ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
(جناب غلام حسن خان ڈھانڈلہ کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب غلام حسن خان ڈھانڈلہ: جناب چیئرمین! اس ایوان میں بہت تقریریں کی جا چکی ہیں۔ کتابوں کے حوالے بھی بہت دیئے جا چکے ہیں۔ حدیثوں کے حوالے بھی بہت پیش کئے جا چکے ہیں۔ قرآن کی آیتیں بھی بہت پیش کی جا چکی ہیں۔ ہم اپنی طرف سے تحریری بیان بھی داخل کر چکے ہیں جس پر میرے دستخط موجود ہیں۔ اس بیان کے بعد تقریر کی کوئی خاص ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ ہم نے اپنی رائے تحریری بیان میں درج کر دی ہے۔ بہرحال میں اپنے تحریری بیان کی تائید میں عرض کروں گا کہ مرزائیوں کے دونوں گروہوں، لاہوری اور ربوٰہ والوں کے بیانات سے ثابت ہو گیا ہے کہ مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیاتھا اور جو شخص محمد ﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ہم مسلمانوں کے نزدیک وہ کافر ہے۔ جناب والا! اس لحاظ سے میری رائے ہے کہ مرزائیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور آئین میں اس کی ترمیم کی جائے۔ آئین میں اس کی وضاحت ہونی چاہئے کہ مرزائی دونوں قسم کے جو ہیں وہ غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جائیں۔ ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔ مرزائیوں کو کلیدی اسامیوں سے ہٹایا جائے۔ یہ میری رائے ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہا ں تقریریں نہیں کرنی چاہئیں۔ تقریریں بہت سن بھی چکے ہیں اور کر بھی چکے ہیں۔ یہ میری اپنی رائے ہے کہ مرزائی کافر ہیں ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
2814جناب چیئرمین: بس،مخدوم نور محمد صاحب! کاش ڈھانڈلہ صاحب! آپ نے پہلے تقریر کی ہوتی۔ شاید جیسا کہ ڈاکٹر بخاری صاحب او ر دوسرے ممبروں نے لمبی لمبی تقریریں کی ہیں، آپ سے بھی کوئی سبق سیکھ سکتے۔
(جناب مخدوم نور محمد کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب مخدوم نور محمد: جناب والا!میں عرض کرتا ہوں کہ قادیانی اور مرزائی گروہ کے اعتقادات کا تعیّن کرنے کے لئے اس معزز ایوان کو، قومی اسمبلی کو ایک کمیٹی میں تشکیل کیا گیا ہے۔ واقعات اوراسباب جو ابھی ہمارے سامنے آئے ہیں، وہ ہم پر واضح ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے اعتقادات کا پیدائشی طور پر علم ہوتا ہے۔ اسلام دین اوردنیا آخرت کا نظام خداوندی ہے۔ اس میں تحریف اورتبدیلی اسلام کے بنیادی ارشادات کے صریحاً منافی ہے۔ یہ باتیں سب جانتے ہیں۔ مسلمان اپنے اعتقادات سے محض اس لئے بھٹک سکتے تھے۔ اس قسم کے فتنے جو سیاسی اغراض و مقاصد کے لئے، سامراجی سرمائے پر ایک مصدقہ اورمسلمہ دین میں رخنہ اندازی کرنے کے لئے، امت اسلامیہ میںافتراق پیدا کرنے کے لئے ایک تنظیم چلائی جاتی ہے۔ جو کہ سامراجیت اور حکومتوں کا ایک بڑا پرانا فعل ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں ایک انتہائی اہم ترین مسئلہ سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ جس کے بارے میں ہمیں یہ فیصلہ دینا ہوگا کہ اس تحریک کا مقصد، اس جماعت کامقصد زیر زمین سازش ہے۔ اس کی وجہ جواز کیا ہے۔ جناب والا! میرے ناقص ذہن کی روشنی میں یا انتہائی قلیل مطالعہ کے مطابق تاج برطانیہ کا محکمہ جاسوسی، صیہونی لابی، اس صیہونی گروپ کی ایک تخلیق شدہ جماعت ہے۔ جس کے بارے میں جناب! آپ بخوبی آگاہ ہیں۔ برٹش ایمپائر کا سب سے بڑا فلسفہ کیا ہوتا ہے’’ڈیوائڈ اینڈ رول۔‘‘ اس کے بعد اس کے آگے ایک خوفناک حربہ تھا۔ وہ:
"How to sow dragn's teeth."
(اژدھے کے دانتوں کی آبیاری کیونکر کی جائے)
2815وہ اپنے استحکام کے لئے، اپنی تجارت کے لئے، اپنی ثقافت کے لئے غریب اقوام پر جبری ٹھونستے ہیں۔ ان پر مسلط کرنے کے لئے باقی حربے بھی ہوا کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ نہایت تاریخی اور ایسی مصدقہ بات ہے کہ اس حقیقت سے انکار کیونکر کیا جائے؟ تاج برطانیہ کے محکمہ جاسوسی نے ان دونوں فرقوں کو تخلیق کیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو گمراہ کیا ہے۔ہندوؤں کو آریہ سماج کی تحریک کی شکل میں جنم دیا ہے۔ میں آپ کو مختصر سمجھاؤں۔ اسلام وہ پاک مذہب ہے، وہ آخری مذہب ہے،جس میں نبی کریم ﷺ ختم المرسلین ہیں۔ یہ خداوند کریم کاآخری فیصلہ ہے۔ حضورپاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ قرآن پاک کی ہر چیز مصدقہ، پاکیزہ ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ختم نبوت ہے۔ یہ ایک برحق جزو اعظم اسلام کا ہے۔
جناب! آپ جانتے ہیں جیسے اصنام پرستی ہے۔ وہ ایک ہزاروںبرس سے دنیا کا سب سے پرانا مذہب ہے اہل ہنود کا۔ ہزاروں برس سے اصنام پرستی ان کے رگ و پے میں داخل ہے۔ آریہ سماج کا نعرہ یہ تھا کہ اﷲ وحدہ لاشریک ہے۔ بھگوان اکیلاہے، مورتی پوجا حرام ہے۔ گویا ان کے مذہب میں بھی مداخلت کی، جیسے ہم مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے انہوں نے ایک ڈھونگ رچایا۔ ان دونوں جماعتوں کا پاکستانی قوم سے فقط ان کا رول، ان کا فقط کردار، عالم اسلام میں افتراق پیدا کرنا ہے۔ عالم اسلام کی بڑھتی ہوئی آبادی، بڑھتی ہوئی تجارت، بڑھتی ہوئی دولت کے پیش نظر، کہ کہیں یہ ملک متمول نہ بن جائیں۔ اسلام کے قلعے میں شگاف ڈالنے کی سب سے بڑی زیر زمین سازش ہے جو کہ خاص طور پر سامراجیت، صیہونیت، چاہے وہ دنیا کے کسی خطے میں کیوں نہ ہو۔
جناب! آپ جانتے ہیں، میں اس حقیقی منطق سے آپ کو روشناس کراتا ہوں کہ اس مضبوط و مربوط، اس پرانے فتنے کو انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے پڑھا ہے’’ٹائم میگزین‘ ‘میں۔ ہو سکتا ہے سات برس پیشتر کی مجھے تاریخ 2816صحیح یاد نہ ہو۔ تو اس میں جناب والا! امریکہ میں اہل ہنود کا ادارہ ہے۔ ’’ٹائم میگزین‘‘ میں امریکہ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ امریکی عنصر لکھتے ہیں کہ امریکہ American CIA is the illegitimate child of British Home Department. (امریکی سی آئی اے،برطانوی وزارت داخلہ کا ناجائز بچہ ہے۔) تو جناب! میں عرض کرتا ہوں کہ برطانیہ نے اپنی حکومت چلانے کے لئے، اپنی حکمرانی پھیلانے کے لئے، کس طرح ایک وسیع و عریض قوت کو ایک تنظیم کا سہارا لینا پڑا۔
جناب والا! آپ اندازہ فرما سکتے ہیں کہ جس وقت برطانیہ کا اقتدار ختم ہوا۔ جب برطانیہ روبہ تنزل ہوا، جب برطانیہ کی قوت جو تھی، وہ اپنی کالونی سے، اپنے مقبوضہ جات سے نکل کر صرف جزائر برطانیہ میں آنا شروع ہوئی۔ تو اس وقت ان میں یہ قوت باقی نہیں رہی تھی کہ دنیا کا وہ نظام ہوم ڈیپارٹمنٹ جس نے بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے۔ اس کو قائم رکھتے اور اس کو چلاتے۔ بالآخر وہ نظام امریکہ کی سی آئی اے کو منتقل ہوا۔ دنیا کا جو انضمام تھا، سیاسی مغربیت اور مغربی یورپ کی اور مغربی ممالک کی اور Westren Hemisphere (مغربی نصف کرئہ ارض) کی بالا دستی کو کنٹرول کرنے کے لئے وہ طاقتیں جو تھیں، وہ از خود برطانیہ سے امریکن سی آئی اے کو منتقل ہو گئیں۔
جناب! اب آپ انداز فرما سکتے ہیں کہ تاج برطانیہ کا لگایا ہوا پودا جو ہے۔ اس کی آبیاری بھی اسی طرح سی آئی اے کو منتقل ہو چکی ہے۔ چوہدری ظفر اﷲ سے زیادہ قابل لوگ بھی پاکستان میں موجود تھے۔
جناب والا! میں منطق کی بات کہوں گا۔ دین کے مسئلے میں علماء کرام نے تشریحاً اپنے معتقدات، اپنے تجربات اور اپنی بصیرت سے تشریح فرما دی ہے۔ میں فقط یہ عرض کروں گا کہ چوہدری ظفر اﷲ اور ایم ایم احمد یا ان کے باقی جو گروپ ہیں۔ یہ اوسط ذہن سے کم لوگ تھے۔ انہیں اوپر اٹھایاگیا۔ ان کے مقام کو دانستہ اجاگر کیاگیا۔ جناب والا! بین الاقوامی عدالت کا جج بننے کے لئے سید حسین شہید سہروردی اور اے۔کے بروہی کی 2817شخصیت کیا کچھ کم تھی؟ مگر وہ سامراج کے ایجنٹ نہیں تھے۔ لہٰذاان کی تعیناتی جو تھی، وہ مغربی طاقتوں کے ارادوں میں حائل تھی اور ان عظیم شخصیتوں کو لینا انہوں نے قبول نہ کیا۔ بعینہ اسی طرح جناب والا! اگر آپ دیکھیں، ایم ایم احمد جو پاکستان کو توڑنے کے بعد عالمی بینک میں بیٹھا ہوا ہے، وہ سازشیں اور مکاریاں کرتا رہا ہے۔
یہ پہلے اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ جس نے تقسیم کے وقت جب ہندوؤں کا انخلاء سیالکوٹ سے ہوا اور تارکین کی جو جائیداد ہاتھ آئی، انہوں نے فوراً اٹھا کر گورداس پور کے قادیانیوں میں شامل کر دی۔ جناب والا! ان کی محبت بھی پاکستان سے کسی تلخ حقائق کی وجہ سے وہ ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے مسلم پنجاب کے علاقے جو تھے، انہوں نے ریڈ کلف ایوارڈ سے مل کر اور ماؤنٹ بیٹن سے مل کر، کانگریس سے مل کر، بقول جناب چوہدری غلام نبی صاحب، انہوں نے ہمارے علاقے کٹوائے اور بھارت میں شامل کرائے۔ معزز ممبران اس سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار فرمائیں گے۔ اس کے بعد جب مغربی پاکستان سے، مغربی پنجاب سے سکھ بھاگے، انہوں نے انہیں دھکے دے کر وہاں سے باہر نکال دیا اور پنڈت نہرو کے جو وعدے تھے وہ ہوا میں معلق رہے اور انہوں نے آکر ہمیں تاراج کر کے ہمارے مسلم پنجاب کے علاقے کٹا کر، ہمارے لوگوں کو مہاجر بنا کر انہو ں نے اپنا مقام یہاں آکر ربوہ میں حاصل کیا۔ جس کو وہ اب ایک خود مختار چھوٹی سی اسٹیٹ بنا کر بیٹھے ہیں۔ وہ میونسپلٹی ہے، جو کچھ بھی ہے، وہ تو ان کے عزائم کی تشریح ہو چکی ہے۔
جناب والا! یہ ماسوائے اس کے ہرگز ہرگز ان کی کوئی تشریح نہیںہے کہ یہ عالم اسلام کی یکجہتی کے خلاف سامراج کا ایک گڑھ ہے۔ یہ کوئی دین نہیں ہے۔ نعوذباﷲ من ذالک، یہ کوئی فرقہ نہیں ہے۔ اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ زیرزمین چھپے ہوئے ہیں اور یہ چھپی ہوئی سازشیں ہیں۔ یہ ایک سیاسی تحریک ہے جو عالم اسلام کو خاکم بدہن تاراج کرنے پر مامورہے۔
2818جناب والا! اب میں ایک نہایت ہی اپنی ناقص عقل کا یہاں اظہار کروں گا جو کہ ایک انسان کی حیثیت سے ہر انسان کے ذہن میں گردش کرتی ہے۔ یہ بات کہ وہ مسیح موعود تھے۔انہوں نے آخری دور میں آناتھا اور انہوں نے معاشرے کی اصلاح کرنی تھی، جزاک اﷲ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر منطقی طور پر دیکھا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ ماؤزے تنگ نے ۷۰ سے ۷۵ کروڑ انسانوں کو مارکسزم کا فلسفہ دیا۔ لینن تھا، اس کی بھی اپنی ایک فکر تھی۔ جناب والا! سب سے پہلے میں اپنی اس مقدس سرزمین کی اس حقیقت کی طرف آپ کی توجہ دلاتا ہوں۔ ہمارے قائداعظم رحمۃ اﷲ علیہ، اﷲ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے۔ انہوں نے مسلم لیگ اوربرصغیر کے مسلمانوں کو ایک فلسفہ دیا اور ہم نے وطن حاصل کیا۔ قائد اعظم نے وطن حاصل کیا، پاکستان حاصل کیا۔ ظاہر ہے کہ ایک فلسفہ تھا، ایک فکر تھی، جس کے نتیجے میں ہمیں پاکستان ملا۔ چلئے، ہمارے دشمن ہی سہی، گاندھی جی مہاراج جو مسلمانوں کو کہتے تھے:
"A band of converts cannot be a nation."
(مذہب بدلنے والوں کا ایک گروہ ایک قوم نہیں بن سکتا)
چھوڑئیے مگر تلخ حقائق ہی سہی۔ انہوں نے تحریک آزادی لڑی۔ تحریک خلافت بھی رہی ہے۔ انہوں نے بھارت کو آزادی دی۔ گاندھی جی اپنی قوم کے لئے ایک بہت بڑی چیز تھے اور دنیا کے نامور لیڈروں میں سے تھے۔ جناب والا! جمال عبدالناصر تھے، انہوں نے عرب دنیا کو اتحاد کا درس دیا تھا۔ ایک بہت بڑی بات ہے۔ افریقہ میں کئی ایسی شخصیات آئی ہیں۔ لہٰذا اس دور میں اگر اس جماعت کا تجزیہ کریں تو اس نے نہ تو اسلام کی اور نہ سیاسی خدمات انجام دی ہیں۔ اگر دوسری طرف ان کا فکر دیکھئے کہ آپ نے مذہب کے لئے کیا کیاہے؟ وہ کتابیں ’’انجام آتھم‘‘ اور ’’کشتی نوح‘‘ اور اس کے علاوہ پتہ نہیں کیا کیا تھا اور جو نام خاص طور پر مجھے ذہنی فکر کا سب سے اوپر نظر آیا وہ 2819’’ست بچن‘‘ ہے۔ اس نام کو بتا سکتے ہیں کہ یہ جو نام ہے یہ کیا فکر رسا سے معمور نام ہے؟
جناب والا!بحیثیت ایک مسلمان کے مجھ پر واجب ہے کہ میں اپنے دین کے معاملے میں عصبیت رکھوں۔ ایک شخص،ایک گروہ جو سرمایے کے زور پر عالم اسلام کو تاراج کر رہا ہے، ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اس کی صحیح کیفیت جو ہے اس کو بے نقاب کریں۔ جناب والا! ہم نے ان تلخ حقائق کا جائزہ لیا ہے کہ حیفہ اور تل ابیب کے فنڈ پر پلنے والا یہ ٹولہ اسلام دشمن ہی نہیں ہے، یہ پاکستان دشمن پہلے ہے اور عالم اسلام کا سب سے بدترین (دشمن) ٹولہ ہے۔ کیونکہ اہل یہود کھلے ہیں، اہل ہنود کھلے ہیں۔ باقی جتنی سوشلسٹ قوتیں ہیں، جو آپ کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی خواہاں ہیں، اور آپ کے سامنے آپ کا اگر کوئی زیر زمین دشمن ہے تو وہ فقط یہی ٹولہ ہے جس کی پہچان میں ہر بار ہر وقت آپ کو تکلیف ہوئی ہے۔
جناب!آپ خود جانتے ہیں کہ ہم نے کیا تاثر لیا ہے جو دین پر انہوں نے حملے کئے ہیں۔ آپ مسلمان ہیں،معزز ایوان مسلمان ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انہوں نے دین پر کس قسم کے بے رحمانہ حملے کئے۔ یہ انسانیت سے معذور ہیں۔ جو لوگ انسانی ذہنیت سے معذور ہوں، جناب والا! میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسلام دشمن پلندہ تھا۔ کیا یہ پیغمبرانہ صفات ہیں۔ نعوذ باﷲ، خاکم بدہن، میں تو کہتا ہوں کہ یہ انسانی ذہن کا بیت الخلاء تھا۔ انہوں نے جس طریقے سے عالم اسلام کی دل آزاری کی ہے۔
جناب والا! ہم نے ان کے خزاں رسیدہ جذبات اور اجل رسیدہ افکار کا جائزہ لیا ہے۔ جناب والا! ہم نے ان کی تمام مکاریوں کو تولا ہے۔ ہم نے اسے سیاسی ترازو میں نہیں تولنا ہے۔ یہ ہمارے دین کا معاملہ ہے۔ میرے تمام بھائیوں کے دین کا معاملہ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ملک میں اس مسئلے پر طوفان کھڑا ہوا ہے۔ ہماری زندگی 2820قیمتی نہیںہے۔ ہمارا ملک قیمتی ہے۔ ہماری قوم قیمتی ہے اور پھر وہ ملک اور قوم محض اسی فلسفے کی مرہون منت ہے جس کی حفاظت کے لئے قدرت نے اسے مامور کیا ہے۔ آپ کو یہ جائزہ لینا ہے کہ آپ کا ملک کیسے ٹوٹا۔ کس نے توڑا اور اس میں سب سے بدترین سازش انہی کی تھی۔ اگر آپ مجھے اجازت فرمائیں تو میں شیخ مجیب الرحمن کے وہ جملے جو پہلے پہلے سنے تھے، وہ اس معزز ایوان تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
"This syndicate of Qadyani Generals and the ruling bureaucratic clique…this clique of pythons… is not going to transfer this power to me. They want to put me behind the bar. They would like to fight the aimless battle and ultimately they will surrender before the enemy and not before their majority."
(قادیانی جنرلوں اور افسر شاہی کا گروہ جو کہ در حقیقت زہریلے سانپوں کا ایک جتھا ہے۔ مجھے اختیار منتقل نہیں کر رہا۔ یہ مجھے سلاخوں کے پیچھے بھیجنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بے مقصد جنگ لڑیں گے اور آخر کار دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔ لیکن اپنے ملک کی اکثریتی عوام کے سامنے نہیں جھکیں گے)
تو جناب والا!یہ آخر کیا سازش تھی؟ اس سے ہمارے مشرقی پاکستان کے بھائی مکمل طور پر آگاہ تھے۔ مگر ہم بدنصیب اس خطے کے لوگ سمجھ نہیں آئی کہ ہم اپنے تنخواہ خوار ملازموں سے اتنی تذلیل اٹھانے والے ہیں۔ ہم نے اس کا جائزہ تک نہیں لیا کہ جن لوگوں کو آپ تنخواہ دیتے ہیں۔ ایک قوم کی حیثیت سے خزانہ آپ کا ہے۔ مملکت آپ کی ہے۔ کماتے آپ ہیں۔ خزانہ بھی اپنا آپ بھرتے ہیں۔ اس سے زیادہ تذلیل ہماری کیا ہوگی؟ ہم بدنصیب لوگوں کی، کہ ہمارے تنخواہ خوار ملازمین ہماری تذلیل کر کے، ہمیں دھکے دے کر ہمیں ملک بدر کر دیں کہ ہمیں انڈیا کا سیٹلائٹ بنا دیں۔
جناب والا! میں آپ سے مزید گزارش کروں گا اس سلسلے میں کہ اس وقت جو سازش زیر غور ہے اس میں بھارت جیسا منافق دشمن سب سے آگے شریک ہے۔ خدانخواستہ یہ مغربی پاکستان کو بھی تاراج کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی پالیسی یہ ہے کہ وہ عرب ممالک اور ایران کے سر پر پہنچ جائیں تاکہ وہ عرب ممالک کو کہیں کہ بابا! یہ ڈالر اٹھا کے اب انڈیا کے بنکوں میں رکھو، اب ایشیاء اور افریقہ کے لیڈر ہم ہیں۔ بڑی نیوی بھی 2821ہم بنائیں گے، بڑی افواج بھی ہم بنائیں گے۔ آپ کا تحفظ اب ایک بہت بڑی سیکولر پاور کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ جناب والا! یہی عالم اسلام میں وہ قلعہ ہے جو ان کے عزائم میں سدراہ ہے۔ یہی وہ پاکستان تھا جو مشرق و مغرب سے بھارت کی فسطائیت کے پنجے کو بلاد اسلام تک پہنچنے سے روکے رہا۔ یہی وہ پاکستان ہے جس میں آپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہی وہ بچا کھچا پاکستان ہے جو ان بدکرداروں کے نتیجہ میں یہی بچا کھچا پاکستان رہ گیا ہے۔
جناب والا! اسرائیل کے پرائم منسٹر کی تقریر آپ سن چکے ہوں گے کہ ’’مغربی پاکستان میں راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔‘‘ یہ پیرس کے قرب میں کوئی شہر تھا، ۱۹۶۷ء کی تقریر ہے ڈیوڈ بن گورین کی۔ وہ کم بخت مر گیا۔ یہ اس کی تقریر ہے۔ اس نے یہ اظہار خیال کیا کہ بھارت جیسا سیکولر ملک جو پاکستان جیسے مذہبی اور جنونی کا بدترین مخالف ہو،وہ ہمارے لئے اس قدر زرخیز زمین ہے کہ ہم پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے سب سے پہلا جو اسٹینڈ ہے، ہمارے اڈے وہیں قائم ہوں گے۔
جناب والا!بھارت اسرائیل کا نچوڑ قادیان اور ربوہ ہے۔ حیفہ اور تل ابیب کا مظہر۔ یہ جس ذہانت کا اور جس علم و عرفان کا تذکرہ کر چکے ہیں، ہم نے دیکھا ہے۔ بڑی آسانی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مصدقہ جہالت کا مظہر اور مستند حماقت کا مجسمہ تھے۔ ہم نے غور و فکر کیا ہے۔ ان کا علم اور ذہانت کچھ نہیں ہے۔ یہ بھارت اور اسرائیل کا نچوڑ ہے اور وہیں سے انہیں پیسے ملتے ہیں اور یہیں سے ان کا یہ سارا کاروبار چلتا ہے۔ ان کا نظام حیات کہیے یا نظام کار کہیے، ان کا سارا انحصار غیر ملکی سرمائے پر ہے۔
اب میں جناب سے یہ مختصر گزارش کروں گا…میں معذرت خواہ ہوں،اگر میری معروضات میں طوالت ہو گئی ہے… تو جناب والا! اب اس وقت آپ اپنے ملک کے اندرونی و بیرونی حالات کا جائزہ لیں۔ ہم نے ان کے واقعات سنے، ہم نے ان کو بحیثیت مذہب کے بھی دیکھا اور بحیثیت دشمن کے بھی دیکھا۔ جناب والا! اس میں کوئی 2822کلام نہیں کہ ہم پہلے اپنے دستخط شدہ ان کے محضر نامے کا جواب دے چکے ہیں۔ میرے اس طرف کے بھائیوں نے بھی دلائل دیئے ہیں اور معزز اراکین بھی تقاریر فرمائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ میں اپنی معروضات کا اظہار پوری طرح نہ کر سکا ہوں اور اتفاق سے کافی باتوں کا اظہار نہیں کر سکا جو کہ ذہن سے سلپ ہو گئی ہیں۔ تو میں اتنی گزارش کروں گا کہ نوے(۹۰) برس سے چلنے والی اس سازش کو میں گورنمنٹ پارٹی کو نہایت ہی انکساری سے اپیل کروں گا کہ یہ میرا کوئی ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ یہ ہم سب کی میراث ہے، مشترکہ میراث ہے۔
اسلام کا وارث ہر مسلمان ہے۔ یہ ہم سب کی وراثت ہے۔ یہ فرقہ جو اعلانیہ فرقہ ہے۔ یہ فرقہ جس کی کارکردگی بھی اعلانیہ ہے۔ اگر زیرزمین تھی تو سامنے آ گئی ہے۔ میں اتنی گزارش کروں گا کہ اس کا فیصلہ دیتے وقت اس معزز ایوان کو فیصلہ مبہم نہیں دینا چاہئے۔ وہ دھندلا فیصلہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ باہر ہمارے مضطرب بھائیوں کی تکلیف اور بڑھ جائے گی۔ ہمارے ملک کا امن عامہ درہم برہم ہو جائے گا۔ ہمارے ملک میں کشت و خون ناگزیر ہو جائے گا۔ ان تمام چیزوں کو سمجھنے کے لئے، ان تمام نزاکتوں کو سامنے رکھتے ہوئے، ہمیں ان مثبت نتائج کی طرف جانا چاہئے کہ ہمارا فیصلہ مثبت ہو،مدلل فیصلہ ہو۔ اس میں ان کا نام آنا چاہئے۔ اس میں عقائد آنے چاہئیں۔ اس میں تحریک کی تشریح آنی چاہئے اور پھر عقائد کی تشریح ہونی چاہئے تاکہ وہ مبہم فیصلہ عوام میں کسی بدگمانی کو جنم نہ دے سکے۔ لہٰذا میں اس معزز ایوان سے گزارش کروں گا کہ یہ چیزیں آپ سماعت کر چکے ہیں۔ ہم نے بہت تلخی سے اور اپنے ڈیکورم کے تابع اور اﷲ اور اﷲ کے حبیب ﷺ کے نام پر کسی اقلیت کو بھی انصاف دیا جائے۔ اس کی بھی سماعت کر لیں۔ اس کے بھی نظریات سن لیں۔ تو ہم نے جناب والا! طوعاوکرہا، بادل نخواستہ وہ تمام چیزیں برداشت کیں اور واقعات آپ کے سامنے ہیں۔
