• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی (بیسواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قومی اسمبلی میں بیسواں دن

Friday, the 6th September. 1974.
(کل ایوانی خصوصی کمیٹی بند کمرے کی کارروائی)
(۶؍ستمبر ۱۹۷۴ئ، بروز جمعہ)
----------

The Special Committee of the Whole House met in Camera in the Assembly Chamber, (State Bank Building), Islamabad, at half past nine of the clock, in the morning. Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.
(مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس اسمبلی چیمبر (سٹیٹ بینک بلڈنگ) اسلام آباد بند کمرے میں صبح ساڑھے نو بجے جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) کی زیرصدارت منعقد ہوا)
----------
(Recitation from the Holy Quran)
(تلاوت قرآن شریف)
----------

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
QADIANI ISSUE- GENERAL DISCUSSION
جناب چیئرمین: کل میرے نوٹس میں آیا ہے کہ قومی اسمبلی کے ممبر صاحبان اور سینیٹرز کو باہر روک دیا گیا تھا اور ان کی گاڑیوں کو اسمبلی کے اندر نہیں آنے دیا گیا تھا۔ اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ یہ بالکل غلط کیاگیا ہے۔ کسی اتھارٹی کو کوئی اختیار نہیں کہ اسمبلی Premises کے اندر کسی M.N.A کی گاڑی کو روکے۔ کیونکہ یہ اسمبلی M.N.A's اور سینیٹرز کی ہے۔ اس کے لئے میں معافی کا خواستگار ہوں۔ سوا پانچ بجے میرے نوٹس میں لایا گیا۔
I took action. In future, this shall not be repeated; and I am very sorry. Again I will repeat that if it had been brought to my notice, I would have regulated it. M.N.A's have a right to come to the Assembly. For that, I think, the honourable members will take necessary....
(۱… میں نے ایکشن لیا۔ آئندہ یہ دوبارہ نہیں ہوگا اور میں معذرت خواہ ہوں۔ میں دوبارہ کہوں گا کہ اگر یہ میرے نوٹس میں آ جاتا تو میں اس مسئلے کو حل کر لیتا۔ M.N.A's کو اسمبلی میں آنے کا حق حاصل ہے۔ اس مقصد کے لئے میرا خیال ہے۔ معزز اراکین ضروری…)
2928میاں مسعود احمد: جناب والا! اس سلسلے میں گزارش کروں گا کہ یہ سب کچھ اس واسطے ہوتا ہے کہ روز یہاں نئے آدمی ڈیوٹی تبدیل کر کے لگائے جاتے ہیں۔میں گزارش کروں گا کہ یہاں ایک مستقل اسٹاف ہو جس کو پتہ ہو کہ یہ M.N.A ہیں اور شاید وہ غلط فہمی کی بناء پر بھی کر دیتے ہیں۔
جناب چیئرمین: میاں صاحب! کیاکریں، ہم یہ بات سوچ رہے ہیں، لیکن کیا کریں، ہمیں اسمبلی کی پروسیڈنگ سے ہی فرصت نہیں ملتی ورنہ ہم یہ سوچ رہے ہیں۔
to have our own everything, our own police, our own everything. Maulana Mufti Mahmood.
(کہ ہر چیز ہماری ہو، ہماری اپنی پولیس ہو اور ہر چیز ہماری ہو۔ مولانا مفتی محمود!)
مولانا مفتی محمود: جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کا یا ہمارے سیکرٹری صاحب کا، ان لوگوں کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لئے آپ کی جو معذرت ہے وہ تو ہماری ہی معذرت ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایسا کیا ہے، غلام فاروق صاحب نے خود بتایا تھا کہ ان کو روک دیا گیا تھا…
جناب چیئرمین: وہی میرے نوٹس میں لائے ہیں۔
مولوی مفتی محمود: وہ جانتے تھے کہ یہ M.N.A ہیں، اس کے باوجود روکتے تھے۔ M.N.A کو یہاں پر ہاؤس سے روکنا، یہ اتنا بڑا جرم ہے آپ ان سے جواب طلبی کریں، ان کا مواخذہ کریں۔
جناب چیئرمین: یہ مولانا! ان کو لیٹر لکھ رہے ہیں۔ جتنی اتھارٹیز، ایجنسیز ہیں کہ اسمبلی premises کے اندر کوئی وہ ریگولیٹ نہیں کر سکتا۔ جب تک کہ اسمبلی اسپیکر کے ساتھ، سیکرٹری کے ساتھ مشورہ نہ کریں۔ گیٹ نمبر۳،۴ کے اندر کسی قسم کا کسی کا اختیار نہیں چل سکتا، سوائے قومی اسمبلی کے سیکرٹری کے۔
2929میاں محمد عطاء اﷲ: صاحب! وہ ہمیں روک رہے ہیں۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس طرف سے صرف فلیگ کاریں آئیں گی، M.N.A's کی کار نہیں آئے گی۔
جناب چیئرمین: سواپانچ بجے غلام فاروق صاحب میرے نوٹس میں لائے ہیں۔
For that, I am very sorry. No authority has a right to regulate anything within the Assembly premises. This is the Assembly, it will exercise its powers through the Speaker or through it self; and for that I am sorry.
(اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ کسی اتھارٹی کے پاس یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسمبلی کے حدود اربعہ میں کوئی چیز کنٹرول کرے۔ یہ اسمبلی ہے۔ یہ اپنے اختیارات کو سپیکر کے ذریعے یا اپنے ہی ذریعے استعمال کرے گی، اور اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں)
اس میں ساتھ یہ بھی عرض کروں گا کہ M.N.A's صاحب بھی اپنے اوپر پابندی لگائیں، کیونکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ Unwanted (غیرضروری) آدمی، وہ بھی نہ لے کر آئیں۔ یہ ریکوئسٹ ہے۔
چوہدری جہانگیر علی: ویسے جناب چیئرمین! ہمیں جب گیٹ کے اوپر روکا گیا اور ہم نے Identity disclose کی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سپیکر صاحب کا حکم ہے کہ کسی M.N.A کی گاڑی بھی اندر نہیں جائے گی۔ وہ آپ کی اتھارٹی کا حوالہ دے رہے تھے، جناب والا!
Mr. Chairman: They have wrongly quoted, for that Mr. Ghulam Faruq is a witness. Yes, that is wrong, because they cannot say that SP has stopped or DIG stopped or anybody else has stopped.
(جناب چیئرمین: انہوں نے غلط حوالہ دیا اور اس کے لئے جناب غلام فاروق گواہ ہیں۔ یقینا یہ غلط ہے۔ کیونکہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں SP نے روکا ہے یا DIG نے روکا ہے یا کسی اور نے روکا ہے)
چوہدری جہانگیر علی: میں نے ایک دوسری گزارش عرض کرنی تھی، جناب!
جناب چیئرمین: یہ غلطی انہوں نے کی۔
چوہدری جہانگیر علی: میرے پاس کلاسیکی آرٹس کا ایک نمونہ سرگودھا سے آیا تھا۔ وہ جناب کی خدمت میں پیش ہوا تھا۔ وہ واپس مجھے نہیں ملا۔
جناب چیئرمین: وہ میں بات کرتا ہوں۔ اٹارنی جنرل صاحب! اٹارنی جنرل صاحب دس منٹ بولیں گے، اس کے بعد چلے جائیں گے۔
2930Mr. Ghulam Faruq: Sir, firstly, I apologize to you for all the trouble that I caused you. I think, I came to you in a bit of temper because I had a little argument at the gate and I tried to explain to them that I was sure that the Speaker had not issued this order to the military Police. I do not want to pursue it further. I also feel thankful for the very propmt action that you took and I am a witness to what you did, and I may also tell the honourable members of the House that you were not aware a bit until I brought the matter to your notice.
(جناب غلام فاروق: جناب والا! پہلی بات تو یہ ہے کہ میں معذرت طلب کرتا ہوں۔ اس لئے کہ میری وجہ سے آپ کو پریشانی اٹھانا پڑی۔ میرا خیال ہے کہ میں نے ذرا غصے میں آپ سے بات کی۔ کیونکہ گیٹ پر میرا چھوٹا سا جھگڑا ہوگیا تھا اور میں انہیں واضح کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ سپیکر صاحب نے یقینی طور پر ملٹری پولیس کو یہ حکم جاری نہیں کیا ہے۔ میں اس پر مزید بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اس فوری ایکشن کے لئے جو آپ نے لیا اور میں گواہ ہوں جو آپ نے کیا اور میں معزز اراکین ایوان کو یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جب تک میں نے آپ کو بتا نہیں دیا یہ معاملہ ذرا بھی آپ کے علم میں نہیں تھا)
Mr. Chairman: Mr. Ghulam Faruq, I have taken a very strong note of it and I will pursue this matter and see that in future these things are not repeated. Thank you.
