(اجماع)
اب میں قراردادوں پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بات پر تو اب اجماع (Consensus) ہے کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد جو آدمی کسی نبوت پر ایمان رکھتا ہو، کسی آدمی کو نبی مانتا ہو، وہ مسلمان نہیں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے یہ اب 2650اجماع نہیں ہوا، بلکہ یہ آئین میں ہی ہوچکا تھا۔ کیونکہ آئین میں صرف دو عہدوں کے لئے ہم نے کہا ہے کہ ان کے لئے مسلمان ہونا لازمی ہے، اور ان دونوں عہدوں کے لئے حلف وہ تجویز کیا ہے جس میں یہ وضاحت ہوگئی ہے۔ وہ حلف اٹھا کر کہے کہ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ گویا براہ راست نہیں تو بالواسطہ (Indirectly) ہم نے مسلمان کی تعریف پہلے ہی آئین میں دی ہوئی ہے۔ اب صرف یہ ہے کہ جو فیصلہ ہم آئین میں کر چکے ہیں اس کی مزید وضاحت کر دی جائے، جب کہ ابھی وہ دو عہدوں کے متعلق ہے، اس کو عمومی شکل دے دی جائے کہ جہاں کہیں ’’مسلمان‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور آئین میں تو خیر کسی عہدے کے لئے ضروری نہیں ہے۔ لیکن اور عام قوانین میں، مثلاً مسلم فیملی لاز آرڈیننس ہے، وراثت کا عام قانون ہے، بلکہ اگر فقہ کو توسیع دینی ہے، تو اس میں شفعہ کا قانون بھی آئے گا، یہ سارے آئیں گے۔ کیونکہ اسلامی قانون میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے حقوق میں ایک امتیاز رکھا گیا ہے۔ ان کے باہمی تنازعات میں خاص قواعد مقرر ہیں۔ اگر ان کو جب نافذ کرنا ہوگا تو پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ کوئی شخص مسلمان ہے یا نہیں۔ اب یہ کہ ایک شخص مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو کیوں اس کو مسلمان نہ سمجھا جائے۔ بظاہر یہ بات بھی ہمارے تعلیم یافتہ بعض آدمیوں کو بڑی اپیل کرتی ہے کہ ٹھیک ہے صاحب! گزارش اس میں یہ ہے کہ ہماری کوئی تعریف ایسی نہیں کہ کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو ہم اس کو اس بات سے روکیں کہ وہ یہ نہ کہہ سکے کہ میں مسلمان ہوں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایک شخص مثلاً زید کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ اس کا بکر کے ساتھ ایک تنازعہ ہے، مثلاً وراثت کا تنازعہ ہے۔ بکر انکار کرتا ہے۔ زید کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ یہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد نبی کو مانتا ہے۔ اس لئے مسلمان نہیں ہے۔ اب یہ زید کا تنہا ذاتی معاملہ نہیں، یہ 2651دوسرے کے ساتھ تنازعہ کا معاملہ ہے۔ وراثت کا معاملہ ہے۔ شفعہ کا معاملہ ہے اور قوانین کے متعلق معاملہ ہے۔ اس میں پھر اس آدمی کا فیصلہ قطعی نہیں ہوتا۔ معاملہ عام طور پر عدالتوں میں جاتا تھا۔ لیکن ہم عدالتوں میں لے جانے کی بجائے قانون میں یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ عدالتیں تو قانون کی تعبیر کرتی ہیں۔ اس لئے قرارداد میں ایک تجویز، جو میں پڑھ کر سناتا ہوں، یہ ہے کہ آئین میں جس اصول کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ اس کی وضاحت کر دی جائے اور اس کو وسعت دے دی جائے، اپنے اطلاق کے لحاظ سے، اور وہ تمام قوانین پر حاوی ہو کہ جہاں کہیں ’’مسلمان‘‘ کا لفظ، اب استعمال ہوا ہے یا آئندہ جو قوانین ہم بنائیں گے، کیونکہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ فقہ کے اثر کی توسیع کرنی ہے، زیادہ سے زیادہ معاملات پر حاوی کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ زیادہ قوانین میں مسلمان کی وہ شرط آئے گی۔ تو ہر جگہ یہ سمجھا جائے کہ جو آدمی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا، وہ مسلمان نہیں ہے۔ لیکن یہاں جناب! اب ایک اور معاملہ پیش آگیا ہے۔ پھر یہ پیچیدگی حاصل کر گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم نے کہا حلف، اور تجویز اب یہ ہے کہ حلف کے مطابق ہی عام Definition (تعریف) کر دی جائے۔ لیکن حلف میں یہ لکھا ہے کہ وہ شخص جو ختم نبوت پر یقین رکھتا ہو اور یہ کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ تو یہاں ایک تو آپ کے سامنے شہادت آئی ہے، بیان آئے ہیں۔ اس سے یہ بات نکلی کہ کم ازکم لاہوری جماعت والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مرزاغلام احمد کو نبی نہیں مانتے۔ بلکہ مرزاغلام احمد نے نبوت کا دعویٰ ہی نہیں کیا۔ بلکہ اس حد تک کہا ہے کہ جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے وہ لعنتی ہے۔ تو اس حلف کے مطابق بھی لاہوری جماعت والے تو پھر دائرہ اسلام سے خارج متصور نہیں ہوتے، وہ مسلمان ہی سمجھے جائیں گے، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی نہیں مانتے اور خود ربوہ والوں کا معاملہ بھی اب پیچیدہ صورت میں ہے۔ کیونکہ اگر الفاظ یہ ہیں کہ ختم نبوت 2652میں ایمان رکھتا ہوں اور یہ کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد نبی نہیں آئے گا۔ اب ذہنی تحفظ کے ساتھ، Mental reservation (ذہنی تحفظ) جو ہوتی ہے، وہ ہوسکتا ہے کہ ربوہ والا احمدی بھی حلف اٹھالے، یا عدالت میں معاملہ جائے تو وہ کہے کہ جناب! یہاں لکھا ہے کہ نبی نہیں آسکتا، تو اس سے تو مراد، جو حوالے سارے پیش ہوئے ہیں، نبی سے مراد تو ہمیشہ نیا نبی ہوتا ہے۔ جدید شریعت والا نبی ہوتا ہے۔ جو مستقل نبی ہو وہ ہوتا ہے۔ تو پھر بھی معاملہ تشریح طلب رہ جاتا ہے تو میں نے دیکھا ہے کہ گو میری اپنی قرارداد میں یہ بات نہیں تھی۔ لیکن یہاں جو بیان ہوا ہے اور جرح ہوئی ہے، اس سے میں نے یہ تاثر لیا ہے کہ غالباً جو اپوزیشن کے بعض ممبروں کی طرف سے قرارداد میں یہ بات آئی ہے کہ مرزاغلام احمد صاحب کے متعلق واضح طور پر یہ کہہ دیا جائے کہ ان کے ماننے والے مسلمان نہیں ہیں۔ ویسے یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم ایک شخص کا نام لکھیں۔ لیکن پھر کیا کریں۔ ہمارا مسئلہ ہی ایسا ہے کہ یہاں ایک شخص نے دعویٰ کیا، کچھ دعویٰ کیا اور صورت یہ پیدا ہوئی کہ اس دعویٰ کے بعد پچاس ساٹھ سال گزرنے کے باوجود اس کے ماننے والے اب تک یہ طے نہیں کر سکے کہ ان کا دعویٰ کیا تھا۔ بلکہ اس ضمن میں علامہ اقبال کا ردعمل بڑا مناسب ہوگا۔ انہوں نے پہلی دفعہ کہا تھا، یہاں بیان بھی کیا گیا ہے کہ انہوں نے مرزاغلام احمد کی تعریف کی تھی۔ وہ ٹھیک ہے۔ ۱۹۱۱ء میں انہوں نے کہا تھا۔ بعد میں شدید مخالف ہوگئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ پنڈت نہرو سے ان کا ایک مناظرہ چل نکلا۔ انہوں نے دو تین مضامین لکھے۔ پھر کسی نے سوال کیا کہ آپ نے پہلے تو ان کی اتنی تعریف کی تھی اور اب آپ ان کے مخالف ہوگئے ہیں۔ ویسے انہوں نے بہت مفصل جواب دیا ہے۔ لیکن اس ضمن میں اپنی پوزیشن کی وضاحت کے لئے انہوں نے یہ جواب دیا تھا کہ بھائی دیکھو! میں انسان ہوں۔ میں اپنی 2653رائے تبدیل کر سکتا ہوں، اور اس تحریک کے جو نتائج ہونے تھے اور اس کے بانی کے جو دعاوی تھے، اس وقت اس کے متعلق میرا پورا علم نہ تھا۔ پھر انہوں نے کہا کہ دیکھو! میں ایک Outsider (جماعت احمدیہ سے باہر ایک فرد) ہوں۔ تو مجھے کیسے پتا چل سکتا تھا۔ جب کہ خود ان کے ماننے والے آج تک جھگڑ رہے ہیں کہ انہوں نے (کیا) دعویٰ کیا تھا۔ لیکن اب ہمارے سامنے بہت میٹریل آچکا ہے اور اس میٹریل کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں، یعنی اس کا فیصلہ کرنے کے قابل ہیں کہ خواہ یہ کچھ دعویٰ کرتے رہیں، لاہوری جماعت والے اور ربوہ والے، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ مرزاغلام احمد نے نبوت کا دعویٰ ضرور کیا ہے اور اب اس کی کوئی تاویل کر دی جائے، خواہ نبوت کسی تاویل کے ساتھ ہو، خواہ کسی رنگ میں ہو، خواہ وہ ظلی ہو، بروزی ہو، غیرمستقل ہو، غیرتشریعی ہو، جس طرح بھی ہو، امتی ہو، اس کو عقیدۂ ختم نبوت کے منافی سمجھتے ہیں اور ہم ہیں عوام کے نمائندے۔ پاکستان کے عوام اس بات میں کوئی تمیز نہیں کرتے۔ وہ اس بات کو سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ مرزاغلام احمد صاحب محدث تھے اور محدث ہیں تو جائز ہیں یا مجدد تھے۔ کیونکہ آپ کے سامنے تو سارا میٹریل آچکا ہے۔ اصل بات یہ ہے، میں نے تو کچھ مطالعہ بھی کیا ہوا ہے، وہ ٹھیک ہے، انکار بھی کرتے رہے ہیں نبوت سے اور پھر دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں۔ مقاصد ان کے سامنے دو تھے اور وہ ایک دوسرے کی ضد تھے۔ ایک طرف وہ چاہتے تھے کہ مستقل بنیاد پر اپنی ایک جماعت قائم کر لیں، اور جس مشن کو مرزامحمود احمد نے بہت آگے بڑھایا، علیحدہ جماعت قائم کر دیں۔ جس کا تعلق ان کے مریدوں کا ان کے ساتھ ایسا ہو کہ جو نبی کے ساتھ ان کے پیروؤں کا ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ یہ چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے لئے نبی کا لفظ استعمال کیا، باربار کیا۔ لیکن پھر ساتھ ہی عوام میں مخالفت بڑھ گئی۔ علماء سارے ان کے خلاف ہوگئے۔ کہیں جا نہیں سکتے تھے۔ سفر نہیںکر سکتے تھے تو پھر لوگوں سے ڈر 2654کر انہوں نے کہا کہ جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے اسے محدث سمجھ لیں۔ یہ نہیں کہ اس کو کاٹ کر وہ کر دیں۔ اس کو کٹا ہوا سمجھیں۔ یعنی رہے وہی کتاب میں، نبی رہے، لیکن سمجھا جائے کہ محدث ہے۔ لیکن اس کے بعد پھر نبی کا دعویٰ کیا، پھر نبی اپنے متعلق لکھا۔ تو دو مقاصد تھے اور ویسے عجیب بات ہے مسلمانوں کی اس کم علمی کی کہ وہ ان دونوں مقاصد میں ایک حد تک کامیاب ہوگئے اور اس ضمن میں بڑی دلچسپ بات میرے خیال میں وہ میاں عبدالمنان صاحب نے کہی کہ وہ بعض لوگوں کو غلط فہمی لگتی تھی، بعض کو نہیں لگتی تھی۔ تو انہوں نے دونوں کو تسلی دینے کے لئے جن کو غلط فہمی ہوتی تھی ان کو کہا کہ ان کو سمجھا جائے کہ وہ نبی نہیں ہیں، جن کو نہیں ہوتی وہ نبی سمجھتے رہیں۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں یہ تو ایک مناظرہ ہے ان کے درمیان۔ ہمارے پاس میں سمجھتا ہوں جتنا مواد آچکا ہے اور بات اتنی واضح ہوگئی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کے عام مسلمان ان میں کوئی تفریق نہیں کرتے، لاہوری جماعت اور ربوہ والی جماعت میں، تو اس مواد کی بنیاد پر جو ہمارے سامنے پیش ہوا ہے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے عام مسلمان درست کہتے ہیں۔ لیکن اب اس کو ہم کیسے کہیں کہ لاہوری جماعت سے تعلق ہے تو اس کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں یہ چیز آرہی ہے ان قراردادوں میں کہ میں کسی نبی کو نہیں مانتا تو ایک مرزاغلام احمد صاحب کا نام بھی لکھا جاسکتا ہے۔ اب بات اس میں بڑی اصل میں سنگین ہوجاتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک کوئی ولی اﷲ یا پیر ہونے کا مدعی ہو تو ٹھیک ہے، کوئی اس کو مان لیتا ہے، کوئی اس کو نہیں مانتا۔ لیکن جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے وہ ایک بہت سنگین، شدید معاملہ ہے۔
