ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
قومی اسمبلی میں انیسواں دن Thursday, the 5th September. 1974.
(کل ایوانی خصوصی کمیٹی بند کمرے کی کارروائی)
(۵؍ستمبر ۱۹۷۴ئ، بروز جمعرات)
----------
The Special Committee of the Whole House met in Camera in the Assembly Chamber, (State Bank Building), Islamabad, at nine of the clock, in the morning. Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.
(مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس اسمبلی چیمبر (سٹیٹ بینک بلڈنگ) اسلام آباد بند کمرے میں صبح نو بجے جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) کی زیرصدارت منعقد ہوا)
---------- (Recitation from the Holy Quran)
(تلاوت قرآن شریف)
----------
QADIANI ISSUE- GENERAL DISCUSSION
(قادیانی مسئلہ… عمومی بحث)
جناب چیئرمین: جناب محمد حنیف خان! (جناب محمد حنیف خان کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب محمد حنیف خان: جناب سپیکر! اس معزز اسمبلی کے سامنے جو مسئلہ پیش ہے اس مسئلے کو اس تمام ایوان کی کمیٹی کے سامنے اس لئے پیش کیاگیا ہے کہ کمیٹی ہر دو لاہوری اور قادیانی مکتب نظر سے اپنے آپ کو آگاہ کرنے اور ان کے مؤقف کے مطابق ایسا فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکے کہ آیا جو محرکات ہمارے اس ملک میں ربوہ کے واقعہ سے پیش ہوئے ہیں یہ معزز اسمبلی اور نیشنل اسمبلی کے معزز ممبران اس کے متعلق اپنا کچھ نظریہ یا مؤقف بیان کرنے کے قابل ہوسکیں۔
جناب سپیکر! میں زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ میرے معزز اراکین اسمبلی نے اس مسئلے پر سیر حاصل تقریریں بھی یہاں کی ہیں اور اٹارنی جنرل صاحب بھی اس شہادت کی روشنی میں جو اس کمیٹی کے سامنے گذر چکی ہے اپنے اس تمام 2622مقدمے کا ماحصل اس کمیٹی کے سامنے ابھی تھوڑی دیر کے بعد پیش کریں گے۔ لیکن میں اپنی بات کو ضرور ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ اس کے متعلق ایک انفرادی حیثیت سے انفرادی ممبر اور اپنے متعلق میں یہ کہوں گا کہ میرے کیا تأثرات ہیں۔
جناب سپیکر! میں اس بات میں بھی نہیں جاؤں گا کہ یہ بانی سلسلہ کس دور سے تعلق رکھتے تھے، کب پیدا ہوئے اور وہ وقت مسلمانوں کی تاریخ میں کیا تھا۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ اس وقت خلافت عثمانی جو تھی اپنے آخری دور میں تھی اور خلافت عثمانی کے خلاف تمام یورپ، روس اور یورپ کی تمام وہ طاقتیں جو مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے تھیں اور اسلام کا شیرازہ بکھیرنا انہوں نے اپنا مقصد سمجھ لیا تھا اور ان کا منتہائے مقصود تھا، انہوں نے بین الاقوامی طور پر کیا سازشیں کیں اور میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ اس وقت یہ عین موزوں اور مناسب تھا کہ ان طاقتوں کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار کسی طرف سے آجائے کہ مسلمانوں کے جذبۂ جہاد کو وہ مفقود یا سراسر سرد کر سکیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ انہوں نے وہ مقصد کس طرح پیدا کیا۔ یہ ان کی شہادت سے بھی عیاں ہے اور یہاں ہمارے معزز اراکین اسمبلی بھی بیان کر چکے ہیں کہ انہوں نے کتنی کتب جہاد کے فلسفہ کو تبدیل کرنے کے لئے یا ان کے قول یا عقیدے کے مطابق مسیح موعود کی آمد پر اس جہاد کی تاویل کو تبدیل کرنے میں کتنا مؤثر کردار ادا کیا۔
جناب والا! مذہبی لوگ اور علماء یہاں بیٹھے ہیں۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ کسی قرآن کی آیت کا ترجمہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں اور ہمارے آباؤ اجداد اور اسلاف جو ہیں ہمیں جس کی تلقین کرتے آئے، ان کے نزدیک ایک نئی صورت میں ایک نئے ترجمے میں اب پیش کیا جارہا ہے۔ یہ تو میں نہیں کہوں گا کہ یہ ان کا ترجمہ درست ہے یا غلط ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک تو ضرور درست ہے۔ لیکن باقی عامتہ المسلمین کے لئے 2623نہ پہلے درست رہا ہے اور نہ اب وہ اسے درست سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ حضرت مسیح یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان کے عقیدے سے بالکل مختلف ہے۔ ہم حضرت مریم کو پاک معصوم اور ہرگناہ سے مبرّا قرآن کی بشارت سے سمجھتے آئے ہیں اور انشاء اﷲ! سمجھتے رہیں گے۔ ہمیں نعوذ باﷲ! قطعاً یہ کبھی شک پیدا نہیں ہوسکتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پاک روح نہیں تھے۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ پاک روح تھے اور اسی پاکیزگی کی بدولت انہیں صلیب نہیں دیاگیا۔ انہیں آسمان پر اٹھایا گیا اور ہمارے عقیدے کے مطابق وہ دنیا میں اس وقت آئیں گے جب کہ کفر کا غلبہ ہوگا۔
میں یہاں ایک یہ بات واضح کر دوں، میں موجود نہیں تھا، شاید علماء صاحبان نے یہ واضح کیا ہے یا نہیں، ان کی یہ دلیل ہے کہ حضرت مسیح موعود اگر زندہ ہیں تو محمد رسول اﷲ ﷺ آخری پیغمبر نہیں قرار دئیے جاسکتے۔ کیونکہ ایک زندہ پیغمبر اگر موجود ہو، ایک زندہ نبی موجود ہو اور وہ آخری پیغمبر جس پر ہمارا عقیدہ ہے اس کے بعد اگر اس دنیا میں آئے گا تو اس کی تکمیل، اس کا ختم ہونا یا خاتم ہو وہ رد ہو جائے گا، اور بعدمیں آنے والا خاتم سمجھا جائے گا۔ لیکن ہمارے عقیدے کے مطابق یہ ہے کہ وہ اگر آئے گا تو وہ نبی کی حیثیت سے عیسائیت کی رد میں نہیں آئے گا بلکہ مسلمانوں کے امام مہدی کے آگے وہ بحیثیت امی ہوکر آئے گا اور اس کے لئے یہ فخر ہوگا کہ وہ ہمارے محمد مصطفی ﷺ کے دین پر قائم ہونے کا اقرار اور اعلان کرے گا اور اس پر وہ فخر محسوس کرے گا۔
دوسری بات جو میں معزز اراکین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ باتیں بہت سی کی جاچکی ہیں۔ جس طرح کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ جہاد کے جذبے کو سرد کیا جائے تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ ان کی شہادت سے، ان کی کتب ہائے سے، یہ تاثر ملتا ہے کہ اس وقت جہاد کے لئے ایک مکتبہ فکر کو آگے کیا گیا اور 2624اس کے بعد جس وقت یہ دیکھا گیا کہ لوگ اس کو کلی طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس میں ایک دوسرا فرقہ سامنے آیا جو اپنے آپ کو لاہوری ظاہر کرتا تھا۔ لاہوری فرقہ میں بھی سوائے اس کے میں کوئی فرق نہیں سمجھتا، جس طرح اس دن میں نے لاہوری فرقہ کے موجودہ عقائد کی شہادت سے اور اٹارنی جنرل کی ان پر جرح ہائے سے یہ اندازہ لگایا کہ وہ ’’کفر دون کفر‘‘ کا جو وہ مقصد بیان کرتے ہیں وہ اپنے لئے لگاتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے ’’کفر دون کفر‘‘ کا یہ مقصد قطعاً کسی وقت بھی نہیں لیا اور نہ یہ معنی کیا گیا ہے کہ ایک نبی کی نبوت کو کوئی اگر چیلنج کرے اور مذہبی نبوت جو ہے اس کو وہ اگر نبی نہ مانے اور اس کو مجدد مانے یا برگزیدہ مانے یا کسی صورت سے بھی اسلام کے ساتھ متعلقہ مانے تو وہ دون کفر نہیں ہے۔ بلکہ وہ کفر کی تکمیل ہوتی ہے اور وہ مکمل کافر ہوتا ہے۔
میں نے ایک سوال میں پوچھا تھا اور آپ کو یاد ہوگا اور وہ سوال یہ تھا کہ کفر کی اصطلاح قرآن پاک میں کس معنی میں استعمال کی گئی ہے اور کس معنی میں لی گئی ہے۔ تو ناصر محمود صاحب (مرزاناصر احمد) خلیفہ ثالث نے بڑی جرأت سے یہ کہا تھا کہ قرآن میں کفر کی اصطلاح جو ہے وہ صرف ملت اسلامیہ کی اور کفر کی تکمیل کے لئے استعمال کی گئی ہے اور دوسری اصطلاح جو انہوں نے یہاں ہمیں سنائی ہے اور رائج کی کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو تو ملت اسلامیہ میں بھی رہ سکتا ہے۔ انہوں نے یہ فرمایا کہ کفر یا کافر کا لفظ جو اسلام میں ، جو قرآن میں مذہبی سلسلہ میں مذہبی واسطہ سے استعمال ہوا ہے وہ دائرہ اسلام اور ملت اسلام دونوں کی تکمیل کرتا ہے اور وہ لفظ جس وقت استعمال ہوگا قرآن میں اس سے یہ مقصد لیا جائے گا کہ وہ دونوں سے خارج ہوگیا۔
