ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جی، دیکھیں، میں یہ ’’ظلّی حج‘‘ کے متعلق عرض کر رہا تھا، اس میں یہ ’’برکاتِ خلافت‘‘ کی Quotation (اقتباس) ہے:
1495مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا جلسہ سالانہ کا خطبہ:
’’آج جلسے کا پہلا دن ہے اور ہمارا جلسہ بھی حج کی طرح کا ہے۔ حج، خداتعالیٰ نے مؤمنوں کی ترقی کے لئے مقرّر کیا تھا۔ آج احمدیوں کے لئے دِینی لحاظ سے تو حج مفید ہے مگر اس کی جو اصلی غرض تھی، یعنی قوم کی ترقی، وہ انہیں حاصل نہیں ہوسکتی، کیونکہ حج کا مقام ایسے لوگوں کے قبضے میں ہے جو احمدیوں کو قتل کردینا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ اس لئے خداتعالیٰ نے قادیان کو اس کام کے لئے مقرّر کیا ہے۔ جیسا حج میں رفث، فسوق اور جدال منع ہے، ایسا ہی اس جلسے میں بھی منع ہے۔‘‘ (برکاتِ خلافت ص۵۲، از محمود)
’’یہ برکاتِ خلافت‘‘۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: صفحہ۵۲۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جی۔
مرزا ناصر احمد: صفحہ۵۲۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ہاں، یہ ذرا لارہے ہیں وہ۔
مرزا ناصر احمد: یہ ’’خطبات چہارم حج۔‘‘
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اچھا، نہیں، یہ اور ہے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، وہ آپ کا حوالہ اور ہے۔ نہیں، یہ مجھ سے غلطی ہوئی۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: وہ دیکھ رہے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: جی، وہ ٹھیک ہے۔ میں اس کا جواب دے دیتا ہوں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ہاں، ہاں، جی ہاں۔
مرزا ناصر احمد: جی۔ جیسا آپ نے پہلے پڑھا، یہ نفلی حج کی بات ہو رہی ہے۔ فرضی حج کے متعلق تو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ وہ بہرحال ہونا چاہئے۔ ابھی میری بات نہیں ختم ہوئی۔ جو ہے 1496فرض حج اس کے متعلق ابوالاعلیٰ مودودی صاحب، حضرت ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے یہ الفاظ سن لیں:
’’حج کے پورے فائدے حاصل ہونے کے لئے ضروری تھا کہ مرکزِ اِسلام میں ایسا ہاتھ ہوتا جو اس عالمگیر طاقت سے کام لیتا۔ کوئی ایسا ہوتا جو ہر سال تمام دُنیا کے دِل میں خونِ صالح دوڑاتا رہتا۔ کوئی ایسا دِماغ ہوتا جو ان ہزاروں، لاکھوں، خداداد قاصدوں کے واسطے دُنیا بھر میں اسلام کے پیغام کو پھیلانے کی کوشش کرتا اور کچھ نہیں تو کم از کم اتنا ہی ہوتا کہ وہاں خالص اسلامی زندگی کا مکمل نمونہ موجود ہوتا (وہاں خانۂ کعبہ میں، اور اس کے گرد مکہ مکرمہ میں) اور ہر سال دُنیا کے مسلمان وہاں سے دِین داری کا تازہ سبق لے لے کر پلٹتے۔ مگر وائے افسوس کہ وہاں کچھ بھی نہیں۔ مدّت ہائے دراز سے عرب میں جہالت پروَرِش پارہی ہے۔ عباسیوں کے دور سے لے کر عثمانیوں کے دور تک ہر زمانے کے بادشاہ اپنی سیاسی اغراض کی خاطر عرب کو ترقی دینے کی بجائے صدیوں سے پیہم گرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اہلِ عرب کو علم، اخلاق، تمدّن، ہر چیز کے اِعتبار سے پستی کی اِنتہا تک پہنچاکر چھوڑا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ سرزمین جہاں سے اسلام کا نور تمام عالم میں پھیلا تھا، آج اسی جاہلیت کے قریب پہنچ گئی ہے جس میں وہ اسلام سے پہلے مبتلا تھی۔ اب نہ وہاں اسلام کا علم ہے، نہ اسلامی اخلاق ہے، نہ اسلامی زندگی ہے۔ لوگ بڑی دُور دُور سے گہری عقیدتیں لئے ہوئے حرم پاک کا سفر کرتے ہیں۔ مگر اس علاقے میں پہنچ کر جب ان کو ہر طرف جہالت، گندگی، طمع، بے حیائی، دُنیاپرستی، بداَخلاقی، بداِنتظامی اور عام باشندوں کی ہر طرح گری ہوئی حالت نظر آتی ہے تو ان کی توقعات کا سارا طلسم پاش پاش ہوکر رہ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
