) امام شمس الدین ذہبی کہتے ہیں۔
لا مهدي إلا عيسى ابن مريم، وهو خبر منكر أخرجه ابن ماجة۔
لا المهدي إلا عيسى ابن مريم والی روایت منکر ہے جسے ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے۔
﴿میزان اعتدال جلد 3 صفحہ 535﴾
(3) شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں
وَالْحَدِيثُ الَّذِي فِيهِ: " «لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ» " رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَهُوَ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ
وہ حدیث جس میں ہے لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ جو ابن ماجہ نے روایت کی ہے وہ ضعیف ہے
﴿منہاج السنہ النبویہ جلد 4 صفحہ 101﴾
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ یہ روایت ضعیف ہے لیکن قادیانیوں کو ان کے گھر تک پہنچانے کے لیے ان کے "مسیح موعود" کی تحقیق ان کے سامنے پیش کر دیتا ہوں
مرزا قادیانی لکھتا ہیں۔
(1) میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں کس قدر احادیث ہیں تمام مجروح و مخدوش ہیں ایک بھی ان میں سے صحیح نہیں۔اور جس قدر افتراء ان حدیثوں میں ہوا ہے کسی اور میں ایسا نہیں ہوا۔
﴿ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم :: روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356﴾
(2) مہدی کی حدیثوں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جرح سے خالی نہیں اور کسی کو صحیح حدیث نہیں کہہ سکتے
﴿حقیقۃ الوحی : روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 217 ﴾
(3)اور جہاں تک مہدی کی آمد سے متعلق احادیث کا تعلق ہے تو جانتا ہے کہ وہ سب کی سب ضعیف، مجروح ہیں اور ایک دوسرے کی مخالف ہیں یہاں تک کہ ابن ماجہ اور اس کے علاوہ دوسری کتب میں ایک حدیث آئی ہے لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ یعنی عیسیٰ ابن مریم ہی مہدی ہوگا۔پس کس طرح ان جیسی احادیث پر اعتبار کیا جا سکتا ہے جن میں شدت سے باہم اختلاف تناقض اور ضعف پایا جاتا ہے اور ان کے راویوں پر بہت جرح ہوئی ہے جیساکہ محدثین پر یہ بات مخفی نہیں
﴿حمامۃ البشری مع اردو ترجمہ صفحہ 331 : روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 314 ، 315﴾
اب اگر قادیانی اپنے سلطان القلم کی بات بھی نہ مانے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔
دوسرا اگر آپ اس روایت کی سند کو بھی دیکھیں تو اس میں بھی علت ہے۔
اس سند میں یونس بن عبد الاعلی روایت کر رہے ہیں امام الشافعی سے جبکہ امام شافی سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے۔
عَن يُونُس قَالَ حَدثنَا الشَّافِعِي وَالصَّحِيح انه لم يسمعهُ مِنْهُ۔
﴿شرح سنن ابن ماجہ للسیوطی وغیرہ جلد 1 صفحہ 293، میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 535 ﴾
قادیانی حضرات پہلے یونس کا امام شافی سے سماع ثابت کریں ۔
اس کے بعد سند میں ایک راوی ہے جس کا نام ہے محمد بن خالد الجندی
(1) ابو الفتح الازدی کہتے ہیں یہ "منکر الحدیث" ہے ﴿تاریخ الاسلام ذہبی جلد 4 صفحہ 1193﴾
(2) امام حاکم کہتے ہیں یہ "مجهول" ہے ﴿تاریخ الاسلام ذہبی جلد 4 صفحہ 1193﴾
(3)ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں یہ "ضعیف" ہے ﴿لسان المیزان جلد 9 صفحہ 405﴾
(4) امام بیہقی کہتے ہیں یہ "مجهول" ہے ﴿تہذیب الکمال جلد 25 صفحہ 150﴾
یہ روایت حدیث صحیحہ متواترہ کے خلاف ہے اس وجہ سے بھی قابل قبول نہیں۔
بے شمار روایات سے ثابت ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہ المہدی اور شخصیت ہیں اور حضرت عیسیٰ بن مریم اور شخصیت ہیں۔
امام مہدی اور مسیح ابن مریم علیہ السلام دونوں الگ الگ ہیں۔
حضرت امام مہدی کے بارے میں (1)رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا
مہدی میری نسل سے یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اولاد میں سے ہوں گے ﴿ابوداؤد رقم الحدیث 4284﴾
اور ہم جانتے ہیں کہ حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اولاد سے نہیں بلکہ حضرت مریم رضی اللہ تعالی عنہا کے بیٹے ہیں۔
(2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے.