جناب والا! سمجھ میں نہیں آتا، میں ایک بات عرض کروں کہ میں اپنے علماء صاحبان سے بھی نہایت ادب سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ بھی اس بات کو سامنے ضرور رکھیں۔ ہمارے سامنے مسئلہ اکثریت اور اقلیت کا 2625ہے۔ میں اس پر زیادہ بحث نہیں کرنا چاہتا اور جو باتیں میں نے کہیں وہ اس لئے کہیں۔ کیونکہ اٹارنی جنرل صاحب تشریف نہیں لائے تھے۔ اب وہ تشریف لاچکے ہیں اور وہ زیادہ تفصیل سے باتیں کریں گے۔
آخر میں ایک بات کہوں گا کہ ہمارے سامنے ایک سوال ہے اور اس سوال کا میں اپنی دانست اور بساط کے مطابق ایک جواب دینا چاہتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اقلیت کون ہے۔ آیا وہ اقلیت ہیں یا نہیں۔ آیا وہ غیرمسلم اقلیت ہیں یا مسلم اقلیت ہیں۔
جناب والا! وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور ہم لوگوں کو یا جو مرزاصاحب کو مسیح موعود نہ مانے یا وہ جیسا عقیدہ ان کا ہے وہ نہ مانے تو وہ جو کہتے ہیں کہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ جناب والا! اگر ہم لوگ ان کے دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں تو جزاک اﷲ! یہاں اس پاکستان میں وہ لوگ۹ء ۹۹فیصد اکثریت سے بستے ہیں جو ان کے دائرہ سے خارج ہیں اور اگر انہی کی بات کو لیا جائے اور انہی کی بات پر بھروسہ کیا جائے تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گا کہ وہ اپنی اس بات سے ہی اپنے آپ کو اقلیت ثابت کر چکے ہیں۔ کیونکہ ان کے قول کے مطابق ۹ئ۹۹فیصد جو ہیں، وہ اکثریت جو ہے وہ ان کے دائرہ سے الگ ہے، ان کی شادی ان سے الگ ہے، ان کی عبادت ان سے الگ ہے، ان کا رہنا سہنا ان سے الگ ہے، ان کا پیغمبر ان سے الگ ہے، ان کا عقیدہ ان سے الگ ہے، ان کی آیات کا ترجمہ ان کے قرآن کی آیات سے علیحدہ ہے۔ تو اس لئے جناب والا! جس وقت پاکستان بنایا گیا تھا اس وقت ہم نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ہم مسلمان ہیں، ہماری تہذیب الگ ہے، ہماری عبادت الگ ہے، ہمارا مذہب الگ ہے، ہمارا خدا الگ ہے، ہمارا ان بتوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہندو جن کی پوجا کرتے ہیں تو اس صورت میں ہمیں ایک علیحدہ وطن ملا تھا اور اٹارنی جنرل نے نہایت 2626قابلیت اور اہلیت سے اس بات کو ان کے منہ سے کہلوایا اور ثابت کیا۔ اس ہاؤس کے سامنے کہ جس وقت باؤنڈری کمیشن ریڈ کلف ایوارڈ دے رہا تھا یا پاکستان کا فیصلہ کر رہا تھا… (مداخلت)
جناب سپیکر! مجھے ایسا احتجاج اس بات پر ہے کہ اگر ہم داڑھی منے یا جن کو غیرمتشرع سمجھا جاتا ہے، ایسی تقریر میں جو دین کے متعلق ہو، جو اسلام کے متعلق ہو، جو قرآن کے متعلق ہو، وہ کی جائے تو حکم نہیں ہے کہ اس طرح سے چلا پھرا جائے۔ میں نہایت ادب سے کہوں گا کہ دو عالم جو اپنے آپ کو عالم بھی سمجھتے ہیں اور دین کے نہایت ماہر بھی اپنے آپ کو سمجھتے ہیں، ایک شریف معزز رکن تقریر کر رہا ہے اور یہ اس طرح آتے جاتے ہیں جس طرح کوئی بات نہیں ہورہی۔ تو یہ بات نہیں ہونی چاہئے۔ اگر کوئی سنجیدہ بات ہو تو اس میں ایک عالم کو کم ازکم نہایت سنجیدہ ہونا چاہئے اور کسی تقریر میں اس طرح کا تأثر پیدا نہ ہو۔ وہ عالم ہے، وہ اس معزز رکن سے زیادہ سمجھتا ہے اور جو باتیں معزز رکن کر رہا ہے، وہ کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے۔
تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ جس وقت پاکستان بن رہا تھا اس وقت ہم نے ایک مؤقف اختیار کیا تھا کہ ہم ہندوؤں سے کیوں علیحدہ ہیں۔ میں اس لئے اقلیت اور اکثریت کی بات کرتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں نے خود کہا کہ ہم اقلیت ہیں اس لئے ہم علیحدہ قوم ہیں۔ ہماری عبادت الگ ہے، ہماری عام عبادت کا قاعدہ الگ ہے، ہمارا جنازہ جو ہے وہ الگ ہے، ہم دفن کرتے ہیں۔ زمین میں اور نماز جنازہ کرتے ہیں اور ہندو جو ہیں وہ اس کو جلاتے ہیں اور وہ اس پر ڈھول اور ساز بجاتے ہیں۔ ہم نے یہ کہا تھا کہ ہم ان کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتے۔ کیونکہ ہمارے لئے تو حرام ضرور ہے۔ لیکن ہندو بھی یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان جو ہے اس کے ساتھ وہ کھانا نہیں کھا سکتا۔ ہماری مجلسی زندگی، ہماری مذہبی زندگی ہندوؤں سے چونکہ الگ تھی۔ اس لئے ہمیں علیحدہ مذہب، علیحدہ قوم 2627قرار دیا گیا۔ تو ہم نے یہ دیکھا اس ایوان میں، جناب! آپ نے بھی اس ایوان میں دیکھا، شاید میں پہلا آدمی ہوتا اگر وہ یہاں اس ایوان میں اتنا بھی کہہ دیتے کہ ہم تو مسلمان ہیں۔ لیکن مرزاصاحب کو جو نہیں مانتا اور مسلمان خدا اور رسول کو اور کتاب وسنت کو مانتا ہے۔ ہم اسے غیرمسلم نہیں کہتے۔ تو پھر بھی کچھ گنجائش نکل آتی۔ لیکن کتنی ستم ظریفی ہوگی کہ اگر ایک گواہ یہاں پیش ہوکر مجھے یہ کہے کہ آپ کو میں کافر سمجھتا ہوں، آپ کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور مجھے یہ بھی کہنے کی اجازت نہ ہو یا میں اتنی بھی جرأت نہ کر سکوں یا میں یہ بھی نہ کہہ سکوں کہ بھائی! آپ کے دائرہ اسلام سے اگر ہم خارج ہیں تو ہم آپ کو اپنے دائرہ اسلام سے بھی خارج سمجھتے ہیں۔
جناب عالی! یہ میں نہیں کہہ رہا، یہ انہوں نے کہا ہے۔ انہوں نے چونکہ ہمیں خارج کیا۔ ’’امنا وصدقنا‘‘ ہم نے ان کا یہ کہنا قبول کیا۔ میرا خیال ہے تمام معزز ممبران ان کے اس کہنے پر تائید کریں گے کہ ان کے دائرے سے، ماشاء اﷲ! خداتعالیٰ نے ہم پر اپنی رحمت اور عنایت کی کہ ہم خارج ہوئے۔ لہٰذا ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ اگر ہم یہ نہ کہیں کہ وہ ہمارے دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
جناب عالی! میں نہایت معذرت کے ساتھ عرض کروں کہ آخر میں طریق کار کی بات رہ جاتی ہے۔ ہم نے ان کو کوئی قرار نہیں دیا، ہم نے ان کو اقلیت قرار نہیں دیا ہے اب تک۔ نہ ہم نے ان کے مذہب کو علیحدہ کیا ہے اب تک اپنے ساتھ سے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم آپ سے علیحدہ ہیں، آپ ہمارے دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ جو میں نے نکتے ان سے لئے۔ ہم آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے، ہم آپ کے ساتھ شادی نہیں کرتے، ہم آپ کے جنازے میں شریک نہیں ہوتے، ہماری مسجد اقصیٰ الگ، ہماری مسجد اقصیٰ کا مینار الگ، اگر کسی کو حج کی توفیق نہ ہو تو وہ چھوٹا حج یہاں (قادیان میں) ادا کرنے کے قابل ہو 2628تو اس کا حج قبول۔ اگر وہ فرضی حج کرتا ہو اس کے بعد وہاں مسجد اقصیٰ میں اگر جاتا ہو تو اس کا چھوٹا حج قبول۔ تو یہ چونکہ انہوں نے خود کہا ہے، جزاک اﷲ! ہم کہتے ہیں کہ ان کو یہ خیالات مبارک ہوں، خدا ہمارے خیالات ہم کو مبارک کرے۔
