(کشمیر کمیٹی)
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے اس کا ذِکر کردیا تھا، کشمیر کمیٹی کا، اگر آپ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں تو کہہ دیجئے۔
مرزا ناصر احمد: ممکن ہے ایک آدھ فقرہ ہو، یہ میں مختصراً پھر کردیتا ہوں۔ اس کی اِبتدا اس طرح شروع ہوئی، کشمیر کمیٹی، کشمیر کمیٹی کے نام سے جو کمیٹی بنی، کہ ۱۳؍جولائی ۱۹۳۱ء کو ریاستی 1262پولیس کی فائرنگ سے ۲۱مسلمان شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ۱۳؍جولائی ۱۹۳۱ء کو جب ڈوگرہ حکومت نے ۲۱مسلمان کو جب شہید کیا تو اس وقت ان کے لئے ریاست سے باہر نکلنا بھی بڑا مشکل تھا، تو انہوں نے ایک سمگل آؤٹ کیا، مسلمانانِ کشمیر نے، ایک آدمی، اور سیالکوٹ پہنچ کر انہوں نے مختلف جگہوں پر تاریں دیں، اور ہمارے خلیفہ ثانی کو بھی تار دیں۔ اس کے نتیجے میں پہلا کام یہ ہوا ہے کہ خلیفہ ثانی نے وائسرائے ہند کو تار دی، دُوسرے صوبوں کے مسلمانوں کی طرح پنجاب کے مسلمان بھی، ان کو کہا کہ تم اکٹھے ہوجاؤ، یعنی شروع کا کام شروع کیا۔ اس وقت جب یہ اعلان ہوا تو خواجہ حسن نظامی صاحب نے ایک خط لکھا حضرت خلیفہ ثانی کو، اور یہ کہا کہ آپ نے یہ اعلان کیا، ہم آپ کے ساتھ ہیں، اور یہ کام ہمیں، سب مسلمانوں کو مل کر یہ کام کرنا چاہئے۔
Mr. Chairman: We break for Maghreb.
(جناب چیئرمین: نمازِ مغرب کے لئے ہم وقفہ کرتے ہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: I think let them conclude it, Sir. (جناب یحییٰ بختیار: میرا خیال ہے انہیں اسے مکمل کرنے دیں)
جناب چیئرمین: ہاں؟
Mr. Yahya Bakhtiar: It will take two or three minutes, Sir.
(جناب یحییٰ بختیار: جناب! اس میں دو یا تین منٹ لگیں گے)
Mr. Chairman: Alright, then not more than five minutes. (جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، پھر ۵منٹ سے زیادہ نہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: Not more than five minutes.
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، ختم کرلیں۔
مرزا ناصر احمد: تو اِعلان وغیرہ، خط وکتابت ہوئی ہے۔ اس کے بعد آل انڈیا تنظیم کے قیام کے لئے مسلمانانِ ہند سے اپیل کی گئی پہلے اور اس کے بعد۔ پھر کشمیریوں سے اپیل کی گئی، ابنائے کشمیر سے، یعنی وہ کشمیری خاندان جو باہر آکر آباد ہوگئے تھے اور اس میں آپ نے لکھا کہ: ’’اُمید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب، شیخ دین محمد صاحب، سیّد محسن شاہ صاحب اور اسی طرح سے دُوسرے سربراہ آوردہ ابنائے کشمیر جو اپنے وطن کی محبت 1263میں کسی دُوسرے سے کم نہیں، اس موقع کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے موجودہ طوائف الملوکی کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے، ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سب طاقت ضائع ہوجائے گی اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔‘‘
اس پر ۲۵؍جولائی ۱۹۳۱ء کو شملہ کے مقام پر نواب ذُوالفقار علی خان صاحب کی کوٹھی "Fair View" میں مسلم اکابرینِ ہند کا اِجلاس ہوا، جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی جائے جو اس سارے کام کو اپنے ذمہ لے کر پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور اس وقت تک یہ مہم جاری رہے، جب تک ریاست کے باشندوں کو ان کے جائز حقوق نہ حاصل ہوجائیں۔ اس اِجلاس میں اِمام جماعت احمدیہ کے علاوہ مندرجہ ذیل لیڈروں نے شرکت کی:
ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب،
حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب،
سیّد محسن شاہ صاحب،
نواب سر ذُوالفقار علی صاحب،
نواب محمد اِسماعیل صاحب آف گنج پورہ،
خان بہادر شیخ رحیم بخش صاحب،
مولانا نورالحق صاحب، مالک انگریزی روزنامہ "Muslim Out Look"،
مولانا سیّد حبیب صاحب، مالک روزنامہ ’’سیاست‘‘،
عبدالرحیم صاحب درد،
مولانا اِسماعیل صاحب غزنوی، امرتسر کے تھے، غزنوی خاندان کے، نمائندہ مسلمانانِ صوبہ جموں،