(جناب چیئرمین: جناب غلام فاروق! میں نے یہ بات اچھی طرح نوٹ کر لی ہے اور میں معاملے کی پوری چھان بین کروں گا اور اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ مستقبل میں ایسے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔ آپ کا شکریہ!)
Mr. Ghulam Faruq: Thank you very much.
(جناب غلام فاروق: آپ کا بہت بہت شکریہ!)

Col. Habib Ahmad: Mr. Chairman, Sir, you have earlier said that the members should be careful not to bring unwanted people in the premises of the Assembly. Well, that will be all right and I think we will take care of that, that we do not bring in undesirable or unwanted people inside, because this is a very big responsibility; just as it is yours, it is ours. But, at the same time, I would like to point out one thing more for your consideration. It is this, that whenever we go into the lobbies or whenever we go into the canteen cafeteria, we recognize every M.N.A, we recognize every M.P.A, we recognize every Senator, because we have been living for 2-1/2 years together, we know each other; but at the same time, my worthy friends will support me when I say that we see there quite a number of people who are not known to us. They are not familiar; their faces are not familiar. What they are doing there, I do not know myself, whether they should be there or they should not be, but if they have to be there from your point of view or from the point of view of others, then I would like them to have some identity card or something in their possession so that we should know that they are authorised to sit down there; otherwise we always feel that we are being harassed and we feel...
(کرنل حبیب احمد: جناب چیئرمین! آپ نے پہلے کہا تھا کہ اراکین کو اسمبلی کے حدود اربعہ میں غیرضروری لوگوں کو نہیں لانا چاہئے۔ یہ بالکل صحیح بات ہے اور میرا خیال ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ناپسندیدہ یا غیرضروری افراد اندر نہ آئیں۔ کیونکہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے اور جیسے یہ آپ کی ذمہ داری ہے ویسے ہی ہماری ذمہ داری ہے۔ لیکن ساتھ ہی میں ایک اور چیز پر آپ کی توجہ دلانا چاہوں گا اور وہ یہ کہ ہم جب بھی لوبی میں کینٹین کیفی ٹیریا میں جاتے ہیں ہم ہر ایم۔این۔اے کو پہچانتے ہیں۔ ہم ہر ایم۔پی۔اے کو پہچانتے ہیں۔ ہم ہر سینیٹر کو پہچانتے ہیں۔ کیونکہ ہم اڑھائی سال سے اکٹھے رہ رہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی، میرے معزز دوست میری تائید کریں گے کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہم ان جگہوں پر بہت سے ایسے لوگ دیکھتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ وہ اور ان کے چہرے ہمارے لئے اجنبی ہوتے ہیں وہ وہاں کیا کر رہے ہوتے ہیں۔ میں نہیں جانتا۔ انہیں وہاں ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن اگر انہیں آپ کے یا دوسروں کے نکتہ نظر سے ہونا چاہئے تو میں چاہوں گا کہ ان کے پاس کوئی شناختی کارڈ ہو یا کوئی ایسی چیز ہو جس سے ہم یہ جان سکیں کہ انہیں وہاں بیٹھنے کی اجازت ہے۔ ورنہ ہمیں ہمیشہ یہ لگے گا کہ ہمیں پریشان کیا جارہا ہے اور ہم محسوس کرتے ہیں)
Mr. Chairman: Col. sahib, I think, day before yesterday, I told the House that I was thinking of introducing two types of cards- one for the gallery and one for entry into the premises; and if it is left to myself, if I have to regulate something, I would like to 2931have this cafeteria only for M.N.A's and for Senators, so that they can relax, they can talk, they can freely move; only if it is left to myself. But if an M.N.A is accompanied by four of his friends, then we cannot stop it. You have to impose restrictions on yourselves: if you impose, the rest will be from us.
(جناب چیئرمین: کرنل صاحب! میرا خیال ہے پرسوں میں نے ایوان کو بتایا تھا کہ میں دو قسم کے کارڈ جاری کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ ایک گیلری کے لئے اور دوسرا اسمبلی کے حدود اربعہ میں داخلے کے لئے اور اگر یہ مجھ پر چھوڑ دیا جائے اور اگر مجھے اس کا بندوبست کرنا ہو تو میں چاہوں گا کہ کیفی ٹیریا صرف ایم۔این۔اے اور سینیٹر حضرات کے لئے مخصوص ہوتا کہ وہ آرام کر سکیں، بات چیت کر سکیں اور آزادانہ چل پھر سکیں۔ لیکن اگر ایک ایم۔این۔اے کے ساتھ چار دوست ہوں تو ہم اسے نہیں روک سکتے۔ آپ کو اپنے اوپر پابندیاں عائد کرنا ہوں گی۔ اگر آپ یہ پابندیاں عائد کر لیں تو باقی ذمہ داری ہماری ہے)
Dr. Mohammad Shafi: Sir, why not have two types of cafeteria_ one for the M.N.A's and one for the guests?
(ڈاکٹر محمد شفیع: جناب والا! کیوں نہ دو طرح کے کیفی ٹیریا بنائے جائیں۔ ایک ایم۔این۔اے ز کے لئے اور ایک مہمانوں کے لئے؟)
Mr. Chairman: We cannot have it, we have lack of space, already it is divided, in one portion the Senate is accommodated.
(جناب چیئرمین: جگہ کی کمی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔ پہلے ہی یہ دو حصوں میں ہے۔ ایک حصہ سینیٹ کو دیا گیا ہے)
Dr. Mohammad Shafi: All right, let us expect that you will have it in the near future.
(ڈاکٹر محمد شفیع: ٹھیک ہے ہم امید رکھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں آپ یہ بندوبست کر لیں گے)
Mr. Chairman: Insha- Allah. Now we proceed on.
(جناب چیئرمین: انشاء اﷲ! اب ہم آغاز کرتے ہیں)
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
FATEHA KHAWANI FOR MARTYRS OF 1965 WAR
(۱۹۶۵ء کی جنگ کے شہداء کے لئے فاتحہ خوانی)

Malik Muhammad Akhtar: Mr. Chairman, Sir, before you permit the conducting of the proceedings, this is the 6th of September, the great day in the history of Pakistan when our valiant warriors fought and laid down their lives, so I would request you and through you the House that we should offer Fateha for those Shaheeds, and then we can proceed on.
(ملک محمد اختر: جناب چیئرمین! اس سے قبل کہ آپ کارروائی کے آغاز کی اجازت دیں، آج ۶؍ستمبر ہے، تاریخ پاکستان کا وہ عظیم دن جب ہمارے بہادر فوجی لڑے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ لہٰذا میں آپ سے اور آپ کے ذریعے ایوان سے یہ درخواست کروں گا کہ ہمیں ان شہداء کے لئے فاتحہ خوانی کرنی چاہئے اور پھر کارروائی شروع کرنی چاہئے)
Mr. Chairman: Yes. this will be released to the Press that the House Committee offered Fateha.
(جناب چیئرمین: بالکل! اور پریس ریلیز جاری کیا جائے کہ ہاؤس کمیٹی نے فاتحہ خوانی کی)
----------
(Fateha Khawani was held)
(فاتحہ خوانی کی گئی)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
QADIANI ISSUE- GENERAL DISCUSSION
(قادیانی مسئلہ، عمومی بحث)

Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney- General.
(جناب چیئرمین: جی، جناب اٹارنی جنرل!)
Mr. Yahya Bakhtiar (Attorney- Genral of Pakistan): Mr. Chairman, Sir, I have just received a message that the Prime Minister wants me now. I think, I hope I will be permitted to continue this evening, or if I could come back earlier, but I don't think it will be possible.
(جناب یحییٰ بختیار (اٹارنی جنرل آف پاکستان): جناب چیئرمین! مجھے ابھی پیغام موصول ہوا ہے کہ وزیراعظم مجھے ابھی طلب کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے مجھے امید ہے کہ مجھے اس شام بات جاری رکھنے کی اجازت دی جائے گی یا اگر میں پہلے واپس آسکا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ ممکن ہوگا)
2932Mr. Chairman: No, it is Friday, we have to close by 12:30.