میں آگے نہیں پڑھتا۔ بات یہ ہے کہ جماعتِ احمدیہ نے یہ کہا، جماعتِ احمدیہ نے یہ کہا کہ جو فرضی 1497حج ہے وہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے، جماعتِ احمدیہ کے افراد پر بھی فرض ہے۔ لیکن فرض حج کی ادائیگی کے بعد ایک ایسا مرکز ہے جو دُنیا میں تبلیغِ اسلام کر رہا ہے۔ جب تم وہ فریضہ ادا کرلو اور تمہارے اُوپر پھر ساری عمر حج ادا کرنے کا کوئی فریضہ نہ رہے تو اس وقت خدا کے کلام کو سننے کے، جو دُنیا میں کام ہو رہے ہیں، جو نتائج نکل رہے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی برکات اسلام کے حق میں نازل ہو رہی ہیں، اُن کو معلوم کرنے کے لئے قادیان میں جلسے پر آؤ اور ہماری باتیں سنو اور اس میں کوئی اِعتراض نہیں میرے نزدیک۔
جناب چیئرمین: مولانا ظفر احمد! اب۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: مولانا ظفر احمد! آپ مولانا!۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: ۔۔۔۔۔۔ اب تحریفِ قرآن کے متعلق کچھ سوال ہیں؟
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جی۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔۔ اور ہماری جماعت میں ہزارہا حاجی موجود ہیں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: نہیں، ذرا اس چیز کی وضاحت۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: نہیں، وہ پوچھیں ناںجی۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: نہیں، اس کی ذرا سی وضاحت چاہئے۔ انہوں نے دُوسرے بزرگ کا حوالہ دیا۔ اوّل تو وہ غیرمتعلق ہے۔ دُوسرے سوال یہ ہے کہ انہوں نے یہ بتایا کہ وہاں یہ خرابیاں ہیں۔ پھر انہوں نے بھی کوئی جگہ بتائی کہ اب حج یہاں ہوگا؟ جیسے آپ نے کہا کہ اب قادیان اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کے لئے مقرر کیا، کیا انہوں نے بھی کہا کہ لاہور میں ہوگا یا سیالکوٹ میں؟
Mr. Chairman: No, this will not.......
(جناب چیئرمین: نہیں، یہ نہیں ہوگا)
1498مرزا ناصر احمد: بالکل یہ نہیں کہا۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: بڑا فرق ہے۔
Mr. Chairman: This ...... no, from one question, ten questions. No, the witness can ...... Maulana ......
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: دیکھئے، ہمارا Main Objection (اہم اِعتراض) یہ ہے کہ اس کے لئے خداتعالیٰ نے قادیان کو اس کام کے لئے مقرّر کیا ہے حج کے لئے؟ یہ شعائراللہ ہے؟ حج کے لئے تو ایک جگہ مقرّر ہے جسے کوئی اور نہیں کرسکتا۔
Mr. Chairman: The witness has explaind that they consder Haj as Farz (فرض) and this is the other place, other than that. This they have categorically said. And when they have said it, then why on one question go on insisting for ......
(جناب چیئرمین: گواہ نے وضاحت کردی ہے، کہ وہ حج کو فرض سمجھتے ہیں اور یہ الگ دُوسری جگہ ہے۔ یہ بات گواہ نے بالکل واضح اور صاف طور پر کہہ دی ہے، تو پھر اس سوال پر اِصرار کیوں؟)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جی، بہت اچھا۔
Mr. Chairman: That is all.