مہدی میرا ہم نام ہو گا یعنی ان کا نام محمد ہوگا.﴿ترمذی رقم الحدیث 2230﴾
اور ہم جانتے ہیں کہ حضرت مسیح کا نام عیسیٰ ابن مریم ہے نہ کہ محمد.
(3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مہدی میری اہل بیت میں سے ہو گا۔ ﴿ابوداؤد رقم الحدیث 4283﴾
اور ہم جانتے ہیں کہ حضرت مسیح بن مریم رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے اہل بیت میں سے نہیں ہے.
(4)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
مہدی کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا یعنی عبداللہ.
﴿مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث 37647﴾
اور ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت ابن مریم کے والد تھے ہی نہیں اللہ نے ان کو باپ کے بغیر پیدا فرمایا۔
ان روایات سے بھی واضح ہے کہ مہدی اور مسیح دونوں الگ الگ شخصیات ہیں۔
ایک اور صحیح روایت جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم حضرت امام مہدی دونوں الگ الگ شخصیات ہیں درج ذیل ہے.
حدیث
عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «۔۔۔۔ كَيْفَ تَهْلِكُ أُمَّةٌ أَنَا أَوَّلُهَا وَالْمَهْدِيُّ وَسَطُهَا وَالْمَسِيحُ آخِرُهَا ۔۔۔۔۔ ». ﴿مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح [باب ثواب هذه الأمة] الجزء ٩ الصفحة ٤٠٤٩ الرقم ٦٢٨٧﴾
حضرت امام جعفر صادق اپنے والد حضرت امام باقر سے اور انہوں نے اپنے دادا حضرت امام حسن سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «کیوں کر ہلاک ہو سکتی ہے امت۔اس کے اول میں ہوں اور درمیان میں مہدی اور آخر میں مسیح علیہ السلام»
اس حدیث کی سند کو سلسلہ الذہب کہا جاتا ہے۔ یعنی سونے کی لڑی۔
حدیث مبارکہ سے بالکل واضح ہے کہ مہدی اور مسیح ایک ہی شخصیت کے دو نام نہیں بلکہ دو الگ الگ شخصیات ہیں اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کا ذکر الگ الگ ارشاد فرمایا۔
اس کے بعد قادیانیوں نے سنن دارقطنی سے ایک روایت پیش کی اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مہدی کے دور میں سورج اور چاند گرہن ہوگا۔یہ قادیانیوں نے بالکل سفید جھوٹ بولا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح کا کوئی فرمان دنیا جہان کی کسی بھی کتاب میں مذکور نہیں۔سنن دار قطنی میں بھی محمد بن علی نامی ایک بزرگ کی طرف منسوب قول ہے حدیث رسول نہیں ہے۔
خیر دارقطنی کی روایت کی طرف چلتے ہیں۔
روایت
عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ , عَنْ جَابِرٍ ,عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ , قَالَ: «إِنَّ لَمَهْدِيِّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ , يَنْخَسِفُ الْقَمَرُ لَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ , وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ , وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ» ﴿سنن دارقطنی رقم 1795﴾
محمد بن علی فرماتے ہیں کہ ہمارے مہدی کی دو نشانیاں ہیں (اور) جب سے آسمان و زمین کو اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے تب سے یہ دو نشانیاں ظہور پذیر نہیں ہوئی۔(پہلی نشانی یہ ہے کہ) ماہ رمضان کی پہلی رات میں چاند کو گرہن لگے گا،اور (دوسری یہ ہے کہ) نصف رمضان میں سورج کو گرہن لگے گا۔جب سے اللہ تعالی نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا ہے تب سے یہ دو نشانیاں نمودار نہیں ہوئیں۔