(جناب چیئرمین: نہیں، آج جمعہ ہے اور ہم نے ساڑھے بارہ بجے تک اجلاس ختم کرنا ہے)
Mr. Yahya Bakhtiar: In the meantime other members will continue. I have to cover a lot of ground, so in the evening...
(جناب یحییٰ بختیار: اس دوران دیگر ارکان اپنی بات جاری رکھیں۔ مجھے لمبی بات کرنی ہے لہٰذا شام کو…)
Mr. Chairman: Yes, at what time you have to leave? (جناب چیئرمین: ٹھیک ہے آپ کو کس وقت جانا ہے؟)
Mr. Yahya Bakhtiar: Just now.
(جناب یحییٰ بختیار: ابھی)
Mr. Chairman: Then we will make an exception, and you are permitted to leave and resume your summing up of the arguments. And, in the meantime, I will request the honourable members who wanted to participate in the debate. Moulvi Niamatullah.
(جناب چیئرمین: ایسی صورت میں آپ کو جانے کی اجازت ہے۔ آپ واپس آکر تمام دلائل کا خلاصہ اور حاصل بیان کریں گے اور اس دوران میں معزز اراکین سے بحث میں شمولیت کی درخواست کروں گا۔ مولوی نعمت اﷲ!)
مولوی نعمت اﷲ: جناب والا! میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ اچھا ہوا کہ کوٹ پتلون والوں کو بھی آج سپاہیوں نے روک لیا اور وہ بھی ہمارے برابر ہوگئے۔ ہم تو روزانہ شکایت کرتے تھے کہ وہ ہمیں روکتے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ لیکن اب یہ اچھا ہوا کہ کوٹ پتلون والوں کو بھی روک لیا گیا اور آپ کی توجہ ان کی طرف ہوئی کہ کوٹ پتلون والے کیوں روک لئے گئے۔
جناب چیئرمین: عزت سب کی برابر ہے۔ شلوار قمیص والوں کی زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ ہمارا قومی لباس ہے۔
مولوی نعمت اﷲ: جناب! حقیقت یہ ہے کہ میں اگر پاکستان کا نام لوں تو بجا نہ ہوگا۔ یہاں پر یعنی اسمبلی کے ممبران کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ سرحد کے سیکرٹریٹ کو ہم نہیں جاسکتے۔ کیونکہ وہاں سپاہی کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم کارڈ نکال کر ان کو دکھاتے ہیں۔ ہمارے پاس کارڈ ہے۔ میں ممبر ہوں۔ کہتے ہیں کہ نہیں کارڈ پھینکو۔ کارڈ کو یہ نہیں جانتے۔ یہاں پر اجازت نہیں ہے۔ تو میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ کم ازکم یہ کسی کو کوئی قانونی یا کوئی طریقہ ظاہر کر لیں کہ بھائی یہ نیشنل اسمبلی کا ممبر ہے، یہ تمام پاکستان کے زبردست ایوان کا ممبر ہے۔ اس کے ممبران کی کچھ تو حیثیت 2933ہونی چاہئے تاکہ یہ بات معلوم ہو جائے کہ یہ ممبر ہے۔ لیکن ایک سپاہی کو ہم جواب نہیں دے سکتے۔ ایک تھانیدار کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈی۔سی کے پاس ایک سرمایہ دار شخص جو بی۔ڈی ممبر نہیں ہوتا تھا وہ براۂ راست جاسکتا ہے۔ لیکن ممبر نیشنل اسمبلی ڈی۔سی کے پاس نہیں جاسکتا۔
جناب چیئرمین: آپ میں اور سپاہی میں بڑا فرق ہے۔ سپاہی کے پاس اختیار ہے اور آپ کے پاس خدمت ہے۔ آپ خدمت کرنے کے لئے آتے ہیں اور وہ اختیار استعمال کرنے کے لئے۔ آپ اپنے میں اور اس میں فرق جانیں۔ ملک کرم بخش اعوان!
جناب کرم بخش اعوان: جناب والا! میں آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ یہ جو کاروں کے ساتھ ایم۔این۔اے کے بورڈ لگے ہوئے ہیں ان کی کیا ضرورت ہے۔ یعنی کسی پل پر سے گزریں تو رک کر ضرور اس کی Payment (ادائیگی) کر کے پل کے پار جانا پڑتا ہے۔
جناب چیئرمین: اس کے متعلق میں نے لیٹرز پروانشل گورنمنٹ کو لکھے ہیں۔ میں نے خود لکھے ہیں، سیکرٹریٹ سے لکھوائے ہیں۔ میں دستی پروانے دے دیتا ہوں۔
جناب کرم بخش اعوان: جناب والا! میں ۳۱؍جولائی کو مری گیا تھا تو وہاں پر جو چیک پوسٹ ہے اس پر مجھے روک لیا گیا، حالانکہ کار کے ساتھ ایم۔این۔اے کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ تو سپاہی کو یہ تو بتائیں کہ ایم۔این۔اے، وی۔ آئی۔ پی ہوتے ہیں۔ اس نے کہا یہاں سے ولی خان اور مفتی صاحب جیسے آدمی تو جاسکتے ہیں۔ لیکن آپ کے لئے نہیں، کیونکہ اے۔سی کو پوچھنا پڑتا ہے۔
جناب چیئرمین: وہ پارٹی لیڈر ہیں۔
جناب کرم بخش اعوان: تو ان کو یہ پتا نہیں ہے کہ ایم۔این۔اے بھی وی۔آئی۔پی ہوتے ہیں۔
جناب چیئرمین: آپ دونوں بورڈ لگالیں یعنی دو ایم۔این۔اے کے۔
2934جناب کرم بخش اعوان: نہیں، اگر ہمیں یہ بھی اجازت نہیں ہے کہ ہم کہیں آگے جا سکتے ہیں کسی جگہ جہاں وی۔آئی۔پی جاسکتے ہیں تو پھر کسی بورڈ کی ضرورت کیا ہے۔
جناب چیئرمین: نہیں، انشاء اﷲ! اس کے متعلق ضرور کچھ کریں گے۔ چوہدری غلام رسول تارڑ صاحب! آپ نے تقریر کرنی ہے۔
چوہدری جہانگیر علی: جناب والا! ملک کرم بخش اعوان صاحب نے جو پوائنٹ اٹھایا ہے اس کے متعلق میں نے آج سے سات آٹھ مہینے پہلے اپ کو چٹھی لکھی تھی اور وہ یہ تھی کہ ہر پل پر اور ہر ٹول ٹیکس، بیریر پر ممبران کو روکتے ہیں اور انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ ٹول ٹیکس دیں۔ جناب! یہ ایک دو روپے کی بات نہیں ہے۔ It is a question of the prestige and the privelege of the members of the National Assembly (یہ قومی اسمبلی کے ممبران کے وقار اور عزت کا معاملہ ہے) جب آپ یہ فرماتے ہیں کہ یہ سب سے بڑا ہاؤس ہے اور جناب کی کرسی سب سے بڑی کرسی ہے تو جس وقت ہمارے حقوق کا سوال پیدا ہوتا ہے توجناب فرما دیتے ہیں کہ آپ کے پاس اختیارات نہیں ہیں، آپ کے پاس صرف خدمت ہے۔ تو میں یہ گزارش کروں گا کہ میری چٹھی کا جناب نے یہ جواب دیا تھا ’’کہ آپ کا خط موصول ہوا۔ آپ بے فکر رہیں۔ انصاف کیا جائے گا۔‘‘ یعنی میرا خط کیا تھا اور آپ کا جواب کیا تھا اور آج اس ہاؤس میں مختلف اطراف سے وہی آواز سنی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس اختیارات نہیں ہیں تو کم ازکم آپ کے پاس تو اختیارات ہیں، اور آپ کے ہی اختیارات کو ہم اپنے اختیارات سمجھتے ہیں۔
جناب چیئرمین: میرے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔
2935چوہدری جہانگیر علی: جناب والا! آپ ایگزیکٹو اتھارٹی نہیں ہیں۔ مگر ہمارے حقوق کے کسٹوڈین تو ہیں، ہمارے پریولیج کے کسٹوڈین ہیں۔ Justice delayed is Justice denied (انصاف میں تاخیر انصاف کا انکار ہے) جناب والا! آپ نے فرمایا انصاف کیاجائے گا، مگر ہمارے ساتھ اس سلسلے میں انصاف نہیں ہوا۔
جناب چیئرمین: نہیں، سب کو لیٹرز لکھے ہوئے ہیں۔
کرنل حبیب احمد: جناب! میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ میں چوہدری جہانگیر علی صاحب سے اتفاق کرتا ہوں، نہ صرف ان سے بلکہ جتنے بھی ہمارے معزز اراکین یہاں تشریف رکھتے ہیں ان سے اتفاق کرتا ہوں۔ کس بات پر؟ اس بات پر کہ جو لوگ ہم سے پہلے ایم۔این۔اے یا ایم۔ایل۔اے یا پرانے پارلیمنٹیرین ہیں، جب ان کے پاس ہم نئے لوگ بیٹھتے ہیں تو وہ اپنے زمانے کی باتیں کرتے ہیں۔ اس زمانے کی باتوں سے ایک چیز بڑی عیاں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جو اس وقت اسمبلی میں منتخب ہوکر آتے تھے ان کی بڑی عزت ہوتی تھی۔ ہر جگہ ان کی عزت ہوتی تھی، ہر دفتر میں ان کی عزت ہوتی تھی، ہر محکمہ میں ان کی عزت ہوتی تھی۔ لیکن آج کل کسی جگہ عزت نہیں ہوتی، پٹواری کے دفتر سے لے کر کمشنر کے دفتر تک۔
Mr. Chairman: That is provincial subject.