مسلمانانِ صوبہ کشمیر کے نمائندے، اور صوبے سرحد کے نمائندے۔
یہ سب کے سب اکابرین آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قائم ہوتے ہی اس اِجلاس میں اس کے ممبر بن گئے، کام شروع ہوگیا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اس وقت بعض دوستوں نے کہا خلیفہ ثانی 1264کو کہ آپ اس کے صدر بنیں، اور آپ نے اِنکار کیا کہ: ’’مجھے صدر نہ بنائیں، میں ہر خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں، مگر مجھے صدر کا عہدہ نہ دیں۔‘‘ کوئی مصلحتیں سمجھائیں وہاں۔ اس پر سارے جو تھے، انہوں نے زور ڈالا وہاں، جن میں سر محمد اقبال صاحب بھی تھے، کہ آپ کو ہی بننا چاہئے۔ چنانچہ آپ کو مجبور کیا کہ اس عہدے کو قبول کرلیں۔ قبول ہوگیا۔ شروع ہوا کام ،اور بہت سے مراحل میں سے گزرا، اس کے آگے میں اپنی طرف سے کروں گا، ذرا مختصر کردوں گا۔ ایک تھا پیسہ، اس وقت ہندوستان میں کام کرنے کے لئے بھی پیسے کی ضرورت تھی، اور کشمیریوں کی مدد کرنے کے لئے پیسے کی ضرورت، چنانچہ ساروں نے Contribute کئے ہوں گے۔ لیکن اپنی بساط سے زیادہ جماعت کی طرف سے کشمیریوں کی اِمداد کے لئے رقم دی گئی۔ اس وقت سوال پیدا ہوا رضاکاروں کا کہ جاکر ان کی حوصلہ افزائی کریں، ان کو آرگنائز کریں۔ خود کشمیر کی حالت تنظیم کے لحاظ سے بہت پس ماندہ تھی، ہر ایک کو پتا ہے، ہمارے، یعنی اس وقت کے ہندوستان کے حالات سے بھی زیادہ وہ پیچھے تھے۔ اس کے مہاراجہ کا Hold بڑا سخت تھا۔ خیر! وہ گئے، ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے بڑے ظالمانہ طور پر مقدمے بنانے شروع کردئیے، یعنی کوئی ان کا گناہ نہیں ہوتا تھا اور مقدمہ بن جاتا تھا۔ تو اس وقت انہوں نے کہا: تار دی کہ ہمیں وکیل بھیجو، ہمارے پاس۔ بڑے سخت ان کو پریشانی تھی۔ یہاں سے گیارہ بارہ وکیل گئے۔ ان میں سے ایک صاحب (اپنے وفد کے ایک رُکن کی طرف اِشارہ کرکے) یہ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے مہینوں وہاں کام کیا اور میرا خیال ہے کہ قریباً سارے مقدموں میں فتح جو ہوئی وہ کشمیری مسلمانوں کی ہوئی۔ ان میں ہمارے، فوت ہوچکے ہیں، شیخ بشیر احمد صاحب، جو ہائی کورٹ کے جج بھی رہے ہیں، اس وقت وکیل تھے، وہ گئے۔ ان کے لئے ساری دُنیا میں پروپیگنڈا ہوا، خصوصاً انگلستان میں۔ تو ایک لمبی Struggle (تگ ودو) ان کے لئے ۔۔۔۔۔۔ (اپنے ساتھیوں سے کہا) اس میں ہے نا فہرست شہداء کی؟ جو رضاکار گئے ان پر؟ (اٹارنی جنرل سے) ہمارے یہاں سے جو رضاکار گئے، دُوسرے بھی جو گئے، ان پر وہ سختیاں کی گئیں، ساروں پر، یہاں، وہاں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہاں، یہ احمدی، یہ وہابی ہے یا یہ ہے، وہ ہے۔ مسلمانانِ کشمیر کی جدوجہد میں سارے شامل ہیں، ساتھ۔ یہی میرا ان اِشاروں میں تھا کہ ہمارے تو کبھی علیحدہ ہوئی ہی نہیں۔
1265Mr. Chairman: The Delegation is premitted to withdraw for Maghreb to report break at 7:30.
(جناب چیئرمین: وفد کو مغرب کی نماز کے لئے ۳۰:۷بجے تک وقفہ کی اجازت ہے)
مرزا ناصر احمد: میں اس کو ختم کرتا ہوں۔ یہ آکر داخل کردیں گے۔
Mr. Chairman: The honourable members may keep sitting. (جناب چیئرمین: معزز اراکین تشریف رکھیں)
(The Delegation left the Chamber)
(وفد باہر چلاگیا)
جناب چیئرمین: ساڑھے سات جی!
The House is adjourned to meet at 7:30
(ایوان کا اِجلاس ۳۰:۷بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے)
[The Special Committee adjourned for Maghreb Prayers, to re-assemble at 7:30 p.m.]
----------
[The Special Committee re-assembled after Maghreb Prayers, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in Chair.]
(مغرب کی نماز کے بعد کمیٹی کا اِجلاس صاحبزادہ فاروق علی کی صدارت میں دوبارہ شروع ہوا)
جناب چیئرمین: (سیکرٹری سے) ڈیلی گیشن کو بلالیں، یہاں باہر بٹھادیں، ہاں کیونکہ پھر پونے آٹھ، نوبجے، پونے نو تک کریں گے، ایک گھنٹہ۔ پھر تو دس منٹ کا بریک، پھر Nine to Ten۔
جی، مولانا عبدالحق صاحب!
----------