مرزا قادیانی نے بھی یہ روایت پیش کی ہے اپنی کتب میں اور کیا کہا ہے ملاحظہ فرمائیے
"یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے" ( نورالحق: روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 209،253)
قادیانی کہتے ہیں کے سورج گرہن کے لئے 27،28،29 تاریخیں مقرر ہیں اور چاند گرہن کے لئے 13،14،15 تاریخ مقرر ہے۔ اس لیے چاند گرہن لگنے کی تاریخ 13 اور سورج گرہن لگنے کی تاریخ 28 ہے۔ اور ان تاریخوں میں مرزا قادیانی کے دور میں سورج اور چاند گرہن لگا اس وجہ سے مرزا قادیانی کو مہدی مان لیا جائے۔
جواب یہ ہے کہ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے بلکہ محمد بن علی کا کشف ہے۔محمد بن علی ایک غیر معلوم آدمی ہیں۔بعض قادیانی کہتے ہیں کہ محمد بن علی سے امام باقر مراد ہے۔اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ یہ امام باقر کا کشف ہے تب بھی قابل قبول نہیں کیونکہ روایت از روئے سند غیر معتبر ہے۔اس روایت کی سند میں عمرو بن شمر جعفی کوفی موجود ہے
(1) امام یحیی بن معین فرماتے ہیں یہ ليس بشئ، اس سے حدیث کو نہیں لیا جائے گا (2) جوزجانی کہتے ہیں یہ بھٹکا ہوا کذاب ہے (3) امام ابن حبان کہتے ہیں یہ رافضی ہے جو صحابہ کو گالی دیتا تھا،اس نے ثقہ راویوں کے حوالے سے موضوع روایات نقل کی ہیں (4) امام بخاری کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے
﴿میزان الاعتدال جلد 5 صفحہ 322﴾
سند کا راوی ہے جابر بن یزید جفعی
(1) امام یحییٰ القطان اسے متروک کہتے ہیں (2) یحییٰ بن معین کہتے ہیں اس کی نقل کردہ روایات تحریر نہیں کی جائیں گی (3) امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے جابر جعفی سے جھوٹا کوئی شخص نہیں دیکھا (4) لیث بن ابو سلیم کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے (5) امام نسائی کہتے ہیں یہ متروک ہے. وغیرہ
﴿میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 143﴾
خیر پہلی بات تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں دوسری بات یہ ہے کہ یہ از روئے سند غیر معتبر ہے۔ لیکن اگر یہ بات نظر انداز کردی جائے اور قادیانیوں کا قول مان لیا جائے تب بھی اس روایت کے مطابق یہ پیشگوئی مرزا قادیانی کے دور میں پوری نہیں ہوئی۔کیوں کہ روایت میں الفاظ ہے "ماہ رمضان کی پہلی رات میں چاند گرہن لگے گا" جبکہ بقول قادیانی حضرات مرزا کے دور میں 13 تاریخ کو چاند گرہن لگا ہے. دوسری بات یہ ہے کہ روایت میں الفاظ ہیں " نصف رمضان میں سورج گرہن لگے" یعنی 15 تاریخ لیکن بقول قادیانی حضرات مرزا کے دور میں 28 تاریخ کو سورج گرہن لگا تھا۔اس جھوٹی اور بے بنیاد روایت کے مطابق بھی مرزا قادیانی سچا ثابت ہوتا نظر نہیں آتا۔قادیانی کہتے ہیں یکم رمضان المبارک کو چاند گرہن اور 15 رمضان المبارک کو سورج گرہن لگنا ممکن ہی نہیں کیوں کہ جب سے دنیا بنی ہے ایسا نہیں ہوا۔ہم کہتے ہیں روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ یہ نشانی جب سے دنیا بنی ہے تب سے اب تک ظاہر نہیں ہوئی۔اور جب تک مہدی کا ظہور نہیں ہوتا ظاہر نہیں ہوگی۔