(جناب چیئرمین: وہ صوبائی معاملہ ہے)
کرنل حبیب احمد: مجھے معلوم ہے، لیکن آپ میری بات سن لیں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ آپ کے پاس ایگزیکٹو پاور نہیں۔ لیکن آپ اتنا ضرور کریں کہ ہمیں سن لیں۔ آپ جس سیکرٹریٹ میں تشریف رکھتے ہیں، یہی سیکرٹری ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ ایم۔این۔اے سے جونیئر ہیں۔ یہ ہم کو بتایا گیا۔ اگر وہ نہ بتاتے تو ہم یہ سمجھتے کہ ہم چپڑاسی سے بھی کم ہیں اور یہ ہمارے لئے اعزاز ہے۔ لیکن ہمیں یہ بتایا گیا ہے۔ وہ اپنی کاروں پر جھنڈے 2936لگاتے ہیں اور ہمیں اتنی عزت کیوں نہیں ملتی۔ جس کا ہمیں حق ہے۔ عوامی نمائندے ہونے کی حیثیت سے۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ میرے تمام دوست جو یہاں بیٹھے ہیں وہ بھی اس میں شامل ہوں گے کہ ہماری وہ عزت جو تصور ہمارے دماغوں میں تھا وہ نہیں ہے۔ نہ پولیس کے محکمے میں، نہ انتظامیہ کے محکمے میں، نہ سینٹر کے، نہ صوبے کے، نہ کسی انتظامیہ میں، ہماری عزت ہے اور ہمارے تحفظ کے لئے کیا اتھارٹی ہے؟
سردار شیر باز خان مزاری: جناب والا!
Mr. Chairman: You want to speak?
(جناب چیئرمین: کیا آپ بات کرنا چاہتے ہیں؟)
سردار شیر باز خان مزاری: جی، میں نے ایک عرض کرنا تھی۔
Mr. Chairman: In this connection or in connection with the issue?
سردار شیرباز خان مزاری: آپ نے جناب والا کہا ہے کہ ہم خدمت گار ہیں۔ وہ ٹھیک ہے۔ مگر جب سپاہی اور کمشنر کی بات کرتے ہیں تو وہ ہمارے Tax payee ہیں۔ وہ اس قوم کے نوکر ہیں۔
I feel, Sir, that because of your unassuming manner and modesty, you happen to think that you have no importance. I am sorry, I do not agree, with due respect, with your views about yourself. You are here to protect the interests and rights of the House. Surely you can protect the interests of this House. They are paid to do this job. We happen to represent at least the masses. Day in and day out, we are told that masses are sovereign. If we represent the sovereign people of Pakistan, our status is no less than anyone else in the executive post. I appeal to you that whatever problems have been placed before you, they are genuine, and there is no party basis for this. It is not a question of privileges; they are to pay due honour and respect to the masses of pakistan whom we represent.
ایک یا دو روپے کے ٹول ٹیکس کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔
2937It is a question of dignity of this sovereign body which is supposed to be the highest body in the country. آپ آپ چپڑاسی کی بات کرتے ہیں۔ With due respect, I submit that this matter may be taken up with those who are at the helm of affairs, those who hold responsible position in Government, to ensure that the dignity and privilege of the representatives of the people of Pakistan are maintained. Thank you.
(جناب والا! میرا خیال ہے کہ اپنی سادگی اور عاجزی کی وجہ سے آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ معذرت کے ساتھ اور احترام کے ساتھ میں آپ کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتا۔ آپ کا کام ایوان کے مفادات اور حقوق کا تحفظ ہے اوریقینا آپ اس ایوان کے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ جب کہ ان لوگوں کو اس کام کی تنخواہ ملتی ہے۔ ہم کم ازکم عوام کی نمائندگی تو کر رہے ہیں۔ دن رات ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہے۔ اگر ہم پاکستان کے مقتدر عوام کی نمائندگی کرتے ہیں تو ہمارا منصب انتظامی عہدے پر فائز کسی شخص سے کم نہیں۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ جو مسائل آپ کے سامنے پیش ہوئے ہیں وہ بالکل درست ہیں اور ان کی بنیاد پارٹی بازی پر نہیں ہے۔ یہ مراعات کامعاملہ نہیں ہے۔ لیکن انہیں پاکستان کے عوام کو جن کی ہم نمائندگی کرتے ہیں وہ عزت واحترام دینا چاہئے جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ اس مقتدر ادارے کے وقار کا سوال ہے جو اس ملک کا بلند ترین ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ بجا احترام کے ساتھ میں گزارش کرتا ہوں کہ اس معاملے کو حکومت کے انتظامی معاملات کے سربراہوں کے سامنے اٹھایا جائے تاکہ پاکستان کے عوام کے نمائندوں کے وقار کو یقینی بنایا جاسکے۔ آپ کا شکریہ!)
ڈاکٹر محمد شفیع: جناب والا ایک بات کرنا ہے۔
جناب چیئرمین: کل پرسوں بات کر لیں گے۔
I agree with the sentiments of the honourable members. Honourable members of the National Assembly are entitled to the highest respect and regard, leaving aside the placing in the Warrant of Precedence, leaving aside other matters. They are the persons in whom, the people of this country, who have a right to rule this country, have reposed their confidence; they are entitled to it as such. These things, whenever they happen, whenever they come to my notice, I am always prompted to take action. I always write, I always take action through whatever channels are available to me, and on all the complaints I have always taken action. It is my duty to maintain the dignity of the House and I shall maintain the dignity of the House inside the House. I will see that all honourable members of the National Assembly are safeguarded outside. That is my duty. Ch. Ghulam Rasul Tarar.
(میں معزز اراکین کے احساسات سے متفق ہوں۔ قومی اسمبلی کے معزز اراکین سب سے زیادہ عزت واحترام کے مستحق ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ وارنٹ آف پریسی ڈنس (Warrant of Precedence) میں وہ کہاں پر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ملک کے عوام نے، جو حکومت کرنے کے اصل حق دار ہیں، اعتماد کا اظہار کیا۔ لہٰذا اس قسم کے واقعات جب بھی ہوں اور جب بھی میرے نوٹس میں آئیں تو میں فوری ایکشن لیتا ہوں۔ میں تحریراً اور تمام موجود چینلز کے ذریعے کارروائی کرتا ہوں اور اب تک جتنی بھی شکایات مجھے ملی ہیں میں نے ان سب پر کارروائی کی ہے۔ ایوان کے وقار کو تحفظ دینا میرا فرض ہے اور میں ایوان کے اندر ایوان کا وقار برقرار رکھوں گا۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ قومی اسمبلی کے معزز اراکین کو باہر تحفظ حاصل ہو۔ یہ میرا فرض ہے۔ چوہدری غلام رسول تارڑ!)
چوہدری غلام رسول تارڑ: جناب چیئرمین! میں اپنی تقریر کرنے سے پہلے گزارش کروں گا کہ ہمارے اٹارنی جنرل صاحب…
Mr. Chairman: Just a minute. The Attorney- General had to come today. He could not resume his address. He will not be able to come back by 12:30, so, up to 12:30, I request that honourable members, whosoever wants to speak can speak. After they have finished, I have reserved time for the Attorney- General, who will take about two to three hours. Attorney- General's summing up of evidence is a must; that must come on record. He is just conversant with the evidence. If at all they want to speak, I will request the honourable members to be brief so that we may finish by 12:30. Tomorrow is the last date. Tomorrow, we have to finalize the recommendations by 7th.
(جناب چیئرمین: صرف ایک منٹ، اٹارنی جنرل نے آج آنا تھا۔ وہ اپنا خطاب شروع نہ کر سکے، وہ ساڑھے بارہ بجے تک واپس نہ آ سکیں گے۔ لہٰذا میں معزز اراکین سے گزارش کروں گا کہ ساڑھے بارہ بجے تک جو بھی بات کرنا چاہے وہ بات کر سکتا ہے۔ اس کے بعد کا وقت میں نے اٹارنی جنرل کے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ جو تقریباً دو تین گھنٹے لیں گے۔ اٹارنی جنرل کی طرف سے شہادت کا خلاصہ بیان کرنا نہایت ضروری ہے اور یہ ریکارڈ کا حصہ ضرور بننا چاہئے۔ وہ شہادت سے خوب واقف ہیں۔ جو معزز اراکین بات کرنا چاہیں میں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنی بیانات کو مختصر رکھیں تاکہ ہم ساڑھے بارہ بجے تک ختم کر سکیں۔ کل آخری تاریخ ہے۔ کل ہمیں سات بجے تک اپنی تجاویز کو حتمی شکل دینی ہے)
2938شہزادہ سعید الرشید عباسی: میں یہ گزارش کروں گا کہ آپ پوچھ لیں کہ کتنے بولنے والے ہیں اس کے حساب سے وقت دیا جائے۔
Mr. Chairman: Yes, I will request the honourable members who want to speak on this issue may please rise in their seats.
(جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، میں معزز اراکین سے درخواست کرتا ہوں کہ جو اس مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں وہ براہ کرم اپنی نشستوں پر کھڑے ہو جائیں)
جو بول چکے ہیں وہ نہیں بولیں گے۔ ان کے بولنے کے بعد آپ بولیں گے۔
چوہدری جہانگیر علی: مولانا عبدالحکیم صاحب کافی تقریر کر چکے ہیں۔
جناب چیئرمین: غلام رسول تارڑ صاحب کے بعد احمد رضا قصوری اور مولوی ذاکر صاحب بولیں گے۔ دس(۱۰)سے پندرہ منٹ تک بہت ہیں۔ چوہدری غلام رسول تارڑ!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب چوہدری غلام رسول تارڑ کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
چوہدری غلام رسول تارڑ: جناب چیئرمین! اٹارنی جنرل صاحب نے بلکہ ساری خصوصی کمیٹی نے اسی نوے سالہ مسئلہ کو صاف کر کے کمیٹی کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ساتھ ہی میں مرزاناصر کا بھی مشکور ہوں کہ جنہوں نے یہ درخواست کی تھی کہ وہ آپ کی اس کمیٹی کے سامنے اپنا مؤقف بیان کریں۔ جب ساری باتیں ہوئی تھیں وہ کہتے تھے کہ ہم بھی مسلمان ہیں اور مرزاصاحب کو پیغمبر نہیں سمجھتے اور ہماری ایسی جماعت ہے جیسے دیوبندی، بریلوی وغیرہ۔ اتنا ہمارے دل میں خیال نہیں تھا جو ان کے مؤقف سے یہاں ظاہرہوا ہے۔ بلکہ انہوں نے ہمارے بھائی بننے کا جو بتایا ہے آپ کی توجہ اس طرف دلاتا ہوں۔ مرزاصاحب کی اپنی تحریروں میں یہ لکھا ہے کہ سب مسلمان ہو جائیں گے جو نہیں ہوں گے وہ ولد الحرام، کنجریوں کی اولاد ہوں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کا اشارہ، اپنے آپ کو کہنا نہیں چاہتے، سب مسلمانوں میں تو میں بھی ہوں۔ یہ تو ہمارے ساتھ بھائی بندی کا تعلق رکھنا چاہتے تھے؟ لیکن انہوں نے صاف یہ کہہ دیا کہ ہم آپ کو 2939یہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے ان کے ساتھ بھائی بندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ مرزاغلام احمد کو انہوں نے پیغمبر تسلیم کیا اور کہا کہ مرزاغلام احمد نبی تھے۔ میں اس لئے حیران ہوں کہ ان کا نبی ہونا یا نبی ماننا اور لوگ اس کو کس طرح نبی مان رہے ہیں۔ جب کہ وہ اپنے آپ کو یہ کہتے ہیں کہ میں انگریز کا وفادار ہوں، میرا خاندان انگریز کا وفادار ہے اور ہر قیمت پر اس کی مرضی کے مطابق چلیں گے۔ اس کے بعد آج تک کوئی بتائے، میرے علمائے کرام یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، وہ بھی یہ بتاسکتے ہیں کہ کسی بھی تاریخ میں یہ موجود نہیں ہے کہ پیغمبر تو پیغمبر، کوئی ولی یا محدث کسی بادشاہ کے پاس چل کر گیا ہو یا وقت کے حکمران کے پاس گیا ہو یا کسی سے مدد کے لئے استدعا کی ہو، بلکہ مثالیں موجود ہیں کہ کافر بادشاہ مسلمان ولیوں کے پاس اپنی آرزوئیں لے کر ان کے قدموں میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ مسلمان تو مسلمان، کافر بھی اپنی آرزوئیں لے کر وہاں حاضر ہواکرتے تھے۔ یہ شخص جو اپنے آپ کو پیغمبر کہلاتا ہے، کس سے مانگتا ہے؟ ایک غیرمسلم حکومت سے مدد مانگتا ہے جومسلمان بھی نہیں ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاغلام احمد انگریز کا ایجنٹ تھا)
ان کے مؤقف سے مجھے یہی ثابت ہوا ہے کہ مرزاغلام احمد انگریز کا ایجنٹ تھا اور جو مثالیں مرزاغلام احمد نے یہاں دی ہیں کہ انہوں نے پادریوں کے ساتھ مباحثے کئے اور رسول اکرم ﷺ کی شان کے خلاف جو لکھا گیا، انہوں نے اس کا جواب دیا، وہ ان کا جواب نہ تھا۔ وہ صرف اس لئے تھا کہ انگریز کے ساتھ اس نے بات کی تھی کہ میں مسلمانوں کی ہمدردی اس طرح ہی حاصل کر سکتا ہوں کہ میں مباحثوں میں حصہ لوں۔ جیسا کہ جاسوس لوگ آتے ہیں۔ سکھ ہوتے ہیں تو مسجد میں بیٹھ کر وہ لوگوں پر یہ ثابت کرنے کے لئے نمازیں پڑھتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ لیکن اصل میں وہ اس حکومت کے جاسوس ہوتے ہیں۔ اس طرح مرزاغلام احمد اس حکومت کا جاسوس اور ایجنٹ تھا۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi.]
(اس مرحلے پر جناب چیئرمین نے کرسی صدارت کو چھوڑا جسے ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے سنبھالا)
----------
2940چوہدری غلام رسول تارڑ: چونکہ عیسائیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہیں مسلمان سے خطرہ تھا۔ ہمارا مذہب یہ کہتا ہے کہ ہم مجاہد بنتے ہیں۔ تب بھی جہاد سے، اور شہید بنتے ہیںتب بھی جہاد سے۔ ہمارے اس جہاد کے ایمان کو زائل کرنے کے لئے مرزاغلام احمد کو مقرر کیاگیا اور اس کی مالی امداد اس طرح کی گئی کہ جتنا روپیہ وہ باہر مشنوں پر خرچ کرنا چاہے، اتنا خرچ کرے تاکہ مسلمان اپنے ایمان کو اس طرح سمجھیں کہ جہاد کرنا جائز نہیں۔
اس کے بعد انہوں نے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا۔ ہم مسلمان ہیں اور قرآن پر ہمارا ایمان ہے۔ قرآن اور حدیث کے مطابق رسول اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی، ظلی، شرعی یا غیرشرعی، آ ہی نہیں سکتا۔ جب کہ اس نے اپنے آپ کو نبی کہا تھا۔ آج ہمارے سامنے انہوں نے اس کو تسلیم کیا ہے۔ ان کی کتب سے یہ تسلیم ہوا ہے کہ وہ اپنے آپ کو نبی کہتا تھا۔ میں سمجھتاہوں کہ جو نبی کہلائے، وہ اور اس کو نبی ماننے والے، سب مرتد ہیں۔
جناب چیئرمین صاحبہ! میں آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، جب کہ کل ایک نئی بات نکلی ہے کہ حضور ﷺ نے خداوند تعالیٰ کی جناب میں یہ استدعا کی تھی کہ میری امت جو ہے، وہ بھیڑوں کو بھیڑیے کھا رہے ہیں، تو مرزاغلام احمد کو وہاں بھیجا جائے کہ انہیں بچائے۔ میں عرض کرتا ہوںکہ جب رسول اکرم ﷺ نے ذات باری تعالیٰ کی خدمت میں یہ استدعا کی تھی کہ مرزاغلام احمد کو بھیجا جائے تاکہ میری امت کو بچائے، تو بجائے اس شخص سے بچایا جائے تو وہ ویسے بھی خداوند کریم کو طاقت ہے ہر چیز بچانے کی، وہ بچا سکتا ہے۔ یہ مرزاغلام احمد ہی ہمارے بچانے کے لئے یہاں آیا تھا! ان حالات میں یہ اقلیت تو نہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(علماء کرام کی خدمات)
دائرہ اسلام کے ساتھ ایک دوسرا لفظ انہوں نے استعمال کیا، میں نے تو آج تک وہ سنا نہیں تھا، جو دائرہ اسلام سے خارج ہو میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی مسلمان نہیں۔ دوسرا 2941لفظ بھی ساتھ ملاتا ہوں، ملت اسلامیہ سے بھی انہیں خارج کرنا چاہئے۔ تاکہ مسلمان قوم اور عظیم اسلامی دنیا کو بچایا جائے جس کو تباہ کرنے کے وہ درپے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ شاید یہ سخت کلمہ ہوگا۔ میں بھی ان میں سے ایک داڑھی والا ہی ہوں۔ لیکن آج تک تو یہ کہا جاتا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی کیا کرے گی؟ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ صرف انگریز کی پیدائش نہیں، سابقہ حکومتوں کی چشم پوشی کی وجہ سے بھی انہوں نے اتنی ترقی کی ہے۔ ورنہ اگر سرظفر اﷲ نہ ہوتا تو میرے خیال میں باہر کی دنیا میں ایک احمدی بھی نہ ہوتا۔ یہ سارے مشن ان کی چشم پوشی کا نتیجہ تھے۔ مولویوں نے بے شک کوشش کی ہے۔ مولوی ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ لیکن مولویوں کے پاس کیا تھا؟ حکومت ان کے ساتھ تھی۔ جس کے ساتھ حکومت ہو ان کے مقابلے میں کون کچھ کر سکتا ہے؟ اس لئے میں تو اتفاق نہیں کرتا کہ مولویوں نے کچھ نہیں کیا۔ مولویوں نے بڑا کچھ کیا ہے۔ مولویوں نے یہاں تک کیا ہے کہ اس مسئلے کو کھڑا کئے رکھا ہے۔ اگر مولوی یہ محنت نہ کرتے تو آج تک یہ مسئلہ ختم ہوچکا ہوتا۔ مولویوں کا کام یہ تھا کہ وہ مسجدوں میں بیٹھ کر اپنی روٹی کے لئے کوشش کرتے ہیں، وہ کیا کر سکتے ہیں؟ وہ باہر مشن کا مقابلہ کیا کر سکتے تھے؟ ان کے تو مشن ہیں، جیسے عیسائیوں کے مشن آکر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، ان کو گمراہ کرنے کے لئے پیسے دئیے جاتے تھے، حکومت کی مدد دی جاتی تھی، ان کو عہدے دئیے جاتے تھے۔ بلکہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ فلاں مولوی اور فلاں عالم اس مذہب میں آگیا ہے۔ محمد علی آگیا ہے۔ کمال الدین آگیا ہے۔ فلاں آگیا ہے اور یہ ہوگیا ہے اور وہ ہوگیا ہے، وہ سب لوگ عہدوں کے لالچ میں اس مذہب میں آئے، ورنہ یہ کوئی مذہب نہیں ہے اور نہ ہی دنیا میں اس مذہب کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے۔
اس کے بعد میں یہ گزارش کروں گا کہ میرے معزز دوست ملک جعفر صاحب نے کل فرمایا تھا، اس سے مجھے تھوڑا سا اتفاق نہیں، انہوں نے کہا تھا کہ مولویوں نے کچھ 2942نہیں کیا۔ وہ تو میں نے بتایا ہے کہ مولویوں نے جو کچھ کرنا تھا، وہ کرتے رہے۔ اب میں عرض کروں جیسے اﷲ کے فضل سے پیپلزپارٹی کو ان کافروں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے اور مرتد قرار دینے کا شرف حاصل ہوگا، اس کے ساتھ اس ریزولیوشن کے متعلق میں بھی آپ کی اجازت سے ایک اضافہ کرانا چاہتا ہوں۔ جب ان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے تو اس کے بعد سونے کا مقام نہیں ہے، کیونکہ دنیا میں جو نئی ریاستیں آزاد ہوئی تھیں، ان میں سادہ لوح مسلمانوں کو ان کے مشنوں نے یہ کہہ کر کہ ہم خاتم النّبیین پر ایمان رکھتے ہیں اور اﷲتعالیٰ پر ہمارا ایمان ہے، اس کے بعد ان کو پتہ نہ تھا، ان کو غلط فہمی میں ڈال کر انہوں نے مرزاغلام احمد کو مجدد یا جو کچھ بنانے کے لئے کہا ہے، اور انہیں گمراہ کیا ہے۔ میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ پیپلزپارٹی بلکہ جو بھی اسلامی حکومت ہو اس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اسلام میں ایسے مرتد اور ناسور جو لوگ ہیں انہوںنے باہر مشنوں میں جو کام کیا ہے، ان لوگوں کی اصلاح کے لئے مشن بھیجے جائیں۔ گورنمنٹ اگر حج کا اور باہر وفدوں کا انتظام کر سکتی ہے، اور لوگوں کو باہر بھیج سکتی ہے تو علماء دین کے وفدوں کو ان ریاستوں میں بھیجیں اور وہ ان لوگوں کو صحیح راستے پر لائیں۔ ان کا کوئی قصور نہیں، وہ صحیح مسلمان ہیں۔ وہ سادہ لوح تھے۔ انہیں پوری واقفیت نہ تھی۔ چونکہ ان لوگوں کو موقع ملا اور انہوں نے جاکر اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ان کو گمراہ کیا۔ ان کے لئے گورنمنٹ وفد بنا کر باہر بھیجے تاکہ یہ ناسور ختم ہوجائے اور اسلام اسی طرح ہو جیسے رسول اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کے وقت اسلام نے ترقی کی۔ مٹھی بھر مسلمانوں کو کوئی ختم نہیں کر سکتاتھا۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ عیسائیوں کی پانچ پانچ لاکھ فوجوں نے چالیس ہزار مسلمانوں کامقابلہ کیا ہے…
محترمہ قائم مقام چیئرمین: ذرا ختم کرنے کی کوشش کریں۔ دس پندرہ منٹ ہیں۔
2943چوہدری غلام رسول تارڑ: بالکل ٹھیک ہے۔ ایسے مشن کو بھی بھیجا جائے۔ ان کے لئے پیپلزگورنمنٹ جیسا کہ ان کو ڈیکلیئرکرنے کی امید ہے کہ اﷲ کے فضل سے کر دے گی، اس کے بعد ان کے جو بیت المال وغیرہ ہیں، ان کی جو جائیدادیں ہیں، جو ہم سے دس فیصد لے کر بنائی گئی ہیں، ہمارے بھائیوں سے، وہ میرے ہی بھائی ہیں، جن کی دس روپے کی آمدنی ہو، وہ روپیہ ضرور دیں گے، چاہے خود بھوکے رہیں۔ وہ سب ضبط کر کے انہی مشنوں پر خرچ کرنی چاہئے۔ اوقاف کی رقم بھی انہیں مشنوں پر خرچ کرنی چاہئے۔ یہ اسلام کی خدمت ہے اور ایسا کرنا ہمارا فرض ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: مسٹر محمود اعظم فاروقی! دس منٹ ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب محمود اعظم فاروقی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب محمود اعظم فاروقی: بہت ہیں دس منٹ۔ محترمہ! یہ مسئلہ کہ مرزاغلام احمد کو نبی ماننے والے مسلمان ہیں یا نہیں، ہماری ملت کا اتنا قدیم مسئلہ ہے اور اس ایوان میں اس پر اتنی سیر حاصل گفتگو پچھلے ایک مہینے سے ہوتی رہی ہے کہ اس میں کسی مزید اضافے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود میں اس لئے کھڑا ہوا ہوں کہ دو ایک باتوں کا چند منٹ میں ذکر کردوں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(زبان سے نہیں بلکہ دل سے)