(جناب چیئرمین: بس یہی کچھ)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جناب! یہ ’’براہین احمدیہ‘‘ صفحہ:۵۵۸، خزائن ج:۱ ص:۶۶۶،۶۶۷، اس میں مرزا صاحب نے اپنے بیت الفکر اور بیت الذکر کا ذِکر کیا ہے: (عربی)
اب یہ:
من دخلہ کان اٰمنًا۔ یہ قرآن کی آیت ہے جو مسجد یعنی مکہ کے حرم کے متعلق ہے۔ یہ کہنا کہ مرزا صاحب کا بیت الفکر اور بیت الذکر جو ہے: ’’من دخلہ کان اٰمنًا‘‘ قرآن کی اس آیت کو وہاں چسپاں کرنا، وہ تو 1499ہے کہ مکہ کی مسجدالحرام جسے کہتے ہیں، بیت اللہ جسے کہتے ہیں کہ: ’’من دخلہ کان اٰمنًا‘‘ اس کو بیت الفکر اور بیت الذکر پر چسپاں کیا ہے، جس کو یہ ہے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جی، آپ کا سوال سمجھ گیا ہوں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں ذرا۔۔۔۔۔۔
’’بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے جو اس چوبارے کے پہلو میں بنائی گئی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
اور آخری فقرہ مذکورہ بالا اس مسجد کی صفت میں بیان فرمایا ہے:
’’۔۔۔۔۔۔۔جس کے حروف سے بنائے مسجد کی تاریخ بھی نکلتی ہے اور وہ یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔‘‘
وغیرہ، وغیرہ۔ یعنی بس اتنا ہی یہ میرا مختصر سا سوال ہے۔
مرزا ناصر احمد: بات یہ ہے کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمa کی بعثت صرف اس لئے تھی کہ مکہ مکرمہ کے ایک شہر کے اندر اور ایک چھوٹی سی جگہ کو اس کا مقام بنادیا جائے اور میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ مکہ مکرمہ وہ سمبل ہے، وہ نمونہ ہے، اور ہمیں یہ حکم ہے کہ دُنیا میں جگہ جگہ پر وہ مقامات بناؤ جو من دخلہ کان اٰمنًا ہو، جو لوگوں کے لئے امن کا ہو، جہاں وہ ہر قسم کے خوف سے بچ جائیں، اس کے اُسوہ میں، اس کے طریق کے اُوپر، انہی اُصولوں کے اُوپر۔ تو من دخلہ کان اٰمنًا، تو ایک سبق ہے جو سکھایا گیا ہے اور اس کے اُوپر جماعت احمدیہ نے اور اوروں نے بھی کیا پہلے۔ ہماری ساری تاریخ بھری پڑی ہے ان مقامات کے ذِکر سے جو اَمن کے لحاظ سے، باقی جو ہیں اس کی برکات، وہ نہیں یہاں، جو امن کے لحاظ سے اس کی نقل کرکے بنائی گئی ہیں۔
Mr. Chairman: The Delegation is ...... just a minute. The Delegation will wait in the Committee Room for 10, 15 minutes. In the meantime, we will discuss certain matter. If need be then tomorrow's time will be given, otherwise .......
(جناب چیئرمین: وفد کمیٹی روم نمبر۲ میں ۱۰،۱۵ منٹ اِنتظار کرے، اس دوران ہم کچھ معاملات پر بات کریں گے، اگر ضرورت ہوئی تو کل کے اِجلاس کا وقت بتادیا جائے گا ورنہ نہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: Sir, I am just going to ask one question.
(جناب یحییٰ بختیار: جنابِ والا! میں صرف ایک سوال کرنا چاہتا ہوں)
1500وہ ’’محضرنامہ‘‘ دے دیجئے۔
......because, I think, if they are not wanted again......
(کیونکہ اگر وفد کو دوبارہ نہ بلایا گیا تو۔۔۔۔۔۔)
Mr. Chairman: No, then I am going to call them again after 15 minutes, after 15 minutes.
(جناب چیئرمین: جی نہیں، میں وفد کو پندرہ منٹ بعد بلانے والا ہوں)
مرزا ناصر احمد: اگر ہم نے واپس آنا ہے تو آپ پھر اِنتظار کریں۔
جناب چیئرمین: ۱۵منٹ۔ پھر اس کے بعد کرلیں گے۔ They will be coming here.
جناب یحییٰ بختیار: اچھا، ٹھیک ہے۔ They will be waiting in the
room. We will discuss certain matters and if they are needed tomorrow, we will give them tomorrow's time; otherwise we will ask one or two questions, get their signatures and then we will thank them. This is what I am ...... just about ten minutes.
Muhammad Haneef Khan.
(وہ کمرے میں اِنتظار کر رہے ہیں، ہم کچھ معاملات پر بات کرر ہے ہیں۔ اگر ضرورت ہوئی تو وفد کو کل کے اِجلاس کا وقت بتادیں گے۔ بصورتِ دیگر ایک یا دو سوال پوچھ لیں گے، دستخط کرالیں گے اور ان کا شکریہ ادا کریں گے، میں یہی کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
محمد حنیف خان۔۔۔۔۔۔)
اس کمرے میں اِنتظار کرلیں، پھر میں اِطلاع بھجوادُوں گا۔
----------
(Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلاگیا)
----------
جناب چیئرمین: ایک سیکنڈ جی۔
The Reporters may also leave for 10 minutes. They can rest for 10 minutes. We will call them after 10 minutes.
(رپورٹرز حضرات بھی دس منٹ کے لئے چلے جائیں، ہم دس منٹ بعد انہیں بلالیں گے)
(The Reporters left the Chamber)
(رپورٹرز حضرات ہال سے باہر چلے گئے)
----------
Mr. Chairman: If they like, then they may keep sitting. They are part of the House. If they like, they can keep sitting. If they want, they can have a rest of 10 minutes. And no tape.
(Pause)
1501Mr. Yahya Bakhtiar: One question here and then answer.
(جناب یحییٰ بختیار: ایک سوال اور پھر جواب)
Mr. Chairman: One question.
(جناب چیئرمین: ایک سوال)
ہاں، بلالیں جی۔
I will request the honourable members to be ......
(میں معزز اراکین سے اِستدعا کرتا ہوں کہ وہ خاموش رہیں)
----------
(The Delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
----------
(Interruption)
Mr. Chairman: Only......
I call the House to order.
Only three question will be put. Then certain instructions about clarification will be asked. It won't take more than 10/15 minutes.
Yes, Mr. Attorney-General.
(جناب چیئرمین: میں ایوان میں سکوت کے لئے اِلتماس کرتا ہوں، صرف دو تین سوال پوچھے جائیں گے، وضاحت کرانے کے لئے جس کے لئے دس پندرہ منٹ سے زیادہ ہیں لگیں گے۔ جی۔ اٹارنی جنرل صاحب!)
ایک مولانا ظفر احمد انصاری پوچھیں گے اور ۔۔۔۔۔ Yes۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ایک سوال یہ ہے کہ ’’مینارۃالمسیح‘‘ جس پر روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا دمشق میں، آپ کے ہاں کی کتابوں میں ملتا ہے یہ کہ وہ مرزا صاحب نے وہ مینارہ بنوایا ہے۔ تو اس کے متعلق کیا پوزیشن ہے؟۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جی؟
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ۔۔۔۔۔۔۔۔ قادیان میں بنوایا ہے اور ان کو، قادیان کو دمشق بھی قرار دیا ہے۔ یہ کیا صورت ہے؟ آپ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جی، جی۔ دمشق ایک اینٹ گارے کا بنا ہوا شہر بھی ہے، اور دمشق کے ساتھ 1502کچھ مذہبی Associations (لگاؤ) بھی ہیں۔ تو جو حدیث میں آیا ہے کہ دمشق کے قریب اُترے گا آنے والا مسیح، بانیٔ سلسلہ نے ہمیں یہ کہا کہ یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دمشق جو اِینٹ گارے کا بنا ہوا ہے وہ ہو۔ بلکہ جو Associations (لگاؤ) اُمتِ مسلمہ کے دِماغ میں دمشق کے ساتھ ہیں وہ مراد ہے اور اس کے سمبل کے طور پر ظاہری وہ مینارہ ہے۔ مینارے کی اور کوئی وہ نہیں ہے حرمت۔ لیکن ایک علامت، ایک سمبل کے طور کے اُوپر اس کو کھڑا کیا ہے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: دمشق سے کیا مناسبت ہے قادیان کو؟ یہ کوئی واضح کیا؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، ایک یہ ہے… ویسے بہت سارے ہیں، اس وقت میرے ذہن میں پورے حاضر ہیں… لیکن ایک یہ کہ دمشق عیسائیت کا بھی مرکز رہا ہے اور یہ مفہوم لیا کہ چونکہ آنے والے مسیح نے عیسائیت کا مقابلہ کرنا تھا اس واسطے وہ اس کے شرقی جانب… ’’شرقی‘‘ بھی یہاں رُوحانی طور پر… یعنی جہاں اسلام کا نور جہاں سے اُٹھے گا۔
اور ایک دفعہ مجھ سے سوال کیا تھا کسی نے کہ بعثت کا مقصد کیا ہے؟ تو میں نے کہا کہ بانیٔ سلسلہ کی زبان میں تمہیں بتاتا ہوں، آپ نے فرمایا کہ:
’’میری بعثت کا مقصد ایک یہ ہے کہ اُس صلیب کو جس نے مسیح کی ہڈیوں کو توڑا اور جسم کو زخمی کیا، دلائلِ قاطعہ کے ساتھ توڑدُوں۔‘‘
تو وہ یہ نسبت ہے دمشق کی، عیسائیت کے مرکز کے قریب کی۔
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney-General.
(جناب چیئرمین: جی اٹارنی جنرل صاحب!)
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! میں آپ کی توجہ یہ ’’محضرنامہ‘‘ کے صفحہ:189 کی طرف دِلاتا ہوں۔ بعض ممبر صاحبان یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اس کی Relevance (مناسبت) کیا ہے۔ جو آپ کا باقی جواب ہے وہ تو ٹھیک ہے۔ یہاں آپ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: 189؟
1503جناب یحییٰ بختیار: 189۔
مرزا ناصر احمد: 189۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’ایک مختصر حضرت بانیٔ سلسلۂ احمدیہ کا پُردرد اِنتباہ‘‘
پھر وہ اُس میں یہ آتا ہے کہ:
’’اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو آخری وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد، تمہاری عورتیں، تمہارے جوان، تمہارے بوڑھے، تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کی بھی دُعائیں کریں، یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہوجائیں، تب بھی خدا ہرگز تمہاری دُعا نہیں سنے گا۔‘‘
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ کوئی دھمکی سمجھتے ہیں یا اپیل ہے یا کیا ہے؟ Relevance (مناسبت) کیا تھی؟
مرزا ناصر احمد: یہ دھمکی نہیں، یہ خواہش بھی نہیں، آپ سمجھ لیں خود کہ کیوں میں یہ لفظ استعمال کر رہا ہوں: ’’یہ دھمکی بھی نہیں، یہ خواہش بھی نہیں۔‘‘ یہ صرف ایک عاجزانہ اِلتماس یہ کی گئی ہے کہ تم اپنے اور میرے درمیان جو اِختلاف ہے اسے خداتعالیٰ پر چھوڑ دو اور میرا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جب تم چھوڑوگے تو میری دُعائیں قبول ہوں گی اور میں کامیاب ہوں گا اور تمہاری دُعائیں قبول نہیں ہوں گی اور جس مقصد، غلبہ اسلام کے لئے کھڑا کیا گیا ہے مجھے، وہ پورا ہوگا، اور اِسلام ساری دُنیا پر غالب آجائے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: بس، ٹھیک ہے۔ مجھ سے پوچھا گیا تھا تو میں نے کہا ہے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، ٹھیک ہے۔
Mr. Yahya Bakhtiar: اب, Sir, shall I ask one more question?
(جناب یحییٰ بختیار: جنابِ والا کیا میں ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟)
1504Mr. Chairman: Yes. (جناب چیئرمین: جی ہاں)
Mr. Yahya Bakhtiar: Mirza Sahib, several questions were asked in the course of these two weeks, and if you want to add anything in reply to any of the answers which you have given, you may kindly do so, because, I think, we have no more questions to ask. It is only fair......
(جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! گزشتہ دو ہفتوں کے دوران متعدد سوالات کئے گئے، آپ نے جو جوابات دئیے، اگر ان میں آپ کچھ اِضافہ کرنا چاہتے ہوں تو آپ اَزراہِ کرم کرلیں، ہمیں آپ سے مزید سوال نہیں کرنا)
مرزا ناصر احمد: ہاں، میں سمجھ گیا ہوں۔ بات یہ ہے کہ یہ میں، میں نے کوئی، وہ نہیں کر رہا شکایت، کوئی شکوہ یا گلہ نہیں، میں ویسے حقیقت بیان کرنے لگا ہوں کہ گیارہ دن مجھ پر جرح ہوئی ہے۔ دو دِن پہلے۔ گیارہ دن جرح کے ہیں اور جس کا مطلب یہ ہے کہ قریباً ساٹھ گھنٹے مجھ پر سوال پہلے بتاکے جرح کی گئی ہے اور جو میرے دِماغ کی کیفیت ہے یہ ہے: نہ دن کا مجھے پتا ہے نہ رات کا مجھے پتا ہے۔ میں نے اور بھی کام کرنے ہوتے ہیں۔ عبادت کرنی ہے، دُعائیں کرنی ہیں، سارے کام لگے ہوئے ہیں ساتھ۔ تو یہ کہ میرے دِماغ میں کوئی ایسے سوال حاضر ہیں کہ جن کے متعلق میرا دِماغ سمجھتا ہے کہ کوئی اور کہنا چاہئے، وہ تو ہے نہیں، حاضر ہی نہیں ہے۔ میں صرف ایک بات آپ کی اِجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر دِل کی گہرائیاں چیرکر میں آپ کو دِکھاسکوں تو وہاں میرے اور میری جماعت کے دِل میں اللہ تعالیٰ، جبکہ اسلام نے اسے پیش کیا ہے دُنیا کے سامنے، اور حضرت خاتم الانبیاء محمدﷺ کی محبت اور عشق کے سوا اور کچھ نہیں پائیں گے۔ شکریہ!
Mr. Yahya Bakhtiar: I have no more question.
(جناب یحییٰ بختیار: میں کوئی اور سوال نہیں کرنا چاہتا)
Mr. Chairman: That is all.
(جناب چیئرمین: بس یہی تھا)
Mr. Yahya Bakhtiar: I have no more questions to ask Sir. (جناب یحییٰ بختیار: جنابِ والا! میں کوئی اور سوال نہیں کرنا چاہتا)
Mr. Chairman: Any honourable member through the Attorney-General?
(جناب چیئرمین: کیا کوئی معزز ممبر کوئی سوال پوچھنا چاہتے ہیں؟)
1505جناب یحییٰ بختیار: آخر میں، میں مرزا صاحب سے کہوں گے کہ وہ بھی تھک گئے ہیں اور میری بھی ایسی حالت ہے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔ کہ آپ کو تو پھر ان کتابوں۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: And for the members also. For the members, I must ......
جناب یحییٰ بختیار: وہ تو آپ کے ہاؤس کی عزت ہے۔
Mr. Chairman: I must recognize the patience of all the parties, and, above all, the honourable members whom we have as Judges to examine all the aspects of this problem and they were looking, they were helpful.
Now, I have certain observations to make before I allow the Delegation to withdraw:-
No. (1). All the references which have been given or which have been quoted before the House and have not yet been supplied, may be supplied in a day or two or three.
And if there has been any question which has not been answered or any Hawalagaat (حوالہ جات) which can be sent to the Committee, which have remained oustanding, just remained unanswered by mistake or by omission, by the Attorney-General or by the Witness, that may be sent back.
The Delegation may be called any time, before this recommendation is concluded, for further clarification, if need be.
(جناب چیئرمین: میں تمام فریقین کے حوصلے کا معترف ہوں، خاص طور پر تمام معزز اراکین کا جو کہ بطور منصف مسئلے کا تمام جہتوں سے جائزہ لیتے رہے پیشتر اراکین کے، وفد کو واپس جانے کی اجازت دی جائے، میں مندرجہ ذیل معروضات کرنا چاہتا ہوں۔
(۱) تمام حوالہ جات جو پیش کئے گئے یا جن کا ذِکر کیا گیا ہے، ایک دو یا تین دنوں میں جمع کرادئیے جائیں، اور اگر کوئی ایسا سوال ہو جس کا جواب نہیں دیا گیا، اور یا کوئی ایسا ہی جواب طلب حوالہ ہو، وہ کمیٹی کو بھجوادئیے جائیں، اگر ضروری ہوا تو وضاحت کے لئے وفد کو سفارشات مرتب کرنے سے پیشتر دوبارہ ایوان کے رُوبرو طلب کیا جاسکتا ہے)
Mr. Yahya Bakhtiar: It would not happen.
(جناب یحییٰ بختیار: ایسی صورت حال پیش نہیں آئے گی)
1506Mr. Chairman: It will, it may.
The Delegation may be asked, through ....... writing or through other means, for further elucidation or further calrification of any point which comes during the course of the debate or argument in the Committee of the House.
(جناب چیئرمین: اس کا امکان ہوسکتا ہے، ایوان کی کمیٹی کے بحث کے دوران پیش آنے والے نکات کی وضاحت کے لئے وفد کو تحریری طور پر یا دُوسرے ذرائع سے کہا جائے گا)
مرزا ناصر احمد: شکریہ جی۔ جی؟
Mr. Yahya Bakhtiar: ...... report, in the course of argument.....