اس روایت کی طرح قادیانی حضرات نے اور بھی کچھ بزرگوں کے اقوال نقل کیے ہیں اور ان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مہدی تیرہویں صدی ہجری یا چودھویں صدی ہجری میں ظاہر ہوگا۔ان سب کے بارے میں مختصر جواب یہ ہے۔کہ بزرگوں کے اقوال حجت نہیں،یہ بات ہم نہیں کہتے بلکہ آپ کے مرزا صاحب نے ہی کہی ہے۔ اقوال خلف و سلف کوئی مستقل حجت نہیں (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 172)
دوسری بات یہ ہے کہ پیشگوئیاں سمجھنے کے مسئلے میں بزرگوں پر اعتبار کرنا ایسا ہی ہے جیسے یہودیوں پر اعتبار کرنا۔یہ بات بھی ہم نہیں کہتے بلکہ مرزاقادیانی نے کہی ہے اور مرزا کا ہر قول آپ کے لئے حجت ہے
"بزرگ معصوم نہ تھے بلکہ جس طرح یہودیوں کے بزرگوں نے پیشگوئیاں سمجھنے میں ٹھوکر کھائی اسی طرح ان بزرگوں نے بھی ٹھوکر کھائی" ﴿روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 290﴾
مختصر یہ کہ قادیانی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں مگر مرزا قادیانی بن غلام مرتضی کو کبھی بھی محمد بن عبداللہ یعنی امام المہدی ثابت نہیں کر سکتے۔
امام مہدی کی احادیث میں نشانیاں بیان کی گئی ہیں ملاحظہ فرمائیے
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امام مہدی حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے (ابوداؤد رقم الحدیث 4284)
جب کہ مرزا قادیانی مغل تھا اور خود لکھتا ہے کہ میں اس حدیث کا مصداق نہیں اور نہ ہی میرا دعویٰ ہے کہ میں وہ مہدی ہوں۔
"میرا یہ دعوی نہیں کہ میں وہ مہدی ہوں جو مصداق مِنْ وَلَدِ فَاطِمَةَ و مِنْ عِتْرَتِي وغیرہ ہے" (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356)
جب مرزا قادیانی خود یہ بات مانتا ہے کہ وہ مہدی نہیں جس کا حدیث میں ذکر ہے تو ثابت ہوا کہ مرزا جھوٹا اور کذاب ہے۔
(2) امام ترمذی نے باب ما جاء فی المہدی میں روایت نقل کی ہے کہ حضرت صلی اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا مہدی میرے گھرانے سے ہوگا اور میرا ہم نام ہوگا (یعنی مہدی سید ہو گا اور مہدی کا نام محمد ہو گا) اور وہ عرب کا بادشاہ بن جائے گا۔ (ترمذی رقم الحدیث 2230)
مرزا قادیانی مغل تھا،اس کا نام غلام احمد تھا اور وہ اغیار کا غلام تھا نہ کہ عرب کا بادشاہ۔
(3) امام ابو داؤد نے باب فی ذکر المہدی میں روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مہدی کا نام میرے نام پر ہو گا اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا (یعنی مہدی کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبداللہ ہو گا){ابوداؤد رقم الحدیث 4282}
مرزا قادیانی کا نام غلام احمد تھا اور اس کے والد کا نام غلام مرتضیٰ تھا (خزائن جلد 12 صفحہ 270، 271)
(4)امام ابو داؤد نے باب فی ذکر المہدی میں روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہدی میری اولاد سے ہوگا اس کی حکومت 7 سال تک رہے۔ (ابو داؤد رقم الحدیث 4285)
جب کہ مرزا قادیانی کی حکومت ایک لمحہ کے لئے بھی کسی جگہ پر نہیں بنی۔
اور بھی بہت سی نشانیاں بیان فرمائیں گئ ہیں۔
مختصر یہ کہ احادیث میں مہدی کی جو نشانیاں بیان کی گئی ہیں مرزا قادیانی ان پر پورا نہیں اترتا اس وجہ سے مرزا اپنے دعویٰ میں جھوٹا و کذاب ہے۔
مدیر کی آخری تدوین
: