(۱) حضرت سلیمان ؑ کے بعد جب بنی اسرائیل کی سلطنت تقسیم ہو کر دو ریاستوں (یروشلم کی دولت یہودیہ اور سامریہ کی دولت اسرائیل) میں بٹ گئی تو ان میں باہم لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور نوبت یہاں تک آئی کہ یہودیہ کی ریاست نے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف دمشق کی ارامی سلطنت سے مدد مانگی۔ اس پر خدا کے حکم سے حنانی نبی نے یہودیہ کے فرمانروا آسا کو سخت تنبیہ کی۔ مگر آسا نے اس تنبیہ کو قبول کرنے کے بجائے خدا کے پیغبر کو جیل بھیج دیا ( ۲- تواریخ، باب ۱۷- آیت ۱۰-۷)
(۲) حضرت الیاس (ایلیاہelliah ) علیہ السلام نے جب بَعْل کی پرستش پر یہودیوں کو ملامت کی اور ازسرِ نَو توحید کی دعوت کا صُور پُھونکنا شروع کیا تو سامریہ کا اسرائیلی بادشاہ اخی اب اپنی مشرک بیوی کی خاطر ہاتھ دھو کر ان کی جان کے پیچھے پڑگیا، حتّٰی کہ انہیں جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی۔ اس موقع پر جو دُعا حضرت الیاس ؑ نے مانگی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں:
”بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں، سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں ۔“(۱- سلاطین – باب ۱۹-آیت ۱۰-۱)
(۳) ایک اور نبی حضرت میکا یاہ کو اسی اخی اب نے حق گوئی کے جرم میں جیل بھیجا اور حکم دیا کہ اس شخص کو مصیبت کی روٹی کھلانا اور مصیبت کا پانی پلانا۔ (۱- سلاطین- باب ۲۲-آیت۲۷-۲٦)
(٤) پھر جب یہُودیہ کی ریاست میں علانیہ بت پرستی اور بدکاری ہونے لگی اور زکریاہ نبی نے اس کے خلاف آواز بلند کی، تو شاہ یہُوداہ یوآس کے حکم سے انہیں عین ہیکلِ سلیمانی میں ”مَقْدِس“ اور ”قربان گاہ“ کے درمیان سنگسار کر دیا گیا (۲- تواریخ، باب ۲٤-آیت ۲۱)
(۵) اس کے بعد جب سامریہ کی اسرائیلی ریاست اَشُوریُوں کے ہاتھوں ختم ہو چکی اور یروشلم کی یہودی ریاست کے سر پر تباہی کا طوفان تُلا کھڑا تھا، تو ”یرمیاہ“ نبی اپنی قوم کے زوال پر ماتم کرنے اٹھے اور کوچے کوچے انہوں نے پکارنا شروع کیا کہ سنبھل جاؤ ، ورنہ تمہارا انجام سامریہ سے بھی بدتر ہوگا۔ مگر قوم کی طرف سے جو جواب مِلا وہ یہ تھا کہ ہر طرف سے ان پر لعنت اور پھٹکار کی بارش ہوئی ، پیٹے گئے، قید کیے گئے، رسّی سے باندھ کر کیچڑ بھرے حوض میں لٹکا دیے گئے تاکہ بھُوک اور پیاس سے وہیں سُوکھ سُوکھ کر مر جائیں اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ قوم کے غدّار ہیں ، بیرونی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں ۔ (یرمیاہ، باب۱۵، آیت ۱۰- باب ۱۸، آیت ۲۳-۲۰- باب ۲۰، آیت ۱۸-۱- باب ۳٦ تا باب ٤۰)
(٦) ایک اور نبی حضرت عاموس کے متعلق لکھا ہے کہ جب انہوں نے سامریہ کی اسرائیلی ریاست کو اس کی گمراہیوں اور بدکاریوں پر ٹوکا اور ان حرکات کے برے انجام سے خبردار کیا تو انہیں نوٹس دیا گیا کہ ملک سے نکل جاؤ اور باہر جا کر نبوت کرو (عاموس ، باب ۷- آیت ۱۳-۱۰)
(۷) حضرت یحیٰی (یُوحنا) علیہ السلام نے جب ان بد اخلاقیوں کے خلاف آواز اٹھائی جو یہودیہ کے فرمانروا ہیر و دیس کے دربار میں کھُلم کھُلا ہو رہی تھیں، تو پہلے وہ قید کیے گئے، پھر بادشاہ نے اپنی معشوقہ کی فرمائش پر قوم کے اس صالح ترین آدمی کا سر قلم کر کے ایک تھال میں رکھ کر اس کی نذر کر دیا۔ (مرقس، باب ٦، آیت ۲۹-۱۷)
(۲) حضرت الیاس (ایلیاہelliah ) علیہ السلام نے جب بَعْل کی پرستش پر یہودیوں کو ملامت کی اور ازسرِ نَو توحید کی دعوت کا صُور پُھونکنا شروع کیا تو سامریہ کا اسرائیلی بادشاہ اخی اب اپنی مشرک بیوی کی خاطر ہاتھ دھو کر ان کی جان کے پیچھے پڑگیا، حتّٰی کہ انہیں جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی۔ اس موقع پر جو دُعا حضرت الیاس ؑ نے مانگی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں:
”بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں، سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں ۔“(۱- سلاطین – باب ۱۹-آیت ۱۰-۱)
(۳) ایک اور نبی حضرت میکا یاہ کو اسی اخی اب نے حق گوئی کے جرم میں جیل بھیجا اور حکم دیا کہ اس شخص کو مصیبت کی روٹی کھلانا اور مصیبت کا پانی پلانا۔ (۱- سلاطین- باب ۲۲-آیت۲۷-۲٦)
(٤) پھر جب یہُودیہ کی ریاست میں علانیہ بت پرستی اور بدکاری ہونے لگی اور زکریاہ نبی نے اس کے خلاف آواز بلند کی، تو شاہ یہُوداہ یوآس کے حکم سے انہیں عین ہیکلِ سلیمانی میں ”مَقْدِس“ اور ”قربان گاہ“ کے درمیان سنگسار کر دیا گیا (۲- تواریخ، باب ۲٤-آیت ۲۱)
(۵) اس کے بعد جب سامریہ کی اسرائیلی ریاست اَشُوریُوں کے ہاتھوں ختم ہو چکی اور یروشلم کی یہودی ریاست کے سر پر تباہی کا طوفان تُلا کھڑا تھا، تو ”یرمیاہ“ نبی اپنی قوم کے زوال پر ماتم کرنے اٹھے اور کوچے کوچے انہوں نے پکارنا شروع کیا کہ سنبھل جاؤ ، ورنہ تمہارا انجام سامریہ سے بھی بدتر ہوگا۔ مگر قوم کی طرف سے جو جواب مِلا وہ یہ تھا کہ ہر طرف سے ان پر لعنت اور پھٹکار کی بارش ہوئی ، پیٹے گئے، قید کیے گئے، رسّی سے باندھ کر کیچڑ بھرے حوض میں لٹکا دیے گئے تاکہ بھُوک اور پیاس سے وہیں سُوکھ سُوکھ کر مر جائیں اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ قوم کے غدّار ہیں ، بیرونی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں ۔ (یرمیاہ، باب۱۵، آیت ۱۰- باب ۱۸، آیت ۲۳-۲۰- باب ۲۰، آیت ۱۸-۱- باب ۳٦ تا باب ٤۰)
(٦) ایک اور نبی حضرت عاموس کے متعلق لکھا ہے کہ جب انہوں نے سامریہ کی اسرائیلی ریاست کو اس کی گمراہیوں اور بدکاریوں پر ٹوکا اور ان حرکات کے برے انجام سے خبردار کیا تو انہیں نوٹس دیا گیا کہ ملک سے نکل جاؤ اور باہر جا کر نبوت کرو (عاموس ، باب ۷- آیت ۱۳-۱۰)
(۷) حضرت یحیٰی (یُوحنا) علیہ السلام نے جب ان بد اخلاقیوں کے خلاف آواز اٹھائی جو یہودیہ کے فرمانروا ہیر و دیس کے دربار میں کھُلم کھُلا ہو رہی تھیں، تو پہلے وہ قید کیے گئے، پھر بادشاہ نے اپنی معشوقہ کی فرمائش پر قوم کے اس صالح ترین آدمی کا سر قلم کر کے ایک تھال میں رکھ کر اس کی نذر کر دیا۔ (مرقس، باب ٦، آیت ۲۹-۱۷)