اس ضمن میں جناب! میں ایک اور بات عرض کروں گا۔ وہ میرے ذہن میں تھی ابتداء میں کہنے کی، لیکن پھر بھول گیا ہوں کہ ایک پروپیگنڈہ یہ بھی ہورہا ہے کہ اگر اس 2655طریقے پر آپ مذہبی امور کے فیصلے کرنے شروع کر دیں گے تو ایک فتنے کے بہت سے دروازے کھول دیں گے۔ مثلاً کہا جارہا ہے کہ اگر احمدیوں کے خلاف یہ کارروائی کی گئی تو پھر مثلاً شیعہ جو ہیں، یہاں اقلیت میں ہیں۔ پھر ان کے خلاف ہو گا۔ اہل حدیث کے خلاف ہوگا۔ یہاں کچھ اہل قرآن بھی ہیں اور احمدیہ جماعت کی طرح سے خاص طور پر اسماعیلی فرقے والے ہیں۔ ان کی طرف سے اس بات پر زور دیاگیا ہے۔ انہوں نے بہت ہی دل آزار قسم کا… میرا دل تو بہت ہی دکھا ہے کہ انہوں نے وہ حوالے پیش کئے ہیں کہ جناب فلاں شیعہ عالم نے سنیوں کے متعلق یہ لکھا ہے، سنیوں نے شیعوں کے متعلق یہ لکھا ہے۔ اہل حدیث نے دوسروں کے متعلق یہ لکھا ہے۔ وہ یہاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ یہاںمختلف مکتب فکر کے لوگ موجود ہیں۔ لیکن ان کا پوائنٹ یہ تھا کہ ایک تو یہ کہ یہ اختلافات تو موجود ہیں۔ پہلے تو، ہمارا بھی ایک اختلاف ہے اور دوسرا ایک اور خوف پیدا کرنا چاہتے تھے ملک میں، کہ اگر ایک دفعہ احمدیوں کے خلاف یہ کارروائی ہوئی تو پھر کسی کو اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھنا چاہئے۔ پھر دوسرے ہر فرقے کے خلاف ہوگا تو اس ضمن میں جناب! یہ گزارش کروں گا کہ یہ بات بھی غلط ہے۔ آخر دیکھئے کہ کیا وجہ ہے کہ کہتے ہیں ۷۲فرقے ہیں۔ میں نہیں جانتا ۷۲ہیں۔ شاید کم ہوں یا زیادہ ہوں۔ لیکن یہ اختلاف کی صورت جو احمدی جماعت کے متعلق پاکستان میں مسلمانوں کی باہمی ایک ایسی صورت ہے کہ جس میں Co- Exist (وہ اکٹھے نہیں رہ سکتے) نہیں کر سکتے۔ پولیٹکلی اور مذہبی یا اور لوگوں کے درمیان کیوں پیدا نہیںہوئی، شیعوں کی اور سنیوں کی کیوں پیدا نہیں ہوئی باوجود بہت بڑے اختلاف کے اور یہاں جناب! میں یہ عرض کروں گا کہ اگر ظاہری چیز کو دیکھا جائے تو اس میں اب جناب! احمدی ہیں۔ یہ حنفی فقہ کو اپناتے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ہم حنفی فقہ کو مانتے ہیں۔ نماز حنفی طریقے سے پڑھتے ہیں، 2656روزہ بھی اسی طریقے پر، زکوٰۃ کے اسی طریقے پر قائل ہیں، حج بھی کرتے ہیں بعض، چلئے ٹھیک ہے۔ تو شیعوں کے بہت اختلافات ہیں۔ نماز کے طریقے میں۔ بلکہ مجھے تجربہ ہوا کہ روزہ بھی وہ کچھ درمیان میں وقت کا فرق ہے، بعد میں افطار کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ بہت اختلاف ہیں خلافت کے متعلق۔ تو یہ کیا وجہ ہے۔ جناب! اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ختم نبوت کے اختلاف کو سارے عرصے میں ۱۴سوسال میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے، اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں دوسرے اختلافات سے، اس لئے کہ نبی اور نبوت یہ مذہبی اصطلاح کا لفظ ہے، یہاں لغت کا معنی نہیں ہے جیسے کہ یہاں کہاگیا۔ جناب! کہ مولانا روم نے یہ کہا کہ اس کے لغوی معنی یہ ہیں۔ وہ نہیں ہے۔ یہ ٹیکنیکل، اصطلاحی چیز ہے۔ مذہبی اصطلاح میں، اور اہل کتاب جو ہیں ان کا جہاں نبوت کا ذکر ہے نبوت سے ہمیشہ یہ مراد لی گئی کہ کوئی آدمی جب ایک دعویٰ کرتاہے وحی کا، لیکن وہ تنہا وحی کا دعویٰ نہیں، اس وحی کے دعوے کی بنیاد پر اس کی علیحدہ جماعت قائم ہو جاتی ہے۔ اس کو ہمیشہ نبی کی امت کہاگیا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے جتنے اختلافات ہیں وہ اور نوعیت کے ہیں۔ اس لئے میں کہتا ہوں جناب! کہ اس میں بالکل ڈرنا نہیں چاہئے۔ یہ خوف بھی نہیں ہونا چاہئے کہ یہ ایک فتنے کا دروازہ کھل جائے گا۔ نبوت کا مسئلہ ہی اور ہے، اور وہ اختلافات جو ہیں وہ بالکل علیحدہ ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی سوسائٹی بڑی لبرل سوسائٹی ہے۔ مسلمان بہت لبرل ہیں۔ انہوں نے یہ تمام اختلافات دیکھے۔ ۱۴سوسال میں کون کون سا فرقہ پیدا نہیں ہوا۔ اب ان کے جو اختلافات ہیں ان میں میں نہیں جاتا۔ لیکن اتنے شدید اختلافات ہوئے اور فرقے پیدا ہوئے۔ لیکن کہیں یہ تحریک نہیں چلی کسی سوسائٹی میں کہ فلاں جو ہیں ان کو غیرمسلم قرار دیا جائے۔ ان کو کیوں غیرمسلم قرار دے دیں؟ وہی نبوت کا معاملہ ہے۔ اگر 2657نبوت کا دعویٰ نہ ہوتا مرزاغلام احمد صاحب کا اور وہ مذہبی راہنما ہوتے اور بہت اختلافات ان کے پیدا ہو جاتے، نماز، روزے میں بھی ہوتے۔ سب چیزوں میں بھی ہوتے، پھر یہ صورت پیدا نہ ہوتی۔ مثلاً جناب! میں یہ عرض کروں گا کہ یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی Reactionary (رجعت پسند) بات ہے۔ عیسائیوں کی مثال آپ دیکھیں، عیسائیوں کا بھی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ نے دوبارہ آنا ہے۔ یہ مشترکہ ہے مسلمانوں کا اور عیسائیوں کا کہ انہوں نے دوبارہ آنا ہے۔ فرض کیجئے اور اختلافات عیسائیوں میں بھی ہیں۔ بہت فرقے ہیں۔ بڑے جو مشہور ہیں رومن کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کو تو آپ لوگ جانتے ہیں اور بھی بہت سے ہیں۔ لیکن کوئی یہ نہیں کہتا دوسرے فرقے کے متعلق کہ یہ عیسائی نہیں ہیں۔ لیکن فرض کیجئے کہ ایک شخص اٹھتا ہے، پیدا ہوتا ہے عیسائیوں میں اور عیسائیوں کا جو عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ نے دوبارہ آنا ہے، وہ کہتا ہے کہ میں آگیا ہوں، میں وہی عیسیٰ ہوں اور عیسائیوں میںایک آدمی اس کو مان لیتا ہے اور مجھے یقین ہے جناب! کہ وہ بڑے لبرل ہونے کے باوجود تمام دنیا کے عیسائی اس بات پر متحد ہو جائیں گے کہ جو لوگ اس کو مانتے ہیں حضرت عیسیٰ۔ وہ عیسائی نہیں ہیں اور ظاہر ہے کہ جو اس کو ماننے والے ہوں گے اس حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد پر ایمان رکھتے ہوں گے اور سمجھتے ہیں کہ وہ وہی عیسیٰ ہے وہ دوسرے عیسائیوں کو عیسائی نہیں سمجھیں گے۔ یعنی جو یہاں کہاگیا ہے جناب! کہ احمدی ہمیں کافر سمجھتے ہیں تو اس میں تو میں سمجھتا ہوں بالکل انصاف کی بات ہے، معقولیت کی بات ہے، کہ اگر واقعی نبی آگیا ہے، مسیح موعود آگئے ہیں، مہدی جو ہیں ان کا ظہور ہوگیا ہے، اور وہ مرزاغلام احمد کی ذات میں ہے تو جو لوگ ان کو مانتے ہیں تو پھر وہی مسلمان ہوسکتے ہیں۔ باقی کیسے مسلمان ہوں گے؟ ایک نبی آگیا ہے، پہلے سے اس کی بشارت موجود ہے، قرآن وحدیث اس کی تائید کرتے ہیں، مسلمانوں کا 2658اجماع ہے اور پھر جو نبی کو نہیں مانتے وہ تو ظاہر ہے مسلمان نہیں ہوں گے تو یہ اختلاف جو ہے میں نے عرض یہ کیا ہے کہ اختلاف جو ہے یہ اپنی نوعیت کا ہے اور اس کا مقابلہ دوسرے اختلاف سے نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جناب! اگر ہم اس کا فیصلہ کریں گے، احمدیوں کا فیصلہ کریں گے، تو باقی فرقوں کے متعلق بھی ہوگا۔ مجھے یقین ہے کوئی مطالبہ پاکستان میں کسی فرقے کے خلاف پیدا نہیں ہوگا۔