سب سے پہلے تو میں مرزاغلام احمد کو ماننے والی اس نسل کے نوجوانوں کا بڑا مشکور ہوں کہ انہوں نے ربوہ میں ہمارے طلبہ پر حملہ کر کے اس مسئلے کو جو مسائل کے انبار میں دفن ہوگیا تھا، ایک بار پھر زندہ کر کے قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے، اور قوم اس مسئلے پر اتنی منظم ہوکر سامنے آئی کہ یہ ایوان بھی اس بات پر مجبور ہوا کہ اس پر صحیح سمت میں کوئی قدم اٹھائے اور میں اس بات پر بھی ان کا مشکور ہوں کہ اس مسئلے کو زندہ کر کے انہوں نے اس ایوان میں ایک یک جہتی کی فضا پیدا کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے ڈھائی سال کے عرصے میں جب سے کہ یہ اسمبلی معرض وجود میں آئی ہے۔ یہ پہلا مسئلہ ہے جس میں 2944ایوان کے دونوں طرف کے لوگ زبانی نہیں دل سے متفق ہوئے۔ ہم پہلے بھی کئی باتوں پر اتفاق کر چکے ہیں۔ لیکن کبھی مصلحتیں پیش نظر تھیں، کبھی کوئی دوسری چیزیں پیش نظر تھیں۔ لیکن یہ وہ مسئلہ ہے جس میں کہ ہم دونوں طرف کے بیٹھنے والے ساتھی شرح صدر کے ساتھ زبان سے بھی اور دل سے بھی اس مسئلے پر متفق ہیں، اور اس اتفاق کا جو اظہار پچھلے دنوں میں ہوتا رہا ہے، میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے نتیجے میں انشاء اﷲ! یہ اسمبلی اس مسئلے کا ایسا فیصلہ کرے گی جو خدا کے نزدیک بھی مقبول ہو اور عوام کے نزدیک بھی قابل قبول ہوگا۔
جناب والا! میں ایک بہت اہم بات آپ کے توسط سے اپنے بائیں طرف بیٹھنے والے ساتھیوں کی اور بالخصوص حکومت کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا اور وہ یہ ہے کہ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ ایک قانونی پہلو ہے دوسرا انتظامی پہلو۔ قانونی پہلو یہ کہ اسمبلی دستور میں ترمیم کر کے یا قوانین نئے لاکر رسول کریم ﷺ کی نبوت کو آخری نبوت نہ ماننے والوں کو غیرمسلم قرار دے دے اور اس کے نتیجے میں غلام احمد کے متبعین غیرمسلم قرار پا جائیں۔ یہ ایک قانونی حیثیت ہے اس کی۔ لیکن اس سے ایک بڑا مسئلہ اس کی انتظامی حیثیت ہے۔ جیسا کہ تارڑ صاحب نے صحیح فرمایا کہ گذشتہ حکومتوں کی چشم پوشی کے نتیجے میں پچھلے ۲۵سال میں یہ لوگ مختلف محکموں میں داخل ہوئے، مسلمانوںکا لبادہ اوڑھ کر، مسلمانوں کے نام سے، اور اپنے فرقے کے دوسرے افراد کے تعاون سے اور اپنے بڑے بڑے افسران کی مدد سے یہ کلیدی مناصب پر پہنچتے رہے۔ آپ اچھی طرح جانتی ہیں اس بات کو، کہ اس وقت فوج میں اور سول سروسز میں بہت اہم مناصب پر یہ لوگ پہنچ چکے ہیں۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ یہ نہ مسلمان ہیں اور نہ محب وطن تو ان کو کلیدی مناصب پر رکھنا صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والی بات ہی نہیں ہے بلکہ خود اس ملک کی سلامتی کے منافی ہے، اور میں یہ کہوں گا کہ پیپلزپارٹی کی 2945حکومت کے حق میں بھی یہ بات ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کو ان مناصب سے ہٹائے۔ ان مناصب سے ہٹانے کا مسئلہ خالصتاً انتظامی مسئلہ ہے، ایوان اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اس لئے میں غالباً ایوان کے جذبات کی نمائندگی کروں گا اگر میں حکومت سے یہ مطالبہ کروں کہ وہ ان کو ان انتظامی مناصب سے، کلیدی مناصب سے ہٹانے کے لئے فوری اقدامات کرے۔ میں یہ بات جانتا ہوں اور یہ میں محسوس کرتا ہوں کہ اس سارے لوگوں کو سارے کلیدی مناصب سے بیک وقت نہیں ہٹایا جاسکتا۔ اس سے انتظامی خلا بھی پیدا ہوسکتا ہے اور ملک کے دوسرے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر حکومت کے سامنے یہ مسئلہ موجود ہو کہ ان کو ہٹانا ہے تو وہ ہٹائے جاسکتے ہیں۔
اسی سلسلے میں ایک اور بات ہے بلکہ ایک مشکل یہ سامنے آنے کا امکان ہے کہ اس انتظامیہ کے بہت سے وہ لوگ اور بہت سے وہ افراد جو کہ کلیدی مناصب پر ہیں اور وہ جو غلام احمد کے متبعین میں سے بھی ہیں، وہ شاید یہ کہنا شروع کر دیں کہ ہم تو مسلمان ہیں اور ہم ختم نبوت کے عقیدے کو مانتے ہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ حکومت کے پاس انٹیلی جنس اور دوسری بھی ایسی مشینری موجود ہے کہ جو ان کو یہ صحیح اطلاع دے سکتی ہے کہ کون سے وہ لوگ ہیں جو اس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ملک وملت کے لئے جن کا طرز عمل منافی ہوسکتا ہے، ان کو ہٹایا جانا چاہئے۔ اس لئے اس مشینری کو عمل میں لائے۔ اس کو حرکت میں لائے اور ایسے لوگوں کا پتہ لگائے اور ان کو مناسب طور پر ان کی تعداد کے لحاظ سے صحیح مقام پر رکھے۔
پھر دوسری بات میں اس سلسلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم نے یہ فیصلہ اسمبلی میں کر دیا، انشاء اﷲ! عوام کے مطالبے کے مطابق، تو اس کا امکان میں پوری شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ ملک میں خود یہ حضرات کوئی گڑبڑ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، یعنی وہ جو کہ غلام احمد کے ماننے والے لوگ ہیں، تاکہ پاکستان دنیا کی نظروں میں بدنام ہو 2946اور لوگ یہ سمجھیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک فرقے کے لوگوں کو یا جو مسلمان نہیں ہیں ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاتا۔ دلیل کی بنیاد پر یہ بات جانتا ہوں کہ اس بات کی تیاریاں ہورہی ہیں کہ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے کہیں اکے دکے حملے کر کے، کہیں اور ایسی حرکت کرکے مسلمانوں کو مشتعل کیا جائے تاکہ کوئی اس قسم کے فسادات کی صورت پیدا ہوسکے۔ میں جانتا ہوں کہ حکومت اس سلسلے میں بے شک چوکس ہے اور وہ ایسے اقدامات کر رہی ہے کہ ایسی صورت پیدا نہ ہو، لیکن اس ایوان کے لوگوں کی زیادہ ذمہ داری ہے۔ ہم سب کی جو کہ اپوزیشن میں ہیں یا حزب اقتدار میں ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر خدانخواستہ ایسی صورت پیدا ہو تو ہمیں خود میدان میں آنا چاہئے اور غلام احمد کے متبعین کے جان ومال کے تحفظ کے لئے ہم خود جدوجہد کریں، کیونکہ ایک دفعہ ان کو اقلیت قرار دے دینے کے بعد یہ مسلمان حکومت اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے جان ومال کا تحفظ کریں اور یہ فیصلہ ہو جائے گا۔ انشاء اﷲ! ملک میں ہماری یہ ذمہ داری ہوگی کہ ہم کسی فساد کو یا کسی ناخوشگوار صورتحال کو پیدا ہونے سے روکنے کے لئے جدوجہد کریں۔
آخری بات میں یہ عرض کروں گا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی کل کی تقریر میں اس قرارداد پر ایک تبصرہ کیا تھا جو ہم نے تجویز کی تھی۔ یہاں ۳۷ حزب اختلاف کے ممبران نے جو قرارداد پیش کی تھی اس پر انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے ایک بات کی طرف اشارہ کیا تھا جو میں سمجھتا ہوں کہ غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس کی وضاحت ہو جانی چاہئے۔ تاکہ اس کمیٹی کا ریکارڈ صاف رہے۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ اس قرارداد میں متضاد باتیں کی گئی ہیں۔ یعنی ایک طرف اس قرارداد میں یہ کہاگیا ہے قادیانیوں کو کہ وہ ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ہیں اور دوسری طرف یہ کہاگیا ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ تو اگر وہ ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ہیں تو ان کے حقوق کے تحفظ کے 2947معنی انہوں نے یہ لئے کہ ہم ان کو کھلی چھٹی دے دیں کہ وہ ملک دشمن کارروائیوں کو جاری رکھیں۔ میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ہم نے جب یہ قرارداد پیش کی تو ہم نے ان دونوں حقائق کو سامنے رکھا تھا۔ ایک حقیقت یہ ہے اور ہم اپنے علم کی بناء پر یہ جانتے ہیں کہ غلام احمد قادیانی کو ماننے والے لوگ اس ملک وملت اسلامیہ کے خلاف تگ ودو کر رہے ہیں اور وہ اس قسم کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک مجرم کو بھی یہ حق ہے کہ وہ زندہ رہے۔ اس کے جان ومال کا تحفظ کیا جائے۔ اس لئے میں یہ کہتا ہوں کہ انہیں ان کارروائیوں کو جاری رکھنے کی اجازت تو نہیں دی جائے گی، مسلمان تو نہیں سمجھا جائے گا، لیکن ان کو اس ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے جو جان ومال کے تحفظ کا حق ہے، وہ حق ان کو دینا قانون کے ذریعے سے بھی اور انتظامیہ کے ذریعے سے بھی ہماری ذمہ داری ہے تو اس لئے اس قرارداد میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ بالکل ایک حقیقت کو بیان کر کے یہ کہاگیا ہے کہ ان کو ان کاروائیوں سے روک کر ان کے جائز حقوق کا ہمیں تحفظ کرنا چاہئے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے تو یہ چند باتیں تھیں جو میں آپ کے توسط سے عرض کرنا چاہتا تھا۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: مولانا محمد علی!