اب گزارش یہ ہے کہ اس انتہائی پیچیدہ مسئلے کو، جو بظاہر پیچیدہ ہے، مگر جس وقت آپ نے 2823انشاء اﷲ کااس کو حل کر دیا تو آپ دیکھیں گے کہ عالم اسلام میں جہاں جہاں ان کے بورڈ لگے ہوئے ہیں یا کینیڈا اور امریکہ تک آپ کے مدلل فیصلہ جات گئے تو آپ کی آواز سن کر وہ اندازہ کریں گے کہ آپ نے ایک بہت بڑے مگر مچھ، ایک بہت بڑے اژدھے کو مارا ہے۔ تو وہ اس قسم کا فیصلہ ہونا چاہئے کہ بیرون پاکستان اسلامی ممالک میں بھی اور باقی دنیا میں بھی ہماری اس صحیح حقیقت کو کہ کس بات کے پیش نظر اور کن واقعات کے پیش نظر ہم نے ایک دشمن کو کچلا ہے، ہم کوئی اقلیتوں کے قاتل نہیں ہیں، نعوذ باﷲ۔ اسلام میں تو حکم ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کرو۔ اگر وہ جزیہ دیتے ہیں تو ان کی جان و مال اور عزت کا تحفظ کرو۔ آپ ان کا تحفظ ضرور کیجئے، مگر یہ غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کے بعد۔ ہماری وزار ت خارجہ کے جو ہمارے سفارتخانے ہیں۔ یہ ان کا بھی کام ہو گا کہ وہ وہاں کی پریس سے ان تمام واقعات کی نشر و اشاعت ایک صحیح صورت میں دیں تاکہ دنیا ہمیں یہ نہ کہے کہ ہم کوئی قاتل ہیں یا ہم نے کوئی انسانی حقوق سلب کئے ہیں یا ہم نے کوئی یونائیٹڈ نیشنز کے یا بین الاقوامی نظام کے چارٹر کی خلاف ورزی کی ہے۔
اس کے پیش نظر جو کہ آپ حضرات دیکھ چکے ہیں کہ ہمارے خلاف مختلف خطوط مختلف سمت سے آ رہے ہیں۔ یہ انہی کی تنظیم بھجوا رہی ہے۔ انہی کے ہر جگہ دفاتر ہیں اورتنظیمیں ہیں۔ تو جب بلاد اسلامیہ میں بھی ان کے متعلق بتایا جائے گا کہ یہ تو وہ ٹولہ ہے کہ جس نے اسرائیل میں بیٹھ کر عرب دنیا کے راز اسرائیل کو دیئے۔ انڈونیشیا کو سبوتاژ کیا۔ پاکستان کو سبوتاژ کیا۔ ہر جگہ بیٹھ کر عالم اسلام کے خلاف اپنے معاندانہ، مکارانہ اور عیارانہ پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ اس وقت ہماری صورت حال خاصی میلی ہو چکی ہے۔ باہر چونکہ کسی کو علم نہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم یکطرفہ کارروائی کر کے ظلم کر رہے ہیں۔ تولہٰذا جناب والا! ہمارا فیصلہ ایک مثبت اور مضبوط فیصلہ ہو کہ ہماری قوم خوش ہو جائے۔ اس کے بعد بیرون ملک ہماری قوم کا وقار بلند ہو۔ وہ کہیں کسی غیر ملکی پراپیگنڈے یا ان کے پراپیگنڈے سے گرنے نہ پائے۔ میں ان معروضات کے ساتھ آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
2824جناب چیئرمین: ملک کرم بخش اعوان!
جناب کرم بخش اعوان: جناب! میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، میں کل کروں گا۔
جناب چیئرمین: آپ شروع تو کریں۔
جناب کرم بخش اعوان: نہیں، جناب!آپ مہربانی فرمائیں، میں کل بول لوں گا۔
جناب چیئرمین: کل پھر ٹائم تھوڑا ہوگا۔
Any honourable member who would like to say something? None, So we shall meet tomorrow at 9 a.m. and shall continue up to 1:30 p.m.
(کوئی معزز ممبر کچھ کہنا چاہے گا؟ کوئی نہیں؟ تو پھر کل صبح ۹ بجے ملیں گے اور ڈیڑھ بجے تک جاری رکھیں گے)
[The Special committe of the whole House adjourned to meet at nine of the clock, in the morning, on Tuesday, the 3rd September 1974.]
(کل ایوانی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ۳؍ستمبر۱۹۷۴ء بروز منگل صبح ۹بجے تک کے لئے ملتوی کر دیا گیا)
----------