تو اب جناب! میں چند الفاظ عرض کرتاہوں۔ ایک یہ پہلا ریزولیوشن، قرارداد ہے جناب! جس پر ۳۷اراکین کے دستخط ہیں۔ تو تمہید میں تو خیر مرزاغلام احمد کے متعلق وہ ساری بات ٹھیک ہے۔ "Where as this is established...." (’’اب جب کہ یہ بات طے ہوچکی ہے…‘‘) لیکن آخر میں جو تجویز ہے معین وہ یہ ہے کہ: "Now this Assembly do proceed to that the followers of Mirza Ghulam Ahmad by whatever name they are called are not Muslims and that an official Bill be moved in the National Assembly to make necessary amendment." (’’اب اسی اسمبلی کے مطابق مرزاغلام احمد کے پیروکار خواہ وہ کسی بھی نام سے پکارے جاتے ہوں مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں باضابطہ طور پر ایک بل پیش کیا جائے تاکہ ضروری ترمیم کی جاسکے۔‘‘)
تو مطلب یہ جناب! کہ یہ کہتے ہیں کہ اس میں یہ وضاحت چاہتے ہیں۔ یعنی ایک وضاحت تو ہوتی ہے اصولی لحاظ سے، بلکہ آج ہی میں ایک دوست سے بات کر رہا تھا تو وہ کہتا تھا کہ اس میں نام کیوں لیتے ہیں اور نبی بھی پیدا ہوں گے۔ میں نے کہا کہ اس کا خطرہ نہ کرو۔ ایک ممبر صاحب ہی کہہ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ چودہ سو سال میں کتنے نبی پیدا ہوئے ہیں۔ نبوت کے مدعی؟ ہم نے تو ایک ان کا نام سنا ہے اور ایک ذکر کیا تھا مسیلمہ کذاب کا، انہوں نے کہا تھا تو میں نے کہا کہ یہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں اب بہرحال مرزاغلام احمد صاحب کی تاریخ سے جو نتائج پیدا ہوئے ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے نبوت کا دعویٰ کوئی نہیں کرے گا۔ بہرحال یہ تو ڈرافٹنگ کا 2659معاملہ علیحدہ ہے۔ کس چیز میں کیا جائے۔ آئین میں آئے، کسی قانون میں آئے، وہ اور معاملے ہیں۔ وہ ٹیکنیکل باتیں ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوںکہ اصولاً اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کسی نہ کسی شکل میں ہمیں یہ بات واضح طور پر کرنی چاہئے اور معاملہ ادھورا نہیں چھوڑنا چاہئے اور وہ واضح طور پر اس طرح ہوسکتا ہے کہ یہ وضاحت قانون کے ذریعہ کر دی جائے کہ بہرحال جو نبی کو مانتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے، کسی دوسرے نبی کو۔ لیکن مرزاغلام احمد نے بہرحال نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو اس کے دعوے کو غلط سمجھ کر یا غلط اس کی تاویل کر کے دانستہ یا نادانستہ کوئی ان کو مانتا ہے کسی منصب پر تو وہ بھی مسلمان نہیں ہے۔
اس کے بعد جناب! یہ سردار شوکت حیات صاحب کا ایک تھا۔ اس میں یہ ہے کہ یہ Intrepreation (تعبیر) شامل کی جائے کانسٹیٹیوشن میں:
"Any person or sect that does not subscribe to and believe in the Unity and Oneness of Almighty, the Books of Allah, the Holy Quran being the last of them, Prophethood of Mohammad (peace be upon him) as the last of the Prophets and that there can be no Prophet after him, the Day of Judgement, and the requirements and teachings of the Holy Quran and Sunnah, shall be considered to fall outside the pale of Islam and shall be considered to be a member of a minority community."