مولانا سید محمد علی رضوی: پہلے مولانا محمد ذاکر صاحب کو موقع دے دیجئے۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: اچھا، مولانا محمد ذاکر!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب مولانا محمد ذاکر کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
مولانا محمد ذاکر: جناب والا! ایوان کا کافی وقت اس پر صرف ہوچکا ہے، اس میں مزید وضاحت کی حاجت نہیں۔ لیکن مجھے تعجب ہے کہ اس مسئلے کو اس رنگ میں کیسے زیر بحث لایا گیا، حالانکہ یہ مسئلہ اتنا واضح ہے، اتنی مسلمہ حقیقت ہے کہ اس پر کسی اظہار خیال کی حاجت نہیں تھی۔ اس میں مخالفین کو موقع دیاگیا اور اس کا جواب الجواب شائع کیاگیا۔ 2948اور اس پر بحثیں ہوئیں اور اٹارنی جنرل کو تکلیف دی گئی۔ یہ سب باتیں ہوئیں۔ لیکن ایک اسلامی مملکت میں اس مسئلے کو اس وقت زیربحث لانے کی حاجت ہی کیاتھی؟ یہ اتنی واضح چیز ہے جیسے دن چڑھا ہوا ہو، جیسے اظہر من الشمس کہتے ہیں۔ اس پر بحث ہوئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس میں مزید بولنا، مزید وضاحت کرنا، میں تو اس کو سوء ادب سمجھتا ہوں، یہ بے ادبی ہے۔ کوئی یہ ایسی غیراسلامی حکومت نہ تھی کہ جس میں اس وضاحت کی ضرورت ہوتی۔ جب یہ ہمارا دعویٰ ہے اور ہمارا اعلان ہے کہ یہ اسلامی حکومت ہے، پھر اسلامی حکومت میں ایک ایسے مسئلے کو جو مسلمہ حقیقت ہے، اس کو اس طرح زیربحث لانا ایک تعجب کی بات ہے۔ کیونکر تعجب ہوا کہ اس کو زیربحث لایا گیا۔ میں سمجھتا ہوں اس کو زیربحث لانا نہایت بے ادبی ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کی شان باعظمت میں گستاخی ہے۔ ہم کون ہیں، ہماری کیا حقیقت ہے کہ ہم اس پر بحث کریں۔ جب خالق کائنات نے اس کا فیصلہ فرمادیا۔ اس بارے میں واضح احکامات پہلے سے موجود ہیں۔ اس میں اب کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں تھی کہ پھر ہم اس کو ازسرنوزیر بحث لائیں۔ یہ ایک بڑا تعجب خیز معاملہ ہے جو ایک حد تک ٹھیک ہے، ہوگیا۔ لیکن مزید اس میں کسی قسم کے انتظار کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان کے اندرون سواداعظم نہایت بے تابی سے آپ کا انتظار کر رہا ہے، اور بیرونی ممالک میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی غیرت، ملی غیرت، ایمانی غیرت کیا ہے۔ اس لئے اس مسئلے میں مزید بحث کی حاجت نہیں پھر اٹارنی جنرل کی بحث کے دوران کافی کارروائی ہو چکی ہے اور اب اس میں دوٹوک فیصلہ ہونا چاہئے۔ دوٹوک فیصلہ کے سوا اور کوئی صورت کار نہیں۔ اگر ہمارا حسب اقتدار مزید شک وشبہ میں پڑا رہے تو یہ مزید نقصان کا باعث ہوگا۔
2949میں اس مسئلے میں مزید کچھ کہنا سوء ادبی سمجھتا ہوں۔ میں پھر توجہ دلاؤں گا کہ اس کی اہمیت کے مطابق، اس کی حیثیت کے مطابق، اس کی شایان شان ہمارا ایک انداز فکر ہونا چاہئے اور اسی میں ہماری نجات ہے۔
آپ کو یہ علم ہی ہے اور سب پر واضح ہے کہ یہ فتنہ برطانوی سامراج کی یادگار ہے اور برطانوی سامراج نے اس کو پروان چڑھنے کے مواقع دئیے، ورنہ کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔ پھر کسی اسلامی ملک میں ایسی کوئی چیز برداشت نہیں ہوتی۔ جب سے یہ پاکستان بنا، اس کے بننے کے بعد کافی وقت ضائع ہوا، کئی تحریکیں اٹھیں جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں اور جن لوگوں نے اس مسئلہ کو اٹھایا اور لاپرواہی سے کام لیا وہ پچک گئے اور وہ آج تک مارے مارے پھرتے ہیں۔ میرے دوست چوہدری غلام رسول تارڑ صاحب نے خوب کہا کہ موجودہ حکومت کی خوش قسمتی ہوگی کہ اگر اس میں واضح طور پر اپنی جرأت ایمانی سے کام لیں۔ میں قومی توقعات کے ساتھ عوام کے ترجمان کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ اس فیصلہ کے لئے مزید شک وشبہ میں نہیں پڑے رہنا چاہئے۔ مزید انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ اس میں کسی بحث کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک بالکل اٹل چیز ہے۔ اسلام کا فیصلہ کن معاملہ ہے۔ اس میں جرأت ایمانی سے کام لینا چاہئے۔ اگر حکومت نے ذرا سستی کی، ذرا لاپرواہی کی اور کسی سیاسی مسئلے میں گرفتار ہوکر اس میں واضح پالیسی اختیار نہیں کر سکے گی تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوں گے۔ وہ نتائج ظاہر ہیں۔ تمام کے ذہن نہایت بے تابی کے ساتھ تڑپ تڑپ کر پوچھ رہے ہیں، دریافت کر رہے ہیں۔ خاص طور پر یہ کام قومی اسمبلی کے ذمے کیاگیا۔ قومی اسمبلی کی بڑی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ یہ ملک کی نمائندہ جماعت ہے۔ میرے خیال میں جہاں تک میں اس وقت پہنچا ہوں، مجھے یاد نہیں کہ شاید ہی کسی ممبر نے اس کے خلاف تقریر کی ہو تقریباً سبھی نے تائید کی ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ مسئلہ سواداعظم کی خواہشات کے مطابق حل نہ ہو۔ کیونکہ 2950قومی اسمبلی تقریباً اپنا صحیح فرض ادا کر چکی ہے۔ اس میں اب حکومت کی جرأت کی ضرورت ہے۔ حکومت نے اگر اندرونی اور بیرونی حمایت کا صحیح جائزہ لیتے ہوئے، صحیح جرأت ایمانی سے کام لے لیا تو یقینا کامیابی ہوگی۔
 
Top