اس آیت سے قادیانی یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب تک حضرت عیسیؑ اور حضرت مریمؑ زندہ تھے دونوں کھانا کھایا کرتے تھے ۔یہ آیت حضرت مسیحؑ کی وفات پر صریح نص ہے کیونکہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ اب وہ دونوں کھانا نہیں کھاتے ہاں کسی زمانہ میں کھایا کرتے تھے جیسا کہ کان اس پر دلالت کر رہا ہے جو حال کو چھوڑ کر گزشتہ زمانہ کی خبر دیتا ہے ۔
جواب:
حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام کے کھانا کھانے کا ذکر صرف اور صرف ان دونوں کی الوہیت کی نفی کے لئے کیا گیا ہے ۔
یہاں موت و حیات کی بحث ہی نہیں ہے (اس پر خاص غور کریں)
اور نہ یہ آیت اس لئےآئی تھی کہ یہ بتاتی پھرے کہ فلاں وقت تو دونوں کھانا کھاتے تھے مگر فلاں وقت انہوں نے کھانا چھوڑ دیا تھا ۔
اگر کھانا کھانے کی بات سے مقصود الوہیت کی نفی کرنا نہیں تھا تو کھانا کھانے کے ذکر کرنے میں ایسی کیا بات تھی ؟ کھانا تو سب کھایا ہی کرتے ہیں ۔ اگر حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ نے کھانا کھا لیا تو کون سا انوکھا کام کیا انہوں نے ۔
حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ کہاں کھانا کھایا کرتے تھے ؟
ظاہری بات ہے اس دنیا میں ۔ اب حضرت مریم تو بوجہ وفات اس دنیا سے چلی گئیں اور حضرت عیسی علیہ السلام بوجہ رفع السما، کے اس دنیا سے چلے گئے ۔
تو اگر ان دونوں کے کھانا نہ کھانے کی نفی ہے بھی تو وہ اس دنیا کے حوالے سے ہے ۔
حضرت عیسی کے اب کھانا نہ کھانے کا کوئی تذکرہ اس آیت میں نہیں
اور یاد رہے کہ یہ غلط ہے کہ کان ہمیشہ حال کو چھوڑ کر گزشتہ زمانہ کی خبر دیا کرتا ہے ۔ ورنہ کان اللہ علی کل شئی قدیر (فتح 21) کا کیا ترجمہ ہو گا؟
یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ دو افراد کا ایک مشترکہ فعل سے جدا ہونا مختلف اسباب سے ممکن ہے ۔ مثلاً زید اور عمر پچھلے سال لاہور رہتے تھے ۔ زید تعلیم چھوڑ کر گاوں چلا گیا اور عمر انگلینڈ چلا گیا۔ اب دیکھیں لاہور میں رہائش دونوں کا مشترک فعل ہے مگر اس سے جدا ہونے کے اسباب مختلف ہیں ۔
اور آپ اس پر بھی غور فرمائیں سورہ آل عمران 144 میں بالکل یہی الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی آئے ہیں اور اس آیت کے نزول کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے تو جب ماالمسیح ابن مریم والی آیت اتری تو حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی نزول آیت کے وقت زندہ ہونا چاہئے ۔
جواب:
حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام کے کھانا کھانے کا ذکر صرف اور صرف ان دونوں کی الوہیت کی نفی کے لئے کیا گیا ہے ۔
یہاں موت و حیات کی بحث ہی نہیں ہے (اس پر خاص غور کریں)
اور نہ یہ آیت اس لئےآئی تھی کہ یہ بتاتی پھرے کہ فلاں وقت تو دونوں کھانا کھاتے تھے مگر فلاں وقت انہوں نے کھانا چھوڑ دیا تھا ۔
اگر کھانا کھانے کی بات سے مقصود الوہیت کی نفی کرنا نہیں تھا تو کھانا کھانے کے ذکر کرنے میں ایسی کیا بات تھی ؟ کھانا تو سب کھایا ہی کرتے ہیں ۔ اگر حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ نے کھانا کھا لیا تو کون سا انوکھا کام کیا انہوں نے ۔
حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ کہاں کھانا کھایا کرتے تھے ؟
ظاہری بات ہے اس دنیا میں ۔ اب حضرت مریم تو بوجہ وفات اس دنیا سے چلی گئیں اور حضرت عیسی علیہ السلام بوجہ رفع السما، کے اس دنیا سے چلے گئے ۔
تو اگر ان دونوں کے کھانا نہ کھانے کی نفی ہے بھی تو وہ اس دنیا کے حوالے سے ہے ۔
حضرت عیسی کے اب کھانا نہ کھانے کا کوئی تذکرہ اس آیت میں نہیں
اور یاد رہے کہ یہ غلط ہے کہ کان ہمیشہ حال کو چھوڑ کر گزشتہ زمانہ کی خبر دیا کرتا ہے ۔ ورنہ کان اللہ علی کل شئی قدیر (فتح 21) کا کیا ترجمہ ہو گا؟
یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ دو افراد کا ایک مشترکہ فعل سے جدا ہونا مختلف اسباب سے ممکن ہے ۔ مثلاً زید اور عمر پچھلے سال لاہور رہتے تھے ۔ زید تعلیم چھوڑ کر گاوں چلا گیا اور عمر انگلینڈ چلا گیا۔ اب دیکھیں لاہور میں رہائش دونوں کا مشترک فعل ہے مگر اس سے جدا ہونے کے اسباب مختلف ہیں ۔
اور آپ اس پر بھی غور فرمائیں سورہ آل عمران 144 میں بالکل یہی الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی آئے ہیں اور اس آیت کے نزول کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے تو جب ماالمسیح ابن مریم والی آیت اتری تو حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی نزول آیت کے وقت زندہ ہونا چاہئے ۔