(جناب یحییٰ بختیار: دلائل کی بحث کی رپورٹ میں۔۔۔۔۔۔)
Mr. Chairman: In the course of arguments ......
(جناب چیئرمین: دلائل کی بحث میں۔۔۔۔۔۔)
Mr. Yahya Bakhtiar: ...... they need further clarification.....(جناب یحییٰ بختیار: اگر انہیں ضرورت ہوئی وضاحت کی)
Mr. Chairman: ...... they may be asked.
(جناب چیئرمین: وہ پوچھ سکتے ہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: ..... they write to you and ask for that.....
Mr. Chairman: ....... they can ask through a Commission or may be sent by a query or may be.
Next point whic I want to make also clear that threr shall be no disclosure of the proceedings of the Committee for any purpose or for any comments till we releas all the evidences which have been recorded. Till then, tere cannot be reporting of even the comments as to how the proceeding continued and what was the purpose, what was the object, what was the ...... In no manner can any comments be made by the ...... members of the ......
(جناب چیئرمین: بذریعہ کمیشن یا سوال نامہ دُوسری بات جو میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جب تک ہم خود شہادتیں رپورٹ جاری نہ کریں کسی بھی مقصد کے لئے کارروائی ظاہر نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کوئی تبصرہ ہوگا۔ اس وقت تک یہ تبصرہ بھی نہیں کیا جائے گا کہ کارروائی کس انداز میں ہوئی، اور یا کہ وفد کے اراکین کا رویہ کارروائی کے دوران کس قسم کا رہا)
جناب یحییٰ بختیار: کوئی Comments (تبصرے) اس پر۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، اِشاعت نہیں ہونی چاہئے اس کی۔
1507جناب چیئرمین: اِشاعت بھی اور Comments (تبصرے) بھی نہیں ہونے چاہئیں اس پر۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، اِشاعت میں Comments (تبصرے) وغیرہ۔ آپس میں تم ہم بات کرلیتے ہیں۔
جناب چیئرمین: آپس میں،
The Delegation can discuss among
Themselves any time, but not with others, because that would prejudice the results, And secrecy is to be strictly........
(وفد آپس میں بحث کرسکتا ہے، مگر اوروں سے نہیں، کیونکہ اس طرح نتائج اثرانداز ہوں گے، لہٰذا کارروائی کو بالکل خفیہ رکھا جائے)
مرزا ناصر احمد: ہاں، اپنی طرف سے تو بڑی احتیاط کر رہے ہیں، آئندہ بھی کریں گے، اِنشاء اللہ!
Mr. Chairman: Secrecy......
(جناب چیئرمین: خفیہ۔۔۔۔۔)
جناب یحییٰ بختیار: یہ سب پر پابندی ہے۔
Mr. Chairman: Secrecy is to be maintained till the last. And will these words, the Delegation is permitted to withdraw.
(جناب چیئرمین: آخر وقت تک انتہائی رازداری رکھی جائے گی، ان الفاظ کے ساتھ وفد کو جانے کی اجازت ہے)
مرزا ناصر احمد: میں سمجھتا ہوں کہ شاید میرا حق نہیں کہ میں کچھ کہوں۔ اگر نہیں، تب بھی میں ہر ایک کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بڑی مہربانیاں کرتے رہے ہیں آپ ہم سے۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ!
Mr. Chairman: Thank you very much.
(جناب چیئرمین: آپ کا بہت بہت شکریہ)
----------
(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلا گیا)
----------
Mr. Chairman: The Reporters are allowed to withdraw. No tape.
(جناب چیئرمین: رپورٹ کرنے والے حضرات بھی جاسکتے ہیں۔ ٹیپ نہ کریں)
1508And for day after tomorrow at 10 : 00.
(جناب چیئرمین: رپورٹ کرنے والے حضرات کل دس بجے تک کے لئے جاسکتے ہیں۔ ٹیپ نہ کریں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ)
Thank you very much.
----------
[The Special Committee of the whole House adjourned to meet at tne of the clock, in the morning, on Monday, the 26th August 1974.]
(پورے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی کا اِجلاس ملتوی ہوا، بروز سوموار ۲۶؍اگست ۱۹۷۴ء کو صبح دس بجے دوبارہ ہوگا)