لیکن آخر میں میں یہ کہوں گا کہ ہمیں اس مسئلے کو اچھی طرح حل کرنا چاہئے۔ ہمیں اس مسئلے کو نہ کوئی سیاسی رنگ دینا چاہئے اور نہ انفرادی اہمیت سے کوئی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ جس آدمی نے بھی ختم نبوت کے مسئلہ کو اپنے سیاسی عروج کا ذریعہ بنایا تو وہ حضرت محمد ﷺ کی برکت سے اس دنیا میں ذلیل ہوا ہے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو میرا پکا ایمان اور پکا یقین ہے اور عقیدہ ہے کہ پھر بھی وہ ذلیل ہوگا۔ میں نہایت ادب سے معزز ممبران سے یہ استدعا کروں گا کہ بڑے اچھے طریقے سے اور خوش اسلوبی سے اس مسئلہ کو حل کیا جائے۔ تاکہ ملک انتشار سے بچ جائے۔ اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں یا ہم اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا نام لیوا کہتے ہیں تو میں آپ کی خدمت میں عرض کردوں کہ ہمارے پیغمبر ﷺ کو خدا کی طرف سے یہ حکم نہیں ہے کہ وہ تبلیغ کرتے وقت اگر ان کی تبلیغ پر کوئی ’’امنا وصدقنا‘‘ نہ کرے تو اس پر نہ ہی ان کو غصہ کرنے کی اجازت خدا نے دی ہے، نہ اس پر ان کو کوئی ایسی بات کرنے کی اجازت دی ہے کہ خدانخواستہ یہ ظاہر ہو سکے کہ کسی قسم کا جبر یا استبداد استعمال کیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے بحیثیت مسلمان کے کہ ہر اس آدمی کی جو اس وقت ہمارے وطن عزیز میں رہتا ہے۔ خواہ وہ غیرمسلم پارسی ہے، سکھ ہے، عیسائی ہے، مرزائی قادیانی ہے یا لاہوری ہے، ان کی جان ومال کی حفاظت، عزت وآبرو، عبادت اور عبادت گاہ، ہم تمام کے اوپر ان کی حفاظت لازم آتی ہے۔ ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم ان کی حفاظت کریں۔ میں نہایت ادب سے یہ کہوں گا کہ ہمارے بائیں 2629ہاتھ کی طرف دو تین آدمی بہت بڑے عالم بیٹھے ہیں جن کی تقریر کا شاید ایک فقرہ پڑھا یا دو فقرے پڑھے۔ مجھے پہلے بھی اعتراض رہا ہے۔ ان کو میں نے پہلے کہا بھی ہے۔ نام نہیں لیتا۔ میں ان سے بھی کہوں گا کہ اشتعال انگیز تقریر نہ ملک کے مفاد میں ہے، نہ ہی مذہب کے مفاد میں ہے اور نہ ہی سیاست اس کی اجازت دیتی ہے اور نہ مذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔
جناب والا! میں آپ کا نہایت مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے موقع دیا۔
Mr. Chairman: Thank you. Before I give floor to Malik Jafar,....
(جناب چیئرمین: شکریہ! اس سے پہلے کہ میں ملک جعفر صاحب کو دعوت دوں…)
(Interruption) (مداخلت)
جناب چیئرمین: سب سے پہلے میں مولانا عبدالحکیم صاحب کا بہت ہی مشکور ہوںِ ہاؤس کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے یہ حکم کیا کہ یہ جو کتاب انہوں نے ابھی بجھوائی ہے یہ تقسیم کر دی جائے، یعنی پڑھی نہ جائے اور تقسیم کر دی جائے۔ ممبر صاحبان خود پڑھ لیں گے۔ This may be distributed at once. Before I give floor to Malik Mohammad Jafar, (اس کتاب کو فوری طور پر تقسیم کر دیا جائے۔ اس سے پہلے کہ میں ملک محمد جعفر کو دعوت دوں) میں دو امور کے متعلق کچھ کہناچاہتا ہوں ایک سیکورٹی Arrangements (انتظامات) کے متعلق میں آپ کے ساتھ کچھ بات کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہم In future (مستقبل میں) سیکورٹی Arrangements (انتظامات) کچھ اس طرح سے کریں کیونکہ صرف میری ہی ذمہ داری نہیں ہے، یہ ہم سب کی Collective (اجتماعی) ذمہ داری ہے تو اس لئے Before I give the floor to Malik Jafar, I would like to state that in future security arrangements are our responsibility. We find so many unwanted people who come in the canteen and other areas of the Assembly premises. Some of them bring with them cameras. People are bringing their friends. These things must come to an end. I am going to totally stop such things. (اس سے پہلے کہ میں ملک جعفر کو دعوت دوں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مستقبل میں سیکورٹی کے انتظامات ہماری ذمہ داری ہیں۔ بہت سے غیرمتعلقہ لوگ کینٹین اور اسمبلی کے گردونواح میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنے ساتھ کیمرہ لئے پھرتے ہیں۔ لوگ اپنے دوستوں کو ساتھ لے آتے ہیں۔ اس صورتحال کا خاتمہ ضروری ہے۔ میں ان سب چیزوں کو ختم کرنے لگا ہوں)
2630A Member: What about galleries?
جناب چیئرمین: گیلری والے کارڈ تو علیحدہ ہوتے ہیں۔ اسمبلی Premises (کی عمارت) میں داخل ہونے کے لئے کارڈ جو ہیں۔ اس لئے کہ پتہ نہیں کیا ہو جائے۔ You know what is happening (آپ کو پتا ہے کیا ہورہا ہے) اب تو ضروری ہوگیا ہے۔ اس کے لئے I need your cooperation (مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے) پہلے اڑھائی مہینے میں میں آپ کا مشکور ہوں۔ یہ صرف آپ کی بقاء نہیں ہے، یہ ملک کی بقاء کا بھی سوال ہے۔ اس میں مجھے یاد ہے کہ کیمرہ والے ساتھ تھے۔ اس لئے اندر آگئے۔ People are bringing their friends (لوگ اپنے دوستوں کو ساتھ لا رہے ہیں) ہینڈ بیگ اور اس طرح کی جو چیزیں ہوں گی I am going to totally stop them. I am going to stop unwanted people coming through gate nos.3 and 4. (میں ان چیزوں کو مکمل طور پر روکنے لگا ہوں۔ میں گیٹ نمبر۳ اور ۴ سے غیر متعلقہ لوگوں کا داخلہ بند کرنے لگا ہوں)
A Member: What about members?
(ایک رکن: اراکین سے متعلق کیا ہے؟)
Mr. Chairman: We trust our honourable members. People are bringing their friends.
(جناب چیئرمین: ہم اپنے معزز اراکین پر اعتماد کرتے ہیں۔ لوگ اپنے دوستوں کو لارہے ہیں)
ممبر صاحبان چاہے بستر بند لے آئیں، جو چاہیں لے آئیں اس میں ناراضگی کی بات نہیں ہے۔یہ سب کچھ آپ کی Cooperation (کے تعاون) سے ہوگا۔ I want your cooperation. (مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے)
میردریا خان کھوسو: کاروں کے ڈرائیوروں کے لئے آپ گنجائش رکھیں گے؟
Mr. Chairman: Of course, drivers will come. We have to come to certain decisions which are going to affect certain persons. I want your cooperation. After open 7th of September, we are going to open it. We have even to fill these galleries. As for sitting in the cafetaria, we have to regulate it. ایک دوسری چیز جس کے متعلق میں عرض کرنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ شام کو جوائنٹ سیشن ہے۔ The Prime Minister of Sri Lanka is adderessing the Joint 2631Session today. Before her arrival, I request that all the honourable members be seated in their seats by 5:55 pm. I will first welcome the Prime Minister of Sri Lanka. It will not take more than an hour. The House Committee will continue tomorrow.
(جناب چیئرمین: ظاہر ہے، ڈرائیور تو آئیں گے۔ ہمیں بہرحال کچھ فیصلے کرنا ہوں گے جو چند لوگوں پر اثر انداز ہوں گے۔ جب اوپن کریں گے تو اس وقت یہ ہوگا۔ مجھے آپ کا تعاون چاہئے۔ ۷؍ستمبر کے بعد ہم اسے اوپن کر دیں گے۔ ہمیں یہ گیلریاں بھی بھرنا ہوں گی۔ کیفے میں بیٹھنے والوں کو بھی ہمیں کنٹرول کرنا ہوگا۔ ایک دوسری چیز جس کے متعلق میں عرض کرنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ شام کو جوائنٹ سیشن ہے۔ سری لنکا کی وزیراعظم آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گی۔ ان کی آمد سے پہلے، میں تمام معزز اراکین سے درخواست کروں گا کہ شام ۵؍بج کر ۵۵منٹ تک اپنی نشستوں پر بیٹھ جائیں۔ میں پہلے سری لنکا کی وزیراعظم کو خوش آمدید کہوں گا۔ اس میں تقریباً ایک گھنٹہ لگے گا۔ ہاؤس کمیٹی کا یہ اجلاس کل جاری رہے گا)
وہ پہلا سواپانچ والا لیٹر غلط تھا۔ ہم نے کیٹگری والوں کو ساڑھے پانچ کا ٹائم دیا ہے۔ لیکن ممبر صاحبان پونے چھ بجے تک ہوں۔ پانچ بج کر پچپن منٹ پر انہوں نے آنا ہے تو کم ازکم دس منٹ پہلے ممبر صاحبان کو آجانا چاہئے۔ نماز مغرب سے پہلے ہم ختم کر دیں گے۔ اس ہاؤس کمیٹی کا جو سیشن ہے یہ کل Continue (جاری) کرے گا۔ پارلیمنٹ کا اجلاس ایک گھنٹہ چلے گا، ایک ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھیں گے، جیسے بھی آپ مناسب سمجھیں۔
پروفیسر غفور احمد: کل پانچ بجے ہے؟
جناب چیئرمین: پیرزادہ صاحب آرہے ہیں۔
Mr. Pirzada has come; and I met him in the morning. I think, I am sure much positive result will come and unanimous decision will be taken. And with these words, I am thankful to honourable members. I give the floor to Malik Jafar, and for five minutes I would speak with AG. I am leaving the House and the Deputy Speaker will take the chair.
