• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی ( انیسواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(اجماع)

اب میں قراردادوں پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بات پر تو اب اجماع (Consensus) ہے کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد جو آدمی کسی نبوت پر ایمان رکھتا ہو، کسی آدمی کو نبی مانتا ہو، وہ مسلمان نہیں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے یہ اب 2650اجماع نہیں ہوا، بلکہ یہ آئین میں ہی ہوچکا تھا۔ کیونکہ آئین میں صرف دو عہدوں کے لئے ہم نے کہا ہے کہ ان کے لئے مسلمان ہونا لازمی ہے، اور ان دونوں عہدوں کے لئے حلف وہ تجویز کیا ہے جس میں یہ وضاحت ہوگئی ہے۔ وہ حلف اٹھا کر کہے کہ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ گویا براہ راست نہیں تو بالواسطہ (Indirectly) ہم نے مسلمان کی تعریف پہلے ہی آئین میں دی ہوئی ہے۔ اب صرف یہ ہے کہ جو فیصلہ ہم آئین میں کر چکے ہیں اس کی مزید وضاحت کر دی جائے، جب کہ ابھی وہ دو عہدوں کے متعلق ہے، اس کو عمومی شکل دے دی جائے کہ جہاں کہیں ’’مسلمان‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور آئین میں تو خیر کسی عہدے کے لئے ضروری نہیں ہے۔ لیکن اور عام قوانین میں، مثلاً مسلم فیملی لاز آرڈیننس ہے، وراثت کا عام قانون ہے، بلکہ اگر فقہ کو توسیع دینی ہے، تو اس میں شفعہ کا قانون بھی آئے گا، یہ سارے آئیں گے۔ کیونکہ اسلامی قانون میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے حقوق میں ایک امتیاز رکھا گیا ہے۔ ان کے باہمی تنازعات میں خاص قواعد مقرر ہیں۔ اگر ان کو جب نافذ کرنا ہوگا تو پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ کوئی شخص مسلمان ہے یا نہیں۔ اب یہ کہ ایک شخص مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو کیوں اس کو مسلمان نہ سمجھا جائے۔ بظاہر یہ بات بھی ہمارے تعلیم یافتہ بعض آدمیوں کو بڑی اپیل کرتی ہے کہ ٹھیک ہے صاحب! گزارش اس میں یہ ہے کہ ہماری کوئی تعریف ایسی نہیں کہ کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو ہم اس کو اس بات سے روکیں کہ وہ یہ نہ کہہ سکے کہ میں مسلمان ہوں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایک شخص مثلاً زید کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ اس کا بکر کے ساتھ ایک تنازعہ ہے، مثلاً وراثت کا تنازعہ ہے۔ بکر انکار کرتا ہے۔ زید کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ یہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد نبی کو مانتا ہے۔ اس لئے مسلمان نہیں ہے۔ اب یہ زید کا تنہا ذاتی معاملہ نہیں، یہ 2651دوسرے کے ساتھ تنازعہ کا معاملہ ہے۔ وراثت کا معاملہ ہے۔ شفعہ کا معاملہ ہے اور قوانین کے متعلق معاملہ ہے۔ اس میں پھر اس آدمی کا فیصلہ قطعی نہیں ہوتا۔ معاملہ عام طور پر عدالتوں میں جاتا تھا۔ لیکن ہم عدالتوں میں لے جانے کی بجائے قانون میں یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ عدالتیں تو قانون کی تعبیر کرتی ہیں۔ اس لئے قرارداد میں ایک تجویز، جو میں پڑھ کر سناتا ہوں، یہ ہے کہ آئین میں جس اصول کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ اس کی وضاحت کر دی جائے اور اس کو وسعت دے دی جائے، اپنے اطلاق کے لحاظ سے، اور وہ تمام قوانین پر حاوی ہو کہ جہاں کہیں ’’مسلمان‘‘ کا لفظ، اب استعمال ہوا ہے یا آئندہ جو قوانین ہم بنائیں گے، کیونکہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ فقہ کے اثر کی توسیع کرنی ہے، زیادہ سے زیادہ معاملات پر حاوی کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ زیادہ قوانین میں مسلمان کی وہ شرط آئے گی۔ تو ہر جگہ یہ سمجھا جائے کہ جو آدمی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا، وہ مسلمان نہیں ہے۔ لیکن یہاں جناب! اب ایک اور معاملہ پیش آگیا ہے۔ پھر یہ پیچیدگی حاصل کر گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم نے کہا حلف، اور تجویز اب یہ ہے کہ حلف کے مطابق ہی عام Definition (تعریف) کر دی جائے۔ لیکن حلف میں یہ لکھا ہے کہ وہ شخص جو ختم نبوت پر یقین رکھتا ہو اور یہ کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ تو یہاں ایک تو آپ کے سامنے شہادت آئی ہے، بیان آئے ہیں۔ اس سے یہ بات نکلی کہ کم ازکم لاہوری جماعت والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مرزاغلام احمد کو نبی نہیں مانتے۔ بلکہ مرزاغلام احمد نے نبوت کا دعویٰ ہی نہیں کیا۔ بلکہ اس حد تک کہا ہے کہ جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے وہ لعنتی ہے۔ تو اس حلف کے مطابق بھی لاہوری جماعت والے تو پھر دائرہ اسلام سے خارج متصور نہیں ہوتے، وہ مسلمان ہی سمجھے جائیں گے، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی نہیں مانتے اور خود ربوہ والوں کا معاملہ بھی اب پیچیدہ صورت میں ہے۔ کیونکہ اگر الفاظ یہ ہیں کہ ختم نبوت 2652میں ایمان رکھتا ہوں اور یہ کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد نبی نہیں آئے گا۔ اب ذہنی تحفظ کے ساتھ، Mental reservation (ذہنی تحفظ) جو ہوتی ہے، وہ ہوسکتا ہے کہ ربوہ والا احمدی بھی حلف اٹھالے، یا عدالت میں معاملہ جائے تو وہ کہے کہ جناب! یہاں لکھا ہے کہ نبی نہیں آسکتا، تو اس سے تو مراد، جو حوالے سارے پیش ہوئے ہیں، نبی سے مراد تو ہمیشہ نیا نبی ہوتا ہے۔ جدید شریعت والا نبی ہوتا ہے۔ جو مستقل نبی ہو وہ ہوتا ہے۔ تو پھر بھی معاملہ تشریح طلب رہ جاتا ہے تو میں نے دیکھا ہے کہ گو میری اپنی قرارداد میں یہ بات نہیں تھی۔ لیکن یہاں جو بیان ہوا ہے اور جرح ہوئی ہے، اس سے میں نے یہ تاثر لیا ہے کہ غالباً جو اپوزیشن کے بعض ممبروں کی طرف سے قرارداد میں یہ بات آئی ہے کہ مرزاغلام احمد صاحب کے متعلق واضح طور پر یہ کہہ دیا جائے کہ ان کے ماننے والے مسلمان نہیں ہیں۔ ویسے یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم ایک شخص کا نام لکھیں۔ لیکن پھر کیا کریں۔ ہمارا مسئلہ ہی ایسا ہے کہ یہاں ایک شخص نے دعویٰ کیا، کچھ دعویٰ کیا اور صورت یہ پیدا ہوئی کہ اس دعویٰ کے بعد پچاس ساٹھ سال گزرنے کے باوجود اس کے ماننے والے اب تک یہ طے نہیں کر سکے کہ ان کا دعویٰ کیا تھا۔ بلکہ اس ضمن میں علامہ اقبال کا ردعمل بڑا مناسب ہوگا۔ انہوں نے پہلی دفعہ کہا تھا، یہاں بیان بھی کیا گیا ہے کہ انہوں نے مرزاغلام احمد کی تعریف کی تھی۔ وہ ٹھیک ہے۔ ۱۹۱۱ء میں انہوں نے کہا تھا۔ بعد میں شدید مخالف ہوگئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ پنڈت نہرو سے ان کا ایک مناظرہ چل نکلا۔ انہوں نے دو تین مضامین لکھے۔ پھر کسی نے سوال کیا کہ آپ نے پہلے تو ان کی اتنی تعریف کی تھی اور اب آپ ان کے مخالف ہوگئے ہیں۔ ویسے انہوں نے بہت مفصل جواب دیا ہے۔ لیکن اس ضمن میں اپنی پوزیشن کی وضاحت کے لئے انہوں نے یہ جواب دیا تھا کہ بھائی دیکھو! میں انسان ہوں۔ میں اپنی 2653رائے تبدیل کر سکتا ہوں، اور اس تحریک کے جو نتائج ہونے تھے اور اس کے بانی کے جو دعاوی تھے، اس وقت اس کے متعلق میرا پورا علم نہ تھا۔ پھر انہوں نے کہا کہ دیکھو! میں ایک Outsider (جماعت احمدیہ سے باہر ایک فرد) ہوں۔ تو مجھے کیسے پتا چل سکتا تھا۔ جب کہ خود ان کے ماننے والے آج تک جھگڑ رہے ہیں کہ انہوں نے (کیا) دعویٰ کیا تھا۔ لیکن اب ہمارے سامنے بہت میٹریل آچکا ہے اور اس میٹریل کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں، یعنی اس کا فیصلہ کرنے کے قابل ہیں کہ خواہ یہ کچھ دعویٰ کرتے رہیں، لاہوری جماعت والے اور ربوہ والے، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ مرزاغلام احمد نے نبوت کا دعویٰ ضرور کیا ہے اور اب اس کی کوئی تاویل کر دی جائے، خواہ نبوت کسی تاویل کے ساتھ ہو، خواہ کسی رنگ میں ہو، خواہ وہ ظلی ہو، بروزی ہو، غیرمستقل ہو، غیرتشریعی ہو، جس طرح بھی ہو، امتی ہو، اس کو عقیدۂ ختم نبوت کے منافی سمجھتے ہیں اور ہم ہیں عوام کے نمائندے۔ پاکستان کے عوام اس بات میں کوئی تمیز نہیں کرتے۔ وہ اس بات کو سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ مرزاغلام احمد صاحب محدث تھے اور محدث ہیں تو جائز ہیں یا مجدد تھے۔ کیونکہ آپ کے سامنے تو سارا میٹریل آچکا ہے۔ اصل بات یہ ہے، میں نے تو کچھ مطالعہ بھی کیا ہوا ہے، وہ ٹھیک ہے، انکار بھی کرتے رہے ہیں نبوت سے اور پھر دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں۔ مقاصد ان کے سامنے دو تھے اور وہ ایک دوسرے کی ضد تھے۔ ایک طرف وہ چاہتے تھے کہ مستقل بنیاد پر اپنی ایک جماعت قائم کر لیں، اور جس مشن کو مرزامحمود احمد نے بہت آگے بڑھایا، علیحدہ جماعت قائم کر دیں۔ جس کا تعلق ان کے مریدوں کا ان کے ساتھ ایسا ہو کہ جو نبی کے ساتھ ان کے پیروؤں کا ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ یہ چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے لئے نبی کا لفظ استعمال کیا، باربار کیا۔ لیکن پھر ساتھ ہی عوام میں مخالفت بڑھ گئی۔ علماء سارے ان کے خلاف ہوگئے۔ کہیں جا نہیں سکتے تھے۔ سفر نہیںکر سکتے تھے تو پھر لوگوں سے ڈر 2654کر انہوں نے کہا کہ جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے اسے محدث سمجھ لیں۔ یہ نہیں کہ اس کو کاٹ کر وہ کر دیں۔ اس کو کٹا ہوا سمجھیں۔ یعنی رہے وہی کتاب میں، نبی رہے، لیکن سمجھا جائے کہ محدث ہے۔ لیکن اس کے بعد پھر نبی کا دعویٰ کیا، پھر نبی اپنے متعلق لکھا۔ تو دو مقاصد تھے اور ویسے عجیب بات ہے مسلمانوں کی اس کم علمی کی کہ وہ ان دونوں مقاصد میں ایک حد تک کامیاب ہوگئے اور اس ضمن میں بڑی دلچسپ بات میرے خیال میں وہ میاں عبدالمنان صاحب نے کہی کہ وہ بعض لوگوں کو غلط فہمی لگتی تھی، بعض کو نہیں لگتی تھی۔ تو انہوں نے دونوں کو تسلی دینے کے لئے جن کو غلط فہمی ہوتی تھی ان کو کہا کہ ان کو سمجھا جائے کہ وہ نبی نہیں ہیں، جن کو نہیں ہوتی وہ نبی سمجھتے رہیں۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں یہ تو ایک مناظرہ ہے ان کے درمیان۔ ہمارے پاس میں سمجھتا ہوں جتنا مواد آچکا ہے اور بات اتنی واضح ہوگئی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کے عام مسلمان ان میں کوئی تفریق نہیں کرتے، لاہوری جماعت اور ربوہ والی جماعت میں، تو اس مواد کی بنیاد پر جو ہمارے سامنے پیش ہوا ہے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے عام مسلمان درست کہتے ہیں۔ لیکن اب اس کو ہم کیسے کہیں کہ لاہوری جماعت سے تعلق ہے تو اس کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں یہ چیز آرہی ہے ان قراردادوں میں کہ میں کسی نبی کو نہیں مانتا تو ایک مرزاغلام احمد صاحب کا نام بھی لکھا جاسکتا ہے۔ اب بات اس میں بڑی اصل میں سنگین ہوجاتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک کوئی ولی اﷲ یا پیر ہونے کا مدعی ہو تو ٹھیک ہے، کوئی اس کو مان لیتا ہے، کوئی اس کو نہیں مانتا۔ لیکن جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے وہ ایک بہت سنگین، شدید معاملہ ہے۔