(’’ہر وہ شخص یا گروہ جو اﷲتعالیٰ کی وحدانیت، اﷲتعالیٰ کی کتاب قرآن مجید بطور آخری الہامی کتاب، حضرت محمد ﷺ کی نبوت اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، قیامت کے دن قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ کی تعلیمات اور ضروریات پر ایمان نہیں رکھتے۔ دائرہ اسلام سے خارج اور اقلیتی کمیونٹی کا فرد سمجھا جائے گا۔‘‘)
تو دائرہ اسلام سے خارج ہے تو اس کے متعلق میں وہی عرض کروں گا کہ اصولی طور پر بات وہی ہے جو حلف میں آئی ہے۔ لیکن پھر جھگڑا رہ جاتا ہے اس میں۔ ایک تو میں نے لاہوری جماعت والا ذکر کیا ہے۔ وہ تو بہرحال اس میں نہیں آتے، اور ربوہ والے بھی ۔ پھر اس میں مقدمہ بازی ہوگی اور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک جائیں گے کہ جناب! یہ جو Definition (تعریف) کی ہے۔ ہم بھی اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیسے ایمان رکھتے ہو اور وہ جو نو (۹) دن اٹارنی جنرل صاحب کے سوالوں کے جواب آئے ہیں، پتہ نہیں دو مہینے 2660ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن میں وہ جرح ہوتی رہے گی۔ تمام کتابیں ’’براہین احمدیہ‘‘ سے لے کر ’’انجام آتھم‘‘ تک پھر وہ وہاں پڑھی جائیں گی عدالتوں میں۔ جب ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے سامنے سب چیز ہے تو اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔ دیکھئے! اب جب بات سامنے آگئی اور یہ واضح ہوگیا کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، اب جو ان کو مانتے ہیں۔ ٹھیک ہے، وہ مسلمان نہیں ہیں خواہ وہ ان کو مجدد مانیں۔ یہ تو سردار شوکت حیات صاحب کے متعلق صرف یہ عرض ہے کہ اس میں صرف وہ چیز نہیں آئی جس کا یہ خدشہ ہے کہ بعد میں جھگڑا پیدا ہوگا۔ وہ میں عرض کر چکا ہوں۔
اس کے بعد جناب! میں تھوڑا سا وقت لوں گا۔کیونکہ چند باتوں کا ذکر کرنا ہے جو میرے ریزولیوشن میں ہے۔ اس میں پہلے تو یہی ہے کہ جناب! امنڈمنٹ آف کانسٹیٹیوشن اس میں میں نے لکھا ہے کہ امنڈمنٹ آف دی کانسٹیٹیوشن۔ یہ آرٹیکل نمبر۲ ہے جناب! سٹیٹ ریلجن:
After Article:2, the following explanation should be added:
"Explanation: 'Islam' in this Article and wherever this word is used in the Constitution means the religion which comprises the following essential ingredients and article of belief, namely, Unity and Oneness of Almighty Allah, the Books of Allah, Holy Quran being the last of them, the Prophethood of Mohammad (peace be upon him) as the last of the Prophets, and that there can be no Prophet after him, the Day of Judgement, and the requirements and teachings of the Holy Quran and Sunnah."