(جناب چیئرمین: پیرزادہ صاحب آچکے ہیں اور میں انہیں صبح ملا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ کافی مثبت نتیجہ نکلے گا اور اتفاق رائے سے فیصلہ ہوگا۔ ان الفاظ کے ساتھ میں معزز اراکین کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں ملک جعفر کو دعوت دیتا ہوں اور پانچ منٹ کے لئے میں اٹارنی جنرل سے بات کروں گا۔ میں ایوان چھوڑ رہا ہوں اور ڈپٹی سپیکر کرسی، صدارت سنبھالیں گے)
خان ارشاد احمد خان: جناب چیئرمین صاحب! میں اجازت چاہتا ہوں۔
جناب چیئرمین: آپ کو بھی اجازت مل جائے گی۔ آپ کہاں رہے ہیں؟
ملک محمد جعفر: جناب چیئرمین! یہ پانچ منٹ کی بات ہے۔ میں اس بات کا بڑا خواہشمند تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب موجود ہوتے اور میری گزارشات کو سنتے۔
جناب چیئرمین: صرف پانچ منٹ۔ ارشاد احمد خان صاحب کو پانچ منٹ دے دیتے ہیں۔ Then we will come back within 5 minutes (پھر ہم پانچ منٹ میں واپس آجائیں گے)
2632مولانا عبدالحکیم: جناب چیئرمین صاحب!
جناب چیئرمین: جی، نہیں پڑھ سکتے آپ۔
مولانا عبدالحکیم: کتاب تو نہیں پڑھوں گا لیکن دو چار لفظ تو کہہ دوں۔
جناب چیئرمین: نہیں، On behalf of the House (ہاؤس کی طرف سے) ہاؤس Agree (اتفاق) کرتا ہے نا؟
مولانا عبدالحکیم: پرسوں آپ نے خود فرمایا تھا کہ آپ بولنا چاہیں تو بول سکتے ہیں۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi).]
(اس موقع پر جناب چیئرمین نے کرسی صدارت چھوڑ دی جو (ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی) نے سنبھالی)
----------
محترمہ قائمقام چیئرمین: مسٹر ارشاد احمد خان!
(جناب ارشاد احمد خان کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
جناب ارشاد احمد خان: جناب چیئرمین! میں یہ عرض کروں گا کہ یہ مذہبی معاملہ ایوان کے سامنے ہے۔ ’’
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ
‘‘ یعنی جو لوگ اور جو فرقے رسول پاک ﷺ کو مانتے ہیں وہ کسی دوسرے رسول کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ قادیانی ایسا فرقہ ہے جنہوں نے اپنا نیا نبی تیار کر لیا ہے۔ لہٰذا ہم اس نبی کو تسلیم کرنے کے واسطے بالکل تیار نہیں ہیں۔ ہم اپنے رسول اﷲ ﷺ کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ ہم مسلمان ہیں اور جو ہمارے رسول پاک ﷺ کو تسلیم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ وہ اقلیت میں رہیں گے۔ جیسا کہ اور فرقے ہریجن، عیسائی اور دوسرے فرقے ہیں۔ اسی طرح سے قادیانی بھی رہ سکتے ہیں اور ان کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔ لیکن وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جو شخص غلام احمد کو نبی نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہے۔ لہٰذا ہم بھی اس کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے، اور ان کے نبی کو نبی تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارا نبی وہ ہے جس کے واسطے اﷲ پاک نے فرمایا ہے کہ ’’
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ
‘‘ ہم اس 2633نبی کے پیروکار ہیں۔ وہ نبی ہمارا نجات دہندہ ہے۔ ہم اس کی امت ہیں۔ آئندہ کبھی بھی کوئی نبی نہیں آسکتا۔ ہم اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ میں عوام سے بھی استدعا کروں گا کہ ان لوگوں کو اقلیت قرار دینے کے واسطے ووٹ دیں۔ ان الفاظ کے ساتھ میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: ملک محمد سلیمان!
(جناب ملک محمد سلیمان کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
ملک محمد سلیمان: جناب چیئرمین! جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے۔ یہ ایک ۹۰سالہ پرانا مسئلہ ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد جب انگریزوں نے یہ دیکھا کہ ہر قسم کی تکفیر کے باوجود جب نعرہ تکبیر بلند کیا جاتا ہے تو تمام مسلمان اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہ جذبۂ جہاد ہے جو انہیں اکٹھا کرتا ہے۔ چنانچہ انگریزوں نے ایک منصوبہ بنایا کہ کسی طریقہ سے مسلمانوں کے دل ودماغ سے جہاد کا جذبہ خارج کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے گورداسپور کی زرخیز زمین کو چنا۔ وہاں سے سیالکوٹ کے ایک مراقی اہلمد اور عرضی نویس کو محدث، مجدد، مسیح الموعود اور بالآخر نبی تسلیم کرانے کی کوشش کی۔ یہ ان کا منصوبہ تھا۔ وہ مسلمانوں کے دل ودماغ سے جذبۂ جہاد نکالنا چاہتے تھے۔ یہ انگریزوں کی یکطرفہ کوشش نہ تھی۔ یہ کوشش ہوتی رہی کہ مسلمانوں کا زور جہاد ختم کیا جائے اور انگریز مستقل طور پر اس ملک پر قابض رہیں۔ چنانچہ انہوں نے نئی نبوت اور نئی امت بنائی۔ نئی امت کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ انگریز کو اپنا حاکم تصور کریں گے۔
جناب والا! چونکہ وقت تھوڑا ہے۔ لہٰذا میں مختصراً عرض کروں گا۔ جہاں تک مرزاغلام احمد کی نبوت کا تعلق ہے انہوں نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے بہت سی باتیں کہی ہیں وہ نبی بھی ہیں، مجدد بھی، مسیح الموعود بھی، اپنے آپ کو انہوں نے محدث بھی کہا، خدا کہا، مریم کہا، ابن مریم کہا، عیسیٰ اور موسیٰ کہا، خدا اور محمدکہا، خدا جانے کیا کچھ نہیں کہا۔ اپنی سچائی میں انہوں نے کہا کہ میرانکاح محمدی بیگم، ایک معصوم بچی سے عرش معلی پر ہوا 2634تھا۔ لیکن ٹٹی میں مرتے دم تک ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوسکی۔ اسی طرح یہ نبی جو انگریز کے نبی تھے، جو انگریزی نبی تھے، اس (کے پیروکاروں) نے، جب قسطنطنیہ اور بغداد پر قبضہ ہوا تو، یہاں قادیان میں چراغاں کرایا۔ یہ وہ طریقہ تھا جس سے انگریز ہندوستان پر قابض رہنا چاہتے تھے۔
اس کے علاوہ بھی ہندوستان میں انگریزوں نے اور بھی کارنامے کئے۔ چنانچہ جب تقسیم ملک کا وقت آیا تو اس وقت بھی انگریز نے بہت سے حربے استعمال کئے۔ ہمارے بعض مولویوں کو جو اپنے آپ کو اسلام کا دعویدار کہتے ہیں، ان کو خریدا گیا اور جب پاکستان کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا، جو کہ ایک عظیم جہاد تھا۔ جس میں برصغیر کے مسلمانوں نے قربانیاں دیں۔ انہوں نے جہاد کیا تھا کہ ہم ایک علیحدہ معاشرہ رکھتے ہیں اور اسلام اور قرآن کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرنے کے لئے وطن چاہتے ہیں۔ اس وقت جو لوگ اس جہاد سے منکر ہوئے انہوں نے بھی انگریز کا ساتھ دیا۔ آج بھی ان میں سے بعض ہمارے سامنے بیٹھے ہیں۔ انگریز کے نبی کی یہ اس وقت تائید کرتے رہے۔ لیکن افسوس کہ وہ وقت جب پاکستان بنا تو ان لوگوں کو بھی پاکستان آنا پڑا اور گورداسپور کے دوسرے خطوں مثلاً تحصیل پٹھانکوٹ میں بھی انگریز نے بہت کچھ کیا۔ وہاں بھی نرم زبان کا جہاد اور جہاد بالقلم تھا، جہاد بالسیف نہیں تھا۔ عدم تشدد اور گاندھی کی پیروکاری کا سلسلہ چلتا رہا۔
یہ سب باتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی جاچکی ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ اس مسئلہ میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ جناب والا! ہمارے دوستوں نے مرزائیوں یعنی قادیانیوں کے لئے ’’احمدی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مفتی محمود صاحب نے بھی باربار ان کو احمدی کہا ہے۔ ہمیں اس پر سخت اعتراض ہے۔ وہ احمدی نہیں ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہمیں 2635احمد مصطفی ﷺ سے نفرت سکھائی جاتی ہے۔ میں نے باربار یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ احمدی ایشو نہیں ہے، یہ قادیانی ایشو ہے۔ کیونکہ مرزاصاحب نے کہا ہے کہ ہم غلبہ کے بعد پھر قادیان جائیں گے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہ صحیح پاکستانی بھی نہیں ہوئے۔ ان کا مقصد ایسا ہی ہے جیسا اسرائیل کا مقصد ہے۔ اسرائیلی بھی ایسا ہی کرتے تھے اور یہ دوبارہ کوئی نیاملک بنانا چاہتے ہیں۔
جہاں تک ان کی آبادی کا تعلق ہے وہ اپنے قیاس کے مطابق کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہماری آبادی چالیس لاکھ ہے اور پاکستان کے باہر ایک کروڑ کے قریب آبادی ہے۔ اگر ان کی فگرز کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے۔ جب ان کو کوئی ایسا خطہ زمین مل جائے گا جہاں وہ اپنی حکومت قائم کر سکیں اور جس طرح اسرائیل نے صیہونی نظام کو چلانے کے لئے تحریک شروع کی ہے۔ اس طرح یہ جو اپنے آپ کو نیا فرقہ، نئی جماعت اور نئے مذہب کے نام سے پکارتے ہیں، تو یہ شروع کریں۔ تو اس کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا قرآن حکیم اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اسلام کے بعد کسی نئے مذہب کو تسلیم کریں۔ ہم اسے سرے سے کوئی مذہب تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ نہ ہمیں اس کی اجازت ہے کہ ہم اس کو نیا مذہب تسلیم کریں، یہ کوئی مذہب نہیں ہے۔، اگر ان کی ساری تنظیم کو دیکھا جائے تو تنظیم ہی جو خطرناک ہے، مذہب تو ان کا تعبیری ہے۔ کوئی مذہب نہیں ہے۔ تو تنظیم اس طرح کی ہے جس طرح صیہونیوں کی تنظیم ہے تو یہ تنظیم جو ہے یہ خطرناک ہے۔ چنانچہ انگریزوں نے پاکستان بننے سے پہلے ان کو مختلف محکموں میں بے پناہ اعلیٰ قسم کے عہدے دئیے اور آج بھی اس پاکستان گورنمنٹ میں تمام فنانس ڈیپارٹمنٹ، ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ بینک اور فنانس کے دوسرے جتنے بھی ڈیپارٹمنٹس ہیں اور ہمارا فارن آفس اور فوج یہ تمام ان کی 2636اکثریت سے بھرے پڑے ہیں اور وہ اس قدر متعصب ہیں کہ وہ کسی کو پھٹکنے نہیں دیتے، جو بھی جگہ نکلتی ہے اپنے ہی لوگوں کو رکھ لیتے ہیں تو اس لئے جہاں یہ کہا جارہا ہے کہ اس مذہب کو تسلیم کرو تو کیا یہ وہی بات نہیں ہے جس طرح عربوں کو کہا جائے کہ اسرائیل کو تسلیم کرو۔ تو ہمیں احتیاط کرنی چاہئے اور ہمیں کسی طرح سے بھی ان کا مذہب تسلیم نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ایک سیاسی جماعت ہے جو اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ ’’تحریک جدید‘‘ ان کی ایک کتاب ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک Separate (علیحدہ) جماعت ہیں۔ یہ ان کا عقیدہ ہے وہ لکھتے ہیں:
"You may ask why then we have organised ourselves into a separate Jamaat."
(آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ہم نے ایک علیحدہ جماعت کے طور پر اپنے آپ کو کیوں منظم کیا ہے؟)
یہ ’’تحریک جدید‘‘ A Tabshir publication under the guidance of Mirza Mubarak Ahmad. It has nothing to do with Islam. (مرزامبارک کی راہنمائی میں تبشیر پبلی کیشنز نے چھاپی ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں)
جو انہوں نے بیعت نامہ اس میں صفحہ۷۹ پر شائع کیا ہے۔ آپ اس کو پڑھیں۔ اس میں بھی ہیراپھیری ہے۔ اس میں کہیں مرزاصاحب کا نام درج نہیں ہے، نہ کسی اور کا درج ہے۔ اس میں دس شرائط ہیں، دسویں یہ ہے:
"Tenthly, that he will establish a brother- hood with me, i.e. the promised massiah, on the condition of obeying me in everything good and keep it up to the day of his death and this relationship will be of such a high order that its example will not be found in any worldly relationship either of blood relations or of servant and master."
(اور نمبر دس یہ کہ وہ میرے ساتھ یعنی مسیح موعود کے ساتھ ایک برادرانہ تعلق قائم کرے گا اور اس تعلق کی شرط یہ ہوگی کہ وہ ہر اچھی چیز میں میری اطاعت کرے گا اور مرتے دم تک اس رشتے کو نبھائے گا اور یہ تعلق اتنا اعلیٰ وارفع ہوگا کہ اس کی مثال دنیوی رشتوں میں بھی نہیں ملے گی۔ خواہ وہ خونی رشتے ہوں یا مالک اور خادم کے تعلقات ہوں)
تو یہ وہ دھوکہ ہے جو بیرونی دنیا کو بھی یہ دیتے ہیں۔ کسی کو کوئی نام نہیں بتاتے، صرف اسلام کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں تو جناب والا! یہ وہ بات ہے کہ جس سے یہ اسلام کے نام پر دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں اور جیسا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ آئین 2637میں ان کو ایک اقلیتی فرقے کی حیثیت سے شامل کیا جائے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی ظلم ہوگا۔ اسلام کے ساتھ اور اس پاکستان کے ساتھ،کیونکہ اقلیت کا مطلب اگر آپ آئین کو پڑھیں تو اس میں آرٹیکل۱۰۶ سب کلاز(۳) ہے:
"In addition to the seats in the Provincial Assemblies for the Provinces of Balochistan, the Punjab, the North- West Frontier and Sindh specified in clause (1), there shall be in those Assemblies the number of additional seats here in after specified reserved for persons belonging to the Christian, Hindu, Sikh, Budhist and Parsi communities or the scheduled castes:
Balochistan ..... 1
The North West
Frontier Province ..... 1
The Punjab ..... 3
Sindh ..... 2"
(بلوچستان، پنجاب، شمالی مغربی سرحدی صوبہ اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں میں، شق نمبر۱ میں بیان کردہ نشستوں کے علاوہ، ان اسمبلیوں میں اضافی نشستیں ہوں گی۔ جن کی تعداد حسب ذیل میں بیان کی گئی ہے اور یہ نشستیں ان لوگوں کے لئے مختص ہوں گی جن کا تعلق عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ اور پارسی یا شیڈیولڈ کاسٹ سے ہے:
بلوچستان … ۱
شمالی مغربی سرحدی صوبہ … ۱
پنجاب ۳
سندھ … ۲)
تو یہ اسمبلیز میں مینارٹیز کو نمائندگی دی گئی ہے۔ تعداد اس طرح مینارٹی رائٹس محفوظ کئے گئے ہیں۔ آرٹیکل۳۶ میں ہے:
"The State shall safeguard the legitimate rights and interests of minorities, including their due representation in the Federal and Provincial services."
(ریاست اقلیتوںکے جائز حقوق اور مفادات، بشمول وفاقی اور صوبائی سروسز میں ان کی مناسب نمائندگی کا تحفظ کرے گی)
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman.]
(اس موقع پر ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت کو چھوڑا جس پر جناب چیئرمین متمکن ہوئے)
----------
2638ملک محمد سلیمان: اس کے بعد آرٹیکل۲۰ میں یہ درج ہے کہ:
"Subject to law, public order and morality:
(a) every citizen shall have the right to profess, practise and propagate his religion; and
(بشرط قانون، امن عامہ اور اخلاقیات:
الف… ہر شہری کو اپنے مذہب کا اعلان کرنے، عمل کرنے اور اشاعت کرنے کا حق حاصل ہوگا: اور)
(b) every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institutions."
(ب… ہر مذہب مسلک اور فرقے کو اپنے مذہبی ادارے بنانے، چلانے اور ان کے معاملات سنبھالنے کا حق حاصل ہوگا)
اب اس آرٹیکل کے تحت جہاں ہر شہری کو یہ رائٹ ہے کہ وہ اپنا مذہب اپنائے، Profess کرے اور پریکٹس کرے اور اس کو Propagate کرے، اگر آپ ان کا ایک مذہب تسلیم کرتے ہیں تو پھر ان کے پاس سرمایہ ہے، دولت ہے، وہ ہر آپ کی بڑی مسجد کے سامنے بڑی مسجد بنائیں گے اور وہاں یہ پروپیگنڈہ کریں گے کہ یہ ہمارا نبی ہے اور یہ جو سامنے والے نہیں مانتے یہ سب کافر ہیں۔ کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ سب مسلمان کافر ہیں۔صرف پاکستان کے مسلمان ہی کافر نہیں۔ بلکہ سارے عالم اسلام کے ۷۵کروڑ مسلمان کافر ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ ان کا مذہب تسلیم کرتے ہیں اور ان کو Separate entity (الگ وجود) یا کوئی اور نام دیتے ہیں تو اس سے آپ ان کو کانسٹیٹیوشنل تحفظ دیں گے۔ جس سے وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکیں گے۔ لیکن یہ آرٹیکل ۲ہے، اس میں لکھا ہوا ہے:
"Islam shall be the state religion of Pakistan."
(اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا)
تو ہمارے پاکستان کا سٹیٹ ریلجن اسلام ہے۔ تو آپ اس میں انٹی اسلامک پروپیگنڈے یاتبلیغ کی کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟ اب اس کے بعد آئین کے آرٹیکل۵ ہے، اس میں لکھا ہوا ہے:
"(1) 2639Loyalty to the State is the basic duty of every citizen.
(2) Obedience to the Constitution and law is the basic obligation of every citizen wherever he may be and of every other person for the time being within Pakistan."
(’’۱… ریاست سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔
۲… آئین اور قانون کی اطاعت ہر شہری کی خواہ وہ کہیں بھی ہو، اور ہر اس شخص کی جوفی الوقت پاکستان میں ہو بنیادی ذمہ داری ہے۔‘‘)
تو ہر پاکستانی شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ سٹیٹ کا Loyal ہوا۔ تو سٹیٹ کی تعریف آئین کے آرٹیکل۷ میں کی گئی ہے۔ جس میں فیڈرل گورنمنٹ، پراونشل گورنمنٹ، اسمبلیز وغیرہ موجود ہیں۔ تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ کسی قادیانی کو اگر کوئی گورنمنٹ یعنی اسٹیٹ کا فرد جو بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہو حکم دے اور دوسری طرف سے ان کا اپنا ہیڈ اس کو کوئی حکم دے تو کس کے حکم کی تابعداری وہ کرتا ہے؟ یقینا وہ اپنے ہیڈ کی بموجب شق۱۰ بیعت نامہ، تابعداری کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس لئے ان کو ایک خلاف آئین جماعت قرار دیا جائے اور آئین کی خلاف ورزی کے لئے آپ نے ایک شق نمبر۶ رکھی ہے کہ وہ High Treason (ریاست سے غداری) کا مرتکب ہوتا ہے اور جب آرٹیکل۶ کے تحت وہ High Treason (ریاست سے غداری) کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے لئے آپ نے فیصلہ کیا تھا کہ اس کی سزا Death (موت) ہوگی۔ تو اس لئے جناب! یہ مسئلہ جو ہے…
Mr. Chairman: Just to interrupt the honourable speaker, another information I would like to give to the honourable members.
(جناب چیئرمین: معزز مقرر کی بات میں مداخلت کرتے ہوئے، میں معزز اراکین کو ایک بات بتانا چاہوں گا)
ایک منٹ، ملک صاحب! جن ممبر صاحبان نے پاس بنوانے کے لئے کہا تھا آج شام تک کے جائنٹ سیشن کے لئے، وہ ڈیڑھ بجے اسسٹنٹ سیکرٹری سے Collect (اکٹھا) کر سکتے ہیں۔
It is a privilege which should go to the M.N.A's close relatives and family members. My gallery will be occupied by the entourage. We are having 45 diplomatic cards; then there is the 2640Press. This part of DVG is reserved for M.N.A's family members and their close relatives; and if we issue one card for one, that means about 200 cards; but we have got only 78 seats.
(یہ ایک مراعت ہے جو ایم۔این۔اے‘ز کے قریبی رشتہ داروں اور گھر کے افراد کو ملنی چاہئے۔ میری گیلری میں عملے کے افراد ہوں گے۔ ہمارے پاس ۴۵ڈپلومیٹک کارڈ ہیں اور پھر پریس بھی ہے۔ DVG کا یہ حصہ ایم۔این۔اے‘ز کے گھر کے افراد اور ان کے قریبی رشتہ دار کے لئے مختص ہوگا اور اگر ہم ایک شخص کے لئے ایک کارڈ جاری کریں تو اس کا مطلب ہوگا تقریباً ۲۰۰کارڈ۔ لیکن ہمارے پاس صرف ۷۸نشستیں ہیں)
تو اس کے لئے یہ ہے کہ باقی پھر ذرا پیچھے بیٹھیں گے۔ مثلاً اگر ہمارے پاس چالیس Requisitions (ریکویزیشنز) آتی ہیں تو جو ہمارے پاس سیٹیں بچ جائیں گی وہ دو بھی ہوسکیں گی، تین بھی ہوسکیں گی۔ لیکن سب سے پہلے Preference (ترجیح) ہوگی ایک کارڈ Per Honourable member (ہر معزز رکن کے لئے) میں جا کر کارڈوں پر Tick Mark (ٹک مارک) کردوں گا۔ Between 12: 00 and 1: 00, the cards can be collected (۱۲اور ۱؍بجے کے درمیان کارڈ لئے جا سکتے ہیں) چاہے مجھ سے لے لیں، میرے آفس سے لے لیں، اسسٹنٹ سیکرٹری کو میں وہاں بٹھا دوں گا۔ چاہے وہاں سے آپ کارڈ لے لیں۔
جناب عبدالحمید جتوئی: جناب والا! ایک تجویز ہے کہ یہ جو اس مسئلے پر ہمارے ممبر صاحبان کی تقاریر ہوئی ہیں، اگر آپ کی عنایت ہو تو ان کی نقلیں ہمیں مل جائیں تاکہ…
جناب چیئرمین: یہ سب ملیں گی۔
جناب عبدالحمید جتوئی: …بوقت ضرورت جیب میں لے کر پھریں تو بہتر ہوگا۔
جناب چیئرمین: نہ جی نہ! اور یہ اخباروں میں آئیں گی۔ یہ تو ریکارڈ ہم نے پبلش کرنا ہے۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: جناب والا! گزارش ہے کہ کمیٹی میں کوئی قید نہیں ہے؟
جناب چیئرمین: جتناکمیٹی میں جہاں مرضی ہے۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: تو ٹھیک ہے۔ کل میں نے کارڈ بنواکے منگوالئے تھے۔ تو ان کو دوبارہ واپس کرنا پڑے گا؟
جناب چیئرمین: آپ نے غلط کیا ہے۔
2641جناب عبدالمصطفیٰ الازہری: کیوں؟
جناب چیئرمین: کیونکہ سب کے لئے ایک ہی اصول ہونا چاہئے۔ میں نے پوچھا، انہوں نے کہا دو تین حضرات مجھ سے کارڈ لے گئے ہیں۔ ٹھیک ہے، وہ Valid (صحیح) ہے۔ اگر یہ سارے Collectively (اجتماعی طور پر) کریں گے۔ جی، ملک محمد سلیمان! آپ کتنا وقت لیں گے؟
ملک محمد سلیمان: جتنا ٹائم کہیں۔
جناب چیئرمین: جتنا ٹائم آپ مناسب سمجھیں۔
ملک محمد سلیمان: بس تھوڑا ہی، تو جہاں ہر شہری کو آرٹیکل۲۰ کے تحت یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کو Profess (کا اعلان کرے) کرے، Propagate (اشاعت) کرے، وہاں آرٹیکل۱۹ ہے۔ جس میں یہ درج ہے کہ:
"Every citizen shall have the right of freedom of speech and expression and there shall be freedom of the press subject to any reasonable restrictions imposed by law in the interest of the glory of Islam."
(’’ہر شہری کو آزادیٔ تقریر واظہار کا حق حاصل ہوگا اور پریس اس شرط کے ساتھ آزاد ہوگا کہ قانون، اسلام کی عظمت کے مفاد میں اس پر مناسب پابندیاں عائد کر سکے۔‘‘)
تو جہاں یہ Freedom of speech اور Expression (آزادیٔ تقریر واظہار) دی گئی ہے وہاں جب Glory of Islam (اسلام کی عظمت) کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اس پر پابندی لگانے کا اختیار حاصل ہے۔ تو جناب والا! جب خاتم النّبیین ﷺ کے بعد کوئی آدمی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے اور اس لٹریچر کا وہ پراپیگنڈہ کرتا ہے، اس Religion (مذہب) کو Profess (اعلان) کرتا ہے ، تو اس پر پابندی لگانا یہ ہمارے دائرہ اختیار میں ہے،ہم لگا سکتے ہیں۔ یہ آئینی حق اس ملک کے لوگوں کو حاصل ہے، اور ان لوگوں پر یہ دعویٰ کرتے ہیں پابندی لگادی جائے۔ تو آئندہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جتنا لٹریچر جو اس وقت تک موجود ہے وہ چونکہ Glory of Islam (عظمت اسلام) کے خلاف ہے، وہ اسلام کی روح کے خلاف ہے، اس کو ضبط کیا جاسکتا ہے اور 2642ضبط کرنا چاہئے اور آئندہ اس قسم کا کوئی لٹریچر شائع نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں چونکہ ہمارا مذہب (اسٹیٹ کا) اسلام ہے تو اس طریقے سے ہم ان کا تمام ایسا لٹریچر ضبط کر سکتے ہیں اور انہوں نے جو جائیداد پیدا کی ہے اور اسی پاکستان میں ہے اور وہ پاکستان میں اسلام کے نام کو Exploit (کا استحصال) کر کے پیدا کی ہے، اسلام کے نام پر حاصل کی ہے۔ جب ہر مسجد کی جائیداد وقف کو چلی گئی ہے تو یہ کیوں نہیں جاسکتی۔ یہ محکمہ اوقاف کو کیوں نہیں جا سکتی۔ تو تمام جائیداد جو ہے یہ محکمہ اوقاف کو منتقل کر دی جائے۔ جہاں تک بیعت کا تعلق ہے، بیعت جو ہے یہ نہیں ہوسکتی۔ یہ خلاف شرع اور آئین ہے تو یہ بیعت منسوخ فرما دی جائے اور اس قسم کی بیعت کا اس ملک میں کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نہ ہو کہ کسی موہوم مسیح الموعود کے نام پر لوگوں کو گمراہ کر کے بیعت حاصل کرے۔ کیونکہ اس میں جو بیعت کا فارم ہمارے سامنے پیش ہوا ہے وہ موہوم ہے۔ اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ ایک جھوٹ ہے، ایک فراڈ ہے۔
تو جناب عالی! اب ایسی باتیں جن کے متعلق میں اظہار کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ واقعہ ربوہ جو ہے یہ ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو ہوا۔ میری اطلاع کے مطابق بیشتر متمول قادیانیوں نے اپنی بڑی بڑی جائیدادوں کے ۲۹ سے پہلے بیمے کرائے۔ میں آپ کی وساطت سے یہ اپنی گورنمنٹ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ بات کس حد تک درست ہے؟ اس کی چھان بین کی جائے اور اس کی رپورٹ اس معزز ایوان کے سامنے لائی جائے۔
جناب چیئرمین: اس کمیٹی میں گورنمنٹ کوئی نہیں ہے۔ یہ نیشنل اسمبلی میں پوچھیں۔
ملک محمد سلیمان: تو اس کے بعد دوسری بات یہ ہے میری اطلاع یہ بھی ہے اور میرے علم میں لایا گیا ہے کہ یہ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں جتنے ہمارے فوجی P.O.W (جنگی قیدی) ہوئے، 2643یہ بتایا جائے کہ کتنے قادیانی P.O.W (جنگی قیدی) ہوئے۔ کیونکہ یہ ہمارے علم میں لایا گیا ہے… ہو سکتا ہے سچ ہو یا غلط ہو، اس کی تصحیح چاہتا ہوں… کہ کوئی قادیانی P.O.W (جنگی قیدی) نہیں ہوا تو یہ راز بھی فاش کیا جائے تاکہ جو ہمارے ساتھ ہوا ہے یا آئندہ یہ منصوبے بنائیں تو اس کے متعلق ہمیں علم ہو جائے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ تو جناب عالی!…
جناب چیئرمین: بس جی۔
ملک محمد سلیمان: نہیں جناب!
جناب چیئرمین: آج ٹائم تھوڑا ہے۔
ملک محمد سلیمان: یہ ہمارا شیڈول نمبر۳ آئین کا ہے۔ جس میں ہم نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ بڑے بڑے عہدے مثلاً پریذیڈنٹ اور پرائم منسٹر کے، وہ مسلمان کے حصہ میں آئیں گے۔ تو اس میں کچھ اضافہ کرنا چاہئے۔ اس میں تمام فیڈرل منسٹرز جو ہیں، اسٹیٹ منسٹرز جو ہیں ان کا اوتھ بھی وہی ہو جو پرائم منسٹر اور پریذیڈنٹ کا ہے۔ اس میں صوبے کے وزراء کے حلف کی ضرورت نہیں۔ صوبے میں مینارٹی کو Representation (نمائندگی) ملے گی تو اس میں ضرورت نہیں۔ Speaker of the National Assembly and the Deputy Speaker of the National Assembly.... (قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر…)
Mr. Chairman: .... and all the members of the National Assembly.
(جناب چیئرمین: … اور قومی اسمبلی کے تمام اراکین)
ملک محمد سلیمان: جناب عالی! ممبران کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا وہی حلف ہونا چاہئے جو ایک مسلمان کے لئے وضع کیاگیا ہے۔ اس میں گورنر، یہ چاروں سارے صوبوںکے گورنر جو ہیں، چیف منسٹر… میں پراونشل منسٹروں کی بات نہیں کر رہا، صرف چیف منسٹروں کی بات کروں گا… گورنر، چیف منسٹر، Chief Justices of 2644Supreme Court and the High Courts. I am not talking of the other Justices. (ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، میں دوسرے جسٹسز کی بات نہیں کر رہا) چیف الیکشن کمشنر کا وہی حلف ہو جو ایک مسلمان کا ہوتا ہے۔ Chief of the Armed Froces (چیف آف آرمڈ فورسسز)، (اپوزیشن کی طرف سے نعرہ ہائے تحسین) اس میں آرمی، ائیرفورس اور نیوی کے چیف آف سٹاف شامل ہوں گے۔ ان کا حلف وہی ہوگا جو ایک مسلمان کا ہوتا ہے تو میں ان گزارشات کے ساتھ آپ کی وساطت سے تمام ہاؤس سے اپیل کرتا ہوں کہ ان گزارشات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں اور صحیح فیصلہ صادر فرمائیں۔ (اپوزیشن کی طرف سے نعرہ ہائے تحسین) (مداخلت)
Mr. Chairman: (To Malik Mohammad Jafar), How long will you take?
(جناب چیئرمین: (ملک محمد جعفر سے) آپ کتنا وقت لیں گے؟)
ملک محمد جعفر: تھوڑا سا۔
جناب چیئرمین: اندازاً کتنا؟
ملک محمد جعفر: نہیں، میں کوئی غیرضروری بات نہیں کروں گا۔
جناب چیئرمین: میں نے کب کہا ہے۔
ملک محمد جعفر: میں عرض کرتا ہوں یہ نہیں کہہ سکتا، لیکن ہوسکتا ہے بیس تیس منٹ لگ جائیں۔میرا خیال ہے کہ آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
(جناب ملک محمد جعفر کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب عالی! اس وقت جب کہ آج پانچ تاریخ ہوگئی ہے اور اس مہینے کی سات تاریخ کو ہماری طرف سے عوام کے سامنے عہد ہے Commitment (کمٹمنٹ) ہے کہ اس مسئلے کا فیصلہ اس تاریخ تک ہو جائے گا، میں نہایت ادب سے گزارش اپنے معزز اراکین سے کرتا ہوں کہ مجھے تو بہت احساس ہے۔ لیکن جس طریقے پر جو ممبر صاحب تقریر کر رہے تھے، ہم 2645اس کو سن رہے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت کو وہ احساس نہیں ہے کہ عوام اس ہاؤس کے باہر کس بے چینی اور اضطراب سے آپ کے اس فیصلہ کا انتظار کر رہے ہیں اور آپ اس مرحلے پر پہنچے ہوئے ہیں کہ آپ نے ایک دو دن میں فیصلہ کرنا ہے۔ اس حالت میں یہ طریقہ کم ازکم نہیں ہونا چاہئے کہ اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کئی پہلوؤں سے شاید یہ آئین سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ ہمارے سامنے ایک بڑا اہم مسئلہ ہے۔ کیونکہ آئین میں تو ردوبدل ہوسکتا تھا لیکن اس وقت پاکستان میں میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ جس کا آپ نے فیصلہ کرنا ہے اور جو آپ نے دو دن کے اندر فیصلہ کرنا ہے۔ اس ذمہ داری کو سامنے رکھتے ہوئے گزارش کروں گا کہ آپ کے سامنے جو قراردادیں ہیں ان پر نہایت سنجیدگی سے غور کیجئے۔ ہمیں جو انفارمیشن، شہادت جرح میں پیش ہوئی ہے، حاصل ہوئی ہے، اس پر غور کریں اور جو مسائل اس مسئلے سے متعلق ہیں اوراس سے پیدا ہوسکتے ہیں ان پر غور کیجئے۔ میں چند معروضات کروں گا اس خیال سے شاید اس سے فیصلہ کرنے میں امداد ہو جائے۔ مجھ سے بہت بڑے بڑے عالم اس دینی مسئلے کے متعلق زیادہ جانتے ہیں۔ لیکن اس میں سیاسی اور قانونی پہلو بھی ہیں۔ اس لئے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تمہید کے طور پر میں یہ گزارش کروں گا کہ جب یہاں بحث چل رہی تھی، بیان ہورہے تھے، جرح ہورہی تھی، تو ہم ممبر صاحبان میں بھی اور باہر بھی بڑا پروپیگنڈہ ہورہا تھا اور مختلف پروپیگنڈے کے طریقے ہیں۔ میں اپنے دوستوں سے اور وکلاء سے لاہور میں ملتا رہا ہوں۔ اس کے متعلق میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اس نوعیت کے پروپیگنڈے سے آئین کو اور پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے متعلق بہت سے خطوط باہر سے آئے ہیں جن میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں۔
2646سب سے پہلے ایک سوال اٹھایا گیا اور بیان میں بھی یہ بات آئی ہے، دوسرا پروپیگنڈہ بھی ہورہا ہے۔ کسی ملک کی پارلیمنٹ دینی مسئلہ کے متعلق پہلے تو یہ کہاگیا کہ قانونی طور پر ہم مجاز نہیں کہ فیصلہ کریں۔ اٹارنی جنرل صاحب کے سوال سے صاف واضح تھا کہ قانون ہم بناسکتے ہیں۔ جس آرٹیکل پر ہم انحصار کرتے ہیں اس میں لکھا ہے آزادی مذہب اور مذہب کے پھیلانے کے لئے مذہبی ادارے بنانے کی، وہ قانون کے تابع ہیں۔ قانون پارلیمنٹ بناسکتی ہے۔ یہ محدود قانونی پہلو ہے۔ لیکن جس بات پر زور دیا جارہا ہے وہ یہ ہے اور اخلاقی لحاظ سے اور جو مسلمہ اخلاقی اقدار مہذب دنیا میں ہیں، ان کی موجودگی میں کیا ایک قومی اسمبلی کو جو منتخب ہوئی ہے ملک کا کاروبار چلانے کے لئے، تمام قانون بنانے کے لئے یہ حق اخلاقاً پہنچتا ہے کہ مذہبی معاملات کا فیصلہ کرے؟ اس کے ساتھ اس بات پر بھی بڑا زور دیا جارہا ہے کہ ایسا نہ کیجئے۔ آپ ایسا فیصلہ نہ کریں جس سے آپ مہذب دنیا میں بدنام ہو جائیں اور باقی اقوام کیا کہیں گی، لوگ کیا کہیں گے۔ یہ کتنے Reactionary (رجعت پسند) ہیں اور کتنی صدیاں پہلے کے سوچ والے یہ پاکستانی عوام ہیں، یہ کیا کر رہے ہیں، یہ لوگوں کے مذہب کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک اس قسم کے پروپیگنڈے کا مقصد یہ ہے کہ ممبران کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے سے باز رہیں۔ یا فیصلہ اگر کریں تو وہ اس طرح کا ہو جس پر ہمارے عوام تو مطمئن نہیں ہوتے۔ لیکن شاید باہر کی دنیا کے لوگ مطمئن ہو جائیں۔ اس لئے ہمیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس پروپیگنڈے کی میرے نزدیک اس لئے قطعاً کوئی وقعت نہیں ہے۔ کیونکہ ہر ملک کے اپنے حالات ہوتے ہیں۔ ہماری اپنی ایک تاریخ ہے۔ اس میں بہت سے عوامل ہیں۔ اس لئے ہمیں بہت سے ایسے کام کرنا پڑتے ہیں۔ ہمارا آئین اور قانون درست ہے۔ لیکن مغربی ممالک کے لوگوں کی سمجھ میں شاید نہ آئیں۔ اگر یہ بات 2647اب تک مغربی ممالک کے لوگوں اور مفکروں کی سمجھ میں نہیں آئی کہ کس طرح ملک کی اساس مذہب ہوسکتی ہے۔ لیکن کیا ہم ان کے اس مؤقف کے باعث یا ان کو خوش کرنے کے لئے اپنا مہذب ہونا ان کے سامنے ثابت کرنے کے لئے یہ بات چھوڑ دیں کہ ہمارے ملک کی بنیاد، ہماری ریاست کی بنیاد مذہب ہے۔ وہ تو ہم نے اپنے آئین میں لکھا ہوا ہے اور پھر یہ کہ ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ تو ہم پہلے کر چکے ہیں۔ ہم نے آئین میں پہلے تو یہ فیصلہ کم ازکم دو عہدوں کے متعلق ایک اصول قائم کیا ہے۔ ان میں سے ایک کم ازکم ایک پہلو سے، دوسرا دوسرے پہلو سے بہت اہم ہیں۔ صدر کا تو اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک مملکت کا سمبل ہے۔ کیونکہ اسلامی مملکت ہے۔ اس لئے صدر کو مسلمان ہونا چاہئے اور وزیراعظم کا میرے خیال میں اتنا بااختیار عہدہ ہے، پاکستان میں تو کوئی نہیں، اور ممالک کی جمہوریت سے بہت زیادہ بااختیار عہدہ وزیراعظم کا ہوتا ہے اور ان کو اتنے اختیارات دئیے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ بھی مسلمان ہونا چاہئے۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi).]
(اس مرحلے پر جناب چیئرمین نے کرسی صدارت کو چھوڑا جسے ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے سنبھالا)
----------
ملک محمد جعفر: تو میں جناب والا! عرض کر رہا تھا کہ دو عہدوں کے متعلق ہم نے آئین میں فیصلہ کر لیا ہے کہ اس کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ تھی ہم نے یہ کافی آئین میں نہیں سمجھا کہ صدر اور وزیراعظم لازماً مسلمان ہوں گے۔ مسلمان تو ایک معروف لفظ ہے۔ یہ ہر کوئی جانتا ہے۔ لیکن آئین سازی کے وقت ہمیں یہ ضرورت پیش آئی ہے کہ ان کے لئے خاص حلف مقرر کریں، پاکستان کے اپنے حالات کے پیش نظر، اور اس میں واضح طور پر ختم نبوت کا تصور لائے اور ختم نبوت پر ایمان ہو، تو پھر یہ بھی کافی نہیں سمجھا گیا۔ اس 2648کی مزید وضاحت کے لئے ساتھ یہ الفاظ بھی شامل کئے گئے ہیں کہ وہ شخص حلف اٹھائے کہ میں ختم نبوت پر یقین رکھتا ہوں۔ Finality of Prophethood پر، اور یہ کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور اب ہم فرانس اور انگلینڈ کے لوگوں کو یہ سمجھانے جائیں کہ وہ مسلمان کیوں رکھا ہے، ختم نبوت کو کیوں لائے ہیں کہ ان کے بعد نبی نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ بدقسمتی سے وہ مدعی نبوت ہمارے پاکستان کے ایک حصہ میں پیدا ہوا۔ اس کی جماعت یہاںموجود ہے۔ نہ یہ فرانس میں ہے اور نہ انگلینڈ میں، نہ ان لوگوں کے مسائل ہیں۔ تو میرا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ فیصلہ کرتے ہوئے ہمیں قطعاً اس بات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے ہمارے فیصلے۔ بیرونی رائے عامہ کا احترام کرتا ہوں، وہ ضروری ہے، لیکن وہ اس مسئلے کو نہیں سمجھ سکتے۔ ان کے مسائل یہ نہیں۔ ہمارا اپنا مسئلہ ہے۔ ہمیں اس بات سے قطعاً خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ پہلی بات تو یہ ہے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ ایک اور پروپیگنڈہ یہ ہے کہ اگر احمدیوں کے خلاف… میں یہاں وضاحت کردوں میں ان کو ’’احمدی‘‘ کہوںگا۔ یہاں اعتراض کیا گیا کہ مفتی صاحب نے ’’احمدی‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ جو کسی جماعت یا کسی کا نام ہو، وہ ضروری نہیں کہ ہم ان کا وہ مقام سمجھیں۔مثلاً یہود جو ہیں صحیح یہود نہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم پر نہیں۔ وہ چونکہ اپنے آپ کو ’’احمدی‘‘ کہتے ہیں، میں ان کو ’’احمدی‘‘ کہوں گا… ایک یہ خطرہ پیش کیا جارہا ہے کہ اگر ہم نے کوئی ایسی کارروائی احمدیہ جماعت کے خلاف کی، ایک فرقے کے خلاف یا دونوں کے خلاف، تو یہ بہت طاقتور ہیں۔ ایک تو ملک میں تخریبی کارروائی ہوگی۔ کیونکہ وہ Organised (منظم) ہیں۔ ان کے پاس پیسہ ہے، ان کی بڑی تنظیم ہے اور Fanaticism (شدت پسندی) میں کسی سے ملک کے اندر کم نہیں۔ ملک کے اندر خطرات ہیں، تخریب کاری ہے۔ اب یہ سمجھیں گے کہ ہمارا اس ملک میں کوئی مقام نہیں، ہمیں تو انہوں نے غیرمسلم قرار دے دیا ہے اور پھر باہر کے ممالک میں 2649جہاں ان کی جماعتیں ہیں وہاں ہمارے خلاف خطرناک قسم کا ردعمل ہوگا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ جو پہلے تحریک ہے۔ اس سے ہمیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ جو دوسری بات بیان کی جارہی ہے کہ یہ میرے نزدیک ایسی ہے کہ جس کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ لیکن اسی ضمن میں،میں اب جب ذکر کروں گا اپنی قرارداد کا تو پھر میں گزارش یہ کروں گا کہ میں نے اپنی قرارداد میں جو بنیادی بات بیان کی ہے اور جس کا اب یہاں ایک ممبر صاحب نے بھی ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ ان کی تنظیم کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ تمام خطرات جو ہیں، وہ اس بات پر مبنی ہیں کہ منظم جماعت ہے اور اس کی خلاف ہے اور اس کے حکم کے وہ پابند ہیں، اس کے اشارے پر وہ چلتے ہیں۔ اس کے متعلق غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیسے چل رہے ہیں۔ وہ قیادت اس کی جائیداد پر ہے تو اس کے متعلق میں عرض کروں گا کہ اگر آپ میری وہ تجویز منظور کریں، یا کچھ تبدیلی کے ساتھ، تو پھر یہ جو دوسرا خدشہ بیان کیا جارہا ہے، میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ یہ ختم ہو جاتا ہے، لیکن کم سے کم رہ جائے گا۔ یہ جناب! میں نے تمہیداً عرض کیا تھا۔ میں نے گزارش یہ کی ہے کہ نہایت سنجیدگی سے ان امور پر غور کریں اور دوسرا یہ ہے کہ اس پروپیگنڈہ سے قطعاً متاثر نہ ہوں۔ کیونکہ ہم اگر فیصلہ کرنے والے ہیں تو اس کا باہر کی دنیا میں کیا اثر ہوگا۔ وہ ہمیں مہذب سمجھیں گے یا نہیں۔ میں نے جیسا کہ عرض کیا وہ تو ہمیں اس لئے بھی مہذب نہیں سمجھتے کہ ہم نے مذہب کی بنیاد پر ملک بنایا ہے۔ ان باتوں کو ذہن سے نکال کر آئیے۔