اس ضمن میں جناب! میں ایک اور بات عرض کروں گا۔ وہ میرے ذہن میں تھی ابتداء میں کہنے کی، لیکن پھر بھول گیا ہوں کہ ایک پروپیگنڈہ یہ بھی ہورہا ہے کہ اگر اس 2655طریقے پر آپ مذہبی امور کے فیصلے کرنے شروع کر دیں گے تو ایک فتنے کے بہت سے دروازے کھول دیں گے۔ مثلاً کہا جارہا ہے کہ اگر احمدیوں کے خلاف یہ کارروائی کی گئی تو پھر مثلاً شیعہ جو ہیں، یہاں اقلیت میں ہیں۔ پھر ان کے خلاف ہو گا۔ اہل حدیث کے خلاف ہوگا۔ یہاں کچھ اہل قرآن بھی ہیں اور احمدیہ جماعت کی طرح سے خاص طور پر اسماعیلی فرقے والے ہیں۔ ان کی طرف سے اس بات پر زور دیاگیا ہے۔ انہوں نے بہت ہی دل آزار قسم کا… میرا دل تو بہت ہی دکھا ہے کہ انہوں نے وہ حوالے پیش کئے ہیں کہ جناب فلاں شیعہ عالم نے سنیوں کے متعلق یہ لکھا ہے، سنیوں نے شیعوں کے متعلق یہ لکھا ہے۔ اہل حدیث نے دوسروں کے متعلق یہ لکھا ہے۔ وہ یہاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ یہاںمختلف مکتب فکر کے لوگ موجود ہیں۔ لیکن ان کا پوائنٹ یہ تھا کہ ایک تو یہ کہ یہ اختلافات تو موجود ہیں۔ پہلے تو، ہمارا بھی ایک اختلاف ہے اور دوسرا ایک اور خوف پیدا کرنا چاہتے تھے ملک میں، کہ اگر ایک دفعہ احمدیوں کے خلاف یہ کارروائی ہوئی تو پھر کسی کو اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھنا چاہئے۔ پھر دوسرے ہر فرقے کے خلاف ہوگا تو اس ضمن میں جناب! یہ گزارش کروں گا کہ یہ بات بھی غلط ہے۔ آخر دیکھئے کہ کیا وجہ ہے کہ کہتے ہیں ۷۲فرقے ہیں۔ میں نہیں جانتا ۷۲ہیں۔ شاید کم ہوں یا زیادہ ہوں۔ لیکن یہ اختلاف کی صورت جو احمدی جماعت کے متعلق پاکستان میں مسلمانوں کی باہمی ایک ایسی صورت ہے کہ جس میں Co- Exist (وہ اکٹھے نہیں رہ سکتے) نہیں کر سکتے۔ پولیٹکلی اور مذہبی یا اور لوگوں کے درمیان کیوں پیدا نہیںہوئی، شیعوں کی اور سنیوں کی کیوں پیدا نہیں ہوئی باوجود بہت بڑے اختلاف کے اور یہاں جناب! میں یہ عرض کروں گا کہ اگر ظاہری چیز کو دیکھا جائے تو اس میں اب جناب! احمدی ہیں۔ یہ حنفی فقہ کو اپناتے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ہم حنفی فقہ کو مانتے ہیں۔ نماز حنفی طریقے سے پڑھتے ہیں، 2656روزہ بھی اسی طریقے پر، زکوٰۃ کے اسی طریقے پر قائل ہیں، حج بھی کرتے ہیں بعض، چلئے ٹھیک ہے۔ تو شیعوں کے بہت اختلافات ہیں۔ نماز کے طریقے میں۔ بلکہ مجھے تجربہ ہوا کہ روزہ بھی وہ کچھ درمیان میں وقت کا فرق ہے، بعد میں افطار کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ بہت اختلاف ہیں خلافت کے متعلق۔ تو یہ کیا وجہ ہے۔ جناب! اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ختم نبوت کے اختلاف کو سارے عرصے میں ۱۴سوسال میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے، اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں دوسرے اختلافات سے، اس لئے کہ نبی اور نبوت یہ مذہبی اصطلاح کا لفظ ہے، یہاں لغت کا معنی نہیں ہے جیسے کہ یہاں کہاگیا۔ جناب! کہ مولانا روم نے یہ کہا کہ اس کے لغوی معنی یہ ہیں۔ وہ نہیں ہے۔ یہ ٹیکنیکل، اصطلاحی چیز ہے۔ مذہبی اصطلاح میں، اور اہل کتاب جو ہیں ان کا جہاں نبوت کا ذکر ہے نبوت سے ہمیشہ یہ مراد لی گئی کہ کوئی آدمی جب ایک دعویٰ کرتاہے وحی کا، لیکن وہ تنہا وحی کا دعویٰ نہیں، اس وحی کے دعوے کی بنیاد پر اس کی علیحدہ جماعت قائم ہو جاتی ہے۔ اس کو ہمیشہ نبی کی امت کہاگیا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے جتنے اختلافات ہیں وہ اور نوعیت کے ہیں۔ اس لئے میں کہتا ہوں جناب! کہ اس میں بالکل ڈرنا نہیں چاہئے۔ یہ خوف بھی نہیں ہونا چاہئے کہ یہ ایک فتنے کا دروازہ کھل جائے گا۔ نبوت کا مسئلہ ہی اور ہے، اور وہ اختلافات جو ہیں وہ بالکل علیحدہ ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی سوسائٹی بڑی لبرل سوسائٹی ہے۔ مسلمان بہت لبرل ہیں۔ انہوں نے یہ تمام اختلافات دیکھے۔ ۱۴سوسال میں کون کون سا فرقہ پیدا نہیں ہوا۔ اب ان کے جو اختلافات ہیں ان میں میں نہیں جاتا۔ لیکن اتنے شدید اختلافات ہوئے اور فرقے پیدا ہوئے۔ لیکن کہیں یہ تحریک نہیں چلی کسی سوسائٹی میں کہ فلاں جو ہیں ان کو غیرمسلم قرار دیا جائے۔ ان کو کیوں غیرمسلم قرار دے دیں؟ وہی نبوت کا معاملہ ہے۔ اگر 2657نبوت کا دعویٰ نہ ہوتا مرزاغلام احمد صاحب کا اور وہ مذہبی راہنما ہوتے اور بہت اختلافات ان کے پیدا ہو جاتے، نماز، روزے میں بھی ہوتے۔ سب چیزوں میں بھی ہوتے، پھر یہ صورت پیدا نہ ہوتی۔ مثلاً جناب! میں یہ عرض کروں گا کہ یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی Reactionary (رجعت پسند) بات ہے۔ عیسائیوں کی مثال آپ دیکھیں، عیسائیوں کا بھی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ نے دوبارہ آنا ہے۔ یہ مشترکہ ہے مسلمانوں کا اور عیسائیوں کا کہ انہوں نے دوبارہ آنا ہے۔ فرض کیجئے اور اختلافات عیسائیوں میں بھی ہیں۔ بہت فرقے ہیں۔ بڑے جو مشہور ہیں رومن کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کو تو آپ لوگ جانتے ہیں اور بھی بہت سے ہیں۔ لیکن کوئی یہ نہیں کہتا دوسرے فرقے کے متعلق کہ یہ عیسائی نہیں ہیں۔ لیکن فرض کیجئے کہ ایک شخص اٹھتا ہے، پیدا ہوتا ہے عیسائیوں میں اور عیسائیوں کا جو عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ نے دوبارہ آنا ہے، وہ کہتا ہے کہ میں آگیا ہوں، میں وہی عیسیٰ ہوں اور عیسائیوں میںایک آدمی اس کو مان لیتا ہے اور مجھے یقین ہے جناب! کہ وہ بڑے لبرل ہونے کے باوجود تمام دنیا کے عیسائی اس بات پر متحد ہو جائیں گے کہ جو لوگ اس کو مانتے ہیں حضرت عیسیٰ۔ وہ عیسائی نہیں ہیں اور ظاہر ہے کہ جو اس کو ماننے والے ہوں گے اس حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد پر ایمان رکھتے ہوں گے اور سمجھتے ہیں کہ وہ وہی عیسیٰ ہے وہ دوسرے عیسائیوں کو عیسائی نہیں سمجھیں گے۔ یعنی جو یہاں کہاگیا ہے جناب! کہ احمدی ہمیں کافر سمجھتے ہیں تو اس میں تو میں سمجھتا ہوں بالکل انصاف کی بات ہے، معقولیت کی بات ہے، کہ اگر واقعی نبی آگیا ہے، مسیح موعود آگئے ہیں، مہدی جو ہیں ان کا ظہور ہوگیا ہے، اور وہ مرزاغلام احمد کی ذات میں ہے تو جو لوگ ان کو مانتے ہیں تو پھر وہی مسلمان ہوسکتے ہیں۔ باقی کیسے مسلمان ہوں گے؟ ایک نبی آگیا ہے، پہلے سے اس کی بشارت موجود ہے، قرآن وحدیث اس کی تائید کرتے ہیں، مسلمانوں کا 2658اجماع ہے اور پھر جو نبی کو نہیں مانتے وہ تو ظاہر ہے مسلمان نہیں ہوں گے تو یہ اختلاف جو ہے میں نے عرض یہ کیا ہے کہ اختلاف جو ہے یہ اپنی نوعیت کا ہے اور اس کا مقابلہ دوسرے اختلاف سے نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جناب! اگر ہم اس کا فیصلہ کریں گے، احمدیوں کا فیصلہ کریں گے، تو باقی فرقوں کے متعلق بھی ہوگا۔ مجھے یقین ہے کوئی مطالبہ پاکستان میں کسی فرقے کے خلاف پیدا نہیں ہوگا۔
تو اب جناب! میں چند الفاظ عرض کرتاہوں۔ ایک یہ پہلا ریزولیوشن، قرارداد ہے جناب! جس پر ۳۷اراکین کے دستخط ہیں۔ تو تمہید میں تو خیر مرزاغلام احمد کے متعلق وہ ساری بات ٹھیک ہے۔ "Where as this is established...." (’’اب جب کہ یہ بات طے ہوچکی ہے…‘‘) لیکن آخر میں جو تجویز ہے معین وہ یہ ہے کہ: "Now this Assembly do proceed to that the followers of Mirza Ghulam Ahmad by whatever name they are called are not Muslims and that an official Bill be moved in the National Assembly to make necessary amendment." (’’اب اسی اسمبلی کے مطابق مرزاغلام احمد کے پیروکار خواہ وہ کسی بھی نام سے پکارے جاتے ہوں مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں باضابطہ طور پر ایک بل پیش کیا جائے تاکہ ضروری ترمیم کی جاسکے۔‘‘)
تو مطلب یہ جناب! کہ یہ کہتے ہیں کہ اس میں یہ وضاحت چاہتے ہیں۔ یعنی ایک وضاحت تو ہوتی ہے اصولی لحاظ سے، بلکہ آج ہی میں ایک دوست سے بات کر رہا تھا تو وہ کہتا تھا کہ اس میں نام کیوں لیتے ہیں اور نبی بھی پیدا ہوں گے۔ میں نے کہا کہ اس کا خطرہ نہ کرو۔ ایک ممبر صاحب ہی کہہ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ چودہ سو سال میں کتنے نبی پیدا ہوئے ہیں۔ نبوت کے مدعی؟ ہم نے تو ایک ان کا نام سنا ہے اور ایک ذکر کیا تھا مسیلمہ کذاب کا، انہوں نے کہا تھا تو میں نے کہا کہ یہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں اب بہرحال مرزاغلام احمد صاحب کی تاریخ سے جو نتائج پیدا ہوئے ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے نبوت کا دعویٰ کوئی نہیں کرے گا۔ بہرحال یہ تو ڈرافٹنگ کا 2659معاملہ علیحدہ ہے۔ کس چیز میں کیا جائے۔ آئین میں آئے، کسی قانون میں آئے، وہ اور معاملے ہیں۔ وہ ٹیکنیکل باتیں ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوںکہ اصولاً اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کسی نہ کسی شکل میں ہمیں یہ بات واضح طور پر کرنی چاہئے اور معاملہ ادھورا نہیں چھوڑنا چاہئے اور وہ واضح طور پر اس طرح ہوسکتا ہے کہ یہ وضاحت قانون کے ذریعہ کر دی جائے کہ بہرحال جو نبی کو مانتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے، کسی دوسرے نبی کو۔ لیکن مرزاغلام احمد نے بہرحال نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو اس کے دعوے کو غلط سمجھ کر یا غلط اس کی تاویل کر کے دانستہ یا نادانستہ کوئی ان کو مانتا ہے کسی منصب پر تو وہ بھی مسلمان نہیں ہے۔
اس کے بعد جناب! یہ سردار شوکت حیات صاحب کا ایک تھا۔ اس میں یہ ہے کہ یہ Intrepreation (تعبیر) شامل کی جائے کانسٹیٹیوشن میں:
"Any person or sect that does not subscribe to and believe in the Unity and Oneness of Almighty, the Books of Allah, the Holy Quran being the last of them, Prophethood of Mohammad (peace be upon him) as the last of the Prophets and that there can be no Prophet after him, the Day of Judgement, and the requirements and teachings of the Holy Quran and Sunnah, shall be considered to fall outside the pale of Islam and shall be considered to be a member of a minority community."
(’’ہر وہ شخص یا گروہ جو اﷲتعالیٰ کی وحدانیت، اﷲتعالیٰ کی کتاب قرآن مجید بطور آخری الہامی کتاب، حضرت محمد ﷺ کی نبوت اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، قیامت کے دن قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ کی تعلیمات اور ضروریات پر ایمان نہیں رکھتے۔ دائرہ اسلام سے خارج اور اقلیتی کمیونٹی کا فرد سمجھا جائے گا۔‘‘)
تو دائرہ اسلام سے خارج ہے تو اس کے متعلق میں وہی عرض کروں گا کہ اصولی طور پر بات وہی ہے جو حلف میں آئی ہے۔ لیکن پھر جھگڑا رہ جاتا ہے اس میں۔ ایک تو میں نے لاہوری جماعت والا ذکر کیا ہے۔ وہ تو بہرحال اس میں نہیں آتے، اور ربوہ والے بھی ۔ پھر اس میں مقدمہ بازی ہوگی اور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک جائیں گے کہ جناب! یہ جو Definition (تعریف) کی ہے۔ ہم بھی اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیسے ایمان رکھتے ہو اور وہ جو نو (۹) دن اٹارنی جنرل صاحب کے سوالوں کے جواب آئے ہیں، پتہ نہیں دو مہینے 2660ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن میں وہ جرح ہوتی رہے گی۔ تمام کتابیں ’’براہین احمدیہ‘‘ سے لے کر ’’انجام آتھم‘‘ تک پھر وہ وہاں پڑھی جائیں گی عدالتوں میں۔ جب ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے سامنے سب چیز ہے تو اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔ دیکھئے! اب جب بات سامنے آگئی اور یہ واضح ہوگیا کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، اب جو ان کو مانتے ہیں۔ ٹھیک ہے، وہ مسلمان نہیں ہیں خواہ وہ ان کو مجدد مانیں۔ یہ تو سردار شوکت حیات صاحب کے متعلق صرف یہ عرض ہے کہ اس میں صرف وہ چیز نہیں آئی جس کا یہ خدشہ ہے کہ بعد میں جھگڑا پیدا ہوگا۔ وہ میں عرض کر چکا ہوں۔
اس کے بعد جناب! میں تھوڑا سا وقت لوں گا۔کیونکہ چند باتوں کا ذکر کرنا ہے جو میرے ریزولیوشن میں ہے۔ اس میں پہلے تو یہی ہے کہ جناب! امنڈمنٹ آف کانسٹیٹیوشن اس میں میں نے لکھا ہے کہ امنڈمنٹ آف دی کانسٹیٹیوشن۔ یہ آرٹیکل نمبر۲ ہے جناب! سٹیٹ ریلجن:
After Article:2, the following explanation should be added:
"Explanation: 'Islam' in this Article and wherever this word is used in the Constitution means the religion which comprises the following essential ingredients and article of belief, namely, Unity and Oneness of Almighty Allah, the Books of Allah, Holy Quran being the last of them, the Prophethood of Mohammad (peace be upon him) as the last of the Prophets, and that there can be no Prophet after him, the Day of Judgement, and the requirements and teachings of the Holy Quran and Sunnah."
(آرٹیکل نمبر۲ کے بعد حسب ذیل وضاحت کا اضافہ کر دیا جائے: ’’وضاحت: اس آرٹیکل میں اور آئین میں جہاں کہیں بھی لفظ ’اسلام‘ استعمال کیاگیا ہے۔ اس سے مراد وہ مذہب ہے جو مندرجہ ذیل لازمی اجزاء اور عقائد پر مشتمل ہو۔ یعنی اﷲتعالیٰ کی وحدانیت اور توحید، اﷲ کی کتابوں پر ایمان، قرآن پاک پر بطور آخری الہامی کتاب کے ایمان، حضرت محمد ﷺ کی نبوت اور ان کے آخری نبی ہونے پر ایمان اور اس پر ایمان کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ قیامت کے دن پر ایمان اور قرآن پاک اور سنت کی تعلیمات وضروریات پر ایمان۔‘‘)
یہ دوسرا اس کا حصہ ہے:
"Definition of the word 'Muslim' should be included in Article 260. This definition should be in terms contained in the relevant part of the oath of office in respect of the President and the Prime Minister."
(’’آرٹیکل۲۶۰ میں لفظ ’مسلمان‘ کی تعریف شامل کی جانی چاہئے۔ یہ تعریف صدر اور وزیراعظم کے عہدوں کے حلف کے متعلقہ حصوں کے مطابق ہونی چاہئے۔‘‘)
2661آرٹیکل نمبر۲۶۰ ہے، اس میں عام Definitions (تعریفات) ہیں۔ یہ میں نے اس میں لکھا ہے۔ لیکن میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ میں سوچتا رہا ہوں۔ اس میں وہ ذکر نہیں ہے جو میں کہہ چکا ہوں۔ لیکن یہ آخر ساری کارروائی ہوتی رہی۔ اس سے بھی ہم نے استفادہ کرنا تھا تو اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ ناکافی ہے اور وہ چیز لازماً اس میں نہیں آتی تو کسی اور قانون میں کسی اور شکل میں، لیکن وہ آجانی چاہئے لازماً۔ تاکہ معاملہ کی وضاحت ہو جائے جو میں نے تجویز کیا ہے۔ اس سے وضاحت نہیں ہوتی۔ اس طرح دوسری چیز ہے امنڈمنٹ آف جنرل کلاز ایکٹ تو اس میں بھی یہ ہے کہ لفظ ’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے متعلق جنرل کلاز ایکٹ میں لکھ دیا جائے کہ:
In the General Clauses Act, wherever these words are used, they should have the meaning as written in this Article of the Constitution.
(جنرل کلاز ایکٹ میں، جب یہ الفاظ استعمال کئے جائیں تو ان کا مفہوم وہ ہوگا جو آئین کے اس آرٹیکل میں تحریر ہے)
’’مسلمان‘‘ کا لفظ بھی آیا ہے۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ بات نہیں۔ میرے خیال میں Muslim Waqf Validating Act (مسلم وقف ویلیڈیٹنگ ایکٹ) میں۔ اس طرح کے بہرحال الفاظ ہیں۔ اب میں آتا ہوں میرے نزدیک جس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ تجویز آپ منظور کر لیں تو شاید بہت سی اور تجویزیں غیرضروری ہو جائیں۔ بہرحال ان کی اہمیت بہت کم رہ جائے اور وہ ہے، میں پڑھ کر سنادیتا ہوں، وہ تیسری تجویز ہے:
"The Property and assets of these organizations, that is, the Rabwa and the Lahori group- the two sects- should be taken over by the Auqaf Department. If it is necessary for this purpose, the enactment dealing with the subject can be amended or new legislative measure can be taken. It is further proposed that this trust should be managed by a serving or a retired judge of the Supreme Court, who should be assisted by the Advisory Committee in which both the groups of the 2662Ahmedia community should be given representation."
(’’اوقاف کو ان تنظیموں یعنی ربوہ اور لاہوری گروپ، دونوں گروہوں کی جائیداد اور اثاثہ جات کو اپنی تحویل میں لے لینا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ قانون میں ترمیم کی جائے یا نئے قانونی اقدامات کئے جائیں۔ مزید برآں یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ اس ٹرسٹ کا انتظام سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج چلائیں اور ایک مشاورتی کمیٹی جس میں احمدیہ کمیونٹی کے دونوں گروہوں کی نمائندگی ہو، اس جج کی معاونت کرے۔‘‘)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی قیادت کے ہاتھوں قادیانی عوام کا استحصال)
تو اس میں جناب! ایسی بات ہے، میں عرض کرتا ہوں کہ اگر ان کا مؤقف مانا جائے، احمدیوں کا مؤقف، کیا کہتے ہیں کہ مقصد کیا ہے۔ مقصد کہتے ہیں اسلام کی تبلیغ، اب ہماری یہ اسلامی مملکت ہے۔ یعنی ان کا مؤقف اگر مان بھی لیا جائے، اسلامی مملکت ہے، تبلیغ کا جو فریضہ ہے یہ بھی مملکت اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے۔ بہت سے مذہبی امور مملکت نے اپنے اختیار میں لے لئے ہیں۔ بہت بڑا ادارہ ہے۔ کئی بڑے بڑے وقف جو پراپرٹی کے ہیں۔ وہ گورنمنٹ نے اپنی تحویل میں لے لئے ہیں۔ تو یہ کیوں کیا ہے اور ان سے یہ بہت تھوڑے مقاصد حاصل ہوئے ہیں مقابلتاً۔ یہ ایک بہت بڑا مقصد جو اس وقت پیش نظر ہے وہ تو یہ ہے کہ چلئے، اس کا انتظام پہلے سے بہت ہوگیا وقف کا۔ لیکن یہاں جو ٹرسٹ ہیں ان ٹرسٹوں کی بنیاد پر تو ایک ایسی تنظیم قائم ہے جس کے متعلق پاکستان کے عوام کا خیال یہ ہے کہ لوگوں کا ہے اور اس میں اس کے شواہد بھی ہیں اس کی تائید میں کہ وہ خطرناک تنظیم ہے۔ یہاں کسی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جارہا ہے۔ یہ نہیں کہا جارہا ہے کہ کوئی شخص احمدی نہ ہو سکے یا احمدی نہ کہلوائے یا مرزاغلام احمد کو جو چاہتا ہے مان لے لیکن ہم ذکر کر رہے ہیں ایک تنظیم کا، اور اس تنظیم کے اثاثے ہیں، اس کی پراپرٹی ہے۔ اس کی قیادت قائم ہے اور جناب میں یہ عرض کروں کہ آپ کو ہمیشہ ملحوظ رکھنی چاہئے یہ بات، عام احمدی کا معاملہ، اور جس کو کہتے ہیں وہ خاندان نبوت، اور اس کی قیادت، وہ معاملہ اور ہے۔ وہ استحصال کر رہے ہیں۔ جس کو کہتے ہیں عام احمدی، عوام کا، ان کو گمراہ کر کے اپنی تنظیم کے شکنجے میں پھنسا کر اور سارا پیسہ جو ہے وہ بیشتر جو ہے وہ اپنے پر خرچ کر رہے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ انہیں باہر مشنوں پر خرچ کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ رپورٹ وغیرہ پیش کر سکیں۔ لوگوں کے سامنے اور چندہ لیں۔ تو تجویز اس میں ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ ظلم نہیں، کیونکہ یہ اور وقف کے متعلق بھی ہوچکی 2663ہے۔ ہم اس پر عمل کر چکے ہیں۔ مسلمانوں کے وقف بھی اور غیرمسلم بھی اور بالفرض اگر کوئی قانون موجود نہیں ہے تو قانون تو بن سکتا ہے۔ خاص اس کے لئے بن سکتا ہے۔ ایک ایک نہر کے لئے اور اس کے لئے قانون بنے۔ ایک ایک ادارے کے لئے انگلینڈ میں بھی ایسے قانون بنے ہیں جو ایک خاص ادارے کے لئے ہیں اور یہاں بہت بڑا ملک کا مفاد جو ہے اس سے وابستہ ہے۔ لیکن یہ عرض کرتا ہوں، اگر آپ یہ کر دیں تو پھر بہت سے اور آپ کو خدشات ہیں کہ وفاداری اعلیٰ ملازمین کی جو ہیں وہ مخدوش ہے۔ وہ کیوں مخدوش ہے۔ اس لئے وہ مخدوش ہے کہ وہ اعلیٰ افسر ایک طرف تو اسٹیٹ کے ساتھ اس کی وفاداری ہے اور جو عہدہ اس کے سپرد ہے اس کے ساتھ وفاداری ہے۔ اس کے فرائض ہیں اور دوسری طرف خلیفہ سے اس کو ایسی عقیدت اور وہ تعلق ہے کہ مملکت کا کوئی راز بھی جو ہے وہ اس سے خفیہ نہیں رہ سکتا۔ اس بنیاد پر وہ دوسرے کی ناجائز رعایت کرتا ہے، اپنے فرقے کے لوگوں کی، یا اپنے مذہب کے ماننے والے لوگوں کی۔ جو مخالف ہیں ان سے ناجائز سلوک کرتا ہے۔ ساری چیز کی بنیاد جو ہے وہ وہاں کی قیادت ہے۔ قیادت کیونکر چل رہی ہے۔ لوگوں کے چندے پر جس سے جائیداد بنی ہے۔ جائیداد کو ختم کیجئے تو قیادت ختم ہو جائے گی۔ اس میں کوئی خطرہ نہ کریں کہ لوگ باہر کے کیا کہیں گے، کیونکہ یہ تو ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔ باہر ملکوں میں ٹرسٹ گورنمٹ Manage (سنبھالتی ہے) کرتی ہے۔ کئی ملک کر رہے ہیں، ہم خود کر رہے ہیں۔ میں اس کے متعلق عرض کروں گا کہ اس پر نہایت سنجیدگی سے غور کیا جائے اور اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
دوسری تجویز Foreign Influence (غیرملکی دباؤ) کے متعلق ہے۔
Foreign Influence: "Appropriate legislative and executive measures should be taken so that the danger of foreign 2664influence adversely affecting the interest of the State of Pakistan, arising out of the organization and membership of Ahmadia Missions in foreign countries, would be effectively safeguarded against."
(غیرملکی دباؤ: ’’بیرونی ممالک میں احمدیہ مشنز کی تنظیم اور ممبرشپ سے پیدا ہونے والی غیرملکی مداخلت سے جو پاکستان کی ریاست کے مفادات پر منفی انداز میں نظر انداز ہورہی ہے، مؤثر طریق پر نمٹنے کے لئے مناسب قانونی اور انتظامی اقدامات کئے جائیں۔‘‘)
اس میں آسان ہو جائے گا۔ آپ نے ایک Recommendation (تجویز دینی ہے) کرنی ہے۔ اقدام کیا کئے جائیں، وہ پھر سوچا جاتا ہے۔ مثلاً ایک واضح بات ہے کہ ذکر آیا ہے اسرائیل کے متعلق۔ تو وہ ممنوع ہونا چاہئے جو وہاں پر پیسہ ہے وہ بالواسطہ طور پر ان ممالک میں نہیں پہنچنا چاہئے جو ہمارے خلاف ہے۔ ہندوستان میں جیسے قادیان میں جماعت ہے اور یہ ربوہ والی جماعت ہے۔ ان کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ اس میں پابندی ہونی چاہئے اور چھان بین کرنی چاہئے کہ کس کس جگہ روپیہ اکٹھا ہوتا ہے۔ پھر کہاں پہنچتا ہے۔ پھر کن کن ذرائع سے دوسرے ملکوں میں پہنچتا ہے، اور کن چیزوں پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ میں نے ایک تجویز پیش کی ہے۔ اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔
دوسری ہے:
Provacative Literature: "Literature of the Ahmadia Movement which is of a provocative nature, or which is calculated to injure the basic religious beliefs and sentiments of Muslims or Christians should be proscribed the possession of such literature, its bringing into Pakistan and its circulation, whether it is an original writing or is quoted in any other published matter, should be made an offence.
To avoid chances of any unjust or unreasonable action, it is proposed that an appeal to the Supreme Court should be provided against any order of the Government made in this behalf."
(اشتعال انگیز لٹریچر: ’’احمدیہ تحریک کا ایسا لٹریچر ممنوع قرار دیا جائے جو اشتعال انگیز یا جو مسلمانوں یا عیسائیوں کے بنیادی مذہبی عقائد اور جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہو۔ ایسے لٹریچر کو رکھنا، اسے پاکستان لانا اور اسے پھیلانا خواہ یہ اصل تحریر میں ہو یا کسی اور شائع کردہ مواد میں اسے شامل کرنا، ان سب کو ایک جرم قرار دیا جائے۔
ناانصافی یا کسی غیرمناسب اقدام کے امکانات سے بچنے کے لئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ حکومت کے اس سلسلے میں کسی بھی حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق فراہم کیا جائے۔‘‘)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی تعلیمات اشتعال انگیز ہیں)

اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جناب! کے سامنے ممبران نے سن لیا ہے۔ کس قسم کی چیزیں ہیں وہاں۔ یعنی مخالفین کے متعلق ولد الحرام اور کنجریوں کی اولاد وغیرہ۔ پھر یہاں یہ بات بھی دلچسپی کی ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا۔ انہوں نے جواب میں 2665وضاحت کی کہ یہ عیسائیوں کے متعلق ہے۔ یہ بڑا اچھا وصف ہے مدعی نبوت کے لئے کہ وہ گالیاں دیں عیسائیوں کو۔ لیکن ہمارے ہاں مصیبت یہ ہے کہ بہت سے مسلمان خوش ہو جاتے تھے کہ عیسائیوں کو مرزاصاحب گالیاں دے رہے ہیں۔ وہ گالیاں بہت دیتے تھے عیسائیوں کو بھی۔ یہ مسلمانوں کی بات ہے۔ اس طرح کا لٹریچر جو ہے تو خیرتجویز یہ ہے۔
اور دوسری چیز جناب ہے کہ بعض الفاظ ایسے ہیں جن کو مسلمان پسند نہیں کرتے کہ وہ دوسرے لوگوں کے متعلق استعمال کئے جائیں۔ مثلاً صحابہ، وہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری صحابہ سے کیا مراد ہے۔ ام المؤمنین، امہاۃ المؤمنین، امیر المؤمنین۔ یہ الفاظ ہیں۔ یہ بہت دل آزاری کے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ایسے کہتے ہیں اور بڑے بڑے نام ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیوں ضروری ہے کہ اصطلاحی نام استعمال کئے جائیں جو تمام مسلمان اپنے بزرگوں کے لئے مخصوص سمجھتے ہیں۔ ہاں! اسی طرح امام حسین کے متعلق جو ہے میں نے اس میں سارا کچھ تجویز کیا ہے۔ یہی بات نہیں کہ یک طرفہ بات کی جائے۔ اس لئے میں نے تجویز کیا ہے۔ اگر کوئی اس اقدام کے خلاف ہو تو وہ اپیل کر سکتا ہے۔ اس میں دل آزاری کی بات نہیں ہے۔ کیوں کیا ہے زبردستی۔
میری چھٹی تجویز ہے جی سپیشل اوتھ۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ یہ جو ایک Loyality (وفاداری) میں آسکتا ہے۔ Conflict (تضاد) جس کا میں نے ذکر کیا ہے، خاص خاص عہدوں کے متعلق ایسا حلف مقرر کیا جائے جو کہ آدمی لے کہ جس حد تک میرے عہدے کی ذمہ داری ہے۔ اس کے متعلق میرا کسی فرقے سے تعلق ہے، کسی Cast (ذات) سے، تو میں وہ نظرانداز کروں گا۔
Special Oath: "I do solemnly swear that I will bear true faith and allegiance to Pakistan and that, in the discharge of my duties as a public servant, I will keep the interest...."
(خصوصی حلف: ’’میں سچے دل سے قسم اٹھاتا ہوں کہ میں پاکستان سے مخلص اور وفادار ہوں گا اور ایک پبلک سرونٹ کے طور پر اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے میں…‘‘)
2666جناب عبدالعزیز بھٹی: پوائنٹ آف آرڈر، جناب! میری گزارش یہ تھی کہ سپیشل کمیٹی کی پروسیڈنگز سیکرٹ ہیں۔ سپیچز (Speaches) جو ہیں ان کے لئے یہ تھا کہ یہ باہر اناؤنس نہیں ہوں گی۔ لیکن باہر ہاؤس میں ساری سپیچز(Speaches) سنی جارہی ہیں۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: وہ سینٹ کی سنی جارہی ہیں، یہاں کی نہیں ہورہی ہیں، وہ سینٹ کی ہیں۔
ملک محمد جعفر: میں نے یہ کہا تھا کہ یہ اوتھ جو ہے ہر کسی کے لئے ضروری نہیں ہے۔
Special Oath for public Servants: "The Federal Government and the Provincial Governments should be given authority, within their respective jurisdictions, to prescribe a special oath for persons in the service of Pakistan holding specified posts, which are considered by the Government concerned to be of a very high national importance."
(پبلک سرونٹس کے لئے خصوصی حلف: ’’وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ان لوگوں کے لئے ایک خصوصی حلف وضع کر سکیں جو پاکستان کی سروس میں ایسے خاص عہدوں پر فائز ہیں جو حکومت کے نزدیک بہت زیادہ قومی اہمیت کے حامل ہیں۔‘‘)
تو یہ اوتھ میں نے اس میں لکھی تھی:
"I do solemnly swear that I will bear true faith and allegiance to Pakistan and that, in the discharge of my duties as a public servant, I will keep the interest of the State of Pakistan above all considerations arising out of, or connected with, my being a member of any communal, sectarian or spiritual group, organization or cult whatsoever."
(’’میں سچے دل سے قسم اٹھاتا ہوں کہ میں پاکستان سے مخلص اور وفادار رہوں گا اور ایک پبلک سرونٹ کے طور پر اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے میں پاکستان کی ریاست کے مفاد کو ان تمام مفادات پر مقدم رکھوں گا جو میرے کسی مذہبی، فرقہ وارانہ یا روحانی گروہ، تنظیم یا مسلک وغیرہ میں شمولیت کا نتیجہ ہوں یا اس سے منسلک ہوں۔‘‘)
میرا خیال ہے اس میں تو کسی پبلک سرونٹ کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے، اس طرح کا حلف کرنے کے لئے۔
میری آخری تجویز تبلیغ کے متعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں جناب! کہ یہ بہت بڑی کوتاہی ہے ہمارے علماء کی۔ ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے اور اس کمزوری کو ماننا چاہئے۔ یعنی جس کو ہم کہتے ہیں ختم نبوت، یہ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے عقیدۂ اسلام میں۔ تو یہ کیونکر ہوا۔ ایک اسلامی معاشرہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ 2667کیا اور دعویٰ میں اتنا تضاد، اور اپنے باقی کاروبار بھی، عورتوں کے متعلق بھی، سب چیزوں میں اتنی خرابیاں اور الہام جو ہیں بالکل بے معنی اور بے ربط ہیں۔ ان ساری چیزوں کے باوجود اسلامی معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ، عالم، سیدوں کے خاندان کے، مولوی نورالدین جیسے لوگ، اور مولوی محمد علی، یہ لوگ کیوں اس جماعت میں شامل ہو گئے۔ اگر ہمارے علماء جن کے متعلق قرآن کریم میں یہ حکم ہے مسلمانوں کو، کہ تم میں سے اگر گروہ ایسا ہونا چاہئے ’’ولتکن منکم امۃ یدعون الیٰ الخیر‘‘ یہ علماء کے متعلق ہے… جو لوگوں کو ہدایت کی راہ دکھائے پھر علماء کے متعلق حدیث یہاں بیان ہوئی ہے۔ ’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘
میری امت کے علماء جو ہیں بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر ان کا مقام ہے۔ اتنا بڑا مقام۔ ایک غلط مدعی نبوت اسلامی معاشرہ میں پیدا ہوا اور اس کی جماعت ترقی کرتی جائے اور اس حد تک ترقی کر جائے۔ یہ تبلیغ کا فریضہ ہمارے علماء اور باقی لوگوں کو بھی ادا کرنا چاہئے۔ لیکن ہم نے ادا نہیں کیا۔ ہم نے جب دیکھا کہ وہ بہت بڑے منظم ہوگئے ہیں، طاقتور ہوگئے ہیں، خاصی جمعیت ہوگئی ہے تو یہ شروع ہوگئی تحریک۔ لیکن ساتھ تبلیغ ہونی چاہئے۔ کیونکہ یہ ہمارے معاشرے میں سے گمراہ ہوگئے۔ یہ خود بھی نہیں ہوئے بیچارے۔ بیشتر ایسے ہیں، میرے خیال میں ایک فیصد بھی نہ رہے ہیں۔ جو اس قت شامل ہوئے تھے۔ اب ان کے بیٹے پوتے وغیرہ ہیں۔ ان کو تو پتہ بھی نہیں ہے۔ ہم اگر تبلیغ کاکام کریں صحیح طریقے پر تو کوئی وجہ نہیں، کیونکہ ہمارے پاس حق ہے اور اس طرف باطل ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ حق باطل پر غالب نہ آجائے۔
Tabligh: "Government should set up an organization whose duty it should be to propagate the basic articles of the faith of Islam, particularly the concept of Finality of Prophethood."
(تبلیغ: ’’حکومت کو چاہئے کہ ایک ایسا ادارہ قائم کرے جس کے ذمہ اسلام کے بنیادی عقائد اور خصوصاً عقیدۂ ختم نبوت کی تبلیغ واشاعت ہو۔‘‘)
2668آخر میں پڑھ دیتا ہوں۔ اس کا جناب! میں نے یہ لکھا ہے۔ اب میں صرف پیراگراف پڑھ دیتا ہوں۔ کیونکہ میں نے اس ضمن میں وضاحت کی ہے:
"Recommendation No.7 is based on a hope that if the propagation of the basic principles of Islamic creed particularly the concept of Finality of Prophethood is taken seriously in hand by those competent to do so, the heresy involved in the Ahmadia Movenemt, whether it be of the Rabwah or Lahori pattern, whould be abandoned by a fairly large number of Ahmadis, provided the mission is carried on in a rational and scientific manner and with sympathy and compassion rather that ill- will."
(’’تجویز نمبر۷ اس امید کی بنا پر دی جارہی ہے کہ اگر اسلام کے بنیادی عقائد اور خصوصاً عقیدۂ ختم نبوت کی تبلیغ کے کام کو وہ لوگ سنجیدگی سے لیں۔ جن میں اس کام کو کرنے کی اہلیت ہے تو احمدی حضرات کی کثیر تعداد تحریک احمدیہ خواہ وہ ربوہ گروپ سے ہوں یا لاہوری گروپ سے، کفریہ عقائد کو چھوڑ دیں گے۔ بشرط کہ تبلیغ کا یہ کام معقول اور سائنسی انداز سے کیا جائے اور بغض کی جگہ ہمدردی اور رحمدلی ہو۔‘‘)
تو میں جناب! سمجھتا ہوں کہ بہت بڑا موقعہ ہے آپ کے لئے۔ یہ پراپرٹی کی میں نے تجویز کی ہے۔ تبلیغ کی بھی۔ یہ سب کچھ میں نے کیا ہے۔ وہ لوگ اس وقت ایک غلامی میں ہیں، ذہنی اور روحانی غلامی میں، جو مرید ہیں ان دونوں جماعتوں کے سب، تو آپ ایک بہت بڑا کام کریں گے تاریخ میں۔ یہ ایک تحریک چلی ہے تو یہ علیحدہ بات ہے۔ اگر آپ ان لوگوں کو نجات دلائیں گے اس استحصالی نظام سے، جو روحانیت اور مذہب کی بنیاد پر استحصالی نظام قائم کیا ہوا ہے ربوہ والوں نے، اور ان سے پھر بھی کچھ کم، لیکن ہے پھر بھی استحصالی، لاہور والوں نے۔ جناب! شکریہ، یہ میری معروضات ہیں۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: ڈاکٹر غلام حسین!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب ڈاکٹر غلام حسین کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
ڈاکٹر غلام حسین: جناب چیئرمین صاحبہ! قادیانی مسئلے کے متعلق بہت کچھ کہا جاچکا ہے اور ہمارے سامنے بیشمار حقائق اور مواد ہے جس کی روشنی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حقیقت حال کیا ہے۔ جناب والا! ہم مسلمانوں کو جو کچھ اﷲتعالیٰ کی طرف سے اسلام کاورثہ اور اسلام کی دولت ملی ہے وہ رسول پاک حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعہ ملی ہے 2669اور قرآن پاک نے خود فرمایا ہے کہ وہ نبی آخر الزمان ﷺ ہیں۔ ان پر دین مکمل ہوچکا ہے۔ اس کے بعد نبی کا لفظ تاویلوں میں بات کو الجھا کر ایک سیاسی جماعت نے، ایک تخریبی جماعت نے، انگریزوں کی ایک ایجنٹ جماعت نے اس کو کئی کئی معنی پہنائے ہیں۔ نبی کا مطلب جو پاکستان میں ہم سمجھتے ہیں اور ہماری نسلیں سمجھتی آئی ہیں وہ پیغمبر اور رسول خدا کے معنی ہیں۔ جس طرح ہم نماز کو عربی کے لفظ صلوٰۃ کے معنوں میں لیتے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم مسجد میں صلوٰۃ کے لئے جارہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھنے کے لئے جارہے ہیں۔ نماز کا لفظی مطلب پرستش ہے۔ پرستش آگ کی بھی ہوتی ہے۔ ہم آگ کی پرستش کرنے نہیں جاتے۔ جو رائج الوقت اصطلاح ہے اس کے معنی عام لوگ تسلیم کرتے ہیں۔ مرزاغلام احمد ایک جگہ نہیں ہزاروں جگہ لکھتے ہیں۔ ان کے معتقدین جو یہاں تشریف لائے تھے انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وہ اپنے آپ کو نبی کہتے تھے۔ یہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ نبی تھے۔ ایک Parallel (متوازی) نبوت یا Parallel Prophethood (متوازی نبوت) جو نبی اس کا تسلیم کر لینا ہے ہمارے لئے کافی ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ دوسری بات یہ ہے کہ وہ ذات جس نے پاکستان بنایا وہ قائداعظم کی ذات گرامی تھی۔ قائداعظم کو بھی مسلمان نہ سمجھنا اور باقی اکثریت کو بھی مسلمان نہ سمجھنا اور انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا، ڈھٹائی سے اپنے غلام احمد کو نبی بنانا اور قائداعظم کے جنازہ میں نہ شرکت کرنا، یہاں تک کہ غائبانہ نماز جنازہ تک بھی نہ پڑھنا اور جہاد کو حرام قرار دینا، اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ وہ نہ پاکستان کے حامی ہیں اور نہ اسلام کے حامی ہیں۔
2670اس کے علاوہ، آپ جانتی ہیں کہ ڈاکٹر اقبالؒ نے ہمیں پاکستان کا تصور دیا تھا۔ انہوں نے شروع شروع میں تو ان کی باتوں میں آکر ان کی کچھ تعریف کی۔ لیکن جب حقیقت حال ان کو پتہ چلی تو انہوں نے واضح طور پر ان کی مخالفت کی اور Declare (اعلان) کیا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ یہی مطالبہ کیا جو آج یہاں دہرایا جارہا ہے۔ اس اسمبلی کے باہر ساری قوم یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ ان کو اقلیت قرار دیا جائے۔ ایک تو ان کی جھوٹی نبوت اور دوسرے ہماری اس قوم کے باپ کے خلاف ان کی باتیں اور اس شخص کے بارے میں یہ باتیں جس نے پاکستان کا تصور دیا، ایک گائیڈ لائن دی، یہ قابل افسوس اور سخت مذمت کے قابل ہیں۔ رسول پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو میرے بعد نبوت کا دعویٰ کرتا ہے وہ کافر ومرتد ہے اور اسلام کے دائرہ سے خارج ہے۔
اس کے علاوہ مکہ مکرمہ کو لیجئے! وہ چودہ سو سال سے ہمارا مرکز اور سنٹر ہے۔ وہاں کے بادشاہ شاہ فیصل نے سعودی عرب شریف میں ان کی Entry (داخلہ) بالکل Ban (بند) کر دی ہے۔ عالم اسلام نے اپنے Forum (فورم) سے ان کو غیرمسلم قرار دیا ہے۔ جب انہوں نے Declare (اعلان) کر دیا ہے تو پھر ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ مرزاغلام احمد کا رول وہی ہے ’’جو لارنس آف عریبیہ‘‘ کا رول تھا۔ اس نے وہاں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر انگریزوں کی ایجنٹی کی تھی اور اب وہی رول یہ ادا کر رہے ہیں۔
باقی جہاں تک ان کے منظم ہونے کا سوال ہے تو یہ سیاسی اور کاروباری لوگ بڑے منظم ہوا کرتے ہیں۔ اسرائیل کو بھی ایک منظم قوم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور جتنی غیرمسلم اقوام ہیں ان میں سے بیشتر منظم ہیں۔ حالانکہ ان کی اپروچ مذہب کے متعلق غلط ہے۔ جیسا کہ ملک جعفر صاحب نے فرمایا ہے کہ تنظیم کی کمی اور علماء کرام میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے سائنٹفک اپروچ اور Objective Conditions (معروضی حالات) کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اور آپس کے جھگڑوں اور لڑائیوں کی وجہ سے عالم اسلام کا اتحاد کمزور پڑ گیا ہے۔ اس سے ہمیں بہت نقصان ہوا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی سربراہ کا جھوٹ)
2671جناب والا! یہاں مرزاناصر احمد تشریف لائے۔ میں دینی معاملات کا ماہر نہیں، میں سیدھا سادہ مسلمان ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک شخص ہمارے سامنے، ان ممبر صاحبان کے سامنے جو ساری قوم سے ایلیکٹ ہوکر یہاں آئے ہیں، ان کا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ تین چار سال پہلے کی بات بھول جائیں۔ ان سے جب سوال ہوا تھا کہ کیا آپ سیاست میں حصہ لیتے ہیں، کیا آپ سیاسی جماعت ہیں، تو انہوں نے بڑے Confidence (اعتماد) سے فرمایا تھا کہ نہ ہم نے کبھی پہلے سیاست میں حصہ لیا نہ اب لے رہے ہیں اور کبھی نہیں لیں گے۔ میں خود کہہ سکتا ہوں اور میرے بھائی اس بات کو تسلیم کریں گے کہ انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کو پوری طرح سپورٹ کیا ہے۔ ان کے افراد نے ہر طریقہ سے ان کی پوری مدد کی۔ ان کے ہیڈ کوارٹر اور ان کے خلیفہ کی طرف سے ہدایات تھیں کہ ان کی بھرپور حمایت کی جائے۔ واضح طور پر انہوں نے ہمارا ساتھ دیا تھا۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
(اس موقع پر ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت کو چھوڑا جو جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے سنبھال لی)
----------
ڈاکٹر غلام حسین: ان کا سیاسی نکتۂ نظر کچھ بھی سہی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا۔ انہوں نے یہاں ممبر صاحبان کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(تعداد کے بارہ میں مرزاناصر کا جھوٹ)
ان کی تعداد کے بارے میں باربار سوال کیا گیا کہ آپ کی پاکستان میں کتنی ہے تو انہوں نے آئیں بائیں شائیں میں جواب دینے کی کوشش کی۔ کبھی کہتے ہیں کہ ۳۰لاکھ، کبھی کہتے ہیں ۳۵لاکھ، کبھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ریکارڈ نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ان کے پاس ایک ایک فرد کا ریکارڈ موجود ہے۔ جو کوئی نیا شخص ان کے فرقے میں داخل ہوتا ہے وہ ابتدائی فارم کے ذریعہ اپنا شجرہ نسب اور تمام تفصیلات دیتا ہے۔ آپ یہ 2672بھی جانتے ہیں کہ وہ ایک منظم جماعت ہے۔ ان کا ہر شخص اپنی آمدنی کا دس فیصد بیت المال ان کاجو So- Called (نام نہاد) بیت المال ہے، جو انہوں نے بزنس کا ذریعہ بنارکھا ہے، جیسے مالیہ وصول کرتے ہیں اسی طرح یہ مالیہ وصول کرتے ہیں۔ ان کے پاس ریکارڈ کیسے نہ ہو۔ پھر یہ کیوں جھوٹ بولتے ہیں۔ تعداد بتانے میں حرج ہی کیا ہے؟
تیسری بات انہوں نے جو کہی ہے وہ میں ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے بتاؤں گا کہ بیماری اﷲتعالیٰ کی طرف سے آسکتی ہے اور کسی شخص کو کوئی بیماری لگ سکتی ہے۔ اس میں بے عزتی کیا ہے؟ لیکن یہ کہنا کہ مرزا صاحب کو ہیضہ نہیں ہوا تھا اور یہ کہ ان کو Gastro- entritis ہوئی تھی۔ Acute Gastro- entritis ہیضے کا انگریزی ترجمہ ہے۔ ہیضے کا انگریزی ترجمہ کر کے جھوٹ بولنے کی کوئی تک نہیں ہے۔ جب ایک شخص ایک جھوٹ بول سکتا ہے تو اس کے ساتھ ہزاروں جھوٹ بھی بولے جاسکتے ہیں۔ چاولوں کی دیگ سے چند دانے ٹٹولے جاتے ہیں نہ کہ تمام دیگ۔ لہٰذا یہ لوگ نہایت خوبصورتی سے جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹے ہیں۔
Mr. Chairman: Thank you very much.
(ڈاکٹر غلام حسین: صرف ایک منٹ جناب والا!
Mr. Chairman: Sir, we have been sitting for ten days and most of the....
ڈاکٹر غلام حسین: جناب والا! صرف ایک منٹ کے بعد ختم کر دوں گا۔
جناب چیئرمین: میری بات تو سن لیں۔
I am not stopping you. We have been sitting for open debate for the last ten days and most of the honourable members present today were absent; and I have been requesting them that today we have got full opportunity, a member can speak for two hours or three hours. And 5th was fixed for Attorney- General. The time schedule has been announced also, and if today everybody wants to consume the maximum time, it cannot be allowed. I am sorry. You may speak and try to wind up.
(میں آپ کو روک نہیں رہا۔ ہم گزشتہ دس دنوں سے کھلی بحث کے لئے بیٹھتے رہے ہیں اور بہت سے معزز اراکین جو آج موجود ہیں گزشتہ دنوں میں غیر حاضر رہے ہیں اور میں ان سے گزارش کرتا رہا ہوں کہ آج ہمارے پاس پورا موقع ہے۔ آپ دوگھنٹے یا تین گھنٹے بھی بات کر سکتے ہیں اور پانچ تاریخ اٹارنی جنرل کے لئے متعین تھی۔ ٹائم شیڈول کا پہلے سے اعلان کیا جاچکا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ آج ہر شخص زیادہ ٹائم لینا چاہے۔ میں معذرت خواہ ہوں آپ بات کیجئے اور اسے جلد مکمل کرنے کی کوشش کیجئے)
2673ڈاکٹر غلام حسین: میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے بولنے کے لئے وقت دیا۔ میری آخری گزارش یہ ہے کہ یہ دینی مسئلہ ہے۔ اگر اس کو صحیح معنوں میں حل کرنا ہے اور Once for all (ہمیشہ کے لئے) حل کرنا ہے تو جیسے ہماری تجویزیں آئی ہیں، ریزولیوشنز آئے ہیں، پہلے جس طرح سمٹ کانفرنس بلائی گئی تھی اسی طریقے سے ہمیں ساری دنیا کے علماء کرام کی ایک سمٹ کانفرنس بلانی چاہئے اور ان میں سے Fundamental Truths (بنیادی سچائیاں) نکال کر ایک واحد پلیٹ فارم بنا کر پھر آگے چلنا چاہئے اور جہاں تک ہو سکے آپس کے اختلافات ختم کرنے چاہئیں اور یہ ہمارے اسلام کی اور اسلامی برادری کے اتحاد کی علامت اور ضمانت ہوگی۔
آخر میں میرا مطالبہ ہے کہ قادیانیوں کو نہ صرف غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ بلکہ بیرونی ملکوں میں ان کے پروپیگنڈے کو Counter (رد) کرنے کے لئے حکومتی سطح پر مشن قائم کئے جائیں جو ’’احمدیت‘‘ کی بجائے صحیح اسلام کو متعارف کراسکیں۔ شکریہ!
Mr. Chairman: Dr. Mrs. Abbasi. Two minutes by watch. (جناب چیئرمین: ڈاکٹر بیگم عباسی، گھڑی دیکھ کر دو منٹ)
Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi: Mr. Chairman, Sir, I want to associate myself, on behalf of the lady members of this House, with this important issue under discussion in this Special Committee. The importance of the issue is evident because it is being discussed in this august Committee of the whole House. We just cannot overlook the complications of this issue because this has stood unsolved for ninety long years. But, Sir, after hearing the discussions and the speeches of the honourable members and the 'Mahzarnamas' that have been produced in this august Special Committee, and the cross- examination of two leaders of Ahmadi Jamaat, has crystalised and there is no doubt that these Ahmadis and Quadianis or whatever you call them are not amongst us. They are not one with us, the Muslims as we are, I want to emphasise that the women population of Pakistan are as much concerned about this issue as the male population of Pakisatan.
2674We know, Sir, that the issue has crystalised and we are going to pass certain laws to solve this issue once for all. After this issue is solved, we will have to combat after- effects of the solution. Sir, I want to bring to the notice of the honourable members that when they solve this issue, they must also go in the public and let them understand the complications and what should be the solution of these complications because, after all, when you speak face to face and when you tell the people how they have to behave, they understand promptly. The modesty of the women is not molested. The other things, i.e. the international and national implications will be solved, Insha Allah, if we put our shoulder to it.
Thank you very much.
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
(ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی: جناب چیئرمین! میں اس ایوان کی خواتین ارکان کی طرف سے خصوصی کمیٹی میں زیربحث اس مسئلے میں شرکت کرنا چاہوں گی۔ مسئلے کی اہمیت اسی بات سے واضح ہے کہ یہ پورے ایوان کی اس معزز کمیٹی میں زیربحث ہے۔ ہم اس مسئلے کی پیچیدگیوں کو صرف اس لئے نظرانداز نہیں کر سکتے کہ انہیں پچھلے ۹۰سالوں سے حل نہیں کیاگیا۔ لیکن جناب معزز ارکان کی تقریروں اور بحثوں کو سننے اور اس معزز خصوصی کمیٹی میں پیش کردہ ’محضرناموں‘ کو پڑھ کر اور احمدی جماعت کے دولیڈروں پر بحث کو سن کر اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ احمدی اور قادیانی یا آپ انہیں کچھ بھی کہیں، ہم میں سے نہیں ہیں۔ وہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں۔ میں یہ بات زور دے کر کہنا چاہتی ہوں کہ پاکستان کی خواتین بھی اس مسئلے میں اسی طرح شریک ہیں جیسے پاکستان کے مرد۔
جناب والا! ہم جانتے ہیں کہ بات واضح ہوچکی ہے اور ہم ہمیشہ کے لئے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے چند قوانین منظور کرنے والے ہیں۔ جب یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو ہمیں اس حل کے نتیجے میں پیش آنے والی مشکلات سے بھی نمٹنا ہوگا۔ جناب! میں معزز اراکین کو توجہ دلانا چاہوں گی کہ اس مسئلے کے حل کے بعد وہ عوام کے پاس جائیں اور انہیں مسئلے کی پیچیدگیوں اور ان کے حل کے متعلق انہیں بتائیں۔ کیونکہ بہرحال جب آپ لوگوں کے سامنے بیٹھ کر ان سے بات کرتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ انہیں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہئے تو وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں۔ لوگوں کے اس رویے میں خواتین کی شرافت کا لحاظ ہمیشہ رکھا جائے۔ دوسری باتیں مسائل جیسے اس فیصلے کے قومی اور بین الاقوامی نتائج، انشاء اﷲ تعالیٰ! جلد حل ہو جائیں گے۔ اگر ہم سب شانہ بشانہ چلیں۔ آپ کا بہت شکریہ!)
(چوہدری غلام رسول تارڑ کھڑے ہوئے)
جناب چیئرمین: آپ تقریر کل کر لیں۔ یہ کوئی بات نہیں ہے۔ ہم ۱۵دن آپ کا انتظار کرتے رہے۔
چوہدری غلام رسول تارڑ: میں نے اٹھ کر بھی کہا تھا، آپ کو یاد ہوگا۔ (پنجابی)
جناب چیئرمین: ڈیڑھ بجے ہم نے Wind up (ختم) کرنا ہے۔ The Attorney- General must speak today for one hour. Mr. Ahmad Raza Khan Qasuri. (اٹارنی جنرل نے آج ایک گھنٹے کے لئے ضروری بات کرنی ہے۔ جناب احمد رضا خان قصوری) جنہوں نے دستخط کئے ہیں ان کو تھوڑا ٹائم ملے گا۔
جناب احمد رضا خان قصوری: جناب چیئرمین!…
جناب چیئرمین: آپ کل نہیں بولیں گے؟ Mr. Randhawa is a witness to it, Mr. Ahmad Raza Khan, I requested you to speak twenty times. (رندھاوا صاحب اس کے گواہ ہیں۔ احمد رضا خان صاحب میں نے ۲۰مرتبہ آپ سے بولنے کی درخواست کی) رضا صاحب! آپ بھی کل بول لیں۔
جناب احمد رضا خان قصوری: میں جلدی ختم کر دوں گا۔
جناب چیئرمین: نہیں، آپ کل ہی بول لیں۔
2675جناب احمد رضا خان قصوری: جیسے آپ مناسب سمجھیں۔
Mr. Chairman: Mr. Attorney- General.
(جناب چیئرمین: جناب اٹارنی جنرل صاحب!)
Mr. Yahya Bakhtiar (Attorney- Genral of Pakistan): Do you want me to address now or after the break?
(جناب یحییٰ بختیار (اٹارنی جنرل آف پاکستان): کیا آپ حضرات مجھے خطاب کے لئے ابھی یا وقفہ کے بعد کا آپ فرمائیں گے)
Mr. Chairman: We can break for ten minutes. And those honourable members who want to speak tomorrow, they can get so many points from the speech of the Attorney- General, and if certain points are covered by the Attorney- General, those points need not be repeated. So, we will meet at 12:15 p.m sharp.
(جناب چیئرمین: ہم دس منٹ کا وقفہ کر سکتے ہیں اور وہ قابل احترام ممبر جو کل گفتگو کرنا پسند کریں گے ان کو اٹارنی جنرل صاحب کی گفتگو سے بہت سارے نکات مل جائیں گے اور جن طے شدہ نکات پر اٹارنی جنرل گفتگو مکمل کر لیں گے ان کو دہرانے کی ضرورت نہ ہوگی۔ چنانچہ ۱۲بج کر ۱۵منٹ دوپہر کو ملیں گے)
----------
(The Special Committee adjourned for tea break to re-assemble at 12:15 pm.)
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے لئے ملتوی ہوا۔ سوابارہ بجے دوبارہ ہوگا)
----------
[The Special Committee re-assembled after tea break, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے صدارت کی)
----------
Mr. Chairman: Yes Mr. Attorney- General.
(جناب چیئرمین: جی! جناب اٹارنی جنرل صاحب)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب یحییٰ بختیار کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
Mr. Yahya Bakhtiar: Mr. Chairman, Sir, in the first place, I express my apology for absence from the House for about a week and, therefore, I was not in a position to hear some of the speeches delivered by the honourable members. I understand that some very valid points were made and cogent reasons were given and many interesting points were brought out. I really do not know whether I would be repeating some of the speeches already delivered, but it was a call of duty which compelled me to go to Karachi.
Another thing, Sir, which I want to clarify and, I hope, the honourable members will appreciate, is my position as 2676Attorney- General. I have limitations and short comings which, I hope, the honourable members will appreciate. First of all, in this subject, my shortcomings were obvious as for the language was concerned or the languages were concerned and the subject matter itself. But I did my best according to the instructions of this House and I am grateful to the honourable members for the confidence that they have reposed in me and for the cooperation that they have extended.
Sir, I did my best, to the best of my ability. I did my duty in accordance with the wishes of the honourable members, and I think that the questions which were supplied to me were properly formulated by me.
Secondly, Sir, as far as the evidence is concerned, it will be my duty to bring it to the attention of the House as to what has come on record and to sum it up. But, as Attorney- General, I am not a member of the House and I cannot give findings as the Judges do, and I cannot express any opinion also. I feel, it is my duty to assist the honourable House in an impartial manner. We must realise and we must see that I am not here just to plead the cause of one party against another, but it will be my duty, as you are the Judges, to bring to your notice both the points of view so that nobody should feel and nobody should say that this was a one- sided show or that the Attorney- General, taking advantage of his position or abusing his position, tried to influence the decision one way or the other. So, I hope, that, with these limitations of mine in mind, the honourable members will appreciate if I also put forward the other point of view, or, in other words, both points of view.
As far as the decision is concerned, Sir, that is for the members to take, and I am sure, and I am hopeful that this is going to be a fair decision, a just decision, in accordance with the sentiments and feelings of the people of this country. We should have in mind the interests of Islam and the interests of the country, and I have not the slightest doubt that the patriotic sentiments and sentiments of love for Islam and for the love of the country are there and, therefore, I have no doubt that the members will take the right decision.
2677I had the honour and privilege of discussing this matter with the Prime Minister, who is also very anxious and is worried man, because this is going to be a very important decision. He thinks just as any other Muslim thinks, and he has the sentiments like those of any other Muslim but he is also the Prime Minister of the country, and he has got the responsibility to see that nobody is deprived of his rights and nobody is deprived of his life, liberty, honour and reputation in any manner except in accordance with law so, Sir, I hope and I understand that the leaders in this House have put thier heads together and they are trying to come to a decision which would be a fair decision and a just decision. You will recall, Sir, that in the course of the cross- examination also I tried to impress upon the leader of the Ahmadiya Jamaat, Rabwah, that this House do not want to harm anybody or hurt anybody; this House wanted to give a just and fair decision. Keeping that in mind, I will make my submission and recapitulate the circumastances very briefly which brought us to this day, to these proceedings.
Sir, before the House, there is a resolution and a motion. There is a motion, which was moved by the honourable the law Minister, which is as follows:
"I hereby give notice, under rule 205 of the Rules of Procedure and Conduct of Business in the National Assembly, 1973, of my intention to make the following motion.
That this House do appoint a Special Committee comprising the whole House, including persons who have the right to speak and otherwise take part in the proceedings of the House, with the Speaker as its Chairman, performing the following functions:
1- To discuss the question of the status in Islam of persons who do not believe in the finality of Prophethood of Muhammad (peace be upon him).
2- To receive and consider proposals, suggestions, resolutions, etc. from its members within a period to be specified by the Committee.
3- to make recommendations for the determination of the above issue as a result of its deliberations, 2678examination of witnesses and perusal of documents, if any.
The quorum of the Committee shall be forty, out of which ten will be from the parties opposed to the Government in the National Assembly."
Then Sir, there is also a resolution, which was moved by thirty- seven honourable members of this House.
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi).]
----------
Mr. Yahya Bakhtiar: This reads, Sir, as follows:
"We beg to move the following:
Whereas it is a fully established fact that Mirza Ghulam Ahmed of Qadian clamied to be a prophet after the last Prophet MUHAMMAD (peace be upon him);
And whereas his false declaration to be a prophet, his attempts to falsify numerous Quranic texts and to abolish Jihad were treacherous to the main issues of Islam;
And whereas he was a creation of imperialism for the sole purpose of destroying Muslim solidarity and falsifying Islam;
And whereas there is a consensus of the entire Muslim Ummah that Mirza Ghulam Ahmed's followers, whether they believe in the prophethood of the said Mirza Ghulam Ahmed or consider him as their reformer or religious leader in any from whatsoever, are outside the pale of Islam;
2679And whereas his followers, by whatever name they are called, are indulging in subversive activities internally and externally by mixing with Muslims and pretending to be a sect of Islam;
And whereas in the Conference of the World Muslim Organization held in the holy city of Mecca- Al- Mukarrama between the 6th and 10th April, 1974, under the auspices of Al- Rabita Al- Alam- Al- Islami wherein delegations from one hundred and forty Muslim Organizations and institutions from all parts of the world participated, it has been unanimously held that Qadianism is a subversive movement against Islam and Muslim World which falsely and deceitfully claims to be an Islamic sect.
Now this assembly do proceed to declare that the followers of Mirza Ghulam Ahmed, by whatever name they are called, are not Muslims and that an official Bill be moved in the National Assembly to make adequate and necessary amendments in the Constitution to give effect to such declaration and to provide for the safeguard for their legitimate rights and interests as a non- Muslim minority of the Islamic Republic of Pakistan."
Sir, these are the two motions; a resolution and a motion. Apart from that, some other resolutions are also pending before the House, but they mostly deal with proposals for amending the Constitution, and I will respectfully submit that I will not say anything about them for two reasons. Firstly, only these two documents, were published in the press and on the basis of these two documents the communities affected or likely to be affected filed their written statements or memorials. On the basis of these documents they were examined. Therefore, it will not be fair to say anything with regard to the other resolutions. The Committee is authorised and competent to deal with them at any stage, but I will confine myself to these two documents and I shall make brief comments before I go into the procedure adopted for considering these documents. I hope I am not misunderstood if I am very frank in my comments on these two documents.
2680To begin with, first the motion by the honourable Law Minister, Now, Sir, here it says "to discuss the question of the status in Islam of persons who do not believe in the finality of Prophethood of Muhammad (peace be upon him)". Let us take the expression "To discuss the question of the status in Islam". If the House is of the view that people who do not believe in the finality of the Prophedhood of Hazrat Muhammad (peace be upon him) are not Muslims, then they have no status in Islam. They have nothing to do with Islam. The motion is a contradiction in terms. If it were said: "to discuss the question of the status in Islam or in relation to Islam", I could understand that; but to say "the status in Islam" is presuming that they are Muslims. I think, it is a contradiction which may not be of importance but it was my duty to bring it to the notice of the House. You cannot say what is their status in Islam, "in relation to Islam", yes.
Again, Sir, with all respect, the resolution moved by thirty- seven members is, in my opinion, in some parts contradictory. I will not go in great details, but the honourable members will take notice of the fact that it says in one place that whereas Mirza Ghulam Ahmad "was the creation of imperialism for the sole purpose of destroying Muslim solidarity and falsifying Islam", then it says "Whereas there is consensus of the Muslim Umma that these followers of Mirza Ghulam Ahmad are outside the pale of Islam." Then it further said that the followers by whatever name they are called, are indulging in subversive activities internally and externally by mixing with Muslims and pretending to be a sect of Islam. This is all very well. Then later they say: declare them as a minority, a non- Muslim religious community and amend the Constitution, provide for the safeguards subversion: Do you want to perpetuate the things which you condemn in the preamble of this resolution: This is the contradiction to which I wanted to draw your attention. On the one hand you say: declare them a minority, declare them a separate entity; and once you declare them as such, then you have to protect their rights. There is no alternative; and this is a very good part of this resolution. I appreciate it, I commend it, when they say that their legitimate rights and interests should be protected, but what are those rights? On the one hand they say they are a subversive movement, they indulge in subversion inside and outside. What is 2681that subversion: Propagating their religion, practising their religion, whatever they may be? You want to safeguard their rights and at the same time condemn them. You cannot have both. This is something which is obvious. I am not criticising. I have no right to criticise, but it is my duty do draw the attention of the honourable members of the House that if you declare a section of population as a separate religious community, then not only the Constitution but even your religion enjoins upon you to respect their right to profess and paractise their religion and to propagate it. I don't want to say anything more because I am fully conscious of the fact that there is very limited time at my disposal.
Now, in view of these two documents, the motion as well as the resolution, the honourable House has to determine certain points or issues. I shall formulate and read these out:
1- Whether Mirza Ghulam Ahmed of Qadiyan claimed to be a prophet?
2- What is the effect of such a claim of prophethood in Islam or in relation to Islam? I had to mention both "in Islam" and "in relation to Islam".
3- What is the meaning of the concept of Khatam-i- Nabuwwat; when we say "Khatim-un- Nabieen" what does it mean?
4- Whether there is a consensus of the Muslim world that followers of Mirza Ghulam Ahmad of Qadiyan, who consider him as a prophet or promised Massiha, or both, are outside the pale of Islam?
5- Whether Mirza Ghulam Ahmad and his followers consider Muslims who deny his claim to be a prophet or the promised Massiha as Kafirs and outside the pale of Islam?
6- Whether Mirza Ghulam Ahmad founded a separate religious community outside the pale of Islam or he merely started a new sect within its fold?
7- If he founded a seperate religious community, what would be its status in relation to Islam and what rights it will have under the Constitution of Pakistan?
2682Next, I will very briefly recapitulate some of the circumstances from the day the motion and the resolution were moved. These were moved on the 30th June, 1974. After they were published, two memorials were filed by the two Groups who follow Mirza Ghulam Ahmed. Then represntatives of both the Groups were invited to read, on oath, their statements and memorials, and I understand that they expressed a desire to be heard, so that they might further clarify and elaborate their points of view. In these documents which they filed, they refuted all the allegations made against them in the resolution.
It was decided by the House Committee to appoint a Steering Committee to receive questions and to examine them. For that prupose the Committee directed that I should be here in Islamabad with efect from 25th july, 1974. In compliance with that direction I was here on 21st july. The Steering Committee took about a week to scrutinise these questions which came in hundreds.
The delegation of Ahmadiya Community of Rabwa headed by their Imam or leader, Mirza Nasir Ahmad, was examined from 5th to 10th August and then there was a break of ten days. He was again examined from 20th August to 24th August. In all, the examination lasted for 11 days. Thereafter the other section of this Community, headed by Maulana Sadruddin, who spoke through Mian Abdul Mannan Omar because he is an old man and cannot hear properly, was examined. They were examined for two days. The reason was not that the House was discriminating between the two or attached more importance to one and not to the other, but for the simple reason that most of the facts about, and documents and writings of, Mirza Ghulam Ahmad had come on the record through the first Group and there was no need to go further into these details as far as the second Group was concerned.
As for the first issue whether Mirza Ghulam Ahmad claimed to be a prophet, I think it will be appropriate to say somthing briefly about his life and works and the Ahmadyia Movement. While dealing with this, I will be, in a way, dealing with the first issue itself. Mirza Nasir Ahmad has filed a brief biodata of Mirza Ghulam Ahmad. It is as follows:
2683’’آپ ۱۳؍فروری ۱۸۳۵ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۱؎۔ آپ کے والد صاحب کا نام مرزاغلام مرتضیٰ صاحب تھا۔
آپ کی ابتدائی تعلیم چند استادوں کے ذریعے سے گھر پر ہی ہوئی۔ آپ کے اساتذہ کے نام فضل الٰہی، فضل احمد اور گل محمد تھے۔ جن سے آپ نے فارسی، عربی اور دینیات کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور علم طب اپنے والد صاحب سے پڑھا۔ آپ شروع سے ہی اسلام کا درد رکھتے تھے اور دنیا سے کنارہ کش تھے۔ آپ کا ایک شعر ہے ؎
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ یہاں قادیانیوں کی مہیا کردہ مرزا کی تاریخ پیدائش بیان ہوئی جو غلط اور دجل ہے۔ خود مرزاقادیانی نے کتاب البریہ اور دیگر کتابوں میں بیسیوں جگہ لکھا ہے کہ میری پیدائش ۱۸۳۹ئ، ۱۸۴۰ء میں ہوئی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دگر استاد را نامے ندانم
کہ خواندم در دبستان محمدؐ

آپ نے عیسائیوں اور آریوں کے ساتھ ۱۸۷۶ء کے قریب اسلام کی طرف سے مناظرے اور مباحثے بھی کئے اور ۱۸۸۴ء میں اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کی جو قرآن کریم، آنحضرت ﷺ اور اسلام کی تائید میں ایک بے نظیر کتاب مانی گئی ہے۔ ۱۸۸۹ء میں آپ نے باذن الٰہی سلسلہ بیعت کا آغاز کیا اور ۱۸۹۱ء میں خداتعالیٰ سے الہام پاکر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔
آپ کی تمام عمر اسلام کی خدمت میں گزری اور آپ نے ۸۰ کے قریب کتابیں تصنیف فرمائیں جو عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں ہیں اور ان تینوں زبانوں میں آپ کا منظوم کلام بھی ملتا ہے۔
2684آپ کا اور آپ کی جماعت کا واحد مقصد دنیا میں اسلام کی اشاعت وتبلیغ تھا اور ہے۔ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو آپ کی وفات ہوئی اور ملک کے اخباروں رسالوں نے آپ کی اسلامی خدمات کا پرزور الفاظ میں اعتراف کیا۔
آپ کی وفات کے وقت آپ کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اور اس وقت آپ کے خاندان کے افراد کی تعداد دو سو کے قریب ہے۔‘‘

Now, Madam, I have some more details of Mirza's life wich I could collect from the material placed at my disposal. I shall relate these details.
He belonged to an important and respectful Mughal family of the Punjab which had migrated from Samerkand to India at the time of Mughal Emperor Baber. The first ancestor of Mirza Ghulam Ahmad to come to India was Mirza Hadi Beg. Laquel Griffin, in his book "The Punjab Chiefs" says as follows, and I quote:
"Mirza Hadi Beg was appointed Qazi or Magistrate over seventy villages in the neighbourhood of Qadian, which town he is said to have founded and named it 'Islampuwr Qazi- Qazi', from which Qadian by natural change has arisen. For several generations the family hold offices under the Imperial Government and it was only when the Sikhs became powerful that it fell into poverty."
Thereafter, I will read a portion from the Enquiry Committee- Court of Enquiry- presided over by Mr. Justice Mohammad Munir in 1953-54. About Mirza Ghulam Ahmad the Court says, and I quote:
The grand son of Mirza Ghulam Murtaza, who was a General in the Sikh Durbar; he learnt Persian and Arabic languages at home but does not appear to have received any Western education. In 1864 he got some employment in the District Court, Sialkot, where he served for four years. On his father's death he devoted himself whole- heartedly to study religious literature and between 1880-84 wrote his famous 'Baraheen-i-Ahmadiya' in four volumes and later 2685wrote some more books. Acute religious countroversies were going on in those days. There were repeated attacks on Islam, not only by Christian missionaries but also preachers of Arya Samaj a liberal Hindu movement, which was becoming very popular.
Here I believe Mr. Justice Munir is not correct in describing Mirza Sahib as grandson of Mirza Ghulam Murtaza because Mirza Nasir Ahmad in his paper says that, that was his father's name.
According to the statement of Mirza Nasir Ahmad before the House, between the years 1860-1880, the British brought with them, what he called, an army of Padris- about 70 in number, as he mentioned and fierce religious controversies started, as these Padris, according to him, had declared that they would convert Muslims in India to Christianity. And Mirza Nasir Ahmad said with regard to these padris and their attack on Islam and on Holy Prophet Mohammad (peace be upon him) that-
حکومت کے بل بوتے پہ انہوں نے یہ کیا اور کر رہے تھے۔
At that stage, according to Mirza Nasir Ahmad, some Ulema and other leaders of Muslims religious thought came forward to reply to these Christian attacks and to repulse these attacks, and these included Nawab Sadiq Hasan Khan, Maulvi Aley Hasan, Maulvi Rahmatullah Mohajir Delhvi, Ahmad Raza Sahib and Mirza Ghulam Ahmad, and he said- I do not know about all of them- but I believe about all of them and not just Mirza Ghulam Ahmad: ’’اﷲ نے فراست دی تھی اور اسلام کا پیار دیا تھا۔‘‘
And that was the reason why they came forward to repulse these attaks on Islam and the Holy Prophet (peace be upon him). These controversies, these Munazeras, naturally made all those Muslims, including Mirza Ghulam Ahmad, very popular amongst Muslims. They became their heroes and it seems that Mirza Ghulam Ahmad was leading them in popularity among Muslims for repulsing these attacks on Islam, although, as it has become apparent from the record, that some of the methods adopted by him and may be by others in repulsing these attacks, were not desirable and were rather 2686objectionable- the way Jesus Christ was attacked or insulted, is not only objectionable today but even at that time Muslims had objected to that. Even at that time Mirza Ghulam Ahmad had to come out with explanation after explanation. But I will not go into that detail. Because of this popularity and because they were Muslims who treated him as hero, in 1889 we find that Mirza Ghulam Ahmed decided at the age of 54 that he should accept the oath of discipleship from his followers or those who respected him or who were willing to accept him as their religious leader. Now here we find that in Baraheen-i-Ahmadiya he had already mentioned that he received some divine messages or was in communication with Allah; that was known; but in 1889, actually in December 1889, according to his son, Second Khalifa of Ahmadiya Jamaat, Rabwah or Qadian, he actually founded this movement in March 1889, and the foundation of the movement does not refer to his claim to prophethood or of Massih-e- Mauood but to the effect that he started receiving oath of descipleship from his followers. There is no doubt that at that stage he got followers because the writings which we have seen leave no doubt that he had a very forceful pen, very eloquent pen, and he was undoubtedly a very capable person. He wrote eloquently in Arabic, Persian and Urdu. But one fact must be kept in Mind that, in 1889, and there is some confusion on the point- in one place I read that in December 1889, he received a message that he was Messih-e- Mauood, but he did not announce it and did not proclaim it. He only went to Ludhiana from Qadian to receive the oath of discipleship. Why? Why he did not announce it there in Qadian is for you to judge. But I find from the book of Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad, the book called "Ahmadiyat or True Islam", that he went to Ludhiana to receive it, this oath of discipleship, and his other book, a small biography. In some other literature I read that according to Muslim religious literature, the Messiah was to come in a place, not come in a place but announce and proclaim his being Messiah in a place called 'Lud'. Probably keeping this in view he thought it appropriate to go to Ludhiana for the purpose or to receive oath of discipleship. He did not begin it in Qadian. This is what I want to point out. I shall go in greater detail about these controversies with Christians at a later stage.
Here it is also my duty to bring to the notice of the House that it was seriously alleged that his prophethood and Ahmadi movement were inspired and nurtured by the British Imperialism. This is not only mentioned in the resolution but also in a lot of 2687other literature that it was done at a time when the call for Jehad was raised against these foreign imparialists, from Sudan to Samatra. It was felt, they say by the British, to stop this call for Jehad, and for that purpose they utilised Mirza Sahib's services. This is an aspect also to which I draw your attention. It is also alleged that the followers of Mirza Ghulam Ahmad, because of the oath of discipleship, which contained a caluse, or that was part of his faith, should be loyal to the British Government, or that loyalty to the British Government was made an article of faith- a very servious factor- which was very much resented by the Muslims who wanted to get rid of the foreign imperialists who had usurped their Government and their authority in this sub- continent. In this way, it is alleged that because of that faith or part of that faith- loyalty to the British Government. The Ahmadi's or the followers of Mirza Ghulam Ahmad provided very good and excellent spies to the British Government. We find a reference that in 1925 there was one Mulla Abdul Hakim and another Mulla Noor Ali; two Ahmadis who in Afghanistan were declared 'Murtad' and Killed, not because they were Murtad, not only for that reason, but according to the statements of those days, and I understand 'Al-Fazil' of 3rd March, 1925 also, confirmed this fact that they were found in possession of some documents indication that they were agents of the British Government and that they wanted to overthrow the Government. I have to bring it to the notice of the House that these are the facts which have been mentioned. I do not say they are correct.
As regards Mirza Sahib's interpretation of, or his approach to, the Holy Quran, as far as I understand, his approach was similar to that of Sir Syed Ahmad Khan, except for a few Ayyats which according to him concern Messiah or his own Prophethood. He had a rationalistic interpretation of the Holy Quran. The most spectacular weapon that he used to overcome and over- awe Muslims and others was his prophesies, I should say his reckless prodictions about the persons who opposed him that they would come to sad end within a limited period or suffer miserably.
Madam, in 1891, Mirza Sahib claimed to be the Promised Messiah and later on he also claimed to be a prophet. I will deal with as to what kind of prophet he claimed he was, later on. According to his son, Mirza Bashir -ud-Din Mahmud Ahmad, and I quote from his book "Ahmadiyyat or the True Islam".
2688"His task was to sift all errors and mis interpretations which may have crept into an existing religious system owing to lapse of time; but he had a much higher mission to perform. He had to discover in it new and limitless treasures or eternal truths and hidden powers.
By pointing out this miracle of the Holy Quran, the Promised Messiah has effected a revolution in spiritual matters. The Muslims certainly believed that the Holy Quran was perfect, but during the last thirteen hundred yerars nobody had imagined that not only was it perfect but that it was an inexhaustible store house in which the needs of all future ages had been provided for, and that on investigation and research it would yield far richer treasures of spiritual knowledge than the material treasures which nature is capable of yielding. The Holy Founder of the Ahmadiyya Movement has, by presenting to the world this miraculous aspect of the Holy Quran, thrown open the door to a far wider field of discovery and research in spiritual matters, than any scientific discovery has ever done in the realm of physical science. He not only purified Islam of all extraneous errors and presented it to the world but also presented the Holy Quran to the world in a light which served at once to satisfy all the intellectual needs of mankind which the rapidly changing conditions of the world had brought into existence and to furnish a key to the solution of all future difficulties."
Now, Madam, I shall briefly say one or two things on this point, namely, that he discovered hidden treasures in the Holy Quran which for thirteen hundred years no other Muslim had been able to discover. Nobody doubts that the Holy Quran has a wealth or treasure that mankind will discover; nobody can deny that. it is full of wisdom. As man progresses, as we go deep into it, we find new meanings and new discoveries. But when I pointedly asked Mirza Nasir Ahmad as to what the discoveries were which except Mirza Sahib no Muslim knew before, apart from his interpretation of 'Khatim-un- Nabiyyeen', or about the life of Hazrat Essa whether he is alive or not, he pointed out that there was his commentary on "Surah Fateha" in which 70 percent of his interpretation and commentary was new. That is for the learned Ulama of the House to judge and comment on. I have nothing to 2689say; but I know of only Allama Iqbal's opinion about his discoveries in the Holy Quran, namely:
عصر من پیغمبرے ہم آفرید
آن کہ در قرآں بجز از خود ندید
(Our age has also produced a porphet, who in the Quran could see nothing but himself.)
And I think it is a very fair assessment. As far as we could understand, Mirza Sahib interpreted or re- interpreted those provisions which interested him.
Now, Madam, while dealing with his life and religious career, I will draw the attention of the House to three different stages in his life, and in this career, as already mentioned, the first stage was when he was a religious leader like other Muslim religious leaders having the same faith, the same views, the same notions, and he crossed swords with Christians and Arya Samajes. To indicate his view at this stage, say from 1875-76 to 1888-1889, I will first read a quotation. It is a translation from Arabic from 'Roohani Khazain', volume:7, page:220, by Mirza Ghulam Ahmad Quadiani, Here he says:
’’کیا تو نہیں جانتا کہ پروردگار رحیم وصاحب فضل نے ہمارے نبی ﷺ کا بغیر کسی استثناء کے خاتم النّبیین نام رکھا اور ہمارے نبی نے اہل طلب کے لئے اس کی تفسیر اپنے قول لانبی بعدی میں واضح طور پر فرمادی اور اگر ہم اپنے نبی کے بغیر کسی نبی کا ظہور جائز قرار دیں تو گویا ہم باب وحی بند ہوجانے کے بعد اس کا کھلنا جائز قرار دیں گے اور یہ صحیح نہیں۔ جیسا کہ مسلمانوں پر ظاہر ہے اور ہمارے رسول اﷲ ﷺ کے بعد نبی کیونکر آسکتا ہے۔ درآں حالیکہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہوگئی اور اﷲتعالیٰ نے آپ پر نبیوں کا خاتمہ فرمادیا۔‘‘
This was in clear terms. He expressed his views on the subject of "Khatim-un- Nabiyyeen". Then he further said:
2690’’آنحضرت ﷺ نے باربار فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث ’’لانبی بعدی‘‘ ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت پر کلام نہ تھا اور قرآن شریف کا ہر لفظ قطعی ہے۔ اپنی آیات ’’ ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین ‘‘ اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ ہمارے نبی ﷺ پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔‘‘

(جاری ہے)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب یحییٰ بختیار کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب) بقیہ
This was from 'Kitabul Bariya', volume:13, Roohani Khazain, Hashia:217-218.
Again he says his ’’ازالہ اوہام‘‘ appearing in ’’روحانی خزائن‘‘ volume:3, page:412, I quote:
’’ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النّبیین میں وعدہ کیاگیا ہے جو جو حدیثوں میں بہ تصریح بیان کیاگیا ہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اﷲ ﷺ ہمیشہ کے لئے وحی نبوت لانے سے منع کیاگیا ہے۔ یہ تمام باتیں سچ اور سچ ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔‘‘
Then there is quotation from an اشتہار of Mirza Sahib published on the 20th of Shaban in Tabligh of Mirza Sahib Resalat. Here he says and I quote:
’’ہم مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے قائل ہیں اور حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
This was the first stage of his religious carreer.
The second stage starts somewhere 1888 when the oath of discipleship was taken from his followers. I will read about the oath of discipleship from the book of Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad, page:30. It says:
2691"In short the effect of the book began (he is talking of ’’براہین احمدیہ‘‘) gradually to spread and many a people wrote to the promised Messiah praying that he might accept from them the oath of discipleship. But he always declined and replied that all his actions depended upon Divine guidance till the month of December, 1888, when the revelation came to him that he should accept from people the oath of discipleship. Accordingly, the first oath took place in the year 1889 at Lodhiana (as I have already mentioned) in the house of one sincere followers named Mian Ahmad Jan and the first to take the oath was Maulana Moulvi Nooruddin (May God be pleased with him). The same day altogether 40 persons took the oath."
As already mentioned by him, at this stage he had not proclaimed that he was a promised Messiah or prophet. He had only mentioned that he was receiving divine revelation and was in communication with God.
Then, Madam, we go to the second stage of his career and how he starts the beginning. I may be wrong, but as far as I could understand, he moved very cautiously, very carefully, to change the position which he had taken before. The lecture in Sialkot, and 'Mubahsa' in Rawalpindi, at these places, he made some utterances which are interesting. He does not claim that he is a prophet. But he says, and I quote:
’’تم بغیر نبیوں اور رسولوں کے ذریعے وہ نعمتیں کیوں کر پاسکتے ہو۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ تمہیں یقین اور محبت کے مرتبہ پر پہنچانے کے لئے خدا کے انبیاء وقتاً فوقتاً آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاؤ۔ اب کیا تم خداتعالیٰ کا مقابلہ کرو گے اور ان کے قدیم قانون کو توڑ دو گے۔‘‘
Then the next step we find is this which I have just read from his 'Roohani Khazain', volume:20, page:327. Then 'Tajaliat-i- Ilahia'. Again, I quote from 'Roohani Khazin', volue 20,page 412, here he says:
2692’’اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت نبی ہوسکتا ہے۔ مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اس بناء پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔‘‘
So now he has claimed to be a prophet or a 'Nabi' of a sub-ordinate nature. He is not a full- fledged prophet. He says he belongs to the 'Umat' of the holy Prophet of Islam and through his benedication and blessing he has acquired that status. And when he is asked to define, then in 'Tajilliat-i- Ilahia', 'Mubahsa Rawalpindi' again in 'Roohani Khazain', volume:20, page:412, he says:
’’میرے نزدیک نبی اس کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی اور قطعی بکثرت نازل ہو جو غائب پر مشتمل ہو۔ اس لئے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے۔‘‘
The next step or argument advanced by him is in 'Haqiaqt-ul- Wahi', published in 'Roohani Khazain', volume:22, page:99-100. Here he says and clearly says:
’’خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی ہے۔‘‘
Then he says in 'Nazool Masih', 'Hashia Az Mubahsa Rawalpindi', in 'Roohani Khazain', volume:18, page:381:
’’میں رسول اور نبی ہوں یعنی بااعتبار ظلیت کاملہ کے میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔‘‘
I will not take more of the honourable House's time but I will read at this stage only one or two small quotations. He says in "Haqiqat-ul- Wahi' again from 'Roohani Khazain', volume:22, page:100:
’’اﷲ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے آپ کا نام خاتم النّبیین ٹھہرایا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی ہے۔‘‘
----------

2693[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
----------
Mr. Yahya Bakhtiar: After that we reach the third stage of his carrer, but before I come to that, Sir, there are one or two references to which I will draw your attention. They are about their interpretation of ’’خاتم النّبیین‘‘ and why there was need for a Prophet according to the Qadianis or Mirza Ghulam Ahmaed himself or his followers. This reason is given in ’’کلمتہ الفصل‘‘ which is published in the Review of Religions, volume:XIV, No.3, March and April 1915 issue. I find it interesting and pathetic, and I do not have to say why, but the background and the reasons why Mirza Sahib had to claim or was sent as Massih-e-Mouood is given here on page:101. I will just read some portions of it. It is written- narration- he says:
’’دجال نے پورے زور کے ساتھ خروج کیا تھا یاجوج ماجوج کی فوجیں ہر ایک اونچی جگہ سے امڈی چلی آتی تھیں۔ اسلام عیسائیت کے پاؤں پر جان کنی کی حالت میں پڑا تھا اور دہریت اپنے آپ کو ایک خوبصورت شکل میں پیش کر رہی تھی۔ مگر اس پر بھی مسلمانوں کے کانوں پر جوں تلک نہ رینگی اور وہ خواب غفلت میں سویا کیے حتیٰ کہ وقت آیا جب محمد ﷺ کی روح اپنی امت کی حالت زار کو دیکھ کر تڑپتی ہوئی آستانہ الٰہی پر گری اور عرض کیا کہ اے بادشاہوں کے بادشاہ! اے غریبوں کی مدد کرنے والے! میری کشتی ایک خطرناک طوفان میں گھر گئی ہے۔ میری بھیڑوں پر بھیڑیے ٹوٹ پڑے ہیں۔ میری امت شیطان کے پنجے میں گرفتار ہے تو خود میری مدد فرما اور میری بھیڑوں کے لئے کسی چرواہے کو بھیج۔ تب یکا یک آسمان پر سے ظلمت کا پردہ پھٹا اور خدا کا ایک نبی فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے زمین پر اترا، تاکہ دنیا کو اس طوفان عظیم سے بچائے اور امت محمدیہ کی گرتی ہوئی عمارت کو سنبھال لے۔‘‘
Then further he says:
2694’’وہ جو دنیا کا آخری نجات دینے والا بن کر آسمان پر سے دنیا کی مصیبت کے وقت زمین پر اترا وہ جو امت محمدیہ کی بھیڑوں پر حملہ کرنے والے بھیڑیوں کو ہلاک کرنے کے لئے آیا وہ جو اسلام کی کشتی کو طوفان میں گھرے ہوئے دیکھ کر اٹھاتا اسے کنارہ پر لگائے۔ وہ جو خیرالامم کو شیطان کے پنجہ میں گرفتار پاکر شیطان پر حملہ آور ہوا وہ جو دجال کو زوروں پر دیکھ کر اس کے طلسم کو پاش پاش کرنے کے لئے آگے بڑھا۔ وہ جو یاجوج ماجوج کی فوجوں کے سامنے اکیلا سینہ سپر ہوا وہ جو مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کو دور کرنے کے لئے امن کا شہزادہ بن کر زمین پر آیا وہ جو دنیا پر اندھیرا چھایا ہوا پاکر آسمان پر سے نور کو لایا ہاں وہ محمد ﷺ کا اکلوتا بیٹا جس کے زمانہ پر رسولوں نے ناز کیا تھا۔ جب وہ زمین پر اترا تو امت محمدیہ کی بھیڑیں اس کے لئے بھیڑیے بن گئیں۔ اس پر پتھر برسائے گئے۔ اس کو مقدمات میں گھسیٹا گیا۔ اس کے قتل کے منصوبے کئے گئے۔ اس پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ اس کو اسلام کا دشمن قرار دیا۔ اس کے پاس جانے سے لوگوں کو روکا گیا اس کے متبعین کو طرح طرح سے تکلیفیں دی گئی…‘‘
I do not have to comment on this, Sir. On the one hand it has been eloquently said on behalf of Ahmedis or Qadianis that Messiah will not come from heaven above as the other Muslims believe. Here they depict that picture showing him descending physically and that is being emphasised. Then the pathetic part is that on the one hand it is said that how much this man was needed and how much he did and what was his cause, what was his aim, what was his purpose to help Muslamans, to save them, and yet as he says:
’’بھیڑیں بھیڑیے بن گئیں۔‘‘
Why? Why this reaction? Why this sharp, violent, hostile reaction against a person who is a hero, who is a friend, who has been helping them? This we have to consider and this is simple because he had struck at the roots of one of the cardinal principles of our 2695faith, the faith of Musalmans, the concept of خاتم النّبیین, There was not other reason why Muslims sould attack a person and be so hostile to him as his own son describes.
Again, Sir, the reason why Mirza Sahib came into this world as a Nabi or Messiah and what was the need for it and the interpretation of his followers and Mirza Sahib himself about the concept of ختم نبوت is given in Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmed's book 'Ahmadiyyat or True Islam', page:10 and 11. I will read from there. It is 1937 edition. I quote:
"We hold the belief that this succession of Prophets will continue in the future as it has existed in the past, for reason repudiates any permanent cessation of this system. If this world is to continue to pass through ages of spiritual darkness, aged in which men will wander away from their Maker; if from time to time men are to be liable to go astray from the right path and to grope in the thick darkness of doubt and despair in their efforts to regain it; if they are to continue their search after the light in all such ages and times, it is impossible to believe that Divine Torch- bearers and Guides should cease to appear; for it is inconsistent with رحمانیت (Rahmaniyyat), the Mercy of God, that he should permit the ill but should not provide the remedy, that he should create the yearning but should abolish the means of satisfying it. To imagine so would be to offer an insult to the Fountain- head of mercy and compassion, and to betray one's spiritual blindness... If the world was ever in need of a Prophet, it is much more in need of one today, when religion has become hollow and Truth is, as it were, dead."
Now, Sir, this is a rationalistic approach. They say that, well, after all, the world is a new place; different people will come and from time to time, as Allah sent his Prophets before, he will continue to send his Prophets. This sounds reasonable, it seems sensible. He says that this process should not stop. Mankind will need revelation from Allah or somebody to come and interpret the revelation which has already come. This is their rational approach. They have published the book in England for English people. When I asked Mirza Nasir Ahmed whether any prophet had come 2696after the Holy Prophet Muhammad (Peace be upon him) and before Mirza Ghulam Ahmad, he said, 'No'; when I asked whether any prophet has come or is likely to come after him, he said 'No'. So, all this reasoning and rationalism disappeared in fog and mist; and what does it actually mean: It simply means that he is خاتم النّبیین, Mirza Ghulam Ahmad is the last of all prophets. They come to that conclusion.
Mr. Chairman: I think, the rest we will take up tomorrow. So, tomorrow, we meet at 9:30 am. as the Committee of the whole House.
Thank you very much.
----------
(The Special Committee of the whole House adjourned to meet at half past nine of the colck, in the morning, on Friday, the 6th September, 1974)
----------
(جناب چیئرمین: مسٹر اٹارنی جنرل)
(جناب یحییٰ بختیار: کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسی وقت اپنے دلائل پیش کروں یا کچھ وقت کے بعد)
(جناب چیئرمین: ہم دس منٹ کے لئے وقفہ کریں گے جو معزز ممبران کل تقریر کرنا چاہتے ہوں۔ انہیں اٹارنی جنرل کے خطاب سے بہت سے نکات حاصل ہو سکیں گے۔ اسی طرح جو نکات اٹارنی جنرل کے خطاب میں حل ہو جائیں۔ انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ چنانچہ ہم سوابارہ بجے اجلاس کریں گے)
----------
(کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے لئے پندرہ منٹ کے لئے ملتوی ہوا)
----------
(کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا)
----------
(جناب چیئرمین: جی! اٹارنی جنرل صاحب)
(جناب یحییٰ بختیار: جناب چیئرمین صاحب! سب سے پہلے میں ایوان سے اپنی ایک ہفتے کی غیرحاضری کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ جس کے باعث میں چند ایک معزز اراکین کی تقاریر نہ سن سکا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تقاریر کے دوران بہت قوی اور معقول دلائل دئیے گئے اور بہت سارے دلچسپ نکات سامنے لائے گئے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ میں انہی دلائل یا نکات کا اعادہ کروں گا یا نہیں۔ لیکن مجھے ادائیگی فرض کے سلسلے میں کراچی جانا پڑا۔
دوسری بات جو جناب والا! میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں اور جس کا پورا احساس معزز اراکین کریں گے وہ میری سرکاری حیثیت بطور اٹارنی جنرل کے لئے۔ میری کچھ قیود اور مجبوریاں ہیں۔ مجھے امید ہے کہ معزز اراکین ان کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ سب سے پہلے تو موضوع کے حوالے سے میری زبان دانی کی مجبوری تھی۔ تاہم میں نے ہاؤس کی ہدایات کے مطابق حتیٰ المقدور بہترین طریقے سے فرض کو نبھانے کی کوشش کی اور اس کے لئے معزز اراکین نے مجھ پر جو اعتماد کیا اس کے لئے میں بہت شکر گزار ہوں اور اس تعاون کے لئے بھی جو مجھے معزز اراکین کی طرف سے دیا گیا۔
جناب والا! میں نے اپنی اہلیت کے مطابق اپنا فرض نبھانے کی پوری کوشش کی اور ادائیگی فرض کو معزز اراکین کی خواہشات کے مطابق ادا کرنے کی کوشش کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو سوالات مجھے دئیے گئے تھے ان کو میں نے مناسب انداز میں پیش کیا۔