(آرٹیکل نمبر۲ کے بعد حسب ذیل وضاحت کا اضافہ کر دیا جائے: ’’وضاحت: اس آرٹیکل میں اور آئین میں جہاں کہیں بھی لفظ ’اسلام‘ استعمال کیاگیا ہے۔ اس سے مراد وہ مذہب ہے جو مندرجہ ذیل لازمی اجزاء اور عقائد پر مشتمل ہو۔ یعنی اﷲتعالیٰ کی وحدانیت اور توحید، اﷲ کی کتابوں پر ایمان، قرآن پاک پر بطور آخری الہامی کتاب کے ایمان، حضرت محمد ﷺ کی نبوت اور ان کے آخری نبی ہونے پر ایمان اور اس پر ایمان کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ قیامت کے دن پر ایمان اور قرآن پاک اور سنت کی تعلیمات وضروریات پر ایمان۔‘‘)
یہ دوسرا اس کا حصہ ہے:
"Definition of the word 'Muslim' should be included in Article 260. This definition should be in terms contained in the relevant part of the oath of office in respect of the President and the Prime Minister."
(’’آرٹیکل۲۶۰ میں لفظ ’مسلمان‘ کی تعریف شامل کی جانی چاہئے۔ یہ تعریف صدر اور وزیراعظم کے عہدوں کے حلف کے متعلقہ حصوں کے مطابق ہونی چاہئے۔‘‘)
2661آرٹیکل نمبر۲۶۰ ہے، اس میں عام Definitions (تعریفات) ہیں۔ یہ میں نے اس میں لکھا ہے۔ لیکن میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ میں سوچتا رہا ہوں۔ اس میں وہ ذکر نہیں ہے جو میں کہہ چکا ہوں۔ لیکن یہ آخر ساری کارروائی ہوتی رہی۔ اس سے بھی ہم نے استفادہ کرنا تھا تو اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ ناکافی ہے اور وہ چیز لازماً اس میں نہیں آتی تو کسی اور قانون میں کسی اور شکل میں، لیکن وہ آجانی چاہئے لازماً۔ تاکہ معاملہ کی وضاحت ہو جائے جو میں نے تجویز کیا ہے۔ اس سے وضاحت نہیں ہوتی۔ اس طرح دوسری چیز ہے امنڈمنٹ آف جنرل کلاز ایکٹ تو اس میں بھی یہ ہے کہ لفظ ’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے متعلق جنرل کلاز ایکٹ میں لکھ دیا جائے کہ:
In the General Clauses Act, wherever these words are used, they should have the meaning as written in this Article of the Constitution.
(جنرل کلاز ایکٹ میں، جب یہ الفاظ استعمال کئے جائیں تو ان کا مفہوم وہ ہوگا جو آئین کے اس آرٹیکل میں تحریر ہے)
’’مسلمان‘‘ کا لفظ بھی آیا ہے۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ بات نہیں۔ میرے خیال میں Muslim Waqf Validating Act (مسلم وقف ویلیڈیٹنگ ایکٹ) میں۔ اس طرح کے بہرحال الفاظ ہیں۔ اب میں آتا ہوں میرے نزدیک جس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ تجویز آپ منظور کر لیں تو شاید بہت سی اور تجویزیں غیرضروری ہو جائیں۔ بہرحال ان کی اہمیت بہت کم رہ جائے اور وہ ہے، میں پڑھ کر سنادیتا ہوں، وہ تیسری تجویز ہے:
"The Property and assets of these organizations, that is, the Rabwa and the Lahori group- the two sects- should be taken over by the Auqaf Department. If it is necessary for this purpose, the enactment dealing with the subject can be amended or new legislative measure can be taken. It is further proposed that this trust should be managed by a serving or a retired judge of the Supreme Court, who should be assisted by the Advisory Committee in which both the groups of the 2662Ahmedia community should be given representation."
(’’اوقاف کو ان تنظیموں یعنی ربوہ اور لاہوری گروپ، دونوں گروہوں کی جائیداد اور اثاثہ جات کو اپنی تحویل میں لے لینا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ قانون میں ترمیم کی جائے یا نئے قانونی اقدامات کئے جائیں۔ مزید برآں یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ اس ٹرسٹ کا انتظام سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج چلائیں اور ایک مشاورتی کمیٹی جس میں احمدیہ کمیونٹی کے دونوں گروہوں کی نمائندگی ہو، اس جج کی معاونت کرے۔‘‘)