دوسری بات جناب والا! جہاں تک شہادت کا تعلق ہے۔ میری کوشش ہوگی جو کچھ ریکارڈ پر شہادت موجود ہے۔ اسے مختصر طور پر پیش کروں۔ لیکن بحیثیت اٹارنی جنرل میں ایوان کا رکن نہیں ہوں۔ اس لئے نہ تو میں کوئی فیصلہ جج کی طرح دے سکتا ہوں اور نہ ہی اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا فرض ہے کہ میں غیرجانبدارانہ طور پر اس ایوان کی امداد کروں۔ ہم سب کو احساس ہوگا کہ میں یہاں پر صرف ایک فریق کی نمائندگی یا دوسرے فریق کی مخالفت نہیں کرتا۔ آپ اس معاملہ میں بحیثیت منصف کے ہیں۔ اس لئے میرا فرض منصبی ہے کہ میں معاملہ کے دونوں پہلو آپ کے سامنے پیش کروں تاکہ نہ تو کوئی یہ محسوس کرے اور نہ ہی کہہ سکے کہ یہ یکطرفہ کاروائی تھی اور اٹارنی جنرل نے اپنی حیثیت کا جائز یا ناجائز استعمال کرتے ہوئے فیصلہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ چنانچہ مجھے امید ہے کہ میری ان مجبوریوں کے مدنظر اگر میں دونوں فریقوں کے نقطہ نظر یا دوسرے فریق کے نقطۂ نظر کو بھی پیش کروں تو اسے صحیح انداز میں ہی سمجھا جائے گا۔
جناب والا! جہاں تک فیصلہ کا تعلق ہے وہ تو معزز اراکین نے ہی کرنا ہے اور مجھے یقین واثق ہے کہ یہ ایک بہت ہی منصفانہ فیصلہ ہوگا۔ صحیح فیصلہ ہوگا۔ جو کہ ملک کے عوام کی خواہشات اور احساسات کے مطابق ہوگا۔ ہمیں اسلام اور ملک کے مفادات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے اور مجھے ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ حب الوطنی اور اسلام کے ساتھ محبت کے احساسات ہر لمحہ موجود ہیں اور اس لئے مجھے اس بارے میں بھی قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ معزز اراکین بالکل درست فیصلہ کریں گے۔
مجھے اس موضوع پر وزیراعظم کے ساتھ بحث مباحثہ کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ وزیراعظم صاحب اس معاملے کے متعلق بہت بیتاب ہیں۔ کیونکہ اس کا فیصلہ بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وزیراعظم کی سوچ ایک عام مسلمان کی سوچ کی مانند ہے اور ان کے جذبات ایک عام مسلمان کے جذبات ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ وزیراعظم بھی ہیں۔ اس لئے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ کوئی شخص اپنے حقوق سے محروم نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی کو بلاقانونی جواز اپنی زندگی، آزادی عزت اور شہرت سے محروم کیا جائے۔ جناب والا! میں امید کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اس ایوان کے اندر جو رہنما موجود ہیں انہوں نے کافی سوچ بچار کیا ہے اور ان کی انتہائی کوشش ہے کہ اس معاملہ کا ایک نہایت ہی مناسب اور منصفانہ فیصلہ ہو۔ جناب والا! آپ کو یاد ہوگا کہ جرح کے دوران میں نے امیر جماعت احمدیہ ربوہ پر واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ ایوان نہ تو کسی کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور نہ ہی کسی کی دل آزاری کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایوان ایک منصفانہ فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔ ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اپنی گزارشات کروں گا اور تمام حقائق اور واقعات کو اختصار کے ساتھ پیش کروں گا)
(جناب یحییٰ بختیار: جناب والا! ایوان کے سامنے ایک ریزولیوشن اور ایک تحریک ہے۔ تحریک جو کہ معزز وزیرقانون نے پیش کی تھی کا متن حسب ذیل ہے: ’’رولز آف بزنس کے قاعدہ نمبر۲۰۵ کے تحت میں مندرجہ ذیل تحریک پیش کرنے کا نوٹس دیتا ہوں۔ یہ کہ یہ ایوان ایک ایسی خصوصی کمیٹی کی تشکیل کرے جو کہ پورے ایوان پر مشتمل ہو، اس کمیٹی میں وہ تمام اشخاص شامل ہوں جو ایوان کو خطاب کرنے کا حق رکھتے ہوں۔ نیز ایوان کی کاروائی میں حصہ لینے کا استحقاق رکھتے ہوں۔ سپیکر صاحب! اس خصوصی کمیٹی کے چیئرمین ہوں اور یہ کمیٹی مندرجہ ذیل امور سرانجام دے:
۱… دین اسلام کے اندر ایسے شخص کی حیثیت یا حقیقت پر بحث کرنا جو حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ﷺ ہونے پر ایمان نہ رکھتا ہو۔
۲… کمیٹی کی جانب سے متعین کردہ میعاد کے اندر اراکین سے تجاویز، مشورے، ریزولیوشن وصول کرنا اور ان پر غور کرنا۔
۳… مندرجہ بالا متنازعہ امور کے بارے میں شہادت لینے کے بعد اور ضروری دستاویزات پر غور کرنے کے بعد سفارشات پیش کرنا۔
کمیٹی کی کاروائی کے لئے ’’کورم‘‘ چالیس اشخاص کا ہوگا۔ جن میں سے دس کا تعلق ان پارٹیوں سے ہوگا جو کہ قومی اسمبلی کے اندر حکومت کی مخالف ہیں یعنی حزب اختلاف سے تعلق رکھتے ہوں۔‘‘
جناب والا! ایک دوسرا ریزولیوشن ہے۔ جو کہ اس ایوان کے سینتیس(۳۷) معزز اراکین نے پیش کیا تھا)
----------
(اس مرحلہ پر ڈپٹی سپیکر نے کرسی صدارت سنبھالی اور چیئرمین صاحب نے کرسی صدارت چھوڑ دی)
----------
(جناب یحییٰ بختیار: جناب والا! اس ریزولیوشن کا متن یہ ہے:
ہم مندرجہ ذیل ریزولیوشن پیش کرنے کی التماس کرتے ہیں۔ ہر گاہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔
اور ہر گاہ مرزاغلام احمد کا جھوٹا دعویٰ نبوت کئی ایک قرآنی آیات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش اور جہاد کو منسوخ کرنے کی کوشش۔ یہ سب باتیں اسلام کے بنیادی اصولوں کے ساتھ دغا اور فریب ہیں۔
اور ہرگاہ وہ (مرزاغلام احمد قادیانی) سراسر سامراج کا پیدا کردہ تھا۔ جس کا واحد مقصد اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور اسلام کو بدنام کرنا تھا۔
اور ہرگاہ تمام ملت اسلامیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مرزاغلام احمد کے پیروکار، خواہ وہ اسے نبی مانتے ہوں یا اسے کسی شکل میں بھی مذہبی رہنما یا مصلح متصور کرتے ہوں۔ تمام کے تمام دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
اور ہرگاہ اس کے پیروکار خواہ وہ کسی بھی نام سے جانے جاتے ہوں۔ سب کے سب اپنے آپ کو اسلام کا ایک فرقہ ظاہر کرتے ہوئے ملک کے اندر اور ملک سے باہر تخریب کاری میں ملوث ہورہے ہیں۔
اور ہرگاہ ۶؍اپریل تا۱۰؍اپریل ۱۹۷۴ء کو مکہ المکرمہ میں ورلڈ مسلم آرگنائزیشن کی کانفرنس جو کہ رابطہ عالم اسلامی کے تحت منعقد ہوئی اور جس میں تمام دنیا کی ۱۴۰ تنظیموں نے حصہ لیا۔ اس کانفرنس نے متفقہ طور پر اعلان کیا کہ قادیانیت، اسلام اور تمام عالم اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے جو کہ محض جھوٹ اور فریب سے اپنے کو اسلام کا ایک فرقہ ظاہر کرتی ہے۔
چنانچہ یہ اسمبلی یہ اعلان کرتی ہے کہ مرزاغلام احمد کے پیروکار، خواہ وہ کسی نام سے بھی پکارے جاتے ہوں۔ مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ اسمبلی میں ایک مسودہ قانون پیش کیا جائے۔ تاکہ اس اعلان کو قانونی طور پر نافذ کرنے کے لئے آئین میں ضروری ترمیم کی جاسکیں اور ان کے جائز قانونی حقوق کو بطور غیرمسلم اقلیت کے تحفظ دیا جاسکے۔
جناب والا! یہ دو تحاریک ہیں۔ ایک ریزولیوشن ہے اور ایک تحریک، ان کے علاوہ کچھ اور ریزولیوشن بھی ہیں جو کہ اس ایوان کے زیرغور ہیں۔ لیکن ان کا زیادہ تر تعلق آئینی ترامیم کی تجاویز کے بارے میں ہے۔ دو وجوہات کے باعث میں ان کے متعلق کچھ گذارش پیش کروں گا۔ نمبرایک صرف یہی دو دستاویزات اخباروں میں شائع ہوئی تھیں اور ان دستاویزات کی بنیاد پر متعلقہ جماعت (احمدیہ) نے اپنے اپنے جوابات اور عرض داشتیں پیش کی تھیں۔ ان کے بیانات بھی ان ہی دستاویزات کی بنیاد پر لئے گئے تھے۔ اس لئے دوسرے ریزولیوشن کے بارے میں کچھ کہنا قرین انصاف نہ ہوگا۔ کمیٹی کو ان کے بارے میں کاروائی کرنے کا پورا اختیار ہے۔ جسے کسی مرحلہ پر استعمال کرنے کی مجاز ہے۔ تاہم میں اپنی گذارشات کو ان دو دستاویزات تک محدود رکھوں گا اور مختصر تبصرہ کروں گا۔ پیشتر ازیں کہ اس ضابطہ پر بات کروں جو کہ ان دستاویزات پر غور کرنے کے لئے اختیار کیا گیا تھا۔ مجھے امید ہے کہ اگر میں بے باکی سے اپنی گذارشات پیش کروں تو اس کا غلط مطلب نہیں لیا جائے گا۔
آغاز میں پہلے وہ تحریک جو کہ عزت مآب وزیرقانون نے پیش کی تھی۔ جناب والا! تحریک کے الفاظ ہیں: ’’دین اسلام کے اندر ایسے شخص کی حیثیت یا حقیقت پر بحث کرنا جو حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان نہ رکھتا ہو۔‘‘
آئیے! پہلے اس جملہ یا ترکیب کو لیں۔ ’’اسلام کے اندر حیثیت یا حقیقت پر بحث کرنا۔‘‘ اگر ایوان کی یہ رائے ہو کہ جو لوگ حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے وہ مسلمان نہیں ہیں۔ تو پھر ایسے لوگوں کا اسلام میں کوئی مقام نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا اسلام سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ تحریک بذات خود اپنے اندر تضاد رکھتی ہے۔ اگر یہ کہا جاتا کہ ’’اسلام میں یا اسلام کے حوالہ سے بحث کرنا‘‘ تو پھر بات سمجھ میں آسکتی تھی۔ لیکن یہ کہنا کہ اسلام میں حیثیت یا مقام اس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک تضاد ہے جو زیادہ اہم نہ بھی ہو۔ لیکن یہ تضاد ایوان کے نوٹس میں لانا میرا فرض تھا۔ یہ آپ نہیں کہہ سکتے کہ اسلام میں ان کی حیثیت کیا ہے۔ ہاں! یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے حوالے سے ان کی حیثیت کیا ہے۔ جناب والا! جو ریزولیوشن سینتیس(۳۷) اراکین نے پیش کی ہے میں نہایت ادب سے گزارش کروں گا کہ اس میں بھی کچھ تضاد ہے۔ میں زیادہ تفصیل میں تو نہیں جاؤں گا۔ تاہم معزز اراکین اس بات کو نوٹ کریں کہ ایک جگہ کہا گیا ہے کہ: ’’ہرگاہ مرزاغلام احمد سامراج کا پیدا کردہ تھا جس کا واحد مقصد اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرتا اور اسلام کو بدنام کرتا تھا۔‘‘
پھر آگے چل کر کہا گیا: ’’ہرگاہ ملت اسلامیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مرزاغلام احمد کے ماننے والے خواہ وہ اسے نبی مانتے ہوں یا مذہبی رہنما یا مصلح تصور کرتے ہوں۔ اسلام کے دائرے سے خارج ہیں۔‘‘
پھر آگے چل کر: ’’(مرزاغلام احمد کے) پیروکار خواہ وہ کسی نام سے پکارے جاتے ہوں۔ سب کے سب اپنے آپ کو اسلام کا ایک فرقہ ظاہر کرتے ہوئے ملک کے اندر اور ملک کے باہر تخریب کاری میں ملوث ہورہے ہیں۔‘‘
یہ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اس کے بعد مطالبہ ہے کہ انہیں غیرمسلم اقلیت قرار دو۔ یعنی غیرمسلم مذہبی اقلیت اور آئین میں ترمیم کرو اور ان کے جائز قانونی حقوق کا تحفظ کرو۔ کیا آپ تخریب کاری کو دوام دینا چاہتے ہیں۔ کیا آپ ان چیزوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں جن کا ذکر دیباچہ میں کیاگیا ہے۔ یہ ایک ایسا تضاد ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا تھا۔ ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ انہیں ایک اقلیت قرار دو۔ ایک الگ اکائی بناؤ اور جب آپ ایسے کرتے ہیں تو آپ کو ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر چارہ کار نہیں اور یہ ریزولیوشن کا ایک بہت ہی عمدہ جزو ہے۔ میں اس کی قدر کرتا ہوں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے جائز حقوق کا قانونی تحفظ کیا جائے تو اس کی تعریف کرتا ہوں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ (جماعت احمدیہ) ایک تخریبی تحریک ہے۔ وہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر تخریب کاری میں ملوث ہیں۔ وہ تخریب کاری کیا ہے۔ ان کے اپنے مذہب (یا عقیدے) کا پرچار۔ ان کے (اپنے عقیدے کے مطابق) مذہب پر عمل درآمد، آپ ان کے حقوق کا تحفظ بھی چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کی مذمت بھی کرتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں یک جانہیں ہوسکتیں۔ یہ تو بالکل صاف بات ہے۔ میں کوئی تنقید نہیں کر رہا۔ مجھے تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں۔ لیکن میرا فرض ہے کہ میں معزز اراکین کی توجہ اس امر کی طرف دلاؤں کہ اگر آپ شہری آبادی کے کسی حصے کو ایک الگ مذہبی جماعت قرار دیتے ہیں تو پھر نہ صرف ملک کا آئین بلکہ آپ کا مذہب تقاضا کرتا ہے کہ آپ ان کے حقوق کی حفاظت کریں۔ ان کو اپنے مذہب کے پرچار اور عمل کا حق دیں۔ اس سے زیادہ میں کچھ اور نہیں کہنا چاہتا۔ کیونکہ مجھے پورا احساس ہے کہ میرے پاس وقت بہت ہی محدود ہے۔
چنانچہ ان دو دستاویزات کی روشنی میں (تحریک اور ریزولیوشن) اس معزز ایوان نے کچھ متنازعہ امور کا فیصلہ کرنا ہے جوکہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱… کیا مرزاغلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔
۲… اس دعوے کا اسلام میں یا اسلام کے حوالے سے کیا مضمرات ہیں۔ میں نے اسلام میں اور اسلام کے حوالے سے دونوں کا ذکر کیا ہے۔
۳… ختم نبوت کا مطلب یا تصور کیا ہے۔ جب ہم خاتم النّبیین کہتے ہیں تو ہمارا کیا مطلب ہوتا ہے۔
۴… کیا ملت اسلامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرزاغلام احمد کے پیروکار جو اسے نبی یا مسیح موعود مانتے ہیں یا دونوں حیثیتوں سے مانتے ہیں، دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
۵… کیا مرزاغلام احمد اور اس کے پیروکار ایسے مسلمانوں کو جو مرزاغلام احمد کو نبی یا مسیح موعود نہیں مانتے۔ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تصور کرتے ہیں۔
۶… کیا مرزاغلام احمد نے ایک علیحدہ مذہبی جماعت کی بنیاد رکھی جو کہ دائرہ اسلام سے باہر ہے۔ یا کہ اس نے اسلام کے اندر ہی نئے فرقے کا آغاز کیا۔
۷… اگر اس نے الگ مذہبی جماعت کی بنیاد رکھی تو ایسی جماعت کا اسلام کے حوالے سے کیا مقام یا حیثیت ہوگی اور آئین کے مطابق اس جماعت کے حقوق کیا ہوں گے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں اور لاہوریوں کی اسمبلی میں پیش ہونے کی درخواست)
اب میں مختصر طور پر ان واقعات کا ذکر کروں گا جو ریزولیوشن اور تحریک کے پیش ہونے کے دن سے رونما ہوئے۔ یہ (ریزولیوشن اور تحریک) ۳۰؍جون ۱۹۷۴ء کو پیش کئے گئے تھے۔ ان کے شائع ہونے کے بعد مرزاغلام احمد کے ماننے والے دو گروپوں کی طرف سے دو یادداشتیں داخل کی گئی تھیں۔ اس کے بعد دونوں گروپوں کے نمائندوں کو بلایا گیا تھا کہ وہ حلف لینے کے بعد اپنے بیانات اور یادداشتوں کو پڑھ کر سنائیں۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے زبانی بیان دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ تاکہ وہ اپنا نقطۂ نظر زیادہ طور پر واضح کر سکیں۔ جو دستاویزات انہوں نے داخل کیں۔ ان میں ریزولیوشن میں عائد کردہ تمام الزامات سے انکار کیاگیا۔ ایوان کی کمیٹی نے ایک سٹیرنگ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ سوالات کو وصول کرے اور ان کا تجزیہ کرے۔ اس مقصد کے لئے کمیٹی نے مجھے ہدایت کی ہے۔ ۲۵؍جولائی ۱۹۷۴ء سے اسلام آباد میں موجود رہوں۔ اسی ہدایت کے مطابق میں ۲۱؍جولائی کو اسلام آباد آگیا تھا۔ سٹیرینگ کمیٹی نے سوالات کی جانچ پڑتال ایک ہفتہ میں کرلی۔ حالانکہ سوالات سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔ مرزاناصر احمد کی سربراہی میں احمدیہ جماعت ربوہ کا بیان ۵؍اگست تا۱۰؍اگست کو ہوا۔ اس کے بعد دس یوم کا وقفہ رہا۔ مرزاناصر احمد کا مزید بیان ۲۰؍اگست تا۲۴؍اگست ہوا۔ کل گیارہ روز تک بیان ہوتا رہا۔ اس کے بعد احمدیہ جماعت کے دوسرے گروہ کا بیان ہوا۔ جس کے سربراہ مولانا صدرالدین تھے۔ چونکہ مولانا صدرالدین کافی بوڑھے ہیں اور اچھی طرح بات سننے کی قوت نہیں رکھتے۔ اس لئے ان کا بیان میاں عبدالمنان عمر کے وسیلہ سے ہوا۔ ان کا بیان دو دن میں ہوا۔ یہ اس وجہ سے نہیںہوا کہ ایوان کسی قسم کا امتیاز برت رہا تھا۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سے حقائق، دستاویزات اور مرزاغلام احمد کی تحریریں پہلے گروپ کے بیانات میں ریکارڈ پر آچکے تھے اور جہاں تک دوسرے گروہ کا تعلق ہے۔ مزید تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہ تھی۔
 
Top